Sunday, December 30, 2018

TRANSLATION: Bleeding economy by Dr. Farrukh Saleem

Bleeding economy
اقتصادی زوال پذیری!
پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایک عرصے سے گرواٹ کا شکار ہے اُور اِس زوال پذیری کی 3 بنیادی وجوہات ہیں۔ 1: حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل میں مالی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مقدار اُور معیار دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں۔ 2: حکومتی ادارے قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں اُور اِن اداروں کا خسارہ ہر گزرتے دن بڑھ رہا ہے۔ 3: اشیاء و اجناس سے متعلق حکومتی کاروائیاں خاطرخواہ مثبت نتائج کی حامل نہیں۔

قومی خریداری: عالمی بینک کی جانب سے تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ حکومت یا حکومتی ادارے مجموعی قومی آمدنی کا 19.8 فیصد یعنی 7.5 کھرب روپے کی خریداری کرتے ہیں۔ سال 2002ء میں صدر پاکستان کے دستخطوں سے ایک قانون منظور ہوا‘ جس کے تحت ’پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پپرا)‘ تخلیق ہوئی۔ اِس نگران حکومتی ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ جملہ حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل پر نظر رکھے‘ اِس عمل کو کم خرچ اور معیار و پائیداری کے لحاظ سے بہتر بنائے۔ حکومتی اداروں کو جہاں کہیں خدمات کی ضرورت ہو یا کوئی کام کروانا ہو تو اُس موقع پر بھی ’پپرا‘ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ’پپرا‘ کے بانی نگران (منیجنگ ڈائریکٹر) خالد جاوید تھے‘ جنہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو کسی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل کو شفاف اور منظم بنائے کیونکہ اِس عمل میں ضائع (خردبرد) ہونے والے مالی وسائل کسی مالیاتی ادارے سے قرض لینے سے زیادہ ہیں۔‘‘ 

محتاط اندازہ ہے کہ قومی خریداری کے لئے مختص مالی وسائل کا 30 سے 60فیصد یعنی ہرسال 2.2 کھرب سے 4.5 کھرب روپے ضائع (بدعنوانی کی نذر) ہو جاتا ہیں۔ یہ قطعی معمولی رقم نہیں جو بہرحال بچائی جا سکتی ہے۔

قومی خریداری کے عمل میں پائی جانے والی بے قاعدگی‘ بے ضابطگی اور بدعنوانی کی بنیادی وجہ کمزور نظام ہے۔ اگر ہم موجودہ وفاقی حکومت کی بات کریں تو گذشتہ چار ماہ (اگست سے دسمبر) کے عرصے میں حکومت نے اِس شعبے میں کوئی مداخلت نہیں کی‘ جس کے نتیجے میں اندازہ ہے کہ 75 کروڑ روپے ضائع ہو چکے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو مزید قرض لینے پڑیں گے اور جیسے جیسے ملک کو چلانے کے لئے قرضوں کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے پاکستان کے اقتصادی جسم پر لگنے والے گھاؤ مزید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قومی خریداری کو متاثر کرنے والے تین عوامل میں دھوکہ دہی‘ بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی خریداری کرتے وقت اُن کی قیمت زیادہ ادا کی جاتی ہے۔ بلاضرورت اور زیادہ مقدار میں خریداری کی جاتی ہے۔ غیرمعیاری خریداری کی جاتی ہے اور خریداری کے عمل سے متعلق فیصلہ سازی کے حاصل اختیارات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اِن سبھی مسائل کا سردست آسان حل یہ ہے کہ حکومتی اداروں کی خریداری کے عمل کو ’کمپیوٹرائزاڈ‘ کردیا جائے‘ جسے ’اِی پروکیورمنٹ (e-procurement)‘ کہلائے گی۔ اِس عمل میں شفافیت کا عنصر غالب رہے گا اور بالا و نچلی سطح پر حکومتی اداروں کے فیصلہ سازوں کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ رازداری سے خریداری کریں اور اپنی بدعنوانیوں کے ثبوت فائلوں میں بند کرکے بعدازاں سرکاری ریکارڈ کو آگ لگا کر چلتے بنیں۔ جب تک خریداری کے عمل میں اختیار کی جانے والی رازداری کا خاتمہ نہیں کردیا جاتا اُس وقت شفافیت‘ معیار اُور بچت جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

سرکاری اداروں کا خسارہ: گذشتہ پانچ برس کی کہانی یہ ہے کہ 195 سرکاری اداروں نے مجموعی طور پر قومی خزانے کو 3.7 کھرب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ صرف بجلی کی مد میں پاکستان کو یومیہ ایک روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ گیس کی مد میں پچاس کروڑ‘ پاکستان ائرلائن‘ پاکستان ریلویز اور اسٹیل مل کا خسارہ 56 کروڑ سالانہ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ چار ماہ کے دوران قومی اداروں کے اِن خساروں کو روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو ’’370 ارب روپے‘‘ کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ رقم کس قدر بڑی ہے اِس بات کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف شعبوں پر اُٹھنے والے حکومتی اخراجات پر نظر کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان شعبۂ تعلیم پر سالانہ 55 ارب روپے خرچ کرتا ہے لیکن قومی ادارے سالانہ 1.1 کھرب روپے نقصان کر رہے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے دفاعی اخراجات کا کل حجم مالی سال 2018-19ء کے دوران 1.1 کھرب روپے رہا جبکہ اِسی عرصے میں حکومتی اداروں نے قومی خزانے کو 1.1 کھرب روپے کا خسارہ دیا۔ پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کی بنیادی وجہ خزانے پر بوجھ قومی ادارے ہیں۔'

پاکستان میں اداروں کے حکمرانی ہے۔ یہاں ہونے والی ادارہ جاتی بدعنوانی ایک منظم انداز میں جاری ہے جس کا دائرہ اشیاء و اجناس کی خریداری سے لیکر قومی اداروں کے خسارے تک پھیلا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ادارہ جاتی ڈھانچوں اور صوابدیدی و غیرصوابدیدی اختیارات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اصلاحات لانا ہوں گی جن سے نہ صرف سرکاری اداروں کی کارکردگی عوامی مفاد میں بہتر ہوں بلکہ اُن کا مالی بوجھ بھی کم ہو۔ 19 دسمبر (دوہزار اٹھارہ) کے روز ’آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی)‘ نے بدانتظامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کمزور مالی نظم و ضبط اور بے ضابطگیوں کی موجودگی میں 44 وفاقی وزارتوں نے مجموعی طور پر 5.8 کھرب روپے خرچ کئے ہیں۔‘‘ مراد یہ ہے کہ پاکستان کی خراب اقتصادی صورتحال کی زبوں حالی مسلسل‘ مستقل اور جاری عمل ہے! 

(مضمون نگار وفاقی حکومت کے مشیر اُور اقتصادیات و توانائی سے متعلق امور کے حوالے سے ترجمان ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, December 16, 2018

TRANSLATION: Performance check by Dr. Farrukh Saleem

Performance check
کارکردگی پر نظر!
یادش بخیر‘ سال 2001ء میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر (Tony Blair) نے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں عوام سے 4 وعدے کئے جو تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ سہولیات میں اضافے اُور جرائم میں خاتمے سے متعلق تھے۔ جب ’ٹونی بلیئر‘ مذکورہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو اُنہوں نے اِن وعدوں کی تکمیل کے لئے ’پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ (PMDU)‘ کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا۔

سال 2009ء میں ملائشیا (Malaysia) حکومت نے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ اور بروقت تکمیل کے لئے ’پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ڈیلیوری یونٹ (PEMANDU)‘ نامی محکمے کے تحت 2 حکمت عملیاں ترتیب دیں۔ پہلی حکمت عملی کا نام ’گورنمنٹ ٹرانسفورمیشن پروگرام (GTP)‘ اُور دوسری حکمت عملی کو ’اکنامک ٹرانسفورمیشن پروگرام (ETP)‘ کا نام دیا گیا۔

سیاسی حکومتوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں آئین میں معین وقت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اُن کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے وقت اور مہلت اُتنی ہی ہوتی ہے‘ جو ایک عام انتخاب سے دوسرے انتخاب تک کی ہو جبکہ انتخابات سے قبل کئے گئے وعدے کرتے ہوئے حکومت کی آئینی مدت اور درپیش قومی مالی و اقتصادی مشکلات کو باوجود نظر میں رکھنے کے بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں حکومتیں اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوتی ہیں تو اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اُنہوں نے مالی وسائل اور حکومتی اداروں کی کمزور کارکردگی سے متعلق زمینی حقائق کی اصلاح کے لئے وقت مختص نہیں کر رکھا ہوتا اور یہ دونوں امور یعنی مالی وسائل کا بندوبست کرنا اُور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو اُس بلند مقام تک پہنچانا کہ جہاں کم سے کم وسائل اور وقت میں زیادہ سے زیادہ کارکردگی کے اہداف حاصل کئے جا سکیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پاتا۔ اِس سلسلے میں صرف پاکستان ہی کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی کہ یہاں بے انتہاء سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کے باعث قومی اداروں کی کارکردگی شدید متاثر دکھائی دیتی ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کسی ایک سیاسی جماعت کے بعد دوسری سیاسی جماعت کو جب کبھی بھی حکومت کا موقع ملتا ہے‘ تو اُسے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں بہرحال مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی مثال لیں تو ہم دنیا سے زیادہ مختلف نہیں۔ قومی سطح پر وسائل کی کمی بھی نہیں لیکن اِس کے باوجود ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

کسی حکومت کے لئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نگرانی کا عمل بنانا پڑتا ہے‘ جس کے تین بنیادی اہداف ہوتے ہیں۔ 1: عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی و ضروری سہولیات کا معیار اور مقدار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکے۔ 2: عوام کے رہن سہن کے معیار کو بہتر بنایا جائے اُور 3: ایسے کاروباری و معاشی حالات پیدا کئے جائیں جس میں ہر خاص و عام کی قوت خرید یعنی آمدنی میں اضافہ ہو یعنی سرمایہ کمانے کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ حکومت کے سامنے کسی بھی پالیسی کو تخلیق کرنے کے لئے دو پہلو سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایک تو پالیسیوں کے نتائج حاصل ہوں اور دوسرا اُن کے ذریعے صرف حکومت کی فراہم کردہ خدمات و سہولیات کا معیار ہی بہتر نہ ہو بلکہ اِن خدمات کی مقدار میں بھی اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تناظر میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہر وزارت کی سطح پر کارکردگی کے معیار اُور اِس سے حاصل ہونے والے نتائج پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے نگرانی کا شفاف طریقۂ کار وضع کیا جائے کیونکہ جب تک ہر فیصلے پر عمل درآمد کی رفتار مسلسل نہیں رکھی جائے گی‘ اُس وقت تک ہر قسم کی رکاوٹیں اور مخالفتیں حکومتی کارکردگی کو متاثر کرتی رہیں گی جبکہ کسی سیاسی حکومت کے لئے یکساں اہم ہوتا ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اُترے اُور عوام کی زندگیوں میں بہتری (آسانیاں) پیدا کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ 

انتخابی کامیابی کے بعد کارکردگی کے محاذ پر کامیاب ہونے ہی سے سرخروئی و کامرانی ملتی ہے۔

اگر ہم وزارت خزانہ کی بات کریں تو اِس کے فیصلہ سازوں کو ’3 طرح کے اَہداف‘ اپنے لئے مقرر کرنا ہوں گے جس سے 1: آمدن و اخراجات میں عدم توازن ختم ہو۔ 2: مالی خسارہ کم ہو اُور 3: قومی قرض میں کمی ہو۔ اِسی طرح توانائی کی وزارت کو اپنے لئے کارکردگی کے اہداف مقرر کرتے ہوئے بجلی کی چوری‘ ترسیلی نظام میں موجود خرابیوں کا خاتمہ‘ بقایا جات کی وصولی اُور گردشی قرض ختم کرنے کے بارے سوچ بچار کرنی چاہئے۔ ریلویز کی وزارت کو سفر کرنے والے مسافروں کے اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے سفری سہولیات میں کمی بیشی پر قابو پانا‘ ریل گاڑیوں کے ذریعے مال برداری میں اضافہ اور اپنی مجموعی آمدنی میں اضافے کے لئے اقدامات کو بطور ترجیحات پیش نظررکھنا چاہئے۔

’’وزراء کی کارکردگی کا پیمانہ‘‘ پہلی مرتبہ 1970ء کی دہائی کے آخر میں سامنے آیا تھا لیکن یہ پاکستان میں نہیں تھا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ دستیاب وسائل اور وقت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ہر وزیر اپنے محکمے کے لئے ترجیحات و اہداف کا تعین کر کے کارکردگی پر مسلسل نظر رکھے اور اِس کارکردگی سے وقتاً فوقتاً قومی اسمبلی اور عوام کو بذریعہ ذرائع ابلاغ آگاہ بھی کرتا رہے تاکہ وقت اور حالات گواہ رہیں کہ کس طرح ایک سیاسی حکومت نے مالی و کارکردگی سے متعلق امور میں شفافیت برقرار رکھی اور کس طرح خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھا۔ جمہوریت کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب تک کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو بلکہ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اِس طرزحکمرانی میں ہر منتخب عوامی نمائندہ ہر لمحہ خود کو احتساب کے لئے پیش رکھتا ہے اور اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی نظم و ضبط کے تابع حکمرانوں کے ذریعے حاصل ہوئی‘ جنہوں نے خود کو ہر جوابدہ سمجھا اور اپنے کارکردگی پر وقت اور عوام کو گواہ بنائے رکھا۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, December 9, 2018

TRANSLATION - Good news by Dr. Farrukh Saleem

Good news
اَچھی خبر
پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والا ردوبدل اور روپے کی غیرمستحکم حیثیت کاروبار کے لئے ’نیک شگون‘ نہیں ہوتی۔ جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے تو اِس سے وہاں ضروریات زندگی مہنگی ہوتی ہیں اور یہ بات بھی ’نیک شگون‘ نہیں ہوتی۔ حالیہ چند ماہ کے دوران گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اب مزید مہنگی ہو گئی ہے۔ عام آدمی مہنگائی میں کمی چاہتا ہے۔ روزمرہ ضروریہ کی قیمتوں میں کمی چاہتا ہے لیکن ایسا عنقریب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک کی معاشی صورتحال غیریقینی کا شکار ہے اور جہاں کہیں بھی معیشت غیریقینی سے دوچار ہو‘ وہاں کا ماحول کاروباری سرگرمیوں کے موافق نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں ملک کی حصص اور مالیاتی مارکیٹ میں بے سکونی دکھائی دیتی ہے۔

کیا اِس معاشی صورتحال پر حکومت وقت بھی پریشان ہے‘ جو ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے؟ جی ہاں‘ حکومتی سطح پر قومی معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے تین سطحی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ 1: برآمدات میں اضافہ کرنے کے لئے متعلقہ صنعتوں اور دیگر شعبہ جات کی سرپرستی کی جا رہی ہے‘ جس کے فوری اثرات تو ظاہر نہیں ہوں گے لیکن آئندہ چند برس کے دوران پاکستان اِس قابل ہوگا کہ وہ اپنی برآمدات پر بھروسہ کر سکے۔ 2: حکومت ملک میں ایسی سرمایہ کاری لانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے مالی وسائل غیرملکی قرض کی صورت میں نہ ہوں اُور 3: بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ’ترسیلات زر‘ میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت اور عوام کے درمیان اُس اِعتماد کو بحال کیا جائے‘ جس سے عوام خود کو حکمرانوں سے الگ نہ سمجھیں اُور اِس منفی سوچ کی بھی نفی (اَزالہ) ہو کہ حکومت بظاہر عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل تو ہوتی ہے لیکن صاحبان اقتدار اور عوام کے مفادات میں ’’زمین آسمان کا فرق‘‘ ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت ایک جامع معاشی حکمت عملی کے تحت اقدامات کر رہی ہے۔ ممکن ہے کہ اِس حکمت عملی پر عمل درآمد سست رفتار ہو اُور کچھ وقت لگے لیکن وقت تو بہر لگتا ہی ہے۔ وقت چاہے کم لگے یا زیادہ اُور اِس مرتبہ اگر کچھ وقت لگتا محسوس ہو رہا ہے‘ تو اِس کے بہتر نتائج دور رس بھی ظاہر ہوں گے اور مالیاتی و معاشی طور پر پاکستان کی ترقی پائیدار ہو گی۔
تحریک انصاف کی حکومت ترجیحی بنیادوں پر ایسا سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے‘ جس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کرنے میں رغبت ملے۔ اِس حکومتی کوشش کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے کئی عالمی اداروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں ’پیپسی کو (PepsiCo)‘ نامی معروف ادارہ بھی شامل ہے۔ اِس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر برائے ایشیاء‘ مشرق وسطی اُور شمالی افریقہ مائیک اسپینوس (Mike Spanos) نے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اُور اِس عزم کا اظہار کیا کہ اُن کی کمپنی پاکستان میں ’1 ارب ڈالر‘ سرمایہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ سرمایہ کاری آئندہ پانچ برس کے دوران ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ ’پیپسی کو‘ کی سالانہ آمدنی 63 ارب ڈالر ہے۔

’پیسی کو‘ کی طرح ’سوزوکی موٹر کارپوریشن (Suzuki Motor Corporation) کے چیئرمین اُسامو سوزوکی (Osamu Suzuki) نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں ’45 کروڑ ڈالر‘ سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اِظہار کیا۔ سوزوکی موٹر کارپوریشن کی سالانہ آمدنی ’35 ارب ڈالر‘ ہے۔ سوزوکی موٹر پاکستان میں اضافی 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرے گی۔ جے ڈبلیو (JW) نامی کمپنی ’فارلینڈ (Forland)‘ کے تعاون میں پاکستان میں 15کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے‘ جس سے مال برداری میں استعمال ہونے والے ٹرک اور خصوصی استعمال کی گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ منصوبے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان میں لگنے والی اِس صنعت کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہوگی۔ پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ممالک سے صنعتیں اپنی ٹیکنالوجی بھی پاکستان منتقل کریں۔ اِسی طرح والکس ویگن (Volkswagen)‘ سیمنز (Siemens)‘ رینالٹ (Renault)‘ ایگزی موبل کارپوریشن (Exxon Mobil Corporation) پاکستان میں اپنے آپریشنز شروع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ علاؤہ ازیں پاکستان کے پانیوں میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے کراچی کے ساحل سے 230کلومیٹر دور تیل کی تلاش کرنے کی مہم بھی غیرملکی سرمایہ کاری سے شروع کی جائے گی۔ سردست پاکستان چھیاسی ہزار بیرل تیل اُور چار ارب کیوبک فٹ گیس یومیہ اپنے ذخائر سے حاصل کر رہا ہے۔ محتاط اَندازہ ہے کہ آئندہ تین برس میں یومیہ پیداوار 2 لاکھ بیرل تک بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں تیل و گیس کے ترقیاتی ادارے ’اُو جی ڈی سی ایل (OGDCL)‘ کے پاس افرادی و تکنیکی وسائل موجود ہیں‘ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے ہرسال سینکڑوں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش ممکن ہے لیکن یہ ادارہ چند درجن سے زائد کھدائیوں سے زیادہ کچھ نہیں کر رہا‘ جن میں کامیابی کی شرح ممکنہ ذخائر کی موجودگی اور حجم کے لحاظ سے کافی نہیں۔

معاشی استحکام کے مثبت اشارے مل رہے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اکتوبر 2018ء کے دوران 4.5 ملین ٹن سیمنٹ برآمد کی گئی جو گذشتہ سال کے اِسی ماہ کے دوران برآمد ہونے والی سیمنٹ سے 7.4فیصد زیادہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں بھی اگرچہ معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن یہ خوش آئند تبدیلی کا مظہر ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنے ملک کے نظام اور حکومت پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستانیوں نے اکتوبر 2018ء کے دوران 2 ارب ڈالر ترسیلات زر کیں جبکہ اکتوبر 2017ء میں ’1.65 ارب ڈالر‘ کی ترسیلات زر ہوئی تھیں یوں 21 فیصد زیادہ ترسیلات زر غیرمعمولی (اہم) پیشرفت ہے۔

جنوری 2019ء میں فیصل آباد کی ایک صنعت ’اِنٹرلوپ لمٹیڈ‘ نائیکے (Nike) اُور ایڈیڈاس (Adidas) سے برآمدات کا معاہدہ کریں گی جس کا حجم گزشتہ سال کے مقابلے اور 6.8 ارب ڈالر تک بڑھے گا۔ حکومت اور کاروباری اداروں کے درمیان اعتماد کی بحالی ایک ایسی خاص بات ہے‘ جس کا ذکر ضروری ہے کیونکہ اِسی تعلق کی مضبوطی سے روپے کی قدر پر دباؤ میں کمی لائے جا سکے گی اور یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بہتر سے بہتر کرنے کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے اور موجودہ حکومت کی کوششیں اپنی جگہ لیکن ابھی معاشی استحکام و ترقی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت بہرحال ہے۔

(مضمون نگار اِقتصادی اُور توانائی کے پیداواری اَمور کے حوالے سے حکومتی ترجمان اور مشیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, December 2, 2018

TRANSLATION: 100 Days by Dr. Farrukh Saleem

100 Days
سو دن
پاکستان تحریک انصاف حکومت کے ’ابتدائی 100 دن‘ کا جائزہ لینے کے لئے 2 امور لائق توجہ ہیں۔ 1: کیا وفاقی حکومت نے ایسی حکمت عملیاں وضع کیں‘ جن سے حسب ضرورت پائیدار ترقی کے اہداف حاصل ہوں اُور 2: کیا وضع کردہ حکمت عملیوں پر عمل درآمد جاری ہے؟

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی حکمت عملی پر عمل درآمد کا آغاز تو فوری طور پر ہو سکتا ہے لیکن اُس سے نتائج حاصل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ مذکورہ ’100 دن‘ کے دوران جن شعبوں سے متعلق حکمت عملیاں وضع کی گئیں اُن میں اقتصادیات‘ صحت‘ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل طرزحکمرانی ہے۔ اگر اِن چاروں شعبوں میں کئے گئے فیصلوں کا نظر کی جائے تو اِن کا انتخاب جامع ہونے کے ساتھ اُن زمینی حقائق کو ظاہر کرتا ہے‘ جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی باقی ماندہ آئینی مدت کے لئے ’قومی ترجیحات‘ کا تعین کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کی اقتصادی حکمت عملی تین ستونوں پر کھڑی ہے۔ برآمدات۔ سرمایہ کاری اور ترسیلات زر۔ حکومت اِن تینوں شعبوں میں غیرمعمولی بہتری چاہتی ہے۔ برآمدات کے شعبے کی اگر بات کی جائے تو پاکستان کی 71 سالہ اقتصادی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ یہ بات بھی پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہی دیکھنے میں آئی کہ ہماری برآمدات مسلسل چار سال تک زوال پذیر رہیں اُور پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں یہ بھی پہلی ہی مرتبہ دیکھنے کو ملا کہ ’جاری اخراجات (کرنٹ اکاونٹ)‘ کا خسارہ 18 ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی بلند سطح کو عبور کر گیا ہو۔

ماہ ستمبر (دوہزار اٹھارہ) کی بات ہے جب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پانچ ایسے صنعتی شعبوں کی نشاندہی کی تھی‘ جن پر توجہ دے کر پاکستان اپنی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ اِن میں پارچہ بافی (ٹیکسٹائل)‘ قالین سازی (کارپٹ)‘ چمڑے کی صنعت (لیدر)‘ کھیلوں کا سامان (سپورٹس گڈز) اُور طبی جراحت (سرجری) میں استعمال ہونے والے ’میڈیکل آلات‘ بنانے والی صنعتیں شامل ہیں۔ ماہ ستمبر ہی میں ’اقتصادی رابطہ کمیٹی‘ نے صنعتوں کے لئے گیس کی قیمت میں 44 ارب روپے کی رعائت (سبسڈی) دینے کا اعلان کیا۔ اگر ہم ٹیکسٹائل سیکٹر کی بات کریں تو پاکستان کی 60فیصد برآمدات کا تعلق اِسی صنعتی شعبے سے ہے۔ ’اقتصادی رابطہ کمیٹی‘ کے مذکورہ اجلاس میں 82 اشیاء کی قیمتوں پر درآمدی ڈیوٹی (محصولات) کم کئے گئے اور اِن دونوں اقدامات سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ اِن حکومتی اقدامات کے جواب میں ’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما)‘ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ 5 برس میں برآمدات دوگنا بڑھ جائیں گی جو فی الوقت سالانہ 13 ارب ڈالر کے مساوی ہیں۔ صنعتوں کا پہیہ تیزرفتاری سے چلنے کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے اور اندازہ ہے کہ صرف فیصل آباد و ملتان کے شہروں میں پانچ لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ گیس کی قیمت میں رعایت دینا ’برآمدات‘ بڑھانے کا پائیدار حل نہیں‘ اِس لئے زیادہ سوچ بچار کی بہرحال ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔

سرمایہ کاری کے شعبے میں اصلاحات کے تین بنیادی نکات ہیں۔ 1: ایسی سرمایہ کاری کی جائے جس کے ساتھ قرض کا بوجھ نہ ہو۔ 2: پاکستان میں کاروبار کرنے کے مواقعوں اور ماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ سرمایہ کار بناء تحفظات پاکستان کا رخ کریں اُور 3: خام پیداواری لاگت میں کمی لائے جائے۔ ایکزن موبل (ExxonMobil) نامی کمپنی جو کہ دنیا میں اپنی آمدن کے لحاظ سے 9ویں بڑی کمپنی ہے 27 برس بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آ رہی ہے۔ سوزوکی موٹر گلوبل کے چیئرمین اوسمو سوزوکی (Osamu Suzuki) پاکستان میں 45 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کوکا کولا (ترکی) پاکستان میں 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کئے ہوئے ہیں۔ یہ سب سرمایہ کاری کے مثبت اشارے ہیں۔

ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی کی سالانہ آمدنی 60 ارب ڈالر ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سلطان احمد الجبار نے اکتوبر (دوہزاراٹھارہ) میں پاکستان کے دورے پر آئے اور یہاں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا۔ اِسی طرح ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی جس کے اثاثوں کی قیمت 828 ارب ڈالر ہے نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اِن سبھی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی اپنی جگہ لیکن یہ بات وقت ہی ثابت کرے گا کہ عملی طور پر کتنی سرمایہ کاری پاکستان آتی ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ’ترسیلات زر میں اضافہ‘ موجودہ حکومت کو مقصود ہے۔ پاکستانی ورکر قریب 20ڈالر سالانہ بینکوں کے ذریعے پاکستان بھیجتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مائیگریشن (آئی اُو ایم) کے مطابق اِس قانونی ذریعے کے علاؤہ سالانہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ دیگر (بینکاری کے علاؤہ) ذرائع سے بھی پاکستان آتا ہے۔ حکومت بینکاری کے علاؤہ دیگر ذرائع سے ہونے والی ترسیلات زر کو قانونی بنانے کے لئے کوششیں کر رہی ہے جن میں ابھی تک کوئی خاص کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی‘ جس کی دو وجوہات ہیں۔ بینکاری کے بغیر سرمائے کی ترسیل کرنے والے اپنی خدمات کا معاوضہ بینکوں کے مقابلے خاصہ کم وصول کرتے ہیں اور دوسرا اُن کے ذریعے سرمائے کی زیادہ تیزرفتار ہوتی ہے‘ جن سے ناخواندہ شخص بھی باآسانی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔

غیرقانونی ذرائع سے سرمائے کی نقل و حمل (منی لانڈرنگ) روکنے کے لئے حکومتی کوششوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی 43 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ یہ ادارہ ’منی لانڈرنگ‘ کے معاملات کو سامنے لا رہا ہے۔ 12 نومبر (دوہزاراٹھارہ) کے روز وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب‘ شہزاد اکبر نے اعلان کیا کہ ۔۔۔ ’’10 ممالک کو ہوئی 700 ارب ڈالر کی ’منی لانڈرنگ‘ کا سراغ لگایا گیا ہے۔‘‘ شہزاد اکبر نے یہ بھی کہا کہ ’’منی لانڈرنگ اور پاکستان کے مالیاتی قوانین کو خاطر میں نہ لانے والے ’بڑے مگرمچھوں (قانون شکنوں)‘ شکنجے میں لانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘‘
عمومی جائزے (سروے) سے یہ تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے آنے کے بعد سے اسلام آباد میں کاروباری سرگرمیوں میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی قدر میں فرق کاروبار کے لئے خوش آئند نہیں ہوگا۔ اِس سلسلے میں مرکزی مالیاتی ادارہ (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) خاطرخواہ اقدامات کر رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اِن اقدامات اور اصلاحاتی کوششوں کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ حکومت کی اُن تمام شعبوں پر نظر ہے‘ جن میں اصلاح و بہتری کے ذریعے قومی ترقی کو پائیدار اور اِس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

(مضمون نگار وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
The writer is the government’s spokesperson on economy and energy issues