Sunday, April 2, 2017

TRANSLATION: Loadshedding by Dr Farrukh Saleem

Loadshedding
لوڈشیڈنگ
پاکستان میں بجلی کی ’لوڈشیڈنگ‘ کا تعلق طلب اور رسد میں فرق (کمی) کے باعث ہے یا پھر یہ انتظامی نااہلی کے باعث دستیاب پیداواری صلاحیت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا؟ یہ سوال بہت سے سوالات کا مجموعہ اور اگر اِس کا جواب مل جائے تو سبھی سوالات کا جواب مل جائے گا۔

سب سے پہلے تو ہمیں 3 حقائق مدنظر رکھنے ہیں۔ 1: پاکستان کے اقتصادی سروے 2015-16ء میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23ہزار 101 میگاواٹ ہے۔ 2: اٹھائیس مارچ کے روز پاکستان میں بجلی کی پیداوار سب سے زیادہ ہوئی اور یہ پیداوار 11 ہزار 55 میگاواٹ تھی۔ 3: تو ثابت ہوا کہ اٹھائیس مارچ کے روز حکومت نے بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کا 47.8فیصد استعمال کیا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اٹھائیس مارچ کو صوبہ پنجاب کے جن دیہی اور شہری علاقوں میں کم سے کم 6 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی تو یہ پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے نہیں تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ اصل وجہ ’بدانتظامی‘ اور ’نااہلی‘ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت اِس کی ضرورت سے مطابقت رکھتی ہے لیکن اِس پیداواری صلاحیت سے سو فیصد فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے جگر کا علاج کر رہا ہو جبکہ اُسے دل کا مرض لاحق ہو! ایسی صورت میں مریض کے شفایاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

بجلی کے وہ پیداواری یونٹ کو اپنی پوری صلاحیت پر کام نہیں کر رہے اُن میں اُوچ پاور‘ نندی پور‘ ہال مور‘ جاپان پاور‘ سیپ کول‘ کوہ نور اور بھیکی شامل ہیں یعنی 2ہزار 784 میگاواٹ پیداواری صلاحیت سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پھر ایسے پیداواری یونٹ بھی ہیں جو اپنی کل صلاحیت کا نصف (پچاس فیصد) پیداوار دے رہے ہیں۔ اِس فہرست میں اے ای ایس (AES)‘ نشاط اُور اٹلس شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ گدو تھرمل پاور پلانٹ کی کل پیداواری صلاحیت 2ہزار 220میگاواٹ ہے لیکن یہ یونٹ صرف 350میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔

اٹھائیس مارچ کے روز پاکستان میں بجلی کی کل طلب 15ہزار میگاواٹ تھی‘ جس میں کراچی شامل نہیں تھا۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس بجلی کی جو پیداواری صلاحیت ہے اُس کے مطابق 65فیصد طلب تھی اور اگر انتظامی طور پر معاملات ٹھیک ہوتے تو ’لوڈشیڈنگ‘ کی نوبت ہی نہ آتی۔ اٹھائیس مارچ کے روز پاکستان میں بجلی کے پیداواری یونٹ 11ہزار 55میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے تھے لیکن بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو 9 ہزار 700 میگاواٹ بجلی دی گئی۔ اِس کا مطلب ہے کہ 1ہزار 355 میگاواٹ بجلی یہاں وہاں کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ اِسے تکنیکی طور پر ’لائن لاسیز‘ کا نام دیا جاتا ہے جو کہ درحقیقت ادارہ جاتی بدانتظامی ہے‘ جو بجلی کے ترسیلی نظام کی اصلاح نہیں کررہی۔

بجلی کی پیداوار کم ہونے کی ایک وجہ ’گردشی قرضہ (Circular Debt)‘ بھی ہے جس کا تعلق بھی ادارہ جاتی بدانتظامی ہی ہے۔ اگر حکومت بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے لیکن وہ ’گردشی قرضے‘ کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ پیداواری صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ’گردشی قرضہ‘ بھی بڑھتا چلا جائے گا جو زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر گاڑیاں بنانے والی ایک فیکٹری روزانہ 100 گاڑیاں بناتی ہے اور اِن 100گاڑیوں میں سے 20گاڑیاں چوری ہو جاتی ہیں جبکہ ہر روز 10گاڑیاں خریدنے والے اِس کی قیمت ادا نہیں کرتے تو ایک موقع ایسا ضرور آئے گا جبکہ گاڑیاں بنانے والی یہ فیکٹری باوجود پیداواری صلاحیت رکھنے کے بھی دیوالیہ ہو جائے گی!

یادش بخیر‘ سات مارچ دوہزار تیرہ کے روز پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے 104صفحات پر مشتمل اپنا انتخابی منشور (election manifesto) جاری کیا تھا اور اِس میں توانائی کا لفظ 42مرتبہ استعمال کیا گیا یعنی نوازلیگ نے توانائی کے پیداواری یونٹس کی اصلاح کے حوالے سے 42 وعدے کئے تھے۔ سال 2013ء میں ’گردشی قرض 480 ارب روپے تھا۔ سال 2017ء میں ’گردشی قرض‘ 414ارب روپے تھا۔ سال 2014ء میں بجلی کی چوری یا ترسیلی نظام کی خرابیوں کے باعث بجلی کا ضیاع 18فیصد تھا اور اِس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نہیں ہو رہی! سال 2014ء میں بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی قیمت 87 اعشاریہ آٹھ فیصد تھی اور اِس شعبے میں بھی کوئی غیرمعمولی بہتری دیکھنے میں نہیں آ رہی!

بجلی کی ’لوڈشیڈنگ‘ پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بدانتظامی کے سبب ہے۔ حکومت کی توجہ بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر ہے لیکن وہ انتظامی معاملات میں پائی جانے والی خرابیوں پر نظر نہیں کر رہی جو جاری ہیں اور اگر یہی طرزعمل جاری رہتا ہے تو مریض کی شفایابی نہیں ہوگی کیونکہ حکومت جس مرض کا علاج کر رہی ہے اُس کی تشخیص ہی غلط ہوئی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

1 comment:

  1. Is loadshedding a generation-capacity issue or a governance issue? That indeed is the mother of all questions. Let us begin with three facts. Fact one: the installed power generation capacity stands at 23,101MW (as per the Pakistan Economic Survey 2015-16). Fact two: on March 28, peak generation stood at 11,055MW. Fact three: on March 28, the government managed to utilise a mere 47.8 percent of the installed capacity.

    Conclusion: The country-wide loadshedding that took place on March 28 – for at least sixteen hours in Punjab’s rural areas and for a minimum of six hours in Punjab’s urban areas – was not a generation-capacity issue. Clearly, the real disease is ‘mis-governance’ while the government is treating capacity. That’s like a medical doctor treating the liver while the malfunctioning is with the heart of the patient. Clearly, the patient will never recover.

    Here’s the list of power plants that are lying idle because of mis-governance (the government continues to pay capacity payments to all of them): Uch Power, Nandipur, Halmore, Japan Power, Sepcol, Kohinoor and Bhiki. That’s a total of 2,784MW of idle capacity.

    Here’s the list of power plants that are running at 50 percent of capacity because of mis-governance: AES, Nishat and Atlas. That’s an installed capacity of 787MW running at 50 percent. Imagine the Guddu Thermal Power Plant with an installed capacity of 2,220MW is producing 350MW because of mis-governance. Clearly, the current loadshedding is not a capacity issue. And the only thing that the government is bent upon is increasing the capacity. Clearly, the patient will never recover.

    On March 28, country-wide demand, excluding Karachi, stood at under 15,000MW. And that translates to less than 65 percent of the installed capacity (meaning: if the government manages to utilise 65 percent of the installed capacity there will be little or no loadshedding). Here’s another stinger: On March 28, the system produced 11,055MW but the distribution companies were supplied around 9,700MW. That’s 1,355MW getting lost in thin air, euphemistically ‘line losses’, but in reality ‘mis-governance’.

    The real problem once again, euphemistically is ‘circular debt’, which in reality is ‘mis-governance’. To be sure, as the government increases the installed capacity, the spectre of circular debt is bound to grow bigger and become ever more threatening.

    Take an automotive manufacturing plant that produces 100 cars a day, for instance. Of the 100 cars being produced a day, 20 are stolen. Of the 100 cars being produced a day, 10 are sold but the sale proceeds are never recovered. This plant is bound to go bankrupt in no time. Let’s say that the government of Pakistan owns that plant. Ingeniously, the government of Pakistan’s solution to the problem is to set up another manufacturing plant (rather than putting an end to the theft and the issue of non-recovery).

    Roll back to March 7, 2013. The PML-N came out with a 104-page election manifesto. The term ‘energy’ appeared 42 times: the PML-N made 42 power sector-related promises. In 2013, the circular debt stood at Rs480 billion. In 2017, the circular debt stands at Rs414 billion. In 2014, line losses stood at 18 percent. There’s been no improvement. In 2014, recovery stood at 87.8 percent. There’s been no improvement.

    Loadshedding is not a generation-capacity issue. Loadshedding is because of mis-governance. The government is treating capacity; and mis-governance continues. The patient is not going to recover.

    ReplyDelete