Sunday, June 4, 2017

TRANSLATION: Sri Lanka for Sale by Dr Farrukh Saleem

?Sri Lanka for sale
سری لنکا برائے فروخت؟
برطانیہ کے خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ نے اُنتیس مئی کو ایک سوال اٹھایا کہ ’’کیا سری لنکا برائے فروخت ہے؟‘‘ اِس سوال کا محرک بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیق اور حالات کا ایک جائزہ تھا جس میں کہا گیا کہ ’’سری لنکا عوامی جمہوریہ چین کی کمپنیوں کو اجازت دے رہا ہے کہ وہ اُس کے ہاں اثاثے خریدیں جبکہ وہ پہلے ہی چین کی جانب سے لئے گئے قرضہ جات کی ادائیگی میں سری لنکا کو دشواریاں درپیش ہیں۔‘‘ سال 2007ء میں ایگزیم بینک آف چائنا (EXIM Bank of China) نے سری لنکا کی بندرگاہ ’ہمبنٹوٹا پورٹ (Hambantota Port)‘ کی ترقی کے لئے مالی وسائل فراہم کرنا شروع کئے۔ اِس بندرگاہ کا ترقیاتی کام 1.3 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوا۔ 

چین کے مالی تعاون سے 900 میگاواٹ پیداواری صلاحیت رکھنے والا بجلی گھر (Norochcholai Power Plant) تعمیر کیا‘ جس پر 1.35 ارب ڈالر لاگت آئی۔ سال 2010ء میں بیجنگ نے سری لنکا کو 200 ملین (بیس کروڑ) ڈالر قرض دیا تاکہ وہ ائرپورٹ تعمیر کر سکے۔ سال 2010ء میں چین نے سری لنکا کے لئے مزید 810ملین ڈالر کا قرض دیا۔ سال 2011ء میں ماہندہ راجہ پکسہ (Mahinda Rajapaksa International Cricket Stadium) نامی کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر 700ملین (70کروڑ) روپے سے مکمل ہوئی۔ سال 2013ء میں ہمبنٹوٹا کے نزدیک ’مٹالا راجاپکسہ انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ تعمیر کیا گیا جس پر 26 ارب روپے لاگت آئی۔ اِسی عرصے میں ’سدرن ایکسپریس ہائی وے‘ بنائی گئی جس پر 778ارب روپے خرچ آیا۔ ہمبنٹوٹا سپورٹس زون کی تعمیر پر 15ارب روپے لاگت آئی جبکہ سال 2013ء میں چین نے سری لنکا کو 272 ملین ڈالر دیئے تاکہ اِس رقم سے اپنے ہاں ریلوے کا نظام فعال کر سکے۔

سال 2008ء اور سال 2015ء کے درمیان چین نے سری لنکا کو 6 ارب ڈالر بطور امداد اور قرضہ جات کی شکل میں دیئے۔ اگر ہم سال 2017ء کا جائزہ لیں تو ’ہمبنٹوٹا بندرگاہ‘ سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ’راجہ پکسہ نیشنل ٹیلی سینما سے بھی استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہندہ راجہ پکسہ انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم بھی تیار کر لیا گیا لیکن اس سہولت سے بھی استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ مٹالا راجہ پکسہ انٹرنیشنل ائرپورٹ بھی تیار ہے لیکن اِس سے بھی خاطرخواہ استفادہ نہ ہونے ہی کے برابر ہے۔

لب لباب یہ ہے کہ سری لنکا نے اپنے ہاں ترقی کے لئے چین سے قرض لیا لیکن جو منصوبے مکمل کئے گئے اُن سے استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے اب قرض کی اقساط اور اُن پر سود کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمبنٹوٹا بندرگاہ کی تعمیری لاگت کی واپسی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب سری لنکا کی جانب سے قرض کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں تو چین نے مذکورہ بندرگاہ کے سات میں سے چار حصوں کو 35برس کے اجارے پر اپنے نام کر لیا ہے۔ اس کے علاؤہ چین نے ہمبنٹوٹا کے علاقے ہی میں 15 ہزار ایکڑ اراضی بھی اجارے پر لے لی ہے۔ سری لنکا کو بجلی کے ایک پیداواری منصوبے (Norochcholai Power Plant) کے لئے حاصل کردہ قرض کی واپسی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ 17اپریل 2017ء کو مذکورہ بجلی گھر میں اس حد کی خرابی پیدا ہوئی کہ اِس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ سری لنکا چاہتا ہے کہ چین اِس بجلی گھر کا کنٹرول بھی سنبھال لے۔

سری لنکا حکومت کی ایک دہائی سے حکمت عملی رہی کہ وہ قرضہ جات سے ترقی کرے لیکن اب اِن قرضہ جات کی واپسی میں اُسے مشکلات درپیش ہیں اور وہ کوئی ایسا ذریعہ ڈھونڈ رہے ہیں جس سے قرضوں کی واپسی ممکن بنائی جا سکے۔ اِس مسئلے کا حل وزیراعظم رانیل وکرمے سنگھے (Ranil Wickermesinghe) کے نزدیک یہی بنتا ہے کہ بڑے ترقیاتی منصوبوں کا انتظامی کنٹرول چین کے حوالے کر دے لیکن اطلاعات کے مطابق چین کے سفیر یئی شیان لنگ (Yi Xianliang) نے وزیراعظم کو صاف الفاظ میں اِس چینی مؤقف سے آگاہ کر دیا ہے کہ اُن کا ملک ایسا کرنے کا خواہشمند نہیں اور ہمیں ہمارے پیسے واپس چاہیءں۔ چین سری لنکا کے خالی ائرپورٹس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔‘‘

سری لنکا کو اپنے قرضہ جات کی واپسی کا قضیہ درپیش ہے جن کا حجم 58.3 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور یہ ملک کی کل خام پیداوار کا 95.4فیصد بنتا ہے جو قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے۔ برطانوی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ایک مچھیرے ارونا روشنتھا (Aruna Roshantha) کا کہنا ہے کہ ’’سری لنکا کے عوام اس بات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے کہ اُن کا ملک چین کے حوالے کر دیا جائے اور یہ بات صرف چین تک ہی محدود نہیں بلکہ اگر دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک ایسا کرنا چاہے گا تو سری لنکن اِس اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سری لنکا کی زمین اور اثاثوں کی حفاظت کرے اور انہیں فروخت نہ کیا جائے۔‘‘ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. On May 29, the BBC asked, “Is Sri Lanka up for sale?” According to the BBC, “Sri Lanka is allowing Chinese firms to take over key assets, as it struggles to repay loans it was given by China”. In 2007, the EXIM Bank of China began funding Sri Lanka’s Hambantota Port. The port was completed at a cost of $1.3 billion. The Chinese financed and built the 900MW Norochcholai Power Plant at a cost of $1.35 billion. In 2010, Beijing lent Sri Lanka $200 million to build an airport. In 2012, China lent an additional $810 million.

    In 2011, the Mahinda Rajapaksa International Cricket Stadium was built at a cost of Rs700 million. In 2013, the Mattala Rajapaksa International Airport (near Hambantota) was built at a cost of Rs26 billion. The Southern Expressway was built at a cost of Rs776 billion. The Hambantota Sports Zone was built at a cost of Rs15 billion. In 2013, China lent to Sri Lanka and built $272-million railway.

    Between 2008 and 2015, China lent $6 billion in aid and loans. Fast forward to 2017. The port of Hambantota now lies, more or less, abandoned. The Rajapaksa National Tele Cinema now lies, more or less, abandoned. The Mahinda Rajapaksa International Cricket Stadium now lies, more or less, abandoned. The Mattala Rajapaksa International Airport now lies, more or less, abandoned.

    ReplyDelete
  2. Lo and behold, Sri Lanka is having trouble repaying the debt incurred to build the port of Hambantota. As a consequence, Beijing has now taken over four of the seven container berths on a 35-year lease. Beijing is also acquiring 15,000 acres around Hambantota.

    Lo and behold, Sri Lanka is having trouble repaying the debt incurred to build the coal-fired Norochcholai Power Plant. On April 17, 2017, the power plant broke down. On March 13, 2016, the power plant had ceased operations. In 2012, there was a leak in one of the boilers. Sri Lanka wants China to take over the power plant.

    Lo and behold, Sri Lanka is having trouble repaying the debt incurred to build the Mattala Rajapaksa International Airport. Sri Lanka offered China control over some of the largest projects – including the Mattala International Airport and the Port of Hambantota – in return for debt relief.

    According to Forbes, “Sri Lanka has a debt problem. After more than a decade of taking out huge loans to build large-scale infrastructure – most of which hasn’t yet produced adequate returns – the country is now struggling to make payments, and is looking for another way out”. Prime Minister Ranil Wickremesinghe is prepared to give control of large projects to Chinese companies. But according to Forbes, China’s Ambassador Yi Xianliang has clearly told PM Ranil Wickremesinghe that: “We are not interested. We want our money, not your empty airport”.

    Sri Lanka is having trouble repaying its debt. Sri Lanka now owes $58.3 billion to foreign lenders and 95.4 percent of Sri Lankan government’s revenue is now going into debt-servicing.

    According to the BBC, “We don’t like our land being given away to China,” says fisherman Aruna Roshantha, adding that “Not just China, if any country comes and takes land from Sri Lanka, we don’t like it. The government should protect our land, not sell it”.

    ReplyDelete