Venezuela's dept
وینزویلا: قرض کی وباء!
سال دوہزار سات سے دوہزار چودہ تک عوامی جمہوریہ چین نے ’وینزویلا‘ کو 63 ارب ڈالر قرض دیا۔ ایک دہائی قبل وینزویلا میں تیل و گیس کے قومی ادارے (Venezuela'a Petroleos de Venezuela PDVSA) نے چین کے قومی تیل و گیس کے ادارے (China National Petroleum Corporation CNPC) کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت قرض کی ادائیگی بصورت تیل (جنس) کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا۔ معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وینزویلا نے چین سے جتنا قرض لیا ہے اُس کی ادائیگی تیل اور اس کی فراہمی کی صورت کی جائے گی۔ دس برس تک چین کو تیل فراہم کیا جاتا رہا‘ جس کا اختتام 2014ء میں ہوا۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق ’’دوہزار سات سے دوہزار چودہ کے درمیان وینزویلا کی جانب سے چین کو فراہم کئے جانے والے خام تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے آس پاس رہی اور یہ سودا (معاہدہ) دونوں ممالک ہی کے لئے سودمند رہا لیکن جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 30ڈالر فی بیرل کی سطح تک کم ہو گئی جیسا کہ جنوری 2016ء میں ہوا تب سے پیدا ہونے والے فرق کو ختم کرنے کے لئے وینزویلا کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر ایک بیرل کی خریداری پر دو بیرل اصل معاہدے کی رو سے ادا کرے گا۔‘‘ برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’’جنوری 2017ء میں وینزویلا کے تیل وگیس کا ادارہ 10ملین بیرل تیل صاف کرنے جیسے ہدف کو حاصل نہ کرسکا جس کی وجہ سے قریب دس ماہ تک تیل کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ اِس عرصے کے دوران چین کو فراہم کیا جانیو الا 32لاکھ بیرل خام تیل بھی فراہم نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے قومی آمدنی کم ہوئی اور وینزویلا میں مہنگائی کی شرح تین عددی (ہندسوں) میں جا پہنچی۔ ملک میں اشیائے خوردونوش کی کمی ماضی میں ’سوویت یونین‘ کے دور تک جا پہنچی۔ تجارتی خبروں اور تجزئیوں کا معروف ٹیلی ویژن چینل ’سی این بی سی‘ کے مطابق ’’وینزویلا کے پاس اس قدر تیل کا ذخیرہ نہیں رہا کہ وہ اِس کے ذریعے قرض کی ادائیگی کر سکے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک چاہتا ہے کہ وہ وینزویلا سے جس قدر خام تیل قرض کی ادائیگی کی مد میں لے سکتاہے بٹور لے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ وینزویلا میں تیل کی پیداوار مطلوبہ مقدار کے مطابق کافی نہیں۔
فارن پالیسی میگزین کے مطابق ’’وینزویلا نے اقتصادی ترقی کی پائیداری‘ ضرورت اور قرض ادا کرنے کی اپنی مالی حیثیت کو مدنظر رکھے بغیر چین سے قرض لیا جو درحقیقت چین کی ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا وہ دنیا بھر میں استعمال کر رہا ہے۔ خاطرخواہ وسائل نہ ہونے یا قومی وسائل کے حجم سے زیادہ قرض لینے کی وجہ سے ان قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ بالخصوص وینزویلا کی صورتحال میں جب خام تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہوئی تو وینزویلا کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیاں اور تیل و گیس کشید کرنے والے آلات کی مرمت و تبدیلی کے لئے مالی وسائل کم پڑ گئے‘ جس سے حکومت کو اِس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ عوام اُس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ وینزویلا کی مشکلات میں پھنسی حکومت چین کی کئی لحاظ سے مقروض ہے اور اس کی قومی ترقی چین سے لئے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے!‘‘
قرضوں کی عالمی حکمت عملی اور ’نت نئے اِمکانات‘ کے بارے تجزیہ کار کیون ڈیلے (Kevin Daly) کے بقول ’’وینزویلا حکومت کو امور مملکت چلانے میں مشکلات درپیش ہیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کا جاری سلسلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف اداروں بشمول فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے۔‘‘ وینزویلا کے سابق منصوبہ بندی کے وزیر ’ریکارڈو ہویسمین (Ricardo Hausmann) جو آجکل ہارورڈ یونیورسٹی میں معلم (پروفیسر) ہیں کا کہنا ہے کہ وینزویلا بھوک کی گرداب میں پھنس گیا ہے اور وہ اب لامحالہ ’اَشیائے خوردونوش‘ درآمد کرنے کی بجائے بیرونی قرضہ جات کی اصل رقم اور اس پر سود کی ادائیگی پر تمام مالی وسائل خرچ کرنے پر مجبور ہے۔‘‘ الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق ’’وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس (Caracas) کی سڑکوں پر احتجاج ہر دن کا معمول بن گئے ہیں اور یہ احتجاج اکثر پرتشدد بھی ہوجاتے ہیں۔ وینزویلا ایک ایسے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے جس میں اشیائے ضروریہ و خوردونوش کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی کمی ہو گئی ہے!‘‘
لب لباب یہ ہے کہ وینزویلا اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے سے خود کو بچانے کی کوشش میں ڈبوتا جا رہا ہے۔ فارن پالیسی میگزین کے بقول ’اقتصادی تباہی کے دہانے پر پہنچنے میں وینزویلا چین کی مالی معاونت سے پہنچا ہے!‘
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین امام)
From 2007 to 2014, China lent Venezuela a wholesome $63 billion. A decade ago, Venezuela’s Petroleos de Venezuela (PDVSA) – the Venezuelan state-owned oil and gas company – entered into an oil-for-loans deal with China’s state-run China National Petroleum Corporation (CNPC).
ReplyDeleteUnder the agreement, Venezuela borrowed the amount from China and “agreed to pay back in crude and fuel deliveries to state-run Chinese firms”.
Lo and behold, in 2014, the decade-long oil boom ended. According to the Foreign Policy magazine, “With most lending agreed to when oil hovered at more than $100 a barrel, as it did for most of 2007-2014, it seemed a good deal for both sides. However, when oil dropped to close to $30 a barrel in January 2016, this caused Venezuela’s price tag for serving its debt to explode. To repay Beijing today, Venezuela must now ship two barrels of oil for every one it originally agreed to”.
According to Reuters: “At the end of January 2017, [the] PDVSA was late on nearly 10 million barrels of refined products…with shipments delayed by as much as 10 months. It also failed to make timely deliveries of another 3.2 million barrels of crude shipments to CNPC”. The report added: “Because oil accounts for almost all of Venezuela’s export revenue, PDVSA’s crisis extends to a citizenry suffering through triple-digit inflation and food shortages reminiscent of the waning days of the Soviet Union”.
According to CNBC, the satellite business news television: “PDVSA clearly does not have enough oil or money to satisfy its many creditors. At this point, everybody is trying to collect pending debts from PDVSA by receiving cargoes. But production is not enough”.
ReplyDeleteForeign Policy further opines: “Large-scale lending projects without a focus on their economic viability and the repayment capacity of the borrowers are hardly the soundest basis for financial diplomacy of the sort China is attempting to practice. At best, it will lead to mutual suspicions and tensions between lender and borrower. At worst, it will prove financially ruinous for countries burdened with debts they cannot repay in foreign currency they do not possess. With oil prices down, the country is unable even to repair rigs or pay workers to generate income, and the government now faces the prospect of a mass uprising. But Venezuela’s ruinous state has more to do with China than one might think”.
Kevin Daly, an emerging market debt specialist, told the Financial Times, “The backdrop suggests we are moving closer to a credit event. The [Venezuelan] government is becoming more dysfunctional, the protests are becoming more fevered and it does feel like there could be splits in the government and military”.
Ricardo Hausmann, Venezuela’s former planning minister and current Harvard University professor, has called Venezuela’s debt “hunger bonds”. He has alleged that the current government is “siphoning money away from food imports to meet interest and principal payments on country’s…external debt”.
According to Al Jazeera, “Venezuela’s capital, Caracas, has seen almost daily demonstrations in recent weeks, some of which have turned violent. The country is in the middle of a crippling economic crisis that has led to high food prices and a lack of basic goods”.
Lo and behold, “Venezuela’s bonds are [now] the highest-yielding of any emerging market security due to concerns about default”. Foreign Policy concludes that “Venezuela’s road to disaster is littered with Chinese cash”.