Sunday, October 4, 2015

Oct2015: TRANSLATION: Rs8,500,000,000,000

Rs8,500,000,000,000
ساڑھے آٹھ کھرب روپے!
پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں خردبرد کئے جانے والے سرکاری مالی وسائل کا حجم ساڑھے آٹھ کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ اندازہ کم سے کم مالی بدعنوانی جاننے کے لئے ایک عالمی فارمولے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس فارمولے کے خالق ڈاکٹر رابرٹ کلٹگارڈ (Dr. Robert Klitgaad) ہیں جس کے مطابق اختیارات کے عوض برسرحکومت سیاسی شخصیات فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر رابرٹ دنیا بھر میں مالی بدعنوانیوں کی کھوج لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اُن کے وضع کردہ طریقۂ کار سائنسی اعتبار سے مستند تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی منتخب عوامی نمائندے یا چنیدہ افراد کو فیصلہ سازی یا حکومت کا منصب دیا جاتا ہے اور اُنہیں صوابدیدی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ بدعنوانی کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ جہاں کہیں احتساب کا ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے ذریعے احتساب کا عمل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا جائے وہاں مالی بدعنوانیاں کرنے والے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقتور اور حکومتی معاملات پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالمی درجہ بندی میں امریکہ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اُور پاکستان کا شمار کیا گیا ہے جہاں اختیارات کے ذریعے سیاسی و غیرسیاسی حکمران اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ اور ذاتی مالی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی اکثریت غریب جبکہ گنتی کے چند خاندان امیر ہو جاتے ہیں!

پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان میں کل 100کھرب روپے کے مساوی پیداوار ہوئی اور اگر اِس کا صرف 8.5 فیصد ہی کے حصے میں خردبرد کی گئی تو یہ کم سے کم اور محتاط اندازے کے مطابق 8.5کھرب روپے کی بدعنوانی بنتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے آٹھ کھرب سے زیادہ کی مالی بدعنوانی کیسے کی ہو گی لیکن پانچ برس کا عرصہ اور کم سے کم ساڑھے آٹھ فیصد کے تناسب سے اوسط بدعنوانی کی گئی ہے۔ اِس ساڑھے آٹھ کھرب روپے سے زائد کی مالی بدعنوانی کو مزید آسان بنا کر بھی سمجھایا جاسکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی مردوعورت‘ بوڑھے و جوان اور بچے سے 50 ہزار روپے چھینے گئے۔ اعدادوشمار کو مزید آسان کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی خاندان سے 3لاکھ 50 ہزار روپے جیسی خطیر رقم لوٹی گئی ہے!

پاکستان میں نہ تو انسداد بدعنوانی اور احتساب کے قوانین و قواعد کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے مخصوص ادارے ہی تعداد میں کم ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ادارہ موجود ہے لیکن اگر آپ اِن اداروں کی سالانہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہوگی کہ انہوں نے نہایت ہی کم شرح سے مالی بدعنوانوں کو انجام تک پہنچایا ہے اور لوٹا ہوا سرکاری مال واپس خزانے میں جمع کرایا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی ممالک کی کئی ایک ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے احتساب و انسداد بدعنوانی کے سخت قوانین بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے نتائج اُن کی ترقی کی صورت پوری دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور اُن معاشروں میں ہونے والی علمی و فکری ترقی سے فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔

سال 2014ء کے دوران پاکستان کے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو مالی بدعنوانیوں کی 18 ہزار 818 شکایات موصول ہوئیں جن کی جانچ کے بعد 887 درخواستوں پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور سال 2014ء میں نیب نے بدعنوانوں کے خلاف 819 مقدمات درج کرائے جن میں سے صرف 44 مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف بدعنوانی کا جرم ثابت کیا جاسکا! اگر ہم سنگاپور کی مثال لیں تو وہاں کا ’نیب‘ ہر سال موصول ہونے والی شکایات پر کاروائی کرتا ہے اور 95فیصد کی شرح سے ملوث ملزمان کو سزائیں ہوتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں یہی شرح 85فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 80فیصد جبکہ بھارت کی ایک ریاست مہاراشٹر میں نیب حکام نے مالی بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں سالانہ 30فیصد کے تناسب سے کامیابی حاصل کی ہے!

میرے یہ الفاظ یاد رکھئے گا کہ ہمارے ہاں انسداد بدعنوانی اور قومی احتساب بیورو سمیت جملہ انتظامی ڈھانچہ ’بدعنوان عناصر‘ کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اُنہیں تحفظ دینے کے لئے تشکیل و مرتب کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر عاصم حسین سے بھی کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہیں!

سال 2008ء میں جب آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار شروع ہوا تو اُس وقت حکومت کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ 2013ء میں جب اُن کا دور حکومت ختم ہوا تو حکومت کا قرض 8 کھرب روپے یعنی اس میں 2 کھرب روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ مالی نظم و ضبط اور احتساب و انسداد بدعنوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں قرض لیکر پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے کو کھڑا رکھنا پڑتا ہے۔ اگر مالی نظم و ضبط نافذ ہو جائے‘ مالی بدعنوانی کے امکانات تک باقی نہ ہوں اور بدعنوانوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے ہی وسائل کو ترقی کے ذریعے اقتصادی طور پر مستحکم ہوتا چلا جائے اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں سال بہ سال اضافے کی بجائے کمی ہوتی چلی جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)Rs8,500,000,000,000
ساڑھے آٹھ کھرب روپے!

پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں خردبرد کئے جانے والے سرکاری مالی وسائل کا حجم ساڑھے آٹھ کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ اندازہ کم سے کم مالی بدعنوانی جاننے کے لئے ایک عالمی فارمولے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس فارمولے کے خالق ڈاکٹر رابرٹ کلٹگارڈ (Dr. Robert Klitgaad) ہیں جس کے مطابق اختیارات کے عوض برسرحکومت سیاسی شخصیات فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر رابرٹ دنیا بھر میں مالی بدعنوانیوں کی کھوج لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اُن کے وضع کردہ طریقۂ کار سائنسی اعتبار سے مستند تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی منتخب عوامی نمائندے یا چنیدہ افراد کو فیصلہ سازی یا حکومت کا منصب دیا جاتا ہے اور اُنہیں صوابدیدی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ بدعنوانی کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ جہاں کہیں احتساب کا ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے ذریعے احتساب کا عمل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا جائے وہاں مالی بدعنوانیاں کرنے والے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقتور اور حکومتی معاملات پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالمی درجہ بندی میں امریکہ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اُور پاکستان کا شمار کیا گیا ہے جہاں اختیارات کے ذریعے سیاسی و غیرسیاسی حکمران اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ اور ذاتی مالی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی اکثریت غریب جبکہ گنتی کے چند خاندان امیر ہو جاتے ہیں!

پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان میں کل 100کھرب روپے کے مساوی پیداوار ہوئی اور اگر اِس کا صرف 8.5 فیصد ہی کے حصے میں خردبرد کی گئی تو یہ کم سے کم اور محتاط اندازے کے مطابق 8.5کھرب روپے کی بدعنوانی بنتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے آٹھ کھرب سے زیادہ کی مالی بدعنوانی کیسے کی ہو گی لیکن پانچ برس کا عرصہ اور کم سے کم ساڑھے آٹھ فیصد کے تناسب سے اوسط بدعنوانی کی گئی ہے۔ اِس ساڑھے آٹھ کھرب روپے سے زائد کی مالی بدعنوانی کو مزید آسان بنا کر بھی سمجھایا جاسکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی مردوعورت‘ بوڑھے و جوان اور بچے سے 50 ہزار روپے چھینے گئے۔ اعدادوشمار کو مزید آسان کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی خاندان سے 3لاکھ 50 ہزار روپے جیسی خطیر رقم لوٹی گئی ہے!
پاکستان میں نہ تو انسداد بدعنوانی اور احتساب کے قوانین و قواعد کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے مخصوص ادارے ہی تعداد میں کم ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ادارہ موجود ہے لیکن اگر آپ اِن اداروں کی سالانہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہوگی کہ انہوں نے نہایت ہی کم شرح سے مالی بدعنوانوں کو انجام تک پہنچایا ہے اور لوٹا ہوا سرکاری مال واپس خزانے میں جمع کرایا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی ممالک کی کئی ایک ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے احتساب و انسداد بدعنوانی کے سخت قوانین بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے نتائج اُن کی ترقی کی صورت پوری دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور اُن معاشروں میں ہونے والی علمی و فکری ترقی سے فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔

سال 2014ء کے دوران پاکستان کے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو مالی بدعنوانیوں کی 18 ہزار 818 شکایات موصول ہوئیں جن کی جانچ کے بعد 887 درخواستوں پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور سال 2014ء میں نیب نے بدعنوانوں کے خلاف 819 مقدمات درج کرائے جن میں سے صرف 44 مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف بدعنوانی کا جرم ثابت کیا جاسکا! اگر ہم سنگاپور کی مثال لیں تو وہاں کا ’نیب‘ ہر سال موصول ہونے والی شکایات پر کاروائی کرتا ہے اور 95فیصد کی شرح سے ملوث ملزمان کو سزائیں ہوتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں یہی شرح 85فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 80فیصد جبکہ بھارت کی ایک ریاست مہاراشٹر میں نیب حکام نے مالی بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں سالانہ 30فیصد کے تناسب سے کامیابی حاصل کی ہے!

میرے یہ الفاظ یاد رکھئے گا کہ ہمارے ہاں انسداد بدعنوانی اور قومی احتساب بیورو سمیت جملہ انتظامی ڈھانچہ ’بدعنوان عناصر‘ کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اُنہیں تحفظ دینے کے لئے تشکیل و مرتب کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر عاصم حسین سے بھی کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہیں!

سال 2008ء میں جب آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار شروع ہوا تو اُس وقت حکومت کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ 2013ء میں جب اُن کا دور حکومت ختم ہوا تو حکومت کا قرض 8 کھرب روپے یعنی اس میں 2 کھرب روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ مالی نظم و ضبط اور احتساب و انسداد بدعنوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں قرض لیکر پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے کو کھڑا رکھنا پڑتا ہے۔ اگر مالی نظم و ضبط نافذ ہو جائے‘ مالی بدعنوانی کے امکانات تک باقی نہ ہوں اور بدعنوانوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے ہی وسائل کو ترقی کے ذریعے اقتصادی طور پر مستحکم ہوتا چلا جائے اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں سال بہ سال اضافے کی بجائے کمی ہوتی چلی جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین  اِمام)

1 comment:

  1. Rs8,500,000,000,000
    Sunday, October 04, 2015
    Dr Farrukh Saleem (Capital suggestion)

    That is Rs8.5 trillion – the estimated amount embezzled over five years of PPP rule. Here’s Dr Robert Klitgaard’s world-famous formula: Discretionary powers minus accountability is equal to corruption (Dr Klitgaard was the president of Claremont Graduate University and is known as the international anti-corruption guru).

    The essence of the formula is that wherever public officials, elected or appointed, have discretionary powers and the system lacks accountability there will be corruption – be it America, Japan, South Korea or Pakistan.

    Rs8.5 trillion may sound large but translates into a mere 8.5 percent of the Rs100 trillion worth of GDP produced by Pakistanis over those five years of PPP rule. Rs8.5 trillion also means that each Pakistani man, woman and child was robbed of a hefty Rs50,000. Rs8.5 trillion also means that each and every Pakistani family was robbed of a hefty Rs350,000.

    We already have a whole host of anti-corruption legislation including the Prevention of Corruption Act 1947, the Public Representatives Disqualification Act 1949, the Elected Bodies Disqualification Ordinance 1958, Anti-Corruption Establishment Rules 1985, the Ehtesab Act of 1997, Auditor-General’s Ordinance 2001 and the National Accountability Ordinance 2010.

    We already have a whole host of anti-corruption institutions including the National Accountability Bureau (NAB), the Federal Investigation Agency (FIA), Anti-Corruption Establishments in all four provinces, an entire network of ombudsmen plus the Khyber Pakhtunkhwa Ehtesab Commission.

    In 2014, the National Accountability Bureau received a total of 18,818 complaints. In 2014, the National Accountability Bureau authorised 887 inquiries. In 2014, the National Accountability Bureau filed 819 cases. In 2014, our accountability courts convicted a total of 44.

    In 2014, the conviction rate at the Corrupt Practices Investigation Bureau of Singapore was 95 percent. Hong Kong’s Independent Commission Against Corruption (ICAC) has a conviction rate of 85 percent. The Malaysian Anti-Corruption Commission (MACC) has a conviction rate of 80 percent. Maharashtra’s anti-corruption bureau has a conviction rate of 30 percent.

    Please mark my words: Our entire anti-corruption infrastructure will not be able to nab Dr Asim Hussain, not necessarily the person but the phenomenon. The reason: Our entire anti-corruption infrastructure is designed and structured to protect corruption. Don’t ever forget what Frederic Bastiat, the classical French author, said: “When plunder becomes a way of life for a group of men in a society, over the course of time they create for themselves a legal system that authorises it and a moral code that glorifies it.”

    In 2008, the beginning of the Zardari era, our public debt stood at Rs6 trillion. By 2013, we had taken on additional debt of Rs8 trillion to hit the Rs14 trillion mark. Intriguingly, the amount of additional debt taken almost equals the amount lost to corruption. What that means is that in absence of corruption we need not take additional debt.

    The latest GHQ-led accountability drive is about to enter the Land of Five Rivers. In all probability, the latest GHQ-led accountability drive is not sustainable – because of structural and design flaws – over the medium to long-term. The most probable consequence: wholesale nation-wide disappointment.

    When men are pure, laws are useless; when men are corrupt, laws are broken – Benjamin Disraeli
    ---
    The writer is a columnist based in Islamabad.

    ReplyDelete