Saturday, September 26, 2020

Environment first

شبیرحسین اِمام

ماحولیات: حالات حاضرہ

تحفظ ماحول کے لئے صحافتی کوششوں اُور ذرائع اَبلاغ کے کردار سے متعلق ’آن لائن تربیتی نشست‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے جس ایک نکتے کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی وہ ”موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر منفی اَثرات“ ہیں‘ جنہیں ایک حقیقت کے طور پر سمجھنے اُور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے جبکہ ماحول خبر سے زیادہ حالات کا حاضرہ کا حصہ بھی بن چکا ہے کیونکہ اِس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ جرمن اِدارے ”فریڈرچ نعومن فاونڈیشن کے تکنیکی و افرادی وسائل سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لئے ’آن لائن تربیتی نشست‘ کا دوسرا و اختتامی سیشن چھبیس ستمبر کے روز مکمل ہوا اُور اِس نشست کے تین مرکزی مقررین عافیہ سلام‘ شبینہ فراز اُور فرید رئیس نے اپنے صحافی تجربات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے دردمندی اُور خلوص سے تربیت کے شرکا کی خواندگی میں اضافہ کیا۔

نشست سے پہلا خطاب عافیہ سلام کا تھا‘ جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیاں کے بارے میں عمومی تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلیاں حقیقت ہیں اُور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اِن سے یکساں نہیں بلکہ انتہائی متاثرین میں شامل ہے۔ اپنی اِس بات کے ثبوت میں اُنہوں نے گذشتہ بارہ برس کے اعدادوشمار پیش کئے جن سے عیاں تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام ’ٹاپ ٹین (سرفہرست) ممالک‘ میں شامل ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں فیصلہ سازی سے عوامی روئیوں تک تحفظ ماحول سے متعلق شعور خاطرخواہ بلند اُور جامع نہیں۔ کرہ ارض کے ’درجہ حرارت میں اضافے‘ سے موسمیاتی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں‘ جس سے سطح سمندر بلند ہوتی ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کے سبب سیلاب‘ خشک سالی‘ زرخیز اراضی کا بنجر ہونا یعنی صحراؤں کے رقبے میں اضافہ‘ سطح سمندر کی بلندی‘ طوفان اُور دیگر قدرتی آفات کا تواتر سے نزول ہوتا ہے۔ ماضی میں جن قدرتی آفات سے پاکستان آشنا نہیں تھا‘ اب وہ بھی رونما ہو رہی ہیں اُور اِن سے جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو تشویشناک ہے جس سے حالیہ چند برس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ظہور زیادہ شدت سے ہو رہا ہے جیسا کہ گرمی کی لہر‘ مون سون سیزن کے دوران اُور اِس سے قبل ژالہ باری‘ مون سون کے دوران بارشوں کی مقدار اُور غیرمعمولی تسلسل‘ سمندری ساحلی علاقوں میں پیدا ہونے والے بگولے (سمندری طوفان)‘ دھند کا دورانیہ‘ برفانی اُور مٹی کے تودے سڑکنا (لینڈ سلائیڈنگ)‘ جنگلی جھاڑیوں میں آگ لگنے وغیرہ جیسے واقعات ایک ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں۔ 

ماحول سے متعلق صحافتی تربیت میں محترمہ شبینہ فراز نے موضوعات کے انتخاب اُور اُن سے متعلق ادارتی فیصلہ سازوں (ایڈیٹرز یا اسائمنٹ ایڈیٹرز) کی توجہات حاصل کرنے کے گر سکھائے اُور کئی ایسی مثالیں پیش کیں جس میں انہوں نے عمومی دکھائی دینے والے ماحولیاتی مسائل کو دلچسپ بنا کر اُجاگر کیا۔ انہوں نے مناسب اُور درست الفاظ کے انتخاب و استعمال پر سب سے زیادہ زور دیا اُور تلقین کی کہ صحافیوں کا تعلق چاہے کسی بھی ابلاغ کے ذریعے سے ہو لیکن اُنہیں سمندر کو کوزے میں بند کرنے یعنی اپنی بات کہنے کا ہنر آنا چاہئے اُور یکساں ضروری ہے کہ ماحولیاتی عنوانات سے متعلق صحافی اپنی معلومات و مطالعے کو بھی وسعت دیں۔ اِس سلسلے میں احتیاط اُور سمجھ داری سے الفاظ کا استعمال و انتخاب ایسی ضرورت ہے جو فیصلہ سازوں اُور عوام کی درست رہنمائی کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ عموماً قدرتی آفات کے موقع پر جن الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے وہ انتہائی غیرمحتاط ہوتے ہیں جیسا کہ یہ کہنا کہ فلاں علاقہ ”صفحہ ہستی“ سے مٹ جائے گا یا گیا ہے جبکہ محتاط الفاظ یہ ہیں کہ قدرتی آفت کا حوالہ دے کر کہا جائے کہ کسی علاقے اُور وہاں کے رہنے والوں کو ”معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔“ ماحول ہو یا کوئی بھی موضوع اُس کا تعلق چونکہ براہ راست انسانوں سے ہوتا ہے اُور معاشرے کو انفرادی یا اجتماعی طور پر وہ متاثر کرتا ہے تو اِن منفی اثرات سے متعلق پہلوؤں کو خبرنگاری یا تجزیہ کاری میں لازماً شامل ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں شبینہ فراز نے جن تین اصولوں کا ذکر کیا اگرچہ وہ اُن کی نشست کے اختتام پر تھے اُور خاطرخواہ زیرغور نہ آ سکے لیکن یہی تین اصول درحقیقت کسی بھی ماحولیاتی خبر کو نمایاں اُور پُراثر بناتے ہیں۔ اِن میں پہلا اصول یہ ہے کہ ماحول سے متعلق کسی خبر سے متاثرہ ہونے والے طبقات کی معاش سے متعلق پہلوؤں کو بیان کیا جائے‘ دوسرا اصول انسانی صحت کو لاحق خطرات کا احاطہ کیا جائے اُور تیسرا اصول مستقبل پر اِس کے اثرات اُور بالخصوص کسی آفت یا صورتحال سے کمزور طبقات خواتین بچے اُور معمر افراد کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں‘ اُسے بیان کیا جائے۔ مذکورہ تینوں اصول انسانی نفسیات سے متعلق ہیں جن کا اگر احاطہ کیا جائے تو ہر خبر اُور کسی خبر کا ہر زوایہ اہم ہو سکتی ہے۔

تربیتی نشست کے تیسرے اُور آخری مہمان مقرر فرید رئیس تھے‘ جو گزشتہ چودہ برس سے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں اُور ’الیکٹرانک میڈیا‘ کی نبض شناس کے طور پر اُن کا ایک جملہ پورے منظرنامے کا عکاس ہے کہ پاکستان کے ’میڈیا منیجرز‘ (ذرائع ابلاغ کے فیصلہ سازوں) نے سمجھ رکھا ہے کہ ماحول مسئلہ نہیں۔ اُن کے کہنے کا مطلب ایک موازنہ پیش کرنا تھا کہ ہمارے ہاں سیاسی موضوعات کو ترجیح دی جاتی ہے اُور سیاست کے مقابلے دیگر موضوعات بالخصوص ماحولیاتی یا موسمیاتی تبدیلیوں جیسے موضوعات کی حیثیت ثانوی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے اپنے چند تجربات اُور مشکلات کا شرکا سے تبادلہ بھی کیا۔ حالات حاضرہ (کرنٹ افیئرز) سے متعلق بحث و مباحثے کے پروگرام کرنے والے میزبان (اینکر) فرید رئیس کا کہنا تھا کہ ”جب وہ ماحول کے حوالے سے کسی موضوع پر پروگرام کرنے کی خواہش کا اظہار کریں تو اُنہیں فیصلہ سازوں سے جانب سے حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماحول اُور موسمیاتی تبدیلیوں کا موضوع اجنبی نہیں لیکن اِس کے بارے میں حساسیت کی کمی ہے۔ زوم کے ذریعے ہوئی تربیتی نشست کے دیگر شرکا رئیس فرید (نیوز ون)‘ سدرہ ڈار (وائس آف امریکہ)‘ رضا محمد (جنگ)‘ فدا الرحمن‘ آصفہ ادریس‘ عنبرین‘ نصرت زہرا انصاری اُور عرس سولنگی و دیگر نے بھی وقتاً فوقتاً بحث میں حصہ لیا تاہم میزبان عامر امجد نے کمال مہارت سے بات چیت کو اپنے اصل موضوع سے جوڑے رکھا وگرنہ اتنے سارے تجربہ کار صحافیوں میں بات کہیں سے کہیں نکل جانا تعجب خیز نہ ہوتا۔

آن لائن بحث و مباحثے اُور تربیتی نشستوں کی پہلی اُور سب اہم ضرورت مسلسل و فعال انٹرنیٹ ہوتا ہے جس کی رفتارمیں غیرمعمولی کمی بیشی سے کوئی ایک شریک تربیت کا اہم جز سیکھ نہیں پاتا۔ بہرحال فرید رئیس نے سال 2019ء کے دوران عالمی سطح پر ہونے والی بہترین ماحولیاتی خبروں کا مجموعہ دکھایا جو چین کے ایک نشریاتی ادارے نے مرتب کیا تھا اُور اُن کا نکتہ یہ تھا کہ ابلاغ کا کوئی بھی ذریعہ (اخبار‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو‘ سوشل میڈیا وغیرہ) ہو سطحی خبرنگاری کے مقابلے تجزیہ کاری زیادہ محنت طلب اُور وقت طلب کام ہے۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے 5 اصولوں کو مدنظر رکھنے کی اہمیت بیان کی کہ صحافتی نکتہ نظر کسی خبر (کہانی یا واقعہ) کی اہمیت کیا ہے؟ یہ خبر کس سے متعلق ہے؟ اِس کا اثر کیا ہوگا؟ اِسے بنانے کے لئے کن تکنیکی و ادارتی وسائل کی ضرورت ہوگی اُور اِسے نشر یا شائع کرنے کے ذرائع کیا ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ’حالات حاضرہ‘ ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اثر انداز ہو رہا ہے۔ اُن کی جانب سے ماحولیات کے بارے میں ماہرین‘ حکام اُور متعلقہ شعبوں کے تبصرہ کاروں پر مشتمل ایک ڈائریکٹری مرتب کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی‘ جس کی شرکا نے تائید کی اُور اُمید ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تحفظ ماحول کے مقصد (مشن) کو آگے بڑھانے کے لئے جرمن ادارہ سنجیدگی سے غور کرے گا۔

....

https://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/c7cb07979e56ff67f73bdd69206aab46.jpg

https://epaper.dailyaaj.com.pk/