Rs 6 Trillion
چھ کھرب روپے!
پاکستان کے حکمرانوں کی ’شاہ خرچیاں‘ جہاں قومی خزانے پر بوجھ ہیں وہیں ملک کی خراب اقتصادی صورتحال کے تناظر میں ’مہنگے ترین شاہی طرزحکمرانی‘ میں قومی وسائل کا ضیاع روکنے پر بھی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ سالہا سال سے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ کیا یہ امر تشویشناک نہیں کہ گذشتہ پانچ سال (2013ء سے 2018ء) کے دور حکومت میں 6 کھرب روپے (6,000,000,000,000) ہوا میں اُڑا دیئے گئے! اُور اگر اس قدر خطیر رقم بچا لی جاتی تو ہر پاکستانی خاندان کو پانچ سال کے عرصے میں ’2 لاکھ روپے (200,000) روپے‘ کی بچت ہو سکتی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی نے گذشتہ پانچ سال کے دوران 30 ہزار (30,000) روپے‘ کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ یہ عوام کا سرمایہ ہے‘ جسے کون اور کیوں ضائع کر رہا ہے؟
پاکستان کے قومی اداروں کی کل تعداد 190 ہے۔ اِن ’پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز (PSEs)‘ نے مجموعی طور پر 3.7 کھرب روپے خسارہ کیا۔ یہ بات پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے علم میں ہے کہ ’’قومی جہاز راں ادارے ’پی آئی اے (PIA)‘ نے گذشتہ پانچ برس کے دوران 197 کھرب روپے کا نقصان کیا۔ پاکستان ریلویز (Pakistan Railways) بھی کسی سے پیچھے نہیں اور اِس کا سالانہ خسارہ 35 ارب روپے ہے جبکہ پاکستان سٹیل ملز (Pakistan Steel Mills) کا مجموعی خسارہ اِسی عرصے میں 177 ارب روپے کو عبور کر چکا ہے!
سال 2013ء کے دوران سرکاری اداروں نے مجموعی طور پر 495 ارب روپے کا نقصان کیا۔ سال 2014ء‘ 2015ء‘ 2016ء‘ 2017ء میں یہ خسارہ بڑھ کر بالترتیب 570 ارب روپے‘ 712 ارب روپے‘ 862 ارب روپے اُور 1.1 کھرب روپے شمار کیا گیا۔ تصور کیجئے کہ سرکاری ادارے ایک سال میں 1.1 کھرب روپے کا نقصان کر بیٹھے! یہ بات محض اتفاق ہی ہوگی کہ جس سال سرکاری اداروں نے 1.1کھرب روپے نقصان کیا اُسی سال پیش کردہ مالی سال (2018-19ء) کے بجٹ میں ملکی دفاع کے لئے 1.1 کھرب روپے مختص کئے گئے۔ یہ بات تو ہم سے ہر کوئی جانتا ہے کہ قومی اِدارے خسارہ کر رہے ہیں لیکن شاید اِس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا کہ پانچ سال میں یہ خسارہ 3.7 کھرب روپے ہو چکا ہے!
خسارہ کرنے والے قومی اداروں میں ’پاکستان ایگری کلچرل سٹوریج اینڈ سروسیز کارپوریشن‘ بھی پیش پیش ہے جس نے صوبائی محکمۂ خوراک کے ہمراہ کئی لاکھ ٹن گندم اور چینی خریدی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2018ء تک اِن اداروں نے خریداری کے لئے قومی بینک سے 628 ارب روپے لئے ہیں جن کی ادائیگی نہیں کی گئی لیکن ہر سال مزید رقم لی جاتی ہے۔ بجلی کی طرح یہ ایک الگ قسم کا ’گردشی قرضہ‘ ہے جس کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
گردشی قرض کی بات کریں تو اِس مد میں بڑا قرض بجلی کا ہے۔ سابق وفاقی سیکرٹری برائے واپڈا یوسف نسیم کھوکھر کے مطابق پرانا گردشی قرضہ 425 ارب روپے تھا جبکہ نیا قرض 570 ارب روپے ہے جو ملا کر ایک کھرب روپے ہے۔ جب واپڈا بجلی کے نجی اداروں کو ادائیگیاں نہیں کرتی تو وہ اپنی خدمات جاری رکھنے کے لئے نجی (کمرشل) بینکوں سے قرض لے لیتے ہیں لیکن کمرشل بینک کب تک اُور آخر کتنا قرض دے سکتے ہیں۔ گردشی قرضے کے بھنور میں پھنسے ہوئے پاکستان کا اقتصادی نظام سخت خطرے میں ہے۔
’سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمٹیڈ (SNGPL)‘ نے ’پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO)‘ کے 28 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو مائع گیس (LNG) کی خریدنے کی قیمت ہے جبکہ ’ایس این جی پی ایل‘ کا مؤقف ہے کہ بجلی کے سرکاری اور نجی پیداواری ادارے‘ کھاد بنانے والے کارخانے اور سی این جی اسٹیشنوں کے ذمے اُس کے 16 ارب روپے واجب الادأ ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا گردشی قرضہ ہے‘ جس کے بارے میں خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی اور اِس قرض میں بھی ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے گذشتہ پانچ سال میں بجلی کے پیداواری شعبے کے لئے 965 ارب روپے مختص کئے۔ یہ سچ ہے کہ سال 2013ء میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار531میگاواٹ تھی‘ جسے 29 ہزار 573 میگاواٹ تک پہنچا دیا گیا ہے لیکن پانچ سال میں بجلی کی اصل پیداوار میں قریب 11فیصد ہی اضافہ ہو سکا۔
ذہن نشین رہے کہ سال 2013ء سے سرکاری اداروں کا خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دوہزارتیرہ میں 495 ارب روپے خسارہ بڑھتے بڑھتے 1.1 کھرب روپے ہو چکا ہے‘ یوں پاکستان کے ٹیکس دہندگان کے 6 کھرب روپے ہوا میں اُڑا دیئے گئے ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ عوام مزید (پہلے سے زیادہ) ٹیکس ادا کریں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Rs6,000,000,000,000: that is the amount that has gone up in smoke over the past five years. That means that each and every Pakistani family has lost nearly Rs200,000 in the past five years. That means that each and every Pakistani has lost Rs30,000 in the past five years. It is all our money. Who is losing it and why?
ReplyDeletePublic-sector enterprises (PSEs): Over the past five years, a total of 190 PSEs, owned and operated by the government of Pakistan, have collectively lost Rs3.7 trillion. We know that PIA has lost a staggering Rs197 billion over the past five years. We know that Pakistan Railways loses around Rs35 billion a year. And we know that Pakistan Steel Mills have accumulated losses of over Rs177 billion.
In 2013, PSEs lost Rs495 billion. In 2014, 2015, 2016 and 2017 losses increased to Rs570 billion, Rs712 billion, Rs862 billion and Rs1.1 trillion, respectively. Imagine, PSEs managed to lose Rs1.1 trillion last year. Incidentally, in the budget 2018-19 Rs1.1 trillion has been allocated to defence. I know that PSEs were losing tons of money every year but had no idea that a colossal Rs3.7 trillion had gone up in smoke over the past five years.
Commodity operations: Over the past five years, the Pakistan Agricultural Storage and Services Corporation, along with the provincial food departments, bought several million tons of wheat and sugar. As of March 2018, according to the State Bank of Pakistan, total liabilities in the shape of bank loans stand at Rs628 billion. This is another kind of circular debt that somehow doesn’t get much attention. But it is there, and is growing.
Circular debt-electricity: According to Yousaf Naseem Khokhar, the former federal secretary for the ministry of water and power, the amount of the ‘old circular debt’ was Rs452 billion, and the amount of the ‘new circular debt’ was Rs570 billion – a total of Rs1 trillion. When Wapda is unable to pay independent power producers (IPPs) for the electricity bought, the IPPs borrow from commercial banks to keep operating, but there’s only so much that the commercial banks can lend. The sheer magnitude of the circular debt has now put the entire financial system at risk.
ReplyDeleteCircular debt-LNG: The Sui Northern Gas Pipelines Limited owes PSO an amount of Rs28 billion on account of LNG, whereas the SNGPL claims that the independent power producers, government-owned power projects, fertiliser plants and CNG stations owe Rs16 billion to the SNGPL. This is another kind of circular debt that somehow doesn’t get much attention. But it is there, and is growing.
Power sector budgetary allocations: Over the past five years, the accumulated budgetary allocation for the power sector has been Rs965 billion. It is true that the installed capacity has gone up from 23,531 MW in 2013 to 29,573 MW, but the actual generation has only moved from 104,889 GWh to 117,236 GWh – a mere 11 percent increase over five years.
For the record, losses at PSEs have more than doubled since 2013 – from Rs495 billion to Rs1.1 trillion. This is Rs6 trillion worth of Pakistani taxpayers’ money that has gone up in smoke. And the government now wants even more taxes.