Sunday, October 22, 2017

TRANSLATION: Unsound projects by Dr. Farrukh Saleem

Unsound projects
ناپائیدار حکمت عملیاں!
جنگ کے اہداف نہیں بلکہ جنگ کے ہتھیار بدل گئے ہیں۔ تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب فوجیں فتوحات نہیں کرتیں۔ کسی ملک کی اقتصادی حالت اِس حد تک غیرمستحکم‘ ناپائیدار‘ غیرمضبوط‘ ناقص اور لاغر کردی جاتی ہے کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔ 1970ء کی دہائی میں امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) نے خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ کو حکم دیا تھا کہ ’’چلی کی اقتصادیات کا بیڑا غرق کردیا جائے۔‘‘ یہ راز امریکہ حکومت کی خفیہ خط و کتابت سے معلوم ہوئی اور جب ہم موجودہ صورتحال میں پاکستان کی اقتصادیات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی قابل بیان حالت میں نہیں ہے۔
پاکستان کے سیاسی فیصلہ سازوں کا طرزعمل رہا ہے کہ یہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر سال پہلے سے موجود قرضوں کی ایک تہہ (پرت) بڑھ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضوں پر منحصر اقتصادی نظام مرتب کرکے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

ہم سب عینی شاہد ہیں کہ سیاسی حکومتوں نے سیاسی مفادات کے لئے ایسے ترقیاتی منصوبوں میں حد سے زیادہ مالی سرمایہ کاری کی‘ جن کے فوائد محدود اور ان سے اقتصادی لاغرپن کا علاج ممکن نہیں۔ ستائیس کلومیٹر طویل اورنج لائن منصوبہ‘ لائٹ ریل ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم پر لاگت کا تخمینہ 162 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اگر ہم اِس رقم کو مسافروں پر منتقل کریں تو فی ٹکٹ 175 روپے کا بنے گا جبکہ حکومت نے فی ٹکٹ قیمت ’20 روپے‘ مقرر کی ہے اور اس قدر کم قیمت مقرر کرنے سے یومیہ چار کروڑ روپے جبکہ سالانہ ’چودہ ارب روپے‘ خسارہ ہوگا۔ علاؤہ ازیں چار ارب روپے اِس نظام کی دیکھ بھال اور اسے فعال کرنے کے لئے الگ سے درکار ہوں گے۔ تصور کیجئے کہ چین سے حاصل کردہ قرضہ رعائتی شرائط پرہے لیکن اس کی مالیت اور اِس پر سود کی ادائیگی 10ارب روپے سالانہ بوجھ کا باعث بنے گی۔ ذہن نشین رہے کہ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ چین سے حاصل کردہ قرضہ جات اور اِن قرضہ جات پر سود کی ادائیگی ڈالرز میں کرنا ہوگی جبکہ دوسری طرف اِس قرض سے بنایا جانے والے ترقیاتی منصوبے سے بھی یومیہ بنیادوں پر خسارہ ہوگا!

تصور کیجئے کہ حکومت پاکستان نے ضمانت دی ہے کہ وہ ’تھر کول بلاک ون‘ پاور جنریشن کمپنی پرائیویٹ لیمٹیڈ سالانہ 34.49فیصد ادائیگی کرے گی۔ اس منصوبے کی کل لاگت 767 ملین ڈالر ہے جس میں 575 ملین ڈالر قرض شامل ہے۔ اِسی طرح ’ساہیوال کول پاور پراجیکٹ‘ کے لئے حکومتی ضمانت 27.2فیصد ہے۔ اس منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ 956 ملین ڈالر ہے جس میں 723 ملین ڈالر قرض شامل ہے۔

بجلی کی کمی سے صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں لیکن اگر اِن صنعتوں کو مہنگے داموں بجلی فراہم کی جائے گی تو پیداواری صلاحیت اور پیداواری اخرجات بڑھنے سے پاکستانی مصنوعات ملکی یا غیر ملکی منڈیوں میں قیمتوں کا مقابلے کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔ جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی آتی چلی جائے گی جبکہ حکومت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔ نندی پور منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 329 ملین ڈالر سے بڑھ کر 847ملین ڈالر ہو چکا ہے۔ نیلم جہلم منصوبے پر لاگت 15ارب روپے سے بڑھ کر 414 ارب روپے ہو چکی ہے۔ نیو اسلام آباد ائرپورٹ منصوبے پر لاگت 37ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے ہو چکی ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ میں فرنس آئل سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 18.17 روپے فی کلوواٹ‘ ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 27.91 روپے فی کلوواٹ جبکہ گیس سے 8.44 روپے فی کلوواٹ ہے۔

القصہ مختصر پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسا ترقیاتی منصوبہ تخلیق اور شروع کیا گیا جس سے حاصل ہونے والے نتائج ’ناپائیدار‘ ہیں۔ آج کی دنیا میں ’قرض‘ ایک نیا جنگی ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعے اقتصادی ہنگامی حالت کا نفاذ ہوتا ہے جس کے اپنے سیاسی اہداف ہوتے ہیں۔ انہی ناپائیدار و غیرحقیقی اہداف والے ترقیاتی منصوبوں ے باعث کوئی ملک تعلیم و صحت جیسے بنیادی شعبے میں خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتا اور یہی آج کی دنیا میں جنگوں کی چوتھی ترقی یافتہ (فورتھ جنریشن) صورت ہے۔ آج کی دنیا میں میزائلوں اُور ٹینکوں‘ کی جگہ ’ناپائیدار اقتصادی منصوبوں‘ نے لے لی ہے۔ اب کھلے عام گولہ بارود سے جنگ نہیں ہوتی بلکہ خفیہ انداز میں اقتصادی معاہدے ہوتے ہیں۔ آج کی جنگ میں فوجی نہیں بلکہ اقتصادی محاذ کھل گئے ہیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. ‘Unsound economic projects’ are the new weapons of war. In the 70s, President Richard Nixon ordered the CIA to “make the [Chilean] economy scream (declassified documents relating to the military coup, September 11, 1973)”. Lo and behold, Pakistan’s economy is screaming today.

    For the record, Pakistani leaders stand convinced of taking on additional layers of debt on top of existing layers of debt. For the record, Pakistani leaders stand convinced of ‘adopting economic policies that are bound to impoverish’ Pakistan.

    For all of us to see, ‘uneconomical, financially non-viable and fiscally unsound’ projects are being bankrolled. The 27-kilometer Orange Line, the light rail rapid transit system, is expected to cost Rs162 billion. The estimated breakeven is Rs175 per ticket. At Rs20 a ticket, the Orange Line will lose Rs40 million a day or Rs14 billion a year every year. Plus, an additional Rs4 billion for operation and maintenance. Assuming that the Chinese loan is concessional, the debt payment of interest and principal is estimated at around Rs10 billion a year. Red alert: The debt burden is in dollars and the project loses money.

    Imagine, the Government of Pakistan has guaranteed an annual Return on Equity (ROE) of 34.49 percent for the Thar Coal Block-I Power Generation Company (Private) Limited. The project cost is estimated at $767 million of which $575 million is debt. The interest rate used as the reference is Inter Bank Offer Rate (LIBOR) of 0.45 percent plus 450 basis points.

    ReplyDelete
  2. For the record, the annual Return on Equity guaranteed by the Government of Pakistan on the Sahiwal Coal Power Project stands at a tall 27.2 percent. The interest rate used as the reference is Inter Bank Offer Rate (KIBOR) of 11.91 percent plus 350 basis points. The project cost is estimated at $956 million of which $723 million is debt.

    Red alert: This is awfully expensive electricity. Our industry cannot produce exportable competitive products with this electricity. Resultantly, we will have a huge dollar-denominated debt servicing burden but no additional exports.

    Nandipur has gone from $329 million to $847 million. Neelum-Jhelum has gone from Rs15 billion to Rs414 billion. The New Islamabad Airport has gone from Rs37 billion to over Rs100 billion. Imagine, the tariff for Nandipur is: Refined Furnace Oil Rs18.17/kWh; High Speed Diesel Rs27.91/kWh and Gas Rs8.44/kWh.

    Pakistan is getting crowded with ‘unsound economic projects’. Debt is the new weapon of war – debt that leads to ‘emergency managers’ and ‘emergency managers’ then “turn over the reins of the economy” to their political masters. The combination of unsound economic projects, debt, enforced austerity (by the IMF) and under-investment in health and education are the new weapons of war. This is what the 4th Generation War is all about.

    Missiles, as weapons of war, are out. Unsound economic projects, as weapons of war, are in. Tanks, as weapons of war, are out. Debt, as a weapon of war, is in. Cold start, as a weapon of war, is dead. An economic strategy based on unsound economic projects is in. Open warfare is out; covert economic operations are in. Military force is out; financial warfare is in.

    ReplyDelete