Reforms
اصلاحات
اصلاحات کا مطلب ’بہتری‘ ہوتی ہے یا پھر ایسا اختیاری عمل اختیار کرنا ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی غلط اقدام کو درست کیا جاسکے۔ اصلاح کے ذریعے بدعنوانی یا غیرتسلی بخش کارکردگی کو بھی درست کرنا ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے مختلف شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے اور کوئی ایک بھی حکومتی ادارہ ایسا نہیں کہ جس کی کارکردگی تسلی بخش قرار دی جاسکے۔ مالی و انتظامی امور کی اصلاح اور بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ اگر ہم اقوام عالم کا جائزہ لیں تو اقوام متحدہ تنظیم کے 193رکن ممالک میں 123 ممالک ایسے ہیں جہاں آئینی جمہوریت رائج ہے اور اِن 123 ممالک میں پاکستان کی مالی و انتظامی حالت سب سے بدتر حالت میں دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کا سیاسی کلچر دیکھیں تو یہ خاندانوں کے گرد گھومتا ہے۔ چند خاندانوں اقتدار پر مسلط ہیں اور اُنہی سے تعلق رکھنے والے افراد کسی نہ کسی صورت برسراقتدار رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی موروثیت ہے اور اکثر خونی رشتہ داریاں ہی کلیدی عہدوں پر فائز ہوتی ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں اپنی ذات و ساخت میں جمہوری نہیں!
موروثی سیاست اور غربت ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ موروثی سیاست اور ناخواندگی بھی آپس میں تعلق رکھتی ہے کیونکہ موروثی سیاست کی وجہ سے کسی سیاسی جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے والے اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ نہیں ہوتا اور عام انتخابات کے موقع پر تو نامزدگیاں پارٹی کے سربراہ سے تعلق و وفاداری کی بنیاد پر دیا جاتا ہے جس سے عمومی کارکنوں کا استحصال ہوتا ہے۔ پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی میرٹ (اہلیت) کی بنیاد فیصلے اور انتخاب ہوں۔ اِس سلسلے میں پیشرفت کیسے ہوگی اور آگے بڑھنے کا عمل کس طرح مکمل ہو سکے گا۔ اِس بارے میں معاشرے کی ہر سطح پر غوروخوض ہونا چاہئے۔
پاکستان کی کل کہانی یہ ہے کہ سبھی حکومتی اداروں پر چند ہزار خاندانوں کا راج ہے جو ذاتی مفادات کے لئے ریاستی اداروں اور ریاستی وسائل سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان جیسے کلیدی ادارے بھی سیاست دانوں یا سیاسی حکمراں خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال کا پہلا رخ ہے اور ہمیں اِس عمومی روش کو تبدیل یعنی اصلاح کرنی ہے۔
پاکستان کے اقتصادی منظرنامے پر چند بڑے گروہوں کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔ بینکنگ‘ سیمینٹ‘ شوگر ملز‘ آٹوموبائل‘ نجی بجلی گھر اور پیٹرولیم مصنوعات کے اجارہ دار۔ بینکوں کی صورتحال یہ ہے کہ یہ عام صارفین کو 3 سے 5 فیصد کی شرح سے سود ادا کرتے ہیں لیکن صارفین سے سود کی مد میں 8 سے 24 فیصد تک چارج کیا جاتا ہے۔ سیمنیٹ کے کاروبار پر 21 اداروں کی حکمرانی ہے جو سالانہ 100 ارب روپے کی فروخت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں صارفین کے مفادات کا تحفظ اور مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کے لئے متعلقہ حکومتی ادارہ ’بہتری کا مطالبہ‘ تو کرتا ہے لیکن ’ڈی جی سیمینٹ‘ لکی سیمینٹ اور میپل لیف جیسے ادارے اِس اجارہ داری کو برقرار رکھنے کی راہ میں حائل نظر آتے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں 41 شوگرملز ہیں جن میں سے‘ کم سے کم‘ 20 سیاستدانوں کی ملکیت ہیں جو پاکستان مسلم لیگ نواز اُور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم سے تعلق رکھتے ہیں۔ وفاقی حکومت فی کلوگرام چینی پر 10 روپے 70 پیسے سبسڈی دیت ہے۔ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری ذاتی یا شراکت کی بنیاد پر جن شوگرملز کی ملکیت رکھتے ہیں اُن میں سکرند شوگر‘ انصاری شوگر‘ مرزا شوگر‘ پنگیرو شوگر اور باچانی شوگر شامل ہیں۔ ہمیں اِس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اگر سندھ کی حکمراں جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری کی شوگر ملوں کو صوبائی حکومت کی جانب سے اضافی مالی فائدہ حاصل ہوں اور صوبائی حکومت چینی پر اضافی 9 روپے 30 پیسے فی کلوگرام سبسڈی دے۔ موٹر گاڑیاں بنانے والے آٹو موبائل صنعتی اجارہ داری کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں جو سالانہ 130ارب روپے کی فروخت کرتی ہے اور یہاں بھی صارفین کے حقوق پر اِدارے مسلط ہیں‘ جن کے درمیان مقابلے کی فضاء نہ ہونے کی وجہ سے منافع کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے لیکن اس کا فائدہ صارفین کو منتقل نہیں ہوتا۔
پاکستان میں احتساب کا ادارہ بھی موجود ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے نام سے ادارہ بھی خاطرخواہ موجودگی کا ثبوت نہیں دے رہا اور اِس کے ذریعے سزأ و جزأ کا جو ماحول پیدا ہونا چاہئے تھا وہ بدقسمتی سے نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان ہمیں اُس مقام پر کھڑا نظر آتا ہے جہاں کمزور ریاستی ادارے افراد اور خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست میں مقابلے کا فقدان ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو جن اِصلاحات کی ضرورت ہے‘ آخر وہ کس طرح حاصل ہوں گی؟ آئین کے اندر رہتے ہوئے جمہوری پاکستان کو جن اصلاحات کی ضرورت ہے اُن کی راہ میں حائل موروثی سیاست‘ سیاست دانوں کے مفادات‘ گروہی اجارہ داری اور مفلوج ریاستی ادارے حائل ہیں اور جب تک اِن سب کی ’بیک وقت‘ اِصلاح نہیں ہوگی‘ اُس وقت تک ترقی و ارتقاء کا عمل منقطع ہی رہے گا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Reform means the “improvement or amendment of what is wrong, corrupt or unsatisfactory”. Pakistan is at point A where there’s plenty that is ‘wrong’; corruption is rampant and governance is totally ‘unsatisfactory’. There are 193 member-states of the United Nations of which 123 are constitutional democracies. Of the 123 constitutional democracies, ours is one of the worst. Our political culture is all about ‘families’ whereby “several members of a family are involved in politics, particularly electoral politics. Members are related by blood or marriage; often several generations or multiple siblings are involved in politics.”
ReplyDeleteDynastic politics and poverty coexist. Dynastic politics and illiteracy are correlated. Dynastic politics means reduced electoral competition among candidates as party tickets are awarded on the basis of loyalty rather than merit. What we need is competition in politics. What we need is merit in politics. We must move from Point A to Point B. How do we get from Point A to Point B?
To be certain, almost all institutions of the state have been captured – captured by a thousand families to extract private gains. The State Bank of Pakistan (SBP) is a captured entity. The Securities and Exchange Commission of Pakistan (SECP) is a captured entity. The Competition Commission of Pakistan (CCP) is a captured entity – captured to extract private gains. This is Point A. We must move as far away as possible from Point A. But, how do we move from Point A to Point B?
To be certain, our economy is dominated by cartels. We have a banking cartel, a cement cartel, a sugar cartel, an automobile cartel, a rental power cartel and an oil cartel. The banking cartel pays three to five percent to depositors but charges 8-24 percent on loans. The cement cartel has 21 members with annual sales approaching Rs100 billion. The CCP called it “anti-competitive behaviour” and cement manufacturers including DG Khan Cement, Lucky Cement and Maple Leaf as “habitual cartel offenders”.
ReplyDeleteOf the 41 sugar mills in Punjab, at least 20 are owned by politicians of the PML-N and PML-Q. No wonder the federal government has given a subsidy of Rs10.70 per kg. Our ex-president Zardari owns directly or directly Sakrand Sugar, Ansari Sugar, Mirza Sugar, Pangrio Sugar and Bachani Sugar. No wonder the Sindh government has announced an additional subsidy of Rs9.30 per kg. The automobile cartel that has sales of Rs130 billion there is massive “collusion and cartelization” (according to the CCP).
Yes, the National Accountability Bureau (NAB) was a captured entity – captured to safeguard private gains. To be sure, our current system of checks and balances has completely failed. Pakistan is at Point A. We must move as far away from Point A as possible.
Competition in politics. Subject specialists in governance. And autonomous, powerful institutions of accountability. This is point B. This is where we want to be. Food for thought: How will we move from Point A to Point B? Who will move us from Point A to Point B? Can we move from Point A to Point B by remaining within the confines of the constitution?