Friday, January 28, 2022

Peshawar - Where promise all fails!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے

جہاں اِرادے عمل اُور عملی کاروائیاں اِرادوں کے آگے ہاتھ باندھے (ہار مانتے) دکھائی دیں‘ حکومتی فیصلہ سازی کے اِس مقام کو ’عوامی لغت‘ میں ”پشاور“ بھی کہا جاتا ہے۔”دل گوارا نہیں کرتا ہے شکست ِاُمید .... ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے (روش صدیقی)۔“ خبر یہ ہے کہ پشاور شہر کی حدود میں تجاوزات کے خلاف (ایک اُور) ”بڑی کاروائی (گرینڈ آپریشن)“ کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں‘ جس کی حکمت ِعملی وضع کرنے کے بعد ’ٹاؤن ون‘ حکام نے تاجروں اُور دکانداروں کو ستائیس فروری سے 10 دن (پانچ فروری بروز ہفتہ تک) کی مہلت دی ہے تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر (ازخود) تجاوزات ختم کر دیں بصورت دیگر انسداد ِتجاوزات کی بلاامتیاز‘ بے رحم اُور مرحلہ وار کاروائی کے تحت سختی سے پیش آیا جائے گا اُور کسی سے رو رعایت نہیں کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں شاید پہلی مرتبہ تاجر تنظیموں کے نمائندوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تجاوزات کے خلاف کاروائی ہر نہ صرف کامیاب بلکہ یکساں قابل ِقبول اُور پائیداری کے لحاظ سے نتیجہ خیز ثابت ہو گویا پشاور میں تجاوزات کے خلاف طبل جنگ بج چکا ہے‘ صف بندی مکمل ہے جس کے لئے ٹاؤن ون انتظامیہ اُور اہلکاروں کے علاؤہ اِس کاروائی کی نگرانی کمشنر پشاور ڈویژن کریں گے۔ اِس بات کا بھی اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اِس مرتبہ جن تجاوزات (سازوسامان) کو قبضے میں لیا جائے گا‘ اُس کی واپسی نہیں بلکہ نیلامی کی جائے گی اُور زیادہ بڑے پیمانے پر فیصلہ کن کاروائی کے لئے اِس مرتبہ صرف ٹاؤن ون کے افرادی اُور تکنیکی وسائل ہی پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا بلکہ دیگر ٹاؤنز کے افرادی و تکنیکی وسائل سے طلب کئے جائیں گے۔ یہی مناسب وقت ہے کہ ماضی میں تجاوزات کے خلاف کی گئیں کاروائیوں کے انجام (ناکامی) کے محرکات پر غور کیا جائے اُور اُن چند غلطیوں سے سبق سیکھا جائے جن کے باعث ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ جامع حکمت عملیاں خاطرخواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں اُور عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ تجاوزات کے خلاف ہر کاروائی کے بعد اِن کی تعداد (مسئلے کی شدت) میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انسداد تجاوزات کے سلسلے میں ”پہلی غلطی“ اعلانات ہیں‘ جن کی وجہ سے تاجر اُور دکاندار خبردار ہو جاتے ہیں اُور کچھ ایسے بازار بھی ہیں جہاں کے دکاندار ٹاؤن ون اہلکاروں سے ”تعاون“ کرتے ہوئے ازخود تجاوزات چند روز کے لئے ختم کر دیتے ہیں۔ اِس طرح کسی مہم کے ابتدائی چند روز صورتحال مثالی نظر آتی ہے لیکن رفتہ رفتہ تجاوزات پھر سے قائم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اُور بات وہیں جا ٹھہرتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اگر حقیقت میں تجاوزات ختم کرنا ہی ہیں تو اِس کے لئے مہم اعلانات سے نہیں بلکہ رازداری سے شروع ہونی چاہئے۔ 

”دوسری غلطی“ تجاوزات کے خلاف کاروائی کی مدت معین کرنے کی ہے کہ فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک تجاوزات کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اِس طرح تجاوزات کرنے والوں کو ’ٹائم فریم (time-frame)‘ مل جاتا ہے اُور وہ اِس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ اِسی زمرے میں تجاوزات کے خلاف کاروائیوں کی تفصیلات پہلے سے جاری کرنا بھی ہے‘ جس کے نشانے پر آنے والے پیشگی تیاری کر لیتے ہیں۔ ”تیسری غلطی“ تجاوزات کی نشاندہی سے متعلق کی جاتی ہے کہ اِس میں مستقل و غیرمستقل تجاوزات کے درمیان تمیز نہیں کی جاتی اُور تجاوزات کے خلاف سارا غم و غصہ غیرمستقل (عارضی) تجاوزات پر نکال دیا جاتا ہے جبکہ ہنگامہ جان بوجھ کر اِس قدر برپا کیا جاتا ہے کہ اِس میں مستقل تجاوزات کی جانب دھیان ہی نہ جائے۔مثال کے طور پر پشاور شہر کی حدود سے گزرنے والے نکاسی¿ آب کی گزرگاہوں (شاہی کٹھہ) پر چھتیں ڈال کر ہر قسم کی تعمیرات کی گئی ہیں۔ کئی ایسے مقامات بھی ہیں جہاں شاہی کٹھے کے وسط اُور اِس کی نالیوں کے درمیان دیواریں اُور ستون کھڑے کئے گئے ہیں تاکہ کثیرالمنزلہ تعمیرات کو سہارا دیا جا سکے اُور اِس کھلم کھلا بے قاعدگی کی وجہ سے ”شاہی کٹھے“ سے نکاسی آب کی رفتار متاثر ہوتی ہے جبکہ بارش کی وجہ سے شاہی کٹھہ اُور دیگر نکاسی آب کی گزرگاہیں اُبلنے سے اندرون شہر معمولات ِزندگی کئی روز تک مفلوج ہو جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے گندگی و غلاظت کے ڈھیر‘ بدبو اُور تعفن بھی پھیلا رہتا ہے۔

کیا پشاور کی ضلعی انتظامیہ شاہی کٹھے سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے بھی ”گرینڈ آپریشن“ کا آغاز کرے گی‘ جو اپنی جگہ ایک اہم ضرورت اُور اہل پشاور کا دیرینہ مطالبہ ہے؟ 

تجاوزات کے خلاف مزید (ایک اُور) کاروائی نتیجہ خیز بنانے کے لئے صرف عزم کافی نہیں اُور نہ ہی ہر چند ماہ بعد کی جانے والی ایک جیسی (بے نتیجہ) کاروائیوں پر عام آدمی (ہم عوام) کا یقین و اعتماد بحال کرنا ممکن ہے۔

اہل پشاور سے پوچھیں تو خلاصہ تحقیق یہ ہوگا کہ ”پشاور کے نبض آشنا نہیں رہے“ اُور یہ ”المیہ“ اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے کہ اہل پشاور کی اکثریت نے تجاوزات کے ساتھ جینا اُور مرنا سیکھ لیا ہے۔ یقین نہ آئے تو گھنٹہ گھر سے متصل رہائشی علاقوں کے رہنے والوں سے گزشتہ چند برس کے دوران یہاں بننے والی ’مرکزی مچھلی منڈی‘ کے بارے رائے لے لیجئے معلوم ہو جائے گا کہ اندرون شہر کے مسائل میں اِس حالیہ اضافے سے نہ صرف آمدروفت متاثر ہے بلکہ پچاس کروڑ سے زائد مالیت کی ثقافتی راہداری منصوبہ بھی خاطرخواہ نتائج نہیں دے رہا۔ تجاوزات سے پاک پشاور کسی خواب کی طرح ہے کہ اِس کی تفصیلات دھندلی اُور ناقابل یقین ہیں۔ پشاور کے جملہ فیصلہ سازوں اُور جملہ قومی‘ صوبائی و بلدیاتی نمائندوں کو اِس شہر سے لاتعلقی پر مبنی تعلق پر معافی مانگنی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ توبہ صرف گناہوں پر بطور ندامت ہی نہیں ہوتی بلکہ بسا اُوقات توبہ نیکیوں پر بھی کی جاتی ہے‘ ایسی نیکی جو اطمینان کا باعث ہو‘ ایسی نیکی جس پر فخر محسوس ہو اُور ایسی نیکی جس پر اپنی ذات پرہیزگزار اُور دیگر تمام لوگ گناہ گار دکھائی دیں تو یہ بھی یکساں لائق ِمعافی مرحلہ فکر ہے۔

....

Clipping from Daily Aaj - Jan 28th 2022 Friday


Tuesday, January 25, 2022

Congratulations Peshawar: Pari Chehra - a land dispute resolved.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: پری چہرہ

صبر کا میٹھا پھل ہاتھ میں ہے۔ طویل انتظار کے بعد صرف اچھی نہیں بلکہ بہت ہی اچھی خبر سننے کو ملی ہے گویا دعائیں قبول ہوئی ہیں‘ جس پر ’پشاور سے غیرمشروط محبت رکھنے والے اُور اِس شہر کے بے لوث پرستار‘ جشن منا رہے ہیں۔ مبارکبادوں کے تبادلوں کا سلسلہ چوبیس جنوری کی شام سے جاری ہے جو صرف ’قومی جیت‘ جیسا محدود حاصل نہیں بلکہ یہ ’پشاور کی جیت‘ ہے اُور پشاور کو بھی مبارک دی جانی چاہئے۔

 خبر یہ ہے کہ تاریخ پشاور کا ایک باب جو یہاں ’پری چہرہ کے مزار اُور اِس سے ملحقہ قبرستان‘ کی اراضی ہتھیانے سے متعلق تھا عرصہ ستائیس سال مختلف عدالتوں بشمول سیشنز جج کی عدالت میں زیرسماعت رہا اُور اِس مقدمے میں مخالف فریق کو سال 1995ءمیں ڈگری جاری کی گئی تھی‘ جس کے بعد ’چوبیس جنوری دوہزار بائیس‘ کے روز اِس مقدمے کا فیصلہ ’پشاور کے حق‘ میں آیا اُور یوں قریب تین دہائیوں تک مختلف محاذوں بشمول عدالتی جنگ کرتے ہوئے دامے‘درہم‘ سخنے یعنی آپ کو وقف کرنے والے اخونزادہ مظفر علی کی آنکھوں سے آنسو اُور لہجے میں انکساری کے ساتھ محبت بھرے جذبات کی گہرائی و صداقت کو سمجھا جا سکتا ہے‘ جس کی کوئی قیمت نہیں‘ جس کا کوئی مول نہیں اُور جس کی پشاور کی تاریخ میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی۔ اخونزادہ مظفر نے صرف آئینی اُور قانونی طور پر ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو مستند (ناقابل تردید) تاریخی حوالوں اُور نایاب نقشہ جات (گواہیوں) سے بھی ثابت کیا ہے اُور شاید ہی پشاور کی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بھی اجتماعی و عوامی مفاد کا مقدمہ یوں فیصلہ ہوا کہ طویل اعصاب شکن عدالتی کاروائیوں میں ایک طرف سرمایہ مافیا تھا جنہوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اُور جن کا اثرورسوخ بھی نمایاں تھا۔ جنہوں نے ہر عدالتی مرحلے میں دھونس‘ رعب اُور بدمعاشی کے ذریعے ’پشاور‘ کا مقدمہ لڑنے والے اپنے فریق کو مرعوب (مختلف قسم کے دباؤڈال کر خوفزدہ) کرنے کی بھی کوشش کی اُور اب جبکہ عدالت نے ڈگری خارج کر دی ہے تو ’پشاور دوست فریق‘ کے مقابلے ذاتی مفادات کے اسیروں نے کروڑوں روپے کی پیشکش کرنے جیسی جرا¿ت و جسارت بھی کی ہے لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اُن کا سامنا ایک ایسے کردار سے ہے جو پشاور کو اپنی دھرتی ماں سمجھتا ہے اُور پشاوری کتنے ہی مادہ پرست اُور اپنے شہر سے لاتعلق ہو جائیں وہ کم سے کم اپنی ماؤں کا سودا نہیں کرتے۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ بظاہر 24 مرحلے اراضی کا ہے‘ جس میں ایک فریق کا دعویٰ ہے اُور جسے عدالت نے قانونی آئینی اُور تاریخی طور پر درست بھی قرار دے دیا ہے کہ ”اندرون کوہاٹی مذکورہ قطعہ ”قبرستان کی اراضی“ ہے جو فارس (موجودہ افغانستان) کے بادشاہ نادر شاہ افشار نے وقف کی تھی اُور یہاں اپنی محبوب و مکرم اہلیہ (ملکہ¿ وقت) پری چہرہ کا مزار بنایا۔ 1739ءمیں جب بادشاہ نادر شاہ پشاور سے اپنے لشکر کے ہمراہ گزر رہا تھا تو اُن کی محبوب بیوی پری چہرہ بیمار پڑ گئیں اُور یہیں مختصر قیام کے دوران اُن کا انتقال بھی ہوا جس کے بعد اُنہیں شاہی باغ کے حصے میں (ملکہ کے شایان شان جگہ) پر سپرد خاک کیا گیا۔ آج پری چہرہ کے مزار پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اُور گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جو کوچی بازار سے شروع ہونے والے تجارتی مرکز کی پٹی ہے اُور کوہاٹی گیٹ یعنی پری چہرہ کے مزار پر آ کر ختم ہوتی ہے۔

ایک عرصے سے دبی آواز میں دوست احباب نجی محافل میں یہ مطالبہ بصورت تذکرہ کرتے تھے کہ اِس قطعہ¿ اراضی کی اصل حالت و حیثیت میں حفاظت اُور بحالی ہونی چاہئے لیکن کسی میں ہمت یا کسی کو فرصت نہیں تھی کہ قانونی و تاریخی جنگ کے لئے خود کو پیش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ تاریخ پشاور کے اِس اثاثے پر گمنامی کی گرد پڑتی رہی اُور ایک وقت وہ آیا جب پشاور کی ہر خوبی اُور ہر اثاثے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کی نظریں ’ملکہ پری چہرہ کے مزار پر جا ٹھہریں‘ جس پر قبضہ اُور کثیر المنزلہ کاروباری (کمرشل) عمارت تعمیر کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ تعمیراتی نقشہ جات تک منظور کروا لئے گئے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں قبرستانوں کی سینکڑوں کنال اراضی ہڑپ کر لی گئی ہو وہاں چند مرلے رقبے کی وقعت یا اِس کی اہمیت بارے توجہ دلانے کی اہمیت ہونے کے باوجود بھی یہ بظاہر غیراہم دکھائی دینے لگتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی عدالتوں اُور انصاف کے نظام کے مقابلے انصاف کا ایک نظام قدرت کی جانب سے بھی جاری و ساری ہے جس میں فیصلے جاری کئے جاتے ہیں اُور اِن فیصلوں کو دنیاوی عدالتوں میں ثابت کرنے کے لئے غیب سے اسباب اُور مدد فراہم ہوتے رہتے ہیں۔ مشکل مشکل نہیں رہتی۔ پریشانی پریشانی نہیں رہتی۔ مقدمے کے لئے درکار مالی وسائل کی کمی بھی آڑے نہیں آتی کیونکہ جب محبت غالب آ جائے تو پھر کوئی دوسرا مخالف جذبہ اپنے پاؤں جما نہیں سکتا۔

بہرحال پشاور کے اندرون کوہاٹی گیٹ ’پری چہرہ مزار‘ اُور اِس سے ملحقہ قطعہ اراضی (قبرستان) ہتھیانے کی نہایت ہی منظم اُور سوچی سمجھی سازش ناکام ہوئی ہے جس کے بعد کم سے کم یہ بات بھی ممکن ہو گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ تمام تر متعلقہ قانونی اُور تاریخی دستاویزات نہ صرف عدالت کے زیرغور آ چکی ہیں بلکہ یہ مقدمے کی کاروائی کا حصہ بھی ہیں جسے درحقیقت ’تاریخ پشاور کا گمشدہ باب‘ قرار دینا چاہئے یعنی اخونزادہ مظفر علی کی پُرخلوص کوششوں اُور رقیق (delicate) محنت سے ”تاریخ ِپشاور“ کی خاموش سطریں بول پڑی ہیں اُور اِن کے بیانات کو جھٹلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل پشاور صرف فصیل شہر کے اندرونی آباد علاقوں پر مشتمل ہوتا تھا جنہیں مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا اُور اراضی کے اِس قدیمی بندوبست میں فصیل شہر کے اندر اُور باہر کے علاقے جو کہ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم تھے اِن میں شامل ”ٹکڑا نمبر 3“ اندرون کوہاٹی گیٹ سے سرکی تک اُور اندرون کوہاٹی و بیرون کوہاٹی (سٹی سرکلر روڈ) کے علاقے شامل تھے جو وسیع عریض رقبے پر پھیلا (تاحد ِنظر) قبرستان ہوا کرتا تھا۔ بعدازاں کوہاٹی گیٹ کے ساتھ اِس سے جڑی پولیس چوکی ختم ہوئی اُور اِس چوکی کی جگہ عارضی عبادت اُور چند دکانیں تعمیر ہوئیں‘ جن پر ’میونسپل کارپوریشن (پشاور کے فیصلہ ساز و خود مختار ادارے)‘ نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اُور وقت کے ساتھ یہ عارضی تعمیرات پختہ و مستقل ہو گئیں جنہیں 3 دہائیوں کے بعد مزید وسعت دینے کے لئے ’پری چہرہ مزار و ملحقہ قبرستان‘ کی اراضی کا بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

لمحہ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ’چائنا کٹنگ‘ کا سلسلہ جاری ہے اُور اِس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ’پری چہرہ کے مزار‘ اُور یہاں کے باقی ماندہ قبرستان کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کی ایک ناکام ہوئی کوشش کی صورت سامنے آیا ہے۔ بنیادی وجہ اہل پشاور کا مجرمانہ سکوت ہے‘ اُور اِس روش کو تبدیل ہونا چاہئے۔ 

اغیار جانتے ہیں کہ پشاور اُور اہل پشاور کی قیادت نہیں رہی۔ پشاور کا کوئی ’والی وارث‘ نہیں اُور یہاں کے سفید پوش ورثا یا تو ہجرت کر چکے ہیں یا پھر معاشی مسائل یا اپنی عزت بچانے کے لئے خاموش ہیں لیکن اِن تماشائیوں کے دل خون کے آنسو روتے ہیں اُور موجودہ مقدمے سے عیاں ہے پشاور کے لئے حرف ِدعا رکھنے والوں کی دعائیں مستجاب ہوئی ہیں۔

یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اہل پشاور نے نئی نسل کو تاریخ ِپشاور بطور ورثہ اُور اثاثہ منتقل نہیں کی۔ نصاب ِتعلیم میں کوئی ایک بھی سبق ایسا نہیں ملتا جو پشاور کی تاریخ سے متعلق ہو تو پھر کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ پشاور کی محبت کے چراغ دلوں میں روشن رہیں گے اُور پشاور کی تاریخ سینہ بہ سینہ‘ نسل در نسل ازخود منتقل ہوتی رہے گی‘ یہ کوئی خواب نہیں حقیقت ہے۔ محبت و تعلق دلی ہوتا ہے مشروط نہیں۔ اِسی محبت کے اظہار کے لئے شعوری کوشش اُور مزید محنت کی ضرورت ہے۔

”عکس کا ہونا ہے مشروط ترے ہونے سے .... خود کو پہچان مگر عکس کو حیرت نہ بنا (یونس تحسین)۔“

....


Monday, January 24, 2022

Think before you speak

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کفریہ کلمات

پیپل منڈی پشاور کے معروف تاجر اُور اندرون شہر کے محلہ شیخ الاسلام (گنج) کی سیاسی‘ سماجی اُور مذہبی شخصیت ایاز خان نے بظاہر معمولی لیکن درحقیقت ایک نہایت ہی اہم بات کی جانب توجہ دلائی ہے جو روزمرہ بول چال میں پائی جانے والی ’عمومی بے احتیاطی‘ سے متعلق ہے۔ مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ ہنسی مذاق یا بے توجہی (لاعلمی) کے باعث ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو بسا اُوقات کفر کی حد تک جا پہنچتی ہیں اُور یقینا عمومی معاشرت سے متعلق یہ صرف اہم نہیں بلکہ سنگین مسئلہ بھی ہے‘ جس پر خاطرخواہ گہرائی سے غور و فکر اُور اِن کفریہ کلمات کی ادائیگی سے محفوظ رہتے ہوئے دوسروں کو بھی اِس سے کنارہ کشی کی تلقین عام ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا (انٹرنیٹ) کے زمانے میں جب شہروں اُور دیہات میں رہنے والوں کے درمیان صرف مواصلاتی رابطے ہی پہلے سے زیادہ فعال اُور کم قیمت نہیں ہوئے بلکہ اِس کے ساتھ ہر قسم کی تصدیق شدہ (درست) اُور غیرتصدیق شدہ (اغلاط کا مجموعہ) معلومات کی گردش بھی باآسانی ہو رہی ہے تو ضرورت اِس اَمر ہے کہ نیت کرتے ہوئے اِسی ’سوشل میڈیا‘ جیسے ”خیر ِمحض“ وسیلے‘ ذریعے اُور طریقے کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اُور دوسروں کی عمومی و خصوصی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے (اِن شا اللہ عزوجل)۔

دعوت اِسلامی‘ نامی غیرسیاسی مذہبی تحریک کے بانی اُور سربراہ مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے ”کفریہ کلمات“ سے متعلق تین کتابیں لکھی ہیں۔ پہلی کتاب ’19 صفحات‘ پر مشتمل اگرچہ مختصر لیکن اِس موضوع پر انتہائی جامع تعارف ہے اُور اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دعوت اسلامی کے عمومی اشاعتی سلسلے اُور بالخصوص کفریہ کلمات کے حوالے سے اِس پوری کاوش (کار ِخیر) کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ سوچ سمجھ کر بولنے کی تعلیم دی جائے اُور کردار کے ساتھ گفتار میں بھی حد درجہ احتیاط اختیار کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے کیونکہ اپنی اُور دوسروں کی بول چال کی اصلاح بھی نیکی کی ترغیب (دعوت) دینے ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

 مذکورہ تینوں کتابیں (اٹھائیس کلمات کفریہ (19صفحات)‘ گانوں کے پینتیس کفریہ اشعار (35صفحات) اُور کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب (710 صفحات) اُردو کے علاؤہ اَنگریزی‘ بنگلہ‘ گجراتی‘ کناڈا‘ رومن اُردو‘ ہندی اُور ڈینش زبانوں میں آن لائن دستیاب ہیں اُور دعوت اسلامی کی ویب سائٹ (DawatIslami.net) سے کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل کی جا سکتی ہیں۔ دعوت ِاسلامی کی جانب سے کفریہ کلمات کی جانب توجہ اگرچہ شروع دن سے ہو رہا ہے لیکن اِس اصلاح احوال کے سلسلے میں باقاعدہ مہم کی صورت کوشش کا آغاز جولائی 2008ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”گانوں کے 35 کفریہ اَشعار“ سے سامنے آئی اُور تب لوگوں نے سمجھا کہ جو ملکی و غیرملکی گانے یا شاعرانہ کلام وہ بنا سوچے سمجھے اُٹھتے بیٹھے دہرا رہے ہوتے ہیں درحقیقت وہ اُن کے ایمان کے لئے خطرہ ہیں! 

مذکورہ تینوں کتابیں ’اصلاح معاشرے‘ کے حوالے سے ایک اہم ضرورت پوری کر رہی ہیں تاہم وقت کے ساتھ اِن کتابوں میں اضافے کی بھی ضرورت ہے چونکہ مہنگائی کے زمانے کتابوں کی اشاعت اُور اِنہیں خریدنے کی سکت کم ہو رہی ہے اِس لئے اگر ’اِی بک (e-book)‘ کی صورت اگر اشاعتوں کا الگ سے سلسلہ شروع کیا جائے اُور دعوت اسلامی کے واٹس ایپ گروپوں کی مناسب تشہیر کی جائے تو چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے گا اُور آن لائن قارئین کی بڑی تعداد مستفید ہو سکے گی۔

 توجہ طلب ہے کہ صرف عمومی بول چال اُور فلمی شاعری ہی نہیں بلکہ دیگر شاعرانہ اُور نثری مضامین میں بھی اکثر ایسے الفاظ‘ جملے‘ اشارے یا استعارے استعمال کئے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں‘ جو بطور مسلمان اُور ادب و احترام کی تلقین پر مبنی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ بول چال میں جس درجہ احتیاط کا مظاہرہ ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اُور یہی مرحلہ فکر اُن طبقات کے لئے پریشانی و تشویش کا باعث ہے جو اِس بڑھتے ہوئے سماجی مرض سے خود بھی محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اُور دوسروں کی شفایابی کے بھی متمنی (خیرخواہ) ہیں۔ کفریہ کلمات اُور اِس جیسے دیگر سماجی مسائل کے بارے میں عوام الناس کی تعلیم و تربیت کی کوشش میں ”مسجد“ کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے جہاں ہر عمر اُور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہفتہ وار نماز جمعہ کے اجتماع میں بااہتمام شریک ہوتے ہیں لیکن اکثریت ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی نماز جمعہ کے لئے دی جانے والی دوسری آذان سے قبل مسجد کا رخ نہیں کرتی اُور یہی وجہ سے جمعة المبارک جیسے جلیل القدر دن کی مقصدیت و معنویت حاصل نہیں ہو رہی کیونکہ منبر سے واعظ و نصیحت سننے کا مختصر دورانیہ بھی اکثریت کے لئے قابل برداشت نہیں رہا!

فتاویٰ شامی کے مطابق ”حرام الفاظ اُور کفریہ کلمات کے متعلق علم سیکھنا فرض ہے۔‘ تو جہاں علم سیکھنا بھی فرض شمار ہو وہاں فرض عبادات کے بعد سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے ذکر میں زیادہ سے زیادہ مشغول رکھا جائے اُور صرف یہی ایک راستہ‘ طریقہ‘ شعار‘ طرز فکروعمل ہے کہ جس کے ذریعے کوئی بھی شخص (عالم یا اچھی اخرت کا طلب گار) کفریہ کلمات کی ادائیگی جیسے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ مختلف لوگوں اور اُن کی مصروفیات اور مشاغل الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ”اللہ کا ذکر“ ہر حال میں‘ دل ہی دل یا زبان سے کرتے رہنے سے متعلق اتفاق رائے پائی جاتی ہے کہ عمل یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر کا التزام ہی درحقیقت بہترین مشغلہ ہے جس میں مصروف رہنے کا اجروثواب بھی ہے اُور آخرت میں انعام و اکرام بھی ملے گا۔ 

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ”اللہ کے ذکر“ کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”مفردون سبقت لے گئے۔“ عرض کیا گیا کہ یہ ”مفردون کون ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں۔“ ایک اُور حدیث مبارکہ حضرت ابوالدردا¿ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے (حقیقی) مالک (اللہ تعالیٰ) کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے (دنیاوی و اخروی) درجات کو تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہ خدا میں سونا چاندی (فراخدلی سے) خرچ کرنے سے بھی زیادہ تمہارے حق میں خیر و برکت کا باعث ہے اور تمہارے لئے اس میں جہاد سے بھی زیادہ خیر پوشیدہ ہے‘ جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارو اور وہ تمہیں شہید کریں؟“ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا ”ہاں‘ یارسول اللہ (ایسا قیمتی عمل ضرور بتایئے)۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ عمل ”اللہ کا ذکر“ ہے (بحوالہ ابوداؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)۔“

....

Editorial Page Daily Aaj 24 January 2022 Monday

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj 24 January 2022


Friday, January 21, 2022

Teacher woe(s) and right(s)

 تحریک .... آل یاسین

اساتذہ مسائل: زندہ رہنے کا حق

درس و تدریس کے عمل کو معیاری اُور یکساں نصاب کا حامل بنانے کے ساتھ فیصلہ سازوں کو اساتذہ کے ’حسب ِاطمینان‘ اقدامات و انتظامات کرنا ہوں گے تاکہ جملہ فریقین کی ذہنی آمادگی و شرکت سے ایک باسہولت نظم و نسق لاگو ہو۔ خیبرپختونخوا میں تحریک اِنصاف کی حکمرانی کا پہلا دورانیہ (دو ہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ) اُور اگست دوہزار اٹھارہ سے جاری دوسرے دور حکومت میں کئی قابل ذکر (مثالی) اصلاحات ہیں اُور اِن میں بطور خاص ’ایجوکیشن سیکٹر ریفارم یونٹ (ESRU)‘ کے ذریعے تعلیم کے شعبے کی مجموعی اُور باریک بینی سے کارکردگی پر بھی نظر رکھی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایجوکیشن سیکٹر پلان (ESP)‘ جو کہ استعداد کی بہتری سے متعلق حکمت عملی ہے وہ تعلیمی شعبے کے معیار اُور کارکردگی کے بارے میں سوچ بچار کا مجموعہ ہے‘ جس کے لئے برطانیہ‘ یورپی کمیشن‘ امریکی امدادی ادارہ (یو ایس ایڈ) اُور جرمن حکومت مجموعی طور پر 55 ہزار 338 ملین روپے فراہم کر چکی ہے لیکن یہ ساری کوششیں اُس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوں گی جب تک اساتذہ کی بھرتی میں اہلیت کے بعد اُنہیں اِس مقصد کے حصول کے لئے بھی قائل نہیں کر لیا جاتا کہ شعبہ¿ تعلیم صرف ملازمتوں کی فراہمی کا ذریعہ نہیں بلکہ اِس کی ایک معنویت اُور مقصدیت بھی ہے‘ جس کے اہداف حاصل کرنے میں منصوبہ سازوں سے زیادہ اساتذہ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اساتذہ پر مبنی افرادی قوت کے جائز مسائل کا حل‘ امتیازات کا خاتمہ اُور اساتذہ کے حقوق بارے بھی کماحقہ غوروخوض اِس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اساتذہ اطمینان قلب اُور توجہ سے اپنی تدریسی خدمات سرانجام دے سکیں۔ اساتذہ کی اکثریت کو تبادلوں اُور تعیناتیوں جیسے امور اُور اِن سے متعلق فیصلہ سازوں کے امتیازی روئیوں (جنہیں وہ فرعونیت سے تعیبر کرتے ہیں) کی شکایات رہتی ہیں اُور وہ چاہتے ہیں محکمے کے سبھی ملازمین کے لئے یکساں سلوک ہونا چاہئے۔ سیاسی اثرورسوخ‘ رشوت یا تعلقات کی بنا پر نہیں بلکہ ”میرٹ (حقیقی اہلیت)“ کے مطابق فیصلے ہونے چاہیئں۔

 محکمانہ قواعد و ضوابط پر خاطرخواہ انصاف کے ساتھ عمل درآمد دیکھنے کی ایک ایسی ہی خواہشمند معلمہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے جہاں بطور پرائمری ٹیچر محترمہ زاوش فدا تعینات ہیں اُور چاہتی ہیں کہ اُنہیں مضافاتی دیہی علاقے کے پرائمری سکول شوراگ سے ضلع ایبٹ آباد کے شہری علاقے کے کسی تعلیمی ادارے میں تعینات کیا جائے۔

سال دوہزاراٹھارہ سےڈیسیز کوٹے (Deceased Quota)  پر بطور ”مستقل ملازمت“ پرائمری ٹیچر تدریسی خدمات سرانجام دینے والی محترمہ زاوش آبائی طور پر (خیبرپختونخوا کے) ضلع ہری پور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اُن کی شادی ملحقہ ضلع ایبٹ آباد میں ہوئی‘ جہاں سے شوراگ گاؤں کے پرائمری سکول کا یک طرفہ فاصلہ چالیس کلومیٹر سے زیادہ ہے اُور اِس مسافت کے لئے اُنہیں ہر روز دو سے ڈھائی گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے چونکہ ضلع ہری پور کا شمار میدانی اضلاع جبکہ ضلع ایبٹ آباد کا شمار بالائی اضلاع میں ہوتا ہے اِس لئے موسم کے اثرات کی وجہ سے سکول کے آغاز و اختتام اُور تعطیلات کے دورانیئے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اُور یوں شدید بارش حتیٰ کہ برفباری کی صورت بھی اُنہیں اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر منہ اندھیرے سکول کی راہ لینا ہوتی ہے جو شدید موسمی یا ہنگامی حالات کی صورت کبھی کبھار ممکن بھی نہیں ہو پاتا۔ تین سال چار ماہ کا صبرآزما عرصہ ،مشکل ترین حالات میں تدریسی خدمات سرانجام دینے اُور تبادلوں و تعیناتیوں پر سے پابندی اُٹھانے کی دعائیں مانگتے جیسے تیسے گزر ہی گیا اُور اب جبکہ صوبائی حکومت نے اساتذہ کے بین اضلاعی تبادلوں اُور تعیناتیوں پر سے پابندی اُٹھا دی ہے تو ضلع ہری پور کا منتظم دفتر (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اُور اِن کا ماتحت عملہ) محترمہ زاوش فدا کی خدمات کسی دوسرے ضلع منتقل کرنے کا اجازت نامہ (NOC) جاری نہیں کر رہا جسے وہ اپنا قانونی حق قرار دیتی ہیں اُور چاہتی ہیں کہ انہیں بلاتاخیر تبادلے و تعیناتی کے لئے درکار محکمانہ اجازت نامہ جاری کیا جائے کیونکہ وہ (مبینہ طوسر پر) دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک  چکی ہے جبکہ اُنہیں متعلقہ دفتری عملے کے تضحیک آمیز رویئے سے بھی شکایت ہے۔

 یہ مسئلہ کئی ایسی معلمات کا ہے جو خاصی پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ تبادلوں اُور تعیناتیوں پر پابندی کا اطلاق دوبارہ ہو سکتا ہے اُور اگر اِس موقع پر بھی انہیں اپنا حق نہ ملا تو مزید تین سے پانچ سال یا اِس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑ جائے گا۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اُور سوشل میڈیا پر اپنے تبادلے کے جائز قانونی حق کے لئے آواز اُٹھانے والی ’پرائمری ٹیچر‘ نے صوبائی وزیرتعلیم اُور دیگر متعلقہ فیصلہ سازوں سے درخواست کی ہے کہ اُسے دیگر ہم عصر اساتذہ کی طرح ملازمتی مقام تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے۔

تدریسی عملے کے گوناگوں مسائل میں بالخصوص خواتین اساتذہ زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہیں‘ جن کے لئے باسہولت اُور باعزت پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز دیہی علاقوں میں خدمات سرانجام دینا کسی ایسے امتحان (چیلنج) سے کم نہیں جس کا اِنہیں ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لمحہ فکریہ اُور انتہا ہے کہ جس معاشرے میں تدریسی عملے کو انصاف نہ مل رہا ہو‘ وہاں تعلیم‘ تربیت‘ شعور نظم و ضبط اُور خواندگی میں اضافے جیسے بنیادی اہداف کا حصول بھلا کیوں کر عملاً ممکن ہو سکتا ہے؟

کیا ہم کھلی آنکھوں (جاگتے ہوئے) خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں!؟

شاید موضوع اساتذہ ہی ہوں جن کی مشکلات و مسائل اُور سخت حالات کار کے بارے میں شاعر سرفراز زاہد نے کہا تھا کہ 

زندہ رہنے کا حق ملے گا اُسے
 جس میں مرنے کا حوصلہ ہوگا

....

Sunday, January 2, 2022

Drug Addiction in Peshawar

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: خدا جانے یہ کسی دشمنی ہے؟

شاعر یعقوب عامر نے یہ کہتے ہوئے شاید پشاور ہی کی ’منظرکشی‘ کی ہو کہ ”چند گھنٹے شوروغل کی زندگی چاروں طرف .... اُور پھر تنہائی کی ہمسائیگی چاروں طرف۔“ ایسے ہی شوروغل سے چند گھنٹے واسطہ رکھنے پر جو مشاہدات سامنے آئے اُن میں منشیات فروشی اُور منشیات کے عادی افراد ایسا بدنما دھبہ ہیں‘ جن سے پشاور کو صاف کرنا صرف ضروری نہیں بلکہ انتہائی ضروری (ناگزیر) ہو چکا ہے۔ کیا ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی اِس بارے سوچا ہوگا کہ جب ہر دن کے آغاز اُور تدریسی دورانئے کے اختتام پر طالب علم شہر کی انتہائی مصروف شاہراؤں اُور چوراہوں پر منشیات استعمال کرنے والوں کو دیکھتے ہوں گے تو اُن کے ذہنوں میں کتنے ہی سوالات اُٹھتے ہوں گے کہ آخر یہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں اُور سب سے اہم و بنیادی بات یہ ہے کہ اِن نظاروں سے اُن طالب علموں کے اعصاب پر کیا گزرتی ہوگی؟ 

پشاور اہل پشاور سے ہے اُور تعلق یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے کہ احساس کی موت معلوم ہو۔ فیصلہ ساز توجہ فرمائیں کہ ایک طرف پشاور کو خوبصورت بنانے کی مہمات ہیں جن میں سبزہ زاروں کو بحال کیا جا رہا ہے (بہت ہی اچھی بات ہے)۔ جا بجا خوبصورتی کے لئے محراب بنائے جا رہے ہیں (یہ بھی بہت ہی اچھی بات ہے)۔ فٹ پاتھوں پر بیش قیمت ٹائلز اُور صفائی کا غیرمعمولی اہتمام دیکھنے کو ملتا ہے (یہ بھی اچھی بات ہے)۔ ”بی آر ٹی (میٹرو بس) راہداری“ پشاور کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے (یہ بھی باسہولت پشاور کے خواب کی عمدہ تعبیر ہے) لیکن کیا پشاور کی مثالی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ اِس کی معنوی (جزئیاتی) خوبصورتی کی جانب بھی توجہ مبذول نہیں ہونی چاہئے جو اہل پشاور (انسانوں) سے متعلق ہو اُور اِس تاثر کو زائل کیا جائے ”پھولوں کے شہر“ کی ساکھ ’منشیات فروشی‘ اُور ’منشیات استعمال کرنے والے کے جُھنڈ‘ بن چکے ہیں! پشاور کی ضلعی حکومت جہاں پیشہ ور بھیکاریوں کا سدباب کر رہی ہے‘ وہیں کمشنر و ڈپٹی کمشنر پشاور منشیات کے جاری دھندے کا بھی نوٹس لیں جس کی وجہ سے پشاور کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ پشاور میں منشیات فروشوں کے ڈیرے (مراکز) صرف سڑک کنارے ہی بدنامی کا باعث نہیں بلکہ تعلیمی اِداروں بالخصوص جامعات کی قیام گاہوں (ہاسٹلز) بھی محفوظ نہیں جہاں اطلاعات کے مطابق نشہ آور اشیا کی ترسیل باسہولت بھی ہے اُور وافر بھی‘ جس کی وجہ سے طلبہ کی ایک تعداد تعلیمی عرصے کے دوران ایسی لت میں پڑ جاتی ہے جس سے باقی ماندہ زندگی جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا اُور یہ ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہے‘ جسے مزید نظراِنداز نہیں کرنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو اگر اِس بات پر یقین نہ آئے تو وہ نشے کے عادی افراد کے علاج و بحالی کے لئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) ”دوست فاؤنڈیشن (قائم اُنیس سو بانوے)“ سے رجوع کر سکتے ہیں‘ جہاں صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے بارے منشیات کے استعمال کی بابت حقائق معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ دوست فاو¿نڈیشن کے ایک ذمہ دار سے معلوم ہوا کہ منشیات اِس قدر آسانی سے دستیاب ہیں کہ فاؤنڈیشن میں علاج اُور بحالی کے بعد کسی درجہ تندرست ہونے والوں میں سے پچاس فیصد نشے کے عادی افراد دوبارہ منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں اُور جب تک منشیات کے خلاف حکومتی اُور سماجی روئیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی اُس وقت تک منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ ذہن نشین رہے کہ دوست فاؤنڈیشن اپنے محدود وسائل میں ہر سال اوسطاً 400 نشے کے عادی افراد کو بحال کر رہی ہے جبکہ ضرورت اِس سے ہزاروں گنا زیادہ کی ہے! صوبائی اُور پشاور سے متعلق فیصلہ ساز اِس سلسلے میں اپنی تحقیق بھی کر سکتے ہیں لیکن ”دوست فاؤنڈیشن“ کے اعدادوشمار بھی یکساں قابل اعتبار ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے انتہائی بھیانک منظرنامہ اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کیا اِس بات پر غور ہونا چاہئے کہ پشاور میں کئی قسم کے نشے ملتے ہیں جن میں مقامی طور پر تیار کردہ ’آئس (ice)‘ بھی شامل ہے جو 100 روپے فی خوراک کے طور پر ملتی ہے۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ ’آئس‘ کہلانے والا انتہائی تیز کیمیائی نشہ بہت مہنگا ہوتا ہے لیکن دوست فاو¿نڈیشن میں نشے کے ایک عادی فرق کے بقول یہ آئس کی ایک خوراک کم سے کم سو روپے میں بھی باآسانی مل جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات بارے ذیلی ادارے (UNODC) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”پشاور میں پندرہ سے چونسٹھ سال عمر کے نشہ عادی افراد کی تعداد 8 لاکھ ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ یہ آٹھ لاکھ وہ ہیں جنہیں ہر روز باقاعدگی سے ہیروئن نامی نشہ ملتا ہے جبکہ دیگر منشیات کے عادی افراد کی تعداد آٹھ لاکھ کے مساوی ہے۔ کون سمجھے گا کہ منشیات کا دیمک پشاور کو چاٹ (کھائے جا) رہا ہے اُور ”ضلع پشاور کی حدود میں نجی و سرکاری جامعات میں نشہ آور اشیا ملتی ہیں اُور نشے کے عادی اَفراد میں جامعات و کالجوں میں زیرتعلیم طلبا و طالبات بھی شامل ہیں۔“ اگرچہ ’دوست فاؤنڈیشن‘ کے ذمہ دار احتیاط (ڈپلومیسی) سے کام لیتے ہوئے منشیات کے بڑھتے ہوئے اِستعمال کی وجہ ’حکومتی اِداروں‘ بالخصوص قانون نافذ کرنے والوں کو قرار نہیں دیتے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نشہ آور اشیا کی باآسانی دستیابی کے باعث اِس کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے! عجیب و غریب صورتحال ہے کہ پشاور جیسے مرکزی شہر میں کہ جہاں خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ کے علاو¿ہ پشاور میٹروپولیٹن پولیس (چیف کپیٹل سٹی پولیس) کی صورت الگ سے سربراہ مقرر ہے تاکہ زیادہ مو¿ثر پولیسنگ ہو سکے جبکہ انسداد منشیات کے اِدارے اُور خفیہ اِداروں کی دفاتر بھی یہیں پر ہیں لیکن حیات آباد کارخانو مارکیٹ کی ریل پٹڑی سے لیکر چغل پورہ (رنگ روڈ) کے سبزہ زاروں اُور اُوور ہیڈ بریجز (پُلوں) کے نیچے سروں کو چادر سے ڈھانپ کر اُور ٹولیوں کی صورت بیٹھے منشیات استعمال کرنے والے ایک ایسی حقیقت ہیں جو درحقیقت تعصبات کا مجموعہ ہے اُور لاتعلقی پر مبنی طرز ِحکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ”تعلق ہے نہ اب ترک ِتعلق .... خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے (کامل بہزادی)۔“

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 02 Jan 2022 (Sunday)

Editorial Page Jan 02, 2022 (Sunday)

Clipping from Daily Aaj - Jan 02, 2022