Sunday, July 24, 2022

Knowledge for peace

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

العلم

اِنسان نے اپنی لاعلمی کا اعتراف ہر دور میں کیا اُور یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشروں میں صدیوں سے اِس مسلمہ اصول پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ”علم صرف حقیقت نہیں بلکہ علم ہی حقیقت ہے‘ جسے انسانی معاشرہ معلومات و تجربات سے اخذ یا حاصل کرتا ہے اُور اِس حاصل شدہ مرکب کی جامعیت کے لئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں اُن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انسانی معاشروں میں تعمیر و ترقی ہونی چاہئے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ علم کے کسی خاص حد سے زیادہ ہونے کے بعد اِس کے بطن سے تخریبی عوامل کا ظہور ہونا شروع ہو جاتا ہے اُور یہ علم کے ارتقا اُور معاشرے میں پائی جانے والی علم کی ضرورت (طلب) کا ایک نہایت ہی بدلا (نکھرا) ہوا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنا حاصل کردہ اُور تخلیق کردہ علم نامکمل ہے اُور اِسے جامع بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی معاشروں میں پائے جانے والے ”علم“ کو سیال بنایا جائے یعنی علم کے دامن میں اِس قدر گنجائش ہو کہ یہ مختلف نظریات‘ آرا‘ تجاویز‘ تاثرات‘ تشریحات اور تعبیرات کو سمو سکے اُور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں پر نظرثانی کرنے جیسے ظرف کا بھی حامل ہو۔

علم کیا ہے؟

مصنفین (اساتذہ) کا نقطہ نظر ہے کہ یہ درحقیقت رجحانات‘ دلچسپیوں اور ان کے لئے دستیاب ذرائع کی بنیاد پر حاصل ہونے والا ”تاثر“ بنیادی جبکہ اِس ایک تاثر سے اُبھرنے والے تاثرات کا مجموعہ جامع ”علم“ ہے۔ علم اُور ”تعمیر نو“ کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے خطبات موجود ہیں لیکن اگر اُن سبھی تصورات کو کسی ایک تصور کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے تو اُس کا عنوان ”علم فی نفس“ ہوگا۔ یہ موضوع وسیع ہے اُور یہاں صرف اشارتاً ذکر کیا جا رہا ہے کہ آج کا انسان ہر شے کے بارے میں خود سے زیادہ آشنا ہے لیکن اِسے اپنے اندر جھانکنے کی فرصت نہیں کہ جہاں اربوں برس کا ارتقائی علم محفوظ ہے۔ بہرحال ’علم فی نفس‘ کے بارے میں لاتعداد نکتہ ہائے نظر موجود ہیں اُور اِس ایک عنوان کو سمجھنے اُور بیان کرنے کے لئے قرآن و احادیث مبارکہ کے تراجم و تفاسیر‘ تاریخ اُور فقہ کی کتابوں کے علاؤہ فتاویٰ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے تاکہ علم کی حقیقت (بنیاد) تک بنا بھٹکے پہنچا جا سکے۔ علم کسی ایک ہی بیان یا حقیقت کے متعدد پہلو اُور اِن پہلوؤں کے مختلف نظریات ہوسکتے ہیں۔ کسی خاص معاملے میں قانونی یا اخلاقی پہلو‘ کئی طرح کے احکام بھی علم ہی میں شامل ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ہر مصنف (معلم) کسی واقعہ یا اپنے بیان (علمی نظریئے) کی ”درست“ تشریح کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہی ’درست‘ نظریہ کسی دوسرے شخص کے لئے بالکل اُلٹ (غلط) ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اسے مختلف (ایک بالکل نئے زاویئے) نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اِس طرزعمل کی وجہ سے ابہام پیدا ہوتا ہے اُور علم تک پہنچنے کی کوشش میں جہاں کہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآن و حدیث کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اِس سے انواع و اقسام کی تشریحات بصورت مسائل پیدا ہوتی ہیں۔ علم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِسے جان بوجھ کر (دانستہ کوشش سے) مسخ بھی کیا جا سکتا ہے اُور انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جہاں علم کو مفادات کے تابع کرتے ہوئے حقائق مسخ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ 

”علم“ آزادی چاہتا ہے۔ یہ آزادی اظہار کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ علم فرمان تابع اُور قابل فروخت نہیں ہونا چاہئےکہ یہ حکمرانوں کی خواہشات اُور خوشنودی کا باعث ہو۔ بہت سے مورخین ایسا کرتے رہے ہیں۔ بہت سی قومی ریاستیں بھی اپنے سیاسی ایجنڈوں اور نظریات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرتی آئی ہیں۔ جدید دور میں جملہ ذرائع ابلاغ (بشمول الیکٹرانک و پرنٹ اُور سوشل میڈیا) اپنے مفادات کے لئے کسی خاص شے (برانڈ) یا شخصیت یا سیاسی جماعت کو دوسروں سے بہتر (پرکشش) بنا کر پیش کرتا ہے۔ اِس طرزعمل کے باعث اختلافات کو فروغ ملتا ہے۔ علم رکھنے والے طبقات کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی کسی صورتحال میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ”علم“ کے ساتھ جڑے فرائض اُور ذمہ داریوں کو ادا کریں اُور کسی معاشرے کو اختلافات سے بچائیں۔ صرف علم کا فروغ ہی فرقہ پرستی (فرقہ واریت) کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تاویلات کی کثرت کو تاریخی حقیقت اُور مکمل علم سمجھنے کی بجائے‘ اگر علم کی تلاش علم ہی کے ذریعے کی جائے تو اِس سے مفید نتیجہ حاصل ہوگا۔ عموماً علم کی تلاش میں جہالت سے کام لیا جاتا ہے اُور جہل کی خصوصیت یہ ہے کہ اِسے جس قدر بھی ”کھنگالا“ جائے اِس سے سوائے تاریکی کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ علم کی شناخت یہ ہے کہ یہ فرقہ واریت (اختلافات) کم کرے گا۔ یہ معاشرے کو توڑنے کے لئے نہیں بلکہ اِسے جوڑنے کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔

انسان کی تشریح علم اُور علم کی تشریح انسان ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ایک دوسرے کی خوشنمائی کا باعث ہیں اُور اگر یہی ایک پہلو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بھی خاص دن‘ ہفتہ‘ عشرہ یا مہینہ ایسا نہیں ہو سکتا جب مختلف النظریات علمی دلائل کی وجہ سے معاشرے کو خطرات لاحق ہوں اُور ہر طرف سے امن‘ امن کی بلند ہوتی صدائیں سنائی دے رہی ہوں۔ مولانا جلال الدین‘ بلخی جلال الدین رومی المعروف مولانا رومی پیدائش 1207ءوفات 1273ءنے اپنے کلام ’مثنوی مولوی معنوی‘ میں علم کے تعمیری پہلوؤں اُور انسانی کردار جیسے تصورات کو نہایت ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ”تو برائے وصل کردن آمدی .... نے برائے فصل کردن آمدی (ترجمہ) اے انسان تیری تخلیق کا مقصد لوگوں کو آپس میں ملائے رکھنا ہے ناکہ تیری تخلیق کا مقصد انسانی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنا ہے۔“

نظریات اگر لچکدار‘ غیرجانبدار اُور تعمیروترقی کا باعث نہیں تو یہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن علم نہیں۔ اصول یہ ہے کہ غیر جانبدار نتائج تک پہنچنے کے لئے ان کا ممکنہ حد تک معروضی تجزیہ کیا جائے۔ دوسروں کے خیالات کو زیادہ توجہ (ہمدردی) سے سُنا جائے۔ سماجیات سے متعلق علم کا جدید پہلو یہ ہے کہ یہ ایک نقطہ نظر کی تخلیق‘ تعمیر اور تعمیر نو کا حاصل (نتیجہ) ہوتا ہے جس میں سیاق و سباق‘ اوقات اُور محرکات سے علم وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا تصور محدود نہیں رہا اُور اِس میں انسانی سماج کے ارتقا‘ اِس کی تاریخ و ثقافت اُور عقائد و نظریات کا مطالعہ بوساطت ’انٹرنیٹ‘ نسبتا آسان ہوگیا ہے تو وقت ہے کہ نوجوان (مرد و خواتین کے) ذہنوں کو مطالعے (کتب بینی) اُور علمی موضوعات پر بحث و مباحثے کی سہولت و ترغیب فراہم کی جائے۔ اس کے علاؤہ ”ادب (فنون لطیفہ)“ تک رسائی زیادہ وسیع اُور اِن کے معروضی مطالعے کو ممکن بنایا جائے۔ 

جدید تحقیقی مضامین جیسا کہ بشریات‘ سماجیات‘ نفسیات اور آثار قدیمہ توجہ طلب ہیں جن کے ذریعے ثقافتوں کا مطالعہ ممکن ہے اُور جب ہم دوسروں کی تاریخ و ثقافت کے مطالعے سے ”حصول ِعلم“ کا آغاز کریں گے تو یہی ’نافع (باعث نفع) عمل‘ ہوگا۔ علم کا سانس سُوال سے گھٹنا نہیں چاہئے بلکہ علم ساکت و جامد نہیں بلکہ مسلسل و جاری حقیقت ہے۔ اگر ہم غور و فکر اُور فکر و غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں اپنے ہی تصورات (پسند و ناپسند) نے گھیر رکھا ہے۔ علم کی بنیاد تنقید ہے اُور تنقیدی سوچ ہمیں اپنے آپ کو افلاطونی غاروں کے اندھیروں میں موجود تاریکی کی پرتوں میں گم اپنا آپ تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے۔ سوچنے کی گھڑی ہے کہ تاریخی شعور کی ہماری دیواروں پر اگر فرقہ وارانہ رنگوں سے گلکاریاں موجود ہیں تو ہمیں وقتی تعبیرات سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اور اپنی تاریخ‘ ثقافت‘ عقائد‘ طور طریقوں کو ہمیشہ متحرک‘ تعمیر و تعمیر نو کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ہمیں تاریخ کے ارتقا‘ خیالات‘ نظریات‘ عملی نمونوں اور نقطہ ہائے نظر کے ذخائر میں چھپے ہیرے بصورت تشریحات تلاش کرنی ہیں تاکہ معاشرے کو ایک دوسرے سے زیادہ قریب لایا جا سکے‘ جس کے لئے قرآن و سنت جیسی جامع رہنمائی اُور قرآن و سنت پر عمل کرنے والے رہنما (بطور مقلد و تقلید) موجود ہیں۔

....

Clipping from DailyAaj Peshawar July 24, 2022 Sunday


Wednesday, July 13, 2022

White Collar Criminals, Accountability & the Judicial System!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام (ناقابل اشاعت)

جرم کہانی: اِحتسابی ٹوٹکے

لوکل کونسل بورڈ صوبہ سرحد (حال خیبرپختونخوا) کے سیکرٹری (مالیاتی و انتظامی امور کے سربراہ) لائق خان نے (4 مئی 2002ءکے روز) اپنے آپ کو ’نیشنل اکاو¿نٹی بیلٹی بیورو (NAB)‘ حکام کے سامنے پیش کیا۔ اُن پر مالی بدعنوانی کے الزامات ہیں اُور وہ گرفتاری کے بچنے کے لئے جون سے 2000ءسے ’نیب‘ کو مطلوب تھے لیکن 2 سال روپوش رہے۔ اِس روپوشی کے دوران ’مارچ2002ء‘ میں لائق خان کے صاحبزادوں نے آخری مرتبہ ’پلئی بارگین (plea bargain)‘ کی درخواست کے ذریعے اپنے والد کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کی تاہم نیب حکام نے یہ کہتے ہوئے مذکورہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ قانون و قواعد کے مطابق صرف اُسی شخص کو ’پلئی بارگین (نیب کے ساتھ سودے بازی)‘ کا حق (موقع) دیا جاتا ہے جو زیرحراست ہو یعنی جس کا مقدمہ زیرسماعت ہو لیکن چونکہ لائق خان (عرصہ 2 سال سے) روپوش ہے اِس لئے اُن کے دامن پر لگا بدعنوانی کا داغ صرف قانونی کاروائی (حراست و مقدمے) ہی کے ذریعے دُھل سکتا ہے! ذہن نشین رہے کہ ’نیب قانون 1999ئ‘ کی شق (سیکشن) 9 اُور شق 10 کے تحت ’لائق خان‘ پر آمدنی سے زائد یعنی 5 کروڑ 30 لاکھ (53.2ملین) روپے اثاثہ جات رکھنے کا الزام عائد کیا گیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ صوابی کے گاؤں کوٹھہ (Kotha) سے تعلق رکھنے والے لائق خان ایک پیش امام کے بیٹے تھے اُور اُنہیں موروثی طور پر صرف 3 کنال 3 مرلہ اراضی ملی تھی۔ آپ 1957ءمیں ’ایگری کلچر اسسٹنٹ‘ کے عہدے پر بھرتی ہوئے۔ 1967ءمیں ’لوکل کونسل سروس‘ اختیار کی اُور 1988ءسے 1997ء(ریٹائرمنٹ) تک بطور ”سیکرٹری لوکل کونسل سروس‘ تعینات رہے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لائق خان نے مختلف شہروں میں جائیدادیں خریدیں اُور صرف حیات آباد پشاور میں آپ کے 38 پلاٹس (قطعات اراضی) ہیں‘ جن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ لائق خان پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے نام کے علاؤہ اپنی بیوی‘ بیٹوں‘ داماد اُور دیگر عزیزوں کے نام پر جائیدادیں خریدیں‘ جن میں سے ایک حاضر سروس عزیز ’لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ہی میں ’سب انجنیئر‘ کے عہدے پر تعینات ہے۔ اِس تفتیش (حقائق) کی روشنی میں لائق خان کے خلاف ”17 جون 2000ئ“ کے روز ’گرفتاری کے وارنٹ‘ جاری کئے گئے لیکن ’پراسرار‘ طریقے سے اُنہیں اپنے خلاف نیب کی تفتیش اُور گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی خبر ہو گئی اُور وہ روپوش ہو گئے! گرفتاری کے لئے (مبینہ طور پر) کئی مرتبہ کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی اُور بالآخر نیب عدالت نے 26جولائی 2000ءکے روز اُنہیں مفرور قرار دےدیا۔ 

نیب حکام نے لائق خان کے بیٹوں‘ داماد اُور رشتے دار کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا لیکن کوئی بھی حربہ کارگر نہ ہوا۔

 واضح ہوا کہ

پہلی بات: لائق خان پر آمدن سے زائد اراضی (اثاثہ جات) رکھنے کے ناقابل تردید ثبوت (جائیداد کی صورت) موجود ہیں۔

 دوسری بات: لائق خان اُور اِس کے شریک ِجرم کی ملکیت میں جائیداد کے علاو¿ہ بھی ممکنہ اثاثہ جات (اندرون و بیرون ملک بینک اکاؤنٹس‘ بینک لاکرز‘ زیورات‘ گاڑیاں‘ فرنیچر‘ گھروں کی آرائش و زیبائش) جیسے اثاثوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجوہات جلدبازی‘ ناکافی تفتیش اُور بدعنوانی کے ملزمان کے ساتھ ہمدردی و نرمی کا رویہ ہے۔

تیسری بات: اگر لائق خان روپوش اُور بعدازاں مفرور ہوا تو اُس کے شریک مجرم پکڑے جا سکتے تھے اُور یہی ’وعدہ معاف‘ گواہ بن کر ’بدعنوانی کی غضب کہانی‘ کے وہ تفصیلات بھی بیان کر دیتے جو نیب حکام کے وہم و گمان میں نہ ہوتیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا جس سے ’لائق خان‘ اُور اُن کے شریک مجرموں کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچتی۔

چوتھی بات: لائق خان کے کل اثاثہ جات (کی گئی بدعنوانی) کا تخمینہ پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ روپے لگایا گیا جبکہ صرف حیات آباد میں اُس کی ملکیت کے 38 پلاٹس کا ذکر کیا گیا اُور اگر اِن قطعات اراضی ہی کی مارکیٹ ویلیو دیکھی جائے تو یہ اربوں روپے بنتی ہے!

لائق خان کی جرم کہانی‘ اُن کی روپوشی‘ مفروری اُور مئی 2002ءمیں رضاکارانہ گرفتاری کے بعد سے آج تک (جولائی 2022ئ) تک کہانی (مقدمہ) جاری ہے لیکن ایک پیسے کی بھی بدعنوانی ثابت نہیں کی جا سکی کیونکہ لائق خان نے وہ سبھی ’ٹوٹکے‘ استعمال کئے ہیں‘ جن سے صرف نیب قانون ہی نہیں بلکہ عدالت بھی اُن کے سامنے ڈھیر ہے۔ آمدنی سے زائد اثاثہ جات کی صورت بدعنوانی کے ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود بھی قانون و ریاست ’لائق خان‘ اُور اِس شریک جرم ساتھیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اِس پوری ’جرم کہانی‘ کا ایک ”دلچسپ پہلو“ یہ بھی ہے کہ لائق خان کی جانب سے گرفتاری اُور عدالتی سماعتوں (زحمت) سے بچنے کے لئے ’پلئی بارگین‘ کی جو درخواستیں دی گئیں اُن پر بعدازاں نیب حکام نے فیصلہ کرتے ہوئے لوٹ مار سے جمع کردہ وسائل کی ایک خاص تناسب سے رضاکارانہ واپسی (جس کی قانون میں گنجائش (سقم) موجود ہے) پر تصفیہ کیا اُور ’لائق خان‘ کو کہا گیا کہ وہ مجموعی طورپر 68 لاکھ (6.815ملین) روپے جمع کروا دے اُور لائق خان نے یہ رقم قسط وار جمع کروانے کی حامی بھری اُور پہلی قسط کے طور پر23 لاکھ (2.317 ملین) روپے ادا کر کے ایک بڑے بوجھ سے رہائی پائی لیکن بعدازاں مکر گیا۔ اربوں کی بدعنوانی قریب ستر لاکھ روپے کے عوض ”معاف (جائز)“ کرنا کسی بھی صورت انصاف نہیں تھا لیکن یہی طرز ِانصاف پاکستان میں بدعنوانی کی جڑ (بنیادی مسئلہ) ہے۔ 

نیب سے سودے بازی ’تکنیکی ٹوٹکا‘ تھا اُور پہلی قسط (23لاکھ روپے) ادا کرنے کے بعد ’لائق خان‘ نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا اُور جسٹس مسرت ہلالی اُور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ

 1: وہ بدعنوان نہیں۔

2: نیب حکام نے زبردستی اُسے ’پلئی بارگین‘ پر مجبور کیا لہٰذا 

3: پلئی بارگین کی صورت نیب کی جانب سے اُس سے وصول کردہ 23 لاکھ (2.317ملین) روپے واپس دلائے جائیں اُور عدالت نے عیدالاضحی کی تعطیلات سے قبل (جولائی 2022ء) ’نیب حکام‘ کو حکم دیا کہ سات سال قبل (16 جنوری2015ءکے روز) ’لائق خان‘ سے جو رقم (23 لاکھ روپے) رضاکارانہ واپسی کے تحت وصول کئے گئے تھے وہ اُسے واپس کر دیئے جائیں! 

تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل‘ قانون کی عمل داری‘ قوانین کا اطلاق اُور خوف کس قدر کمزور ترین سطح پر ہیں اُور مذکورہ عرصے (دو دہائیوں) کے دوران بدعنوانی کے اِس ایک (مذکورہ) قضیے میں کس قدر حقائق و شواہد تبدیل کر دیئے گئے ہوں گے!

 لائق خان پاکستان میں ’کرپشن‘ کی واحد مثال یا اِس جاری سلسلے کی پوری کہانی نہیں بلکہ صرف ایک کردار ہے جبکہ اِس کی مثل کئی ایک کردار (ریٹائرڈ یا حاضر سروس سرکاری ملازمین) ہمارے اردگرد موجود ہیں جن کے لئے لائق خان کا مقدمہ اُور اِس مقدمے میں اب تک ہوئی پیشرفت ”حوصلہ اَفزا¿“ ہے کہ اگر کبھی اُن کے خلاف بھی اِحتساب کا قانون حرکت میں آیا‘ تب بھی یہی ’ٹوٹکے (کارگر مجرب نسخے)‘ پہلے سے موجود ملیں گے! ذہن نشین رہے کہ ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ نامی عالمی تنظیم کی جانب سے سال 2022ءکے لئے جاری کردہ جدول کے مطابق ”بدعنوان ترین 180 ممالک میں پاکستان 140ویں منصب پر فائز ہے جبکہ سال 2021ءمیں پاکستان 124ویں نمبر پر تھا یعنی ایک سال (12ماہ) کے دوران پاکستان میں بدعنوانی 16درجے بڑھی ہے!

....


Sunday, July 3, 2022

Fish market of Peshawar

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : مچھلی منڈی

شہری زندگی کے دکھ سکھ شمار کئے جائیں تو پشاور کے اندرون شہر گنجان آباد علاقوں کا المیہ یہ سامنے آئے گا کہ یہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔ انسداد تجاوزات سے لیکر تعمیروترقی تک‘ ہر نیت‘ عزم اُور کوشش کا ایک جیسا مایوس کن نتیجہ سامنے آتا ہے اُور اگر اِس بات پر یقین نہ آئے تو سال 1900ءمیں تعمیر ہونے والے ’گھنٹہ گھر‘ کے اطراف میں دیکھتے ہی دیکھتے قائم ہونے والی ’مچھلی منڈی‘ سے پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کو دیکھا جا سکتا ہے جو بدبو‘ گندگی‘ کیچڑ اُور تجاوزات کا باعث ہے۔ ویسے تو یار لوگ پورے پشاور ہی کو ’مچھلی منڈی‘ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقتاً گھنٹہ گھر بازار کی مچھلی منڈی شہر سے باہر منتقل ہونی چاہئے کیونکہ چند برس پہلے تک گھنٹہ گھر بازار کے مقام پر مچھلی فروشوں کی چند ایک دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ تھوک (ہول سیل) منڈی کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا نصف کاروبار فٹ پاتھ پر اُور باقی ہتھ ریڑھیوں کی صورت گھنٹہ گھر سے چوک یادگار تک پھیلا ہوا ہے‘ ظاہر ہے کہ اِس قدر لاقانونیت کے درپردہ بدعنوانی چھپی ہوئی ہے‘ ورنہ کسی کی جرات نہیں ہو سکتی کہ کسی دور دراز ضلع سے پشاور وارد ہو کر یہاں کے بازاروں پر قبضہ کر لے!

 کون نہیں جانتا کہ مچھلی فروشوں نے دکانوں کو گوداموں میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں دن کے آغاز پر مچھلی کی نیلامی‘ دن کے وسط میں مچھلی کی فروخت اُور دن کے اختتام پر تلی (ڈیپ فرائی) مچھلی ملتی ہے۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے گھنٹہ گھر سے ملحقہ بازار (ثقافتی راہداری) کو سیاحوں کے لئے پرکشش بنانے کے جامع منصوبے پر ’60 کروڑ‘ جیسی خطیر رقم خرچ کی لیکن یہ ساری کی ساری کوشش رائیگاں ہو چکی ہے اُور مچھلی فروشوں سمیت گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک دکاندار فٹ پاتھ ہڑپ کر چکے ہیں جبکہ سڑک کے دونوں اطراف پر آٹو رکشاؤں کی اجارہ داری رہتی ہے اُور اِس درمیان ہتھ ریڑھیاں‘ کار پارکنگ اُور بھیک مانگنے والوں کے جھتے آمدورفت کو ناممکن حد تک دشوار بناتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک دھویں کے بادل بھی یہاں کی نشانی بن چکے ہیں۔

پشاور کی ثقافتی راہداری کیا ہے؟

 اِس منصوبے پر کل کتنی لاگت آئی؟ اُور اِسے کیوں بنایا گیا؟

 اگر عام آدمی (ہم عوام) اِن سوالات کے جوابات جان لیں تو اُمید ہے کہ اہل پشاور ’ثقافتی راہداری‘ ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر شے اُور ہر خوبی کی حفاظت کریں گے۔ گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری (ہیٹریج ٹرائل پراجیکٹ) منصوبے کا سنگ بنیاد سات دسمبر 2017ءکے روز رکھا گیا اُور اِس قریب نصف کلومیٹر رہداری میں گورگٹھڑی کے مغربی دروازے سے گھنٹہ گھر تک 40مکانات کو اصل حالت میں بحال کیا گیا جبکہ ایسی 87 عمارتیں جو جدید فن تعمیر کے مطابق بنائی گئیں تھیں اُنہیں تاریخی شکل و صورت دی گئی اُور یہ سارا کام ’اقوام متحدہ‘ کے وضع کردہ تاریخی عمارتوں کی مرمت‘ بحالی و تحفظ کے اصولوں کے مطابق کیا گیا اُور اِس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ مذکورہ ثقافتی راہداری میں شامل ہر عمارت اُور ہر شے کم سے کم 100 سال پرانی دکھائی دے۔ اِسی ثقافتی راہداری منصوبے میں سیٹھی ہاؤس کی بحالی و مرمت بھی مکمل کی گئی جو محکمۂ آثار قدیمہ کی ملکیت میں سال 2006ءسے تھا اُور یہ مکان 1850ءسے 1884ءکے درمیان تعمیر ہوا تھا۔ اِس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 51 کروڑ (513ملین) روپے تھے جب کہ اِس کی تکمیل تک 70 کروڑ 70 لاکھ (707ملین) روپے خرچ ہو چکے تھے کیونکہ ثقافتی راہداری میں بعدازاں سیٹھی ہاو¿س کی بحالی کو بھی شامل کر لیا گیا اُور اِس ساری کوشش کا مقصد ’پشاور کے پرکشش سیاحتی مقامات میں اضافہ اُور ملکی و غیرملکی سیاحوں کو پشاور کی جانب متوجہ کرنا تھا تاکہ سیاحت کے فروغ سے ملکی و مقامی معیشت کو سہارا دیا جا سکے لیکن ثقافتی راہداری سے جڑا کوئی ایک بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

چند بنیادی سوالات کا جواب کون دے گا؟

1: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری کسے سونپی جانی چاہئے؟

 2: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک راہداری ہر قسم کی ٹریفک کے ممنوع قرار دی گئی تھی تاہم تاجروں کے دباؤپر اِسے پہلے یک طرفہ ٹریفک کے لئے کھولا گیا اُور بعدازاں ٹریفک یک طرفہ نہیں رہی بلکہ انتہائی بے ہنگم صورت اختیار کر چکی ہے۔ ٹریفک پولیس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے ثقافتی راہداری کے داخلی و خارجی راستوں پر آہنی رکاوٹیں کھڑی کیں اُور نگرانی کے لئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے بھی نصب کر رکھے ہیں لیکن اِس کے باوجود یک طرفہ ٹریفک کے لئے نصب آلات تک چوری کر لئے گئے۔ ثقافتی راہداری بنانے پر قومی خزانے سے اخراجات کئے گئے اُور اِسے قدیم تعمیراتی شکل و صورت دینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں کی سیر کے لئے آنے والے پشاور کی بودوباش اُور یہاں کے قیام و طعام سے متعلق اچھی یادیں اپنے ساتھ لیکر جائیں لیکن اِس مقصد کا حصول ’منظم ٹریفک‘ کی صورت ممکن ہے جس کے لئے پشاور ٹریفک پولیس کے ایک ایک اہلکار کو اِس کے داخلی‘ خارجی اُور وسطی مقام پر تعینات ہونا چاہئے۔ اگر ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز پورے پشاور کی ٹریفک کو درست نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک کلومیٹر کے علاقے ہی میں ٹریفک کو مثالی شکل و صورت دے سکتے ہیں اُور یہ پولیس کے بااختیار فیصلہ سازوں کی ذہانت و فرض شناسی امتحان (آزمائش) ہے۔

3: ”والڈ سٹی اتھارٹی“ کے نام سے ایک جامع منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے‘ جس پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔

4: ثقافتی راہداری کی تعمیر کا کام محکمۂ آثار قدیمہ کے ذریعے مکمل کروایا گیا جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق اِس کی نوک پلک سنواری لیکن اِس کے بعد کوئی بھی حکومتی ادارہ اِس ذمہ داری کو تن تنہا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت کو ’ٹاؤن ون‘ کی حدود میں اِس ثقافتی راہداری کا نگران و منتظم مقرر کیا جائے تاکہ کروڑوں روپے کی اِس تعمیر کو نقصان پہنچانے اُور اِس کے اثاثے چوری کرنے والوں نمٹا جا سکے۔

5: ثقافتی راہداری سے متصل تجارتی مراکز اُور بازاروں کی الگ الگ تاجر و دکاندار تنظیمیں موجود ہیں‘ جنہیں اِس راہداری کی حفاظت و خوبصورتی کے عمل میں شریک بنایا جا سکتا ہے۔ دکاندار دن کے اختتام اُور دن کے آغاز پر گندگی پھیلاتے ہیں جسے رش کے باعث سارا دن نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ دکاندار صفائی ستھرائی اُور پانی جیسی سہولیات سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن وہ اِن خدمات کے عوض معمولی (واجبی) ماہانہ فیس ادا نہیں کر رہے تو اِس سلسلے میں ٹاؤن ون کے منتخب بلدیاتی نمائندے ثقافتی راہداری اُور اِس کے اطراف میں فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں کے لئے خطرہ بنے عوامل کا ۔

 6: ثقافتی راہداری سے متصل رہائشی علاقوں کے مکینوں سے نمائندہ افراد کو نگران و انتظامی کمیٹی کا حصہ بنایا جائے‘ جن کی آمدروفت اُور معمولات ِزندگی شہری و رہائشی علاقوں کے درمیان ختم ہوتی تمیز و تفریق کے باعث شدید متاثر ہے لیکن اُن کی فریاد سننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ وقت ہے کہ پشاور شہر کے وسائل پر اغیار کے تصرف کو قواعد پر بلاامتیاز و سخت ترین عمل درآمد سے کم کیا جائے۔

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar 03 July 2022 Sunday

Zarf e Nigha Logo