Bleeding economy
اقتصادی زوال پذیری!
پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایک عرصے سے گرواٹ کا شکار ہے اُور اِس زوال پذیری کی 3 بنیادی وجوہات ہیں۔ 1: حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل میں مالی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مقدار اُور معیار دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں۔ 2: حکومتی ادارے قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں اُور اِن اداروں کا خسارہ ہر گزرتے دن بڑھ رہا ہے۔ 3: اشیاء و اجناس سے متعلق حکومتی کاروائیاں خاطرخواہ مثبت نتائج کی حامل نہیں۔
قومی خریداری: عالمی بینک کی جانب سے تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ حکومت یا حکومتی ادارے مجموعی قومی آمدنی کا 19.8 فیصد یعنی 7.5 کھرب روپے کی خریداری کرتے ہیں۔ سال 2002ء میں صدر پاکستان کے دستخطوں سے ایک قانون منظور ہوا‘ جس کے تحت ’پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پپرا)‘ تخلیق ہوئی۔ اِس نگران حکومتی ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ جملہ حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل پر نظر رکھے‘ اِس عمل کو کم خرچ اور معیار و پائیداری کے لحاظ سے بہتر بنائے۔ حکومتی اداروں کو جہاں کہیں خدمات کی ضرورت ہو یا کوئی کام کروانا ہو تو اُس موقع پر بھی ’پپرا‘ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ’پپرا‘ کے بانی نگران (منیجنگ ڈائریکٹر) خالد جاوید تھے‘ جنہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو کسی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے خریداری کے عمل کو شفاف اور منظم بنائے کیونکہ اِس عمل میں ضائع (خردبرد) ہونے والے مالی وسائل کسی مالیاتی ادارے سے قرض لینے سے زیادہ ہیں۔‘‘
محتاط اندازہ ہے کہ قومی خریداری کے لئے مختص مالی وسائل کا 30 سے 60فیصد یعنی ہرسال 2.2 کھرب سے 4.5 کھرب روپے ضائع (بدعنوانی کی نذر) ہو جاتا ہیں۔ یہ قطعی معمولی رقم نہیں جو بہرحال بچائی جا سکتی ہے۔
قومی خریداری کے عمل میں پائی جانے والی بے قاعدگی‘ بے ضابطگی اور بدعنوانی کی بنیادی وجہ کمزور نظام ہے۔ اگر ہم موجودہ وفاقی حکومت کی بات کریں تو گذشتہ چار ماہ (اگست سے دسمبر) کے عرصے میں حکومت نے اِس شعبے میں کوئی مداخلت نہیں کی‘ جس کے نتیجے میں اندازہ ہے کہ 75 کروڑ روپے ضائع ہو چکے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو مزید قرض لینے پڑیں گے اور جیسے جیسے ملک کو چلانے کے لئے قرضوں کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے پاکستان کے اقتصادی جسم پر لگنے والے گھاؤ مزید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قومی خریداری کو متاثر کرنے والے تین عوامل میں دھوکہ دہی‘ بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی خریداری کرتے وقت اُن کی قیمت زیادہ ادا کی جاتی ہے۔ بلاضرورت اور زیادہ مقدار میں خریداری کی جاتی ہے۔ غیرمعیاری خریداری کی جاتی ہے اور خریداری کے عمل سے متعلق فیصلہ سازی کے حاصل اختیارات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اِن سبھی مسائل کا سردست آسان حل یہ ہے کہ حکومتی اداروں کی خریداری کے عمل کو ’کمپیوٹرائزاڈ‘ کردیا جائے‘ جسے ’اِی پروکیورمنٹ (e-procurement)‘ کہلائے گی۔ اِس عمل میں شفافیت کا عنصر غالب رہے گا اور بالا و نچلی سطح پر حکومتی اداروں کے فیصلہ سازوں کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ رازداری سے خریداری کریں اور اپنی بدعنوانیوں کے ثبوت فائلوں میں بند کرکے بعدازاں سرکاری ریکارڈ کو آگ لگا کر چلتے بنیں۔ جب تک خریداری کے عمل میں اختیار کی جانے والی رازداری کا خاتمہ نہیں کردیا جاتا اُس وقت شفافیت‘ معیار اُور بچت جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
سرکاری اداروں کا خسارہ: گذشتہ پانچ برس کی کہانی یہ ہے کہ 195 سرکاری اداروں نے مجموعی طور پر قومی خزانے کو 3.7 کھرب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ صرف بجلی کی مد میں پاکستان کو یومیہ ایک روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ گیس کی مد میں پچاس کروڑ‘ پاکستان ائرلائن‘ پاکستان ریلویز اور اسٹیل مل کا خسارہ 56 کروڑ سالانہ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ چار ماہ کے دوران قومی اداروں کے اِن خساروں کو روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو ’’370 ارب روپے‘‘ کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ رقم کس قدر بڑی ہے اِس بات کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف شعبوں پر اُٹھنے والے حکومتی اخراجات پر نظر کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان شعبۂ تعلیم پر سالانہ 55 ارب روپے خرچ کرتا ہے لیکن قومی ادارے سالانہ 1.1 کھرب روپے نقصان کر رہے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے دفاعی اخراجات کا کل حجم مالی سال 2018-19ء کے دوران 1.1 کھرب روپے رہا جبکہ اِسی عرصے میں حکومتی اداروں نے قومی خزانے کو 1.1 کھرب روپے کا خسارہ دیا۔ پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کی بنیادی وجہ خزانے پر بوجھ قومی ادارے ہیں۔'
پاکستان میں اداروں کے حکمرانی ہے۔ یہاں ہونے والی ادارہ جاتی بدعنوانی ایک منظم انداز میں جاری ہے جس کا دائرہ اشیاء و اجناس کی خریداری سے لیکر قومی اداروں کے خسارے تک پھیلا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ادارہ جاتی ڈھانچوں اور صوابدیدی و غیرصوابدیدی اختیارات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اصلاحات لانا ہوں گی جن سے نہ صرف سرکاری اداروں کی کارکردگی عوامی مفاد میں بہتر ہوں بلکہ اُن کا مالی بوجھ بھی کم ہو۔ 19 دسمبر (دوہزار اٹھارہ) کے روز ’آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی)‘ نے بدانتظامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کمزور مالی نظم و ضبط اور بے ضابطگیوں کی موجودگی میں 44 وفاقی وزارتوں نے مجموعی طور پر 5.8 کھرب روپے خرچ کئے ہیں۔‘‘ مراد یہ ہے کہ پاکستان کی خراب اقتصادی صورتحال کی زبوں حالی مسلسل‘ مستقل اور جاری عمل ہے!
(مضمون نگار وفاقی حکومت کے مشیر اُور اقتصادیات و توانائی سے متعلق امور کے حوالے سے ترجمان ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)