Sunday, April 9, 2017

TRANSLATION 3 alarm bells by Dr Farrukh Saleem

Three alarm bells
(خطرے کی) تین گھنٹیاں!

تجارتی خسارہ: پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ اعدادوشمار کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ درآمدات بڑھتے ہوئے پچاس ارب ڈالر جیسی نفسیاتی حد کو چھو لیں گی اور اگر درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن کا جائزہ لیں تو یہ خسارہ 30 ارب ڈالر ہو گا۔ پاکستان کی برآمدات‘ بیرون ملک سے آنے والے ترسیلات زر (remittances) کم ہو رہی ہیں جبکہ پاکستان میں کوئی قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی۔ اگر ہم پاکستان کے ’کرنٹ اکاونٹ‘ کا خسارہ دیکھیں اُور رواں مالی سال کا گذشتہ مالی سال کے کے پہلے آٹھ ماہ سے موازنہ کریں تو یہ خسارہ ’121 فیصد‘ تھا۔ کرنٹ اکاونٹ کا مطلب درآمد اور برآمد ہونے والی اجناس کی قدروقیمت ہوتا ہے۔ جب درآمد ہونے والی اشیاء کی قدروقیمت بشمول خدمات کی قیمت برآمدات کے مقابلے بڑھ جائے۔

کرنٹ اکاونٹ کا اِس کم وبیش 8 ارب ڈالر خسارے سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی اور اس قدر بڑی رقم پاکستان کہاں سے ادا کرے گا؟ کرنٹ اکاونٹ کا یہی خسارہ جو ملک کی مجموعی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کے چار فیصد تک پہنچ جائے گا تو اِس سے حکومت کیسے نمٹے گی؟ بالخصوص ایسے حالات میں ہمارے ’کرنٹ اکاونٹ خسارے‘ کو کس طرح کم کیا جائے گا‘ جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھنے کا رجحان برقرار ہے اور آنے والے دنوں میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی؟

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ 30ارب ڈالر کا خسارہ پاکستان جیسے ملک کے لئے کسی لمبے عرصے تک برداشت کرنا ممکن نہیں ہوگا اور اِس کے تین منطقی نتائج (اثرات) ہوں گے۔ پہلا تو پاکستان کے قرض میں اضافہ ہو جائے گا۔ دوسرا پاکستان کے روپے کی قدر میں کمی ہوگی اور تیسرا مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال جس تیزی سے ایک خاص سمت بڑھ رہی ہے تو مستقبل میں اِن تینوں امور کے منفی اثرات ظاہر ہوں گے۔ ہمیں اضافہ قرض بھی لینا پڑے گا‘ ہمیں اپنے روپے کی قدر بھی کم کرنا پڑے گی اور ہمیں مزید مہنگائی بھی برداشت کرنا پڑے گی۔

توانائی کا شعبہ: پاکستان میں بجلی کے پیداواری شعبہ کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ’گردشی قرضے (circular debt)‘ کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی کمی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی لوڈشیڈنگ تو علامت ہے جبکہ اصل مرض ’گردشی قرض‘ ہے۔ سات مارچ دوہزار تیرہ کو موجودہ حکمراں جماعت ’پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ نے عام انتخابات کے لئے 104 صفحات پر مشتمل اپنا ’انتخابی منشور‘ جاری کیا تھا‘ جس میں توانائی کے پیداواری شعبے سے متعلق بالخصوص 42 وعدے کئے گئے تھے۔ جولائی دوہزار تیرہ میں اِسی ’نوازلیگ‘ حکومت نے نجی اداروں کو 480ارب روپے جیسا خطیر واجب الادأ گردشی قرض ادا کرتے ہوئے اِس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ گردشی قرض کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور گردشی قرض کا پہاڑ کھڑا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے گی! لیکن ایسا نہ ہو سکا اور مارچ دوہزار سترہ میں ہم اُس مقام پر ایک مرتبہ پھر کھڑے تھے جہاں حکومت پاکستان کے سامنے 414 ارب روپے کا گردشی قرض ادا کرنے کی جیسی ذمہ داری پڑی تھی! 

پاکستان بجلی کی کمی کے باعث ہر سال 50ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کر رہا ہے اور بجلی کی کمی کے باعث ہونے والی ’لوڈشیڈنگ‘ کی وجہ ’گردشی قرض‘ ہے۔ حکومت کی کوششوں سے بجلی کی چوری (line losses) میں کچھ کمی اور بجلی کی قیمت وصول کرنے جیسے شعبوں میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔ 

حکومت نے درجن بھر بجلی کے نئے پیداواری پلانٹس کا افتتاح بھی کیا ہے لیکن ’توانائی کے پیداواری شعبے‘ میں خاطرخواہ اصلاحات (reforms) دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ توانائی کے پیداواری شعبے سے جڑی مسائل کی وجہ سے پاکستان آج سال 2013ء ہی کے مقام پر کھڑا ہے۔

بجٹ خسارہ: وفاقی وزارت خزانہ (فیڈرل بورڈ آف ریونیو ’ایف بی آر) تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی سے ہونے والی آمدنی 100 ارب روپے کم ہے لیکن دو دیگر مسائل بھی درپیش ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ’ایف بی آر‘ کم و بیش 200 ارب روپے کی ادائیگیاں (refunds) روکے ہوئے ہے اور دوسرا بجٹ کے علاؤہ اِسے قریب 400 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ جب بجٹ پیش کیا گیا تھا تو اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد کہی گئی تھی لیکن یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا اور اِس کے برعکس 3.8 فیصد کا خسارہ ہونے لگا۔ اگر اِس قدر شرح سے بجٹ خسارہ ہوتا ہے تو اِسے برداشت کرتے رہنا ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے پانچ منطقی اثرات ظاہر ہوں گے۔ پاکستان کو اضافی قرض لینا پڑے گا۔ محصولات (ٹیکسوں کی شرح) بڑھانی پڑے گی۔ قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے مالی وسائل الگ سے درکار ہوں گے۔ سود کی شرح بڑھانی پڑے گی اور لامحالہ مہنگائی کی شرح بڑھے گی۔ بدقسمتی سے اقتصادی محاذ پر غلط حکمت عملیوں اور ترجیحات کے تعین میں ناکامی کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں اِن 5 قسم کے حالات سے واسطہ پڑے گا۔ ہمیں مزید قرضے لینا پڑیں گے۔ ہمیں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہم واجب الادأ قرضہ جات و دیگر مالی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ ہمیں قرضہ جات پر ادا ہونے والے سود کی شرح بڑھانی ہوگی اور ہم دیکھیں گے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوئے گی!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

1 comment:

  1. Trade deficit: For the first time ever in Pakistan’s history, our imports are projected to hit $50 billion. For the first time ever in Pakistan’s history, our trade deficit is projected to hit a colossal $30 billion. (Trade deficit is the “amount by which the cost of a country’s imports exceeds the value of its exports”).

    The export sector has crashed, foreign exchange remittances are trending downwards and there is no meaningful foreign direct investment. For the record, Pakistan’s current account deficit has widened by an alarming 121 percent during the first eight months of the ongoing fiscal year compared to the same period last year. (Current account deficit is the “measurement of a country’s trade where the value of the goods and services it imports exceeds the value of the goods and services it exports”).

    How will we finance a current account deficit that is projected to hit a colossal $8 billion? How will we finance a current account deficit that is projected to hit a shocking four percent of our annual GDP? What will happen to our current account deficit if the oil prices keep on going up?

    To be certain, the $30 billion trade deficit is not sustainable and there are three logical consequences: additional debt, devaluation of the rupee and a higher rate of inflation. Unfortunately, our future will have all three: additional debt, devaluation of the rupee and a higher rate of inflation.

    Energy sector: The real elephant in this sector is the circular debt. To be sure, loadshedding is a symptom, the real disease is the circular debt. On March 7, 2013, the PML-N came out with a 104-page election manifesto. The manifesto specifically made 42 power-sector related promises. In July 2013, the PML-N government paid off a mammoth Rs480 billion outstanding circular debt promising that the party will not ‘tolerate’ the accumulation of circular debt ever again.

    By March 2017, we discovered that circular debt had once again reached Rs414 billion. Pakistan continues to lose $50 billion a year every year because of loadshedding and loadshedding is all because of circular debt. Yes, line losses are marginally down. Yes, recovery is marginally up. Yes, the PML-N government has inaugurated a dozen power plants. But there haven’t been any fundamental power sector reforms at all. We are essentially where we were in 2013.

    Budget deficit: The FBR now admits to a revenue collection shortfall of Rs100 billion. But there are two issues: first, the FBR has been holding back refunds to the tune of Rs200 billion and second, there are off-budget deficits that amount to over Rs400 billion. The real budget deficit is projected to hit six percent of the GDP as opposed to the budgeted fiscal deficit limit of 3.8 percent of the GDP.

    The budgetary deficit at this level is not sustainable and there are five logical consequences: additional debt, higher taxes, higher debt payments, higher rates of interest and higher rates of inflation. Unfortunately, our future will have all five: additional debt, higher taxes, higher debt payments, higher rates of interest and higher rates of inflation.

    ReplyDelete