The Yuan
ہنس کی چال!
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’پاکستان چین کے ساتھ اپنے تجارتی لین دین کا انحصار امریکی ڈالر سے ختم کر کے چین کی کرنسی ’یوآن (Yuan)‘ پر منتقل کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔‘‘ چین کی کرنسی کا نام ’رینمین بی (Renminbi)‘ ہے جسے اصطلاحاً RMB کہا جاتا ہے اور ’یوآن‘ اِس کی ایک ذیلی اکائی (یونٹ) ہے۔ چین کے مرکزی بینک ’’پیپلزبینک آف چائنا‘‘ رینمین بی (کرنسی) سے جڑے معاملات کا نگران ادارہ ہے جیسا کہ پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان روپے اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی جمع پونجی اور روپے کی قدر کا تعین کرتا ہے۔
پاکستان کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 283 ارب ڈالر ہے جبکہ عوامی جمہوریہ چین کی قومی پیداوار کا حجم 11 کھرب ڈالر ہے اور ہم پاکستان اور چین کی قومی پیداوار کا موازنہ کریں تو پاکستان کی قومی پیداوار چین کے مقابلے ایک فیصد سے بھی کم یعنی صرف 0.4 فیصد ہے۔ اِسی طرح عالمی برآمدات میں چین کی حصہ داری 16 کھرب ڈالر ہے جس کے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان کی برآمدات 0.13فیصد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان چاہے چین سے اپنے تجارتی سودوں کو امریکی ڈالر سے کرے یا چین کی اپنی کرنسی سے عالمی سطح پر تو کسی کو خاص فرق نہیں پڑے گا نہیں پاکستان کا اپنا خسارہ ہوگا۔ پاکستان کی چین کے ساتھ تجارت 1.8 ارب ڈالر سالانہ ہے اور چین سے پاکستان کو ہونے والی برآمدات کا حجم ’14ارب ڈالر‘ سالانہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 12 ارب ڈالر سالانہ ہے‘ جو کسی بھی طرح معمولی نہیں۔
خطرے کی بات: پاکستان کی عالمی لین دین کا موازنہ اگر چین کے ساتھ ہونے والی تجارت سے کیا جائے تو یہ خسارہ قریب چالیس فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کئی ذرائع سے سے قرض حاصل کرکے چلتی ہے تاکہ تجارتی خسارے کو پورا کیا جا سکے۔ اگر پاکستان یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرے گا تو پھر اُسے تجارتی خسارہ ختم کرنے کیلئے چین سے قرضہ جات حاصل کرنا پڑیں گے‘ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اُن تمام ذرائع سے الگ ہو جائے گا‘ جو فی الوقت اِس کی معیشت و تجارت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔
خطرے کی بات: چین کے ساتھ تجارت بڑھنے اور چین کی کرنسی میں تجارت کرنے کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہم ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کو چین کے عمل دخل میں دے دیں جو ہماری مالیاتی پالیسی پر اثرانداز ہو۔ ایسی کسی صورتحال میں پاکستان سے زیادہ چین کو فائدہ ہوگا۔
چین کی ایک عرصے سے کوشش ہے کہ اُس کی کرنسی زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر استعمال ہو کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان میں چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری زیادہ محفوظ اور منافع بخش رہے گی جبکہ چین کی خطے میں بالادستی میں بھی اضافہ ہوگا جو ایک اہم جغرافیائی ہدف کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا اور یہ ہدف حاصل کرنے میں چین کو زیادہ کچھ خرچ کرنا بھی نہیں پڑے گا۔
چین کی کرنسی پر اِنحصار کرنے والے ایک ملک کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ زمبابوے (Zimbabwe) چین کا دوست ملک ہے۔ سال 2010ء سے 2015ء کے درمیان چین نے زمبابوے کو کم شرح سود پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض دیا۔ سال 2015ء میں چین کے صدر ’شی جن پنگ (Xi Jinping)‘ نے زمبابوے کا دورہ کیا اور زمبابوے کے لئے دیئے جانے والے کچھ قرضہ جات کو ختم کردیا‘ جس کا منفی اثر زمبابوے کی اقتصادیات پر پڑا اور اُس کی کرنسی بے قدر ہو گئی۔ 2009ء میں زمبابوے بینک کو ’زمبابوے ڈالر‘ ختم کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے زمبابوے بینک کا ملک کی مالیاتی پالیسی پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
پاکستان اور چین کے درمیان ’آزاد تجارتی معاہدہ (فری ٹریڈ ایگریمنٹ)‘ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان نے چین کو ’چھ ہزار آٹھ سو تین‘ اشیاء (مصنوعات بشمول الیکٹرانکس‘ مشینری‘ کیمیکل اور دیگر اشیاء) پر تجارتی رعائت دے رکھی ہے اِس رعائت سے پاکستان کے مقابلے چین کی صنعتیں اور ملک سراسر زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ قریب چھ برس قبل چین اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ سوال یہ ہے کہ آخر چین پاکستان سے مزید کیا چاہتا ہے؟ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایک متوازی و متبادل کے طور پر دوسری کرنسی پر انحصار کرے؟ ممالک اپنی اپنی کرنسی کی حفاظت کرنے کے لئے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔
کیا پاکستان کو بھی اپنی کرنسی کی حفاظت اور اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے کوششیں نہیں کرنی چاہیءں؟ کیا یہ آسان ہوگا کہ چین کی کرنسی پر تجارتی انحصار منتقل کردیا جائے اور کیا ایسا کرنے سے کیا چین سے زیادہ پاکستان کو فائدہ ہوگا؟ کیا پاکستان کی معیشت و اِقتصادیات کو سہارا دینے کے لئے ایک اُور خواب دیکھا جا رہا ہے یا پھر یہ پاکستان کو اکیسویں صدی عہد غلامی میں دھکیلنے کی سازش ہے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Federal Minister for Planning Professor Ahsan Iqbal has said that “Pakistan is looking for the possibility of replacing [the] dollar with [the] yuan in cross-border trade with China.” The renminbi (RMB) is the official currency of the People’s Republic of China and the yuan is the primary unit. The People’s Bank of China, the central bank of the People’s Republic of China, is the official issuer of the renminbi.
ReplyDeletePakistan’s GDP of $283 billion is 2.6 percent of China’s $11 trillion GDP. And Pakistan’s GDP is a mere 0.4 percent of its $77 trillion global GDP. Our share in global exports of $16 trillion is a paltry 0.13 percent. What that means is that, whether Pakistan replaces the dollar with the yuan in cross-border trade with China or not, Pakistan’s action will not have any impact on global trade.
But, Pakistan replacing the dollar with the yuan in cross-border trade with China has major implications for Pakistan. Here’s the quantum of trade: Pakistan’s exports to China are around $1.8 billion a year and China’s exports to Pakistan hover around $14 billion a year. Resultantly, Pakistan’s trade deficit with China stands at a colossal $12 billion a year.
Red alert: Pakistan’s trade deficit with China is roughly 40 percent of Pakistan’s total trade deficit with the rest of the world. Currently, Pakistan raises dollar-debt from a wide variety of sources – including multilateral institutions like the IMF – to finance the hefty trade deficit. Once we decide to replace the dollar with the yuan in cross-border trade with China, we would be looking at China to finance the 80 billion yuan trade deficit. That would essentially mean Pakistan moving away from multi-source dependence to single-source dependence.
Red alert: In just five years of trading, our yuan-denominated indebtedness would reach 400 billion yuan or the equivalent of $60 billion. Red alert: Pakistan replacing the dollar with the yuan would mean handing over part of the State Bank of Pakistan’s monopoly over Pakistan’s monetary policy.
ReplyDeleteChina certainly stands to gain. China has long been trying to make the yuan the reserve currency. Yes, China’s investments in Pakistan will face no exchange risk. In essence, it would amount to China’s projection of its economic power over Pakistan – a big geo-strategic plus for China at no added cost.
Here’s what happened in Zimbabwe, China’s other ‘all-weather friend’: between 2010 and 2015, China granted Zimbabwe over $1 billion in low-interest loans. In 2015, President Xi Jinping visited Zimbabwe and cancelled some of Zimbabwe’s China-held debts. In return, Zimbabwe made the Chinese yuan legal tender. Over time, the Zimbabwean dollar became worthless and in 2009 the Reserve Bank of Zimbabwe, the central bank of Zimbabwe, abandoned the Zimbabwean dollar. Resultantly, the Reserve Bank of Zimbabwe lost all control over Zimbabwe’s monetary policy.
Under the Free Trade Agreement (FTA), Pakistan offered China “concessions on 6,803 tariff lines” with zero tariff rates on “electric and electronic products, machinery, chemicals and various raw materials…” The FTA has seriously hurt Pakistan as the balance of bilateral trade is heavily tilted in China’s favour.
To be certain, China and Pakistan had agreed upon a swap arrangement some six years ago. What more does China want? Is it in Pakistan’s interest to have a parallel currency? Countries fight really hard to protect their currencies. Should we surrender ours without a fight? Is it simply the adoption of the yuan as a currency of settlement? Is it a pipe-dream or is it 21st century colonisation?