Game theory
سیاسی کھیل!
پہلا کھلاڑی: عمران خان ’مسلسل‘ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ اگر وہ سماجی و سیاسی انصاف اور بدعنوانی کے خلاف اپنا سیاسی سفر جاری رکھیں گے تو ایک دن پاکستان کے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں لیکن وہ اپنی سیاسی جماعت (تحریک انصاف) کو منظم کرنے کی حکمت عملی (ضرورت) نہیں رکھتے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن پر مرکوز نگاہیں اور پاکستان کی سیاست میں اصلاح کی علمبرداری کسی نعمت و عنایت سے کم اعزاز نہیں۔
دوسرا کھلاڑی: آصف علی زرداری منصوبہ ساز اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے ماہر ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن وہ ایک رازدار طبیعت کے مالک ہیں اور اپنی سوچ کا اظہار نہیں کرتے شاید اِس لئے بھی کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اُن کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکے۔
تیسرا کھلاڑی: نواز شریف سیاستدان ہیں اور اُن کی مہارت ہی سیاست ہے۔ وہ ایک انقلاب کے داعی ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی غلطیوں کی سزا نہ دی جائے بلکہ اُنہیں ایک ایسے موقع پر بچایا جائے جبکہ وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے میں عملاً ناکام اور بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔
نواز شریف دنیا کے انقلابی رہنماؤں میں ایسے واحد انقلابی ہیں جو 25 ہزار کنال اراضی پر پھیلے محل میں رہتے ہیں۔ اُن پر مالی بدعنوانیوں‘ دروغ گوئی اُور اِختیارات سے ذاتی مفادات حاصل کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں البتہ نواز شریف کے پاس ’سیاسی لائحہ عمل‘ اور ’سیاسی حکمت عملی‘ موجود ہے۔
نواز شریف کو عدالت سے جو آئینی نااہلی کی سزا ملی ہے وہ چاہتے ہیں کہ عوامی رائے سے اُسے تبدیل کریں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاست اُنہیں ملنے والی سزا کو تبدیل کر سکتی ہے۔
نواز شریف کے پاس ایک انتخابی حکمت عملی بھی ہے۔ اُن کے پاس دکھانے کے لئے پنجاب میں ترقیاتی منصوبے ہیں‘ جنہیں شہباز شریف نے مکمل کیا ہے۔ نواز لیگ سینیٹ (قانون ساز ایوان بالا) میں بھی اکثریتی جماعت ہے اور باوجود درپیش بحرانوں کے بھی یہ پارٹی اپنی جگہ منظم ہے۔ نواز شریف آئندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری تیاری کئے بیٹھے ہیں۔
سیاسی کھیل کے اِن تین کھلاڑیوں میں آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے سیاست میں ’پی ایچ ڈی‘ کر رکھی ہے۔ اگر ہم پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی محاذ پر کارکردگی کا جائزہ لیں تو بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلزپارٹی کل ڈالے گئے ووٹوں کا 60فیصد حاصل کیا کرتی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں 40فیصد جبکہ آصف علی زرداری کے دور میں پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 15فیصد ہو چکا ہے۔ چھتیس برس میں ’60فیصد سے 15فیصد‘ تک کا یہ زوال غیرمعمولی ہے اور سیاست میں خود کو ’پی ایچ ڈی (ماہر)‘ سمجھنے والے آصف علی زرداری کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے کہ وہ انتخابی محاذ میں اپنی جماعت کی مقبولیت کو نہ تو برقرار رکھ سکے اور نہ ہی اس میں اضافہ کر پائے لیکن آصف علی زرداری گہرے انسان ہیں‘ جن کی سیاست عمومی درجے سے اوپر ہے۔ انہوں نے بلوچستان حکومت کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے بناء عددی اکثریت خیبرپختونخوا اسمبلی سے اپنے دو سینیٹرز کو منتخب کروایا۔ انہوں نے جہاں خیبرپختونخوا اسمبلی کے کم وبیش 32 اراکین کی وفاداریاں اپنے حق میں اِستعمال کیں‘ وہیں ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے تعلق رکھنے والے قریب 14 اراکین صوبائی اسمبلی کی وفاداریاں بھی خریدی گئیں۔
پاکستان کے سیاسی کھیل کے حصہ دار عمران خان کے لئے زندگی کی خوشیاں اور اطمینان اُن کی حسب خواہش ہے۔ وہ اپنی آسائش اور سہولت بھری زندگی بسر کر رہیں ہیں‘ جن کے لئے سیاسی بکھیروں اور اصولوں کی اُن کی اپنی ذات سے زیادہ اہمیت نہیں۔
کھیل کے چوتھے اور پانچویں کھلاڑی فوج اور عدلیہ ہیں۔ یکم فروری کو مالدیپ کی سپرئم کورٹ نے حکم دیا کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔ صدر عبداللہ نے سپرئم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ 5 فروری کو صدر عبداللہ نے فوج کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججوں کو گرفتار کر لے۔ فوج نے سپرئم کورٹ پر دھاوا بولا اور تمام جج صاحبان گرفتار کر لئے گئے یوں صدر کی جیت ہو گئی!
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عدلیہ پر وقتی دباؤ تو ڈالا جاسکتا ہے لیکن قانون کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Player one: Imran Khan is a ‘faith traveller’. Imran Khan believes that destiny will make him the PM. Imran Khan has no strategy to organise his party. Imran Khan has no political strategy to win general election. Imran Khan thinks he is ‘too blessed to be stressed’.
ReplyDeletePlayer two: Asif Ali Zardari is a schemer-dreamer. “Well, the schemer’s world is dizzy/By the look of things, he’s busy/Lighting candles at both ends/Playing king with all his friends/And his big plans for the future/Lay on someone else’s shoulders/But he never tells them so/Well, he don’t want them to know”.
Player three: Nawaz Sharif is a politician – a politician par excellence. Nawaz Sharif is talking about a ‘revolution’ and singing “I support the left, though I’m leaning, leaning to the right/But I’m not there when it’s coming to a fight”. Nawaz Sharif is the first ‘revolutionary’ in the history of revolutions who lives in a palace spread over 25,000 kanals. Nawaz Sharif has no legal plan. But Nawaz Sharif has a political plan and a political strategy. Nawaz Sharif is strategising to overturn legal disqualifications in the ‘court of law’ through the ‘court of public opinion’. Nawaz Sharif thinks politics can reverse convictions.
Nawaz Sharif has a potent election strategy: Shahbaz Sharif’s development projects in tandem with Nawaz Sharif’s defiance. Who can beat that? Succession within the party is settled. The PML-N is the largest party in the Senate. And the party is intact. Nawaz Sharif’s well-oiled ‘political machine’ is now gearing up to win the general elections.
ReplyDeletePlayer 2: Asif Ali Zardari thinks he has a PhD in politics. Here’s the record: the PPP under Zulfikar Ali Bhutto used to bag 60 percent of the total number of votes. The PPP under Benazir Bhutto used to bag nearly 40 percent of the number of votes polled. And the PPP under Asif Ali Zardari is down to bagging 15 percent of all votes. What a fall from 60 percent to 15 percent in a mere 36 years. So much for the PhD.
But Asif Ali Zardari is a schemer-dreamer. Asif Ali Zardari brought down the government in Balochistan. Asif Ali Zardari managed to pull two senators out of the KP Assembly where the PPP has a total of six MPAs (roughly 32 MPAs required for two senators). Asif Ali Zardari managed to buy at least 14 MQM MPAs. “Scheming how to rule the waves/Trader spied a virgin plain/And named it for velvet robes”. The total outlay in KP is over Rs1 billion.
Player one: According to Imran Khan: “The life I have/Is the life I’ve always wanted/And I’m on the go! Here I’m finally on the road/On the road! And I wanna put my faith in you babe”.
Players four and five: The ‘guns and the pens’; black boots and black robes. On February 1, the Maldives Supreme Court ordered the release of imprisoned opposition politicians. President Abdulla refused to implement the Supreme Court’s orders. On February 5, President Abdulla ordered Major-General Shivam, the chief of the Defence Force (total personnel: 5,000), to arrest the judges of the Supreme Court. At that point in time, the balance of power was in the hands of Major-General Shivam, the president or the Supreme Court. The Maldives National Defence Force stormed the Supreme Court and arrested the judges. The president won.
Conclusion: “You can’t outrun the long arm of the law/You can hide out for a while/But you can’t outrun the long arm of the law.../The court was called to order/The judge just looked right through him/I know you hid out for a while/But you can’t outrun the long arm of the law”.