ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام
تاریک گھر
ستائیس جنوری دوہزار اٹھارہ: کوہاٹ میں عاصمہ رانی نامی لڑکی کو قتل کیا گیا۔ مقتولہ کے بھائی ثاقب اللہ نے پولیس کو بتایا کہ مجاہد اللہ آفریدی اُور اُس کے بھائی صادق اللہ آفریدی نے اُن کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی جس سے اُس کی بہن کی موت ہوئی۔ قتل کا مبینہ محرک یہ بتایا گیا کہ مجاہد اللہ نے عاصمہ رانی کے لئے شادی کا پیغام (رشتہ) بھیجا لیکن چونکہ مجاہد اللہ پہلے سے شادی شدہ تھا اِس لئے اہل خانہ اُور لڑکی نے انکار کر دیا اُور رشتے سے اِس انکار کو اپنی بے عزتی سمجھنے والوں نے رانی کو قتل کر دیا۔ قتل کرنے کی شب ہی نامزد مرکزی ملزم مجاہد اللہ متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا‘ جہاں سے اُسے ’انٹرپول (عالمی پولیس)‘ کے ذریعے گرفتار کر کے وطن واپس لایا گیا کیونکہ سماجی و سیاسی اُور ذرائع ابلاغ کے کی وجہ سے عاصمہ رانی کا قتل معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چینلج بن چکا تھا۔ بہرحال مجاہداللہ کو مارچ دوہزاراٹھارہ میں پاکستان واپس لایا گیا اُور اُس پر مقدمے کے دوران جرم ثابت ہونے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پشاور کی عدالت نے ”25 جون 2021ئ“ کے روز سزائے موت اُور تین لاکھ جرمانے کی سزا سنائی اِس کے علاو¿ہ اُسے 20 لاکھ روپے مقتولہ کے ورثا کو بھی دینے کا کہا گیا‘ جو سزا کا حصہ تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ذہین و باصلاحیت عاصمہ رانی ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ’ایم بی بی ایس‘ سال سوئم (تھرڈ ائر) کی طالبہ تھی اُور اہل خانہ اُسے ”چاند“ کے لقب سے پکارتے تھے‘ جس کے قتل پر اُنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا گھر تاریک ہو گیا ہے! پولیس نے قتل کے اِس مقدمے میں ’دہشت گردی‘ کی دفعات لاگو کی تھیں جن کو بعدازاں ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے مجرم کی طرف سے دائر پٹیشن پر ختم کر دیا تھا۔ قتل کے اِس مقدمے کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اِس میں قاتلانہ حملے کے بعد عاصمہ رانی کے بیان جو کہ ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو کی صورت میں تھا‘ عدالت میں گواہان سمیت پیش کیا گیا‘ جس میں عاصمہ رانی نے مجرم دیئے گئے مجاہد اللہ کی فائرنگ کا ذکر کیا تھا اُور قتل کا یہ مقدمہ اِس لئے بھی ملکی و بین الاقومی ذرائع ابلاغ میں کئی مہینوں تک زیربحث رہا کیونکہ مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن برطانیہ میں مقیم تھیں اُور اُنہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ اُور سوشل میڈیا پر کے ذریعے حقائق بیان کئے جس پر سوشل میڈیا صارفین اُور دیگر عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جاتا رہا اُور عاصمہ رانی کے لئے انصاف کے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کا مطالبہ ہر دن زور پکڑنے لگا تھا۔ درخواستیں رانی کے قتل کے مقدمے میں تین ملزمان نامزد کئے گئے تھے جن میں مجاہد اللہ‘ اِس کا بھائی صادق اللہ اُور اِن کا دوست شاہ زیب شامل تھے تاہم عدالت نے دیگر دونوں ملزمان کو ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے بری کر دیا اُور ’ستمبر دوہزاراکیس‘ میں یہ پیشرفت بھی ہوئی کہ مقتولہ رانی کے والد غلام دستگیر نے علاقائی روایات کے مطابق ایک جرگہ میں مجاہد اللہ کو معاف کر دیا۔ پاکستان کے قوانین (کوڈ آف کریمنل پروسیجر اُور پاکستان پینل کوڈ) کے تحت متاثرہ خاندان اپنے ساتھ ہوئے کسی بھی قسم کے جرم کو معاف کر سکتا ہے اُور ایسی صورت میں عدالت اُن کے آپسی تصفیے کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ اُور سزا ختم کر دیتی ہے۔
دس مارچ دوہزاربائیس: جسٹس روح الامین خان اُور جسٹس شکیل پر مشتمل عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے 2 رکنی بینچ کے سامنے خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل (ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نثار) نے موقف اختیار کیا کہ رانی کے قاتل کو صرف اِس وجہ سے معاف نہیں کیا جانا چاہئے کہ اُس کے اہل خانہ نے کسی بھی وجہ سے تصفیہ کر لیا ہے بلکہ اِس مقدمے کو اِس نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے کہ قتل کی مذکورہ واردات ’فساد فی الارض‘ ہے اُور اگر اِس قسم کے انصاف کی مثالیں قائم کی گئیں تو اِس سے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی بلکہ اِس سے بااثر طبقات کو ایسے سنگین جرائم کرنے کی بھی ’کھلی چھوٹ‘ مل جائے گی جو اپنی امارت کے زعم میں اِس بات کو ضروری نہیں سمجھتے کہ انسانی جان کی حرمت ہر قانون اُور ضابطے سے بالاتر ہے۔ قابل ذکر ہے کہ حکومتی وکیل کی جانب سے یہ نکتہ¿ نظر سامنے آنے سے پہلے ہی عدالت عالیہ نے بیرسٹر امیر اللہ خان کو ’ایمیکس کیوری (غیرجانبدار مشیر)‘ مقرر کیا تھا تاکہ وہ اس قانونی نکتے پر عدالت کی معاونت و رہنمائی کریں کہ جب پاکستان کے قوانین (سی آر پی سی‘ پی پی سی اور آئین) کی متعدد دفعات میں اِس بات کی اجازت ہے کہ متاثرہ خاندان زیرسماعت مقدمات کا تصفیہ (فیصلہ) ازخود کر سکتا ہے اُور آئینی طور پر عدالت ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی پابند بھی ہے تو عاصمہ رانی قتل کیس میں ہوئے تصفیے کے بعد عدالت ِعالیہ کس طرح سزائے موت پر عمل درآمد بحال رکھ سکتی ہے اُور ایسی صورت میں عدالت کے پاس مداخلت کرنے کی کس قدر گنجائش رہ گئی ہے؟
مقتولہ عاصمہ رانی کی بہن صفیہ رانی برطانیہ کمپیوٹرز (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئی تھی لیکن جب اُنہیں اپنی بہن کے قتل اُور پاکستان میں عدالت و انصاف کے بارے میں علم ہوا تو اُنہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا تاکہ ’بار ایٹ لا‘ کرنے کے بعد وہ پاکستان آئیں اُور اپنی بہن کا مقدمہ لڑیں لیکن قانون و انصاف کا عالمی اصول یہ ہے کہ اِس میں قانون و انصاف کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے جبکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آنکھوں پر پٹی کے علاو¿ہ قانون و انصاف کے دیگر حواس ِخمسہ بھی شل (معذور) ہو چکے ہیں جبکہ معاشرے میں جرم اُور مجرموں سے خاطرخواہ نفرت نہیں پائی جاتی۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی کہ جس میں عدالتیں قانون اُور قانون عدالتوں کے سامنے بے بس رہا تو نجانے مزید کتنے چاند گرہن ہوں گے! مزید کتنی جانیں قتل ہوں گی اُور مزید کتنے قاتل معاف کر دیئے جائیں گے۔ صرف عاصمہ رانی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں انصاف کو عدل اُور عدل کو انصاف سے قریب و متصل کرنے بھی ضرورت ہے۔ ”ظلم چکھایا بے حسی چکھی .... کیا کبھی تم نے بے بسی چکھی (ناہید اختر بلوچ)۔“
....