The Karachi nexus
کراچی: گٹھ جوڑ
کراچی: گٹھ جوڑ
ہلاکتوں کی شرح: پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سیّد
یوسف رضا گیلانی نے اپنے عہدے کا حلف 25مارچ 2008ء کے روز اٹھایا جبکہ
اُنہی کی سیاسی جماعت کی سربراہی کرنے والے آصف علی زرداری نے 9 ستمبر
2008ء کے روز صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سال 2008ء کے دوران کراچی
میں 777قتل ہوئے۔ سال 2013ء میں کراچی میں ہوئے قتل 2507رہے اور ہر سال بڑی
تعداد میں قتل کے ان واقعات کی وجہ سے کراچی دنیا کا ایک ایسا خونیں شہر
بن گیا جہاں ہر روز درجنوں ہلاکتیں معمول بن گئیں اور اسے ’دنیا کی قتل
گاہ‘ کہا جانے لگا کیونکہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس قدر ہلاکتیں نہیں
ہوتیں جس قدر کراچی میں ہو رہی تھیں۔
اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں: سال 2003ء میں 33جبکہ سال 2013ء کے دوران کراچی میں 174 اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں رونما ہوئیں اور یوں کراچی کو دنیا کے اُن شہروں میں سرتاج کہا جانے لگا جہاں اغوأ برائے تاوان کی سب سے زیادہ وارداتیں رونما ہوتیں ہیں۔
موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں: سال 2006ء کے دوران کراچی میں کل 7 ہزار 85 موٹرسائیکل چھیں لی گئیں لیکن سال 2013ء موٹرسائیکل چھیننے کی یہ وارداتیں بڑھ کر 23 ہزار 153ہو گئیں اور یوں کرۂ ارض پر کراچی واحد ایسا شہر بننے کا اعزاز پا گیا جہاں سب سے زیادہ لوگ اپنی موٹرسائیکلوں سے محروم ہوئے۔ سال 2013ء کے دوران کراچی کو ملنے والا یہ تیسرا اعزاز تھا یعنی قتل‘ اغوأ برائے تاوان اور موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ کراچی میں ہو رہی تھیں۔
موٹرگاڑیاں چھیننے کی وارداتیں: سال 2008ء کے دوران 6ہزار 23 گاڑیاں کراچی کی حدود میں چھینی گئیں۔
رینجرز آپریشن کے بعد کی صورتحال: کراچی میں رینجرز نے امن و امان قائم کرنے اور وہاں جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن (کاروائی) کا آغاز ستمبر 2013ء میں کیا۔ سال2015ء کے وسط تک کراچی میں قتل کی وارداتیں کم ہو کر 44 تک پہنچ گئیں جو 80فیصد کمی تھی۔ 2015ء کے وسط تک اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں 14 تک آ گئیں جو 92 فیصد کمی تھی۔ موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 75 فیصد اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں 50فیصد غیرمعمولی کمی آئی۔
سندھ اسمبلی کی قرارداد: رینجرز کو کراچی آپریشن جاری رکھنے اور اس سلسلے میں انہیں حاصل خصوصی اختیارات میں توسیع سندھ اسمبلی کی قرارداد سے مشروط تھی جس کے لئے 16دسمبر کے روز سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں پانچ ایسے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رینجرز کے دائرۂ اختیار کو محدود کر دیا گیا۔ جن پانچ شعبوں میں رینجرز کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی اُن میں دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کاروائی‘ دہشت گردی کی مالی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردوں کے سہولت کار بننے والوں کے خلاف کاروائی اور سندھ کے تمام سرکاری محکموں کے خلاف کاروائی شامل تھا۔
تجزیہ: کراچی میں جرائم کا دھندا ایک درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں زمیں میں گہری ہو چکی ہیں۔ زمین کے اوپر اس کی شاخیں قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی چوڑیوں کی صورت دکھائی دیتی ہیں لیکن جو ہم نہیں دیکھ سکتے وہ اس درخت کی پھیلی ہوئی جڑیں ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی پشت پناہی‘ اُن کی سہولت کاری اور اُن کی مالی معاونت و پشت پناہی کہیں اور سے نہیں بلکہ سیاست دانوں کی طرف سے ہو رہی ہے اور سیاست دانوں اور جرائم پیشہ عناصر نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کراچی کو لاحق امراض و خطرات کا ظاہری رخ ہمارے سامنے ہے لیکن اصل بیماری زیرزمین ہے‘ جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔
رینجرز کی نپی تلی کاروائیوں کے نتائج جرائم میں غیرمعمولی کمی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ جرائم پیشہ عناصر کی قوت کو منتشر کرنے یا انہیں کسی ایک محاذ پر شکست دینے سے اُن کا خاتمہ ہوگیا ہے غلط ہوگا۔ جن چار جرائم (قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور موٹرگاڑیوں کے چھیننے کی وارداتوں) میں کمی آئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی مرض بھی باقی ہے اور اس کا سبب بننے والے اسباب بھی موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں اور جرائم پیشہ و دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور اس کی پہلے جیسی قوت و توانا وجود موجود نہیں لیکن بہرحال جرائم کا وہ تناور درخت موجود ہے‘ جس نے کراچی کے امن و امان اور اس کی خوبیوں کو اپنی شاخوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں: سال 2003ء میں 33جبکہ سال 2013ء کے دوران کراچی میں 174 اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں رونما ہوئیں اور یوں کراچی کو دنیا کے اُن شہروں میں سرتاج کہا جانے لگا جہاں اغوأ برائے تاوان کی سب سے زیادہ وارداتیں رونما ہوتیں ہیں۔
موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں: سال 2006ء کے دوران کراچی میں کل 7 ہزار 85 موٹرسائیکل چھیں لی گئیں لیکن سال 2013ء موٹرسائیکل چھیننے کی یہ وارداتیں بڑھ کر 23 ہزار 153ہو گئیں اور یوں کرۂ ارض پر کراچی واحد ایسا شہر بننے کا اعزاز پا گیا جہاں سب سے زیادہ لوگ اپنی موٹرسائیکلوں سے محروم ہوئے۔ سال 2013ء کے دوران کراچی کو ملنے والا یہ تیسرا اعزاز تھا یعنی قتل‘ اغوأ برائے تاوان اور موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ کراچی میں ہو رہی تھیں۔
موٹرگاڑیاں چھیننے کی وارداتیں: سال 2008ء کے دوران 6ہزار 23 گاڑیاں کراچی کی حدود میں چھینی گئیں۔
رینجرز آپریشن کے بعد کی صورتحال: کراچی میں رینجرز نے امن و امان قائم کرنے اور وہاں جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن (کاروائی) کا آغاز ستمبر 2013ء میں کیا۔ سال2015ء کے وسط تک کراچی میں قتل کی وارداتیں کم ہو کر 44 تک پہنچ گئیں جو 80فیصد کمی تھی۔ 2015ء کے وسط تک اغوأ برائے تاوان کی وارداتیں 14 تک آ گئیں جو 92 فیصد کمی تھی۔ موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 75 فیصد اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں 50فیصد غیرمعمولی کمی آئی۔
سندھ اسمبلی کی قرارداد: رینجرز کو کراچی آپریشن جاری رکھنے اور اس سلسلے میں انہیں حاصل خصوصی اختیارات میں توسیع سندھ اسمبلی کی قرارداد سے مشروط تھی جس کے لئے 16دسمبر کے روز سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں پانچ ایسے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رینجرز کے دائرۂ اختیار کو محدود کر دیا گیا۔ جن پانچ شعبوں میں رینجرز کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی اُن میں دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کاروائی‘ دہشت گردی کی مالی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اختیار‘ دہشت گردوں کے سہولت کار بننے والوں کے خلاف کاروائی اور سندھ کے تمام سرکاری محکموں کے خلاف کاروائی شامل تھا۔
تجزیہ: کراچی میں جرائم کا دھندا ایک درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں زمیں میں گہری ہو چکی ہیں۔ زمین کے اوپر اس کی شاخیں قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی چوڑیوں کی صورت دکھائی دیتی ہیں لیکن جو ہم نہیں دیکھ سکتے وہ اس درخت کی پھیلی ہوئی جڑیں ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی پشت پناہی‘ اُن کی سہولت کاری اور اُن کی مالی معاونت و پشت پناہی کہیں اور سے نہیں بلکہ سیاست دانوں کی طرف سے ہو رہی ہے اور سیاست دانوں اور جرائم پیشہ عناصر نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کراچی کو لاحق امراض و خطرات کا ظاہری رخ ہمارے سامنے ہے لیکن اصل بیماری زیرزمین ہے‘ جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔
رینجرز کی نپی تلی کاروائیوں کے نتائج جرائم میں غیرمعمولی کمی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ جرائم پیشہ عناصر کی قوت کو منتشر کرنے یا انہیں کسی ایک محاذ پر شکست دینے سے اُن کا خاتمہ ہوگیا ہے غلط ہوگا۔ جن چار جرائم (قتل‘ اغوأ برائے تاوان‘ موٹرسائیکل اور موٹرگاڑیوں کے چھیننے کی وارداتوں) میں کمی آئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی مرض بھی باقی ہے اور اس کا سبب بننے والے اسباب بھی موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں اور جرائم پیشہ و دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور اس کی پہلے جیسی قوت و توانا وجود موجود نہیں لیکن بہرحال جرائم کا وہ تناور درخت موجود ہے‘ جس نے کراچی کے امن و امان اور اس کی خوبیوں کو اپنی شاخوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
The Karachi nexus
ReplyDeleteBy Dr Farrukh Saleem
December 20, 2015
Killing data: Syed Yusuf Raza Gilani took oath of the prime ministerial office on March 25, 2008 and Asif Ali Zardari took oath of the presidential office on September 9, 2008. In 2008, there were 777 killings in Karachi. In 2013, there were 2,507 killings in Karachi and that year Karachi became the ‘murder capital of the year’ (no other major city in world recorded as many killings).
Kidnapping-for-ransom cases: In 2003, there were 33 kidnapping-for-ransom cases. In 2013, kidnapping-for-ransom cases jumped to 174 and that year Karachi captured another title, the ‘kidnapping capital of the world’.
Two-wheelers snatched: In 2006, a total of 7,085 two-wheelers were snatched. In 2013, the number of two-wheelers snatched went up to 23,153, the most number of two-wheelers snatched in any major city on the face of the planet. In 2013, Karachi snatched its third title in a single year.
Four-wheelers snatched: This figure peaked out in 2008 the year when 6,023 four-wheelers were snatched.
Post Rangers Operation September 2013: By mid-2015, killings in Karachi had dropped to 414, down 80 percent from the peak of 2,507 killings reached in 2013. By mid-2015, kidnapping-for-ransom cases were down to 14, down 92 percent from the peak of 174 kidnapping-for-ransom cases in 2013. The latest number for four-wheelers-snatched is down 75 percent and the number of two-wheelers snatched is down 50 percent.
Sindh Assembly Resolution of December 16: The resolution has specifically excluded five categories from the Rangers domain – aiding terrorism, abetting terrorism, financing terrorism, facilitating terrorism and all offices of government of Sindh.
Analysis: Crime in Karachi is like a tree. What we see above-the-ground are leaves in the form of killings, kidnapping-for-ransom cases, two and four wheelers snatched. What we don’t see is under-the-ground and what is under-the-ground is the nexus between politics, terrorism and finance. What we see above-the-ground are mere symptoms of a disease and the disease lies under-the-ground.
The Rangers are doing two things – disrupting and dismantling the political-terrorist-financing nexus. What the Rangers are doing is cutting the leaves – keep on cutting the leaves but as long as the roots are intact there shall be more leaves in times to come. In effect, the Rangers are suppressing the symptoms while the disease lies under-the-ground.
The target killers, the drug mafia, the criminal gangs, the bhatta mafia and the weapons mafia are all symptoms of a disease – the disease called the political-terrorist-financing nexus.
Disruption and dismantling does not mean defeating. Killings are down 80 percent, kidnapping-for-ransom cases are down 92 percent, four-wheel snatching is down 75 percent and two-wheel snatching is down 50 percent. Symptoms of the disease have been suppressed, the disease lives on. The political-terrorist-financing nexus has been disrupted, not defeated. The tree lives on.