Sunday, September 24, 2017

TRANSLATION: Twin Deficits by Dr. Farrukh Saleem

Twin deficits
مالیاتی خسارہ در خسارہ!
پانامہ پیپرز کے عنوان سے ’خفیہ اثاثہ جات‘ رکھنے والے چند بااثر‘ سرمایہ دار اُور مختلف ممالک کے حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام ’اپریل 2016ء‘ میں بے نقاب ہوئے۔ یہ انکشافات دل ہلا دینے والے تھے کیونکہ صرف دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ فہرست میں اُن پذیر ممالک کے قومی فیصلہ سازوں کا ذکر بھی درج تھا جہاں کے عوام غربت و افلاس سے دوچار‘ بنیادی سہولیات و ضروریات سے محروم ہیں اور جن ممالک پر قرضوں کا بوجھ اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اقتصادی ترقی تو دور کی بات لیکن اِن ممالک کے لئے قرض و سود کی اقساط ادا کرنے کے لئے مزید قرض حاصل کرنے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ بدعنوان حکمرانوں کی فہرست میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمراں ’نواز شریف خاندان‘ کا نام بھی شامل تھا‘ جن کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں نے عدالت سے رجوع کیا اور قریب 17ماہ میں کوئی دوسرا کام نہیں ہوا مگر ’پانامہ پیپرز‘ کی تہہ میں چھپے حقائق کھوج نکالے گئے لیکن اگر ہم ’پانامہ پیپرز‘ معاملے کا جائزہ لیں تو پاکستانی سیاست کی طرح یہ معاملہ بھی اُن ’خصوصی افراد‘ اور ملک کے ’خصوصی اداروں‘ کے درمیان تنازعہ تھا‘ جن کی ترجیحات میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کی سیاست 1 ہزار 174 خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ وہی خاندان ہیں جو ملک کے قانون ساز قومی و صوبائی اور ایوان بالا (سینیٹ) اسمبلیوں کی رکنیت رکھتے ہیں!

پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے ایک تحقیق بطور خاص ’دعوت فکر‘ ہے۔ ڈاکٹر مغیث احمد نے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’صوبہ پنجاب کے شہری و دیہی علاقوں میں ووٹروں کے رجحانات‘ پر مبنی ایک جائزہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ ’فیصل آباد‘ میں ہوئے 1977ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء اور 2002ء میں ووٹوں کی اکثریت ’’جٹ‘ راجپوت‘ آرائیں‘ بلوچ‘ گجر اُور کھرل‘‘ برداریوں کے حصے میں آئی اور اِنہی برادریوں سے تعلق رکھنے والے انتخابی معرکے میں کامیاب رہے۔
’’مردم شماری 2017ء‘‘ کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان صرف 1 ہزار 174 خاندانوں کا ملک نہیں بلکہ اِس میں 3 کروڑ سے زائد خاندان آباد ہیں اُور انہی تین کروڑ خاندانوں کے لئے دو اقتصادی (درآمدی و برآمدی) خسارے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

تجارتی خسارہ: پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا جس طرح مالی سال 2016-17ء کے دوران دیکھنے میں آیا کہ ’’53 ارب ڈالر مالیت کی درآمدات کی گئیں۔‘‘ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلے کبھی نہیں ہوا کہ تجارتی خسارہ 32.58 ارب ڈالر رہا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر 32.58 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیسے پورا کیا جائے؟ خوش قسمتی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہر سال قریب ’20 ارب ڈالر‘ کی ترسیلات زر کرتے ہیں۔

سوال: بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر شامل کرنے کے بعد باقی ماندہ ’12 ارب ڈالر‘ کا تجارتی خسارہ کس مد سے پورا کیا جائے؟ جواب: قرض‘ قرض اور مزید قرض لے کر ہرسال بڑھتے چلے جانے والے تجارتی خسارے کو پورا کیا جائے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہی ہو رہا ہے کہ ملکی جاری (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ 12.09 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہو جیسا کہ مالی سال 2016-17ء کے دوران دیکھنے کو ملا۔ سوال: ’12 ارب ڈالر‘ سے زائد جاری ملکی (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ کس طرح پورا جائے؟ جواب: قرض‘ قرض اور مزید قرض لئے جائیں۔

تصور کیجئے کہ پاکستان کا جاری (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ’چار فیصد‘ سے زیادہ ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی روپے (کرنسی) پر دباؤ ہے اور اِس کی قدر میں غیرمعمولی کمی بلکہ مزید کمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ عام پاکستانیوں کے لئے روپے کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ انہیں پیٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی‘ کوکنگ آئل‘ دالیں اور چائے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں یہ اضافہ 1 ہزار 174 خاندانوں کے لئے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی جاتی ہے تو اِس کا مالیاتی طور پر مطلب یہ ہوگا کہ ملک کے تین کروڑ خاندانوں پر ’25ہزار روپے سالانہ‘ کا اضافہ بوجھ ڈال دیا جائے لیکن 1 ہزار 174 برسراقتدار (حکمراں) خاندانوں کے لئے یہ امر لائق تشویش نہیں۔

اقتصادی خسارہ پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومتی اخراجات اور آمدنی میں توازن باقی نہ رہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 1.863 کھرب روپے ہے جو ملکی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے۔

خطرے کی گھنٹی: پاکستان کے ہر ایک خاندان کے حساب سے ہماری حکومت کو سالانہ 60ہزار روپے مالیاتی خسارہ (فسکل ڈیفیسٹ) برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور اِس خسارے کو بھی پورا کرنے کی صورت یہی ہے کہ قرض‘ قرض اور مزید قرض لئے جائیں۔

مالیاتی خسارہ تمام اقتصادی خرابیوں کی جڑ ہے۔ پاکستان کے مالیاتی خسارے سے متعلق حکومتی اعدادوشمار 6فیصد کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اگر چارسو ارب روپے کا گردشی قرض‘ دوسوپچاس ارب روپے کے واجب الادأ ٹیکس ادائیگیاں‘ 173ارب روپے کی مقامی قرضہ جات کو شمار کیا جائے تو قومی مالیاتی خسارہ{ ‘ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے ’9 فیصد‘ سے زیادہ ہو جائے گا۔ اگر ہم کرنٹ اکاونٹ اور مالیاتی (فسکل) خسارہ یکجا کر کے شمار کیا جائے تو یہ ’قومی خام آمدنی (جی ڈی پی) کے 13فیصد حصے کے مساوی ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی ’اقتصادی سیکورٹی‘ کو خطرات درپیش ہیں اور یہ خطرات اِس حد تک گھمبیر ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی بھی ایسے دگرگوں اقتصادی حالات نہیں رہے۔ لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جب ہم قومی سلامتی کی بات کرتے ہیں تو ’اقتصادی سیکورٹی‘ جیسے اہم محرک کو مسلسل نظرانداز
(منہا) کر دیتے ہیں!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. The Panama Papers-related disclosures came out in April 2016. For the past 17 months, all that we did was Panama. And Panama has become an intra-elite conflict. All we talk about is politics and Pakistani politics is exclusionary politics with extractionary institutions. Pakistani politics is all about 1,174 families, the members of which occupy the 1,174 seats in the Senate, the National Assembly and the provincial assemblies.

    Dr Mughees Ahmed, in ‘Voting behavior in rural and urban areas of Punjab’ , scrutinised the results of elections held in Faisalabad during 1977, 1985, 1988, 1990, 1993, 1997 and 2002 and discovered that only candidates from five biradaris – Jatt, Rajput, Arain, Baloch, Gujjar and Kharal – had ever won elections.

    Census 2017 tells us that there’s more to Pakistan that just the 1,174 families: Pakistan has 30.2 million families. And what matters to those 30.2 million families are the twin deficits.

    Trade deficit: Never in Pakistan’s history have we imported goods and services worth $53 billion (that’s the import bill for fiscal year 2016-17). Never in Pakistan’s history have we had a trade deficit of $32.58 billion. How are we going to fill the trade deficit worth $32.58 billion? Fortunately, our expatriate workers send back around $20 billion annually.

    Question: How are we going to fill the remaining $12 billion? Answer: Debt, debt and more debt. Never in Pakistan’s history have we had a current account deficit of $12.09 billion (recorded for 2016-17). Question: How are we going to fill the remaining $12 billion? Answer: Debt, debt and more debt.

    ReplyDelete
  2. Imagine: a current account deficit of over four percent of the GDP (the current account deficit is a broader trade measure that encompasses the trade deficit along with other components). This means devaluation – probably massive devaluation. For the 30.2 million Pakistani families that means even more expensive petrol, diesel, electricity, LNG, cooking oil, lentils and tea.

    For the 1,174 families, it doesn’t matter much. In monetary terms, devaluation would mean an additional burden of over Rs25,000 for the 30.2 million families. For the 1,174 families, it doesn’t matter much.

    Fiscal deficit: This is the difference between our government’s expenditure and the revenue that it generates. Imagine: the government has incurred a fiscal deficit of Rs1.863 trillion (in absolute terms, this is the largest-ever deficit in our history). Red alert: On behalf of each and every Pakistani family, our government has incurred a fiscal deficit of Rs60,000 per family. Question: How are we going to fill the fiscal deficit of Rs1.863 trillion? Answer: Debt, debt and more debt.

    Fiscal deficit is the root of all financial evil. Imagine: a fiscal deficit of over six percent of the GDP. And yes, this deficit does not include the Rs400 billion worth of circular debt. Yes, this deficit does not include the Rs250 billion that the government owes as refunds to taxpayers. Yes, this does not include the Rs173 billion taken on as loans by the public sector enterprises (PSEs). Add them all up and the real fiscal deficit stands at over nine percent of the GDP.

    The twin deficits – current account and fiscal – add up to over 13 percent of the GDP. What that means is that our economic security is under threat – under threat like never before. And economic security continues to be the most neglected element of our national security.

    ReplyDelete