ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
العلم
اِنسان نے اپنی لاعلمی کا اعتراف ہر دور میں کیا اُور یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشروں میں صدیوں سے اِس مسلمہ اصول پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ”علم صرف حقیقت نہیں بلکہ علم ہی حقیقت ہے‘ جسے انسانی معاشرہ معلومات و تجربات سے اخذ یا حاصل کرتا ہے اُور اِس حاصل شدہ مرکب کی جامعیت کے لئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں اُن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انسانی معاشروں میں تعمیر و ترقی ہونی چاہئے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ علم کے کسی خاص حد سے زیادہ ہونے کے بعد اِس کے بطن سے تخریبی عوامل کا ظہور ہونا شروع ہو جاتا ہے اُور یہ علم کے ارتقا اُور معاشرے میں پائی جانے والی علم کی ضرورت (طلب) کا ایک نہایت ہی بدلا (نکھرا) ہوا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنا حاصل کردہ اُور تخلیق کردہ علم نامکمل ہے اُور اِسے جامع بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی معاشروں میں پائے جانے والے ”علم“ کو سیال بنایا جائے یعنی علم کے دامن میں اِس قدر گنجائش ہو کہ یہ مختلف نظریات‘ آرا‘ تجاویز‘ تاثرات‘ تشریحات اور تعبیرات کو سمو سکے اُور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں پر نظرثانی کرنے جیسے ظرف کا بھی حامل ہو۔
علم کیا ہے؟
”علم“ آزادی چاہتا ہے۔ یہ آزادی اظہار کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ علم فرمان تابع اُور قابل فروخت نہیں ہونا چاہئےکہ یہ حکمرانوں کی خواہشات اُور خوشنودی کا باعث ہو۔ بہت سے مورخین ایسا کرتے رہے ہیں۔ بہت سی قومی ریاستیں بھی اپنے سیاسی ایجنڈوں اور نظریات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرتی آئی ہیں۔ جدید دور میں جملہ ذرائع ابلاغ (بشمول الیکٹرانک و پرنٹ اُور سوشل میڈیا) اپنے مفادات کے لئے کسی خاص شے (برانڈ) یا شخصیت یا سیاسی جماعت کو دوسروں سے بہتر (پرکشش) بنا کر پیش کرتا ہے۔ اِس طرزعمل کے باعث اختلافات کو فروغ ملتا ہے۔ علم رکھنے والے طبقات کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی کسی صورتحال میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ”علم“ کے ساتھ جڑے فرائض اُور ذمہ داریوں کو ادا کریں اُور کسی معاشرے کو اختلافات سے بچائیں۔ صرف علم کا فروغ ہی فرقہ پرستی (فرقہ واریت) کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تاویلات کی کثرت کو تاریخی حقیقت اُور مکمل علم سمجھنے کی بجائے‘ اگر علم کی تلاش علم ہی کے ذریعے کی جائے تو اِس سے مفید نتیجہ حاصل ہوگا۔ عموماً علم کی تلاش میں جہالت سے کام لیا جاتا ہے اُور جہل کی خصوصیت یہ ہے کہ اِسے جس قدر بھی ”کھنگالا“ جائے اِس سے سوائے تاریکی کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ علم کی شناخت یہ ہے کہ یہ فرقہ واریت (اختلافات) کم کرے گا۔ یہ معاشرے کو توڑنے کے لئے نہیں بلکہ اِسے جوڑنے کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔
انسان کی تشریح علم اُور علم کی تشریح انسان ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ایک دوسرے کی خوشنمائی کا باعث ہیں اُور اگر یہی ایک پہلو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بھی خاص دن‘ ہفتہ‘ عشرہ یا مہینہ ایسا نہیں ہو سکتا جب مختلف النظریات علمی دلائل کی وجہ سے معاشرے کو خطرات لاحق ہوں اُور ہر طرف سے امن‘ امن کی بلند ہوتی صدائیں سنائی دے رہی ہوں۔ مولانا جلال الدین‘ بلخی جلال الدین رومی المعروف مولانا رومی پیدائش 1207ءوفات 1273ءنے اپنے کلام ’مثنوی مولوی معنوی‘ میں علم کے تعمیری پہلوؤں اُور انسانی کردار جیسے تصورات کو نہایت ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ”تو برائے وصل کردن آمدی .... نے برائے فصل کردن آمدی (ترجمہ) اے انسان تیری تخلیق کا مقصد لوگوں کو آپس میں ملائے رکھنا ہے ناکہ تیری تخلیق کا مقصد انسانی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنا ہے۔“
نظریات اگر لچکدار‘ غیرجانبدار اُور تعمیروترقی کا باعث نہیں تو یہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن علم نہیں۔ اصول یہ ہے کہ غیر جانبدار نتائج تک پہنچنے کے لئے ان کا ممکنہ حد تک معروضی تجزیہ کیا جائے۔ دوسروں کے خیالات کو زیادہ توجہ (ہمدردی) سے سُنا جائے۔ سماجیات سے متعلق علم کا جدید پہلو یہ ہے کہ یہ ایک نقطہ نظر کی تخلیق‘ تعمیر اور تعمیر نو کا حاصل (نتیجہ) ہوتا ہے جس میں سیاق و سباق‘ اوقات اُور محرکات سے علم وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا تصور محدود نہیں رہا اُور اِس میں انسانی سماج کے ارتقا‘ اِس کی تاریخ و ثقافت اُور عقائد و نظریات کا مطالعہ بوساطت ’انٹرنیٹ‘ نسبتا آسان ہوگیا ہے تو وقت ہے کہ نوجوان (مرد و خواتین کے) ذہنوں کو مطالعے (کتب بینی) اُور علمی موضوعات پر بحث و مباحثے کی سہولت و ترغیب فراہم کی جائے۔ اس کے علاؤہ ”ادب (فنون لطیفہ)“ تک رسائی زیادہ وسیع اُور اِن کے معروضی مطالعے کو ممکن بنایا جائے۔
جدید تحقیقی مضامین جیسا کہ بشریات‘ سماجیات‘ نفسیات اور آثار قدیمہ توجہ طلب ہیں جن کے ذریعے ثقافتوں کا مطالعہ ممکن ہے اُور جب ہم دوسروں کی تاریخ و ثقافت کے مطالعے سے ”حصول ِعلم“ کا آغاز کریں گے تو یہی ’نافع (باعث نفع) عمل‘ ہوگا۔ علم کا سانس سُوال سے گھٹنا نہیں چاہئے بلکہ علم ساکت و جامد نہیں بلکہ مسلسل و جاری حقیقت ہے۔ اگر ہم غور و فکر اُور فکر و غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں اپنے ہی تصورات (پسند و ناپسند) نے گھیر رکھا ہے۔ علم کی بنیاد تنقید ہے اُور تنقیدی سوچ ہمیں اپنے آپ کو افلاطونی غاروں کے اندھیروں میں موجود تاریکی کی پرتوں میں گم اپنا آپ تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے۔ سوچنے کی گھڑی ہے کہ تاریخی شعور کی ہماری دیواروں پر اگر فرقہ وارانہ رنگوں سے گلکاریاں موجود ہیں تو ہمیں وقتی تعبیرات سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اور اپنی تاریخ‘ ثقافت‘ عقائد‘ طور طریقوں کو ہمیشہ متحرک‘ تعمیر و تعمیر نو کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ہمیں تاریخ کے ارتقا‘ خیالات‘ نظریات‘ عملی نمونوں اور نقطہ ہائے نظر کے ذخائر میں چھپے ہیرے بصورت تشریحات تلاش کرنی ہیں تاکہ معاشرے کو ایک دوسرے سے زیادہ قریب لایا جا سکے‘ جس کے لئے قرآن و سنت جیسی جامع رہنمائی اُور قرآن و سنت پر عمل کرنے والے رہنما (بطور مقلد و تقلید) موجود ہیں۔
....
Clipping from DailyAaj Peshawar July 24, 2022 Sunday |