?Without the US
بناء اَمریکہ‘ خوداِنحصاری؟
پاکستان بھکاری نہیں لیکن اِسے بھکاری بنایا گیا ہے۔ پاکستان غریب نہیں لیکن اِس کی دولت اور قومی وسائل ایک منظم سازش کے تحت غصب کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان ایک زرخیز ملک ہے۔ اس کی زمینیں اور یہاں کے رہنے والوں کے ذہن زرخیز ہیں۔ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا اور نوجوان ملک ہے کیونکہ اِس کی 63 فیصد آبادی کی عمر پچیس سال سے کم ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے ہاتھوں (افرادی قوت) کی کمی نہیں جو پاکستان کو خوشحال اور خودمختار و آزاد رکھنے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ پاکستان کی 63فیصد آبادی حکومت پر بوجھ نہیں بلکہ وہ اپنی جسمانی طاقت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر قومی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے وسائل اور دستیاب افرادی قوت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اِس فائدہ نہ اٹھانے کے پیچھے جو واحد محرک کارفرما رہا وہ سیاسی فیصلہ سازوں کی نااہلی رہی۔ جنہوں نے پاکستان کی ترقی کو ہر بات سے زیادہ مقدم نہیں سمجھا۔
پاکستان کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر کچھ نہیں تو اِس کی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان‘ منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے میں کوتاہی‘ قرض لینے جیسے آسان فیصلے‘ معیشت کی نظرانداز ترقی اور خوشحالی جیسے محرکات شامل ہیں جن کی اصلاح ممکن ہے۔
پاکستان کو لاحق سب سے بڑا خطرہ اقتصادیات کا ہے اور اِس اقتصادی خطرے کے دو حصے ہیں۔ ایک قومی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن (بجٹ خسارہ) اور دوسرا قومی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن (تجارتی خسارہ) اور انہی دو خطرات کے باعث پاکستان کو بھکاری بنا دیا گیا۔ انہی کے باعث پاکستان کی قومی دولت لوٹ لی گئی! مالی سال 2017-18ء کے دوران مالی خسارہ 1.5 (یعنی ڈیڑھ) کھرب روپے کے مساوی ہو چکا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی فرد اور خاندان کو اپنی بقاء کے لئے سالانہ پچاس ہزار روپے بھیک مانگنا پڑتی ہے!
پاکستان کو قرض دینے والے ممالک اور مالی امدادی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے جن سے قومی آمدنی میں اضافہ ہو لیکن یہ تجربہ اور خواہش ہر مرتبہ ناکام ثابت ہوتی ہے اور قومی اداروں کی کارکردگی قومی خزانے پر سوائے بوجھ کے کچھ نہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں بجلی کا پیداواری شعبہ سالانہ 400 ارب روپے کا خسارہ کر رہا ہے۔ قومی ترقی کے لئے سالانہ 600 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن یہ ترقی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور کاموڈیٹی آپریشنز کا قرض 400 ارب روپے کے مساوی ہوتا ہے۔ صرف اِن چار مدوں میں پاکستان کے سالانہ اخراجات 1.8 کھرب روپے ہیں! ایک اعشاریہ آٹھ کھرب روپے کے یہ اخراجات (خسارہ) ختم کرنا قطعی مشکل نہیں لیکن اگر ایسا کرنے کی خواہش اور قومی قیادت میں جذبہ تعمیر زندہ ہو۔
پاکستان حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کبینٹ ڈویژن پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 80 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں آخر کیوں؟ وزیراعظم پاکستان کے بیرون ملک دورے پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 50 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں آخر کیوں؟ وزیراعظم کے دفتری اخراجات پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 20 لاکھ روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں آخر کیوں؟ صدر پاکستان پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 13 لاکھ روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں آخر کیوں؟
پاکستان کی برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں اور موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں یہ کمی سب سے زیادہ اور غیرمعمولی رفتار سے ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ 35 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے! پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء عالمی منڈیوں میں مقابلہ اِس لئے بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ اِن پر لاگت زیادہ آتی ہے اور پاکستان میں بجلی و گیس سمیت پیداواری اخراجات بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔
فوری طور پر پاکستان کو اپنی درآمدات میں کمی لانا ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم سالانہ 25 کروڑ ڈالر کی ڈیری مصنوعات کیوں درآمد کر رہے ہیں؟ آخر ہمیں سالانہ 2.5 ارب ڈالر کی گاڑیاں درآمد کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ سالانہ 2 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایک ارب روپے کی دالیں کیوں درآمد کی جاتی ہیں؟ اور ہم 550 ارب ڈالر مالیت کی چائے کیوں درآمد کر رہے ہیں؟
پاکستان کی غربت خود اپنے ہی ہاتھوں غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے اور یہی محرک ہے جس کی وجہ سے پاکستان قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اگر قیادت میسر آ جائے تو حب الوطن اور نوجوان افرادی قوت کی کمی نہیں جو پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کا حل نکال سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں ایسے فیصلہ ساز میسر نہیں جو قومی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کر سکیں اور اپنے مفادات کی قربانی دیتے ہوئے ایک ایسی قوم کو عروج سے روشناس کرائیں جس کے پاس وسائل کی کبھی بھی اور قطعی کوئی کمی نہیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
۔
We are not beggars; we have been conscripted into begging. We are not poor, wealth has been sucked out of us. We are a fertile nation – both land and minds. We are the sixth largest country in the world – and the youngest – with 63 percent of the total population under the age of 25. What this means is that a very large segment of our population has the potential to take Pakistan towards financial independence and prosperity.
ReplyDeleteThe only missing ingredient is political intent. From political intent to an actionable plan, to an implementation team; and herein, lies financial independence and prosperity, both within our reach.
Our primary vulnerability is economic – and the two evils are budgetary deficit and trade deficit. The two evils have turned us into beggars. The two evils have sucked the wealth out of us. Red alert: Both the evils are manmade, not God-given. Budget deficit is the amount by which government’s expenditures exceed its revenue. And a budgetary deficit means conscripted begging (in order to fill the gap). Budget 2017-18 shows a man-made budgetary deficit of Rs1.5 trillion. This means Rs50,000 worth of begging for and on behalf of each and every Pakistani family for a year’s survival.
Every donor-sponsored Pakistani government focuses exclusively on revenue generation but fails at it year after year. Just add up the following four items: power-sector losses=Rs400 billion a year, public-sector enterprises (PIA, railways, steel mills etc) losses=Rs400 billion a year, public-sector development programme commissions=Rs600 billion a year and commodity operations debt=Rs400 billion. These four items total up to Rs1.8 trillion. This is no rocket science. All these losses are man-made – and that is no conspiracy. All that is needed are reforms, power sector reforms, PSE and PSDP reforms.
ReplyDeleteOn the more symbolic side of things, we have four other expenditure items. One, why do we spend Rs8 million a day every day of the year on the cabinet division? Two, why do we spend Rs5 million a day every day of the year on foreign tours of the PM? Three, why do we spend Rs2 million a day every day of the year on the PM Office? And four, why do we spend Rs1.3 million a day every day of the year on the presidency?
Trade deficit is the ‘amount by which the cost of a country’s imports exceeds the value of its exports’. This is the other evil that has made beggars out of us. Never in the financial history of Pakistan have we had a five-year period of falling exports. Never in the history of Pakistan have we had a $35 billion trade deficit. The long-term issue is that our cost of inputs – electricity, gas and taxation – has gone through the roof.
Over the short term, we need to manage our import bill. Pakistan is the third largest milk producing country in the world, then why do we import $250 million worth of milk products? Why do we import $2.5 billion worth of vehicles? Why do we import $2 billion worth of edible oil? Why do we import a billion dollars worth of pulses? Why do drink $550 million worth of imported tea?
Our poverty is man-made, not God-given. Our debts are also man-made and not God-given. All we need is political intent. There is enough talent in this country that can put together an actionable plan. There is enough talent in this country that can put together an implementation team.