Sunday, July 5, 2015

TRANSLATION: Chessboard

Chessboard
سیاسی شطرنج
وزیراعظم نواز شریف جانتے ہیں کہ وہ سیاسی شطرنج کا کھیل دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اِس سیاسی شطرنج کی بساط کے مہروں میں سیاسی حکومت کے مدمقابل فوج کا ادارہ بھی ہے جبکہ سیاسی حکمرانوں کے سامنے ’میثاق جمہوریت‘ کے اہداف بھی ہیں۔ یہ وہی سیاسی معاہدہ ہے جس کی رو سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اس بات پر متفق ہوئے کہ وہ اپنے قول و فعل سے ایسی کوئی غلطی سرزد نہیں کریں گے جس سے فوج کے ادارے کو حکومت میں آنے کا موقع یا بہانہ مل جائے اور جمہوریت کا پانسہ پلٹ جائے۔

جون کی 23 تاریخ کو وزیراعظم نے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی۔ 24جون کو سابق صدر زرداری کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی اور وہ متحدہ عرب امارات میں اپنے پرآسائش محل نشین ہوگئے۔ یہ وہی وقت ہے جبکہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ’ایف آئی اے‘ کے اختیارات میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد وہ کسی بھی صوبے میں سماج دشمنوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کر سکیں گے۔ ان اختیارات کے ملنے کو سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ اُس کی صوبائی خودمختاری پر ایک وار ہے۔

سندھ رینجرز کے ڈائریکتر جنرل میجر جنرل بلال اکبر نے تین ہزار پانچ سو کلومیٹر پر پھیلے اُس شہر کا تقریباً کنٹرول سنبھال لیا ہے جسے ہم کراچی کے نام سے جانتے ہیں لیکن پاک فوج کا ادارہ اِس کنٹرول کو ریاستی قوانین کے تابع سیاسی حکمرانوں کے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ’ایف آئی اے‘ اور ’نیب‘ جیسے اداروں کو اپنی موجودگی کا ثبوت دینا ہے تاکہ کراچی کو منظم جرائم پیشہ عناصر کے چنگل سے ہمیشہ کے لئے نجات دلائی جا سکے۔

ملک کی سیاسی شطرنج کی بساط پر ہونے والا کھیل سب کے سامنے ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی دانست کے مطابق چال چل رہا ہے۔ سندھ کی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو کہ سونے کی کان جیسی ہے کے مرکزی دفاتر پر 15جون کے روز سندھ رینجرز نے چھاپہ مارا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے (سندھ رینجرز) کی جانب سے اقتصادی بدعنوانوں کے خلاف یہ اپنی نوعیت کی منفرد کاروائی تھی جس سے یہ ثابت ہوا کہ رینجرز نے دیگر جرائم کے ساتھ اُس اقتصادی شہ رگ پر بھی ہاتھ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ تقویت حاصل کرتے ہیں۔

سولہ جون کا دن خاموشی سے گزرا۔ 17جون کو وزیراعلیٰ سندھ نے ڈائریکٹر جنرل رینجرز کو ایک خط لکھا جس میں سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارنے کو اپنے اختیارت سے تجاوز قرار دیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے اس بات کو ضروری نہیں سمجھا کہ وہ وزیراعلیٰ کی طرف سے بھیجے گئے خط کا جواب دیں۔

یہ دن پیپلزپارٹی کے لئے اچھے نہیں۔ وفاقی حکومت نے کراچی الیکٹرک کے ادارے پر بھی ہاتھ ڈالا جس کا اجازت نامہ زرداری نے ابراز کو دیا تھا۔ 30جون کو ’ائر انڈس‘ نامی جہاز راں ادارے کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا اور یہ حکم ائرمارشل (ریٹائرڈ) محمد یوسف کی طرف سے آیا لیکن اگلے ہی ائرمارشل کو عہدے سے الگ کر دیا گیا۔ کیا سندھ حکومت کی جانب سے ماضی میں کئے گئے بہت سے دیگر معاہدے بھی خطرے میں ہیں؟

پاک فوج کے ادارے نے بہت بڑا محاذ کھول لیا ہے۔ زرداری ملک سے باہر چلے گئے ہیں جس سے دو طبقات کو غلط پیغام جا رہا ہے۔ ایک تو سیاسی حکومت اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی اور دوسرا فوج کا ادارہ جانتا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ وقت نہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نہ صرف کمزور ہے بلکہ منظرنامے سے غائب بھی ہے۔ زرداری نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ سب کچھ کر دیا ہے جو فوج کا ادارہ باوجود کوشش بھی تین دہائیوں میں نہیں کرسکا۔ راولپنڈی اور ملتان کے درمیان رہنے والے ووٹر جو کہ ایک سو قومی اسمبلی کی نشستوں میں پھیلے ہوئے ہیں پیپلزپارٹی سے متاثر نہیں۔ اُن کے لئے پیپلزپارٹی کا ماضی‘ اس کے قائدین کی شہادت و قربانیاں اور جیل میں بسر کیا ہوا وقت کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ ملتان اور رحیم یار خان کے درمیان قومی اسمبلی کی چار درجن نشستیں ہیں اور یہ خطہ ایک وقت میں پیپلزپارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا لیکن یہاں بھی پیپلزپارٹی سے دلی ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے لئے اگر کوئی علاقہ ایسا ہے کہ جہاں وہ اپنی جماعت کے لئے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں تو وہ سکھر اور ٹھٹھہ کے درمیان کا خطہ ہے جہاں قومی اسمبلی کی تین درجن نشستیں ہیں اور ان علاقوں کی خاص شناخت یہ ہے کہ آپ کو یہاں انتہائی زیادہ غربت اور انتہائی کم شرح خواندگی نظر آئے گی۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی نواز لیگ کے مقابلے ملک میں مقبولیت کی کم ترین سطح کو چھو رہی ہے۔

دریں اثناء حکومت پاکستان نے 19 مزید افراد کے ڈوب کر مر جانے کا تماشا کیا ہے یہ حادثہ جو کہ ریلوے کے ادارے کی مجرمانہ غفلت اور سو سالہ پرانے ریلوے کے ڈھانچے (انفراسٹکچر) سے استفادہ کی وجہ سے پیش آیا کوئی انوکھا نہیں۔ ہر سال ایسے ہی محرکات کی وجہ سے پیش آنے والے ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ سالانہ پانچ ہزار افراد ہی دہشت گردی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ دو ہزار ہرسال سیلاب و قدرتی آات جبکہ پندرہ سو سالانہ گرمی کی لہر اور ایک ہزار فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کے سبب مرجاتے ہیں۔ یہ سبھی وہ ہلاکتیں ہیں جو فطری نہیں اور اگر حکومت اپنا کردار ادا کرے تو اِن اموات کو باآسانی روکا جا سکتا ہے۔

مالی سال 2015-16ء کے بجٹ میں 326 ارب روپے سیاسی حکومت (سول گورنمنٹ) چلانے کے لئے مختص کئے گئے لیکن حکومت اس قدر مالی وسائل عوام کی حادثات و دیگر غیرفطری محرکات میں اموات کے لئے مختص نہیں کر رہی اور اپنے ہی عوام کو ہر روز مرتے ہوئے دیکھ رہی ہے اور اس کے لئے قدرت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ اگر حکومت پاکستان کے اعمال کے لئے قدرت ہی ذمہ دار ہے اور سب کچھ قدرت ہی کی مبینہ بے رحمی کے سبب وقوع پذیر ہو رہا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا تو پھر ایک سیاسی حکومت کے انتظامی اخراجات پر 326 ارب روپے خرچ کرنے کی ضرورت یا منطق ہی کیا ہے؟ کسی دانا کا قول ہے کہ ’’میں مزاحیہ باتیں (لطیفے) نہیں لکھتا بلکہ میں تو صرف حکومتی اقدامات پر نظر رکھتا ہوں اور اُن سے متعلق حقائق عوام کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ شبیر حسین امام )

2 comments:

  1. Chessboard
    Dr Farrukh Saleem
    Sunday, July 05, 2015

    PM Nawaz Sharif knows his chess better than the rest. The three-dimensional chessboard that our politics has now become, PM Sharif makes one move that titillates the Pindi boys and the other that rescues the Charter of Democracy from the clutches of the boots.

    That is textbook ‘delay-and-derail’ strategy being played out almost to perfection (the Charter of Democracy reads: “No party shall solicit the support of military to come into power or to dislodge a democratic government”).

    On June 23, the PM met the COAS. On June 24, ex-president Zardari was allowed to cool his heels in the safe confines of his palace in Emirates Hills. Almost in concert, the FIA, under Chaudhry Nisar Ali Khan, gets additional powers amounting to an ‘attack on Sindh’s provincial autonomy’.

    Major-General Bilal Akbar, DG Pakistan Rangers (Sindh), has managed de facto (meaning: as a matter of fact) control over most of the three thousand five hundred kilometres of terrain we call Karachi. But, the GHQ lacks de jure control (meaning: under the law of the land). That is where FIA and NAB would come in handy.

    Most of the moves and counter-moves are out in the open for all to see. The Sindh Building Control Authority (SBCA), the generator of hard cash, was raided by the Rangers on June 15 (a major role expansion for the Rangers into the domain of financial corruption).

    ReplyDelete
  2. On June 16, the generally calm Zardari panicked. On June 17, the fossilised CM wrote a letter to Major-General Bilal Akbar that the raid on the SBCA amounted to ‘exceeding authority’ (the DG has opted not to reply).

    Some of the moves and counter-moves need some imagination to decipher. K-Electric, which was handed over to Abraaj by Zardari, has come under attack by the federal government. On June 30, Air Indus was grounded by Air Marshal (r) Muhammad Yousaf. Lo and behold, the air marshal was grounded the following day. Or is it that too many contracts are at stake?

    The GHQ may have bitten off more than it can chew. Zardari cooling off his heels in Emirates Hills sends out a wrong message to two constituencies: the rank-and-file and the public at large. For the GHQ, time is of the essence.

    The PPP is down as well as out. Zardari has done to the PPP what the boots could not over the past three decades. Voters between Rawalpindi and Multan, with a hundred National Assembly seats, are not buying what the PPP is selling – martyrdoms and jail terms. Voters between Multan and Rahim Yar Khan, with four-dozen National Assembly seats, once a PPP stronghold, are also not buying what the PPP is selling.

    The only region where Bilawal may have impact is the voters between Sukkur and Thatta (that region has some three-dozen National Assembly seats; low literacy and high poverty). To be certain, the PPP being down and out is not a good omen for the PML-N.

    The Government of Pakistan, in the meanwhile, let 19 more of its citizens die from a hundred year old, grossly under-maintained, criminally neglected railway infrastructure. The Government of Pakistan is letting 5,000 of its own citizens die every year from traffic accidents; 5,000 more die from terrorism every year; 2,000 more die every other year from floods; 1,500 died in the heatwave and a thousand more from factory fires every year. None of this has anything to do with nature. These are all preventable deaths.

    Budget 2015-16 allocated a colossal Rs326 billion for the “running of the civil government”. But, the government is letting its citizens die, blaming the deaths as nature’s will. If the affairs of the Government of Pakistan are to be run by nature then might as well save the Rs326,000,000,000.

    Someone intelligent once said, “I don’t make jokes. I just watch the government and report the facts”.

    ReplyDelete