The human cost
بدعنوانی کی بھاری قیمت!
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک کہانی شائع کی ہے جو ڈھاکہ بنگلہ دیش سے تعلق
رکھنے والی ایک لڑکی سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش دنیاکے اُن ممالک
میں شامل ہے جہاں سال 2015ء سے متعلق جاری کردہ ایک جائزے کے مطابق سرکاری
اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کی شرح اُس کسوٹی یا پیمانے پر پچاس
فیصد سے کم ہے جس میں سب سے بدعنوان ملک کو 100فیصد نمبر دیئے جاتے ہیں۔
مذکورہ لڑکی کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ بجائے سکول جانے کے ایک فیکٹری میں
محنت مزدوری کرتی ہے جہاں اُس کا کام بوتلوں کو ترتیب دینا ہے۔ بنگلہ دیش
بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں سے اِس قسم کی مشقت نہیں لی
جا سکتی جبکہ وہ قانون کی رو سے پابند ہیں کہ اپنا وقت تعلیمی اداروں کے
اندر صرف کریں لیکن جہاں کہیں بدعنوانی پائی جائے وہاں قانون توڑنے کے
راستے نکل ہی آتے ہیں۔ جب ایک غلط طریقے سے درست سرکاری افسر کو رشوت دی
جاتی تو اس سے نتیجے میں گنجائش نکل آتی ہے۔ عالمی طور پر مسلمہ حقیقت یہ
ہے کہ دنیا کے جن جن ممالک کے سرکاری اداروں میں بدعنوانی پائی جاتی ہے
وہاں اِس کی قیمت غربت زدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں اور
بالخصوص بچوں کو چکانا پڑتی جو سخت ترین قواعد کے باوجود نہایت ہی مشکل و
ناموافق حالات میں محنت مشقت کرتے ہیں۔
سرکاری اداروں میں پائی جانے والی رشوت ستانی و بدعنوانی کے پیمانے پر بنگلہ دیش پچیسویں نمبر پر ہے جبکہ اِسی پیمانے پر پاکستان کو تیس نمبر دیئے گئے ہیں۔ دنیا کے غریب (ترقی پذیر ممالک) سالانہ ایک کھرب ڈالر کے مساوی بدعنوانی کی نذر کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے سرکاری ادارے سالانہ 8 ارب ڈالر خرد برد کرتے ہیں یہ رقم ملک کے سالانہ دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ انگولا‘ جنوبی سوڈان‘ سوڈان‘ افغانستان‘ شمالی کوریا اُور صومالیہ دنیا کے نہایت ہی بدعنوان ملک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہی ممالک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں بھی ہوتا ہے جو امن و امان کے حساب سے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کروڑوں ڈالر بجائے تعمیر و ترقی پر خرچ ہونے کے چوری یا خورد برد ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ۔ انگولہ کی 70فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی کرتی ہے یعنی اُن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر یا اِس سے کم ہے۔ وہاں ہر چھ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے جو دنیا میں بچوں کی اموات کی بلند ترین شرح ہے! براعظم افریقہ کے اِس ملک میں بدعنوانی اور اختیارات کے عوض ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرنے کی ایک مثال یہ ملاحظہ کیجئے کہ صدر کی بیٹی اسابیل ڈس سینٹوس (Isabel dos Santos) جو کہ ہیروں کی تجارت اور ٹیلی کیمونیکشن کمپنی کی مالکہ ہے براعظم افریقہ کی سب سے کم عمر ارب پتی خاتون ہے!
اگر ہم بدعنوانی کے منفی اثرات دیکھیں تو اِس سے فائدہ اٹھانے والے چند افراد کے مقابلے ملک کی ایک بڑی آبادی نہایت ہی بُرے انداز میں متاثر ہوتی ہے۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہر 10 میں سے 6پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یعنی اُن کی یومیہ آمدنی یا ایک دن کے اخراجات 2 ڈالر سے کم ہیں۔ سیو دی چلڈرن نامی ایک عالمی امدادی ادارے (این جی اُو) کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ پاکستان کے بعد بچوں کی شرح اموات کے لحاظ سے نائجیریا دوسرے نمبر پر ہے جہاں 32.7‘ سری لیون میں 30.8‘ صومالیہ میں 29.7 اور افغانستان میں ہر ایک ہزار میں سے 29 بچے ہلاک ہو جاتے ہیں! یعنی افغانستان میں بچوں کے اموات کی شرح پاکستان سے بہتر ہے!
بدعنوانی‘ غربت اور عدم مساوات میں گہرا تعلق ہے اور اسی سبب سے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوپاتے۔ بدعنوانی کی وجہ سے ملک کی پیداوار اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ تعلیم پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ غربت کا خاتمہ کس وجہ سے نہیں ہو پا رہا تو اِس کا بنیادی سبب سرکاری اداروں کی بدعنوانی سامنے آئے گی جو قوانین و قواعد پر عمل درآمد کو جب چاہیں معطل کردیتے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سالانہ بجٹ میں مختص کئے جانے والے مالی وسائل میں سے 20 ارب سے 40 ارب ڈالر خردبرد ہو جاتے ہیں اور یہ خردبرد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کرتے ہیں جو سرمائے کو بیرون ملک چھپا کر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صدہزاری ترقیاتی اہداف (میلینئم ڈویلپمنٹ گولز) کے حصول میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہو رہی۔ بدعنوانی کے سبب دنیا ایک روشن مستقبل سے محروم ہے۔ الف اعلان نامی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے بچیاں ایسی ہیں جو سکول نہیں جاتے اور ایسے سکول سے باہر بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے چند ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ایک ارب ڈالر اضافی طور پر مزید خرچ کردیا جائے تو بچوں کی پیدائش سے قبل یا پیدائش کے بعد ہونے والی شرح اموات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔
جاتے جاتے یہ بات بھی سن لیں کہ پاکستان میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں پانچ سو فیصد اضافہ مہنگائی‘ توانائی بحران‘ رشوت ستانی‘ بدعنوانی‘ قوانین پر عمل درآمد میں امتیازات‘ ناقص تعلیمی نظام‘ پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 80 ہزار روپے ماہانہ تھی جسے یکایک بڑھا کر 4 لاکھ 70 ہزار روپے کر دی گئی ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
سرکاری اداروں میں پائی جانے والی رشوت ستانی و بدعنوانی کے پیمانے پر بنگلہ دیش پچیسویں نمبر پر ہے جبکہ اِسی پیمانے پر پاکستان کو تیس نمبر دیئے گئے ہیں۔ دنیا کے غریب (ترقی پذیر ممالک) سالانہ ایک کھرب ڈالر کے مساوی بدعنوانی کی نذر کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے سرکاری ادارے سالانہ 8 ارب ڈالر خرد برد کرتے ہیں یہ رقم ملک کے سالانہ دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ انگولا‘ جنوبی سوڈان‘ سوڈان‘ افغانستان‘ شمالی کوریا اُور صومالیہ دنیا کے نہایت ہی بدعنوان ملک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہی ممالک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں بھی ہوتا ہے جو امن و امان کے حساب سے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کروڑوں ڈالر بجائے تعمیر و ترقی پر خرچ ہونے کے چوری یا خورد برد ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ۔ انگولہ کی 70فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی کرتی ہے یعنی اُن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر یا اِس سے کم ہے۔ وہاں ہر چھ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے جو دنیا میں بچوں کی اموات کی بلند ترین شرح ہے! براعظم افریقہ کے اِس ملک میں بدعنوانی اور اختیارات کے عوض ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرنے کی ایک مثال یہ ملاحظہ کیجئے کہ صدر کی بیٹی اسابیل ڈس سینٹوس (Isabel dos Santos) جو کہ ہیروں کی تجارت اور ٹیلی کیمونیکشن کمپنی کی مالکہ ہے براعظم افریقہ کی سب سے کم عمر ارب پتی خاتون ہے!
اگر ہم بدعنوانی کے منفی اثرات دیکھیں تو اِس سے فائدہ اٹھانے والے چند افراد کے مقابلے ملک کی ایک بڑی آبادی نہایت ہی بُرے انداز میں متاثر ہوتی ہے۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہر 10 میں سے 6پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یعنی اُن کی یومیہ آمدنی یا ایک دن کے اخراجات 2 ڈالر سے کم ہیں۔ سیو دی چلڈرن نامی ایک عالمی امدادی ادارے (این جی اُو) کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ پاکستان کے بعد بچوں کی شرح اموات کے لحاظ سے نائجیریا دوسرے نمبر پر ہے جہاں 32.7‘ سری لیون میں 30.8‘ صومالیہ میں 29.7 اور افغانستان میں ہر ایک ہزار میں سے 29 بچے ہلاک ہو جاتے ہیں! یعنی افغانستان میں بچوں کے اموات کی شرح پاکستان سے بہتر ہے!
بدعنوانی‘ غربت اور عدم مساوات میں گہرا تعلق ہے اور اسی سبب سے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوپاتے۔ بدعنوانی کی وجہ سے ملک کی پیداوار اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ تعلیم پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ غربت کا خاتمہ کس وجہ سے نہیں ہو پا رہا تو اِس کا بنیادی سبب سرکاری اداروں کی بدعنوانی سامنے آئے گی جو قوانین و قواعد پر عمل درآمد کو جب چاہیں معطل کردیتے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سالانہ بجٹ میں مختص کئے جانے والے مالی وسائل میں سے 20 ارب سے 40 ارب ڈالر خردبرد ہو جاتے ہیں اور یہ خردبرد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کرتے ہیں جو سرمائے کو بیرون ملک چھپا کر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صدہزاری ترقیاتی اہداف (میلینئم ڈویلپمنٹ گولز) کے حصول میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہو رہی۔ بدعنوانی کے سبب دنیا ایک روشن مستقبل سے محروم ہے۔ الف اعلان نامی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے بچیاں ایسی ہیں جو سکول نہیں جاتے اور ایسے سکول سے باہر بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے چند ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ایک ارب ڈالر اضافی طور پر مزید خرچ کردیا جائے تو بچوں کی پیدائش سے قبل یا پیدائش کے بعد ہونے والی شرح اموات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔
جاتے جاتے یہ بات بھی سن لیں کہ پاکستان میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں پانچ سو فیصد اضافہ مہنگائی‘ توانائی بحران‘ رشوت ستانی‘ بدعنوانی‘ قوانین پر عمل درآمد میں امتیازات‘ ناقص تعلیمی نظام‘ پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 80 ہزار روپے ماہانہ تھی جسے یکایک بڑھا کر 4 لاکھ 70 ہزار روپے کر دی گئی ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
The human cost
ReplyDeleteBy Farrukh Saleem
May 22, 2016
Print : Opinion
0
0
Capital suggestion
Here’s a story from Transparency International (TI), the ‘global coalition against corruption’, “This nine-year-old girl is one of them. She lives in Dhaka, Bangladesh-one of 114 countries that scores below 50 out of 100 in our 2015 Corruption Perception Index (CPI), indicating serious levels of public sector corruption.
“Instead of going to school, she spends her days sorting bottles at a recycling factory. Officially child labor is illegal in Bangladesh. Unofficially a bribe paid to the right official can mean exceptions are made. Like all exploitation, child labor remains a sad reality in environments where citizens are trapped in poverty and corrupt officials can be paid off.
“It’s just one example of the devastation fuelled by corruption. Others include human trafficking, child mortality, poor education standards, environmental destruction and terrorism. Put simply-public sector corruption is about so much more than missing money. It’s about people’s lives.”
Bangladesh scores 25 out of 100 and Pakistan scores 30 out of 100 – both scores indicating ‘serious levels of public sector corruption’. Poor countries “lose $1 trillion a year to corruption.”Pakistan loses an estimated $8 billion a year to corrupt practices in our public sector (a figure roughly equal to this year’s proposed defence budget).
Angola, South Sudan, Sudan, Afghanistan, North Korea and Somalia are among the most corrupt. They are also among the ‘least peaceful places in the world’.
According to TI, “In Afghanistan, millions of dollars that should have gone on reconstruction have been reportedly wasted or stolen, seriously undermining efforts to sustain peace. In Angola, 70 percent of the population lives on $2 a day or less. One in six children dies before the age of five – making it the deadliest place in the world to be a child.
“Dubbed Africa’s youngest billionaire, Isabel dos Santos made her $3.4 billion fortune from the national diamond and telecommunications business. She’s also the president’s daughter.”
The ‘human cost of corruption is huge’. Six out of ten Pakistanis live at or below $2 a day. According to Save the Children, Pakistan has the highest rate of first day deaths and stillbirths, 40.7 per 1,000 births. Pakistan is followed by Nigeria (32.7), Sierra Leone (30.8), Somalia (29.7) and Afghanistan (29). Imagine; Afghanistan is far ahead of Pakistan on this count.
There is a “strong correlation between corruption, poverty and inequality”. Corruption is a “major stumbling block for achieving sustainable development.” Corruption “negatively affects productivity and investment, and thus impedes economic growth.” Corruption has a “negative effect on education outcomes: it reduces test scores, lowers national ranking of schools and reduces satisfaction ratings.” Corruption and “bribery can have a negative effect on foreign investment.” Corruption is a “major obstacle in poverty reduction.”
According to the World Bank, “each year $20 billion to $40 billion…are stolen through high-level corruption from public budgets in developing countries and hidden overseas.” To be certain, public-sector corruption in developing countries has kept them from reach the Millennium Development Goals (MDGs).
To be sure, “corruption is robbing billions of people [around the world] of a brighter future”. According to Alif Ailaan’s ‘25 Million Broken Promises’, there are 25 million Pakistani boys and girls who are not in school. A couple of billion dollars can educate them all. An additional billion can cut down the rate of first day deaths and stillbirths.
PS: On Thursday, our parliamentarians jacked up their salaries and perks from Rs80,000 a month to a minimum of Rs470,000 a month; a jump of nearly 500 percent.