Thursday, July 30, 2015

Jul2015: Difficulties in obtaining passports!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاسپورٹ کاحصول:حاصل اُور وصول!
یہ زعم اپنی جگہ اَلمیہ‘ لمحۂ فکریہ اُور خودفریبی کی اِنتہاء ہے کہ خدمت کے سرکاری منصب پر فائز کسی وفاقی‘ صوبائی یا مقامی حکومتوں کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکار برسرزمین حقائق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگرچہ اعدادوشمار اِس بات کی تائید کرتے ہیں لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت یا تو غریب ہے یا پھر انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے اُور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ’اذہان عالیہ‘ کو اِس بات کی واجبیسی پرواہ بھی نہیں لگتی کہ اُن کی وضع کردہ حکمت عملیوں‘ دفتری اُوقات‘ حتیٰ کہ تعطیلات کا معاشرے کے اِس عمومی غریب طبقے یعنی کہ ہم عوام کی اکثریت پر کس قدر منفی اَثر پڑ رہا ہے!
تیس جولائی کی صبح جبکہ ابھی سورج کی کرنوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع ہی کیا اور پہلے سے حبس زدہ ماحول میں رفتہ رفتہ گرمی کا اضافہ محسوس کرنے والوں کی بے چینی اُن کے پسینے میں شرابور تن بدن اور دہکتے ہوئے چہروں سے عیاں ہو رہی تھی۔ یہ منظرنامہ ’پاسپورٹ آفس (حیات آباد)‘ کے باہر کا تھا جہاں رُک کر یکے بعد دیگرے کئی ایک لمبی سانسیں لینی پڑیں۔ دفتری اُوقات سے 2 گھنٹے قبل پہنچنے پر بھی وہاں کم وبیش دوسو سے ڈھائی سو افراد قطار بنائے کھڑے پائے گئے۔ یہ قطار سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ’پاسپورٹ آفس‘ کے داخلی گیٹ سے دیوار کے ساتھ ساتھ کسی پودے کی طرح چپکی ہوئی تھی جہاں سے مڑ کر سڑک اور پھر دوسرے کنارے درختوں کے گرد گھومتی ہوئی واپس عین سڑک کے بیچوں بیچ تک پھیل چکی تھی۔ پھیکی پھیکی دھوپ میں بناء کسی سائے قطار میں کھڑے درخواست گزاروں کے نام اور شکلیں مختلف لیکن اُن سب کی قسمت ایک جیسی تھی! ہاتھوں میں فائلیں اُور اکثریت کے کندھوں پر سوتی چادریں رکھی ہوئی تھیں‘ جنہیں سروں پر کمال مہارت سے ٹکائے کئی ایک تو تھک کر پاؤں کے بل اور چند ایک مزید تھک کر زمین پر بیٹھ چکے تھے۔

یہ ایک خوفناک اور انتہائی ڈروانا بلکہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کے علاؤہ ایک اچھی خاصی تعداد لوہے کے زنگ آلودہ گیٹ پر بھی الگ سے چپکی ہوئی تھی‘ جنہیں عمارت کی چاردیواری کے اندر حد نگاہ تک سنساٹا اور بندوقیں تان کر کھڑے سیکورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر حیرت ہو رہی ہوگی لیکن شاید ان سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ پشاور سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کہاں تھے؟ وہ تبدیلی کہاں تھی جس کے خواب کا تسلسل نیند ٹوٹنے کے باوجود بھی ختم نہیں ہورہا۔ ایک عمارت کہ جس کی کھڑکیاں دروازے حتی کہ روشن دان بھی بند لیکن اُس کے باہر سائل لو پھوٹنے سے قبل جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ دفتری مقررہ اُوقات شروع ہونے میں دو گھنٹے کا وقت باقی ہونے کی وجہ سے ائرکنڈیشن کے بیرونی یونٹ بھی خاموش تھے‘ جنہیں دیکھتے اور گرمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ سوال بھی سر سے پاؤں تک قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا کہ اگر سرکاری دفاتر میں فراہم کردہ سہولیات (اصولی طور پر) ’صارفین‘ کے لئے ہیں جن کی قیمت بھی عوام ایک سے زیادہ ٹیکس یا متعلقہ اداروں کی مقررہ فیسوں کی صورت اَدا کرتے ہیں تو پھر اِن سہولیات پر عام آدمی کا حق کیوں نہیں؟ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ (نادار) دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ہوئے ’درخواست گزار‘ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہیں؟ کیا انہیں پاکستانی ہونے کی سزا مل رہی ہے؟ قومی شناختی دستاویزات کے حصول جیسا حق کیوں اس قدر ’مشکل بلکہ مشکل ترین‘ بنا دیا گیا ہے؟ جن دفاتر سے رجوع کرنے والے قطاروں میں سارا دن انتظار کرنے کے باوجود بھی مایوس لوٹ جاتے ہیں وہاں دفتر کے اوقات بڑھا کیوں نہیں دیئے جاتے؟ آخر یہ کس آسمانی کتاب یا مقدس صحیفے میں تحریر ہے کہ سرکاری دفاتر کے اوقات نہ تو بڑھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جا سکتا ہے جبکہ اُن سے رجوع کرنے والوں کی بڑی تعداد مشکلات کا دوچار ہو؟


ایک سے زیادہ شفٹیں کیوں مقرر نہیں کی جا سکتیں تاکہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ حاصل کرنے والوں کی یوں ’کھلے عام (ظاہری و پوشیدہ) زحمتیں‘ تمام ہوں؟ آخر کیا اَمر مانع ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی بنیادی دستاویزات کا حصول ایک ہی دفتر (ڈیسک) سے اُور ایک ہی مرتبہ کی شناختی جانچ پڑتال و تصدیق کے مراحل مکمل کرنے کے بعد حاصل کرنا ممکن نہیں بنایا جاسکتا؟ ایک جیسی قومی دستاویزات فراہم کرنے والے وفاقی اداروں کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیا مضائقہ ہے یا کیا رکاوٹ حائل ہے؟ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی طرح پاسپورٹ حاصل کرنے کے جملہ مراحل بھی ’بائیومیٹرکس تصدیق‘ کی بنیاد پر مرتب ہیں‘ اگر ایک سے زیادہ شفٹیں مقرر کرنے یا سردست دفتری اوقات (چوبیس گھنٹے تک) بڑھانا ’انتظامی و سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ممکن نہ ہوں تو ایک ایسا ’آن لائن(online)‘ نظام کیوں متعارف نہیں کرایا جاسکتا‘ جس میں شناختی کارڈ یا پاسپورٹ یا دونوں کے حصول کے لئے قطار میں لگ کر انتظار کرنے کی بجائے حاضری کا نمبر (اپوائمنٹ) پہلے ہی سے حاصل کر لیا جایا کرے؟ پبلک آفسیز میں ’باسہولت انتظارگاہیں‘ کیوں نہیں بنائی جا سکتیں؟ اگر ’انٹرنیٹ (ویب سائٹ)‘ اُور ’ایس ایم ایس (موبائل فون)‘ کے قابل بھروسہ وسائل پر بھروسہ کیا جائے تو اِس سے نہ صرف جاری غیرانسانی‘ غیراخلاقی اور سراپا ذلت بھرے رویئے کی اصلاح ممکن ہو گی بلکہ متعلقہ محکمے درخواستوں کی تعداد کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے (منصوبہ بندی کے ذریعے) اِس قابل بھی ہوں گے کہ اپنی خدمات و سہولیات کے ساتھ دفتری اُوقات میں حسب ضرورت اضافہ (ردوبدل) کریں۔ پاسپورٹ کے حصول کے لئے مقررہ فیس کسی ایک دور دراز الگ مقام پر بینک کی بجائے پہلے تو درخواست وصول اور اس کی تصدیق وغیرہ کی جانچ کرنے کے مرحلے پر وصول ہونی چاہئے اور اگر ایسا ’سرکاری ملازمین کی صداقت‘ امانت و دیانت‘ کی وجہ سے ممکن نہیں تو یہ آپشن (سہولت) بھی ہونی چاہئے کہ کسی بھی ’آن لائن بینک‘ یا موبائل فون یا اے ٹی ایم یا آن لائن بینکنگ کے ذریعے مقررہ فیس جمع کرائی جا سکے‘ جس کی بطور چھ یا آٹھ ہندسوں پر مبنی خفیہ نمبر(کوڈ) بذریعہ ایس ایم ایس یا پرنٹ آؤٹ متعلقہ صارف کو فراہم کر دیا جائے اور یہی کوڈ بعدازاں ’اپوٹمنٹ(appointment)‘ حاصل کرنے کی ’آن لائن درخواست‘ کے ہمراہ منسلک کر دیا جائے‘ جیسا کہ ’میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ‘ کے لئے پہلے سے اِسی قسم کا طریقۂ کار رائج ہے۔ ایسے دفاتر جن سے بڑی تعداد میں عوام کا واسطہ پڑتا ہے اُن سے براہ راست رجوع کی بجائے ’آن لائن‘ طریقہ کار باسہولت بھی ہے اور اِسے چوبیس گھنٹے خودکار انداز میں چلانا بھی ممکن ہے لیکن چونکہ اس سے اُن ’وی وی آئی پیز‘کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی‘ جنہیں انتظار کی عادت نہیں اور اُن کا استحقاق بھی کانچ سے زیادہ نازک ہے! اگر درخواست گزار کو خودکار انداز میں ویب سائٹ‘ ای میل‘ یا ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے مطلع کردیا جایا کرے کہ وہ (یوں قطاروں میں کھڑا ہونے کی بجائے) کسی مقررہ دن‘ فلاں وقت‘ فلاں کاؤنٹر اُور فلاں مقام پر قائم دفتر سے رجوع کرے تو یہ ہر لحاظ سے محفوظ طریقۂ کار ہوگا۔

 اگر حساس نوعیت کی شناختی دستاویزات کے حصول کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کر ہی لیا گیا ہے تو پھر یہ استعمال ’سو فیصد‘ ہونا چاہئے۔ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ جیسی ’ادھوری ٹیکنالوجی‘ کی بجائے ’مکمل حل‘ اختیار و پیش کر کے بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ ممکن ہے‘ ذرا سی حساسیت کا مظاہرہ کرکے پیچیدہ و عذاب کی صورت اعصاب شکن مراحل کو کیوں نہ آسان بنا دیا جائے؟ جمہوری اسلامی کے وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور وفاقی حکومت کے خیبرپختونخوا میں نمائندہ گورنر سے التجا ہے کہ وہ نظرکرم فرماتے ہوئے پاسپورٹ و قومی شناختی کارڈ دفاتر کے باہر قطار میں کھڑے ’پاکستانیوں‘ کی مشکلات کا احساس کریں۔ اگر یقین نہ آئے تو خود بھی عملی تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ سے شناختی کارڈ و پاسپورٹ دفاتر کے باہر کس طرح‘ کس قدر اور کس اِنتہاء کا ’ذلت بھرا سلوک‘ روا رکھا جا رہا ہے!

Sunday, July 26, 2015

Environmental balance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عدل و اعتدال
ماحول اور تحفظ ماحول کی بات کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسے عدل و اعتدال (توازن) برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں جملہ ’ہم زمین‘ حیات کے وجود کو صرف برداشت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ طرز معاشرت سیکھا جائے۔ یہی وہ موضوع ہے جو انسان سے انسان کی طرح جانوروں اور پرندوں کے تعلق کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ پرانے دور میں جانوروں اور پرندوں سے استفادہ بار برداری‘ سواری‘ رکھوالی‘ شکار میں مدد‘ خوراک کے حصول جیسے اہم مقاصد کے لئے کیا جاتا مگر ہر دور میں انہیں شوقین مزاجی کے لئے پالا بھی جاتا رہا ہے۔ شہری علاقوں میں خاص طور پر اس قسم کے شوق کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی جانور پالنا ’فیشن کی علامت‘ بنتا جا رہا ہے۔ پشاور کے اندرون کوہاٹی گیٹ اور بٹیربازاں کی اکادکا دکانیں پرندوں سے بھری دکھائی دیتی ہیں جو اس شہر میں پلتے بڑھتے رجحان اور شوق کا آئینہ دار ہے۔

پالتو جانوروں میں گھوڑا سرفہرست ہے لیکن شہری علاقوں میں انسان کے اس سب سے پرانے دوست کی رکھوالی آسان نہیں۔ تقریباً ہر قوم اور تہذیب میں گھوڑوں کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔ عرب میں تو ہر گھوڑے کا نام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا پورا شجرہ نسب تک یاد رکھا جاتا تھا۔ پالتو جانوروں میں دوسرا نمبر ’کتے‘ کا ہے جو رکھوالی کے ساتھ مغربی ممالک کی طرح سرآنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں کتا معیوب جانور سمجھا جاتا تھا لیکن انٹرنیٹ پر تلاش کیجئے ایک ایک کتے کی قیمت لاکھوں میں مقرر کرنے والے اور خریداروں کے ہجوم میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔ ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ کے لئے تو کتا ایک بہترین تحفہ بھی ہے اور چند ایک سیاست دان تو کتا بطور تحفہ وصول کرنے پر ذرائع ابلاغ کی زینت بھی بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کتوں کی جو نسلیں گھر میں رکھنے کے لئے زیادہ عام ہیں ان میں لیبراڈور‘ جرمن شیفرڈ‘ بیلجیئم شیفرڈ‘ روٹ ویلر‘ رشین اور پوائنٹر لیکن ایسی اچھی نسل کے کسی کتے کا ملنا آسان اور سستا نہیں۔ گھریلو پالتو جانوروں میں تیسرے نمبر پر ’بلی‘ آتی ہے جنہیں پسند کرنے کی ایک وجہ ان کی خود کو صاف رکھنے کی عادت ہے۔ یہ روزانہ اپنی زبان سے اپنے پنجوں اور جسم کے مختلف حصوں کو صاف کرتی رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ شیر کی خالہ (بلی) کی قیمت پانچ ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے اور ان کی ماہانہ (درآمدی) خوراک بھی سستی نہیں جس پر ایک ہزار سے تین ہزار روپے کم از کم خرچ ہو سکتے ہیں!

ایک وقت میں طوطا پشاوریوں کے رہن سہن کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ہر گھر اور کندھے پر ایک طوطا کچھ نہ کچھ بولتا نظر آتا لیکن اب سبز کے علاؤہ پیلے‘ سفید‘ نیلے اور مختلف دیگر رنگوں کے طوطے کوہاٹی گیٹ سے باآسانی مل جاتے ہیں جن کی قیمت ہزاروں روپے میں سن کر قطعی اوسان خطا نہ کیجئے گا کیونکہ طوطوں کی نسلیں درآمد کی جاتی ہیں۔ طوطے کی قیمت چند سو روپے سے دو لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔ مکاؤ‘ کوکیٹو اور گرے پیرٹ نایاب نسلیں بھی ہیں جنہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اگر ہم پالتو جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فہرست مرتب کریں تو طوطا سرفہرست ہوگا کیونکہ یہ ہرقسم کی پھل‘ سبزی کھا سکتا ہے اور کسی گھر کی عادات کے مطابق اپنی خوراک کی عادات ڈھال لیتا ہے۔ آپ اسے اناج و سبزی روٹی یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا تھما سکتے ہیں یقین جانئے یہ کسی بھی کھانے کی چیز کو کترنے میں بالکل انکار نہیں کرے گا۔ البتہ اس کا مزاج تھوڑا سخت کرخت اور بے وفا مشہور ہے کہ جب بھی اسے موقع ملتا ہے یہ اپنی فطرت کے مطابق اُڑ جاتا ہے!

یاد رکھیں کہ پالتو پرندے ہوں یا کوئی بھی جانور‘ ان کی طبیعت بے حد حساس ہوتی ہے۔ ان کا خیال چھوٹے بچوں کی طرح کرنا پڑتا ہے۔ انہیں زیادہ دیکھ بھال کی تو ضرورت نہیں ہوتی لیکن گھر میں رہتے ہوئے وہ خطرات کا ازخود مقابلہ نہیں کرسکتے اِس لئے آپ کو اُن کا ضامن بننا ہوتا ہے۔ جانور شور شرابے‘ تیز موسیقی‘ سگریٹ کے دھوئیں‘ کاربونیٹیڈ مشروبات‘ چائے‘ قہوہ یا دیگر نشہ آور مشروبات لینے کے عادی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ جب انہیں گھروں میں اِس قسم کی خوراک دی جاتی ہے تو وہ عمومی خوراک کھانا ترک کر دیتے ہیں۔ بچوں کو پرندوں کی دیکھ بھال سکھا کر انہیں صحت مند تفریح اور ماحول دوستی کی عملی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ وہ کرہ ارض اور ماحول سے محبت کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح بچے شرارتیں کرکے آپ کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں اسی طرح پالتو جانور بھی آپ کی بہت سی پریشانیوں کا ایک ایسا علاج ثابت ہوسکتے ہیں‘ جس کے کوئی (مضر) سائیڈ ایفکیٹ نہیں ہوتے۔

Saturday, July 25, 2015

July2015: Lessons embeded

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سبق آموز آفات
خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کے رہنے والے کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ گذشتہ دس برس کے دوران موسم کا یہ بدترین برتاؤ ہے جس سے پرسکون دریاؤں‘ چشموں اور دیگر آبی گزرگاہوں میں طوفان برپا ہے۔ چترال کی جنت نظیر وادیاں کہ جہاں کبھی پرسکون خاموشی ہوا کرتی تھی‘ موت کی وادی بن چکی ہے اور یہ سب کچھ کیا دھرا ’قدرت‘ کا نہیں بلکہ جن چھبیس دیہات کے ساٹھ ہزار سے زائد افراد اپنی جان بچانے کے لئے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں‘ اُن کی زحمت اور نقصانات کا سبب انسانی ہے اور یہی بات اگر ہم نے سمجھ لی تو نہ صرف مستقبل میں مزید ایسے طوفانوں سے بچ سکیں گے بلکہ میدانی علاقوں میں سیلابی ریلوں سے ہوئی تباہی سے بچاؤ بھی ممکن ہو سکے گا۔

چترال کی وادیاں ایک عرصے تک دریا کے کنارے پگڈنڈیوں سے جڑی ہوئی تھیں جن پر مسافت کرنے والے گدھے یا خچروں پر لدے ہوئے سامان کے ساتھ گاؤں گاؤں جا کر چائے‘ نمک و دیگر ضروریات فروخت کیا کرتے تھے۔ یہاں کی معیشت نوے فیصد سے زائد زراعت پر منحصر تھی۔ جس میں پالتو جانور مال مویشیوں کی انسانوں کی طرح یکساں اہمیت تھی۔ یہاں کے رہنے والوں کو درختوں کی قدر ہوا کرتی تھی اور انہیں مقدس سمجھ کر اُن کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن پھر چترال کی ثقافت اور بودوباش میں تبدیلیاں آئیں اور درختوں کی شاخ تراشی کی بجائے اُنہیں کاٹ ڈالنے اور راتوں رات امیر بننے کی دھن ہر سر پر سوار ہو گئی۔ جنگلات کو ہر کسی نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق نقصان پہنچایا یعنی کسی نے کم اور کسی نے زیادہ۔ کسی نے درخت کاٹ کر اور کسی نے خاموشی اختیار کر کے! چترال میں دیگر اضلاع سے سرکاری ملازمین تعینات کئے گئے جن کی فیصلہ سازی میں اُن کے پیش نظر چترال کی محبت یا مفادات نہیں تھے۔ سیاسی جماعتیں بھی مختلف ادوار میں چترال کے اُنہی افراد کو منتخب کرتی رہیں جن کے پاس مالی وسائل تھے اور وہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ چترال کے جنگلات کی تقسیم اور اس قومی وراثت کے ذاتی اثاثوں میں تبدیل ہونے سے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ اگر درخت کاٹے جا رہے ہیں تو ان کے متبادل کے طور پر مزید درخت لگائے جائیں۔ چترال کی زرعی معیشت میں چرواہوں کا بھی کلیدی کردار ہوا کرتا تھا جو بکریاں لے کر دور پہاڑوں گھاٹیوں اور وادیوں میں گھومتے رہتے تھے اور اپنے ساتھ واپسی پر ایسی جڑی بوٹیاں لایا کرتے جن میں پیچیدہ امراض کا شافی علاج ہوتا۔ یہ روایت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور بکری بانی پر انحصار کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جب درخت کٹ رہے تھے تو سورج کی روشنی اور بارش کا پانی براہ راست زمین پر برسنے لگا۔ تیز ہواؤں نے زمین کے کٹاؤ کو مزید آسان بنادیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سیاحت کے لئے جب کبھی بھی چترال جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں کے قدرتی وسائل کی شکست و ریخت دیکھ کر حیرت ہوتی کہ حکومتی محکمے کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں سے دریاؤں میں آئی طغیانی کا بڑا سبب یہی ہے کہ پہاڑوں سے درخت ختم ہو چکے ہیں اور وہاں کی مٹی بہہ کر وادیوں میں جمع ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بارش آئی تو اس کا پانی پوری رفتار کے ساتھ وادیوں میں نئے راستے بناتا چلا گیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چترال کی ضلعی انتظامیہ نے فی گھرانہ تین بکریوں سے زائد رکھنے پر پابندی کیوں عائد کی جبکہ وہاں کی معیشت اور طرزمعاشرت میں زراعت کا ایک کلیدی کردار رہا ہے جسے برقرار رکھنے یا زیادہ منافع بخش بنانے کی بجائے اس میں بتدریج کمی کی جاتی رہی۔ کیا یہ چترال سے کھلی دشمنی نہیں تھی کہ وہاں کے ماحولیاتی تنوع کی نہ تو حفاظت کی گئی اور نہ ہی ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اُن کثیرالمنزلہ ہوٹلوں کی تعمیرات پر پابندی لگائی گئی جن کی وجہ سے جنگلات پر دباؤ بڑھا۔ قدرتی وسائل پر غیرضروری بوجھ بڑھا اور پیسہ کمانے کی لالچ میں چترال کی خوبصورتی کو ایک ایک کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا!

عالمی سطح پر کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھنے کا منفی اثر بھی چترال پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وادیوں کا درجۂ حرارت بڑھنے کی خبریں ایک عرصے سے شائع ہو رہی تھیں اور سیاح بھی یہ بات بتا رہے تھے کہ گذشتہ ماہ و سال کے مقابلے چترال کی آب و ہوا گرم ہو رہی ہے لیکن اس بارے حکومتی اداروں کی خاموشی برقرار رہی۔ فی الوقت چترال کے موجودہ جنگلات اور سرسبز وادیوں میں سے جو کچھ بھی باقی بچا ہے اُسے بچانے کی ضرورت ہے۔ علاؤہ ازیں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چترال میں آئے سیلاب کے معلوم محرکات کی گہرائی اور اثرات کے بارے کوئی حکمت عملی طے کی جاسکے۔ جب تک ہم تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ سیلاب جیسی آفت کا راستہ روکنے کی کوئی دوسری صورت نہیں۔

چترال سے آمدہ اطلاعات کے مطابق متاثرین کے لئے امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کا حجم بڑھانے کے ساتھ سیاسی امتیازات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ دور دراز وادیوں میں رہنے والوں کے مقابلے میدانی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ امداد تقسیم کی جارہی ہے جس کی منصفانہ تقسیم سے موجودہ بحرانی صورتحال کی شدت میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

Friday, July 24, 2015

Jul2015: New Earth & an Old Earth!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نئی زمین‘ پرانی زمین
امریکہ کے خلائی ادارے کی تحقیق منظرعام پر آنے سے ایک ہفتہ قبل (سترہ جولائی) کے روز عالمی سطح پر ماحولیاتی تنوع کا ایک جائزہ پیش کیا گیا جس کے مطابق انسان نے اپنی بقاء کے لئے کرۂ ارض کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں 70کروڑ کی غیرمعمولی کمی آئی ہے جبکہ اس عرصے میں دنیا کی آبادی میں دو کروڑ افراد کا اضافہ بھی ہوا لیکن یہ ترقی قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو بگاڑ کر حاصل کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ دباؤ جنگلات پر دیکھا گیا‘ جس کا رقبہ گذشتہ تین دہائیوں میں اِس تیزی سے کم ہوا ہے کہ اِس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ دانشمندی یہ تھی کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جاتا لیکن گذشتہ پندرہ برس میں دنیا بھر میں مجموعی طورپر پر 23لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے جنگلات کاٹے گئے۔ زیر آب مخلوقات کا اپنی ضروریات سے 90فیصد زیادہ شکار کیا گیا۔ سمندروں کا پانی آلودہ کیا گیا۔ اس عرصے میں یہ بھی ہوا کہ دنیا بھر میں دریاؤں کا ساٹھ فیصد پانی کم ہوا۔ ’مضر ماحول گرین ہاؤس گیسیز (کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین اُور نائٹروس آکسائیڈ) کے اخراج سے ہوا کثیف ہو چکی ہے اور اگر اکیسویں صدی میں جبکہ علوم قدرے ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے ہیں لیکن اِن علوم کی روشنی میں حکومتی ترجیحات مرتب نہیں کی جاتیں تو اِس کے زیادہ مضر اثرات آنے والے چند برس میں زیادہ شدت سے دیکھنے میں آئیں گے۔

چترال کی مثال لیں جہاں تین لاکھ خاندان مون سون بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں لیکن صرف موسلادھار مون سون بارشیں ہی اِس تباہی کے لئے ذمہ دار نہیں بلکہ جس تیزی سے برفانی تودوں کا حجم کم ہو رہا ہے اُس سے دریاؤں میں طغیانی آئی۔ نقصانات کے ابتدائی تخمینہ جات کے مطابق مستوج میں ساٹھ ہزار جبکہ کیلاش کی وادیوں میں پچیس ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ضلع چترال کے دیگر حصوں بونی اُور گرم چشمہ میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا حکومت نے ’ہنگامی حالت‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور رابطہ شاہراؤں کی بحالی اور امداد کاروائیوں کے لئے فوری طور پر چودہ کروڑ روپے مہیا کئے ہیں۔ ہمارے حکومتی ادارے کسی آفت کے موقع پر سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کا سبب ’قدرت‘ کو قرار دیتے ہیں یعنی ’قدرتی آفت‘ حالانکہ قدرت کبھی بھی آفات نازل نہیں کرتی۔ یہ ہماری اپنی غلط حکمت عملیوں کا کیا دھرا ہے جو آفات کی صورت نازل ہوتا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اس بات میں زیادہ تسکین ملتی ہے کہ وہ تباہ حالوں کے لئے کروڑوں روپے بطور امداد خرچ کریں جس کا کوئی حساب کتاب (آڈٹ) نہ ہو!

قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن و تنوع کے بارے میں جس طرح کی ہماری سوچ اور عمل ہے‘ اُنہیں دیکھتے ہوئے ہمیں بہت جلد ایک نئی زمین کی ضرورت پڑے گی کیونکہ موسلادھار بارشیں ہوں یا برفانی تودے پگلنے کا تیزرفتار عمل‘ دونوں کی وجہ سے قابل کاشت و زرخیز زرعی اثاثوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چترال کی وادی میں زراعت اور مال مویشیوں کے نقصانات کا اندازہ ابھی نہیں لگایا گیا اور اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ زراعت کا ذیلی شعبہ ’ایگری کلچر انفارمیشن‘ اِس سلسلے میں تحقیق کرکے جلد حقائق نامہ مرتب کرے گا۔ ابھی ہم جولائی 2010ء میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں کو نہیں بھولے تھے کہ دوہزار پندرہ کی اُنہی تاریخوں نے ہمیں آلیا۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں اور اُن کوتاہیوں کا شمار کرنے کے قابل ہو جائیں تو ماحولیاتی توازن پھر سے بحال کرنا اب بھی ممکن ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ ہم خلاؤں میں نئی زمین تلاش کرنے کی بجائے اپنے پاؤں تلے موجود وسائل اور اپنی ضروریات و ترقی کو ماحول دوست بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔

Thursday, July 23, 2015

Jul2015: Understanding PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دھاندلی دھاندلی کی تکرار!
تحریک انصاف کی سیاست بارے بنیادی غلط فہمی یہی ہے کہ یہ جماعت دیگر ہم عصروں کی طرح بہرصورت اقتدار حاصل یا مالی فوائد کے لئے فیصلہ سازی میں حصہ داری چاہتی ہے۔ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ہوئی دھاندلی کے بارے میں جو ٹوٹے پھوٹے ثبوٹ اکٹھے کئے جا سکے اُنہیں کراچی سے پشاور تک سنجیدگی سے لیا گیا اور وجہ یہ نہیں تھی کہ صرف تحریک انصاف کے کارکن یا انقلابی نظریات والی اِس جماعت سے خاموش تعلق رکھنے والے ہی ’دھاندلی دھاندلی کی تکرار‘ کر رہے تھے بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی جانتی تھیں کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ’سو فیصد‘ جھوٹ نہیں! ’الیکشن کمیشن‘ سے کسی غیرجانبدار کردار ادا کرنے کی توقع کرنے والے احمقوں کی جنت نہیں بلکہ ایک ایسی دوزخ میں رہتے ہیں جہاں پورے کا پورا ’انتخابی عمل‘ اور ’طرز حکمرانی‘ استحصال‘ تعصب اور امتیازات کا مجموعہ بن چکا ہے!
پاکستان کتنا جمہوری اور یہاں کا معاشرہ اُور طرز حکمرانی کتنا اسلامی ہے اِس عمومی تاثر کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستانی جمہوریت کو برداشت کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ کس طرح عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں پورے ملک کو لسانی گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے یقیناًذات برادری کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اِس پر انحصار کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو ’حب الوطنی‘ کے جذبے سے سرشار ہو۔ جو ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کر دے۔ کھلے آسمان تلے ’ایک سو چھبیس دن‘ احتجاج کرنے کے بعد انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں بادلنخواستہ تحقیقات کرنے کے لئے ایک ’جوڈیشل (عدالتی) کمیشن‘ تشکیل دیا گیا اور پھر ایک رپورٹ وزارت قانون و انصاف کے ذریعے حکومت کو ارسال کر دی گئی اور اس بات کا حسب توقع خیال رکھاگیا کہ حکمرانوں کے ماتھے پر شکن تک نمودار نہ ہو!

سیکرٹری قانون جسٹس رضا خان نے بائیس جولائی کو سربمہر رپورٹ وصول کرکے بناء وقت ضائع کئے وزیراعظم کے دفتر کو ارسال کردی کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے سے اُن کا بس اتنا ہی تعلق (کردار) بنتا تھا! اگر تحریک انصاف عام انتخابات میں منظم دھاندلی‘ عدم شفافیت اورعوام کے مینڈیٹ کی چوری جیسے سنگین الزامات عائد کر رہی ہے تو اس بیان کو کسی ایک سیاسی جماعت کے فکروعمل کے تناظر میں محدود کر کے نہیں دیکھنا چاہئے تھا وفاقی وزارت قانون کی افسرشاہی یوں تو آئین کی محافظ بنتی ہے لیکن اِس معاملے میں تجاہل عارفانہ اختیار کر لیا گیا۔ جب بات کمزور طبقات کے حقوق کی ہو تو ہمارے ہاں سرکاری محکموں کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرکاری محکمے ملک کی بجائے حکومت کے ساتھ وفادار رہتے ہیں۔ بہرکیف سربمہر تحقیقاتی رپورٹ کے جو نکات بناء بیان منظرعام پر آئے اس کے حوالے سے حکمراں جماعت کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ’’کمیشن نے ’منظم دھاندلی‘ کے الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔‘‘ مطلب یہ کہ سوئی ’منظم دھاندلی‘ پر اٹک گئی ہے گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابی مراحل میں دھاندلی تو ہوئی لیکن چونکہ یہ ’منظم‘ نہیں اِس لئے کوئی بات نہیں!

لائق تحسین تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ردعمل ہے جو ایک مرتبہ پھر جس تحمل و بردباری کے ساتھ غیرضروری احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اُس سے ’مک مکا‘ کی بو آ رہی ہے اور یہ شک پیدا ہو رہا ہے کہ پس پردہ ملاقاتوں ایسی بہت سی باریکیوں پر اتفاق کر لیا گیا ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ حکومت دو ہزار اٹھارہ تک اپنا دورانیہ پورا کرے گی! تحریک انصاف کی جانب سے تاحال باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ کمیشن کی رپورٹ وزارت کو موصول ہوئی ہے یا نہیں لیکن اگر نہیں بھی ہوئی تو انہیں اپنے وکیل کے ذریعے کمیشن سے رابطہ کرکے رپورٹ کی نقل حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اس میں بطور فریق اُن کے علاؤہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا سیاسی مستقبل وابستہ نہیں۔ تیئس جولائی کو تحریک انصاف نے سپرئم کورٹ سے رجوع کیا تاکہ اُسے رپورٹ کی کاپی (نقل) مل سکے اور قوئ اُمید ہے کہ یہ نقل سپرئم کورٹ کی مداخلت سے قبل ہی ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگ جائے گی! کیونکہ سب کی نظریں اسی پر لگی ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ تحقیقاتی کمیشن نے رواں ماہ کے آغاز پر ہی اپنی سماعت مکمل کر لی تھی تاہم رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اختتام کا انتظار کیا گیا جو اپنی جگہ ایک تاخیری حربہ تھا۔

سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئٹر (twitter) پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی‘ ترقی اور اصلاحات احسن اقبال نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’’جوڈیشل کمیشن نے حکومت کو کلیئر (clear) کردیا ہے اور تحریک انصاف کے تینوں الزامات مسترد کر دیئے گئے ہیں‘ آخرکار سچ کی فتح ہوئی۔‘‘ اگر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب پوچھا جائے تو کیا واقعی اِسے سچ کی فتح کہا جائے گا؟ وفاقی حکومت کی ترجمانی کرنے والے بیانات داغ رہے ہیں کہ ’’دھاندلی کے نام پر معیشت کے ساتھ ڈرامہ اور دھرنا کھیلا گیا۔ عمران خان کو قوم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔ تاہم ہمیں اب زیادہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تاکہ معیشت کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔‘‘ ایک لیگی رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’کمیشن کو انتخابات میں دھاندلی کے شواہد نہیں ملے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انتخابات قواعد کے مطابق ’شفاف انداز‘ میں منعقد ہوئے تھے۔‘‘

تحریک انصاف نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 3 بنیادی سوالات رکھے تھے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے جوابات کتنی وضاحت اور منطقی انداز میں دیئے گئے ہیں تاہم کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آنے سے قبل اِس کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب کا سب حقائق مسخ کرنے اور قوم کو گمراہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے اور یہ سب بظاہر ایک نئے ڈرامے (play) کا حصہ لگتا ہے۔چیف جسٹس ناصر المک کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن نے 9اپریل 2014ء سے کام کا آغاز کیا تھا اور اِس 450دن یعنی نو اپریل سے تین جولائی (ایک سال دو ماہ چوبیس دن) کے عرصے میں کمیشن نے کل 39 اجلاس منعقد کئے جن میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے 69 گواہوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔کمیشن کاآخری اجلاس تین جولائی کو ہوا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کو سپرد کرنا کہاں کا انصاف ہے جو اپنی ہی جماعت اور اپنی ہی حکومت کے بارے رپورٹ کا مطالعہ کریں گے۔ پھر مشاورت کریں گے اور پھر اگر اُنہیں پسند ہوا تو اسے بناء تبدیل کئے قوم کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اگر ایک آزاد کمیشن تشکیل دے دیا گیا تھا تو اس کی رپورٹ پوری قوم کے سامنے پیش ہو جانی چاہئے تھی‘ کیونکہ دھوکہ عوام سے ہوا ہے حکمرانوں سے نہیں۔ وزیراعظم کا آج شام سات بجے قوم سے خطاب متوقع ہے۔ عام آدمی کے مینڈیٹ (رائے) کا احترام اور اس کے بارے میں اٹھائے گئے شکوک و شبہات اور اعتراضات کے بارے میں مؤقف پیش کرنے کے لئے قومی وسائل اور عہدے کا اِستعمال اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں قول و فعل میں جمہوری ہونے کے لئے ابھی کڑی محنت کی ضرورت ہے!

Wednesday, July 22, 2015

Jul2015: Politics of MQM

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تماشا
متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے برطانوی حکومت سے ’تادم مرگ بھوک ہڑتال‘ کرنے کی اجازت مانگی ہے اور بقول اُن کے اگر یہ اجازت مل گئی تو وہ پہلے سے جاری انتظامات کے تحت کھانا پینا ترک کر دیں گے۔ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی یہ ’’پہلی‘‘ ایسی بھوک ہڑتال ہو گی جس کے لئے انہوں نے کسی دوسرے ملک سے اجازت طلب کی گئی ہے! دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں بالخصوص سیاسی قائدین کے تن بدن پر جس قدر تہہ در تہہ چربی پائی جاتی ہے تو اگر وہ ’تادم مرگ‘ تو کیا تاقیامت بھی کچھ نہ کھائیں تو اس سے اُن کی صحت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن عوام کی یہ خوشی دیگر بہت سی مسرتوں کی طرح عارضی ثابت ہوئی کیونکہ الطاف بھائی ماضی میں بھی ایک سے زیادہ مرتبہ ایسی ہی ہڑتالوں کا اعلان کر چکے ہیں لیکن پھر موت آنے کی نوبت نہیں آنے دی گئی!

اگر کوئی یہ جاننے کا متمنی ہو کہ ’الطاف بھائی‘ نے کب کب بھوک ہڑتال کی اور کیا وہ ماضی ہی طرح اِس مرتبہ بھی بھوک ہڑتال میں اتنے ہی سنجیدہ رہے یا پھر محضشہ سرخیوں کی زینت بننے کے ماہر ہیں کیونکہ ابھی ہڑتال کا اعلان ہی ہوا تھا کہ حسب توقع کراچی میں رابطہ کمیٹی کے اراکین اور وہی جانے پہچانے کارکن نائن زیرو پر جمع ہو کر آنسو بہا بہا کر واویلا کرنے لگے! یاد رہے کہ الطاف بھائی اکیس جولائی سے قبل تین مرتبہ بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔ اُن کی پہلی بھوک ہڑتال 1974ء میں سامنے آئی جب وہ اکیس برس کے تھے اور جامعہ کراچی کے شعبہ ’بی فارمیسی‘ میں اُنہیں داخلہ (ایڈمیشن) نہیں دیا گیا۔ اُس وقت ’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ کا قیام ابھی عمل میں نہیں آیا تھا۔ یہ وہی تنظیم تھی جس کی ارتقائی شکل ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی صورت میں ابھری۔ بہرکیف پہلی بھوک ہڑتال کامیاب رہی اور الطاف بھائی کو کراچی یونیورسٹی میں ’بی ایس سی‘ کی بنیاد پر داخلہ مل گیا۔ اِس مرحلۂ فکر پر یہ بھی یاد رہے کہ مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام 1978ء جبکہ بعدازاں مہاجر قومی موومنٹ کی تشکیل 1984ء میں ہوئی۔ الطاف حسین کی دوسری بھوک ہڑتال سیاسی تھی جس کی زحمت 1990ء میں فرمائی گئی جب سندھ میں ان کی جماعت کو حکمراں پیپلز پارٹی کی جانب سے مبینہ طورپر نشانہ بنایا گیا۔ الطاف بھائی کی ’تیسری بھوک ہڑتال‘ 1998ء میں ہوئی جب اُن کے پینسٹھ سالہ بھائی ناصر اُور اٹھائیس سالہ بھتیجے عارف کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ ہڑتال جولائی 1998ء کے دوران لندن میں کی گئی جس میں کارکن بھی شریک ہوئے۔ چوتھی بھوک ہڑتال ابھی ہوئی تو نہیں لیکن اُس کا اعلان بیس جولائی کو کرتے ہوئے کراچی میں جاری فوجی کاروائی کو یکطرفہ قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ کاروائی نہ تو مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی اس کا نشانہ کوئی ایک سیاسی جماعت ہے! کہیں نہ کہیں سے بات شروع کرنا تھی اور پھر جب ایم کیو ایم خود مطالبہ کرتی رہی کہ کراچی میں فوجی آپریشن کیا جائے تو اب اُسی کو اپنے خلاف دائرہ تنگ ہوتا محسوس ہو رہا ہے!

الطاف بھائی سمیت پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھوک ہڑتال تو کیا چاہے اُلٹا بھی لٹک جائیں تو اِس مرتبہ پاک فوج کے اِرادے نیک ہیں اُور وہ کراچی سے سیاست و جرائم کے درمیان تعلق کو بہرصورت ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ بات کراچی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’بخوبی‘ اور ’بروقت‘ سمجھ لی ہے‘ جس کے قائدین دھمکیوں کے بعد متحدہ عرب امارات جا بیٹھے ہیں اور وہیں پارٹی کے اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ کس قدر شرمناک حقیقت ہے کہ روٹی کپڑا اُور ایان ۔۔۔ معاف کیجئے گا ’روٹی کپڑا اور مکان‘ دینے کا وعدہ کرنے والے دبئی سے جبکہ اپنی ذات کے لئے برطانیہ کی شہریت اُور کارکنوں کے لئے مہاجر کی حیثیت پسند کرنے والے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ بیرون ملک سے کر رہے ہیں‘ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں حکمرانی اور سیاست اِس طرح ہو رہی ہے؟ چونکہ ہمارا آئین اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بیرون ملک مالی سرمایہ کاری‘ مستقل و غیرمستقل رہائش اور مفادات رکھنے والے سیاست کرنے کے اہل ہیں‘ اِس لئے ضرورت کئی ایک آئینی ترامیم کی ہے جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ ’تحریک انصاف‘ کو کم از کم ایک مرتبہ موقع دینے (آزمانے) کا تہیہ کئے دکھائی دیتی ہے۔ سندھ سے متحدہ اور پیپلزپارٹی کا صفایا تقریبا مکمل ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت مرتضی بھٹو کی اہلیہ کے ہاتھ جاتے جاتے ایک مرتبہ پھر رہ گئی ہے جبکہ پنجاب میں احتساب کی زد میں کون کون آئے گا اُور ’جنگل کا بادشاہ‘ کب بھوک ہڑتال کا اِعلان کرے گا‘ یہ بات بہت جلد شہ سرخیوں کی زینت بن کر خوشگوار حیرت میں اضافے کا باعث بننے والی ہے! سوچ کا مقام نہیں تو کیا ہے کہ صاحبان علم اختلافات کا شکار ہیں۔ چند کتابچوں سے معلومات اَخذکرنے والے واعظ بن گئے ہیں۔ موسیقی کے دلدادہ خود کو مبلغ سمجھ رہے ہیں۔ قانون ساز قانون توڑ رہے ہیں۔ ماڈلز اِسمگلنگ کر رہی ہیں۔ اِسمگلرز عبادات میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور معاشرے میں اجتماعی طور پر ’عبادات کے عملی ثمرات‘ دکھائی نہیں دیتے۔ حکمرانی ظاہری نہیں بلکہ مخفی کرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ دن دگنی ترقی کرنے والے کاروباری لوگ وہی ہیں‘ جنہوں نے دامے درہمے سخنے سیاست میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جہاں آوے کا آوہ بگڑا ہو‘ جہاں عام آدمی (ہم عوام) کو طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والی تعطیلات میں مشغول کر دیا گیا ہو! وہاں قومی سطح پر جاری عوام کی ’بھوک ہڑتال‘ کا دور بھی ختم ہونا چاہئے۔

Tuesday, July 21, 2015

Jul2015: Agriculture need attention

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
دوا کرے کوئی!
زراعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اور ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ ملک کی مجموعی خام قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ بیس فیصد سے زیادہ ہی رہا ہے۔ لوگوں کی بھوک مٹانے والی‘ پاکستان کو خوراک میں خود کفیل بنانے والی‘ بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کو بھی نان شبنہ کھلانے والی زراعت کو ترقی دلوانا کبھی بھی ہماری پہلی ترجیح نہیں بن پائی! زرعی اداروں میں بجٹ کی تقسیم ہو یا زراعت کے شعبے میں تحقیق‘ کہیں بھی خاطرخواہ مالی وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔ جب کبھی بھی پاکستان میں کسی قسم کی کوئی اضافی ڈیوٹی دینا مقصود ہو تو اساتذہ کے ساتھ ساتھ جس محکمے کو بیگار کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ محکمہ زراعت ہی ہے!
کوئی تو بتائے کہ اس محکمۂ زراعت کا اصل کام ہے کیا؟ ایک زراعت آفیسر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ پاکستان کا محکمہ زراعت آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا یہ خود ہی کام نہیں کرنا چاہتے یا ان کو کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا؟ جو بجٹ ان کو ملتا ہے اس کا 90فیصد تو ملازمین کی تنخواہوں میں نکل جاتا ہے۔ باقی 10فیصد سے کیا ترقی یا تحقیق ممکن ہو سکتی ہے؟ ہمارے زرعی ادارے کتنے بھی بدحال ہوں لیکن پاکستان کا کسی حد تک اپنی خوراک کی ضروریات میں خود کفیل ہونا انہی زرعی اداروں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ہاں اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پیداوار کا تناسب بہت بڑھایا جا سکتا ہے‘ اور اِن اداروں میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے لیکن پھر بھی اگر صرف ایک زرعی ادارے ’نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر‘ کی کارکردگی کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو بخوبی ایسے کسی بھی ادارے کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ’قومی زرعی ترقیاتی ادارہ‘ دنیا بھر کے زرعی تحقیقی اداروں سے رابطے کا ایک ذریعہ ہے اور زراعت کی تحقیق کے بین الاقوامی اداروں کے لئے کیمپ آفس کا کام سر انجام دیتا ہے۔

زراعت کے شعبے میں ہونے والی عالمی تحقیق ایسے ہی اداروں کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہوئی۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی زرعی تحقیق کا پاکستانی دروازہ یہی پاکستانی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے گندم کو سٹے کی بیماریوں سے بچانے کے لئے جو محفوظ اقسام تیار کیں‘ اس سے ہونے والی بچت کا تخمینہ اٹھاون ارب روپے سالانہ ہے۔ تیس سے زائد اقسام کے زرعی آلات اسی ادارے نے تیار کیے اور پاکستان کے کسانوں تک پہنچائے۔ پاکستان سے باہر پاکستان کی زرعی مصنوعات کی تصدیق اور تشہیر کے لیے انمول خدمات سر انجام دیں۔ بین الاقوامی معیار کا ایک جین بینک قائم کیا جس میں پینتیس ہزار اقسام کے پودوں کے جینیاتی مادے کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ پاکستان کو برڈ فلو نامی بیماری سے نجات کا راستہ بھی اسی ادارے سے ہو کر نکلا۔ سورج مکھی‘ گندم اور چارے کے نئے بیچ ہوں یا صحت بخش کنولا بیج کی پیدوار‘ اس ادارے نے زراعت کی سبھی سمتوں میں پاکستان کی معاونت کی ہے۔

سرکاری جنگلات کٹنے کی کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی‘ سرکاری زمینوں پر قبضے کی داستانیں بھی آئے دن کی کہانیاں ہیں۔ اب تازہ معرکہ اسلام آباد میں نیشنل ایگری کلچر ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) اسلام آباد کی زمین پر لڑا جائے گا۔ سی ڈے اے کی طرف سے وزیرِ اعظم کو جو سمری بھیجی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ این اے آر سی کے زیر استعمال بارہ سو ایکڑ زمین پر رہائشی کالونیاں بنا کر ایک سو پچاس ارب روپے کمائے جاسکتے ہیں! جو ادارہ کبھی اسلام آباد کے مضافات میں تھا‘ شہر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ شہر کا دل بن گیا ہے۔ ایسی زمین پر کسی کا دل للچا جانا سمجھ آتا ہے لیکن سیاسی ارباب اختیار کو یہ سوچنا ہو گا کہ ان کومرغی ذبح کرنی ہے یا انڈوں کا انتظار کرنا ہے؟ پاکستان کی بین الاقوامی پہچان کا حامل یہ ادارہ جو دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں کے سب سینٹرز کا درجہ بھی رکھتا ہے‘ کیا اپنے بدن سے محروم کر دیا جائے گا؟ وہ جین بینک جس کو بنانے کے لئے ایک صدی کی محنت درکار ہوا کرتی ہے‘ نادر نباتاتی اقسام کا قبرستان بن کر رہ جائے گا؟ زرخیز زرعی زمینوں کی لاشوں پر انسانی بستیاں بسانے والوں کو ایک لمحے کے لئے سوچنا ہو گا کہ اپنے خوابوں کی بستیاں تو وہ تعمیر کر لیں گے مگر ان میں بسنے والے انسانوں کے پیٹ کیونکر بھر پائیں گے؟ لیکن سی ڈی اے اور ایک زرعی ادارے کے درمیان جنگ کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے کسی علم قیافہ شناسی کی بھی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے یہ بے جان سا ادارہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

 پاکستان میں تحقیق کی اہمیت سمجھنے والے کوئی آواز ہی نہیں رکھتے۔ کسی کو معلوم تک نہ ہو گا کہ زرعی تحقیق کے نام لکھی یہ زمین کیسے ان سے چھن گئی۔ ایک بے بس ادارے کے بے بس سرکاری افسر یہ لڑائی کیونکر لڑ پائیں گے؟ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ہم جب دنیا سے آخری درخت تک کاٹ ڈالیں گے‘ تب خوراک کے یہ ذرائع اجاڑ دینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوگا کہ دولت نہیں کھائی جا سکتی۔ کیا ہم خوراک کے ذرائع پر دولت کو ترجیح دے کر اس مقولے کو خود پر سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

Monday, July 20, 2015

Jul2015: Eid with IDPs

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سب کی عید؟
وہ کہ جنہوں نے بھوک پیاس کی شدت کے ساتھ رمضان المبارک کی ساعتوں میں صبر و شکر کا عظیم الشان عملی مظاہرہ کیا اُن کا ضبط بھی برقرار نہ رہے سکا۔ عیدالفطر کے لمحات میں گرم پانی سے افطار کرنے والوں کی آنکھیں بھر آئیں! اگر بچوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اُن کے سایہ دار گلی کوچے چھین لئے گئے تو بڑے بڑوں کی یاداشت بھی ان کے آبائی علاقوں ہی کے بارے میں تھی جس کی وجہ سے وہ باوجود کوشش بھی فرط جذبات سے آنسو روک نہیں پا رہے تھے۔

پشاور سے کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت پر نوشہرہ کی حدود میں واقع ’جلوزئی کیمپ‘ قبائلی خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار جبکہ باجوڑ و مہمند ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار (مجموعی طور پر تین ہزار پانچ سو سے زائد) خاندان آباد ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق عیدالفطر سے قبل اپنے ہی ملک میں ’مہاجرت‘ کی زندگی بسرکرنے والوں کو متعلقہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے ’عید پیکج‘ کے طور پر نہ تو نئے کپڑے دیئے گئے اور نہ ہی اشیائے خوردونوش دی گئیں۔ مقام حیرت یہ بھی ہے کہ رمضان کے آغاز سے قبل تک غیر ملکی امدادی اداروں کی جانب سے جو امداد مل رہی تھی‘ عید کے آتے آتے وہ بھی کم ہوتی چلی گئی۔ ایک ایسا دشت و بیاباں کہ جس میں درخت نام کی شے کا پتہ پوچھنے والوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ چلو کسی بہانے سبزے اُور چھاؤں کا نام تو ذکر ہوا۔ اِس تہوار کے موقع پر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے قائم متعدد حکومتی اداروں میں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے ملازمین کو بھی ’جلوزئی‘ کیمپ کا خیال نہیں آیا۔ اصولی طور پر اگر ’فاٹا سیکرٹریٹ‘ اور ’امدادی اداروں (ڈونر ایجنسیوں) سے بہبود کے منصوبوں (پراجیکٹس) کے لئے کروڑوں روپے لینے والے غیرسرکاری اداروں کے اعلیٰ و ادنی اہلکاروں نے بھی اپنی اپنی ائرکنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھ کر ’جلوزئی کیمپ‘ میں عیدالفطر کی نماز ادا کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ (ٹیلی ویژن چینلوں) کے ذریعے نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات و تکالیف کو پوری دنیا اور بالخصوص ملک کے بڑے و خوشحال شہروں میں رہنے والوں کے سامنے پیش کیا جاتا۔ اٹھارہ کروڑ میں سے کم از کم پانچ کروڑ بھی اگر صرف اپنے ہی حصے کا فطرانہ اِس مرتبہ نقل مکانی کرنے والوں کے لئے کسی خاص بینک اکاونٹ میں جمع کراتے تو صورتحال زیادہ خوشگوار اور تبدیل ہوتی! آخر ہم کیوں اس قدر حساس نہیں کہ ہماری طرح دوسروں کی بھی عید ہوتی ہے۔ ہماری ہی طرح دوسروں کے بچوں کو بھی عید کے موقع پر نئے کپڑوں‘ جوتوں اور تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس امن سکون اور خوشحالی کے ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ اُور عزیزواقارب کے لئے متمنی ہوتے ہیں آخر وہی دوسروں کے لئے کیوں نہیں چاہتے۔ نجانے ’عید سب کے لئے‘ اور ’سب کی عید‘ کب ہوگی!

جب ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ عام ایام کے مقابلے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل عید کے موقع پر خرچ کرے۔ دعوتیں کی جائیں۔ عزیزواقارب کے گھر مبارک باد دینے کے لئے بہ اہتمام جایا جائے۔ مدعو کئے جانے والوں یا حسب سابق مسکراتے ہوئے مہمانوں کو بانہیں کھول کھول کر ملنے والے مہمان نوازی میں کسر بہ چھوڑیں۔ مہندی‘ چوڑیاں‘ خوشبو‘ نئے فیشن کے مطابق سلے ہوئے ملبوسات‘ زیورات‘ جوتے‘ الغرض اُجلے مہکتے تن بدن کے ساتھ عید کی ساعتوں میں جو جس قدر خرچ کرتا ہے اُسے اُتنا ہی کم لگ رہا ہوتا ہے‘ لیکن کیا یہی سخاوت ہے؟ کیا یہی فیاضی ہے؟ کیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کے اثرات رمضان المبارک کے روزے و دیگر عبادات مکمل کرنے کے بعد ہماری عملی زندگیوں میں نظر آنا تھے؟ کیا عیدالفطر کا فلسفہ یہی تھا کہ ہم اپنی خوشیوں میں صرف اپنوں اور جاننے والوں ہی کو شریک کرتے؟!
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عیدالفطر کی نماز سے قبل وعظ و تلقین پر مبنی بیانات (خطبات) کی اکثریت میں ’نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کا ذکر‘ نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں ایسا محکمہ تو موجود ہے جو مساجد میں قیام و طعام اور خدمت دین کرنے والوں خدمت گزاروں کو ماہانہ تنخواہیں اُور مراعات (معاوضہ) ادا کرتا ہے لیکن سرکاری طور پر نماز جمعہ یا عیدین کے موقع پر حکومت ایسے موضوعات یا ان کے مندراجات (ایڈوائزری) جاری نہیں کرتی جن کا تعلق ہمارے روزمرہ حالات یا اُن خصوصی و ہنگامی حالات سے ہو۔ عبادات اُور منبر و محراب کا تعلق ہماری عملی زندگیوں سے کٹ سا گیا ہے‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو حقوق العباد کے بارے تذکرہ و تلقین نہ ہونے کے باوجود ہم میں سے ہر ایک ’مہاجر و انصار‘ جیسا کردار اَدا کر رہا ہوتا۔ دل چھوٹے اور مکانات وسیع وعریض اور ایک وقت تھا کہ رہائشگاہیں چھوٹی اور دل بڑے ہوتے تھے! اگر ایسا نہ ہوتا تو عید کے موقع پر ہمارے اپنے ہی (قبائلی) لوگ دشت و بیاباں میں کھلے آسمان تلے یوں کسمپرسی و بے سروسامانی کی حالت میں رمضان اُور عیدالفطر کی ساعتوں میں غمزدہ‘ فکرمند اور اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی و مایوسی کا شکار نہ ہوتے! ہم نے قبائلیوں کو کیا دیا۔ ایک امتیازی قانون‘ ایک تعصب بھرا رویہ‘ ایک خوف اور اندیشوں میں گھرا ہوا مستقبل!

جلوزئی کیمپ سمیت پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اِسماعیل خان‘ بنوں اُور دیگر علاقوں میں جہاں کہیں بھی نقل مکانی کرنے والوں سے بات چیت کا اِتفاق ہوا‘ اُن کے نوجونواں کی اکثریت کو سب سے زیادہ فکر مستقبل کے بارے میں لاحق تھی کیونکہ جس انداز میں حکومتی اداروں کی جانب سے اب تک دردمندی کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس سے کہیں گنا زیادہ بہتر یہی تھا کہ وہ شورش زدہ علاقوں میں اپنے مٹی کے مکانوں میں دب کر مر جاتے۔ اتنی بھوک‘ اتنی افلاس‘ اتنی بے سروسامانی اور اتنی بے بسی تو اِن لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی‘ نہ ہی یہ رویہ اُن کی توقعات کے عین مطابق تھا کہ ایسا ماجرا اُور اُن سے غیروں جیسا ہتک آمیز سلوک روا رکھا جائے گا! کیا ہم خیمہ بستی کی ایک ایسی زندگی کا تصور کرسکتے ہیں جہاں تین ماہ سے بجلی نہ ہو۔

 گرمی کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیموں میں چھاؤں تو میسر تھی لیکن چند منٹ خیمے کے اندر بیٹھنے سے ’گرین ہاؤس افیکٹ‘ کے سبب دماغ اُبلتا ہوا محسوس ہونے لگے۔ اچھے دنوں کی یادیں بیان کرنے والوں نے سال دوہزار چودہ میں حکومت اور فوج کی جانب سے ملنے والے عید کے تحائف کا ذکر کیا‘ جن کا اِس مرتبہ دور دور تک نام و نشان نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک امداد کی مالیت سے زیادہ تشہیری مہمات پر خرچ کیا جاچکا ہوتا!

پاک فوج کے سربراہ نے (مرکزی) عیدالفطر کے پہلا دن جو لمحات بنوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ بسر کئے‘ وہ نہایت ہی قیمتی تھے کیونکہ اگر ہم سیاسی حکام کی نااہلی کے سبب نقل مکانی کرنے والوں کی خاطرخواہ مدد نہیں کر سکے تو کم از کم اُنہیں اِس بات کا یقین تو دلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں واپسی‘ معیشت و معاشرت کی بحالی اور تباہی و بربادی کی تصویر بنے علاقوں کی ’تعمیر نو‘ کے حوالے سے مستقبل کے بارے میں نااُمید نہ ہوں۔

Friday, July 17, 2015

Jul2015: Eid and entertainment

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید: تفریحی امکانات
امن وامان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری (تبدیلی)کے سبب اِس سال ’عیدالفطر‘ کے لمحات میں تفریحی مقامات کی رونقیں گذشتہ کئی برس کے مقابلے زیادہ ہیں تاہم گنجائش سے زیادہ پرجوش ہجوم کے لئے خاطرخواہ سہولیات کا بندوبست کی روایت تبدیل ہونی چاہئے۔ حکومت کا کام صرف تعطیلات دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِن تعطیلات کے دوران معیاری و صحت مند تفریح کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں‘ کاش کہ یہ ایک باریک نکتہ‘ جو متعدد مرتبہ اِنہی سطور کے ذریعے بیان کیا گیا قابل غور و توجہ سمجھا جائے۔

یوں تو بازاروں کی بحال ہوئی رونقیں اور چہروں پر خوف کی بجائے مسرت بھرے جذبات حاوی دیکھ کر مسرت ہوتی ہے لیکن تفریح کی تلاش میں یہاں وہاں گھومتے گھومتے تھکاوٹ سے بے حال نوجوانوں کو دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ انہیں کچھ وقت آرام سے بیٹھ کر گزارنے کی سہولت میسر نہیں۔ اگر یہ حال پشاور جیسے مرکزی شہر کا ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ دور دراز اضلاع میں تفریحی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔ عیدالفطر کے موقع پر نوجوانوں کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کرتی ہے اور پشاور کے سینماگھر تو پورے پاکستان میں اپنی خاص شہرت رکھتے ہیں لیکن اِس مرتبہ سبھی کے ہاں نئی پشتو فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں ہیں۔ صدآفرین کہ 35 برس بعد پہلی مرتبہ 7 پشتو فلمیں اس عیدالفطر پر ریلیز کی گئیں ہیں جن کی نمائش پشاور کے علاؤہ دیگر شہروں کے سینما گھروں میں جاری ہے۔ یقینی امر ہے کہ اِس سے نہ صرف پشتو زبان و ثقافت بلکہ فلمی صنعت کو نت نئے تصورات اور جدت کے ساتھ آگے بڑھنے کا اعتماد ملے گا۔ سینما گھروں کے ساتھ وابستہ روزگار بھی پھر سے آباد ہو گئے ہیں‘ بالخصوص چائے خانوں سے اٹھنے والی مہک اور خاص ماحول اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ توجہ طلب ہے کہ پشاور کے یکے بعد دیگرے کئی سینما ہال ’کمرشل ازم‘ کی وجہ سے ختم کر دیئے گئے اور یہ کام چونکہ قواعد کی رو سے ممکن نہیں اِس لئے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے سرمایہ دار پہلے سستے داموں سینما ہال خریدتے ہیں کیونکہ اُس کے اصل مالکان کے لئے مختلف خطرات و وجوہات کی بناء پر فلموں کی نمائش جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتی اور پھر ملکیت حاصل کرنے کے بعد سینما کی جگہ کثیر المنزلہ عمارت (پلازہ) کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تعمیراتی نقشے کے لحاظ سے آسمان سے باتیں کرنے والے اِن درجن بھر عمارتوں میں ’کار پارکنگ‘ کے لئے جگہ مختص کی جاتی ہے لیکن جب عمارت کا دورہ کیا جائے تو وہاں نہ تو پارکنگ ملتی ہے اور نہ ہی آتشزدگی کی صورت ہنگامی راستوں سے نکلنے کا بندوبست حسب نقشہ جات دکھائی دیتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے ایک سے زیادہ دفاتر ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں اہلکار ہیں لیکن سب کے سب کی غربت دور ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ پشاور ہر دن بظاہر امیر اور درحقیقت غیرمحفوظ ہوتا چلا جارہا ہے۔

سینما ہال اجڑنے کی ایک وجہ ’کیبل نیٹ ورکس‘ ہیں جن کے ذریعے گھر گھر اُردو پشتو اور انگریزی زبان کی نئی آنے والی فلمیں بھی دیکھی جا رہی ہیں لیکن بڑی سکرین کا مزا ہی کچھ اُور ہے اور پھر پشتو فلم سینما ہال میں دیکھنے کے ساتھ ایک پوری ثقافت جڑی ہے‘ جس کا عشرعشیر لطف بھی گھر میں فلم بینی کا حاصل نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ’سینما گھر‘ کی اپنی ہی خاص اہمیت رہی ہے اور یہی وہ ضرورت ہے جس کے بارے میں صوبائی حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ’سینما اور تھیٹر‘ کی سرکاری سرپرستی کی جائے کیونکہ فلم کے ذریعے بنیادی طور پر ’تفریحی عمل کے دوران‘ سماجی برائیوں اور انتہاء پسندی کے خلاف پیغام منتقل کیا جاسکتا ہے۔ فنون لطیفہ انسان دوستی کے جذبات کو ابھارتے اُور تخلیقی سوچ کے پروان چڑھنے سمیت زبان و ثقافت کے رشتوں کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں تفریحی مقامات کی شدید کمی الگ سے محسوس کی جاتی ہے بالخصوص جبکہ گرمی اور حبس اپنے عروج پر ہو تو ’اِن ڈور ائرکنڈیشن‘ تفریح کے مواقع دستیاب نہیں۔ لے دے کر سینما ہال ہیں جہاں چند گھنٹے موسم کی شدت سے محفوظ رہنے والے بھی بھلا ایک فلم کتنی مرتبہ دیکھیں اُور ہر بار لطف اندوز بھی ہوں! آخر یہ دور خاموش فلموں کا بھی نہیں کہ ٹکٹ خرید کر ائرکنڈیشن ہال میں نیند کی جائے۔ سینما گھر کی تفریح کو معیاری بنانے اور ٹکٹوں کی مقرر کردہ نرخوں کے مطابق فروخت کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے حرکت میں آنے کی اُمید تھی لیکن افسوس لگتا ہے کہ سب کے سب تعطیلات پر ہیں اور پشاور سمیت عید منانے والوں کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کچھ توجہ بچوں کے لئے ’کھیل کود و تفریح کی اِن ڈور سہولیات‘ کی فراہمی پر بھی ہونی چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف نے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیل کے میدان و سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو تیسرے مالی سال کے آغاز پر بھی ہنوز پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

پشاور کو باغات کا شہر کہا جاتا تھا لیکن قیام پاکستان سے قبل تعمیر کئے گئے یہاں کے باغات جس ’تہس نہس حالت‘ میں دکھائی دیتے ہیں‘ اُن سے حکمرانوں کی ترجیحات صاف عیاں ہیں۔ عجب ہے کہ پشاور پر حکومت کرنے والوں میں ایک سے بڑھ کر ایک خوش قسمت کردار ہے۔ پشاور جادو کی ایسی چھڑی کا نام ہے کہ جس کے ہاتھ آئے وہ دیکھتے ہی دیکھتے کھرب پتی بن جاتا ہے لیکن جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر کی بدقسمتی کا دور کسی صورت ختم نہیں ہورہا بلکہ وہ تکلیف دہ دورانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طویل تر ہوتاچلا جا رہا ہے‘ جس میں ’پشاور کے غصب شدہ حقوق‘ کی نہ تو کماحقہ ادائیگی ہو رہی ہے اور نہ ہی اِس ضرورت کے بارے سوچ بچار‘ بحث و مباحثے یا مشاورت کا عمل‘ اب تک شروع کیا جاسکا ہے!

Thursday, July 16, 2015

Jul2015: Ahead of Eid, The Performance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
لب عید: امکانی مسرتیں!
تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے ساتھ ہی پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ ناجائز منافع خوروں اور غیرمعیاری اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف ’پرمعنی عملی اقدامات‘ کئے ہیں اُور اِس دوران سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تین معروف اور بڑے کاروباری مراکز کو سربمہر کیا ہے۔ یاد رہے کہ ضلعی انتظامیہ نے رمضان کے دوران (چودہ جولائی تک) 9 ہزار 40 دکانوں کا معائنہ کیا جن سے کل 51لاکھ 60 ہزار روپے سے زائد جرمانے وصول کئے گئے اُور 1 ہزار 852 تاجروں دکانداروں کو منافع خوری یا ناقص المعیار اشیاء کی فروخت کی وجہ سے حراست میں لیا گیا۔ چودہ جولائی تک پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافی کرائے وصول کرنے والوں سے 7 لاکھ 33ہزار روپے وصول کرکے مسافروں کو واپس کئے گئے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے جس انداز میں رمضان کا آخری عشرہ گرم کر رکھا ہے‘ اُس کے بارے میں عوامی حلقے اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر تعریف و توصیف سے بھرے پیغامات ارسال کئے جا رہے ہیں تاہم خدشات و تحفظات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ٹوئٹر پر بابر جمیل (@babrjamil) نے لکھا ہے کہ ’’جس انداز میں ریسٹورنٹس کے خلاف مہم جاری ہے تو لگتا ہے کہ پشاور کے سبھی ہوٹل بند ہو جائیں گے۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کو ایک لمبے عرصے سے ’کھلی چھوٹ‘ اور اِس بات کی ’آزادی‘ حاصل رہی کہ وہ من مانی قیمتوں کے ساتھ جس قدر ناقص المعیار اشیاء فروخت کرنا چاہیءں‘ وہ کر سکتے ہیں۔ پشاور کی تین بڑی سرکاری علاج گاہوں‘ ڈبگری گارڈن میں نجی کلینکس اُور جنرل بس اسٹینڈ کے آس پاس ایسے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں قیام و طعام کے مراکز ہیں جہاں صاف ستھری سہولیات‘ قیمتوں اور معیار کے کم سے کم میزان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء فٹ پاتھوں‘ نالے نالیوں اور گندگی و غلاظت کے انباروں پر بیٹھ کر فروخت کی جاتی ہیں اُور چونکہ ایسے مقامات پر سستا کھانے والوں کا تعلق صرف عام آدمی سے ہے‘ اِس لئے خواص کی صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی جن ’بڑی مچھلیوں‘ وک شکار کیا گیا ہے اُن میں صرف وہی مراکز شامل ہیں جہاں کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگوں کی اکثریت ’شاپنگ‘ کے لئے جاتی ہے۔ غریب بیچارے کے پاس تو اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ مہینوں کی ضروریات ذخیرہ کرے اور نہ ہی وہ محض منہ کے ذائقے کے لئے دیر رات گئے تک ہزاروں روپے کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں خرچ کرنے کے بارے سوچ سکتا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کے بدن پر ’تہہ در تہہ‘ چربی کی پرتیں شمار کی جاسکتی ہیں اور دوسری طرف دھنسی ہوئی آنکھیں اور گال رکھنے والوں کے زردی مائل چہروں پر پھیلی مایوسی کم سے کم فطرانے‘ ہلکی پھلکی امکانی مسرت اور مسکراہٹ کے وقتی سبب سے دور نہیں کی جا سکتی! بلاشبہ عام آدمی کو درپیش گھمبیر و دیرینہ مسائل بھی توجہ چاہتے ہیں اور صوبائی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اُن کی بابت صرف پشاور ہی نہیں بلکہ دیگر اضلاع کی ضلعی انتظامیہ سے بھی استفسار کرے۔

اگر ضلعی انتظامیہ کو علم ہی نہیں تو تحقیق کرلیں کہ چنے کی پتیوں کو مذبح خانوں سے جمع کردہ جانوروں کے خون اور کیمیائی مادوں سے رنگ دے کر بطور سیاہ چائے فروخت کرنے کا دھندا کرنے والے کون ہیں۔ ہوٹلوں سے استعمال شدہ چائے کی پتی اور خوردنی تیل جمع کرکے جعل سازی سے دوبارہ فروخت کے قابل بنانے والے کارخانے بھی رنگ روڈ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں بطور ’کاٹیج انڈسٹری (چھوٹی صنعتیں)‘ کام کر رہے ہیں۔

بچوں کے لئے انتہائی ناقص تیل کا استعمال کرکے کم قیمت ٹافیاں‘ پاپڑ‘ دال چنا اور کھٹی میٹھی اشیائکی عام کھلے عام فروخت ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ہسپتالوں پر رش کم نہیں ہوتا۔گاڑیوں میں استعمال شدہ موبل آئل اُور انجن آئل دھرلے سے اکٹھا کیا جاتا ہے جس کی صفائی اور فروخت کے مراکز بھی جابجا قائم نظر آتے ہیں۔

بوتلوں میں بند پینے کا ناقص المعیار پانی‘ کاربونیٹیڈ مشروبات‘ سوڈا واٹر‘ خشک روٹی اور ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کو پیس کر حاصل ہونے والا آٹا‘ رنگوں سے بھرے مصالحہ جات‘ ہوٹلوں کے کوڑا دانوں سے جمع شدہ مضرصحت کھانے کی فٹ پاتھوں پر فروخت‘ راز کی بات نہیں۔ جنرل بس اسٹینڈ سے بین الاضلاعی اور بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ مسافر گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے‘ سی این جی کے ایک دو نہیں بلکہ تین تین سلنڈر نشستوں کے نیچے نصب کرکے مسافروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے‘ مسافر گاڑیوں کے ذریعے کپڑے اور الیکٹرانک مصنوعات کی اسمگلنگ‘ عیدالفطر یا دیگر تہواروں کے موقع پر مقررہ کرائے کی شرح سے زیادہ وصولیاں ایسی چند ’مشہور زمانہ بے قاعدگیاں‘ ہیں‘ جن کا گویا پورا معاشرہ عادی ہو چکا ہے!

 اس سے بڑا المیہ اُور کیا ہوگا کہ عام آدمی نے بطور صارف اس طرح کے ہر ظلم اُور زیادتی پر صبر کر لیا ہے۔ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کی اکثریت اپنے منصب کے شایان شان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہی اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی رمضان کے آغاز و اختتام کے موقع پر ’غیرمعمولی شرح سے مہنگائی‘ عام ہے!

یقین کیجئے کہ ’تبدیلی اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہم میں سے ہر ایک اِس کے لئے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا نہیں کرے گا اُور چونکہ ’خاموش‘ رہنے کے تجربے سے حالات میں بہتری نہیں آئی تو وقت ہے کہ اپنے حقوق کے لئے ’تقاضا‘کیا جائے۔ اگر آپ کا بھی کسی ناجائز منافع خور‘ ملاوٹ کے عادی یا کم تول کرنے والے سے واسطہ پڑتا ہے تو اِس کی براہ راست شکایت ڈپٹی کمشنر دفتر کو 8333 پر بذریعہ موبائل فون (ایس ایم ایس) ارسال کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ اس کے علاؤہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس ’فیس بک‘ (facebook.com/dcpeshawar) کی وساطت سے بھی ڈپٹی کمشنر دفتر تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ ٹوئٹر (twitter) پر ڈپٹی کمشنر (@DCPeshawar) یا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (@oawarraich) جیسے مصروف اعلیٰ حکام سے بھی تبادلہ خیال ممکن ہے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ اصلاح احوال کی کوششیں اور معاشرے کو نچوڑ کھانے والے ’حقیقی سماج دشمنوں‘ کے خلاف پرعزم کاروائیاں (پھرتیاں) صرف ضلع پشاور کی حد تک محدود نہ سمجھی جائیں بلکہ کسی بھی ضلع کے رہنے والے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ٹوئٹر اکاونٹ (@KPKUpdates) کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں یا پھر صوبائی سیکرٹری اِنفارمیشن (@AbidMajeed1969) جیسے فرض شناس دفتری اُوقات کے علاؤہ ’ٹوئٹر‘ پر بھی ’حاضر جناب‘ رہتے ہیں!

پس تحریر: دانشمندی روایت شکنی کی متقاضی ہے۔ ماہ شوال کا چاند نظر آنے یا ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی چاند رات پر ہوائی فائرنگ سے مکمل اجتناب کیا جائے کیونکہ سماعتوں کو بھلی لگنے والی محض ایک چھوٹی سی خوشی (نفسیاتی تسکین) ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور کسی قیمتی انسانی جان کا نقصان بھی ہو سکتا ہے! کیا آپ پسند کریں گے کہ ضمیر کی عدالت میں بطور ملزم پیش ہوں اور آپ کو ’قاتل‘ قرار دے کر اپنی ہی ذات میں عمرقید کی سزا سنا دی جائے؟

Wednesday, July 15, 2015

July2015: Logical comparision USA vs Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کام سے کام!
اَمریکہ سے چند ماہ کے لئے اپنے ملک کی سیر کے لئے آئے ایک جگری دوست سے ملاقات‘ حال احوال دریافت کرنے سے لیکر خطے کے حالات‘ یہاں وہاں کے مذہبی رحجانات میں آئی تبدیلیوں اُور مقامی سیاست جیسے موضوعات کا سرسری احاطہ کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کرتے کرتے ’آذان فجر‘ کے ساتھ ختم ہوئی جس کا حاصل وہ ایک بات رہی کہ ’’جو ایک بار امریکہ جاتا ہے‘ اُس کے لئے اگرچہ واپسی کے راستے ختم نہیں ہوتے لیکن وہ ایک ایسی ثقافت اور ماحول کا حصہ بن جاتا ہے جہاں سے اُس کی ذہنی وابستگی اور جسمانی تعلق باوجود خواہش بھی ختم ہونا ممکن نہیں رہتا۔‘‘ کیا یہ کشش معاشی و اقتصادی فوائد‘ روزگار کے بہتر مواقع‘ انسانی حقوق و احترام انسانیت پر مبنی بلاامتیاز قانون کی بالادستی‘ صحت و تعلیم کا معیاری نظام‘ ترقی کا پائیدار تصور‘ تعصبات سے پاک لین دین‘ مذہب‘ رنگ و نسل اور لسان جیسی ترجیحات کی بجائے بناء تفریق یکساں برتاؤ ہے یا پھر امن و امان کی صورتحال اُور تحفظ کا ایک ایسا لطیف احساس‘ کہ جس کی وجہ سے ہر کسی کو اپنی اپنی ذات میں چھپی ہوئی خداداد صلاحیتوں یا کسبی علوم و مہارت کے اظہار کے بھرپور مواقع میسر آ رہے ہیں؟ جو علوم و فنون حاصل کرنے کے ساتھ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں جس قدر ترقی کرنا چاہے‘ اُسے تو بس امریکہ ہی جانا چاہئے۔ جہاں ’اخلاق و اقدار‘ کا سخت گیر تصور نہیں پایا جاتا‘ ہر کوئی خود کو مادر پدر آزاد سمجھتے ہوئے بھی آزاد نہیں‘ جہاں زیادہ آمدنی والے طبقات زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں! جہاں جھوٹ بولنا‘ ملاوٹ اُور ذخیرہ اندوزی کرنا ایسے ناقابل معافی اور عبرتناک سزاؤں والے جرائم ہیں کہ اِن مکروہ افعال کے بارے میں سوچتے ہی اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ جہاں ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ذمہ داریوں میں ایک توازن دکھائی دیتا ہے۔ جی ہاں یہ یہ بات اُسی امریکی معاشرے کی ہو رہی ہے جو کسی ایک قوم یا ملت کا نام نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام‘ مادہ پرست سوچ اُور ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف طرز حکمرانی کا راج ہے اور اسی پر یقین رکھنے والے پوری دنیا سے ایک تاروں بھرے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔

امریکہ کی حقیقت یہ ہے کہ رشتے‘ تعلقات اور ایک دوسرے کا احساس کرنے والے عمومی جذبات جن کی وجہ سے مصلحتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ اُن سے عاری ’ہجوم‘ نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے کہ انواع و اقسام کی اقوام‘ عقائد اور معاشرتی نظریاتی رکھنے کے باوجود بقاء و ترقی کے دارومدار صرف اور صرف اِس بات سے ہے کہ بس ’اپنے کام سے کام رکھا جائے اُور یہی امریکہ کی ترقی کا ’خلاصہ (لب لباب‘ نچوڑ‘ اُور پورا بیان)‘ ہے!

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بیرون ملک صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والے اپنے آبائی ملک کو معاشرے کو سنوارنے کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس کی وجہ سیاسی و انتظامی قیادت کی خودغرضی ہے جنہوں نے اپنی نسلوں کا مستقبل بیرون ملک سرمایہ کاری کے ذریعے محفوظ بنا رکھا ہے اور قوم کے ہر بچے کو ’حب الوطنی کی گھٹی‘ صبح دوپہر شام پلائے جا رہے ہیں۔ قدرت کی عطاکردہ سبھی عنایات جو 98 لاکھ 26 ہزار 675 مربع کلومیٹر پر پھیلی پچاس ریاستوں اور ایک دارالحکومت پر مشتمل‘ آبادی کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک میں ترقی یافتہ شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ پاکستان کے محض 8 لاکھ 3 ہزار 940 کلومیٹر رقبے میں موجود ہیں لیکن ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پن بجلی کے پیداواری امکانات ہیں لیکن بڑے منصوبے سیاست اور چھوٹے منصوبے فیصلہ سازوں کی لالچ کی نذر ہیں! کوئلے کے ذخائر‘ تیز ہواؤں والی ساحلی پٹی‘ زرخیز مٹی‘ چلچلاتی دھوپ والا ریگستانی رقبہ‘ دریا‘ چشمے‘ برفانی تودوں سے ڈھکے ہوئے بلندوبالا برفیلے پہاڑ‘ معدنیات سے روشنی منعکس کرنے والے سنگلاخ پہاڑی سلسلے‘ تیل و گیس اور شیل گیس کے ذخائر‘ سرسبزوشاداب وادیاں‘ اُجاڑ گھاٹیاں‘ بیک وقت چار موسم‘ میٹھے‘ ہلکے اور بھاری پانی سمیت وہ سب کچھ موجود ہے‘ جسے ترقی دے کر قابل استفادہ بنایا جاسکتا ہے لیکن ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ حل کرنے کی بجائے فیصلہ سازوں نے قوم کو اُس ڈھلوان کے نزدیک لاکھڑا کیا ہے جس کی ’بحرانی پھسلن‘ پر قدم جمانا صرف مشکل ہی نہیں رہا بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہوگیا ہے۔

فرقہ واریت‘ سیاسی و سماجی امتیازات و تعصب‘ رنگ و نسل پر مبنی سیاسی‘ غیرسیاسی اُور انتخابی ترجیحات‘ مالی و انتظامی بدعنوانیاں‘ غیرپائیدار ترقی اور تعمیر و ترقی کی حکمت عملیاں طے کرتے ہوئے ’زیادہ سے زیادہ نیک نامی‘ کمانے کے لئے جزوقتی فیصلوں نے ملک کو مقروض اور قوم کو ایک ایسے نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیا ہے جس میں ہر کوئی دوسرے سے کسی نہ کسی سبب الجھ رہا ہے۔ وہاں ہر کسی کو اپنے کام سے کام اور ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے کے معاملات‘ نجی زندگی اُور مصروفیات کے بارے میں مزید سے مزید کچھ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ تعمیراتی منصوبوں پر ہر سال (بجٹ در بجٹ) اربوں روپے خرچ کرنے سے ’قوم کی تقدیر‘ سوچ‘ رویئے اُور عمل‘ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے بہترطرز حکمرانی (گڈ گورننس) کا ہدف مقرر کرکے اسے حاصل کرنے کے لئے اپنی ذات قربانی کے لئے پیش کرنا ہوگی۔ جب تک قیادت اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر مربوط شعوری طور کوشش کرنے پر رضامند ہونے اور قوم کو یہ باور و ترغیب نہیں دیتی کہ ہر ایک بس ’اپنے کام سے کام رکھے!‘ اُس وقت تک ہماری باصلاحیت‘ صحتمند و تندرست افرادی قوت‘ عزیزواقارب‘ ہمارے بہترین دوست یونہی غیر ممالک کی ترقی و خوشحالی میں حصہ دار بنتے رہیں گے۔

شعور کی منزل پر کیا ہم ایسے کسی ’دیار غیر‘ میں ’خاک‘ ہونا پسند کریں گے جہاں سب کی ایک جیسی قومی شناخت ہے‘ لیکن درحقیقت کسی کی بھی کوئی امتیازی اُور خصوصی شناخت نہیں! ’’اُس کی ہر بات پہ لبیک بھلا کیوں نہ کہیں۔۔۔ جیسے دیوار میں چنوائے گئے لوگ ہیں ہم: جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے۔۔۔جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم! (قتیل شفائی)‘‘
Secret of greatness behind the US society and why we are fail to have such peace around

Tuesday, July 14, 2015

July2015: Cosmetic measures by Traffic Police!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پہلی ضرورت: آخری حل!
کون نہیں جانتا کہ گرمی کی شدت اور بجلی کی کمی سے سبب پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں کس حد تک متاثر ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں الگ سے ماند جبکہ اِن برسرزمین حقائق سے متصادم ’خیبرپختونخوا ٹریفک پولیس‘ کی جانب سے مختلف اضلاع میں نصب کئے جانے والے ’الیکٹرانک اطلاعیہ بورڈز‘ ہیں‘ جن پر نمودار ہونے والے پیغامات چلچلاتی دھوپ میں نہ تو تیز روشنی میں باآسانی پڑھے جاتے ہیں اُور نہ ہی گرمی کے ستائے ہوئے ایسی ہدایات پر توجہ دیتے ہیں‘ جن کا تعلق اُن کی عملی زندگی یا مشکلات سے نہیں! سوال یہ ہے کہ اِس قسم کی فیصلہ سازی کون کرتا ہے جس میں ’بجلی بحران‘ سمیت اُن زمینی حقائق کا بھی ادراک نہیں کیا گیا کہ ہمارے ہاں احتجاج کرنے والے مہذب طور طریقے اختیار نہیں کرتے۔ اُن کے ہاتھوں میں ڈنڈے‘ اینٹیں اور پتھر نجانے کہاں سے آ جاتے ہیں اور پھر وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو بے رحمی سے توڑتے چلے جاتے ہیں۔ اِس طرح توڑ پھوڑ کے ذریعے دل کا غبار نکالنے والے جب تھک جاتے ہیں تو اچانک آنسو گیس اُور لاٹھیوں سے لیس پولیس آ جاتی ہے اور بجائے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفتار کرنے کے اُنہیں منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ہر ایک چھوٹے بڑے احتجاج کی یہی کہانی ہے کہ اس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے سختی نہیں کی جاتی۔ اگر صرف ایک مرتبہ ہی ایسے عناصر کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں اور جرمانے عائد کئے جائیں تو آئندہ کسی دوسرے کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں ہوگی لیکن چونکہ مصلحتوں کی وجہ سے سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا اِس لئے پشاور شہر کی حدود میں جہاں کہیں ٹریفک سگنلز موجود ہوا کرتے تھے‘ اُن کے اب آثار ہی دکھائی دیتے ہیں! معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ہم کسی ترقیاتی حکمت عملی پر اُٹھنے والے اخراجات اور اِن کی شفافیت کے بارے میں جان سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فیصلہ کس نے کیا اور کیا اس میں کہیں سیاسی دباؤ کا عمل دخل بھی شامل حال تھا!؟

آخر اِس قدر نازک و مہنگے ذرائع (الیکٹرانک بورڈز) سے استفادہ اور ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کرنے سے متعلق پیغامات کی تشہیر کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ عوام و خواص کو ٹریفک کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا علم نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ ’قانون شکنی‘ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمیں ٹریفک سگنل توڑنے میں مزا آتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی اُوقات کے مطابق ’قانون شکن‘ ہے اور یہ بات صرف ٹریفک (آمدورفت) تک ہی محدود نہیں رہی۔ آپ کو وہیں گاڑی کھڑی (پارک) ملے گی‘ جہاں ’نو پارکنگ‘ کا بورڈ لگا ہوگا۔ یک طرفہ ٹریفک کا یک طرفہ تماشا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں! گندگی کے ڈھیر بھی وہیں لگتے ہیں کہ جہاں لکھا ہو ’’یہاں گندگی پھینکنا منع ہے!‘‘ اُور چونکہ ٹریفک اہلکاروں کو قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے میں سے ایک خاص تناسب سے ’کمیشن‘ دیا جانے لگا ہے‘ اِس لئے اہلکاروں کی اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک خطیر ماہانہ تنخواہ پر اکتفا کرنے کی بجائے جلد از جلد اپنی جائز و ناجائز آمدنی کے ’ٹارگٹ (اہداف)‘ حاصل کریں۔ سوال یہ ہے کہ جو ٹریفک اہلکار دھوپ میں جلتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں اگر وہ قواعد کی خلاف ورزیوں پر ہونے والے جرمانوں سے ’کمیشن‘ اور دیگر ذرائع سے یومیہ کچھ پس و پیش کرتے ہیں تو اس کے عوض اپنی جان جوکھوں میں بھی ڈالتے ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھے ہوئے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام کس وجہ سے حصہ بصورت بھتہ وصول کرتے ہیں؟

پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اَضلاع میں ٹریفک نظام کی اِصلاح کے لئے پہلی ضرورت ٹریفک سگنلز (اشارے) نصب کرنے کی ہے جو شمسی توانائی سے چلنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دوسری ضرورت حد رفتار ناپنے کے آلات اور خودکار کیمروں کی تنصیب ہے‘ جن کے ذریعے بلاامتیاز ہر تیز رفتار گاڑی کو چالان (جرمانہ) کیا جا سکے گا۔ تیسری ضرورت عمومی ٹریفک سائن بورڈز‘ زیبرا کراسنگ اُور مصروف چوراہوں کے علاؤہ بھی ٹریفک کانسٹیبلز کی تعیناتی کے لئے انسانی وسائل کی کمی دور کرنے سے متعلق ہے کیونکہ جہاں ٹریفک کانسٹیبل موجود نہ ہو‘ وہاں دیکھی جانے والی افراتفری سے عمومی تہذیب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چوتھی ضرورت بناء ڈرائیونگ لائسینس ٹریفک کی حوصلہ شکنی ہے‘ جس کے لئے ’بائیو میٹرک تصدیق‘ کا استعمال ہونا چاہئے۔ پانچویں ضرورت تجاوزات کا خاتمہ کرنے کے بعد تعمیروترقی کا دوسرا مرحلہ مکمل کرنے کی ہے‘ جس میں تاخیر کی وجہ سے ایک تو پشاور کے چند علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں اور تجاوزات سے زیادہ اُن کا ملبہ ٹریفک کی روانی میں حائل ہو رہا ہے۔ بچوں میں ٹریفک قواعد کے بارے شعور اُجاگر کرنے کی حکمت عملی پھر سے فعال ہونی چاہئے اور اس میں ایک آدھ سبق نصاب میں بھی شامل کردیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے ٹریفک کا نظام درست کرنے کی کوئی ایک تدبیر‘ کوئی ایک حربہ‘ کوئی ایک حل حسب حال یا کافی نہیں۔ اِس کے لئے جامع اور بیک وقت کئی ایک اقدامات کرنا ہوں گے لیکن وسائل ضائع کرنے کی بجائے ایسی پائیدار حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں رنگ برنگے اور نمائشی وقتی‘ نازک و مہنگے انتظامات سے زیادہ ’پائیداری‘ پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔
The mess of traffic can only be resolve when address the needs not cosmetic initiatives

Monday, July 13, 2015

Jul2015: Media Management in Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دانائی کے تقاضے
اجتماعی ’جلد بازی‘ کا شاخسانہ ہے کہ ہم دوسروں کی تقلید پہلے اُور اپنے سماج کی اقدار و روایات کے بارے میں صرف اُس وقت سوچنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں‘ جب حد‘ حد نہیں رہتی اُور ’ابلتا ہوا پانی‘ سر سے گزر چکا ہوتا ہے! الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پہلے جو غوروخوض ہونا چاہئے تھا‘ وہ اب ہو رہا ہے کہ یہ کس طرح ایک ایسے معاشرے پر اثرانداز ہورہا ہے جہاں تعمیر و ترقی اور سہولیات کا معیار یکساں نہیں۔ جہاں صاف ستھری کشادہ شاہراہیں ہیں تو دوسری طرف کچی گلیاں کوچے‘ ٹوٹی ہوئی نالیاں۔ سکولوں کی خستہ حال عمارتوں کو نظرانداز جبکہ نمائشی و آسائشی تعمیراتی منصوبوں پر توجہات مرکوز ہیں۔ سرکاری خزانے کے خرچ سے شاندار عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ حکومت اِس لئے پریشان نہیں کہ اُس کے ہاں پچاس فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جارہے اور نہ ہی معیاری تعلیم و علاج کی سہولیات میسر ہیں جبکہ غربت‘ جہالت اور سب سے بڑھ کر غیرہموار سماجی ترقی نے رہی سہی کسر نکال رکھی ہے!

اِس موڑ پر ذرا تحمل کیجئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اگر نجی اداروں کو ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے کی اجازت دینا ہی تھی تو اجازت نامے کے ساتھ ’جامع ضابطۂ اخلاق‘ شروع دن سے مشروط ہونا چاہئے تھا۔ کئی ایسے معاشروں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود تھیں جہاں کے کم و بیش ہم جیسے ہی حالات میں ذرائع ابلاغ زیادہ مثبت و تعمیری کردار اَدا کر رہے ہیں۔ دوسری بنیادی بات ’کیبل نیٹ ورکس‘ کے قیام کی اجازت تھی‘ جسے مصلحت کی وجہ سے چند برس تاخیر سے شروع کیا جاتا اور نگرانی کی جاتی کہ ’ذرائع ابلاغ‘ ضابطۂ اخلاق کی پابندیوں پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور تیسری بنیادی بات یہ تھی کہ نجی اِداروں کو ٹیلی ویژن یا ایف ایم ریڈیو کے ’کراس میڈیا اجازت نامے‘ اُس وقت نہ دیئے جاتے جب تک اس شعبے میں خاطرخواہ ’نئی سرمایہ کاری‘ نہ آ جاتی۔ اب ہوا یہ ہے کہ پہلے سے صحافت یا انٹرٹینمنٹ کا تجربہ رکھنے والوں کی ایک ایسی اجارہ داری بن گئی ہے کہ وہ اب نہ تو کسی ’غیرمتعلقہ‘ سرمایہ کار کو اِس شعبے میں آنے دیتے ہیں اور علاؤہ ازیں اُنہوں نے ہر کھڑکی‘ دروازے‘ حتیٰ کہ روشندان تک پر ’پہرے‘ بٹھا دیئے ہیں! معیار کو متاثر کرنے والی یہ مقابلے کی ایک ’صحت مند فضا‘ ہے‘ جس کے منفی اثرات اپنی جگہ انتہائی تخریبی تاثیر رکھتے ہیں۔ کسی اُور لمحۂ فکر کے پر اِس حوالے سے دیگر پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ سردست قضیہ حکومت اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے درمیان معرکۂ انگیز مشاورتی عمل کا ہے جس سے متعلق یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک وسیع ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کر لیا گیا ہے تاہم جس بات کو قدرے اِختصار سے بیان کیا جاتا ہے وہ ’اختلافی نوٹ‘ ہے یعنی ’ضابطۂ اخلاق‘ پر اتفاق تو ہوا ہے لیکن تین اہم مسائل پر ’اختلاف‘ طے ہونا اَبھی باقی ہے! اگر دونوں فریقین ان مسائل کے حل میں کامیاب ہوگئے تو ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا اَتھارٹی (پیمرا)‘ کی جانب سے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر اُو) کے ذریعے اِس ’ضابطۂ اخلاق‘ کا اعلان کردیا جائے گا۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یعنی ’عمل درآمد‘ کون کرائے گا؟ ذرائع کے مطابق یہ اختلافات فحاشی کی تعریف‘ مجرمانہ واقعات کی نشریات اور غیرملکی مواد کا مقامی میڈیا نیٹ ورک میں استعمال اور اس کا کنٹرول کے معاملات پر ہیں! یہ تینوں انتہائی حساس معاملات ہیں اور تینوں کا تعلق پاکستان کے داخلی و خارجی استحکام سے بھی ہے!

ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مواد کے لئے جنہیں نشر (ٹیلی کاسٹ) کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ ان سے متعلق نجی اداروں کے نمائندوں کو لفظ ’فحش‘ کی ’’وسیع تعریف‘‘ پر تحفظات ہیں۔ اصرار ہے کہ نشریات سے روکے جانے والے مواد کے لئے ’فحاشی‘ کی ’وسیع تعریف‘ متفقہ طور پر طے ہونی چاہئے‘ جو مختلف بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لئے مختلف ہوسکتی ہے۔ نجی میڈیا اداروں کا مطالبہ ہے کہ فحاشی کو ضابطۂ اخلاق کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔(اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعْون)۔

حکومت ’مجرمانہ واقعات‘ کی ڈرامائی تشکیل و نشریات کی مخالف ہے لیکن یہ کہا گیا کہ جرائم پر مبنی کہانیوں کو صرف اس صورت میں نشر کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ جب وہ مطلوبہ کسوٹی پر پورا اُترتا ہوا‘ اُور پاکستان کے اُوقات کے مطابق ’علی الصبح‘ کے بعد اور ’آدھی رات‘ سے قبل نشر نہ کئے جائیں۔ نجی نشریاتی ادارے خواہش رکھتے ہیں کہ اس طرح کے پروگرام صرف گیارہ بجے رات اور صبح سات بجے کے درمیان نشر کیے جائیں۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اپنی طاقت اور تعلقات سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے کہ مسودے سے سیکشن اُنیس کو خارج کردیا جائے اور ایسا کرنے کی دلیل یہ ہے کہ میڈیا کے مفادات کا تحفظ ضابطۂ اخلاق کا موضوع نہیں ہونا چاہئے! اِس متفقہ مسودے کے تحت ایسا کوئی بھی مواد جو اسلامی اقدار‘ نظریۂ پاکستان اُور بانیان پاکستان (قائداعظم اور علامہ اقبال) کے خلاف ہو یا وفاق یا اس کی سالمیت‘ سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف اسلحہ اُٹھانے کا اعلان یا کسی مذہب‘ فرقے یا برادری کی توہین اُور انتشار پیدا کرنے سے متعلق ہو تو ایسا مواد نشر نہیں کیا جائے گا۔ ٹی وی چینلز ایسا مواد نشر نہ کرنے کے بھی پابند ہوں گے‘ جن کے ذریعے عدلیہ یا مسلح افواج کی توہین ہوتی ہو! اب یہ طے کرنا بھی باقی ہے کہ کوئی ادارہ اپنی توہین کے معاملے میں کتنا حساس ہے اور وہ کس بات کو توہین کے زمرے میں شمار کرنے لگتا ہے۔

نشہ آور مشروبات‘ تمباکو نوشی یا اس کی مصنوعات‘ غیرقانونی ادویات یا منشیات کے اشتہارات نشر نہ کرنا بھی نئے ضابطۂ اخلاق کا حصہ ہے اور مشتہرین کو یہ اجازت بھی نہیں ہوگی کہ وہ براہِ راست بچوں کو کسی چیز کے خریدنے کی ترغیب دیں! نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت لاٹری‘ جوا‘ کالا جادو‘ توہم پرستی اور نیم حکیموں کے اشتہارات ممنوع ہوں گے۔ ہر ایک لائسینس ہولڈر ’پیمرا‘ کو مطلع کرتے ہوئے ایک اندرونی نگران کمیٹی مقرر کرے گا‘ جو ضابطۂ اخلاق کے احترام کی نگرانی اور نفاذ کو یقینی بنائے گی کیا ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت مذکورہ کمیٹی کے اراکین گرفت میں آئیں گے جبکہ مالکان کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے؟
یہ تو ہوا وہ ضابطۂ اخلاق جو طے ہوا لیکن ابھی لاگو ہونا باقی ہے لیکن سردست اُس ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ سروسیز کے بارے میں کوئی بات کرنا پسند نہیں کر رہا جو بھارت سے نشر ہوتی ہیں اور پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ صارف بھارت کے تین معروف اداروں کی نشریات دیکھنے کے لئے ہر ماہ اوسطاً ایک ہزار روپے ادا کر رہے ہیں! تصور کیجئے کہ (150,000,000) یہ کس قدر بڑی رقم ہے اور اِس میں کتنے فیصلہ سازوں کی ’حصہ داری‘ ہوگی۔

مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف پاکستان کے اپنے ذرائع ابلاغ کے لئے ضابطۂ اخلاق کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اُور انہیں غیرملکی نشریات کم سے کم دکھانے کا پابند بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف بھارت جیسے ملک کو اربوں روپے ماہانہ منتقل ہو رہے ہیں لیکن یہی آمدنی اگر پاکستان کے اپنے نجی ٹیلی ویژن چینل حاصل کرنا چاہیءں تو نئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اُنہیں محدود وقت کے لئے ایسا کرنے کی اجازت ہوگی! اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک پابندی کا معیار ایک جیسا مقرر نہیں کیا جاتا۔ ایک جیسا‘ بلکہ بالکل ایک جیسا۔’’پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو۔۔۔ حسن والوں کی سادگی نہ گئی!‘‘
Media management through mismanagement is root cuase of many evils in #Pakistan

Sunday, July 12, 2015

Jul2015: Welfare and Population

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
صبح‘ دوپہر اور لمبی شام!
سیاسی بیانات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ صبح‘ دوپہر اور نہ ختم ہونے والی شام کے اوقات میں شعوری زندہ رہنے والوں کو ہر دن‘ بلکہ ہر پل کسی نہ کسی رہنما کا کوئی نہ کوئی بیان نہ چاہتے ہوئے بھی ہضم کرنا پڑتا ہے لیکن چند ایک بیانات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذہن سے گویا چپک کر اُن کی گونج ہمیں پریشان رکھتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سوچتے ہیں یا خود کو نہ سوچنے سے روکتے ہیں۔ بیانات سطحی بھی ہوتے ہیں اُور اِس قدر گہرے بھی کہ اُن کی حقیقت پر جس قدر زیادہ سوچا جائے‘ اُتنے ہی نت نئے پہلو اُور معانی ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بیان پندرہ جون کو اُس وقت سامنے آیا جب خیبرپختونخوا کے لئے نئے مالی سال کا بجٹ صوبائی اسمبلی کے اراکین کے سامنے پیش کیا جارہا تھا اور یہ مناظر ٹیلی ویژن چینلوں نے براہ راست نشر کئے۔ ایک موقع پر مظفر سید نے کہا کہ ’’خیبرپختونخوا میں اَمن و اَمان کی بحالی کے بعد حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی آبادی کو کسی طرح کنٹرول کرنا ہے۔‘ اپنے اِس بیان کی تائید میں انہوں نے کچھ اعدادوشمار بھی پیش کئے جیسا کہ خیبرپختونخوا کی 30فیصد آبادی کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اور آبادی کا یہی بڑا حصہ صحت و تعلیم کے شعبے میں فراہم کی جانے والی سہولیات اور ہرسال مختص کئے جانے والے اضافی مالی وسائل و عملی کوششوں کو ناکافی بنا رہا ہے۔

صوبائی محکمۂ بہبود آبادی کے مرتب کردہ اعدادوشمار (جنہیں اُن کی ویب سائٹ سے بلاقیمت حاصل کیا جا سکتا ہے) کے مطابق خیبرپختونخوا میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 2.05 فیصد ہے اور اگر ہم پاکستان کی سطح پر اِس غیرمعمولی شرح نمو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں یہ شرح نمو سب سے زیادہ ہے! سرکاری دستاویزات میں اس کی وجہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ تحریر کی گئی ہے کہ خواتین میں شرح خواندگی میں کمی ہے کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں۔ قبائلی روایات کے مطابق زیادہ بڑے خاندان کو ضروری سمجھا جاتا ہے‘ مذہبی رجحانات رکھنے والے بہبود آبادی کے تصورات اور عملی طریقوں کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ عمل بالکل انسداد پولیو کے خلاف پائی جانے والی سوچ کی طرح ایک بڑے طبقے کی سوچ ہے۔ بہبود آبادی سے متعلق مذہبی احکامات اُور تعلیمات کی وضاحت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے کم بچے ہونا ایک غیرشرعی و غیراسلامی فعل محسوس کیا جاتا ہے۔ نرینہ اولاد کی زیادہ سے زیادہ خواہش اور بیٹیوں پر ترجیح کے سبب بھی آبادی بڑھ رہی ہے۔ علاؤہ ازیں خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع جیسا کہ کوہستان اُور تورغر (کالا ڈھاکہ) میں آبادی کی شرح نمو زیادہ ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ حکومتی توجہ ایسے دوردراز اضلاع کی جانب مرکوز نہیں اور جب اِن نظرانداز اضلاع میں بہبود آبادی کے حکومتی ادارے لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو اُن کی بات پر دھیان دینے والے کم اور اُن سے کم عمل کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ اعتماد کی کمی ہے۔ حکومت پر عوام کا اعتماد اگر کم ترین نہیں تو اُس حد پر ضرور معلق ہے‘ جہاں سے ارتقاء ممکن نہیں۔

خیبرپختونخوا کی غربت‘ پسماندگی اُور مسائل در مسائل گھمبیر خرابئ حالات کی شدت میں اضافہ ’پے در پے‘ قدرتی آفات‘ شورش اُور تنازعات کی وجہ سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر سال 2010ء کے سیلاب اور فوجی کاروائی کی وجہ سے قبائلی علاقوں سمیت مختلف اضلاع سے لوگوں نے نقل مکانی کی۔ حکومت کو اِن لاکھوں افراد کی ضروریات پوری کرنا پڑیں۔ آبادی کے مراکز سے الگ خیمہ بستیاں بنائی گئیں‘ نقل و حرکت کو محدود سے محدود رکھتے ہوئے عارض قیام گاہوں میں اشیائے خوردونوش اور مکینوں کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنا ہی پہلی ترجیح تھی۔ جب سارے وسائل اور کوششیں بیک وقت لاکھوں افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خرچ ہونے لگیں تو غیرمحسوس طور پر ’بہبود آبادی‘ ترجیحات کی فہرست میں نیچے جاتی چلی گئی اور ایسی خیمہ بستیوں میں انسانی شرح نمو کی شرح میں دیگر اضلاع کے مقابلے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن محکمۂ بہبود آبادی کا کہناہے کہ ’’صورتحال اِس قدر مایوس کن یا تشویشناک بھی نہیں۔ مثال کے طور پر سال 2007ء کے دوران اگر ہر ایک سو افراد میں سے پچیس تک بہبود آبادی کی خدمات پہنچائی جاتی تھیں تو سال 2013ء کے دوران یہ تعداد اٹھائیس تک جا پہنچی یعنی آبادی کے زیادہ بڑے حصے تک چھوٹا خاندان رکھنے کی معلومات اور مانع حمل کی مفت ادویات یا طریقے پہنچائے گئے۔ ذرائع ابلاغ کا استعمال الگ سے وسیع پیمانے پر کیا گیا اور شہری و دیہی علاقوں کے رہنے والوں تک ’پبلک مقامات پر تشہیری مہمات‘ کے ذریعے پیغامات پہنچائے گئے۔‘‘

اِس لمحۂ فکریہ پر کچھ دیر رک کر سوچیں کہ آخر ہم یہ طے کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں کہ زیادہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی انسانی شرح نمو یا پندرہ برس تک عمر پر مشتمل تیس فیصد آبادی! آبادی کا اگر ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے تو اِن انسانی وسائل سے بہتر استفادہ بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے رقبے موجود ہیں جہاں زراعت نہیں ہوتی تو ہم زرعی شعبے کو وسعت دے سکتے ہیں جس کے لئے زیادہ انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کی ضرورت ہے۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ ہیومن ریسورس سے انقلابی اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن مسئلہ فنی و تکنیکی تربیت (ہنرمندی) کا ہے۔ ہمارے ہاں بہبود آبادی کو معنوی اعتبار سے محدود کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہی سبب ہے کہ اِس غفلت پر مبنی فکروعمل سے پیدا ہونے والی خرابیاں وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا فیصلہ سازوں نے معاشرے کو صحت مند تفریحی مواقعوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ایسی رضاکار مہمات شروع کی گئیں جن میں نوجوانوں کا دھیان اُن کی اپنی اپنی ذات میں چھپی ہوئی صلاحیتوں پر مرکوز ہو سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے تعلیم کو نصاب کی حد تک محدود کرتے ہوئے اِس سے تربیت کے لازمی جز کو الگ کر دیا ہو؟

Saturday, July 11, 2015

Jul2015; Forgetting LG polls

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کارآمد: اعزاز و کردار!
یوں لگتا ہے کہ ہر کسی کو ’محض‘ بلدیاتی اِداروں کے لئے عام اِنتخابات کے اِنعقاد کی جلد ی تھی۔ فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کو نچلی سطح پر شریک کرنے کے لئے دیگر چھاؤنیوں کی طرح پشاور کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اِنتخابات کو ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں لیکن نومنتخب ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ اَaراکین کا پہلا اِجلاس نہیں بلایا جا سکا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے اراکین اِس تاخیر سے خوش نہیں کیونکہ کامیابی کے بعد سے نہ تو اُن کی حلف برداری ہوئی ہے اُور نہ ہی باقاعدہ طور پر اُنہیں مل بیٹھ کر فیصلہ سازی یا غوروخوض کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ نومنتخب اَراکین میں اِس بات پر اِتفاق پایا جاتا ہے کہ اِجلاس طلب کرنے میں تاخیر کی وجہ سے وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہے بلکہ چند ایک نے تو یہ بھی کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ’خانہ پُری‘ تھے جن کا اِنعقاد کرنے سے زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سرکاری ملازمین کا شاہانہ مزاج ہے جو اپنے اختیارات کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے!

کیا ہم جعلی نمائندے ہیں؟ اگر ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا تو پھر ہمارے اِنتخاب کا عملی مقصد کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن اُمیدواروں کے کامیاب ہونے کی آس لگائی گئی تھی وہ جیت نہیں سکے اُور اَب اِنتظامیہ دیگر نمائندوں کو توجہ نہیں دے رہی؟‘‘ عوام سے ووٹ مانگنے والے خود کو بڑی مشکل میں محسوس کر رہے ہیں اور اَگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ’نومنتخب‘ سماجی و سیاسی کارکنوں کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا اُور وہ آئندہ انتخابات کے موقع پر مخالفین کی کڑی تنقید کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ یاد رہے کہ ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ اراکین کے چناؤ کے لئے عام انتخابات اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد پچیس اپریل کے روز منعقد ہوئے‘ جن کے نتائج کا اعلان انتخابات کے تین دن کر دیا گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے لئے تحریک اِنصاف نے دو‘ جماعت اِسلامی اُور پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پر کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار نے بعد میں جماعت اِسلامی میں شمولیت اِختیار کر لی تھی اور پھر اُنہی کے سر کنٹونمنٹ بورڈ کے ’وائس چیئرمین‘ کا سہرا سجا۔

قواعد کے مطابق چودہ اَراکین پر مشتمل ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کے سات اراکین بذریعہ اِنتخابات منتخب ہوتے ہیں جبکہ چھاؤنی کے معاملات بارے سات فوجی اہلکار ہوتے ہیں۔ ان نمائندوں کا چیئرمین بریگیڈئر عہدے کا فوجی اِہلکار ہوتا ہے‘ جبکہ گریژن (چھاؤنی) انجنیئر اُور چار دیگر فوجی اہلکاروں پر مشتمل بورڈ کے پہلے اجلاس میں تاخیر کی وجہ چار فوجی اہلکاروں کا تبادلہ بتایا جاتا ہے‘ جن کی خدمات وزارت دفاع کو منتقل کر دی گئی ہیں اُور اِس سسلسلے میں وزارت دفاع کو ایک مکتوب کے ذریعے آگاہ کیا جاچکا ہے کہ جب تک اُن کی جگہ دیگر اہلکاروں کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ بالحاظ عہدہ اُن کی رکنیت قواعد کی رو سے مکمل نہیں ہو سکتی! پہلے اِجلاس کی تاخیر کے باعث پشاور کے ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کی حدود میں ترقیاتی عمل رُکا ہوا ہے اُور کئی ایک ایسے منصوبے ہیں جن پر کام فوری طور پر شروع ہونا چاہئے لیکن اِس کے فیصلے کا اختیار بورڈ کے پاس ہے‘ جس کا اِجلاس تکنیکی وجوہات کی بناء پر طلب نہیں کیا جاسکتا۔ اِس سلسلے میں اُمید کا اظہار کیا گیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران (عیدالفطر کے بعد) کنٹونمنٹ بورڈ اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال اُمید پر دنیا قائم ہے اور جہاں ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر گیا وہیں مزید دو یا تین ہفتوں کا بھی پتہ نہیں چلے گا لیکن اگر کنٹونمنٹ بورڈ کے سرکاری اَراکین کی تنخواہیں اور مراعات ’بورڈ‘ کے اجلاس سے مشروط ہوتیں تو انتخابات کے اگلے ہی روز ’وائس چیئرمین‘ کا انتخاب ہو چکا ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کی نہ تو سرکاری اہلکاروں کے دل میں جگہ ہے اُور نہ ہی اُن نمائندہ ایوانوں میں‘ جہاں کی رکنیت کے لئے بذریعہ قواعد عام انتخابات کا عمل مکمل تو ’بادلنخواستہ‘ مکمل کر لیا گیا ہے لیکن سرکاری عہدیدار اِن منتخب نمائندوں کو اِس سے زیادہ کچھ بھی ’اعزاز و کردار‘ دینے کو تیار نہیں۔ اصولی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں میں سے کوئی ایک ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کا چیئرمین جبکہ سرکاری اہلکار ’وائس چیئرمین‘ ہونا چاہئے تاکہ یہ پیغام منتقل ہو سکے کہ ’’فیصلہ سازی میں عوام کی نمائندگی اعلیٰ و بالا ہے اور ترجیحات عوام کے نمائندوں پر مسلط یا اُن کے سامنے محض منظوری کے لئے پیش نہیں کی جاتیں بلکہ وہ سوچ اور فیصلے کرنے میں بااختیار ہیں!‘‘

اِس لمحۂ فکر پر ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ انتخابات کے فوراً بعد تیس مئی کو ہوئے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی اِداروں (مقامی حکومتوں کے قیام) کے لئے اِنتخابات کا ذکر بھی ہو جائے کے بارے میں الیکشن کمیشن نے (تاخیر سے) آٹھ جولائی کو حتمی پارٹی پوزیشن جاری کی ہے اور سرکاری و حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے ضلع کونسلوں کی 978نشستوں میں سے 256 حاصل کرکے پہلی‘ عوام نیشنل پارٹی نے 106 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ دوسری اُور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 105 نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ان کے علاؤہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے 87‘ جماعت اسلامی نے 71‘ پیپلزپارٹی نے 43 اُور قومی وطن پارٹی نے 12نشستیں حاصل کیں جبکہ 165 آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے اور ضلع کونسل کی 122 جبکہ تحصیل کونسل کی 120نشستوں کے لئے دوبارہ انتخابات ہوں گے جو معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ تحصیل کی سطح پر بھی تحریک انصاف 273 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے لیکن یہ برتری اور نمائندگی اُس وقت تک ’کارآمد‘ نہیں ہو سکتی‘ جب تک منتخب نمائندے فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے!

Friday, July 10, 2015

Jul2015: Quds Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
یوم قدس: مسلمان کدھر جائے!؟
دنیا بھر کے ’روزہ دار مسلمانوں‘ نے بناء کسی تفریق رنگ و نسل اور عقائد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ’عالمی یوم القدس‘ بھرپور جوش و خروش سے منایا اور اِس موقع پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار میں جس اخلاص پر مبنی ’اتحادواتفاق‘ کا شاندار مظاہرہ کیاگیا‘ اگر وہ اخلاص برقرار رہتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ’اتحاد بین المسلمین‘ جیسا ہدف حاصل ہونے کے ساتھ اِسلام دشمن طاقتوں بالخصوص اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی ’اَمریکی و برطانوی لابی‘ کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی عالمی نام نہاد طاقتوں کو یقیناًیہ پیغام مل چکا ہے کہ انہیں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وجبر ختم کرنا ہوگا بصورت دیگر اُن کایہ عمل مسلم امہ کو اس طرح یک جان کر دے گا‘ کہ اس تحریک کو پھر پٹھو حکمران کے ذریعے نہ تو دبایا اُور نہ کچلا جا سکے گا۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو‘ شاہ فیصل اور امام خمینی جیسے خیرخواہوں کی قیادت مسلم اُمہ کو پھر سے میسر آ جائے!

مسلم دنیا کو ’’مرگ بر امریکہ اُور مرگ بر اسرائیل‘‘ جیسی مدبرانہ سوچ دینے والے بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی نے رمضان المبارک کے ہر آخری جمعے کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور اِس مرتبہ چونکہ آخری جمعہ پاکستان میں اُنتیس اور بیشتر ممالک میں یکم شوال کو ہوگا‘ اِس لئے رہبر اسلامی ایران سیّد علی خامنہ آئی نے ’عالمی یوم قدس‘ ایک ہفتہ قبل یعنی دس جولائی کو منانے کا اعلان کیا جس پر پوری دنیا میں لبیک کہا گیا۔

اللہ تعالیٰ کی توحید اور آخری پیغمبر کی رسالت پر یقین رکھنے والا اگر کسی دوسرے ’کلمہ گو‘ پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر خاموش رہتا ہے تو اِس عمل کو ایک حدیث پاک کے مفہوم میں دعائیں قبول نہ ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹ قراردیا گیا ہے لہٰذا ’یوم قدس‘ کو کسی ایک ملک کی ایجاد نہیں بلکہ یہ ہر ایک مسلمان اور کلمہ گو کی آواز ہونی چاہئے۔ ’’اِس بات کو اب فاش کر اے روح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): آیات الٰہی کا نگہباں کدھر جائے؟ (علامہ اقبالؒ )‘‘۔۔۔ یہ بات ہمارے اِیمان کا حصہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے اِسلامی بھائی کے دکھ درد اور مشکلات میں اُس کی مدد کرے۔ ہمارے سامنے ہجرت مدینہ کے موقع پر ’مؤاخات‘ کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح مسلمان ایک دوسرے کے دست و بازو بن گئے! کیا اسلامی تاریخ میں ہمارے لئے تفکر کے ابواب موجود نہیں؟ کیا ہمیں اپنی ہی تاریخ پر غور و خوض نہیں کرنا چاہئے؟ اگر فلسطین کے مسلمانوں کو اِس مرحلے پر تنہا چھوڑ دیا گیا تو اسلام دشمن طاقتیں عرب دنیا اور بعدازاں مسلمانوں کی اکثریت والے ممالک کو حیلوں بہانوں سے یکے بعد دیگرے ظلم وستم کا نشانہ بنائیں گے اُور ایک خدا و ایک رسول کو ماننے والوں پر ’عرصۂ حیات‘ تنگ کردیا جائے گا! دنیا کی نظروں میں اگر پاکستان کی جوہری صلاحیت اور ایران کے جوہری عزائم کھٹک رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ’غاصب اسرائیل‘ کے دفاع کے علاؤہ کچھ نہیں۔یوم القدس ’سوچ اُور عمل کی ترغیب‘ کا دوسرا نام ہے کہ ماننے والوں کو اسلام کے جسد واحد سے منسلک ہر ایک عضو کی حفاظت کے لئے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیءں۔ یاد رہے کہ ’روز جہانی قدس‘ کا آغاز 1979ء میں انقلاب جمہوری اسلامی ایران کی کامیابی کے ساتھ ہی کیا گیا‘ جو تاحال ہرسال باقاعدگی سے منایا جاتاہے۔

یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’یوم القدس‘ غاصبوں کے لئے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ رواں سال بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا‘ جسے صرف مغرب ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں کے خود فریب‘ مغرب نواز ذرائع ابلاغ نے زیادہ توجہ اُور اہمیت نہیں دی‘ تو اِس کی وجہ اور پس پردہ محرک منطقی ہے۔ عالمی یوم القدس نامی تحریک کے جلوسوں کے لئے نعرے کا انتخاب ’’علاقائی صورتحال اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش حالات‘‘ کے مد نظر کیا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ رواں برس ’’عالمی یوم القدس‘ فلسطینی اہداف کا مظہر‘ ماڈرن (یک طرفہ جدیدیت کی دلدادہ) جاہلیت اور غزہ سے یمن و کشمیر تک بچوں کے قتل عام کے خلاف ملت اسلامیہ کے اتحاد کی آواز‘‘ کے نعرے لگائے گئے جن سے اسلام دشمنوں کے مظالم کے بارے میں بیداری عام کی گئی۔ پرجوش ’یوم القدس‘ سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اسلامی ممالک کے عوام کی اکثریت امریکہ اور صیہونی حکومت کو ہی اپنا مشترکہ دشمن سمجھتی ہے اور عراق‘ شام‘ یمن و کشمیر سمیت بعض اسلامی ممالک کے المناک حالات اسے اسلامی دنیا کے سب سے اہم مسئلے اور عالم اسلام کی ترجیح یعنی مسئلہ فلسطین سے غافل نہیں کر سکے اور نہ کبھی غافل کر سکیں گے!

عالمی یوم القدس فلسطینیوں کی حد تک ہی مختص نہیں اُور نہ ہی اسے محدود کر کے پیش کیا جانا چاہئے بلکہ اِس اہم دن کا تعلق ساری اسلامی دنیا سے ہے اور اسلام کے دشمن اور بالخصوص صیہونی اسی بات سے ہراساں ہیں کہ قدس کہیں مسلم امہ کے اتحاد کی تحریک ہی نہ بن جائے! بانی انقلاب اسلامی نے بیت المقدس کو اس وجہ سے اہمیت دی تھی کہ ’’بیت المقدس اور فلسطین ملت اسلامیہ کی طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ اُور یہ دن صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے جملہ حریت پسندوں کی جانب سے ظلم اور ناانصافی کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ اگر ’یوم القدس‘ کی روح کو سمجھ لیا جاتا ہے تو فلسطین کی مظلوم قوم اور دوسری مظلوم اقوام کی حمایت سے متعلق تحریک نہ صرف ’نتیجہ خیز‘ ثابت ہوگی بلکہ انشاء اللہ عزوجل مظلوم فلسطینی آزادی کی نعمت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔

 سوچئے کہ اگر اسلام دشمن طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کے لئے اعلانیہ و غیراعلانیہ طور پر متحد ہوسکتی ہیں تو مسلم اُمہ کو کس بات‘ کس مجبوری اور کس مصلحت نے ’اتحاد واتفاق‘ سے روک رکھا ہے؟ ’’جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل۔۔۔تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقد دشوار۔ ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر۔۔۔بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار! (علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ) ‘‘

Thursday, July 9, 2015

Jul2015: Impossible possible

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ناممکن‘ ممکن!
مقام شکر اور خوش آئند تو ہے کہ ۔۔۔’خیبرپختونخوا میں دہشت گرد واقعات میں ’غیرمعمولی کمی‘ تو آئی ہے لیکن کیا شمال مغربی سرحدی صوبے کے رہنے والے سکھ کی نیند اور بے فکری کی معاشرت کر رہے ہیں؟‘ اگر ہم محکمۂ پولیس کے اعدادوشمار پر بھروسہ کریں تو رواں برس کے پہلے چھ کا موازنہ سال 2014ء کے ابتدائی چھ ماہ سے کیا گیا ہے اور اس میں بہتری واضح آثار دکھائی دے رہیں ہیں۔ محکمۂ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مرتب کردہ نتائج کے مطابق ’’ماہ جنوری سے جون کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے کل 131 واقعات پیش آئے جن میں کم از کم 63 افراد ہلاک ہوئے اور اِن میں 23 پولیس اہلکار شامل تھے۔‘‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’’دہشت گرد واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 70فیصد کمی آئی ہے۔‘‘ رواں برس تیس جون تک دہشت گردی کے واقعات میں 156 لوگ زخمی ہوئے جبکہ سال گذشتہ میں 590 اور اس سے قبل 2013 میں 1077 افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ کمی تناسب کے لحاظ سے 74فیصد بنتی ہے۔ غیرقانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کاروائیوں میں بھی پولیس کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور مذکورہ چھ ماہ کے دوران 10 ہزار 175 افغان باشندوں کو قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔ اسی طرح 2 ہزار 648 ایسے پاکستانی باشندوں کو بھی حراست میں لیا گیا جنہوں نے افغان مہاجرین کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کی تھی جو بعدازاں قومی شناختی کارڈز حاصل کرنے کے استعمال کی گئی۔

خیبرپختونخوا میں پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرنے کے اقدامات نمائشی ہی نہیں بلکہ اِن میں صداقت بھی ہے اور یہی سبب ہے کہ کچھ شعبوں میں مثبت نتائج دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن کیا اسی پر اکتفا کر لیا جائے؟ کیا بہتری کی گنجائش موجود نہیں؟ کیا ایسے اہلکار اب بھی انتظامی عہدوں پر فائز نہیں جن کے نام ماضی میں مالی بدعنوانیوں حتی کہ پولیس کے لئے سازوسامان اور اسلحہ جیسی خریداری میں ہوئی خردبرد سے جڑے دکھائی دیئے!؟ اگر دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ پشاور سے متصل قبائلی علاقہ جات میں ہوئی پے در پے فوجی کاروائیاں ہیں‘ جس کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں اور پشاور میں اُن کی ایک یادگار قائم ہونی چاہئے کیونکہ اگر فوج نہ ہوتی تو عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز تباہ اور اُن کی طاقت یوں منتشر نہ ہوتی۔ اب کوئی خود کو فخریہ طور پر عسکریت پسند اور دہشت گرد نہیں کہہ سکتا جبکہ ایک وقت تھا کہ پشاور کی گلی کوچوں اور منبر سے عسکریت پسندوں کی حمایت میں تقاریر کی جاتی تھیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کو دہشت گرد واقعات میں کمی کا سہرا اپنے سر نہیں سجانا چاہئے کیونکہ اب بھی پولیس ایسے علاقوں میں جانے سے کتراتی ہے‘ جہاں کے روائتی و غیرروائتی راستے قریبی قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں! دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا ذکر کرنے والے مسرور ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز پولیس اہلکار سے جب اس بارے رائے پوچھی گئی کہ ’’چونکہ عسکریت پسندوں کے پاس وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ سہ ماہی‘ شش ماہی اور سالانہ رپورٹیں بھی مرتب نہیں کرتے اور نہ ہی اعدادوشمار کی بنیادپر کاروائیوں پر فیصلہ کرتے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ وقفہ میں کسی زیادہ بڑے حملے کی منصوبہ بندی جاری ہو؟ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ’جرائم میں 55 فیصد کمی آئی ہے۔‘ تو کیا اِس بیان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی تعداد میں بھی اتنی یا کم از کم پچاس فیصد کمی آئی ہے؟‘‘ جواب صرف خاموشی ملا۔

توجہ طلب ہے کہ دہشت گرد جن اکا دکا اہداف کو آج بھی نشانہ بنا رہے ہیں وہ معمولی عسکری تربیت کاروں کا کام نہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی دہشت گردی یا منظم جرائم پیشہ گروہوں کا نشانہ ببنے والوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جو موبائل فون نمبر‘ لینڈ لائن فون نمبر‘ بینک اکاونٹس‘ زیراستعمال گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل کردہ کوائف یا زیرتعلیم اہل خانہ کے علاؤہ روزمرہ معلومات کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔ کمپیوٹرائزیشن کی خوشی میں سرکاری محکموں میں دھرا دھر ڈیجیٹل ڈیٹابیسیز بنائی جانے لگی ہیں لیکن اِس نجی ڈیٹا (امور معلومہ) کی حفاظت کرنے کا خاطرخواہ انتظام یا اس بارے حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔ صرف ایک موبائل فون ہی کی مدد سے کسی صارف کے چوبیس گھنٹوں میں ہر ایک منٹ کی نقل و حرکت اور رابطوں کا ریکارڈ حاصل کرنا بالکل اسی طرح بظاہر ناممکن لیکن ممکن ہے جس طرح ’ڈی این اے‘ تجزئیات کے لئے ارسال کئے جانے والے نمونوں کے نتائج میں ردوبدل کا امکان ہوتا ہے۔

آخر کیوں خیبرپختونخوا کی اپنی ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid) لیبارٹری کا قیام تعطل کا شکار ہے؟ اور جب اِس سلسلے میں متعلقہ فیصلہ سازوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک ’مالیکیولر بائیولوجسٹ‘ کے عہدے پر کسی تجربہ کار شخص کو بھرتی نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ‘ڈی این اے‘ لیبارٹری کا قیام ممکن نہیں! یہ بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علم میں بھی لائی جا چکی ہے تو کیا یہ امر باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ طب کے ایک تدریسی حکومتی کالج میں امریکہ سے جدید ترین آلات خرید کر نصب کئے جا چکے ہیں۔ عمارت اور دیگر انفراسٹکچر کی ضروریات بھی پوری کر دی گئی ہیں لیکن ستمبر 2014ء سے صرف اور صرف ’مولیکیولر بائیولوجسٹ‘ کی عدم موجودگی کے سبب ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہوسکی ہے! 4 کروڑ پچاس لاکھ (45ملین) روپے کے آلات کی خریداری کے بعد اُس کا ضمانتی عرصہ (وارنٹی پیریڈ) بھی آلات کے بناء استعمال ہی گزر چکا ہے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں حکومت نے ’ڈی این اے‘ لیبارٹری کے قیام کی منظوری اور مالی وسائل فراہم کئے تھے‘ مالی وسائل تو پوری توجہ و انہماک سے خرچ کر دیئے گئے لیکن ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہو سکی کیونکہ اس میں فیصلہ سازوں کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا اور بلاوجہ تو نیکی بھی نہیں کی جاتی!

جنگ چاہے جرائم پیشہ منظم و غیرمنظم گروہوں کے خلاف ہو یا تخریبی ذہنیت رکھنے والوں سے معاملہ ہو‘ یقینی کامیابی کے لئے نہ صرف ہمیں صارفین کی نجی معلومات پر مبنی ڈیٹا کی کماحقہ حفاظت کرنا ہوگی بلکہ ’ڈی این اے‘ تجزیہ گاہ کو بھی جلد اَز جلد فعال کرنا ہوگا‘ جس کی مدد سے سماج دشمنوں کے مراکز تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سنگین جرائم کے رونما ہونے سے قبل اُن کی ’روک تھام‘ اُور ایسے منظم گروہوں کے خلاف بھی کاروائی کریں جو ماضی کی طرح آج بھی سہولت کار کا کردار اَدا کر رہے ہیں۔

Wednesday, July 8, 2015

Jul2015: Misconceptions about Right to Information

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تاریکیاں!
چھ جولائی کو اُن ’توقعات‘ کے بارے عرض کیا گیا کہ کس طرح دنیا کا بہترین قانون بنا لینا کافی نہیں بلکہ ’معلومات تک رسائی‘ پر آمادگی کے ساتھ اِس پر کماحقہ عمل درآمد ضروری ہے اُور کوئی ایک بھی حکومتی ادارہ‘ شخصیات یا سرکاری اہلکار قانون سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ علاؤہ ازیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین و ایوان کی کارکردگی سے متعلق بھی اگر کوئی بھی عام یا خاص کچھ بھی جاننا چاہے تو اُسے اِس بات کا حق ہونا چاہئے۔ اگلے روز یعنی سات جولائی کو ’اپنا گریباں چاک‘ کے زیرعنواں اُن چند تکنیکی نہیں بلکہ مصلحتوں بھرے روئیوں اور رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا جو وفاقی حکومت کی سطح پر ’معلومات تک رسائی‘ سے متعلق قانون سازی کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ ایک نازک مرحلۂ فکر ہے جو قانون سازی سے اطلاق تک کے مراحل میں نہ صرف سنجیدہ توجہ چاہتا ہے بلکہ اِس میں ’شفافیت‘ کے عنصر کو غالب و ترجیح (قبلہ) بنانا بھی ضروری ہے۔

توجہ کیجئے کہ خیبرپختونخوا میں ’معلومات تک رسائی‘ کے عمل کی نگرانی کے لئے قائم ہونے والے نئے سرکاری محکمے میں گریڈ گیارہ سے سترہ تک کی بھرتیاں رواں برس ماہ مارچ میں مشتہر کی گئیں جس کے لئے درخواستوں کی وصولی کی حتمی تاریخ سولہ مارچ مقرر کی گئی تھی۔ اِس اشتہار کے بعد کمیشن کو حسب توقع سینکڑوں کی تعداد میں درخواستیں بذریعہ ڈاک و دیگر ذرائع سے موصول ہوئیں۔ درخواستوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں اہلیت کی بنیاد پر ترتیب دینے میں مزید چند ماہ کا وقت لگ گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ بھرتیوں میں شفافیت کے لئے صوبائی حکومت کے ادارے ’ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایولوایشن ایجنسی (ایٹا)‘ کی وساطت سے ایک تحریری امتحان لیا جائے جس کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں۔

یہ ایک درست فیصلہ تھا لیکن ہوا یہ کہ جب ’ایٹا‘ کو تحریری امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تو اُنہوں ٹیسٹ کے لئے 14جون کی تاریخ مقرر کی اور جنہیں ٹیسٹ کے لئے مدعو کیا گیا اُنہیں بذریعہ موبائل فون ’ایس ایم ایس‘ پیغامات 12جون کو مطلع کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ محض دو دن کا یہ وقت کافی نہیں تھا اور بہت سے اُمیدواروں کو ’ایس ایم ایس‘ پیغامات اِس لئے نہیں مل سکے کہ اُن کے فون آف تھے یا کوئی دیگر تکنیکی مسئلہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جن اُمیدواروں کو انٹرویو کے لئے طلب کیا گیا اُن میں سے صرف 45فیصد ہی امتحان دینے کے لئے وقت مقررہ پر حاضر ہو سکے۔ یہ عجیب منطق تھی کہ جس تحریری امتحان کے لئے اُمیدواروں کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کیا گیا اُن کی اکثریت کا تعلق دور دراز علاقوں سے تھا اور اگر پشاور سے بھی ہوتا تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دو دن کے بعد اچانک امتحان کے لئے طلب کیا جائے؟

کیا فیصلہ ساز خود بھی ایسے ہی شارٹ نوٹس اور اہلیت کی سخت جانچ کے بعد سرکاری ملازم ہوئے تھے؟ المیہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے لئے جو سہولیات و مراعات چاہتے ہیں وہ دوسروں کو مرحمت فرمانا نہیں چاہتے۔ بہرکیف ہنگامی بنیادوں پر طلبی کے سبب قانونی مشیر کے لئے درخواست گزاروں میں سے صرف ایک ہی اُمیدوار آ سکا اور ظاہر ہے کہ اُسے ہی نوکری ملنی تھی! بعدازاں ایک تجویز یہ دی گئی کہ مذکورہ ’ایٹا‘ امتحان منسوخ کرکے دوبارہ سے ملازمتیں مشتہر کی جائیں اور درخواستیں طلب کی جائیں اور اِمتحان کا انعقاد پھر سے کیا جائے۔ ایک شکایت یہ بھی موصول ہوئی کہ جن درخواست گزاروں کو ’شارٹ لسٹ‘ کیا گیا اُن میں ایسے بھی تھے جنہیں باوجود موبائل فون کے ’ایکٹو کنکشن‘ بھی ’ایٹا‘ کی جانب سے ’ایس ایم ایس‘ موصول نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ بذریعہ ’ایٹا‘ بھرتی کا یہ طریقۂ کار اِس طرح ہے کہ 8 فیصد نمبر اِنٹرویو جبکہ باقی تحریری ٹیسٹ کے ہوتے ہیں اور اَصولی طریقۂ کار یہ ہے کہ نوکری کے اِس امتحان کے لئے اُمیدواروں کو ’کال لیٹرز‘ مقررہ تاریخ سے دو ہفتے قبل جاری کئے جاتے ہیں تاکہ ایک تو وہ تیاری کر لیں اور دوسرا دور دراز علاقوں سے آنے والے اپنی سفر کے بارے میں منصوبہ بندی کر لیں۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ خیبرپختونخوا میں کئی ایک ایسے علاقے ہیں جہاں موبائل فون کے سگنلز کام نہیں کرتے۔ حال ہی میں مجھے خود ہری پور کے قریب بھیڑ نامی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں کے رہنے والے موبائل فون پر بات کرنے کے لئے ایک قریبی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر جاتے دیکھے گئے اور یوں وہ بیرون ملک عزیز و اقارب کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں! صوبائی دارالحکومت پشاور کے آرام دہ‘ پرتعیش کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ سازوں کو احساس تک نہیں کہ جنوبی اور ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں کی صورتحال کیا ہے! کون جاننا پسند کرے گا کہ مرکزی شہروں سے دور رہنے والوں کی زندگی میں کتنے سکھ ہیں اور وہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غربت و کسمپرسی کی حالت میں شب روز بسر کرنے والوں پر کیا گزر رہی ہے!

خیبرپختونخوا میں ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون پہلے ہی خطرے میں ہے جس کا مفصل بیان چھ جولائی کے کالم میں ہو چکا لیکن اگر اِس انتظامی طریقۂ کار میں بہتری کے لئے دانستہ کوششیں کرتے ہوئے وہ تحفظات دور نہیں کئے جاتے‘ جس کی وجہ سے یہ ’انقلابی قانون سازی‘ اپنی روح و مقصد سے فاصلے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے تو اِس صورتحال میں تبدیلی کے لئے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو دلچسپی لینا ہوگی بصورت دیگر اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘ جس میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے اور ہاتھوں سے ٹٹول کر صرف ٹھوکریں لگتی رہیں گے اور اگرچہ سفر طے ہوگا لیکن منزل سے دوری اور راستے کا تعین نہیں ہو سکے گا۔ تاریکیوں کو بدلنے کے لئے دانستہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ’سوچ کے آلاؤ‘ روشن کرنا ہوں گے۔