Sunday, June 18, 2017

TRANSLATION: Power Play by Dr Farrukh Saleem

Power play
سیاست‘ کھیل اور سیاست!
پاکستان کی تاریخ کا اہم (گھمسان کا) ’مقابلہ (میچ)‘ ہو رہا ہے جس کا حصہ سیاسی ٹیم کے کھلاڑیوں میں مسلم لیگ (نواز)‘ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی جبکہ غیرسیاسی ٹیم میں سپرئم کورٹ آف پاکستان اُور پاک فوج کا ادارہ (جی ایچ کیو) ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں! سردست صورتحال یہ ہے کہ نواز لیگ مشکل میں پھنسی ہوئی ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ رونما نہیں ہو رہا کہ مسلم لیگ کو ’غیرمساعد حالات‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو بلکہ اِس سے قبل 1997ء میں جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو ’توہین عدالت‘ کے حوالے سے ایک پیشی کا سامنا تھا‘ جب 2014 ء میں تحریک انصاف نے پارلیمینٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا تھا‘ یا پھر 2016-17ء میں جب ’ڈان لیکس‘ کی صورت انکشافات سامنے آئے تھے اور رواں مشکل بیرون ملک اثاثہ جات‘ مشکوک آمدنی اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے جاری ’پانامہ کیس‘ کی سماعت ہے‘ جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ ’نواز لیگ‘ اِس مشکل صورتحال سے خود کو کس طرح بچا پاتی ہے!
ملک میں جاری اِس سیاسی کھیل کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ قریب چالیس برس قبل آئین پاکستان تخلیق کرتے ہوئے ’ریاست‘ کے اختیارات کو تین اداروں پر مشتمل ایک نظام میں تقسیم کر دیا گیا۔ قانون ساز اِدارے‘ عدلیہ اُور اَیگزیکٹوز (نوکرشاہی)۔ اگر ہم گزشتہ چھتیس برس کے دوران ریاست کے اِن تینوں ستونوں (اکائیوں) کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افسرشاہی نے اختیارات اپنے پاس مرکوز کر لئے ہیں اور نوکرشاہی (سرکاری ملازمین) چاہے یونیفارم پہنے ہوں یا نہ ہوں سیاسی حکمرانوں کے تابع سمجھے جا رہے ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ اختیارات پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اُور سمجھتی ہے کہ عدلیہ اور افسرشاہی اُن کے ماتحت ادارے ہیں۔

ماضی میں جھانکتے ہیں‘ جب 1997ء میں سپرئم کورٹ آف پاکستان ’توہین عدالت‘ کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم8 نواز شریف کو طلب کیا گیا جنہوں نے عدلیہ پر فتح پائی کیونکہ اُس وقت پیپلزپارٹی اور فوج کا اِدارہ سپرئم کورٹ کی مدد و حمایت کے لئے آگے نہیں آئے اور ’نواز لیگ‘ باآسانی سپرئم کورٹ کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئی!

سال دوہزار چودہ میں تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنے کا مقابلہ بھی نوازلیگ اِس لئے کامیابی سے کر پائی کیونکہ دیگر ریاستی کردار اُس کی حمایت کر رہے تھے اور اگر ہم ’جی ایچ کیو‘ کی بات کریں تو وہ اس نے اپنے آپ کو اِس معاملے معاملے سے بظاہر لاتعلق رکھا۔ اِس دھرنے کے دوران ’نوازلیگ‘ داخلی طور پر متحد رہی۔

سال 2016-17ء میں ڈان لیکس منظرعام پر آئیں۔ یہ کھیل (میچ) نواز لیگ اور فوج کے ادارے (جی ایچ کیو) کے درمیان تھا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اِس صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں لیکن نوازلیگ مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور ’جی ایچ کیو‘ اپنے اصولی مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔

پاناما کیس کا کھیل شروع ہوا تو اِس مرتبہ عدلیہ کا سامنا کرنے والی ’نواز لیگ‘ کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس مرتبہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے سپرئم کورٹ کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ کسی حد تک واضح ہے لیکن کیا اِس موقع پر ’جی ایچ کیو‘ بھی سپرئم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اِس بات کے امکانات معدوم ہیں کہ جی ایچ کیو ’نواز لیگ‘ کے ساتھ کھڑی ہو۔

سیاسی حالات تبدیل ہیں۔ پانامہ کیس بھی تحریک انصاف کے دھرنے سے مختلف ہے اور چاہے یہ بات تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن نواز لیگ سیاسی طور پر تنہا ہے اور داخلی سطح پر اِس کی صفوں میں انتشار اور دراڑیں دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ ماضی سے بڑی حد تک مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’نواز لیگ‘ کو نتائج بھی ماضی کے مقابلے مختلف جھیلنے پڑیں گے۔ سردست ’نواز لیگ‘ کی مرکزی قیادت ’شریف خاندان‘ کو مشکل درپیش ہے کہ وہ ’سپرئم کورٹ‘کو کس طرح اطمینان دلائیں اور پانامہ کیس سے سرخرو قرار پائیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کرپائے تو اِس مرتبہ وزیراعظم نوازشریف کے لئے اپنے عہدے‘ ساکھ اور پارٹی بچانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کھیل ’خطرناک دور (ریڈ زون)‘ میں داخل ہو چکا ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین امام)

2 comments:

  1. Major political players: PML-N, PTI and PPP. Non political players: The Supreme Court of Pakistan (SC) and the General Head Quarter (GHQ). Context: the PML-N has landed in hot water. This, however, is not the first time that the PML-N has landed in hot water. Other such major episodes include the 1997 Supreme Court contempt-of-court hearing against the-then PM Nawaz Sharif, the PTI’s dharna of 2014, the so-called Dawn Leaks of 2016-17 and, lastly, the on-going Panama case.

    Historical context: Forty-six years ago, the governance of the state of Pakistan, as per the constitution, was a tripartite system of “separation of power among a legislature, an executive and a judiciary”. For the past 36 years, the executive – whether uniformed or civilian – managed to monopolise state power, turning both the legislature and the judiciary into more or less its subservient entities.

    Fast forward to 2009. The judiciary began chipping away on the executive’s monopoly over state power – as one of the major consequences of the ‘Adliya Bachao Tehreek’. Fast forward to 2017. The legislature continues to act as a subservient entity to the executive but the judiciary has taken decisive strides towards playing its constitutionally-prescribed role in the constitutionally-prescribed tripartite system.

    ReplyDelete
  2. Rewind back. The 1997 Supreme Court contempt-of-court hearing against the-then PM Nawaz Sharif: The PML-N managed to win the power play because neither the PPP nor the GHQ came in aid of the Supreme Court. And the PML-N successfully engineered a split within the Supreme Court.

    The PTI’s dharna of 2014: The power play was between the PTI and the PML-N and the latter managed to win the power play because almost all major political players sided with it. And the GHQ (at least towards the end) turned steadfastly neutral. All through the dharna, the PML-N stood united within.

    The so-called Dawn Leaks of 2016-17: The power play was between the PML-N and the GHQ. Surely, both the PTI and the PPP were in the game to extract political mileage but the PML-N managed to win the power play as – towards the end – the GHQ decided to make a hasty, strategic retreat.

    The Panama case: The ongoing Panama case is different from the 1997 episode in the sense that a major political player – the PTI – is now standing with the Supreme Court. Additionally, it will be in the PPP’s political interest to side with the Supreme Court as well. The jury is still out on whether the GHQ will play a role or not but the GHQ coming out in support of the PML-N seems highly unlikely.

    The ongoing Panama case is different from the PTI’s dharna of 2014 whereby the PML-N is now, more or less, isolated in the political arena. Plus, the PML-N is a house united no more.

    To be certain, during serious power plays bureaucrats become fence-sitters and the existing cracks within the ruling party expand (even concrete cracks due to moisture change). The context of the current power play is very different from what happened in 1997, 2014 and 2016-17. The best case scenario for the PML-N is that PM Nawaz Sharif and his family satisfy the Supreme Court and come out clean. Otherwise, the trajectory of the current internal power play is entering the red zone for PM Nawaz Sharif.

    ReplyDelete