Saturday, March 12, 2022

Dark side of the criminal justice system in Pakistan!

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

تاریک گھر

ستائیس جنوری دوہزار اٹھارہ: کوہاٹ میں عاصمہ رانی نامی لڑکی کو قتل کیا گیا۔ مقتولہ کے بھائی ثاقب اللہ نے پولیس کو بتایا کہ مجاہد اللہ آفریدی اُور اُس کے بھائی صادق اللہ آفریدی نے اُن کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی جس سے اُس کی بہن کی موت ہوئی۔ قتل کا مبینہ محرک یہ بتایا گیا کہ مجاہد اللہ نے عاصمہ رانی کے لئے شادی کا پیغام (رشتہ) بھیجا لیکن چونکہ مجاہد اللہ پہلے سے شادی شدہ تھا اِس لئے اہل خانہ اُور لڑکی نے انکار کر دیا اُور رشتے سے اِس انکار کو اپنی بے عزتی سمجھنے والوں نے رانی کو قتل کر دیا۔ قتل کرنے کی شب ہی نامزد مرکزی ملزم مجاہد اللہ متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا‘ جہاں سے اُسے ’انٹرپول (عالمی پولیس)‘ کے ذریعے گرفتار کر کے وطن واپس لایا گیا کیونکہ سماجی و سیاسی اُور ذرائع ابلاغ کے کی وجہ سے عاصمہ رانی کا قتل معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چینلج بن چکا تھا۔ بہرحال مجاہداللہ کو مارچ دوہزاراٹھارہ میں پاکستان واپس لایا گیا اُور اُس پر مقدمے کے دوران جرم ثابت ہونے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پشاور کی عدالت نے ”25 جون 2021ئ“ کے روز سزائے موت اُور تین لاکھ جرمانے کی سزا سنائی اِس کے علاو¿ہ اُسے 20 لاکھ روپے مقتولہ کے ورثا کو بھی دینے کا کہا گیا‘ جو سزا کا حصہ تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ذہین و باصلاحیت عاصمہ رانی ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ’ایم بی بی ایس‘ سال سوئم (تھرڈ ائر) کی طالبہ تھی اُور اہل خانہ اُسے ”چاند“ کے لقب سے پکارتے تھے‘ جس کے قتل پر اُنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا گھر تاریک ہو گیا ہے! پولیس نے قتل کے اِس مقدمے میں ’دہشت گردی‘ کی دفعات لاگو کی تھیں جن کو بعدازاں ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے مجرم کی طرف سے دائر پٹیشن پر ختم کر دیا تھا۔ قتل کے اِس مقدمے کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اِس میں قاتلانہ حملے کے بعد عاصمہ رانی کے بیان جو کہ ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو کی صورت میں تھا‘ عدالت میں گواہان سمیت پیش کیا گیا‘ جس میں عاصمہ رانی نے مجرم دیئے گئے مجاہد اللہ کی فائرنگ کا ذکر کیا تھا اُور قتل کا یہ مقدمہ اِس لئے بھی ملکی و بین الاقومی ذرائع ابلاغ میں کئی مہینوں تک زیربحث رہا کیونکہ مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن برطانیہ میں مقیم تھیں اُور اُنہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ اُور سوشل میڈیا پر کے ذریعے حقائق بیان کئے جس پر سوشل میڈیا صارفین اُور دیگر عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جاتا رہا اُور عاصمہ رانی کے لئے انصاف کے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کا مطالبہ ہر دن زور پکڑنے لگا تھا۔ درخواستیں رانی کے قتل کے مقدمے میں تین ملزمان نامزد کئے گئے تھے جن میں مجاہد اللہ‘ اِس کا بھائی صادق اللہ اُور اِن کا دوست شاہ زیب شامل تھے تاہم عدالت نے دیگر دونوں ملزمان کو ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے بری کر دیا اُور ’ستمبر دوہزاراکیس‘ میں یہ پیشرفت بھی ہوئی کہ مقتولہ رانی کے والد غلام دستگیر نے علاقائی روایات کے مطابق ایک جرگہ میں مجاہد اللہ کو معاف کر دیا۔ پاکستان کے قوانین (کوڈ آف کریمنل پروسیجر اُور پاکستان پینل کوڈ) کے تحت متاثرہ خاندان اپنے ساتھ ہوئے کسی بھی قسم کے جرم کو معاف کر سکتا ہے اُور ایسی صورت میں عدالت اُن کے آپسی تصفیے کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ اُور سزا ختم کر دیتی ہے۔

دس مارچ دوہزاربائیس: جسٹس روح الامین خان اُور جسٹس شکیل پر مشتمل عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے 2 رکنی بینچ کے سامنے خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل (ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نثار) نے موقف اختیار کیا کہ رانی کے قاتل کو صرف اِس وجہ سے معاف نہیں کیا جانا چاہئے کہ اُس کے اہل خانہ نے کسی بھی وجہ سے تصفیہ کر لیا ہے بلکہ اِس مقدمے کو اِس نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے کہ قتل کی مذکورہ واردات ’فساد فی الارض‘ ہے اُور اگر اِس قسم کے انصاف کی مثالیں قائم کی گئیں تو اِس سے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی بلکہ اِس سے بااثر طبقات کو ایسے سنگین جرائم کرنے کی بھی ’کھلی چھوٹ‘ مل جائے گی جو اپنی امارت کے زعم میں اِس بات کو ضروری نہیں سمجھتے کہ انسانی جان کی حرمت ہر قانون اُور ضابطے سے بالاتر ہے۔ قابل ذکر ہے کہ حکومتی وکیل کی جانب سے یہ نکتہ¿ نظر سامنے آنے سے پہلے ہی عدالت عالیہ نے بیرسٹر امیر اللہ خان کو ’ایمیکس کیوری (غیرجانبدار مشیر)‘ مقرر کیا تھا تاکہ وہ اس قانونی نکتے پر عدالت کی معاونت و رہنمائی کریں کہ جب پاکستان کے قوانین (سی آر پی سی‘ پی پی سی اور آئین) کی متعدد دفعات میں اِس بات کی اجازت ہے کہ متاثرہ خاندان زیرسماعت مقدمات کا تصفیہ (فیصلہ) ازخود کر سکتا ہے اُور آئینی طور پر عدالت ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی پابند بھی ہے تو عاصمہ رانی قتل کیس میں ہوئے تصفیے کے بعد عدالت ِعالیہ کس طرح سزائے موت پر عمل درآمد بحال رکھ سکتی ہے اُور ایسی صورت میں عدالت کے پاس مداخلت کرنے کی کس قدر گنجائش رہ گئی ہے؟

مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن صفیہ رانی برطانیہ کمپیوٹرز (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئی تھی لیکن جب اُنہیں اپنی بہن کے قتل اُور پاکستان میں عدالت و انصاف کے بارے میں علم ہوا تو اُنہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا تاکہ ’بار ایٹ لا‘ کرنے کے بعد وہ پاکستان آئیں اُور اپنی بہن کا مقدمہ لڑیں لیکن قانون و انصاف کا عالمی اصول یہ ہے کہ اِس میں قانون و انصاف کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے جبکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آنکھوں پر پٹی کے علاو¿ہ قانون و انصاف کے دیگر حواس ِخمسہ بھی شل (معذور) ہو چکے ہیں جبکہ معاشرے میں جرم اُور مجرموں سے خاطرخواہ نفرت نہیں پائی جاتی۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی کہ جس میں عدالتیں قانون اُور قانون عدالتوں کے سامنے بے بس رہا تو نجانے مزید کتنے چاند گرہن ہوں گے! مزید کتنی جانیں قتل ہوں گی اُور مزید کتنے قاتل معاف کر دیئے جائیں گے۔ صرف عاصمہ رانی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں انصاف کو عدل اُور عدل کو انصاف سے قریب و متصل کرنے بھی ضرورت ہے۔ ”ظلم چکھایا بے حسی چکھی .... کیا کبھی تم نے بے بسی چکھی (ناہید اختر بلوچ)۔“

....

Clipping from Daily Aaj - March 12, 2022 Saturday


Friday, March 4, 2022

Bleeding Peshawar, once again!

 شبیرحسین اِمام

لہو لہو پشاور

صوبائی دارالحکومت کے وسطی علاقے قصہ خوانی بازار سے متصل ’کوچہ رسالدار‘ میں واقع مرکزی و جامع شیعہ مسجد میں نماز جمعة المبارک کے اجتماع کے دوران ہوئے خودکش حملے نے ایک مرتبہ پھر پشاور کو لہولہان کر دیا ہے!

 چار مارچ کی دوپہر (ایک بج کر سات منٹ پر) ہونے والی اِس دہشت گرد واردات کا نشانہ بننے والے شہدا،اُور زخمیوں میں اکثریت ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے‘ جن کے عزیزواقارب کے لئے یہ حقیقت‘ صدمہ اُور دکھ ناقابل برداشت بھی ہے اُور ناقابل یقین بھی کہ اندرون شہر‘ پُرپیچ گلی کوچوں میں دہشت گردی کی اِس واردات کہ جس میں دو دہشت گرد جن میں سے ایک خودکش بارودی جیکٹ پہنے ہوا تھا کس طرح مسجد تک پہنچے جہاں اُنہوں نے سب سے پہلے سیکورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا اُور اِس کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ خودکش حملہ آور صفوں میں بیٹھے نمازیوں کو پھلانگتے ہوئے منبر کے قریب (تیسری صف میں) پہنچا اُور جسم سے بندھے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔ 

خیبرپختونخوا پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل) معظم جاہ انصاری نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان 2001ءسے حالت جنگ میں ہے۔ مسجد کی سیکورٹی پر دو اہلکار بیس پچیس گز کے فاصلے پر تعینات تھے‘ جن میں ایک شہید اُور دوسرا زخمی ہوا۔“ ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ابتدائی تفتیش کے بارے میں بتایا کہ ”پانچ سے چھ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔“ دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ مسجد کے مرکزی ہال کی آہنی کھڑکیاں اُور دروازے تک اُکھڑ کر گلی میں جاگرے جبکہ ہال میں موجود زیادہ تر لوگوں کو سروں میں زخم آئے اُور 150 بال بیرنگز بھی اکٹھا کئے گئے۔ کوئی کہہ رہا ہے تھریٹ جاری نہیں ہوا لیکن تھریٹ تو بیس سال سے چلا آ رہا ہے اُور پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی اُو) اعجاز خان نے کہا کہ ”پشاور کی کسی بھی مسجد پر حملے کے حوالے سے ’سیکورٹی تھریٹ‘ موجود نہیں تھا۔“ ذہن نشین رہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق پیشگی خطرے سے نہ صرف آگاہ کیا جانا معمول رہا ہے بلکہ حملے کی منصوبہ بندی سے متعلق تفصیلات سے بھی وفاقی اُور صوبائی محکمہ داخلہ کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں (حسب ضرورت) منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن گزشتہ روز ہوئے ’خودکش حملے‘ کے بارے میں کسی بھی خفیہ ادارے نے خبردار نہیں کیا اُور یہی وجہ تھی کہ پشاور پولیس حسب ضرورت (خاطرخواہ) سیکورٹی انتظامات نہ کر سکی۔ مذکورہ مسجد میں چار سے پانچ سو افراد ہفتہ وار نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں اُور گزشتہ روز بھی مسجد کی نچلی منزل پر موجود ’مین ہال‘ میں سو سے ڈیڑھ سو افراد موجود تھے‘ جن میں اکثریت بزرگوں کی تھی جو مسجد کی پہلی منزل کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے اُور یہ عموماً پہلی صف ہی میں بیٹھتے تھے‘ جسے خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا کیونکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے صرف جید عالم دین اُور اِمام مسجد ہی نہیں بلکہ پشاور کے معروف ذاکرین اُور علمائے کرام بھی پہلی صف میں موجود تھے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے بیک وقت ایک نہیں بلکہ کئی اہداف حاصل کئے۔ سب سے پہلے تو وہ دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کو خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوئے اُور نصف درجن سے زائد خفیہ اداروں میں سے کسی ایک کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی کہ خودکش حملہ کیا جائے گا۔ اِس طرح خفیہ انداز میں ذرائع سے معلومات اکٹھا کرنے کا نیٹ ورک (نظام) ناکارہ ثابت ہوا۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد واردات سے زیادہ اُس کی منصوبہ بندی زیادہ مشکل ہوتی ہے اُور اِس کے لئے مقامی افرادی وسائل (سہولت کاروں) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس مرحلے پر بھی دہشت گرد کامیاب رہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی مرکزی جامع مسجد کا انتخاب کیا جہاں کسی بھی مسلک کی بیک وقت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔

مسجد کے ’سی سی ٹی کیمروں‘ سے حاصل کردہ فوٹیجز سے معلوم ہوا کہ 1: خودکش حملہ آور مسجد کے مرکزی دروازے کی بجائے عقبی دروازے سے داخل ہوا۔ ایک ایسے عقبی دروازے سے جس کے بارے میں بہت غیرمتعلقہ بہت ہی کم لوگوں کو علم ہوگا۔ 2: خودکش حملہ آور سیاہ رنگ کے لباس میں ملبوس تھا جس کی وجہ سے اُس کی شناخت میں مشکل ہوئی کیونکہ اہل تشیع کی اکثریت اِسی رنگ کا لباس استعمال کرتی ہے۔ اِس طرح حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے لباس جیسی باریکی کا بھی دھیان رکھا۔ 3: خودکش حملہ آور نے مسجد کے قریب پہنچنے پر پستول سے فائرنگ کی اُور بے خوفی سے فائرنگ کرتا ہوں نہایت ہی تیزی سے مسجد میں داخل ہوا جس کے چند سیکنڈ کے بعد دھماکہ ہوا۔ یہ چند سیکنڈ کا وقت وہ عرصہ تھا جو منبر تک پہنچنے میں لگا۔ 4: مسجد میں داخل ہونے کے لئے وہ دروازہ استعمال کیا گیا جو منبر کے قریب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ 5: اگر خودکش حملہ آور پہلی مرتبہ مسجد میں داخل ہو رہا ہوتا تو اُس وہ اتنے پراعتماد انداز میں کاروائی نہ کرتا اُور مختلف اطراف میں کھڑے مسلح پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بنتا لیکن کلوزسرکٹ کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکاروں پر گولی برستے دیکھ کر موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے موقع سے فرار ہونے میں غنیمت جانی جبکہ فائرنگ سے پہلے ہی بھگڈر مچ چکی تھی۔ 6: مسجد کی دیوار اُور عقبی داخلی دروازے پر لگے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں میں خودکش حملہ آور کا چہرہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر خوف کے آثار نہیں اُور اُس نے جس مہارت سے پستول کا استعمال کیا اُور جس طرح وقت ضائع کئے بغیر مسجد میں داخل ہوا‘ اُس سے دہشت گرد تربیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اُور یقینا اِس قسم کے حملے میں ملک دشمن بیرونی قوتوں کا ہاتھ انتہائی واضح ہے۔

پشاور خودکش حملے نے ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو ازخود ہائی الرٹ کر دیا ہے اُور اب کسی رسمی ’ہائی الرٹ‘ جاری کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اُمید ہے پاکستان کو مزید ایسے زخم نہیں لگیں گے۔ پاکستان کے دشمن وار کرنے میں اگر اِس مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں تو قومی سلامتی کے جملہ اداروں کی ناکامی عیاں ہے اُور یقینا وفاقی اُور صوبائی حکومت کارکردگی کا احتساب کرے گی!

دشمن دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اُور یہی وقت ہے کہ اِس منصوبہ بندی کو اتحاد و اتفاق اُور صبر و استقامت کے ذریعے ناکام بنایا جائے۔ دہشت گردی کے ردعمل میں ایسا طرزعمل اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے دشمن کو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کامیاب