The trust deficit
عدم اعتمادی!
پاکستان کی سیاسی اُور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات اور ایک دوسرے کے حوالے سے عدم اعتمادی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ہمارے منتخب وزرائے اعظم (مختلف ادوار میں) محسوس کرتے رہے ہیں کہ فوجی قیادت (جنرلز) چاہتے ہیں کہ اُس اقتدار پر قبضہ کرلیں جو جائز طور پر ملک کی منتخب سیاسی قیادت کے لئے مخصوص ہے۔ ہماری سیاسی قیادت یہ بھی سمجھتی ہے کہ ایک مرتبہ منتخب ہونے کے بعد طرز حکمرانی‘ مالی وانتظامی امور خالصتاً اُن کی صوابدید پر ہونے چاہیءں‘ جن کے اِحتساب کا کسی کو حق نہیں اُور فوجی قیادت (جنرلز) جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہیں! یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ فوجی قائدین عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں تھے اور مقبولیت کی اُس مسند پر فائز رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو درحقیقت عوام کی منتخب کردہ قیادت کا حق ہے۔ ہمارے منتخب وزرائے اعظم فوجی قائدین (جنرلز) کی سوچ کو بھی ایک جیسا ہی قرار دیتے ہیں اور اُن سے منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ مصلحت یا دُور اَندیشی کی بجائے معاملات کو ’سیاہ و سفید‘ جیسے پیمانوں یا کسوٹی پر جانچتے ہیں!
اِس منظرنامے کا دوسرا رخ عسکری قائدین اور عسکری ادارے کی بحیثیت مجموعی سوچ ہے جس کا اظہار مختلف ادوار میں ہوتا بھی رہا ہے کہ فوج کا اقتدار میں آنا مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر اِس بات کو مرعوب سمجھا جاتا ہے البتہ فوجی قائدین اِس بات پر اتفاق کرتے رہے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں اپنی نااہلیت کی وجہ سے صرف ناکام ہی ثابت نہیں ہوتے بلکہ وہ قومی بحرانوں کی شدت میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی ایک سے بڑھ ایک مثال بن جاتے ہیں جو اُن کے منصب (عوام کے اعتماد) اور عوامی حیثیت کے شایان شان نہیں ہوتا اور اُن کے نزدیک قومی مفادات کی بجائے ذاتی و کاروباری ترجیحات زیادہ مقدم ہوتی ہیں! جہاں تک بھارت کے ساتھ معاملات کا تعلق ہے تو اعلیٰ سطحی فوجی قیادت چاہتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم ہو اور تعلقات معمول پر رہیں۔ فوجی حلقوں میں اِس تاثر کے بارے بھی قوئ اعتماد رکھا جاتا ہے کہ منتخب سیاسی قیادت نہ صرف فوج کے ادارہ جاتی تعلقات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ فوج کے اندر اتفاق رائے پیدا نہ ہو بلکہ اُن کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان اعتماد اور بھروسے کے رشتے کو بھی کمزور کیا جائے۔ منتخب قیادت دنیا کو یہ تاثر بھی دیتی ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ اِس کا فوجی ادارہ ہے‘ جسے ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں سال دوہزار آٹھ میں شائع ہونے والی ایک کتاب کا بطور خاص حوالہ دیا جا سکتا ہے جو پاکستانی نژاد امریکی تجزیہ کار شجاع نواز کی تصنیف ہے اور اِس کتاب ’کراس سورڈز: پاکستان‘ فوج کا ادارہ اُور داخلی جنگیں (محاذآرائیاں)‘‘ میں پاکستان کے طرزحکمرانی اور اداروں کے داخلی و آپسی تعاون کو موضوع بنایا گیا ہے۔
منتخب سیاسی قائدین اور عسکری حلقوں کے ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سال 2008ء سے پاکستان میں ’جمہوری دور کا 9 سالہ تسلسل‘ بھی ملک کے خوشخبری ثابت نہیں ہوسکا۔ اِس عرصے کے دوران کئی مرتبہ ایسے حالات بھی پیدا ہوئے جن میں فوج کے ادارے نے اقتدار حاصل کرنے کے مواقعوں‘ حالات اور مطالبات سے خود کو الگ رکھا۔ اِس مرحلۂ فکر پر پاک فوج کے ترجمان ادارے ’آئی ایس پی آر‘ کے ڈائریکٹر جنرل کا ایک ٹویٹر پیغام ملاحظہ کیجئے جو 29 اپریل کو جاری کیا گیا اور یہ 6 اکتوبر 2016ء کو رونما ہوئے ایک ملکی سلامتی سے متعلق معاملے سے تھا۔ مذکورہ ٹویٹ پیغام سے جو دو حقائق سامنے آئے وہ یہ ہیں کہ سول اور فوج کے ادارے کے درمیان بات چیت کے دیگر ذرائع کارآمد نہیں رہے اور دوسرا تاثر یہ ملا کہ سول اور فوج کے ادارے کے درمیان بداعتمادی پائی جاتی ہے۔
وزیراعظم کے قریبی حلقے بضد ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے سماجی رابطہ کاری کے وسیلے ٹویٹر کے ذریعے جاری کردہ پیغام درحقیقت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ وزیراعظم کے سیاسی مخالفین مانتے ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے فوجی ادارے کی ترجمانی کرتے ہوئے جس ردعمل اور خیالات کا اظہار کیا اُس کا اسلوب‘ متن اور پیغام درست ہیں۔ غیرسیاسی نکتۂ نظر یہ ہے کہ سات ماہ گزرنے کے باوجود بھی قومی سلامتی سے متعلق ایک غیرمحتاط طرزعمل کا مظاہرہ کرنے والے اصل مجرموں کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ غیرسیاسی تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’ڈائریکٹر جنرل‘ آئی ایس پی آر‘ کا ٹوئٹر پیغام مرض نہیں بلکہ اُس کی نشاندہی کرنے کا سبب ہے اور اِس مرض کی جڑ ’سول ملٹری عدم اعتمادی‘ ہے۔
وزیراعظم کے قریبی حلقے بضد ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے سماجی رابطہ کاری کے وسیلے ٹویٹر کے ذریعے جاری کردہ پیغام درحقیقت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ وزیراعظم کے سیاسی مخالفین مانتے ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے فوجی ادارے کی ترجمانی کرتے ہوئے جس ردعمل اور خیالات کا اظہار کیا اُس کا اسلوب‘ متن اور پیغام درست ہیں۔ غیرسیاسی نکتۂ نظر یہ ہے کہ سات ماہ گزرنے کے باوجود بھی قومی سلامتی سے متعلق ایک غیرمحتاط طرزعمل کا مظاہرہ کرنے والے اصل مجرموں کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ غیرسیاسی تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’ڈائریکٹر جنرل‘ آئی ایس پی آر‘ کا ٹوئٹر پیغام مرض نہیں بلکہ اُس کی نشاندہی کرنے کا سبب ہے اور اِس مرض کی جڑ ’سول ملٹری عدم اعتمادی‘ ہے۔
اعتماد کا فقدان آج کے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ایک خلیج کی صورت ظاہر ہوا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں فریقین سے اپنی اپنی جگہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور حکومت اُن اصل مجرموں کی نشاندہی تک کرنے میں ناکام رہی ہے جنہوں نے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا یہی وجہ تھی کہ فوج کے ادارے کی جانب سے وزیراعظم کے احکامات (نوٹیفیکیشن) کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اگر ہم قومی سلامتی سے جڑے اِس اہم معاملے (ڈان لیکس) کا جائزہ لیں تو پاک فوج کے ادارے کے تحفظات جائز ہیں‘ جس کا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں جس نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں قربانیاں نہ دی ہوں۔ منتخب سیاسی قیادت کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ جب پاک فوج کا سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) فوجیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اُنہیں پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ کرتے ہیں اور جب فوجی جوان اُن سے قومی سلامتی کے بارے سوالات پوچھ بیٹھیں تو وہ کیا جواب دیں گے؟
وسیع تر ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان پائی جانے والی ’عدم اعتمادی‘ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ جیسے بلند عہدے پر فائز رہنے والے کو اپنے خالص سیاسی اور ذاتی مفادات کو بھی ’وسیع تر قومی مفادات‘ کے آگے قربان کر دینا چاہئے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Our elected prime ministers feel that our generals are out to capture political space that rightfully belongs to the elected leadership. Our political leadership also feels that once elected, they should be free to govern for their mandated period without any check or balance and that the generals are an obstacle to democracy.
ReplyDeleteThere also is the feeling that the top general routinely steals both the limelight and the policy space that rightfully belongs to the civilian leadership. Our elected prime ministers also feel that the military mindset is fixed and that the military eyes see everything in either black or white.
Our generals, on the other hand, have, over time, convinced themselves that military rule is not the solution to Pakistan’s challenges and it is neither feasible within nor acceptable around the world. There’s a feeling in parts of the army hierarchy that the incidence of incompetence and corruption runs high within the elected leadership. There’s a feeling within the uniformed bureaucracy that the civilian half of the state is being run on personal rather than institutional lines for personal rather than national interests. Surprisingly, with regard to India, there seems to be a general consensus within the army high-command that the temperature between the two countries needs to be brought down.
There’s a feeling within parts of the army hierarchy that our elected leadership at times attempts to drive “a wedge between the people and the army” and tries to create “splits within the army”. And that the elected leadership gives “an impression to the rest of the world that the problem is the army and it needs to be sorted out” (Shuja Nawaz’s ‘Crossed Swords: Pakistan, its Army, and the Wars Within’).
ReplyDeleteThe sentiments of the elected leadership and those of the military hierarchy aside, the fact remains that there’s been an uninterrupted civilian rule for a nine-year period, which began in 2008. The other fact remains that the past nine years did give birth to a dozen vacuums but the generals refused to fill even one of them (read: taking over the government).
Now on to the DG ISPR’s tweet of April 29. The undisputed fact that took place before the tweet is the ‘breach of national security’ on October 6, 2016. The two post-tweet facts are: a civil-military communication breakdown and a very visible civil-military trust deficit.
The PM’s political allies are convinced that the DG ISPR’s tweet violates the constitution. The PM’s political opponents are adamant that the DG ISPR did the right thing. A non-political analysis is that a ‘breach of national security’, after a passage of seven months, has yet to be filled. A non-political analysis of the DG ISPR’s tweet is that the tweet is a symptom, not the disease. The disease is the civil-military trust deficit.
Yes, mistakes have been committed by both sides: the government has failed to identify the real culprits behind the national security breach and the military should not have ‘rejected’ a prime ministerial notification. To be certain, the aggrieved party in this case is the army (as the army is in a state of war and there isn’t a unit in the army that hasn’t sacrificed for the sake of this country). The elected leadership must understand that when the COAS stands in front of his troops, he demands their blood for the sake of Pakistan and, in return, the troops demand answers on issues of national security.
For the greater national interest, there should be frequent top-level civil-military huddles to bridge the trust deficit. Our three-time prime minister ought to subordinate his purely political and personal interests for the greater national interest.