Sunday, April 23, 2017

TRANSLATION: The judgment by Dr Farrukh Saleem

The judegment
تذکرہ ایک فیصلے کا
بیس اپریل کے روز ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ نے ’پانامہ کیس‘ میں جو فیصلہ دیا اُس کا آغاز 1969ء میں لکھے گئے ناول ’دی گاڈ فادر‘ سے لئے ’قول زریں‘ سے لے کر ’بین السطور‘ بہت کچھ ایسا سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے جن کی روشنی میں پاکستان کی سیاست کے محور اور مقصود کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ’’ہر خوش قسمتی ہے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔‘‘ اِس جملے کے بعد فیصلے میں آگے چل کر لکھا گیا کہ ’’حیران کن اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ یہ پورا مقدمہ اِس ایک جملے ہی کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے!‘‘
سپرئم کورٹ فیصلے کا بہ نظرغائر جائزہ لینے سے کئی حقائق معلوم ہوتے ہیں جیسا کہ اِس فیصلے میں جن جن شخصیات کے نام کتنی بار آئے اُن میں لفظ ’نواز‘ 235مرتبہ‘ لفظ قطری شہزادے ’ثانی‘ کا نام 123 مرتبہ‘ لفظ ’حسین‘ 111 مرتبہ‘ لفظ ’حسن‘ 43مرتبہ اور لفظ ’مریم‘ 24مربتہ آیا ہے جس سے یہ ضمنی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ مریم (وزیراعظم کی صاحبزادی) کا کردار فیصلہ سازوں کے ذہن میں شروع دن سے نہیں تھا لیکن فیصلہ سازوں پاکستان کے موجودہ وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کو نہیں بھول سکے جن کا نام فیصلے میں 23مرتبہ‘ جبکہ دلچسپ امر ہے کہ ’سمدھی‘ کا لفظ 5 مرتبہ دہرایا گیا۔ اِسی طرح شہباز شریف بھی اُن کی یاداشت میں رہا جن کا نام فیصلے کی ضخیم دستاویز میں 14مقامات پر تحریر ملتا ہے۔
سپرئم کورٹ کے معزز فیصلہ سازوں کے ذہن پر جو پہلو حاوی تھا اُس کا عکس الفاظ کے چناؤ اور استعمال سے بخوبی واضح ہے جیسا کہ لفظ ’پراپرٹی (جائیداد)‘ کا لفظ 483 مرتبہ‘ لندن 333 مرتبہ‘ قطر 192مرتبہ‘ جدہ 109مرتبہ اُور پانامہ 60مرتبہ استعمال ہوا۔ اِسی طرح ’آف شور (بیرون ملک خفیہ ادارے)‘ کا اصطلاحی لفظ 96 مرتبہ استعمال پایا گیا۔ منی (سرمایہ) 195 مرتبہ‘ کرپشن (بدعنوانی) 107مرتبہ‘ لانڈرنگ 57 مرتبہ جبکہ فیصلہ سازوں کی نظریں اور توجہات ذرائع ابلاغ پر بھی رہیں جنہوں نے ’ٹیلی ویژن‘ کا لفظ 33 مرتبہ مختلف مقامات پر بحوالہ استعمال کیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ لفظ ’بوگس‘ پانچ مرتبہ‘ ہوا۔ جس مقام پر ’بوگس‘ کا لفظ پہلی مرتبہ استعمال ہوا اُس جملے میں کہا گیا کہ ’’میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ یا تو میرے سامنے جائیداد کی فروخت کا جو معاہدہ (دستاویزی ثبوت) پیش کیا گیا وہ ’بوگس‘ تھا یا پھر جناب طارق شفیع کی جانب سے جو متعلقہ حلف نامہ دیا گیا وہ جنوئن (اصل) نہیں ہے۔‘‘ قطری شہزادے کا ذکر بھی فیصلے میں ملتا ہے جن کے بارے میں ایک مقام پر لکھا ہے کہ ’’میری رائے میں‘ دستاویز بوگس ہے‘ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ہمیں اِس بات میں کوئی امر مانع (حیل و حجت) نہیں کہ ہم اِس دستاویز کو رد (ریجیکٹ) کردیں۔‘‘

سپرئم کورٹ کے فیصلے میں ’حدیبیہ(Hudaibiya)‘ کا ذکر بھی پانچ مرتبہ ملتا ہے‘ جس کی وجہ سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار یقیناًایک مشکل میں پڑ گئے ہیں کیونکہ اُن کا کوئی نہ کوئی تعلق اِس پورے معاملے سے بنتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے لئے ایک اچھی خبر ہے کہ اُن کی صاحبزادی مریم نواز اِس پورے مقدمے میں مجرم نامزد ہونے سے صاف بچ گئی ہیں لیکن پر قانونی و اخلاقی دباؤ بدستور موجود ہے۔ وہ تین جج صاحبان جنہوں نے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے جیسا نتیجہ پیش نہیں کیا لیکن اُنہوں نے ایسی مشکلات کے پہاڑ کھرے کر دیئے ہیں‘ جن سے نمٹنا‘ اُور خود کو ’بے قصور‘ ثابت کرنا وزیراعظم کے لئے آسان نہیں ہوگا۔
آئندہ 60دن میں‘ وزیراعظم کا مستقبل ’جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)‘ طے کرے گی اور اِس ’جے آئی ٹی‘ اصطلاح کا استعمال فیصلے میں 32مرتبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے اور اس کے ذریعے کسی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ذمہ داروں یا حقائق کا تعین کرنے کی تاریخ زیادہ روشن نہیں لیکن اِس کے باوجود اگر ساکھ کے باوجود ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دی گئی ہے تو اِس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اِس معاملے میں فوج کے ادارے کو بھی شامل کر لیا جائے اور اُن کی کارکردگی کے احتساب کا موقع بھی ہاتھ آئے۔ فیصلہ سازوں کے ذہن میں آرمی اور ملٹری جیسی اصطلاحات بھی گردش کر رہی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں اصطلاحات کا استعمال 16مرتبہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

قانونی پیچیدگیاں اور باریکیاں اپنی جگہ‘ اگر ہم پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اُس ردعمل کو دیکھیں کہ انہوں نے پانامہ مقدمے کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کاماحول احتجاج سے گرما دیا ہے۔ اِس لمحۂ موجود میں وزیراعظم سیاسی طور پر تنہا دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اُن کے واحد اتحادی مولانا فضل الرحمن ہی باقی بچے ہیں اور یہ صورتحال اُن 5 درجن تجربہ کار سیاستدانوں کے لئے مایوس کن ہے جو ایک معمول کے مطابق قومی اسمبلی کی اُن 148نشستوں پر تواتر سے کامیاب ہوتے رہتے ہیں جو صوبہ پنجاب کے اضلاع روالپنڈی اور رحیم یار خان پر مشتمل ہیں۔

تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کے سامنے تین محاذ کھلے ہیں جن پر اُسے اپنا دفاع کرنا ہے۔ پہلا محاذ ’جے آئی ٹی‘ ہے۔ دوسرا محاذ اُن کی سیاسی تنہائی کا ماحول ہے اور تیسرا محاذ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف اُن کی ناکامی ہے۔ جہاں تک اِن محاذوں پر کامیابی کا تعلق ہے تو ’جے آئی ٹی‘ کے ذریعے سرخروئی حاصل کرنے کی واحد صورت یہی ہے کہ کسی صورت اِس معاملے کو طول دیا جائے اور حکومتی اختیارات کے ذریعے ’جے آئی ٹی‘ کی تشکیل پر اثرانداز ہونے کے ساتھ اِس کے کام کرنے کے آغاز میں تاخیری حربے اختیار کئے جائیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. The judgment begins by “the popular 1969 novel, ‘The Godfather’” and then quotes, “Behind every great fortune there is a crime”. The judgment then goes on to state: “It is ironical and sheer coincidence that the present case revolves around that very sentence…..”

    Personalities that were in the minds of the lordships: The name ‘Nawaz’ appears 235 times and ‘Thani’ (the Qatari prince) appears 123 times. Next is ‘Hussain’ 111 times, ‘Hassan’ 43 times and ‘Maryam’ 24 times (so ‘Maryam’ really wasn’t that much in the minds of the lordships). The lordships did not forget ‘Ishaq’ and that name appears 23 times. The lordships did not forget ‘Shahbaz’ either but that name appears only 14 times. Interestingly, the word ‘Samdhi’ appears five times.

    Other things that were in the minds of the lordships: ‘Properties’ have really been in the minds of the judges as the word appears 483 times. ‘London’, ‘Qatar’, ‘Jeddah’ and ‘Panama’ have really been in the minds of the lordships as they appear 333, 192, 109 and 60 times, respectively. ‘Offshore’ has also been in the minds of the lordships as it appears 96 times, ‘money’ 195 times, ‘corruption’ 107 times and ‘laundering’ 57 times. Yes, ‘television’ has also been in the minds of the lordships as it has been mentioned 33 times.

    ReplyDelete
  2. Intriguingly, the term ‘bogus’ appears five times. First instance: “I may, therefore, be justified in observing that either the copy of the Tripartite Sale Agreement produced before Court is bogus or the affidavit attributed to Mr Tariq Shafi is not genuine”. Regarding the letter from the Qatari prince the judgment states: “In our opinion, the document is bogus, has no legal or evidentiary value and we have no hesitation in outrightly rejecting it.”

    Yes, ‘Hudaibiya’ was mentioned five times and that may push the finance minister into an awkward corner-approver or accused? The good news for the PM is that Maryam Nawaz has come out relatively clean but the PM’s legal-cum-moral trial and tribulations continue. The three judges who did not disqualify him have actually added truckloads of difficulties to the PM’s existing stock of anxieties.

    For the next 60 days, the PM’s future will revolve around the JIT, a term that has been mentioned 32 times. Yes, JIT’s have a checkered history but the lordships have now sucked in the generals and put them on trial as well. For the record, the lordships were definitely thinking about the ‘army’ and the ‘military’ as the two terms were mentioned 16 times each.

    Legal anxieties aside, the PTI and the PPP are going to raise the political temperature both inside and outside the National Assembly and the Senate. The PM is heading into political isolation with Maulana Fazlur Rahman as his only political ally. This could send the wrong message to the five-dozen electables who routinely win in the all-important 148 constituencies that lie between Rawalpindi and Rahim Yar Khan.

    The three-time prime minister is now up against three fronts: the JIT, unprecedented political isolation and the losing battle against loadshedding. The only defence against the JIT: a policy of strategic delay.

    ReplyDelete