Saturday, January 28, 2023

Motorways: the unsafe journey experiences.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

موٹرویز : سہولیات و حفاظت کا معیار

پاکستان میں موٹروے سال 1997ءمیں متعارف ہوئی‘ جس کے بعد سے اِس کی توسیع جاری ہے۔ فی الوقت کثیر رویہ ’موٹرویز (شاہراہیں)‘ 2 ہزار 816 کلومیٹر طویل ہیں جبکہ 1 ہزار 213 کلومیٹر توسیعی منصوبے زیرغور یا زیرتعمیر ہیں۔ یہی موٹروے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا بھی حصہ ہے جو چین کی سرحد (درہ خنجراب) سے شروع ہو کر گوادر (بندرگاہ) تک تجارتی راہداری ہے۔ پاکستان میں کل 16موٹرویز کا خاکہ تیار کیا گیا جن میں سے 11 کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اِنہیں فعال کر دیا گیا ہے۔ موٹروے کے ہر حصے (سیکشن) کو انگریزی زبان کے حرف ’ایم (M)‘ سے شناخت کیا جاتا ہے جبکہ ’ایم‘ کے ساتھ کسی عدد (نمبر) کا اضافہ اُس کی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ پشاور سے اسلام آباد (155 کلومیٹر) طویل موٹروے کو ’ایم ون (M-1)‘ کہا جاتا ہے اُور یہ سال 2007ءسے فعال ہے۔

موٹروے کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ’ہائی وے سیفٹی ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ‘ کو دیکھا جاتا ہے جو کسی بھی شاہراہ یا موٹر وے کا سب سے اہم پہلو ہوتا ہے کیونکہ اگر بناوٹ میں نقص نہ ہو تو ٹریفک حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں بنا رکاوٹ اُور تیزرفتار سفر کے لئے موٹرویز کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے لیکن ’ہائی ویز‘ کو درپیش ’سیفٹی چیلنجز‘ خاطرخواہ توجہ سے حل نہیں کئے گئے۔ اِس منظرنامے سے متعلق یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ موٹروےز کے ساتھ حفاظتی امور سے جڑے مسائل (سیفٹی چیلنجز) کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے۔ موٹرویز کے سیفٹی مینجمنٹ کا تقاضا یہ ہے کہ حرکت کی رفتار برقرار رکھتے ہوئے حفاظتی مسائل کو زیادہ محتاط طریقے سے حل کیا جائے۔ موٹروے ہو یا کوئی عمومی شاہراہ‘ جن مقامات پر عموماً ٹریفک حادثات ہوتے ہیں‘ اُنہیں ”حادثاتی بلیک سپاٹس“ کہا جاتا ہے۔ یہ ’بلیک سپاٹس‘ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے تخلیق پاتے ہیں جبکہ اِن کے دیگر محرکات (وجوہات) میں ڈرائیونگ میں مہارت کی کمی‘ ٹریفک قواعد سے متعلق خواندگی کی کمی‘ تیزرفتاری اُور بے صبری کا عمومی قومی رجحان‘ ٹریفک سائن بورڈز کی کمی‘ جیومیٹرک ڈیزائن کے مسائل اور پیدل چلنے والوں یا موٹرویز کے اردگرد کھیتوں سے مال مویشوں اُور جانوروں کا موٹرویز عبور کرنا جو اِس کے نامناسب ڈیزائن کا عکاس ہے چند ایسے پہلو ہیں‘ جنہیں خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں اُور اگرچہ صارفین اِن کے بارے میں متعلقہ شعبوں کو شکایات درج کرواتے بھی ہیں لیکن غلطیوں کی اصلاح بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے اُور پُرخطر موٹرویز پر سفری سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ انسانی جان کی اہمیت کا احساس فیصلہ سازی کی جس سطح پر ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اُور یہی وجہ ہے کہ ایسے عوامل موجود ہیں جو آئے روز موٹرویز پر ہونے والے حادثات یا حادثات سے بال بال بچنے میں براہ راست یا بالواسطہ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِن عوامل میں موسمیاتی تبدیلیاں اُور ماحولیاتی اثرات جیسا کہ دھند‘ سموگ وغیرہ کا بھی کافی عمل دخل ہے۔ اب تک کے موٹرویز تجربے یعنی عمومی مشاہدے اُور تجزئیات کو یکجا کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ موٹرویز پر حادثات کی بڑی وجہ لاپرواہی سے گاڑی چلانا (2 فیصد)‘ تیز رفتاری (25 فیصد)‘ ٹائر پھٹنے سے حادثات (23فیصد)‘ بریک فیل ہونا (18فیصد) اور موٹرویز کو پیدل عبور کرنے کی کوشش میں (9فیصد) حادثات ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار سالہا سال سے کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں جبکہ ضرورت یہ ہے کہ موٹروے سے استفادہ کرنے والے مسافروں کی آرا بھی اِس میں شامل ہونی چاہئے کہ خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے موٹرویز کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اُور اُن کا سفری تجربہ کیسا رہا یا بار بار سفر کرنے میں اُنہیں کون کون سے ایک جیسے مسائل و مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے یا مسائل و مشکلات اُن کی نظروں سے گزرتے ہیں؟ موٹرویز قومی اثاثہ ہیں جنہیں بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ اِن کے انتظامی امور (مینجمنٹ) میں وقت کے ساتھ اصلاحات ضروری ہیں تاکہ مسافروں کو معیاری سہولیات میسر آئیں۔ اُنہیں اپنی حفاظت کا احساس ہو۔ اِس مقصد کے لئے رہنمائی کا مناسب ”ٹریفک گائیڈنس اینڈ کنٹرول سسٹم“ ہونا چاہئے تاکہ گاڑیوں کی محفوظ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جن دیہی یا شہری علاقوں کے آس پاس سے موٹرویز گزرتی ہے وہاں کے رہنے والے کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے موٹروے پیدل عبور کرنے جیسا خطرہ مول لیتے ہیں جبکہ ایسے خطرات کو انڈر پاسیز بنا کر کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیوں بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ کو حد رفتار کا لحاظ پاس رکھنے کے لئے اُن کی رفتار ایک ٹول پلازے سے دوسرے ٹول پلازے تک دیکھی جانی چاہئے اُور پبلک ٹرانسپورٹ کے جو ڈرائیور تیزرفتار یا گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کریں اُنہیں سخت جرمانے ہونے چاہیئں۔ ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی روک تھام ’ٹائر چیکنگ گیج‘ اُور بریک فیل ہونے کی صورت حادثے سے بچنے کی تربیت کے لئے ذرائع ابلاغ (پرنٹ‘ الیکٹرانک میڈیا اُور سوشل میڈیا) کے ذریعے آگاہی مہمات چلائی جانی چاہیئں۔ شاہراؤں پر سفر محفوظ اُور قابل محظوظ بنانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

موٹرویز اُور گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ سے سفر کرنے میں دو بنیادی فرق ہیں۔ سب سے پہلا اُور نمایاں اُور انتہائی اہم فرق یہ ہے کہ موٹرویز پر ’جی ٹی روڈ‘ کے مقابلے فی گاڑی زیادہ ’ٹول ٹیکس‘ وصول کیا جاتا ہے۔ دوسرا فرق موٹرویز پر بنائے گئے قیام و طعام کے مقامات (ریسٹ ایریاز) میں خدمات کی قیمت نسبتاً زیادہ وصول کی جاتی ہے جبکہ تیسری عمومی شکایت قیام و طعام کے مقامات (ریسٹ ایریاز) میں بنائے گئے ’عوامی واش رومز‘ کی خراب حالت اُور صفائی کا انتہائی ناقص انتظام سے متعلق ہے۔ موٹرویز کو پیدل عبور کرنے کی کوشش عمومی حادثات کا باعث بنتی ہے جس میں انسانوں یا جانوروں کو بچانے کی کوشش میں جانی و مالی نقصانات معمول کی بات ہیں۔ ایسی کسی ہنگامی صورت میں اگر موٹرویز کے متعلقہ شعبے کو بذریعہ ”ہیلپ لائن فون نمبر 130“ اطلاع دی جائے تو یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ فوری مدد پہنچے گی۔ اگر ہنگامی حالات میں کی گئی کسی فون کال کو کئی منٹ تک انتظار کروانے کے بعد جواب دیا جائے تو اِس سے ’ہنگامی حالت (ایمرجنسی)‘ میں مدد کا تصور مجروح ہوتا ہے۔ موٹرویز پر سفر کا تجربہ مسافروں کے لئے کتنا شاندار اُور پُرخطر ہے اِس حوالے سے اگر تحقیق کی جائے تو موٹروے سے زیادہ محفوظ اُور ماحول دوست آمدورفت کا تصور تیز رفتار ریل گاڑی (بلٹ ٹرین) کا سامنے آئے گا جو کئی ہمسایہ ممالک میں انتہائی ترقی یافتہ اُور زیرزمین سرنگوں کی شکل میں فعال ملتا ہے۔

....


Sunday, January 1, 2023

Yearender Sports in 2022

 تحریک .... آل یاسین

کھیل کھلاڑی اُور کامیابیاں

کھیل کے میدان میں سال 2022ءکے دوران سمیٹی گئیں کامیابیوں پر نظر کی جائے تو سرفہرست کامیابی ’نوح دستگیر بٹ‘ کا وہ گولڈ میڈل تھا جو اُنہوں نے ”کامن ویلتھ گیمز“ کے دوران 405 کلوگرام وزن اُٹھا کر حاصل کیا۔ یہ اعزاز اِس لئے بھی اہم ہے کہ یہ پاکستان کے لئے پہلا طلائی تمغہ ہے۔ ویٹ لفٹنگ (وزن اُٹھانے میں) پاکستان کے کئی ویٹ لفٹرز نے نام کمایا ہے لیکن ’نوح دستگیر بٹ کا 405 کلوگرام وزن اٹھانا انتہائی غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ پاکستان کے لئے سال کی دوسری اہم و نمایاں کامیابی ارشد ندیم کا کامن ویلتھ گیمز میں ’جیولن تھرو ایونٹ‘ میں گولڈ میڈل جینا تھا۔ انہوں نے 90.18 میٹر دور جیولن پھینک کر سونے کا تمغہ اپنے نام کیا اُور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ارشد ندیم نے ایتھلیٹکس میں پاکستان کی جانب سے پہلا طلائی تمغہ جیت کر ایک تاریخ رقم کردی ہے جس پر یقینا پاکستان کے فیصلہ سازوں کی نظر ہوگی اُور آئندہ کامن ویلتھ گیمز (2026ئ) میں یکساں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیاریاں کی جائیں گی۔ پاکستان کے لئے تیسری کامیابی کا تعلق بھی کامن ویلتھ گیمز ہی سے ہے جس کے کشتی (پہلوانی) میں حصہ لینے والے پاکستانی پہلوانوں نے اپنی طاقت اور مہارت سے 4 تمغے جیتے۔ انعام‘ زمان انور اور شریف طاہر نے بالترتیب 86کلوگرام‘ 125کلوگرام اور 74کلوگرام کیٹیگریز میں چاندی کے تمغے جیتے جبکہ عنایت اللہ نے 65کلوگرام کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ کشتی (پہلوانی) میں پاکستانی کھلاڑی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اُور یقینا یہ پہلو بھی کھیلوں سے متعلق قومی فیصلہ سازوں کے پیش نظر ہوگا۔ 

کرکٹ کی دنیا میں سال دوہزاربائیس کے دوران پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنائی تو اِس پر پوری قوم مسرور تھی۔ آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئٹنی ورلڈ کپ (ٹورنامنٹ) میں پاکستان کی کارکردگی کرشماتی رہی جس کا جادو فائنل میں نہ چل سکا لیکن برطانیہ سے فائنل ہارنے کے باوجود پاکستان ٹیم نے اپنی محنت کے لئے داد وصول کی۔ یقینی طور پر اپنے مکمل اعتماد اُور جذبے کے ساتھ کھیل سے شائقین کرکٹ بے حد خوشی اُور محظوظ ہوئے۔

پاکستان کے لئے سال دوہزار بائیس کی پانچویں کامیابی ’احسن رمضان‘ کے نام رہی جنہوں نے سنوکر نامی کھیل میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ سولہ سالہ احسن رضا ’آئی بی ایس ایف ورلڈ سنوکر ٹائٹل‘ جیتنے والے کم عمر ترین پاکستانی بن گئے ہیں۔ انہوں نے تجربہ کار ایرانی کیوئسٹ عامر سرکوش کو شکست دے کر ٹائٹل جیتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کا چوتھا آئی بی ایس ایف ورلڈ سنوکر ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔ پاکستان کے لئے چھٹی کامیابی کا تعلق کرکٹ کے ایشیا کپ مقابلے سے ہے جس میں پاکستانی ٹیم فائنل تک پہنچی۔ یوں ٹیم گرین مینز ٹیم سپر فور راؤنڈ میں کامیابی کے بعد ایشیا کپ 2022ءکے فائنل میں پہنچی اُور اگرچہ فائنل میں سری لنکا سے مقابلہ ہار گئی لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کا فائنل تک پہنچنے کا سفر کافی متاثر کن رہا۔

 پاکستان کو ساتویں کامیابی شاہ حسین شاہ نے دلوائی جنہوں نے جوڈو میں میڈل جیتا۔ شاہ حسین شاہ حالیہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے لئے تمغہ جیتنے والے پہلے کھلاڑی تھے جس کے بعد ایونٹ میں دیگر پاکستانی ایتھلیٹس نے کامیابیاں حاصل کیں۔ شاہ حسین شاہ نے جوڈو ایونٹ کے مردوں کے 90کلوگرام مقابلے میں جنوبی افریقہ کے تھامس لسزلو بریٹن باخ کو شکست دے کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ آٹھویں نمبر پر ہنزہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ’باکسر‘ العلومی کریم رہے جنہوں نے ’بنٹم ویٹ مقابلے‘ میں انڈین مکسڈ مارشل آرٹس ٹائٹل حاصل کیا۔ دبئی میں دسویں میٹرکس فائٹ نائٹ (ایم ایف این) ایونٹ کے پہلے راؤنڈ میں بھارت کے دھرو چودھری کو ناک آؤٹ کرنے کے بعد العلومی کریم نے بینٹم ویٹ چیمپیئن شپ جیتی۔

 سال دوہزار بائیس کی نویں اُور سب سے زیادہ پڑھی‘ دیکھی اُور سنی جانے والی خبر کرکٹ کے میدان سے تھی جس میں پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم نے بھارت کو شکست دی۔ پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم نے سلہٹ میں جاری ویمنز ایشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو شکست دی۔ ندا ڈار کی آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت پاکستان ویمنز نے تیرہ رنز سے تاریخی فتح حاصل کی۔ سال دوہزاربائیس کی دسویں خوشخبری کا تعلق ماضی سے زیادہ مستقبل سے ہے۔

 پاکستان کی فٹ بال کا عالمی مرحلے میں واپس آنا انتہائی اہم پیشرفت ہے۔ تقریبا تین سال بعد پاکستان کی مینز فٹ بال ٹیم بالآخر بین الاقوامی سرکٹ میں واپس آگئی ہے کیونکہ اس نے نیپال کے خلاف ایک دوستانہ میچ کھیلا اُور اگرچہ پاکستان وہ میچ نہیں جیت سکا لیکن اِس عالمی مقابلے کی بدولت پاکستان عالمی فٹ بال کی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کی خواتین فٹ بال ٹیم نے ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن (SAFF) مقابلوں کے ویمنز کپ میں مالدیپ کے خلاف سات صفر سے تاریخی فتح حاصل کی۔

....

Yearender Internet in 2022

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
سالنامہ: انٹرنیٹ و سوشل میڈیا
سال 2022ءکے دوران انٹرنیٹ اُور سماجی رابطہ کاری (سوشل میڈیا) کی دنیا میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سال دوہزاراکیس کی طرح دوہزاربائیس میں بھی سب سے زیادہ استفادہ ’گوگل (Google)‘ سے کیا گیا جبکہ سوشل میڈیا کی دنیا پر حکمرانی کرنے والی ٹوئیٹر (Twitter) کا زوال دیکھا گیا اُور ٹوئیٹر کی جگہ ’انسٹاگرام (Instagram)‘ نے لی۔ سال 2022ءکے دوران دنیا کی آبادی 8 ارب کے عندسے کو عبور کر گئی اُور اِس ایک سال کے عرصے میں دنیا بھر میں ’5 ارب‘ صارفین نے انٹرنیٹ سے استفادہ کیا۔ کلاو¿ڈ فلیئر (CloudFlare) نامی ادارے کی مرتب کردہ رپورٹ کے دیگر اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ سال 2022ءکے دوران انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں مجموعی طور پر 23 فیصد اضافہ ہوا اُور یہ اعزاز عالمی تاریخ میں کسی بھی دوسری ایجاد کو حاصل نہیں کہ وہ سالانہ اِس قدر تیزی سے پذیرائی حاصل کرے۔
 اِنٹرنیٹ پر دنیا کے بڑھتے ہوئے انحصار کو دیکھتے ہوئے پیشنگوئی کی گئی ہے کہ آئندہ چند برس کے دوران انٹرنیٹ امور مملکت سے لیکر نجی زندگی کے معمولات تک ہر ضرورت پر حاوی ہوگا تاہم ٹیکنالوجی کے اِس اندھا دھند طوفان میں اخلاقی و ثقافتی اقدار کا مستقبل کیا ہو گا یہ بات اہل مغرب (ترقی یافتہ دنیا) کے لئے اہمیت نہیں رکھتی لیکن ایشیائی خطے بالخصوص جنوب مغربی ایشیائی ممالک اُور خلیجی (عرب) ممالک کے علاو¿ہ چین‘ جاپان اُور جنوبی و شمالی کوریا جیسے ممالک اپنی تاریخ و ثقافت اُور زبان کو بہت اہمیت دیتے ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ جہاں انٹرنیٹ صارفین مقامی و علاقائی زبانوں میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں وہیں انٹرنیٹ خواندگی کے سلسلے بھی پہلے سے کئی زیادہ دراز دکھائی دیتے ہیں۔ اِس پوری صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ نئے عیسوی سال (دوہزارتیئس) کے دوران انٹرنیٹ سے متعلق خواندگی کو نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں تاکہ انٹرنیٹ کے عمومی استعمال سے ”مصنوعی ذہانت“ اُور ’ڈیٹا سائنس“ جیسی وسعت پا لینے کے بعد اِس ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا سکے۔

سال دوہزار بائیس کے دوران دنیا کی 10 مقبول ترین ویب سائٹس میں پہلے نمبر پر گوگل‘ دوسرے نمبر پر فیس بک جبکہ تیسرے اُور چوتھے نمبر پر 2 ویب سائٹس (ٹک ٹاک اُور ایپل) فائز ہیں۔ پانچویں سے نویں نمبر تک بالترتیب یوٹیوب‘ مائیکروسافٹ‘ ایمازون ویب‘ انسٹاگرام‘ ایماوزن جبکہ دسویں نمبر پر 4 ویب سائٹس (آئی کلاؤڈ‘ نیٹ فلیکس‘ ٹوئیٹر اُور یاہو) ایک ہی درجے پر مساوی فائز ہیں لیکن انٹرنیٹ کی مقبولیت اُور فعالیت سے متعلق اِن اعدادوشمار پر اندھا دھند یقین کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر پہلے 10 نمبروں پر آنے والی ویب سائٹس میں اکثریت امریکی سرمایہ کاروں کی ہیں جبکہ اِن کی مقبولیت کے بارے میں سالانہ اعدادوشمار مرتب کرنے والی کمپنیاں بھی امریکی ہی ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا پر امریکہ جس حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے اُس کے صرف چین اُور روس ہی نہیں بلکہ جمہوری اسلامی ایران بھی شدید خطرے کے طور پر دیکھا اُور ذکر کیا جاتا ہے۔

ایران نے سال 2022ءکے دوران روس کو ڈرون طیارے فراہم کئے جو ایک کمزور انٹرنیٹ سیکورٹی رکھتے تھے لیکن وہ اِس لحاظ سے کامیاب رہے کہ دنیا نے پہلی مرتبہ ’خودکش ڈرون طیاروں‘ کو دیکھا۔ اِس سے قبل اسرائیل اُور امریکہ کے تحقیق کاروں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے ایسے ڈرون طیارے بنائے جو ایک اُڑان میں کئی روز تک فضا میں رہ سکتے ہیں۔ جو زیادہ بم یعنی وزن اُٹھا کر لیجا سکتے ہیں اُور جن میں یہ پوشیدہ رہنے کی صلاحیت بھی ہے تاکہ دشمن کے ریڈار اُنہیں نہ دیکھ سکیں۔ ایران نے نہایت ہی کم وسائل سے ایسے ڈرون طیارے بنائے جو نچلی پرواز کرنے کی وجہ سے ریڈار کی شعاؤں کو دھوکہ دیتے ہیں اُور جنہیں کسی ایک مشن (حملے) پر صرف ایک ہی مرتبہ بھیجا جا سکتا ہے۔ روس یوکرائن جنگ نے صرف ایرانی ڈرونز ہی نہیں بلکہ روس‘ امریکہ اُور نیٹو تنظیم کے رکن ممالک کی بنائی ہوئی تباہ کن جنگی ٹیکنالوجی بھی ظاہر کی جس سے کرۂ ارض پر عالمی جوہری جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں! حقیقت یہی ہے کہ ٹیکنالوجی نے انسانوں کی زندگیوں میں سہولیات سے زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں اُور سال 2023ءکے دوران اُمید کی جا سکتی ہے کہ ٹیکنالوجی کو انسان دوست اُور ماحول دوست بنانے پر زیادہ سوچ بچار (تحقیق) اُور کام کیا جائے گا۔

اگر سال 2022ءکے دوران ’کرپٹوکرنسی‘ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو قواعد و ضوابط (ریگولیشنز) کی کمی اور غیر مرکزیت کی وجہ سے کرپٹو کرنسیز کی دنیا خطرات سے دوچار رہی لیکن ہیکس (دھوکہ دہی اُور فریب) کے درمیان کرپٹو کرنسیز کا کاروبار چلتا رہا۔ کرپٹو کرنسی کی دنیا میں دھوکہ دہی کے حوالے سے دنیا دو واضح حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ ہر دھوکے کے لئے چین کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے جبکہ دوسرا گروہ امریکی Hackers کی جانب اُنگلیاں اُٹھاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کی کھوج‘ بندوبست اُور تخلیق کے بارے معلومات (پروٹوکولز) سے آشنا اِس کی خامیوں کا فائدہ اُٹھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سال 2022ءکے پہلے تین مہینوں میں کرپٹو کرنسی کی چوری کے واقعات زیادہ پیش آئے جن کا مجموعی حجم 1.3 ارب ڈالر کے مساوی تھا جبکہ سال دوہزاربائیس کے اختتام پر ’سائبر کرائمز‘ کے عادی مجرموں نے مجموعی طور پر کرپٹو کرنسی پر اعتماد کرنے والوں کے 3 ارب ڈالر چوری کئے ہیں اُور ظاہر ہے کہ سال 2023ءکے دوران کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئے گی کیونکہ جہاں اِس قدر چوری اُور دھوکہ دہی کا خطرہ ہو‘ وہاں کوئی بھی ذی شعور سرمایہ کاری کرنا پسند نہیں کرے گا۔

سال دوہزاربائیس کے دوران انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں 23 فیصد اضافے پر خوش ہونے کی بجائے اِس بات کو بھی دیکھنا چاہئے کہ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا اُور بالخصوص کرپٹوکرنسی کے صارفین کیا خود کو زیادہ محفوظ سمجھ رہے ہیں؟ اگر نہیں تو دنیا کو ’عالمی انٹرنیٹ‘ کی بجائے ’ملکی سطح پر محدود انٹرنیٹ‘ کی ضرورت ہے جو آن لائن سرگرمیوں کے لئے زیادہ محفوظ‘ قابل بھروسہ اُور زیادہ کارآمد ثابت ہو‘ یہی وہ ضروریات تھیں جن کے لئے انٹرنیٹ کو ترقی دیتے ہوئے ’ویب تھری پوائنٹ زیرو‘ متعارف کرایا گیا لیکن شاید ابھی انٹرنیٹ کے وسائل اِی گورننس اُور اِی لائف سٹائل جیسی پُرکشش مراعات کی شکل میں مشکلات کا ’یقینی حل‘ پیش کرنے سے بہت دور ہیں۔ ....