Monday, June 8, 2015

TRANSLATION: Provoking the Pakhtuns

Provoking the Pakthtuns
اِشتعال اَنگیز اَقدامات
پختونوں کو اُن کی پاکستان سے وفاداری کی ہمیشہ ہی سے سزا دی گئی ہے۔ حال ہی میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 22پختونوں کا قتل عام اِس سلسلے کی ایک کڑی اور بطور حوالہ اندوہناک واقعہ ہے۔

کراچی کے عازم سفر مسافروں کو بلوچ آبادی والے علاقوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے جہاں اُن پر مسلح حملے ہوتے ہیں۔ ایسے بدقسمت مسافروں کو پہلے شناخت کے عمل سے گزارہ جاتا ہے اور جب بطور پختون اُن کے قومی شناختی کارڈوں کے ذریعے شناخت ہو جاتی ہے تو اُنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق شناخت مکمل ہونے کے بعد پختونوں کو سزائے موت دیئے جانے کے اَنداز میں بیدردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ اس قسم کے بہیمانہ اقدام کا مقصد واضح طور پر یہی ہے کہ پختونوں اور بلوچ اقوام کے درمیان فاصلے پیدا کئے جائیں اور عسکریت پسندی سے متاثر بلوچستان کا صوبہ جو پہلے ہی امن و امان کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے لسانی طور پر تقسیم دکھائی دیتا ہے وہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے مشت وگریباں ہو جائیں۔ اِس قسم کی کوششیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں جو کامیاب نہیں ہوئیں کیونکہ بلوچستان میں رہنے والے پختون و بلوچ قبائل نسلوں سے ایک دوسرے کے پرامن ماحول میں اکھٹے رہ رہے ہیں۔ دونوں قبائل ایک دوسرے سے بہت سے مماثلتیں بھی رکھتے ہیں اور ان میں پایا جانے والا مثالی اتحادواتفاق بھی قابل ذکر ہے جبکہ اِس خلیج کو ختم کرنے کے لئے بلوچ و پختون قیادت کی کوششیں بھی سراہنے لائق ہیں‘ جنہوں نے کئی ایک نازک مواقعوں پر قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں دانشمندی کا ثبوت دیا۔تاہم جانی و مالی نقصانات سے براہ راست متاثر ہونے والوں سمیت جملہ پختون اِس صورتحال سے تشویش کا شکار ہیں اور شاید یہ صدمات کبھی فراموش بھی نہ کرسکیں جس کا محرک بلوچ قوم پرستوں یا علیحدگی پسندوں کی یہ خام خیالی ہے کہ اِس قسم کے بہیمانہ اقدامات سے وہ اپنے عزائم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات بلوچوں کا حق بنتی ہے کہ اُن کے جملہ وسائل پر اُن کا زیادہ اختیار ہونا چاہئے لیکن جس انداز میں اپنے جائز حق کے حصول کے لئے جدوجہد کی جا رہی ہے‘ اس سے منزل کی جانب مسافت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک قلیل تعداد میں گمراہ علیحدہ پسند گروہ اِس قتل عام میں ملوث ہو لیکن انہوں نے اپنے مقصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے ساتھ بلوچ عوام کے جائز حقوق کی جدوجہد کو بھی متاثر کیا ہے۔

عسکری گروہ ’یونائٹیڈ بلوچ آرمی‘ نے اپنے ترجمان مرید بلوچ کے ذریعے حال ہی میں ہوئے بائیس پختونوں کے بہیمانہ قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اِس گروہ کو پہلے ہی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے باعث کالعدم قرار دیا جاچکا ہے۔ ’یونائٹیڈ بلوچ آرمی‘ کے بقول یہ کاروائی پختونوں کا قتل مستونگ اور قلات میں سیکورٹی فورسیز کی کاروائیوں کا انتقام لینے کے لئے کی گئیں۔ اُن کا یہ مؤقف غیرمنطقی ہے کیونکہ 22 معصوم و بے گناہ اور پورے تنازعے سے لاتعلق پختونوں کو کس طرح بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف کی گئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائی کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ بہتر انتقام تو یہ ہوسکتا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند قانون نافذ کرنے والے اُن اداروں کا مقابلہ کریں جنہوں نے اُن کے ساتھیوں کے خلاف کاروائی کی تھی لیکن چونکہ وہ ایسا کرنے کا حوصلہ‘ سکت اور قوت نہیں رکھتے تھے اِس لئے ضلع مستونگ کے علاقے ’کھڈ کوچہ‘ میں انہوں نے معصوم افراد کو نشانہ بنایا۔

حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ بھارت کا خفیہ ادارہ ’را‘ مستونگ میں ہوئے سانحے یا اِس جیسے دیگر پرتشدد واقعات کے لئے ذمہ دار ہے‘ جس میں نہتے و معصوم افراد کو قتل کرکے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے طول وعرض میں بے چینی پھیلائی جاتی ہے اگرچہ یہ نتیجہ خیال درست بھی ہوسکتا ہے لیکن اِس سے متاثرہ خاندانوں کے زخموں کا مداواہ نہیں ہوسکتا کہ جن کے پیارے اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لئے گئے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی ایک سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اِس قسم کے پرتشدد واقعات ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ منصوبے کے خلاف ایک منظم و سوچی سمجھی سازش ہے لیکن پس پشت عناصر جو بھی ہوں سچ تو یہ ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق بلوچستان ہی سے تھا اور وہ پاکستان بھی تھے کیونکہ بھارت کا خفیہ ادارہ ’را‘ ہو یا دنیا کی کوئی دوسری خفیہ ایجنسی‘ اِس قسم کی واردات اُس وقت تک کی ہی نہیں جاسکتی جب تک اس میں مقامی افراد بطور آلۂ کار استعمال نہ ہوں۔ جن بائیس پختونوں کو قتل کیا گیا اُن کا تعلق بلوچستان کے علاقوں پشین‘ قلعہ عبداللہ اور چمن سے تھا۔ ان علاقوں میں پختون اکثریتی آبادی میں ہیں اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ یہ علاقے افغانستان کی سرحد سے متصل ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ پشین‘ قلعہ عبداللہ اور چمن میں رہنے والے پختونوں کی زیادہ تر تعداد محنت مزدوری کے لئے کراچی جاتی ہے جہاں ملک کے دیگر حصوں سے بھی آئے مزدور و محنت کش طبقے کے موافق ماحول نہیں۔ پختون چاہے اُن کا تعلق بلوچستان‘ خیبرپختونخوا سے ہو یا وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات سے‘ اُن کے بے روزگاروں کی اکثریت کراچی کا رخ کرتی ہے اور یہ سلسلہ قیام پاکستان یعنی 67 برس سے جاری ہے کہ محنت مزدوری کی تلاش میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ملک کے اس بڑے تجارتی شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ مقامی سطح پر نہ تو صنعتوں کا فروغ دیا گیا اُور نہ ہی آبادی کے تناسب سے ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے گئے‘ اِس کی وجہ سے بے روزگار افراد کے لئے سوائے معاشی ہجرت کوئی دوسری باقی نہیں رہی۔ اگر ہم کراچی کی بات کریں تو وہاں کے امن و امان کے حالات کی وجہ سے بھی پختون سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ ان کی اکثریت کا روزگار یومیہ دیہاڑی مزدوروں بشمول ٹرانسپورٹ‘ لکڑی‘ سبزی اور پھل فروشی کے شعبوں سے ہوتا ہے۔

بلوچستان میں بائیس پختونوں کے قتل کے خلاف پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن یہ مظاہرے صرف اُنہی علاقوں میں ہوئے جہاں پختون اکثریت میں آباد تھے جبکہ پاکستان کے دیگر حصوں میں اِس بارے میں احتجاج کی اطلاعات نہیں آئیں۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک مالک نے عوام بالخصوص بلوچ سیاستدانوں‘ دانشوروں اور نوجوان طبقے سے اپیل کی کہ وہ پختونوں کے قتل پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اِس کی مذمت کریں کیونکہ بقول اُن کے اِس سانحے پر خاموش رہنے سے ’’بلوچ عوام ہی کا نقصان ہوگا۔‘‘ لیکن اُن کی نصیحت پر کان نہیں دھرا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں بلوچوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے پختونوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج یا مذمت سنائی نہیں دی۔ اس سلسلے میں ایک کوئٹہ میں ہونے والی ’کل جماعتی کانفرنس‘ بھی قابل ذکر ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف اور چند وفاقی وزرأ شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی تقریباً سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں جنہوں نے قتل ہونے والے پختون خاندانوں سے اظہار ہمدردی و یک جہتی کیا اور اُن کے دکھ میں برابر کے شریک ہونے کا تذکرہ بھی کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے کا حصہ بنایا گیا۔
بائیس پختونوں کے قتل نے سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے اور سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے جس سے عسکریت پسندی اور لسانی تفرقوں کے خلاف اتحاد کا ایک پیغام بھی عام ہوا ہے اور اس تاثر کی بھی نفی ہوئی ہے کہ بلوچ و پختون قبائل کی اکثریت ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں رکھتی ہے لیکن سوال بدستور موجود ہے کہ آیا اِس بات کی کیا ضمانت ہے مستقبل میں ایسے سانحات پھر رونما نہیں ہوں گے۔ پختون صبر اور برداشت رکھنے والی فطرت کے مالک سمجھے جاتے ہیں لیکن اگر اِس قسم کا خدانخواستہ کوئی دوسرا سانحہ رونما ہوا‘ تو اس سے نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے اور وہ انتقام کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ پختون اِس معاملے کی نزاکت اور جملہ پہلوؤں سے جڑی نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے زیادہ دانشمندی‘ صبر‘ حوصلے اُور برداشت کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ یہ نازک مرحلہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لئے قربانی کے ذریعے اُس شاطر دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کا ہے‘ جو صرف صوبہ بلوچستان ہی میں فعال نہیں بلکہ ملک کے دیگر صوبوں بشمول وفاق کے زیرنگرانی قبائلی علاقہ جات میں بھی عسکریت پسندوں اُور دہشت گردی پھیلانے والوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

2 comments:

  1. Provoking the Pakhtuns
    Rahimullah Yusufzai

    The Pakhtuns are being punished for their loyalty to Pakistan. The recent massacre of 22 Pakhtuns by suspected Baloch separatists in Balochistan’s Mastung district is a case in point.

    They were ordinary people passing through a Baloch-populated territory on the way to Karachi when their buses were waylaid by the gunmen. The unfortunate passengers were separated from the others once the gunmen confirmed through their identity cards that they were Pakhtuns. According to eyewitnesses, they were brutally shot dead execution-style.

    The cowardly act was clearly an attempt to provoke the Pakhtuns against the Baloch and cause ethnic polarisation and confrontation in militancy-hit Balochistan. All such attempts haven’t worked in the past and are unlikely to succeed now or in the future because the Baloch and the Pakhtuns have co-existed and lived peacefully in this region for generations. They share so much and are generally tolerant toward each other. Moreover, the Baloch and Pakhtun leadership have wisely made efforts not to allow anyone to create a wedge between their people.

    However, the bereaved families and many other Pakhtuns would not be able to forget the suffering inflicted on them by those who wrongly believe that their cause of Baloch nationalism or independence can be served by this kind of brutality. In fact, this would alienate many more people and harm the true Baloch cause, which is to win genuine rights for the Baloch people and give them control over their vast natural resources. It is true that only a small number of misguided Baloch separatists may be behind these killings, but they have done irreparable damage to the larger cause of the Baloch people peacefully seeking their rights.

    The United Baloch Army, a militant group that is able to operate with impunity in Pakistan despite being outlawed due to the gradual weakening of the state, had claimed responsibility for the killings through its spokesman Murid Baloch. He termed it a “revenge for the killing of militants in Mastung and Kalat areas by the security forces.” His reasoning was strange. How could those 22 innocent Pakhtuns be held responsible for the killing of Baloch militants?

    A better form of revenge would be to confront those who allegedly killed the Baloch militants. Since they couldn’t do that, the killers found an easy way out by getting hold of unarmed bus passengers in the wilderness of the Khad Kocha area in Mastung district and shot them dead. It is difficult to believe that the Baloch, known for their chivalry and strong values, would resort to such an act against fellow Pakhtuns, who like the Baloch have many grievances against the state.

    The claim by government functionaries that the Indian intelligence agency, RAW, was behind the Mastung tragedy or other acts of terrorism in Balochistan and elsewhere in Pakistan may be true but it cannot reduce the pain of the families that lost their near and dear ones. A number of Balochistan politicians, including ministers, have also alleged that the incident was a conspiracy against the China-Pakistan Economic Corridor project. Whoever sponsored the killings, the fact remains that the attackers were Baloch and also Pakistanis and neither RAW nor any other hostile force could have done this without the involvement of citizens of Pakistan who are willing to do anything to harm the country and inflict pain on its people.

    ReplyDelete
  2. Those slain belonged to Pishin, Qilla Abdullah and Chaman, which are populated by Pakhtun tribes and are close to the border with Afghanistan. They were mostly labourers proceeding to Karachi to earn their livelihood. Karachi is a poor-friendly city and the destination for jobless people from all over Pakistan. The Pakhtuns, whether from Balochistan, Khyber Pakhtunkhwa or the Federally Administered Tribal Areas (Fata), have been heading to Karachi since Pakistan’s independence 67 years ago in search of jobs as their native areas lack industries and resources to enable them to earn a decent livelihood. Unrest and violence in Karachi affects them the most as they are mostly daily wage-earners or involved in the transport, timber, vegetables and fruit businesses.

    In the aftermath of the killings, protests were staged all over Balochistan, but mostly in the Pakhtun areas and apparently nowhere else in the rest of Pakistan. Chief Minister Dr Abdul Malik Malik had to publicly appeal to the Baloch politicians, intellectuals and the youth to condemn the incident because, in his words, remaining silent on the tragedy “would harm the Baloch people.” That was sane advice, but one has yet to see wide condemnation of the killing of Pakhtuns by the Baloch.

    An all-parties conference was also held in Quetta and attended by Prime Minister Nawaz Sharif and some of his ministers. Almost all the political parties active in Balochistan and representing the Baloch, Pakhtuns and others attended the conference and expressed solidarity with the families of the slain persons.

    The tragedy brought together political allies and rivals and sent a strong message that such incidents won’t succeed in pitting ethnic communities, particularly the Baloch and the Pakhtuns, against each other. However, the question remains whether such incidents will happen again. The Pakhtuns are known for their patience and tolerance, but another such tragedy could provoke the young men in their ranks to consider avenging their losses.

    One would hope the Pakhtuns will not be provoked whatever the costs because they have emerged as the saviours of Pakistan not only in Balochistan, but also in Khyber Pakhtunkhwa, Fata and Karachi due to their unmatched sacrifices in the fight against militancy and terrorism.

    ReplyDelete