ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاسپورٹ کاحصول:حاصل اُور وصول!
پاسپورٹ کاحصول:حاصل اُور وصول!
یہ زعم اپنی جگہ اَلمیہ‘ لمحۂ فکریہ اُور خودفریبی کی اِنتہاء ہے کہ خدمت
کے سرکاری منصب پر فائز کسی وفاقی‘ صوبائی یا مقامی حکومتوں کے اعلیٰ و
ادنیٰ اہلکار برسرزمین حقائق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگرچہ اعدادوشمار اِس
بات کی تائید کرتے ہیں لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی یہ بات کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت یا تو غریب ہے یا پھر
انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے اُور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز
’اذہان عالیہ‘ کو اِس بات کی واجبیسی پرواہ بھی نہیں لگتی کہ اُن کی وضع
کردہ حکمت عملیوں‘ دفتری اُوقات‘ حتیٰ کہ تعطیلات کا معاشرے کے اِس عمومی
غریب طبقے یعنی کہ ہم عوام کی اکثریت پر کس قدر منفی اَثر پڑ رہا ہے!
تیس جولائی کی صبح جبکہ ابھی سورج کی کرنوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع ہی کیا اور پہلے سے حبس زدہ ماحول میں رفتہ رفتہ گرمی کا اضافہ محسوس کرنے والوں کی بے چینی اُن کے پسینے میں شرابور تن بدن اور دہکتے ہوئے چہروں سے عیاں ہو رہی تھی۔ یہ منظرنامہ ’پاسپورٹ آفس (حیات آباد)‘ کے باہر کا تھا جہاں رُک کر یکے بعد دیگرے کئی ایک لمبی سانسیں لینی پڑیں۔ دفتری اُوقات سے 2 گھنٹے قبل پہنچنے پر بھی وہاں کم وبیش دوسو سے ڈھائی سو افراد قطار بنائے کھڑے پائے گئے۔ یہ قطار سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ’پاسپورٹ آفس‘ کے داخلی گیٹ سے دیوار کے ساتھ ساتھ کسی پودے کی طرح چپکی ہوئی تھی جہاں سے مڑ کر سڑک اور پھر دوسرے کنارے درختوں کے گرد گھومتی ہوئی واپس عین سڑک کے بیچوں بیچ تک پھیل چکی تھی۔ پھیکی پھیکی دھوپ میں بناء کسی سائے قطار میں کھڑے درخواست گزاروں کے نام اور شکلیں مختلف لیکن اُن سب کی قسمت ایک جیسی تھی! ہاتھوں میں فائلیں اُور اکثریت کے کندھوں پر سوتی چادریں رکھی ہوئی تھیں‘ جنہیں سروں پر کمال مہارت سے ٹکائے کئی ایک تو تھک کر پاؤں کے بل اور چند ایک مزید تھک کر زمین پر بیٹھ چکے تھے۔
یہ ایک خوفناک اور انتہائی ڈروانا بلکہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کے علاؤہ ایک اچھی خاصی تعداد لوہے کے زنگ آلودہ گیٹ پر بھی الگ سے چپکی ہوئی تھی‘ جنہیں عمارت کی چاردیواری کے اندر حد نگاہ تک سنساٹا اور بندوقیں تان کر کھڑے سیکورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر حیرت ہو رہی ہوگی لیکن شاید ان سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ پشاور سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کہاں تھے؟ وہ تبدیلی کہاں تھی جس کے خواب کا تسلسل نیند ٹوٹنے کے باوجود بھی ختم نہیں ہورہا۔ ایک عمارت کہ جس کی کھڑکیاں دروازے حتی کہ روشن دان بھی بند لیکن اُس کے باہر سائل لو پھوٹنے سے قبل جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ دفتری مقررہ اُوقات شروع ہونے میں دو گھنٹے کا وقت باقی ہونے کی وجہ سے ائرکنڈیشن کے بیرونی یونٹ بھی خاموش تھے‘ جنہیں دیکھتے اور گرمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ سوال بھی سر سے پاؤں تک قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا کہ اگر سرکاری دفاتر میں فراہم کردہ سہولیات (اصولی طور پر) ’صارفین‘ کے لئے ہیں جن کی قیمت بھی عوام ایک سے زیادہ ٹیکس یا متعلقہ اداروں کی مقررہ فیسوں کی صورت اَدا کرتے ہیں تو پھر اِن سہولیات پر عام آدمی کا حق کیوں نہیں؟ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ (نادار) دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ہوئے ’درخواست گزار‘ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہیں؟ کیا انہیں پاکستانی ہونے کی سزا مل رہی ہے؟ قومی شناختی دستاویزات کے حصول جیسا حق کیوں اس قدر ’مشکل بلکہ مشکل ترین‘ بنا دیا گیا ہے؟ جن دفاتر سے رجوع کرنے والے قطاروں میں سارا دن انتظار کرنے کے باوجود بھی مایوس لوٹ جاتے ہیں وہاں دفتر کے اوقات بڑھا کیوں نہیں دیئے جاتے؟ آخر یہ کس آسمانی کتاب یا مقدس صحیفے میں تحریر ہے کہ سرکاری دفاتر کے اوقات نہ تو بڑھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جا سکتا ہے جبکہ اُن سے رجوع کرنے والوں کی بڑی تعداد مشکلات کا دوچار ہو؟
ایک سے زیادہ شفٹیں کیوں مقرر نہیں کی جا سکتیں تاکہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ حاصل کرنے والوں کی یوں ’کھلے عام (ظاہری و پوشیدہ) زحمتیں‘ تمام ہوں؟ آخر کیا اَمر مانع ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی بنیادی دستاویزات کا حصول ایک ہی دفتر (ڈیسک) سے اُور ایک ہی مرتبہ کی شناختی جانچ پڑتال و تصدیق کے مراحل مکمل کرنے کے بعد حاصل کرنا ممکن نہیں بنایا جاسکتا؟ ایک جیسی قومی دستاویزات فراہم کرنے والے وفاقی اداروں کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیا مضائقہ ہے یا کیا رکاوٹ حائل ہے؟ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی طرح پاسپورٹ حاصل کرنے کے جملہ مراحل بھی ’بائیومیٹرکس تصدیق‘ کی بنیاد پر مرتب ہیں‘ اگر ایک سے زیادہ شفٹیں مقرر کرنے یا سردست دفتری اوقات (چوبیس گھنٹے تک) بڑھانا ’انتظامی و سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ممکن نہ ہوں تو ایک ایسا ’آن لائن(online)‘ نظام کیوں متعارف نہیں کرایا جاسکتا‘ جس میں شناختی کارڈ یا پاسپورٹ یا دونوں کے حصول کے لئے قطار میں لگ کر انتظار کرنے کی بجائے حاضری کا نمبر (اپوائمنٹ) پہلے ہی سے حاصل کر لیا جایا کرے؟ پبلک آفسیز میں ’باسہولت انتظارگاہیں‘ کیوں نہیں بنائی جا سکتیں؟ اگر ’انٹرنیٹ (ویب سائٹ)‘ اُور ’ایس ایم ایس (موبائل فون)‘ کے قابل بھروسہ وسائل پر بھروسہ کیا جائے تو اِس سے نہ صرف جاری غیرانسانی‘ غیراخلاقی اور سراپا ذلت بھرے رویئے کی اصلاح ممکن ہو گی بلکہ متعلقہ محکمے درخواستوں کی تعداد کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے (منصوبہ بندی کے ذریعے) اِس قابل بھی ہوں گے کہ اپنی خدمات و سہولیات کے ساتھ دفتری اُوقات میں حسب ضرورت اضافہ (ردوبدل) کریں۔ پاسپورٹ کے حصول کے لئے مقررہ فیس کسی ایک دور دراز الگ مقام پر بینک کی بجائے پہلے تو درخواست وصول اور اس کی تصدیق وغیرہ کی جانچ کرنے کے مرحلے پر وصول ہونی چاہئے اور اگر ایسا ’سرکاری ملازمین کی صداقت‘ امانت و دیانت‘ کی وجہ سے ممکن نہیں تو یہ آپشن (سہولت) بھی ہونی چاہئے کہ کسی بھی ’آن لائن بینک‘ یا موبائل فون یا اے ٹی ایم یا آن لائن بینکنگ کے ذریعے مقررہ فیس جمع کرائی جا سکے‘ جس کی بطور چھ یا آٹھ ہندسوں پر مبنی خفیہ نمبر(کوڈ) بذریعہ ایس ایم ایس یا پرنٹ آؤٹ متعلقہ صارف کو فراہم کر دیا جائے اور یہی کوڈ بعدازاں ’اپوٹمنٹ(appointment)‘ حاصل کرنے کی ’آن لائن درخواست‘ کے ہمراہ منسلک کر دیا جائے‘ جیسا کہ ’میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ‘ کے لئے پہلے سے اِسی قسم کا طریقۂ کار رائج ہے۔ ایسے دفاتر جن سے بڑی تعداد میں عوام کا واسطہ پڑتا ہے اُن سے براہ راست رجوع کی بجائے ’آن لائن‘ طریقہ کار باسہولت بھی ہے اور اِسے چوبیس گھنٹے خودکار انداز میں چلانا بھی ممکن ہے لیکن چونکہ اس سے اُن ’وی وی آئی پیز‘کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی‘ جنہیں انتظار کی عادت نہیں اور اُن کا استحقاق بھی کانچ سے زیادہ نازک ہے! اگر درخواست گزار کو خودکار انداز میں ویب سائٹ‘ ای میل‘ یا ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے مطلع کردیا جایا کرے کہ وہ (یوں قطاروں میں کھڑا ہونے کی بجائے) کسی مقررہ دن‘ فلاں وقت‘ فلاں کاؤنٹر اُور فلاں مقام پر قائم دفتر سے رجوع کرے تو یہ ہر لحاظ سے محفوظ طریقۂ کار ہوگا۔
اگر حساس نوعیت کی شناختی دستاویزات کے حصول کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کر ہی لیا گیا ہے تو پھر یہ استعمال ’سو فیصد‘ ہونا چاہئے۔ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ جیسی ’ادھوری ٹیکنالوجی‘ کی بجائے ’مکمل حل‘ اختیار و پیش کر کے بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ ممکن ہے‘ ذرا سی حساسیت کا مظاہرہ کرکے پیچیدہ و عذاب کی صورت اعصاب شکن مراحل کو کیوں نہ آسان بنا دیا جائے؟ جمہوری اسلامی کے وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور وفاقی حکومت کے خیبرپختونخوا میں نمائندہ گورنر سے التجا ہے کہ وہ نظرکرم فرماتے ہوئے پاسپورٹ و قومی شناختی کارڈ دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ’پاکستانیوں‘ کی مشکلات کا احساس کریں۔ اگر یقین نہ آئے تو خود بھی عملی تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ سے شناختی کارڈ و پاسپورٹ دفاتر کے باہر کس طرح‘ کس قدر اور کس اِنتہاء کا ’ذلت بھرا سلوک‘ روا رکھا جا رہا ہے!
تیس جولائی کی صبح جبکہ ابھی سورج کی کرنوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع ہی کیا اور پہلے سے حبس زدہ ماحول میں رفتہ رفتہ گرمی کا اضافہ محسوس کرنے والوں کی بے چینی اُن کے پسینے میں شرابور تن بدن اور دہکتے ہوئے چہروں سے عیاں ہو رہی تھی۔ یہ منظرنامہ ’پاسپورٹ آفس (حیات آباد)‘ کے باہر کا تھا جہاں رُک کر یکے بعد دیگرے کئی ایک لمبی سانسیں لینی پڑیں۔ دفتری اُوقات سے 2 گھنٹے قبل پہنچنے پر بھی وہاں کم وبیش دوسو سے ڈھائی سو افراد قطار بنائے کھڑے پائے گئے۔ یہ قطار سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ’پاسپورٹ آفس‘ کے داخلی گیٹ سے دیوار کے ساتھ ساتھ کسی پودے کی طرح چپکی ہوئی تھی جہاں سے مڑ کر سڑک اور پھر دوسرے کنارے درختوں کے گرد گھومتی ہوئی واپس عین سڑک کے بیچوں بیچ تک پھیل چکی تھی۔ پھیکی پھیکی دھوپ میں بناء کسی سائے قطار میں کھڑے درخواست گزاروں کے نام اور شکلیں مختلف لیکن اُن سب کی قسمت ایک جیسی تھی! ہاتھوں میں فائلیں اُور اکثریت کے کندھوں پر سوتی چادریں رکھی ہوئی تھیں‘ جنہیں سروں پر کمال مہارت سے ٹکائے کئی ایک تو تھک کر پاؤں کے بل اور چند ایک مزید تھک کر زمین پر بیٹھ چکے تھے۔
یہ ایک خوفناک اور انتہائی ڈروانا بلکہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کے علاؤہ ایک اچھی خاصی تعداد لوہے کے زنگ آلودہ گیٹ پر بھی الگ سے چپکی ہوئی تھی‘ جنہیں عمارت کی چاردیواری کے اندر حد نگاہ تک سنساٹا اور بندوقیں تان کر کھڑے سیکورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر حیرت ہو رہی ہوگی لیکن شاید ان سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ پشاور سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کہاں تھے؟ وہ تبدیلی کہاں تھی جس کے خواب کا تسلسل نیند ٹوٹنے کے باوجود بھی ختم نہیں ہورہا۔ ایک عمارت کہ جس کی کھڑکیاں دروازے حتی کہ روشن دان بھی بند لیکن اُس کے باہر سائل لو پھوٹنے سے قبل جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ دفتری مقررہ اُوقات شروع ہونے میں دو گھنٹے کا وقت باقی ہونے کی وجہ سے ائرکنڈیشن کے بیرونی یونٹ بھی خاموش تھے‘ جنہیں دیکھتے اور گرمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ سوال بھی سر سے پاؤں تک قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا کہ اگر سرکاری دفاتر میں فراہم کردہ سہولیات (اصولی طور پر) ’صارفین‘ کے لئے ہیں جن کی قیمت بھی عوام ایک سے زیادہ ٹیکس یا متعلقہ اداروں کی مقررہ فیسوں کی صورت اَدا کرتے ہیں تو پھر اِن سہولیات پر عام آدمی کا حق کیوں نہیں؟ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ (نادار) دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ہوئے ’درخواست گزار‘ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہیں؟ کیا انہیں پاکستانی ہونے کی سزا مل رہی ہے؟ قومی شناختی دستاویزات کے حصول جیسا حق کیوں اس قدر ’مشکل بلکہ مشکل ترین‘ بنا دیا گیا ہے؟ جن دفاتر سے رجوع کرنے والے قطاروں میں سارا دن انتظار کرنے کے باوجود بھی مایوس لوٹ جاتے ہیں وہاں دفتر کے اوقات بڑھا کیوں نہیں دیئے جاتے؟ آخر یہ کس آسمانی کتاب یا مقدس صحیفے میں تحریر ہے کہ سرکاری دفاتر کے اوقات نہ تو بڑھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جا سکتا ہے جبکہ اُن سے رجوع کرنے والوں کی بڑی تعداد مشکلات کا دوچار ہو؟
ایک سے زیادہ شفٹیں کیوں مقرر نہیں کی جا سکتیں تاکہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ حاصل کرنے والوں کی یوں ’کھلے عام (ظاہری و پوشیدہ) زحمتیں‘ تمام ہوں؟ آخر کیا اَمر مانع ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی بنیادی دستاویزات کا حصول ایک ہی دفتر (ڈیسک) سے اُور ایک ہی مرتبہ کی شناختی جانچ پڑتال و تصدیق کے مراحل مکمل کرنے کے بعد حاصل کرنا ممکن نہیں بنایا جاسکتا؟ ایک جیسی قومی دستاویزات فراہم کرنے والے وفاقی اداروں کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیا مضائقہ ہے یا کیا رکاوٹ حائل ہے؟ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی طرح پاسپورٹ حاصل کرنے کے جملہ مراحل بھی ’بائیومیٹرکس تصدیق‘ کی بنیاد پر مرتب ہیں‘ اگر ایک سے زیادہ شفٹیں مقرر کرنے یا سردست دفتری اوقات (چوبیس گھنٹے تک) بڑھانا ’انتظامی و سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ممکن نہ ہوں تو ایک ایسا ’آن لائن(online)‘ نظام کیوں متعارف نہیں کرایا جاسکتا‘ جس میں شناختی کارڈ یا پاسپورٹ یا دونوں کے حصول کے لئے قطار میں لگ کر انتظار کرنے کی بجائے حاضری کا نمبر (اپوائمنٹ) پہلے ہی سے حاصل کر لیا جایا کرے؟ پبلک آفسیز میں ’باسہولت انتظارگاہیں‘ کیوں نہیں بنائی جا سکتیں؟ اگر ’انٹرنیٹ (ویب سائٹ)‘ اُور ’ایس ایم ایس (موبائل فون)‘ کے قابل بھروسہ وسائل پر بھروسہ کیا جائے تو اِس سے نہ صرف جاری غیرانسانی‘ غیراخلاقی اور سراپا ذلت بھرے رویئے کی اصلاح ممکن ہو گی بلکہ متعلقہ محکمے درخواستوں کی تعداد کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے (منصوبہ بندی کے ذریعے) اِس قابل بھی ہوں گے کہ اپنی خدمات و سہولیات کے ساتھ دفتری اُوقات میں حسب ضرورت اضافہ (ردوبدل) کریں۔ پاسپورٹ کے حصول کے لئے مقررہ فیس کسی ایک دور دراز الگ مقام پر بینک کی بجائے پہلے تو درخواست وصول اور اس کی تصدیق وغیرہ کی جانچ کرنے کے مرحلے پر وصول ہونی چاہئے اور اگر ایسا ’سرکاری ملازمین کی صداقت‘ امانت و دیانت‘ کی وجہ سے ممکن نہیں تو یہ آپشن (سہولت) بھی ہونی چاہئے کہ کسی بھی ’آن لائن بینک‘ یا موبائل فون یا اے ٹی ایم یا آن لائن بینکنگ کے ذریعے مقررہ فیس جمع کرائی جا سکے‘ جس کی بطور چھ یا آٹھ ہندسوں پر مبنی خفیہ نمبر(کوڈ) بذریعہ ایس ایم ایس یا پرنٹ آؤٹ متعلقہ صارف کو فراہم کر دیا جائے اور یہی کوڈ بعدازاں ’اپوٹمنٹ(appointment)‘ حاصل کرنے کی ’آن لائن درخواست‘ کے ہمراہ منسلک کر دیا جائے‘ جیسا کہ ’میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ‘ کے لئے پہلے سے اِسی قسم کا طریقۂ کار رائج ہے۔ ایسے دفاتر جن سے بڑی تعداد میں عوام کا واسطہ پڑتا ہے اُن سے براہ راست رجوع کی بجائے ’آن لائن‘ طریقہ کار باسہولت بھی ہے اور اِسے چوبیس گھنٹے خودکار انداز میں چلانا بھی ممکن ہے لیکن چونکہ اس سے اُن ’وی وی آئی پیز‘کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی‘ جنہیں انتظار کی عادت نہیں اور اُن کا استحقاق بھی کانچ سے زیادہ نازک ہے! اگر درخواست گزار کو خودکار انداز میں ویب سائٹ‘ ای میل‘ یا ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے مطلع کردیا جایا کرے کہ وہ (یوں قطاروں میں کھڑا ہونے کی بجائے) کسی مقررہ دن‘ فلاں وقت‘ فلاں کاؤنٹر اُور فلاں مقام پر قائم دفتر سے رجوع کرے تو یہ ہر لحاظ سے محفوظ طریقۂ کار ہوگا۔
اگر حساس نوعیت کی شناختی دستاویزات کے حصول کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کر ہی لیا گیا ہے تو پھر یہ استعمال ’سو فیصد‘ ہونا چاہئے۔ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ جیسی ’ادھوری ٹیکنالوجی‘ کی بجائے ’مکمل حل‘ اختیار و پیش کر کے بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ ممکن ہے‘ ذرا سی حساسیت کا مظاہرہ کرکے پیچیدہ و عذاب کی صورت اعصاب شکن مراحل کو کیوں نہ آسان بنا دیا جائے؟ جمہوری اسلامی کے وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور وفاقی حکومت کے خیبرپختونخوا میں نمائندہ گورنر سے التجا ہے کہ وہ نظرکرم فرماتے ہوئے پاسپورٹ و قومی شناختی کارڈ دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ’پاکستانیوں‘ کی مشکلات کا احساس کریں۔ اگر یقین نہ آئے تو خود بھی عملی تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ سے شناختی کارڈ و پاسپورٹ دفاتر کے باہر کس طرح‘ کس قدر اور کس اِنتہاء کا ’ذلت بھرا سلوک‘ روا رکھا جا رہا ہے!