Sunday, May 10, 2015

May2015: TRANSLATION Operation Failure

'Operation Failure'
اعتماد کا فقدان اُور ناکامیاں
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ ’’وہ سیاست سے عسکریت پسندی ختم کرنے کے لئے جس جنگی پیمانے پر مہمات کا آغاز کر بیٹھے ہیں اُنہیں انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘ وزیراعظم نواز شریف‘ شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور قائد تحریک الطاف حسین کا نکتۂ نظر سے پاک فوج ایک ایسی جنگ لڑ رہی ہے اُس کا مقصد فوج کے سیاست میں عمل دخل اُور اثرورسوخ بڑھانا ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان اِس ایک مقام پر ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اگر مسلح گروہوں کے خلاف فوجی مہم کا کوئی ضمنی مقصد تھا تو اس کے لئے وزیراعظم نواز شریف ضرب عضب یا قائد تحریک الطاف حسین کراچی آپریشن یا شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو کہ ملک کی سویلین قیادت کا حصہ ہیں کراچی و ملک کے دیگر حصوں میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے لئے جاری مبینہ لڑائی کے مخالف ہوتے۔

وزیراعظم نواز شریف‘ شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور قائدتحریک الطاف حسین خود کو پاکستان کے عوام کے اعتماد کا مظہر سمجھتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف پاک فوج کی سربراہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں پاکستان کو ہر قسم کے داخلی و خارجی خطروں کا مقابلہ کرنے ہے اور انہیں نظریاتی و زمینی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنا ہے۔

پاک فوج سمجھتی ہے کہ وہ سیاست کی آڑ میں ہونے والی عسکریت ختم کرے گی اور سیاست اور عسکریت پسندی کو الگ الگ کرے گی جبکہ سیاسی قائدین سمجھتے ہیں عسکری قیادت جو مہمات جاری رکھے ہوئے ہے اس کا مقصد اُن کا ذاتی مفاد ہے اور وہ یہ باور بھی رکھتے ہیں کہ فوج ایک مرتبہ پھر سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لئے تیاریاں کر رہی ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ سیاست دان فوج کے جرنیلوں پر اعتماد نہیں اور جواب میں وہ بھی ایسا ہی گمان رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اعتماد کے فقدان کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ بدعنوانی‘ احتساب کا نہ ہونا اور سیاست دانوں کی وجہ سے جھوٹے وعدے کرنے کی روایت۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے قریبی حلقے کے عزیزوں اور چند گنے چنے افسرشاہی کے اہلکاروں کے علاؤہ دیگر افراد پر بھروسہ نہیں کرتے۔ وزیراعظم کا مختلف شعبوں کے ماہرین اور پیشہ ور افراد کی رائے پر بھروسہ نہیں ہوتا جبکہ جن افراد کی رائے وہ توجہ سے سنتے ہیں اُن میں ارتقائی سوچ‘ حالات کی اصلاح کرنے کی اہلیت اور کسی شعبے کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے درکار مہارت جیسے خصوصیات نہیں ہوتیں۔

اعتماد کا براہ راست تعلق اقتصادی صورتحال سے ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں اعتماد کی سطح بلند ہوتی ہے وہاں کی اقتصادی ترقی بھی زیادہ ہوتی ہے اور سرمایہ کاری بھی کی جاتی ہے۔ جہاں اعتماد کا فقدان پایا جائے وہاں اقتصادی زبوں حالی دکھائی دے گی۔ اعتماد اقتصادی ترقی کا محرک ہوتا ہے جس کا انحصار قانون و انصاف اور عوام کے اعتماد پر بھی ہوتا ہے۔ یہی اعتماد ہوتا ہے جس کے کھو جانے کا خوف عدالت کی سزا یا قانون کی گرفت میں آنے سے زیادہ محسوس کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کریں لیکن اس سے کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے۔ اعتماد اور تعلیم و تحقیق کے شعبے میں کامیابیوں کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف‘ شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور قائد تحریک الطاف حسین سمجھتے ہیں کہ وہ ’’آپریشن جمہوریت‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ جمہوریت کی بقاء کی ضمانت ہے اُور اُن کا دم کرم ہی سے جمہوریت موجود یا توانا ہے اور ملک کے جمہوریت پسندوں کا انہیں مکمل اعتماد حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ’سیاست سے عسکریت کا خاتمہ کرنے کے لئے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔‘ اور وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اُنہیں پاکستان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے جو سیاسی جماعتوں کے جرائم و عسکریت پر مبنی سوچ کا شکار بنے ہوئی ہے۔

رواں برس جنوری میں پاک فوج کے فیصلہ سازوں نے سندھ کی سطح پر سیاست اور عسکریت پسندی کے درمیان تعلق ختم کرنے کے لئے ایک خصوصی بالادست صوبائی (ایپکس) کمیٹی تشکیل دی۔ اپریل میں پاک فوج کے سربراہ نے کراچی میں ’امن و امان کی صورتحال (لاء اینڈ آرڈر)‘ سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں کسی بھی سویلین کو نہیں بلایا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چار ماہ قائم رہنے والی خصوصی بالادست کمیٹی کی کارکردگی پر پاک فوج کے ادارے کو اطمینان نہیں تھا اور چار ماہ کی فوجی و سویلین اکٹھے نگرانی سے شروع ہونے والی کاروائی کی بساط چار ماہ بعد ہی لپیٹ دی گئی۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ’سیاست سے عسکریت پسندی کو الگ کرنے کے لئے کاروائی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی‘ جب تک اِس معاملے کے سبھی فریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہوگا۔ سندھ کی سطح پر سیاسی جماعتوں اور اُن کے عسکری دھڑوں کو علیحدہ کرنے کے لئے جاری کوششوں میں سیاسی قائدین اور پاک فوج کے فیصلہ سازوں (جرنیلوں) کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا اور صرف یہی ایک صورت ہے جو کسی بھی مہم کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

1 comment:

  1. ‘Operation Failure’
    Dr Farrukh Saleem
    Sunday, May 10, 2015
    COAS General Raheel Sharif claims that he is fighting to end militancy in politics. PM Nawaz Sharif, Co-Chairman Asif Ali Zardari and Quaid-e-Tehreek Altaf Hussain view General Raheel’s ‘fight’ as a turf war – a ‘dispute in which the GHQ is seeking to obtain increased political space and/or influence’.

    This indeed is Pakistan’s current civil-military predicament. A turf war is why PM Nawaz Sharif was resisting Operation Zarb-e-Azb. A turf war is why Quaid-e-Tehreek Altaf Hussain is resisting the ongoing V-Corps led operation in Karachi. And a turf war is why Co-Chairman Asif Ali Zardari is an integral part of the civilian leadership’s resistance to the GHQ’s manoeuvres (in Karachi and elsewhere).

    PM Nawaz Sharif, Co-Chairman Asif Ali Zardari and Quaid-e-Tehreek Altaf Hussain, by virtue of being leaders of elected political entities, consider themselves trustors of popular will. General Raheel Sharif, by virtue of being the commander of Pak Army, considers himself to be the trustee under obligation to protect Pakistan’s ‘ideological and physical frontiers’.

    To be certain, there is a severe trust deficit between the trustors and the trustee – the trustee claims to be fighting to ‘end militancy in politics’ while the trustors view it as ‘turf war’. PM Nawaz Sharif, Co-Chairman Asif Ali Zardari and Quaid-e-Tehreek Altaf Hussain, the trustors, feel that COAS General Raheel Sharif, the trustee, is out to capture political space that rightfully belongs to the trustors.

    We are a low-trust society; our politicians don’t trust our generals and vice versa. There are three major reasons behind this severe trust deficit in our society: endemic corruption, lack of accountability and false promises by the politicians. PM Nawaz Sharif does not trust anyone outside a narrow circle of relatives and a handful of bureaucrats. The PM’s lack of trust throws out professionals and sector experts – and what is left behind is mediocrity and incompetence.

    Trust is directly related to economic development – low trust societies have low levels of investment and high trust societies attract high levels of investment. Trust is an ‘economic lubricant’. Compliance with the law and public trust are also related – compliance with the law ‘depends more on public trust in the motives of the police and courts than on fear of punishment’. Trust and academic achievement are also related.

    PM Nawaz Sharif, Co-Chairman Asif Ali Zardari and Quaid-e-Tehreek Altaf Hussain consider themselves as trustors of ‘Operation Democracy’. COAS General Raheel Sharif considers himself as the trustee of ‘Operation End Militancy in Politics’.

    In January, the GHQ sponsored the formation of a civil-military Sindh Provincial Apex Committee to implement ‘Operation End Militancy in Politics’. On April 29, the COAS-chaired Karachi law and order meeting did not invite any civilian. Meaning: within four months the GHQ had to bury the Sindh Provincial Apex Committee because of the civil-military trust deficit. For the record, ‘Operation Sindh Provincial Apex Committee’ turned into ‘Operation Failure’ within four months of its inception.

    To be sure, General Raheel Sharif’s ‘Operation End Militancy in Politics’ will turn into ‘Operation Failure’ unless the trustors and the trustee work together. It is, therefore, extremely important for the success of ‘Operation End Militancy in Politics’ that this serious trust deficit between our politicians and our generals be identified – and then resolved.

    ReplyDelete