Sunday, May 17, 2015

May2015: TRANSLATION: Economy

Economy
اقتصادیات
خوش آئند ہے کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال سے متعلق اچھی خبروں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہیں۔ گذشتہ ہفتے رونما ہونے والی سب سے مثبت پیش رفت یہ تھی کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کی اقتصادی بہتری کی صورتحال کو مستحکم اور اطمینان بخش قرار دیا۔ عالمی اقتصادی ماہرین کی نظر میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی وفاقی کی اقتصادی اصلاحات کے دور رس اور بہتر نتائج برآمد ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ مالیاتی امور سے متعلق حکمت عملیوں پر نظر رکھنے والے اداروں کے درمیان جس ایک نکتے پر اتفاق رائے دیکھنے میں آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کو پہیے لگ گئے ہیں!

پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کی توصیف میں یہ اتفاق رائے بھی شامل ہے کہ انہوں نے بجٹ کا خسارہ جو کہ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے 8فیصد پر معلق تھا اُسے کم کرکے 5 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور اقتصادی امور کے ماہرین و تجزیہ کار ایک عرصے سے اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ وفاقی حکومت جہاں آمدنی کے وسائل و امکانات میں اضافہ کرے‘ وہیں اخراجات بھی کم کرے اور یہ دونوں اہم ضروریات بیک وقت کر دی گئیں ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر سے بڑھا کر 17 ارب ڈالر کر دیئے ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ حکومت کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے اور یہ کمی سالانہ اوسط کے تناسب سے پانچ فیصد بنتی ہے جو کہ ماضی میں 10فیصد رہی ہے۔ اقتصادی امور پر نظررکھنے والے حکومت کی کارکردگی کو متاثرکن اس وجہ سے بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ملک کی مجموعی شرح پیداوار 4.14 فیصد کر دی گئی ہے جو گذشتہ پانچ برس کے دوران سب سے بلند ترین اقتصادی شرح نمو ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ 27برس کے دوران وفاقی وزارت خزانہ نے حکومت پاکستان کی جانب سے ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے کل 12 معاہدے دستخط کئے۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اسحاق
ڈار واحد وزیرخزانہ ہیں جن کے دور میں ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدے پر ساتویں مرتبہ نظرثانی کی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کو دیئے جانے والے قرض اور حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کا تجزیہ کر رہا تھا تو حکومت نے ماضی کی طرح کسی شعبے کی کارکردگی کے بارے میں رعائت کا تقاضا نہیں کیا کیونکہ ہر شعبے میں حسب وعدہ پیش رفت حاصل کی گئی تھی۔

دنیا کے تین معروف مالیاتی اداروں میں شامل ’ سٹینڈرڈ اینڈ پوور فنانشیل سروسیز‘ نامی ادارے کے مطابق ’’پاکستان نے اقتصادی شعبے میں غیرمعمولی پیش رفت حاصل کی ہے اور پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے جبکہ اس پر واجب الادأ قرضہ جات کی ادائیگیاں بھی بروقت ہو رہی ہیں۔ ’سٹینڈرڈ اینڈ پوور‘ کی جانب سے پاکستان کو ’بی مائنس‘ کا درجہ دیا گیا ہے جو ’مستحکم اُور مثبت اِقتصادی اعشارئیوں‘ کی نشاندہی کرتا ہے لیکن صرف ایسا ہی نہیں کہ سب کچھ بہتر ہوگیا ہے اور اقتصادی شعبے میں بہتری کے لئے ہمیں اصلاحات کی ضرورت نہیں رہی!

حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مثال اُس مریض جیسی ہے جو بستر مرگ پر پڑا ہے اور علاج کرنے والوں نے اُسے مصنوعی تنفس کے نظام سے جوڑ کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہمیں اب بھی اپنی معیشت چلانے کے لئے غیرملکی قرضہ جات پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور ہمیں مزید قرضہ جات کی اب بھی ضرورت ہے۔ ہماری آمدن و اخراجات کا خسارہ اگرچہ کم ہوا ہے لیکن یہ خسارہ ہنوز موجود ہے‘ جسے بالکل ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے پیشنگوئی کی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی شرح نمو سال 2016ء کے دوران 4.7 فیصد ہو گی لیکن ہمیں آئندہ 10برس کے لئے 3 کروڑ 60 لاکھ (36ملین) نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور چھتیس ملین نئی ملازمتوں کے لئے اقتصادی شرح نمو کی کم سے کم حد 7.5 فیصد ہونی چاہئے۔

سات اعشاریہ پانچ فیصد کوئی ایسی شرح نمو کی حد نہیں جس کا حصول ناممکنات میں سے ہو بلکہ اگر وفاقی حکومت ادارہ جاتی ڈھانچوں میں اصلاحات لائے تو یہ بظاہر ناممکن ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اب تک ’ادارہ جاتی ڈھانچوں میں اصلاحات‘ کا عمل شروع ہی نہیں کیا جاسکا! ہمیں اُن شعبوں کی نشاندہی کرنا ہے جن میں ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ہمیں اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کے زیادہ حقیقت پسندانہ عملی اقدامات کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی کیونکہ اقتصادی بہتری و ترقی کی جس شاہراہ پر ہم نے ابھی چند قدم ہی کا سفر طے کیا‘ اُس پر آگے بڑھتے رہنے کا تقاضا یہ ہے کہ اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب کرنے والے محرکات سے اجتناب برتا جائے۔
 توانائی کے شعبے سے متعلق بھی ہمیں اچھی خبریں ملنی چاہیئں۔
ملک کا قرضہ کم ہوا ہے‘ اِس بارے میں بھی ہمیں اچھی خبریں ملنی چاہیئں۔
ہمارے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں‘ جنہیں تعلیم یافتہ اور ہنرمند بنا کر ان سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے اور افرادی قوت کے دانشمندانہ استعمال سے متعلق بھی ہمیں اچھی خبریں ملنی  چاہیئں۔
ہمارے صنعتی شعبے کی ترقی توجہ سے محروم ہے‘ اِس شعبے سے چونکہ برآمدات اور روزگار دونوں وابستہ ہیں‘ اِس لئے صنعتی پیداواری شعبے کے بارے میں بھی ہمیں اچھی خبریں ملنی چاہیئں اور ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ اقتصادی بہتری کے لئے حکومت اپنی ترجیحات کا تعین کرکے جو لائحہ عمل اختیار کرے‘ اِس بارے بھی کوئی اچھی خبر‘ کاش کہ مل جائے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ:شبیرحسین اِمام)

1 comment:

  1. Economy
    Dr Farrukh Saleem
    Sunday, May 17, 2015

    There’s more good news than bad. Over the past week, there’s been a rare consensus – the International Monetary Fund (IMF), Standard & Poor’s Financial Services and Moody’s Investors Service have all moved Pakistan’s economy from “stable to positive”.

    There’s a consensus that the PML-N has brought the budgetary deficit down from a high of 8 percent of GDP to under 5 percent of GDP. There’s a consensus that the PML-N has managed to jack up Pakistan’s foreign exchange reserves from $11 billion to over $17 billion. There’s a consensus that the rate of inflation during the PML-N tenure has come down from a high of 10 percent a year to under 5 percent a year. The fact also is that the rate of GDP growth, at 4.14 percent, is the highest in the past five years.

    For the record, over the past 27 years, our Ministry of Finance has signed 12 IMF programs. For the record, Ishaq Dar is the first minister of finance under whom we have managed to reach the stage of a 7th IMF Review. For the record, this time around, our Ministry of Finance did not seek a single waiver as all programme objectives had been met.

    Standard & Poor’s Financial Services, one of the Big Three credit rating agencies, has stated that “Pakistan has made significant progress in stabilizing its economic, fiscal and external performance.” As a consequence, Standard & Poor’s revised Pakistan’s long-term ‘B minus’ credit rating from ‘stable to positive’.

    Moody’s Investors Service, also one of the Big Three credit rating agencies (the third one is Fitch Ratings), has “revised the outlook on Pakistan’s foreign currency government bond rating to positive from stable.”

    “Baby, you sound good to me. Baby, you sound so good to me. ... like a melody. Baby, you sound good to me.”

    Stop right there. Not so fast. No time to rejoice. Pakistan’s economy has been in the Intensive Care Unit for at least the past five years. Our economy has been on imported ventilators assisting our economy to continue breathing. The heart of our economy has been on external pacemakers assisting it to continue pumping. And a whole web of intravenous drips, drains and suction pumps.

    This is what Standard & Poor’s and Moody’s are now saying: Pakistan’s economy, in the not too distant future, may be able to breathe on its own. The heart of our economy, in the not too distant future, may be able to pump on its own. And that the doctors, in the not too distant future, may begin to take off some of the intravenous drips. In essence, the outlook is positive.

    To be certain, the patient is still in the ICU – and is not expected to come out of the ICU and start running. Yes, the IMF is projecting real GDP growth of 4.7 percent for 2016. But we need to create at least 36 million jobs in the following 10 years – and for that we need an annual GDP growth of 7.5 percent.

    Red alert: Whatever we have done so far is not going to take us even close to 7.5 percent growth. What we need to do is structural reforms – and that process has not even begun. What we need to identify is growth drivers – and that process has not even begun.

    In the meanwhile, there’s plenty of bad news. Bad news out of the energy sector. Bad news on national debt. Bad news on human capital development. Bad news on industrial production growth. And bad news on government priorities.

    Who said: “For most folks, no news is good news; for the press, good news is not news”?

    ReplyDelete