Friday, December 29, 2017

Dec 2017: Report on Kelash, Chitral by NCHR

chitral kalash Banner Graphics

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ثقافت: مٹتے نقوش!
حکومت پاکستان نے عالمی معاہدے (پیرس پرنسپل) کے تحت سال 2012ء میں قانون سازی (Act XVI) کے ذریعے ’’اِدارہ برائے تحفظ انسانی حقوق (نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس)‘‘ تشکیل دیا‘ جس کا بنیادی مقصد آئین کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے میں ریاست کے واضح کردار کے عملی اطلاق کی کوشش ہے۔ اِس خصوصی ادارے کے تحت شکایات درج کرانے کے لئے ویب سائٹ (nchr.org.pk) پر سہولت دی گئی ہے کہ کوئی بھی پاکستانی (بلاامتیاز اور بناء جنسی تفریق) کسی اِنسانی حق کی تلفی بارے میں اپنی شکایات درج کرا سکتا ہے یا حکومت پاکستان کواِس بارے مطلع کر سکتا ہے۔ اِس ادارے کی فعالیت بڑھانے پر تو بات ہوسکتی ہے لیکن اِس کے وجود کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں اور اگرچہ پاکستان نے عالمی معاہدے ہی کے تحت ایک ادارہ قائم کیا ہو لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی اپنی ضرورت بھی ہے اور اِس ادارے کو زیادہ خودمختاری‘ آزادی اور وسائل دے کر نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر بنائی جا سکتی ہے بلکہ پاکستان میں جن تہذیبی نقوش کو خطرات لاحق ہیں‘ اُن کی سرپرستی تو بہرحال کی جا سکتی ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق کے قیام کا مقصد‘ کارکردگی اور عزم کا بیان چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) علی نواز چوہان کے اِس جامع قول سے اَخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’’اِنسانی حقوق کا تحفظ بناء کوشش و محنت ممکن نہیں‘ جس کے لئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے اور اِس عملی جدوجہد میں قربانیاں دینے کا حوصلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے عمومی تصور دھندلا ہے۔ ہم اداروں سے کارکردگی کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور جب تک سماجی رویئے تبدیل نہیں ہوتے‘ اُس وقت تک صرف اداروں کے قیام سے بہتری نہیں آ سکتی۔

نیشنل کمیشن آف ہیومین رائٹس (اسلام آباد) نے ’کیلاش قبیلے‘ کے حوالے سے قریب پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل رپورٹ جاری کی ہے‘ جس میں خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کی تین وادیوں (رامبور‘ بمبوریت اُور بریڑ) میں آباد اُن تین ہزار افراد کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے جو حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے سبب شدید سماجی دباؤ میں ہیں اور اِس دباؤ کی وجہ سے وہ اپنا مذہب‘ رہن سہن‘ اُور ثقافت ترک کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں اِس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہتا ہے تو کسی دن کیلاش قبیلے کی ثقافت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ کیلاش قبیلہ اور اس کا تحفظ ایک حساس موضوع ہے جس کے بارے میں چترال سے باہر رہتے ہوئے بہت کچھ سوچا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں حکومتی اِدارے اور قوانین کا اثرورسوخ کمزور دکھائی دیتا ہے۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں اور اِس کی قدر بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسے گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں پر یقین رکھنے والے پھول اپنی مہک اور الگ شناخت سے ’اِسلامی نظریاتی‘ ملک کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کا قدیم ترین و زندہ ثقافت ’کیلاش (کیلاشہ)‘ کی‘ تو غلط نہیں ہوگا۔ سکندر اعظم کی افواج کے ہمراہ آنے والے اِس قبیلے کے لوگ اپنی صدیوں پرانی زبان اور رہن سہن کو اپنائے ہوئے ہیں‘ جنہیں مقامی افراد ’کافر‘ بھی کہتے ہیں‘ تاہم یہ لوگ کسی بھی مقامی یا غیرمقامی گروہ کے لئے خطرہ نہیں اور نہ ہی اِن کی وجہ سے کبھی امن و امان کی صورتحال پیش آئی ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق ’’ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے منسلک وادیوں (بشمول ضلع چترال) میں اسلام اُنیسویں صدی کے اختتام تک پوری طرح پھیل چکا ہوگا۔‘‘ 

تو کیا کیلاش اپنا وجود کھو دیں گے؟ 
یہ ایک مشکل سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے والے اُن حکومتی کوششوں کو دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جو کیلاش ثقافت کو بچانے کے لئے ہونی چاہئے۔ ایک ایسا قبیلہ جو اپنے حال میں خوش ہے اور خوش رہنا چاہتا ہے جو مذہبی رسومات‘ تاریخ اور ثقافت کے نقوش کو سینے سے لگائے گردوپیش میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثر سے خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں لیکن پہلے جیسا توانا نہیں رہا‘ اور جاری مزاحمت زیادہ عرصہ برقرار رہتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ بہت سے ایسے بیرونی دباؤ بھی ہیں جن کے سامنے آج کا کیلاش نوجوان بالخصوص لڑکیاں ہار مان رہی ہیں اور اگر مذہب کی تبدیلی کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو (اندیشہ ہے کہ) اِس سے باقی ماندہ تین یا چار ہزار کیلاشی لوگ بھی ختم ہو جائیں گے اور اُن کا ذکر صرف تاریخ کی کتب ہی میں ملے گا۔

’نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس‘ کی رپورٹ کا تیسرا باب ’زبردستی مذہب کی تبدیلی‘ سے متعلق ہے جس میں کیلاش قبیلے کے بزرگوں سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مذہب کی تبدیلی کے لئے کیلاش قبیلے پر زور زبردستی نہیں کی جا رہی لیکن نوجوان سیاسی و سماجی ترقی کے مواقعوں سے مستفید ہونے کے لئے اپنے ماضی سے ناطہ توڑ رہے ہیں۔‘‘ اِس رپورٹ کا یہ بیانیہ کیلاش مذہب و ثقافت ترک کرنے والوں سے متعلق لاتعداد صحافتی رپورٹوں کے برعکس نتیجۂ خیال ہے لیکن بہرصورت یہ ذمہ داری حکومت پاکستان ہی کی بنتی ہے کہ آئین کی متعدد شقوں بالخصوص آرٹیکل اٹھائیس کے تحت غیرمسلم اقلیتوں اور ثقافتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور انہیں زندہ رکھنے والوں کے حقیقی تحفظات دور کرے۔ 

رپورٹ میں جن بنیادی موضوعات کو شامل کیا گیا ہے اُن میں اراضی کے تنازعات اور تعلیم سے متعلق بنیادی حقوق شامل ہیں تاہم رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ بیس سفارشات ہیں جو مختصر اور طویل المدتی ابواب میں الگ الگ تقسیم کرتے ہوئے آغاز کلام ہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ کیلاش مذہب و ثقافت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات اور اِس سلسلے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔ اِن سفارشات میں نہایت ہی باریک نکات کو بھی شامل کیا گیا‘ جو رپورٹ تحریر کرنے والوں کی محنت اور دیانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے تہوار اور فصل کاشت کرنے جیسے خصوصی ایام اپنے خاص کلینڈر (حساب) کے مطابق منایا کرتے تھے لیکن حکومت کی جانب سے اُن پر پابندی عائد کرکے تہواروں کے لئے سال کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ 

کمیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ماضی کی طرح کیلاش قبیلے کو اختیار واپس دیا جائے کہ وہ اپنے تہواروں کی تاریخوں کا چناؤ خود کریں۔ کیلاش لوگوں اور حکومت کے درمیان اراضی کے تنازعات بھی سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں اور جن جنگلات یا وادیوں پر کیلاش لوگ ملکیت کے دعویدار ہیں اُن سے متعلق حکومت اگر لچک کا مظاہرہ کرے اور کیلاش قبیلے کے تحفظات دور کئے جائیں تو اِس سے یقیناًصدیوں پرانے رہن سہن‘ بودوباش اور روایات کے باقی ماندہ آثار و نقوش کو مٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-12-29

2 comments:

  1. The kaleidoscope of Pakistani society is shaped by the diverse regional and ethnic cultures and subcultures, each bejewelled with its own rich history and traditions. Amongst the world’s oldest, most exotic peoples and cultures inhabited within Pakistan are the “Kalash” or “Kalasha”; one of the few surviving indigenous communities of the world who continue to practice their way of life amidst and despite all the socio-economic turbulence and upheavals occurring around them. “The Kalasha Kafirs of Pakistan, a Macedonian people who trace their ancestry with Alexander the Great are an ethnic minority who speak a Dardic Language and adhere to an ancient polytheistic-animistic belief system and hence termed as “Kafirs” or non-believers. They are currently living in three valleys of Rumbur, Bumburet, and Birir in Chitral District, in Khyber-Pakhtunkhwa (KPK) Province of Pakistan. Only 3,000 left, according to the estimates of Maggi and A.S. Cacopardo, Klimburg (2008: 195-209).

    ReplyDelete
  2. The advance of Islam into the mountains, starting from the sixteenth century, gradually brought about the conversion of the whole area by the end of the nineteenth, with the sole exception of the Kalasha of Chitral who still practice their ancient religion to this day .
    Although paraded and exhibited for decades, by Pakistan’s Government and media, as a well- preserved, happy and hospitable indigenous stock of people, the Kalash have rarely came under the microscope in terms of their socioeconomic problems. For decades, the Kalash made the headlines only for the celebration of their seasonal festivals, as if they had no life, needs and requirements except merry making and dancing. But recently, focus of the mainstream human rights discourse in Pakistan has shifted to the genuine problems of the Kalash after the realization that there may not be any indigenous culture left to celebrate due to the rapid conversions of the Kalash people to Islam and the increasing number of Muslim settlers in the valleys of Bumburate, Rambur and Birir.
    The aforesaid demographic changes in Kafiristan can be attributed to the encirclement of Kafirs by Islam for the past three centuries and the ensuing cultural diffusion i.e. the spread of cultural beliefs and social activities from one group to another. All the material and ideological transgressions and encroachments from the Indian subcontinent and Afghanistan have gradually withered away the traditional ways of Kalash community. The traditional festivals of Kalashas, holding great religious and spiritual significance are Zhoshi, Ratnat, Po’n’(Phool), Chawmos and Madaik. However, Kalashas are facing difficulties in celebrating these festivals in some form or the other because of security situation, pressure from non-Kalasha neighbours and inappropriate behaviour of the tourists. For instance, the festival of Ratnat has not been celebrated for the past 10 years. Similarly, the festival of Rhuzhias, celebrated to punish the King Satan, is only celebrated in Birir after three years. In Bumburate, this festival is known as “Bhutrmishek” but has been abandoned since many years.
    Moreover, the interaction of NCHR with the Kalash reveals that there are multiple socio-economic factors and pressures, which may be nudging Kalashas towards abandonment of their culture and religion such as land grabbing, intolerance towards religious minorities in Pakistan, the looming threat of border incursions by Taliban into Chitral from Afghanistan, limited opportunities of socio-economic progress and poor infrastructure of roads, health and education.
    By drawing parallels with other ethnographic researches on other indigenous communities, this report will identify and explore some of the factors which are endangering the culture and identity of Kalash people.
    METHODOLOGY
    This report primarily relies on the input of Kalash elders and civil society activists, acquired by NCHR team during a Focussed Group Discussion in Bumburate Valley. The NCHR team consisted of following members:
    i. Justice (R) Ali Nawaz Chowhan Chairman
    ii. Ms. Fazila Aliyani Member
    iii. Syed Khizar Ali Shah Director
    iv. Mr. Raza-ur-Rehman Asad Coordinator
    v. Mr. Ahsan Kazmi Coordinator
    vi. Mr. Haider Ali Zafar Coordinator
    Secondary sources include scholarly articles, books and news reports. The objectives of this report is to identify the areas of cultural erosion of Kalash people, recommend remedial action by the State and to propose further areas of research for protection of culture and other constitutional rights of Kalash people.

    ReplyDelete