Rangers v Zardari
قانون بمقابلہ سیاست!
قانون بمقابلہ سیاست!
صوبہ سندھ سمیت پاکستان میں امن و امان کی صورتحال معمول پر لانے کا
دارومدار بڑی حد تک ’کراچی کے امن‘ پر ہے جہاں سندھ رینجرز اُن عناصر کے
خلاف دائرہ تنگ کر رہی ہے‘ جنہوں نے دھانس‘ دھاندلی یا طاقت و اختیار کے
زور پر مالی و انتظامی بدعنوانیاں کیں۔ پندرہ جون کے روز ’سندھ بلڈنگ
کنٹرول اتھارٹی‘ کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا تو گویا یہ سندھ سے تعلق رکھنے
والے سیاستدانوں کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترداف ثابت ہوا جو اِس
کاروائی سے بلبلا اُٹھے! سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بلال
اکبر کی یہ کاروائی کسی بھی صورت فوج کے صدر دفتر (جی ایچ کیو) سے منظوری
حاصل کئے بناء ممکن ہی نہیں تھی اور اگر زیادہ وضاحت سے بات کی جائے تو
قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے نے گذشتہ 16برس میں اِس قسم کی کاروائی
نہیں کی تھی جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ ’جی ایچ کیو‘ نے
اپنی بندوقوں کا رُخ اُن افراد کی جانب کر رکھا ہے‘ جو بظاہر دودھ سے نہائے
ہوئے ہیں اور جن کو یہ زعم ہے کہ اگر وہ دامن نچوڑ دیں تو اُس پانی سے
فرشتے وضو کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھیں گے!
شرفاء‘ امرأ اُور اہل سیاست پر مشتمل حکمراں طبقے کی نہ صرف کارستانیاں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں بلکہ اُن کا شدید ردعمل بھی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا کالا ہے جسے وہ اظہر من الشمس نہیں دیکھنا چاہتے۔ ذہن نشین رہے کہ ’وائٹ کالر کرائم‘ کی اصطلاح 1939ء میں اخذ کی گئی تھی جو ایک سماجی کارکن ’سوشالوجسٹ ایڈون سوتھرلینڈ (Edwin Sutherland)‘ کا نتیجہ خیال تھا اور اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں کہ ’’جرم کا ارتکاب کرنے والا یا کرنے والے ایسے کردار جنہیں معاشرے میں کسی وجہ سے بلند مقام حاصل ہو۔‘‘ اسی اصطلاح کے زمرے میں وہ حکومتی اہلکار اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز شخصیات بھی آتی ہیں جو اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوتے ہیں اور ایسے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں جو اُن کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ’’گیم چینجر (کھیل کا پاسہ پلٹنے)‘‘ کی اصطلاح کسی ایسی کاروائی یا فعل کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جس کے بعد کوئی منظرنامہ اِس حد تک تبدیل ہو جائے کہ اس سے متعلقہ افراد کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عمومی تاثر تبدیل ہو بلکہ اُس ’گیم چینجر‘ فعل کے بعد ظاہری شہرت‘ روائتی تعارف‘ قول و فعل‘ اُور ’فکروعمل‘ تک میں تبدیلی آ جائے۔ پاکستان ایسے ہی فیصلہ کن مرحلے کے کنارے آ پہنچا ہے جسے ’گیم چینجر لمحہ‘ کہا جاسکتا ہے اور اِس کا حاصل یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کرنے والوں اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان نہ صرف تعلق توڑنے کا عزم کر رکھا ہے بلکہ وہ ان کے ایک ایک کرتوت بھی ظاہر کرنے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث پیپلزپارٹی کی قیادت و نمائندگی کرنے والے 59 سالہ (پیدائش 26جولائی 1955) ’شریک چیئرپرسن‘ نے سولہ جون کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک ادارے کے خلاف جس شدت سے ’اظہار ناراضگی‘ کیا اُس کا سبب یہی تھا کہ ’فوج کے ادارے نے ایسے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے مالی بدعنوانیاں کیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس کی اجازت دی تھی اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ اجازت بادلنخواستہ دی گئی تھی اور اب ’جی ایچ کیو‘ کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ جرائم و سیاست کے درمیان تعلق ہو یا ماضی کے سیاسی کرداروں کی جانب سے کی گئیں ’مالی بدعنوانیاں‘ سب کے خلاف کاروائی ہو گی۔‘ گذشتہ چند روز میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ 1: فوج کے صدر دفتر نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن کے خلاف دائرہ تنگ کیا ہے۔ 2: فوج کو وفاقی حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ وہ سندھ میں جاری ’آپریشن کلین اپ‘ کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔ 3: سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد قائم علی شاہ یہ بات علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ’’سندھ رینجرز کی کاروائیاں اُن کو دیئے گئے آئینی کردار’ دائرہ کار و اختیارات سے متجاوز ہیں۔‘‘ 4: سندھ رینجرز کا یہ مؤقف ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ سندھ کے حالات معمول پرلانے کے لئے قائم ہونے والی ایک اعلیٰ اختیاراتی ’اپیکس کمیٹی‘ کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش ہے۔ 5: پیپلزپارٹی کے رہنما اُور معروف قانون داں بیرسٹر اعتزاز احسن یہ بات ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’اپیکس کمیٹی‘ کی کوئی آئینی حیثیت یا حقیقت نہیں۔
پاک فوج ایک مؤثر اور عوام کی نظر میں اچھی ساکھ رکھنے والا ادارہ ہے جس کے مقابلے سیاستدانوں کے خلاف پورے ملک میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ اس طبقے نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ فوج کا کام ملک کی جغرافیائی‘ داخلی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے جس کے لئے اُنہیں اگر کوئی اضافی آئینی ذمہ داری نہ بھی دی جائے تو وہ ہر اُس کردار کے خلاف کاروائی کرسکتی ہے جو ملک کی سلامتی‘ استحکام اور اِس کے وسائل کے لئے خطرہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کے وسائل استعمال کرنے والے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’وائٹ کالر کرائمز کرنے والوں کے خلاف کاروائی صرف صوبہ سندھ ہی کی حد تک کیوں محدود ہے؟‘‘
سندھ رینجرز یہ کہہ سکتی ہے کہ اُس نے ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے دفتر پر چھاپہ اِس لئے مارا تاکہ وہ دہشت گردوں کو ملنے والے مالی وسائل کا کھوج لگا سکے۔ سندھ رینجرز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کے سامنے یہ بیان دیا گای ہے کہ ’فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب صدر سلطان قمر صدیقی نے بیان دیا ہے کہ اُس نے مالی بدعنوانی سے حاصل ہونے والی 70فیصد رقم بلاول ہاؤس کو دی تھی۔ معلوم ہوا کہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے ادارے کا تعلق دہشت گردی سے کم اُور 1 ارب روپے سالانہ کی مالی بدعنوانی سے متعلق ہے۔
کیا پاک فوج کا ادارہ بناء خصوصی آئینی اختیارات تفویض ہوئے ملک سے ایسی مالی وانتظامی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ کر سکے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج نے سندھ کو بدعنوانوں سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین چاہتے ہیں کہ جو ہے اور جیسا ہے بدستور جاری رہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوج کے ادارے کے پاس اِس قسم کا آئینی اختیار نہیں کہ سرکاری اداروں کے معاملات کی براہ راست چھان بین کرسکے۔ اسی لئے فوج کو نواز شریف حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ سندھ میں صفائی کا عمل مکمل کر سکے۔ فوج یہ بھی سمجھتی ہے کہ وقت نہایت اہم ہے اور اسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ جلد از جلد کرنا ہوگا جبکہ نواز شریف کے لئے اگر فوج کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا تو یہ عمل درخشاں مستقبل کے حصول سے دستبردار ہونے جیسا آخری موقع ہوگا۔
کیا ہم مصلحت و مفاہمت کے ذریعے حالات کو جوں کی توں والی ڈگر پر ڈال دیں گے؟ کیا سال 2015ء میں ایک نیا ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ تیار کیا جائے گا‘ جس میں سیاست دانوں کی ماضی میں ہوئی جملہ بدعنوانیوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ مصلحت ومصالحت کی تعریف سمجھنے کے لئے کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ جیسے ہمارے پاس ایک کیک (cake) ہو اور اُس کے اس طرح مساوی ٹکڑے کئے جائیں کہ اُس کا حصہ پانے والے ہر خواہشمند کو یہی لگے کہ اُس کے حصے میں سب سے بڑے سائز کا ٹکڑا آیا ہے اور اِس مثال میں ’کیک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
شرفاء‘ امرأ اُور اہل سیاست پر مشتمل حکمراں طبقے کی نہ صرف کارستانیاں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں بلکہ اُن کا شدید ردعمل بھی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا کالا ہے جسے وہ اظہر من الشمس نہیں دیکھنا چاہتے۔ ذہن نشین رہے کہ ’وائٹ کالر کرائم‘ کی اصطلاح 1939ء میں اخذ کی گئی تھی جو ایک سماجی کارکن ’سوشالوجسٹ ایڈون سوتھرلینڈ (Edwin Sutherland)‘ کا نتیجہ خیال تھا اور اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں کہ ’’جرم کا ارتکاب کرنے والا یا کرنے والے ایسے کردار جنہیں معاشرے میں کسی وجہ سے بلند مقام حاصل ہو۔‘‘ اسی اصطلاح کے زمرے میں وہ حکومتی اہلکار اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز شخصیات بھی آتی ہیں جو اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوتے ہیں اور ایسے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں جو اُن کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ’’گیم چینجر (کھیل کا پاسہ پلٹنے)‘‘ کی اصطلاح کسی ایسی کاروائی یا فعل کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جس کے بعد کوئی منظرنامہ اِس حد تک تبدیل ہو جائے کہ اس سے متعلقہ افراد کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عمومی تاثر تبدیل ہو بلکہ اُس ’گیم چینجر‘ فعل کے بعد ظاہری شہرت‘ روائتی تعارف‘ قول و فعل‘ اُور ’فکروعمل‘ تک میں تبدیلی آ جائے۔ پاکستان ایسے ہی فیصلہ کن مرحلے کے کنارے آ پہنچا ہے جسے ’گیم چینجر لمحہ‘ کہا جاسکتا ہے اور اِس کا حاصل یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کرنے والوں اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان نہ صرف تعلق توڑنے کا عزم کر رکھا ہے بلکہ وہ ان کے ایک ایک کرتوت بھی ظاہر کرنے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث پیپلزپارٹی کی قیادت و نمائندگی کرنے والے 59 سالہ (پیدائش 26جولائی 1955) ’شریک چیئرپرسن‘ نے سولہ جون کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک ادارے کے خلاف جس شدت سے ’اظہار ناراضگی‘ کیا اُس کا سبب یہی تھا کہ ’فوج کے ادارے نے ایسے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے مالی بدعنوانیاں کیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس کی اجازت دی تھی اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ اجازت بادلنخواستہ دی گئی تھی اور اب ’جی ایچ کیو‘ کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ جرائم و سیاست کے درمیان تعلق ہو یا ماضی کے سیاسی کرداروں کی جانب سے کی گئیں ’مالی بدعنوانیاں‘ سب کے خلاف کاروائی ہو گی۔‘ گذشتہ چند روز میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ 1: فوج کے صدر دفتر نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن کے خلاف دائرہ تنگ کیا ہے۔ 2: فوج کو وفاقی حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ وہ سندھ میں جاری ’آپریشن کلین اپ‘ کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔ 3: سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد قائم علی شاہ یہ بات علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ’’سندھ رینجرز کی کاروائیاں اُن کو دیئے گئے آئینی کردار’ دائرہ کار و اختیارات سے متجاوز ہیں۔‘‘ 4: سندھ رینجرز کا یہ مؤقف ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ سندھ کے حالات معمول پرلانے کے لئے قائم ہونے والی ایک اعلیٰ اختیاراتی ’اپیکس کمیٹی‘ کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش ہے۔ 5: پیپلزپارٹی کے رہنما اُور معروف قانون داں بیرسٹر اعتزاز احسن یہ بات ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’اپیکس کمیٹی‘ کی کوئی آئینی حیثیت یا حقیقت نہیں۔
پاک فوج ایک مؤثر اور عوام کی نظر میں اچھی ساکھ رکھنے والا ادارہ ہے جس کے مقابلے سیاستدانوں کے خلاف پورے ملک میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ اس طبقے نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ فوج کا کام ملک کی جغرافیائی‘ داخلی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے جس کے لئے اُنہیں اگر کوئی اضافی آئینی ذمہ داری نہ بھی دی جائے تو وہ ہر اُس کردار کے خلاف کاروائی کرسکتی ہے جو ملک کی سلامتی‘ استحکام اور اِس کے وسائل کے لئے خطرہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کے وسائل استعمال کرنے والے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’وائٹ کالر کرائمز کرنے والوں کے خلاف کاروائی صرف صوبہ سندھ ہی کی حد تک کیوں محدود ہے؟‘‘
سندھ رینجرز یہ کہہ سکتی ہے کہ اُس نے ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے دفتر پر چھاپہ اِس لئے مارا تاکہ وہ دہشت گردوں کو ملنے والے مالی وسائل کا کھوج لگا سکے۔ سندھ رینجرز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کے سامنے یہ بیان دیا گای ہے کہ ’فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب صدر سلطان قمر صدیقی نے بیان دیا ہے کہ اُس نے مالی بدعنوانی سے حاصل ہونے والی 70فیصد رقم بلاول ہاؤس کو دی تھی۔ معلوم ہوا کہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے ادارے کا تعلق دہشت گردی سے کم اُور 1 ارب روپے سالانہ کی مالی بدعنوانی سے متعلق ہے۔
کیا پاک فوج کا ادارہ بناء خصوصی آئینی اختیارات تفویض ہوئے ملک سے ایسی مالی وانتظامی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ کر سکے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج نے سندھ کو بدعنوانوں سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین چاہتے ہیں کہ جو ہے اور جیسا ہے بدستور جاری رہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوج کے ادارے کے پاس اِس قسم کا آئینی اختیار نہیں کہ سرکاری اداروں کے معاملات کی براہ راست چھان بین کرسکے۔ اسی لئے فوج کو نواز شریف حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ سندھ میں صفائی کا عمل مکمل کر سکے۔ فوج یہ بھی سمجھتی ہے کہ وقت نہایت اہم ہے اور اسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ جلد از جلد کرنا ہوگا جبکہ نواز شریف کے لئے اگر فوج کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا تو یہ عمل درخشاں مستقبل کے حصول سے دستبردار ہونے جیسا آخری موقع ہوگا۔
کیا ہم مصلحت و مفاہمت کے ذریعے حالات کو جوں کی توں والی ڈگر پر ڈال دیں گے؟ کیا سال 2015ء میں ایک نیا ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ تیار کیا جائے گا‘ جس میں سیاست دانوں کی ماضی میں ہوئی جملہ بدعنوانیوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ مصلحت ومصالحت کی تعریف سمجھنے کے لئے کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ جیسے ہمارے پاس ایک کیک (cake) ہو اور اُس کے اس طرح مساوی ٹکڑے کئے جائیں کہ اُس کا حصہ پانے والے ہر خواہشمند کو یہی لگے کہ اُس کے حصے میں سب سے بڑے سائز کا ٹکڑا آیا ہے اور اِس مثال میں ’کیک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
Rangers v Zardari
ReplyDeleteDr Farrukh Saleem
Sunday, June 21, 2015
June 15th’s raid on the Sindh Building Control Authority (SBCA) was a game-changer. To be certain, Major-General Bilal Akbar’s action could not have taken place without the GHQ’s specific approval. For the record, Major-General Bilal Akbar’s action was the first such action in the past 16 years whereby the GHQ turned its guns towards white collar crime.
White collar crime was first defined in 1939 as “a crime committed by a person of respectability and high social status” (sociologist Edwin Sutherland). White collar crime is “financially motivated nonviolent crime committed by government or business professionals.” And a game-changer is “an event, idea or procedure that affects a significant shift in the current way of doing or thinking about something.”
Asif Ali Zardari’s June 16 outburst was in bad taste but the substance revolved around just one theme: the institution of the military is expanding its reach into financially motivated nonviolent white collar crime. PM Nawaz Sharif, given the choice, will not –and cannot afford to –support the GHQ’s ‘infringement’ into civilian systemic financial corruption.
PM Nawaz Sharif’s relations with Asif Ali Zardari will now be under the GHQ’s microscope and those relations will now determine the GHQ’s relations with the PM. The original three choices with the PM were: to side with the GHQ; to side with the PPP or simply delay the decision.
The PM is now in a state of a serious dilemma –side with the PPP or side with the GHQ –“two possibilities, neither of which is practically acceptable” (Zardari’s June 16 outburst is forcing the PM to decide sooner rather than later). Siding with the army and imposing ‘Governor’s Rule’ could mean the PPP resigning from the Senate and the National Assembly (thus threatening the federal government). Siding with Zardari could mean an ‘end of a road from which no exit is possible’.
Here’s what’s on. One: the GHQ has turned its guns towards Asif Ali Zardari. Two: the GHQ desires Nawaz Sharif’s ‘helping hand’ in the GHQ’s Operation Clean-up Sindh. Three: Syed Qaim Ali Shah has put it on record that the Rangers are “acting beyond their authority and mandate as assigned to them under law”. Four: The Rangers claim that they derive their authority and mandate from the decisions of the Apex Committee. Five: Barrister Aitzaz Ahsan has gone on record that the apex committee is not a legal reality.
ReplyDeleteThe GHQ, in order to remain credible and affective, would have to act above the political as well as the geographical divide. The social media is already asking: “if financially motivated nonviolent white collar crime was restricted to Sindh?”
The Sindh Rangers may want to claim that they went into SBCA looking for terrorist links but it was the Sindh Rangers who briefed the anti-terrorism court that Sultan Qamar Siddiqui, the VP Fishermen’s Cooperative Society, allegedly gave “70 percent share of the corruption money to Bilawal House”. SBCA, in essence, has little to do with terrorism; it’s more about a hundred billion a year.
Can the GHQ do a complete clean-up without a legal mandate to do the clean-up? In Sindh, the gap between de facto (read: what the Rangers are doing) and de jure (read: Rangers’ legal mandate) is widening. Over the medium to long term, for the GHQ to achieve its mission goals the ever-widening gap between de facto and de jure realities would have to be bridged.
In a nutshell: the GHQ wants to clean-up Sindh. Asif Ali Zardari and Altaf Hussain want to maintain the status quo. The GHQ does not have the legal mandate to clean-up Sindh. The GHQ wants to use Nawaz Sharif’s mandate to clean-up Sindh. For the GHQ, time is of the essence. For Nawaz Sharif, postponing the decision to an ever-postponing future is the best policy.
How about a grand compromise – an “agreement or settlement of the dispute reached by each side making concessions”? How about an NRO 2015?
A compromise, I have been told, is the “art of dividing a cake in such a way that everyone believes he has the biggest piece.” After all, the cake here is the Islamic Republic of Pakistan.