Sunday, September 29, 2019

TRANSLATION: Cut Corporate Tax by Dr. Farrukh Saleem

Cut corporate tax
کاروباری ٹیکس اور معیشت!

سوال: کیا وزیراعظم عمران خان پاکستان کی معاشی اِصلاح کر سکیں گے؟ جواب: عمران خان میں یہ صلاحیت بدرجہ¿ اتم موجود ہے کہ وہ جس چیز کا وعدہ کریں اُسے عملاً کر بھی دکھائیں۔ ایسا کیوں نہ ہو آخر یہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جن کے ذاتی و سیاسی اہداف اور قومی اہداف ایک دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں وضاحت پیش ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور سرفہرست دشمن ’بیروزگاری‘ ہے جس کے کئی محرکات ہیں۔
گاڑیاں: اگست 2018ء میں 15 ہزار 389 نئی گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جبکہ اگست 2019ءمیں 9 ہزار 126 نئی گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ یوں ایک سال کے عرصے میں گاڑیوں کی فروخت میں 40 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ کرولا (ٹیوٹا) گاڑیوں کی فروخت میں 58فیصد‘ ہونڈا (سوک) گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد اُور سوزوکی (ویگنور) کی فروخت میں 71 فیصد کمی آئی ہے۔ ہنڈا‘ انڈس اُور سوزوکی نامی موٹر ساز صنعتیں 10 ہزار ملازمتیں فراہم کرتی ہیں اور ایسی ہر براہ راست ملازمت کے ساتھ 8 دیگر ملازمتیں جڑی ہوتی ہیں یعنی کاروباری سرگرمیوں سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے اداروں کی بات کریں تو مجموعی طور پر اِس صنعت سے 80 ہزار افراد ملازمتیں وابستہ ہیں اور یوں 5 لاکھ 36 ہزار افراد کی کفالت ہو رہی ہے کیونکہ 80 ہزار افراد 6.7 افراد فی خاندان کے تناسب سے اوسط خاندان تشکیل دیتے ہیں۔

ٹرک: جولائی اگست 2018ءمیں 1 ہزار 199 نئے ٹرک فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 648 نئے ٹرک فروخت ہوئے اور یوں ٹرکوں کی فروخت میں ایک سال کے دوران 46فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہی صورتحال بسوں کی بھی ہے کہ جولائی اگست 2018ءمیں کل217 نئی بسیں فروخت ہوئیں جبکہ جولائی اگست 2019ءکے دوران 160 بسیں فروخت ہوئیں اور یوں 26فیصد کم بسیں فروخت ہوئی ہیں۔

ٹریکٹرز: جولائی اگست 2018ءکے دوران 7 ہزار 831 ٹریکٹر فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 5 ہزار 592 نئے ٹریکٹر فروخت ہوئے جو ٹریکٹروں کی فروخت میں 29فیصد کمی کا اشارہ ہے۔ مالی سال 2018ءکے مقابلے 2019ءمیں موٹرسائیکلوں کی فروخت میں بھی 13فیصد کمی آئی ہے۔ سال 2019ءکے دوران 24 لاکھ موٹرسائیکل فروخت ہوئے اُور سیلز میں اِس کمی کی وجہ سے 15فیصد مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت اِن اُور دیگر صنعتوں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔

فیصل آباد میں کپڑوں پر نقش و نگار بنانے کی صنعت جسے ایمبریڈیری (embroidery) کہا جاتا ہے مشکل دور سے گزر رہی ہے اور قریب المرگ ہے اُور اگر حکومت نے خاطرخواہ توجہ نہ دی تو اندیشہ ہے کہ اِس صنعت سے وابستہ 2 لاکھ افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے۔ جولائی اگست 2018ءکے درمیان 17 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا جبکہ جولائی اگست 2019ءمیں 9 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا ہے جو 46فیصد کمی ہے۔ اِس کے علاوہ بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے جو قبل ازیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ قائداعظم یونیورسٹی‘ سندھ یونیورسٹی اور سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی نے بینکوں سے قرض لیکر ملازمین بشمول اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات ادا کئے ہیں۔

جولائی اگست 2018ءمیں پاکستان نے 2.2 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ جولائی 2019ءمیں 2.3 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اِس سلسلے میں دو اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستانی سے ٹیکسٹائل برآمدات میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کرنٹ اکاونٹ کے خسارے میں کمی آئی ہے۔

پاکستان کی معیشت سے متعلق سب سے بڑی اور بُری خبر یہ ہے کہ سینکڑوں ہزار کی تعداد میں ملازمتیں کم ہوئی ہیں اُور صرف ایک ہی برس میں لاکھوں افراد کا بیروزگار ہونا نیک شگون نہیں۔ اس کے علاو¿ہ تحریک انصاف حکومت کے دور میں پچاس لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔

اِس صورتحال میں حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟
بھارت نے کاروباری و صنعتی اداروں پر ٹیکس کی شرح میں 10فیصد کمی کی تاکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ نہ ہو۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تاکہ معاشی تنگدستی کے موجودہ حالات سے نکل سکے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کاروباری و صنعتی اداروں پر عائد ٹیکس کی شرح دنیا کی بلند ترین ہے۔ اِس کے علاو¿ہ حکومت کو شرح سود میں بھی کمی لانی چاہئے تاکہ سرمایہ کاروبار‘ تجارت اور صنعتوں میں لگایا جائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ پاکستان حکومت کی سب سے بڑی اور پہلی ترجیح روزگار کے مواقعوں کا تحفظ اور روزگار کے مواقعوں (امکانات) میں اضافہ ہونا چاہئے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, September 22, 2019

TRANSLATION: Incidents by Dr. Farrukh Saleem

Incidents
واقعات
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اُور بنیادی ضروریات سے متعلق دیگر اخراجات نے متوسط طبقات کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے سراپا فریاد ہیں کہ اُن کی آمدن میں ہر دن کمی لیکن اُن کے اخراجات (مالی بوجھ) میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ذاتی تجربے اور چند انفرادی مثالوں سے صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلا واقعہ: خشک میوہ جات فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ماضی قریب (آٹھ ماہ قبل) میں اُس کی یومیہ فروخت کا حجم 2 لاکھ روپے تھا جو کم ہو کر 70 ہزار روپے ہو چکا ہے اُور یہ کمی 65فیصد ہے۔

دوسرا واقعہ: پانچ ستارہ ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں کے ایک ملازم نے توجہ دلائی کہ اُس کے گھر کا بجلی بل 6 ہزار روپے آیا ہے جبکہ اُسے تنخواہ کے علاو ¿ہ بخشش کے طور پر جو رقم ملا کرتی تھی اُس میں انتہائی تباہ کن (غیرمعمولی) کمی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے اُسے آئندہ ماہ بچے کی سکول فیس یا بجلی کے بل میں سے کسی ایک ذمہ داری کی ادائیگی کا انتخاب کرنا ہوگا۔

تیسرا واقعہ: ہوٹل سے نکلتے ہوئے ایک اُور ملازم نے اپنی روداد سے آگاہ کیا کہ اُس کی ماہانہ تنخواہ 22 ہزار روپے ہے جبکہ اُس کے گھر کا بل 5ہزار 900 روپے آیا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ یقینا تمہارے گھر برقی آلات زیادہ ہوں گے تو اُس نے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ گھر میں صرف دو پنکھے‘ ایک فریج اُور چند ٹیوب لائٹس ہیں۔ میں گھر والوں کو ہفتے میں صرف دو دن بجلی کی استری استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ اِس شخص کی آمدنی اور بجلی کے بل کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کل آمدنی کا 25فیصد کس طرح بجلی کی قیمت ادا کرنے کے لئے دے سکتا ہے؟

چوتھا واقعہ: حجام سے ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا کہ اُس کا کاروبار مندی کا شکار ہے جبکہ اُس کے بجلی کا ماہانہ بل 9 ہزار روپے آیا ہے۔ میں پوچھا کہ کیا لوگوں نے بال کٹوانے چھوڑ دیئے ہیں‘ جس پر اُس نے کہا کہ نہیں لیکن اب وہ زیادہ وقفہ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہر چار یا پانچ ہفتے (ایک ماہ) میں بال کٹواتا تھا تو اب اُس نے ہیرکٹ آٹھ سے دس ہفتے (دو ماہ) بعد کروانا شروع کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے اکثر حجاموں کے کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جبکہ دوسری طرف بجلی کے بل 100 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ آمدن میں کمی اُور یوٹیلٹی بلز و مہنگائی کا مسئلہ اُن کاروباری و ملازمت پیشہ افراد کے لئے زیادہ سنگین ہے‘ جو مشترک خاندان (جائنٹ فیملی سسٹم) کی صورت رہتے ہیں۔

پانچواں واقعہ: گاڑیاں دھلوانے والے (سروس اسٹیشن) اُور گاڑیوں کی مرمت کرنے والے (کار مکینک) نے بھی اپنی کاروباری آمدنی میں کمی اُور اخراجات میں اضافے کی جانب یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی کہ ماضی کے مقابلے اب ہر روز اوسطاً 3 سے 4 گاڑیاں دھلائی (سروس) کے لئے آتی ہے‘ جو نہایت ہی کم تعداد ہے اُور اِتنی کم تعداد میں گاڑیوں کی سروس کرنے سے حاصل ہونے والی کل آمدنی سے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کاروباری حضرات نے اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنا شروع کر دی ہے۔

چھٹا واقعہ: فوٹوکاپی (Photo-copy) کرنے والا ایک دکاندار جو عرصہ دس برس سے اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہا ہے‘ تعلیمی لحاظ سے اکاونٹنٹ ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ کاروبار میں 50فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے اُس نے اپنے سات میں سے چار ملازمین کو فارغ کردیا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی آمدن و اخراجات میں توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا۔

ساتواں واقعہ: شہر کی ایک سرمایہ دار بستی میں ایک گوشت فروخت کرنے والے (قصاب) نے بھی اپنے کاروبار میں کمی کی داستان مختلف انداز میں سنائی کہ گوشت کے خریدار اب بھی آتے ہیں لیکن اُنہوں نے گوشت کی کم مقدار خریدنا شروع کر دی ہے۔

لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیاں زوال پذیر ہیں۔ آمدن و اخراجات میں توازن برقرار رکھنا ہر دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹے بڑے کاروباری اداروں اُور انفرادی طور پر بزنس کرنے والوں کے منافع میں غیرمعمولی شرح سے کمی آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کمی لانے کے لئے حکومت کو خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Monday, September 16, 2019

Smaha Jahangir - a girl with camera eye!

کیمرے کی آنکھ!

فوٹوگرافی (عکاسی) کے ذریعے تخلیقی صلاحیتوں کا اِظہار ممکن ہے اُور فنون لطیفہ میں شمار ہونے والا یہی ذریعہ (میڈیم اُور مضمون) گردوپیش سے متعلق کسی فوٹوگرافر (عکاس) کی سوچ کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں ’فن فوٹوگرافی‘ انتہائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی ماضی کے مقابلے کہیں گنا زیادہ اُور معیار کے لحاظ سے بہترین انداز میں ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب غیرملکی فوٹو نیوز ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار عکاس‘ جنہیں پاکستان سے متعلق صحافتی فوٹوگرافی (Photojournalism) کی ذمہ داریاں (assignments) دی جاتی تھیں وہ دیگر موضوعات جیسا کہ روزمرہ معمولات زندگی اور پاکستان کے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن ڈیجیٹل فوٹوگرافی (Digital Photography) کے کم قیمت اور باآسانی دستیاب آلات نے تو گویا انقلاب برپا کر دیا ہے اُور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اب تو ہر موبائل فون رکھنے والے کی جیب میں ایک عدد کیمرہ (camera) سما گیا ہے! اُور اگر ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ تخلیقی صلاحیت اُور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی جرات و حوصلے پر مبنی ’بہادری‘ دکھانے کی ہے۔

یاد رہے کہ 1975ءمیں ایسٹ مین کوڈک (Kodak) نامی کمپنی کے 24 سالہ انجنیئر اسٹیون ساسن (Steven Sasson) نے ’ڈیجیٹل فوٹوگرافی‘ ایجاد کی تھی اُور ’ایسٹ مین کوڈک‘ نامی کمپنی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس نے دنیا کو پہلا ڈیجیٹل کیمرہ دیا‘ جس کی آجکل ایسی ترقی یافتہ اشکال دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کیمرے کسی منظر سے منعکس ہونے والی روشنی اور اُس کی تفصیلات کی ایک سکینڈ سے بھی کم لمحے میں جانچ کر کے ازخود (automatically) درست تصویر (exposure) کا انتخاب کر لیتا ہے اُور کیمروں کی اِنہی صلاحیتوں کی وجہ سے فوٹوگرافی ہر دن پہلے سے زیادہ نکھری نکھری اُور آسان سے آسان تر ہوتی جا رہی ہے۔

 تصویر بنانا مشکل نہیں رہا لیکن اِس فن کو سمجھنا مشکل نہیں تو محنت و توجہ طلب ضرور ہے۔ موبائل ہو یا کسی بھی قسم کا کیمرہ‘ اُس پر لگے ایک خاص بٹن کو دبانے (click) سے تصویر تو بن سکتی ہے لیکن اِس تصویر میں مقصدیت ہی کسی عکاس کو کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے اُور یہ ایک ایسا نادر موقع ہے جس سے یقینا ہر کوئی فائدہ اُٹھانا چاہے گا‘ بالخصوص موبائل فون اُور سوشل میڈیا کا امتزاج کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ دنیا منتظر و طلبگار ہے کہ کوئی کیمرے کی آنکھ سے اپنے گردوپیش میں دیکھنے کی اچھوتی کوشش کرے۔ خوش آئند ہے کہ عکاسی کے عالمی منظرنامے میں پاکستان ’غیرمانوس نام‘ نہیں رہا۔

اکتوبر 2017ءمیں جب جاپان کی معروف کیمرہ ساز کمپنی نیکون (Nikon) نے نئے ماڈل کا کیمرہ (D-850) متعارف کروایا تو اُس کے تجرباتی استعمال (فوٹوشوٹ) کے لئے دنیا کے بہترین اور معروف فوٹوگرافروں کو جاپان طلب کیا گیا‘ جہاں اُنہوں نے اپنی اپنی مہارت اُور صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اِن میں پاکستان سے فیشن فوٹوگرافر ’ٹپو جویری (Tapu Javeri)‘ بھی شامل تھے اُور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک جیسے آلات اُور ایک جیسے حالات میں کام کرتے ہوئے ’ٹپو جویری‘ نے مدمقابل غیرملکی فوٹوگرافروں کو حیران بلکہ پریشان کیا! ’ٹپو جویری‘ تو ایک پیشہ ور عکاس ہیں‘ جن کا اُوڑھنا‘ بچھونا ہی عکاسی ہے لیکن آج ہمیں ایسی خواتین بالخصوص طالبات ملتی ہیں جنہوں نے عکاسی کے عمل کو شوق و ذوق کی تسکین کے لئے اپنایا اُور پھر اِس میدان میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ’24 سالہ‘ سماحہ جہانگیر (Smaha Jahangir) ایسی ہی ایک عکاس ہیں‘ رواں ماہ (ستمبر دوہزار اُنیس) اُن کی بنائی ہوئی ایک تصویر معروف عالمی میگزین ’نیشنل جیوگرافک‘ میں شائع ہوئی ہے‘ جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اُور دنیا میں دستاویزی فوٹوگرافی کا مستند ادارہ ہے۔ اِس اعزاز کی وجہ سے سماحہ جہانگیر دنیا کے لئے اجنبی نہیں رہیں۔ آپ اُن 10 پاکستانی خواتین میں بھی شامل ہیں‘ جو سوشل میڈیا کی وساطت سے عالمی منظرنامے پر پاکستان کا حوالہ (پہچان) ہیں۔ سماحہ جہانگیر (@fictionography) کے علاوہ خدیجہ ابتسام (@kibtisam)‘ ندا علوی (@nidalvi_)‘ مہ حور جمال (@mahoorjamal)‘ عظیمہ الیاس (@_zeemee)‘ نتاشا خان (@natty.a.khan)‘ آنیہ (@anniyah._)‘ نوال مظہر (@i.nawalmazhar)‘ توبا اُور اقصیٰ(@thenerdtwins)‘ عایزہ حماد (@aiza_Hammad) کے نام کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ اِس مرحلہ فکر پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف وہی عکاس بہترین (کامیاب) نہیں ہوتے کہ جن کی تصاویر کسی عالمی میگزین میں شائع ہوں بلکہ وہ سبھی مردوخواتین جو عکاسی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ اُن کی محنت‘ جذبے‘ لگن‘جنون اُور سب سے بڑھ کر الگ سوچنے کے انداز کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ بظاہر عمومی دکھائی دینے والا ہنر‘ عکاسی کسی بھی طرح معمولی نہیں بلکہ اِس کے لئے اُس ’اَن دیکھے‘ کی تلاش کرنا پڑتی ہے‘ جو سب کو یکساں اور برابر دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن کسی عکاس کی آنکھ ہی اُسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیتی ہے!

 کسی عکاس سے پوچھیں تو کہے گا کہ فوٹوگرافی کے لئے آپ کو جدید کیمرے‘ ٹرائی پوڈ‘ کیمرہ بیگ‘ عدسوں کی ضرورت ہے لیکن اِن بیش قیمت آلات کی ضرورت صرف اُسی صورت ہوتی ہے جبکہ فوٹوگرافی کو بطور کاروبار (پیشہ) شروع کرنا مقصود ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گردوپیش میں خوبیوں اور خوبصورتیوں کو تلاش کرنے کے لئے آلات سے زیادہ ’ژرف نگاہی‘ اُور سوچ (deep-thinking) چاہئے ہوتی ہے۔

سماجی و صحافتی موضوعات ہوں یا سیاحتی مقامات کی دلفریبی کو قید کرنا‘ اِس کام کے لئے کیمرے کے علاوہ جن 3 چیزوں کی اِنتہائی اَشد اُور ناگزیر ضرورت ہوتی ہے وہ صبر‘ تحمل اُور برداشت ہیں۔ عمومی غلطی یہی کی جاتی ہے کہ اندھا دھند تصاویر (clicks) کرنے کو فوٹوگرافی سمجھا جاتا ہے کہ چلو کوئی ایک تصویر تو اچھی آ ہی جائے گی ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن یہ حربہ ہر وقت کارگر ثابت نہیں ہوگا‘ جب تک کہ کسی بظاہر بے جان اُور خاموش تصویر کے قالب سے روشنی اُور خیالات بولتے دکھائی نہ دیں۔ رنگوں کو بات کرنی چاہئے اُور باتوں سے خوشبو وہ اضافی خصوصیت ہے‘ جو کسی تصویر کو خاص بلکہ بہت خاص بنا سکتی ہے۔
...
https://www.instagram.com/fictionography/
https://twitter.com/smahajahangir



Sunday, September 15, 2019

KP all set to Reform the Education sector with dress code!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

تعلیمی اِصلاحات:
پہلا قدم (بڑا فیصلہ)!


خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی اِصلاحات‘ کے جاری سلسلے میں غوروخوض کا عمل دخل سطحی ہونے کے باعث سست روی کا شکار ہے جس سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ اب تک ہوئے قابل ذکر اقدامات میں سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے پر کم لیکن درسگاہوں کی تعداد میں اِضافے پر زیادہ توجہ دی گئی جو اپنی جگہ ایک الگ ضرورت تھی۔

کسی ایسے سکول کا تصور بھی بھلا کیسے کیا جا سکتا ہے جس میں بنیادی سہولیات (چاردیواری‘ کمرے‘ بجلی‘ پینے کے پانی‘ بیت اِلخلائ‘ سیکورٹی اِنتظامات اُور طلبہ کی تعداد کے مطابق تدریسی عملہ) تعینات نہ ہو۔ تحریک انصاف مبارکباد کی مستحق ہے جس نے اَساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیومیٹرکس نظام سے استفادہ‘ چھاپہ مار ٹیموں کی تشکیل‘ محکمانہ ترقی کو اساتذہ کی کارکردگی (امتحانی نتائج) سے مشروط کرنے‘ نصابی کتب کے علاوہ دیگر ضروریات بھی مفت فراہمی‘ نصاب تعلیم پر نظرثانی اُور سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم طلبہ کے لئے مراعات (وظائف) جیسے غیرمعمولی اقدامات کئے‘ جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ اگرچہ اِن سبھی کوششوں سے سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار اُس سطح تک بلند نہیں ہو سکا‘ جہاں تسلی کا اظہار کیا جا سکے لیکن حکومتی کوششوں سے اُبھرنے والا ’خیبرپختونخوا کا تدریسی منظرنامہ‘ ماضی سے بہت مختلف اُور نکھرا نکھرا دکھائی دے رہا ہے۔

تصور کیجئے کہ کسی صوبے میں سب سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے والا ’محکمہ تعلیم‘ میں اب ماضی کی طرح اساتذہ کی بھرتیاں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں ہوتیں۔ تدریسی و غیرتدریسی ملازمتیں ’برائے فروخت‘ نہیں اُور اساتذہ کی بھرتیوں و تعیناتیوں میں قواعدوضوابط پر اِس قدر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے کہ خود اراکین اسمبلی اُور صوبائی کابینہ کے اراکین چاہتے ہوئے بھی عزیزواقارب یا منظورنظر افراد کو بھرتی نہیں کر سکتے لیکن اِن سبھی گرانقدر اقدامات کے باوجود سکولوں سے باہر (out-of-school) بچے بچیوں کو تدریسی عمل کا حصہ بنانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے‘ جس کے لئے فیصلہ سازوں نے پہلی مرتبہ والدین کے تحفظات دور کرنے پر توجہ دی ہے۔ وہ والدین جو باوجود خواہش بھی‘ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے‘ اُن کے تحفظات کو سنجیدگی سے سُنا اُور سمجھا گیا ہے کہ کس طرح سماجی برائیاں اُور مسائل معاشرے میں اِس حد تک پھیل چکے ہیں کہ والدین نے اپنے بچے بچیوں کو سکول نہ بھیجنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ قدرے تاخیر سے سہی لیکن بالآخر صوبائی فیصلہ سازوں نے ایسے سبھی منفی محرکات (رکاوٹوں) کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جن کے باعث بالخصوص بچیوں (لڑکیوں) کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اِس مقصد کے لئے بچیوں کے سکول جانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتے ہوئے پہلا قدم (بڑا فیصلہ) ضلع ہری پور میں سامنے آیا ہے جہاں سرکاری تعلیمی اِداروں میں بچیوں کے لئے حجاب اُور عبایہ پہننے کو ’سکول یونیفارم‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ حجاب سر اُور چہرے کو ڈھانپنے کے استعمال ہوتا ہے جبکہ عبایا پورے لباس کے اُوپر اُوڑھ لیا جاتا ہے‘ جس سے جسم کی تراش خراش ظاہر نہیں ہوتی۔ سکول یونیفارم کی پابندی برقرار رہے گی لیکن ’ضلع ہری پور‘ کے تمام سرکاری سکولوں کے لئے آمدورفت میں طالبات حجاب اُور عبایا کا استعمال کریں گی۔ اِس سلسلے میں جب صوبائی وزیر تعلیم ’ضیاءاللہ بنگش‘ سے بذریعہ واٹس ایپ (What's App) رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے قریب 2منٹ کے صوتی پیغام میں جواباً اِس فیصلے سے متعلق جن امور کی وضاحت کی‘ اُن سے سکول یونیفارم میں اضافے پر اعتراض کرنے (اُنگلیاں اُٹھانے) والوں کی تسلی و تشفی ہو جانی چاہئے۔

حجاب اُور عبایہ کو یونیفارم کی طرح لازماً استعمال کرنے والوں کے عمومی اعتراضات یہ ہیں 1: خیبرپختونخوا حکومت ’طالبان طرز حکمرانی‘ کو فروغ دے رہی ہے! 2: پردے سے متعلق شرعی قواعد پر ’سخت گیر‘ عمل درآمد سے تنگ نظری پھیلے گی۔ معاشرہ اِنتہاءپسندی کی طرف راغب ہوگا اُور 3: اِس سے عالمی سطح پر پاکستانی معاشرے سے متعلق منفی تاثر اُبھر کر سامنے آئے گا۔ صوبائی حکومت اِن سبھی اعتراضات کو رد کرتے ہوئے مصر ہے کہ حجاب اُور عبایا سے سکولوں میں بچیوں کا داخلہ بڑھے گا۔

رواں ہفتے کی اہم خبر قرار دی جاسکتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں طالبات کے لئے حجاب اُور عبایا کا استعمال لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضلع ’ہری پور‘ سے ہوئی ابتداءسے متعلق صوبائی وزیر تعلیم ضیاءاللہ بنگش کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سرکاری سکولوں میں بچوں کو داخل کرنے کی مہم (enrollment-drive) کا آغاز کیا گیا‘ تاہم اِس مرتبہ فیصلہ سازی کرتے ہوئے اُن والدین کے تحفظات کو پیش نظر رکھا گیا ہے جو گردوپیش میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی سے پریشان تھے اُور جو دیگر ایسے سماجی برائیوں (مسائل) کی وجہ سے اپنے بچے بچیوں کو تعلیمی اداروں میں نہ بھیجنے کا فیصلہ کئے بیٹھے تھے۔“

برسرزمین حقائق متقاضی ہیں کہ تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو روائتی انداز میں زبانی کلامی بیانات کی بجائے عملی اقدامات سے دور کیا جاتا۔ اِس سلسلے میں محکمہ ¿ تعلیم پہلے ہی ہر ضلع میں بچے اُور بچیوں کے لئے الگ الگ نگرانوں کو خصوصی اختیارات دے چکی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے میں مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات (فیصلے) کریں۔

ضلع ہری پور کی نگران (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر‘ ڈی اِی اُو) برائے خواتین (فی میل)‘ محترمہ ثمینہ الطاف نے پیش قدمی کرتے ہوئے حجاب اُور عبایا کے لازمی استعمال سے متعلق اعلامیہ (حکمنامہ) جاری کیا‘ جو صوبائی وزارت تعلیم کے فیصلہ سازوں کے علم میں تھا اُور صوبائی وزیر نے ’ڈی اِی اُو‘ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اِس اقدام کو صوبے کے دیگر حصوں میں وسعت دینے کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سماجی سطح پر برائیاں اِس حد تک پھیل چکی ہیں تو زیادہ بڑی تعداد میں لڑکیاں تو نجی اداروں میں زیرتعلیم ہیں‘ جہاں اُنہیں اُور اُن کے والدین یا سکولوں کی انتظامیہ کو آمدورفت میں حائل سماجی برائیوں جیسی مشکلات کا سامنا نہیں تو آخر کیا وجہ ہے صرف سرکاری تعلیمی ادارے ہی نشانے پر ہیں؟ علاو ¿ہ ازیں حجاب اُور عبایا کا اطلاق نجی تعلیمی اداروں پر بھی ہوگا یا ہونا چاہئے؟

شک و شبے اُور مزید تحقیق سے بالاتر حقیقت ہے کہ تعلیم سے زیادہ اہم کوئی دوسری ضرورت نہیں بالخصوص خیبرپختونخوا کے تناظر میں شرح خواندگی میں اضافے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح معاشرے میں عمومی و خصوصی جرائم کی موجودگی بھی اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے‘ جس کی وجہ سے تعلیم جیسی خوبی سے نئی نسل محروم ہو رہی ہے۔ صوبائی حکومت کو اِس بارے میں بھی غور کرنا چاہئے کہ کسی ایک ضلع (ہری پور) میں اگر نوجوانوں میں بے راہ روی اِس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہاں بچیوں کا گھروں سے نکلنا تک محال ہو چکا ہے تو اِس بیماری کا علاج بھی ضروری ہے اُور صرف مرض کی علامات ہی نہیں بلکہ اِس کی وجوہات کا قلع قمع کرنے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہیئں کیونکہ اگر بچیوں کو حجاب اُور عبایا پہنا بھی دیئے جائیں‘ پھر بھی گھر سے سکول تک کے سفر میں اُنہیں لاحق ’مبینہ خطرات‘ موجود رہیں گے۔

سگریٹ (تمباکو) نوشی کے نت نئے انداز (چلم شیشہ محافل)‘ چرس (Hashish)‘ پوڈر (Diamorphine)‘ اُور الکوحل (Ethanol) کے بعد اب آئس (Crystal Methamphetamine) نامی نشے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ کیبل نیٹ ورکس‘ انٹرنیٹ اُور چوبیس گھنٹے بیدار و مادر پدر آزاد سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے! بیروزگاری کی بلند شرح‘ فنی علوم سے ناآشنائی اُور مزید تعلیم کے مواقعوں کی کمی کے باعث نوجوانوں صحت مند اور بامقصد سرگرمیوں سے الگ ہیں! کیا اِن سبھی محرکات پر غور کرتے ہوئے فیصلہ ساز اپنی ذمہ داریوں کا ازسرنو تعین کریں گے؟

کیا ہم اُس مقام پر نہیں آ پہنچے جہاں قانون نافذ کرنے والوں کی سرزنش ہونی چاہئے‘ جن کی کارکردگی اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اب بچے بچیوں کی تعلیم کا حرج ہونے لگا ہے! فیصلہ سازوں کو کسی ایک زاویئے کی بجائے صورتحال کے بارے مختلف پہلووں سے سوچنا چاہئے کہ اگر حجاب اُور عبایا (سکول یونیفارم میں اضافے) جیسے اقدامات بھی کارگر ثابت نہ ہوئے تو کیا صوبائی حکومت طالبات کو سکول لانے لیجانے (تحفظ فراہم کرنے) کے لئے بکتر بند گاڑیوں کا بندوبست کرے گی!؟
............

Ten questions by Dr. Farrukh Saleem

Ten questions
دس سوالات

پہلا سوال: گزشتہ چالیس برس میں بلند ترین ’بجٹ خسارے‘ پر قابو پانے کے لئے حکومت کس قدر سادگی اختیار کرنے کے لئے تیار ہے؟ بہت سے ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ ’بجٹ خسارہ‘ ہی پاکستان کی مالیاتی مشکلات کی بنیادی جڑ ہے۔
آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ پاکستان کی کل خام پیداوار (آمدنی) کے تناسب سے بجٹ خسارہ 8.9 فیصد جیسی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے؟ آخر ہم اِس حالت پر کس طرح پہنچے ہیں کہ حکومت کا خرچ اِس کی آمدنی سے 3.4 کھرب روپے زیادہ ہو چکا ہے؟ ذہن نشین رہے کہ قومی آمدنی کے مقابلے بنگلہ دیش کا بجٹ خسارہ 5 فیصد جبکہ بھارت کا 3.4 فیصد جبکہ پاکستان کا 8.9 فیصد ہے!

دوسرا سوال: کم آمدنی کے باوجود اخراجات میں خاطرخواہ کمی نہ کرنے کی وجہ سے حکومت کو قرض لینے پڑتے ہیں تو قرض لینے کا بظاہر سادہ و آسان طریقہ پاکستان کی قومی خزانے اُور یہاں کی تعمیروترقی کو لے ڈوبا ہے۔ فی الوقت پاکستان کا قومی قرض اِس کی کل قومی آمدنی سے زیادہ ہے یعنی 104 فیصد تک پہنچ چکا ہے یعنی پاکستان کی آمدنی تو 100 روپے ہے لیکن اِسے 104 روپے قرضوں اُور اُن پر سود کی ادائیگی کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ کیا حکومت کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ 100 روپے آمدنی میں سے 104 روپے واجب الاداءمالیاتی ذمہ داریاں اَدا کرے؟

پاکستان تحریک انصاف نے اگست 2018ءمیں وفاقی حکومت بنائی‘ جس کے ایک ماہ بعد (ستمبر 2018ئ) میں پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے قرضوں کا حجم 80فیصد تھا لیکن پھر تحریک اِنصاف نے قرض لئے اُور صرف 9 ماہ میں یہ شرح بڑھ کر 104 فیصد تک پہنچ گئی۔ آخر یہ کس قسم کا مالیاتی نظم و ضبط اُور دانشوری ہے کہ آمدنی سے زائد مالیاتی ذمہ داریاں بڑھا لی گئی ہیں!

تیسرا سوال: تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ادارہ جاتی اصلاحات کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے اِس بات کا اندازہ سرکاری اداروں کے خسارے کو دیکھتے ہوئے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو سالانہ 2.1 کھرب روپے جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے۔ سرکاری اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) کے مالی نظم و ضبط کی اصلاح وقت کی ضرورت ہے اُور اِس میں معلوم خرابیوں کو ترجیحی بنیادوں پر دور کرنا چاہئے۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ آخر سرکاری محکمے 2 کھرب روپے سالانہ کے حساب سے قومی خزانے پر بوجھ کیوں ہیں؟ ستمبر 2018ءمیں‘ جب تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ایک ماہ کا عرصہ گزرا تھا‘ سرکاری اداروں کا سالانہ خسارہ 1.359 کھرب روپے تھا جو ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا 3.5 فیصد بنتا تھا یعنی پاکستان اپنی قومی آمدنی کا ساڑھے تین فیصد حصہ سرکاری اداروں کے خسارے کی نذر کر رہا تھا لیکن اِس میں ایک سال کے دوران کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب سرکاری محکموں کا خسارہ 2.1 کھرب روپے یعنی مجموعی قومی آمدنی کا 5.5 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ماضی کے مقابلے موجودہ حکومت کے دور میں سرکاری محکموں کا خسارہ بڑھا ہے!

چوتھا سوال: پاکستان کا قومی قرض (واجب الاداءمالیاتی ذمہ داریاں) 40 کھرب روپے تک جا پہنچی ہیں‘ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے 5 سالہ دور (2008ءسے 2013ئ) کے دوران حکومت نے 10کھرب روپے کے قرض لئے اُور ملک پر قرضوں کے حجم 6 کھرب روپے کو 16 کھرب روپے پر پہنچا دیا۔ اِس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا دور حکومت (2013ءسے 2018ئ) کے دوران 14 کھرب روپے کے قرض لئے گئے جس سے قومی قرضوں کا حجم 16 کھرب روپے سے 30کھرب روپے ہو گیا۔ تحریک انصاف نے ایک سال کے دوران قومی قرضوں میں 10 کھرب روپے کا اضافہ کیا جبکہ پیپلزپارٹی کو یہ کام کرنے میں پانچ سال لگے تھے!

پانچواں سوال: موجودہ حکومت نے پاکستان میں تیار یا پیدا ہونے والی مصنوعات سے متعلق سالانہ برآمدی ہدف 28 ارب ڈالر رکھا تھا لیکن یہ ہدف 20فیصد کم حاصل ہوا ہے۔ کیا ہدف کا تعین کرنے میں غلطی کی گئی یا ہدف کے حصول سے متعلق حکمت عملی خاطرخواہ کامیاب نہیں رہی؟

چھٹا سوال: پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں 25فیصد کمی آنے کی وجہ کیا ہے؟

ساتواں سوال: پاکستان میں سیمینٹ کی مانگ میں 50فیصد کمی کی وجہ کیا ہے؟

آٹھواں سوال: موجودہ حکومت کی ایک سالہ مدت کے دوران پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت 50فیصد کم کیوں ہوئی ہے؟
نواں سوال: نجی شعبہ (صنعتیں اور کاروباری طبقات) بینکوں سے قرض کیوں نہیں لے رہے۔ گذشتہ 2 ماہ کے دوران بینکوں سے قرض لینے میں 85 ارب روپے کی کمی دیکھنے میں کیوں آئی ہے؟

دسواں سوال: حکومت مہنگائی کو ضبط (کنٹرول) کرنے کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

وزیراعظم عمران خان مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ عمران خان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اُسے ضرور پورا کرتے ہیں لیکن اب تک تحریک انصاف کے تمام فیصلوں‘ ارادوں اُور بیانات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے ایسے ساتھی (ٹیم) نہیں مل رہی جو اُن کی رفتار سے سوچے اُور اُن کے جیسے اصلاحاتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھائے۔ کسی ٹیم کے کپتان کے لئے تن تنہا ہر محاذ پر مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن جب تک اُس کے ساتھی (ٹیم کے دیگر اراکین) اُس جیسا قربانی اور جنون پر مبنی جذبے کا عملی مظاہرہ نہ کریں۔ اگر ٹیم کے اراکین بشمول کپتان کے ارادے مضبوط ہیں لیکن اُن میں ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت کم ہے تو اِس سے بھی پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے جن کی شدت میں ہر دن ’غیرمعمولی اضافہ‘ ہو رہا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, September 7, 2019

Saving Graveyards of Peshawar is possible through (delayed) Computerization of Land Record

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
سات محرم الحرام چودہ سو اکتالیس ہجری
سات ستمبر دورہزار اُنیس عیسوی
۔۔۔
قبرستان: لینڈ ریکارڈ!
۔۔۔
پشاور کے وقف اُور یہاں کی مقامی اَقوام و برادریوں کے لئے مختص و مخصوص قبرستانوں کی بیشتر اراضی قبضہ ہو چکی ہے‘ جہاں تعمیرات کو ’تجاوزات‘ قرار دے کر علامتی طور پر مسمار تو کیا جاتا ہے لیکن قبضہ کرنے والوں کے خلاف ایسی سخت قانونی کاروائی نہیں کی جاتی‘ جس کی وجہ وہ نشان عبرت بن جائیں اُور دوسرے اِس قسم کی قانون شکنی سے گریز کریں۔

اراضی کی نوعیت کے اعتبار سے پشاور کے قبرستان بنیادی طور پر 2 قسم کے ہیں۔ پہلی قسم ’وقف‘ قطعات پر بنے قبرستانوں ہے‘ جس کا ملکیت اُور ریکارڈ محکمہ اُوقاف کے پاس محفوظ و زیرنگرانی ہے۔ یہ قطعات قیام پاکستان سے سینکڑوں برس قبل اہل پشاور کے آباو و اجداد نے اپنی جانب سے قبرستانوں کے لئے وقف کئے تھے۔ دوسری قسم کے قبرستان وہ ہیں جو اِس وقف اراضی کے بیچوں بیچ یا متصل واقع ہیں اُور انہیں قوم برادری نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ اِن دونوں اقسام کے قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہو رہی ہے۔ حیران کن اَمر یہ بھی ہے کہ جب عدالتی کاروائی کا مرحلہ آئے تو محکمہ اوقاف کا جھکاو بھی اُسی منظم مافیا کے پلڑے میں رہتا ہے‘ جس کی پشت پناہی کرنے والوں میں سیاسی و غیرسیاسی حکمران اُور سب سے بڑھ کر سرمائے کا عمل دخل ہے۔ ناقابل یقین حقیقت یہ بھی ہے کہ ملکیتی قبرستانوں کی اراضی بے نامی (شاملات) ظاہر کر کے اُن کے انتقالات کئے جاتے رہے ہیں اور سلسلہ اب زیادہ تیزی سے جاری ہے کیونکہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے قبضہ مافیا زیادہ سے زیادہ اراضی اپنے نام منتقل کرنا چاہتا ہے۔

قانون شکنی کھلے عام ہو رہی ہے۔ قبضہ مافیا کے اراکین قبرستان کے کسی منتخب حصے کا پٹوارخانے کی مدد سے انتقال حاصل کر رہے ہیں اور یہ منظم دھندا اب بھی جاری ہے بلکہ اِس میں وقت کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

آخر پٹوار خانے کے اختیارات اُور کارکردگی کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟

آخر قبرستانوں کی اراضی کے اِنتقالات کا جائزہ لینے کے لئے عدالتی تحقیقات (جوڈیشل انکوائری) کیوں ممکن نہیں؟

قبرستان کی اَراضی قبضہ کرنے والوں کے دست راست قبرکند اُور خود ساختہ چوکیدار بھی ہیں‘ جنہوں نے قبرستانوں کی اراضی پر مکانات اُور دکانیں تعمیر کر کے اپنے کاروبار پھیلا رکھے ہیں۔ یہ دونوں کردار (قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار) قبروں کی کھدائی‘ قبر کے لئے جگہ کے انتخاب‘ قبر کی تعمیرومرمت‘ تدفین کے لئے ضروری سازوسامان کی فروختاُور قبروں کے لئے کتبوں کی لکھائی جیسی خدمات منہ مانگے معاوضے کے عوض فراہم کرتے ہیں۔ اگر صوبائی اُور ضلعی حکومت قبرستانوں کی اراضی بچانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اِسے ’قبر کندوں‘ کی رجسٹریشن اُور قبرستانوں کے خودساختہ چوکیداروں کی رجسٹریشن کرنا ہوگی‘ جو بذات خود بھی قبرستانوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ قبرکند اُور خودساختہ چوکیدار قبرستانوں کے قبضہ مافیا کو اِس طریقے سے مدد فراہم کرتے ہیں کہ انہیں اُن قبروں کے بارے میں علم ہوتا ہے جن کے رشتے دار سالہا سال سے فاتحہ کے لئے نہیں آتے۔ ایسی قبروں کی نشاندہی کر کے اُنہیں مسمار کرنے والوں کی مدد کی جاتی ہے اُور یوں قبرستانوں میں خود رو جھاڑیوں کی طرح رہائشی مکانات پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں وہ سب ممکن ہے‘ جس کا ایک وقت تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلاءسے بنائی گئی تصاویر پر مبنی گوگل میپ (Google Map) کے پلیٹ فارم سے اِسے وسائل مفت دستیاب ہیں‘ جنہیں کمپیوٹروں اور موبائل فونز کے مدد سے بذریعہ انٹرنیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے اُور اِن نقشوں کی مدد سے قبرستانوں کی اراضی مخصوص (mark) کی جا سکتی ہے۔ اِس عمل (Geo-Fencing) کی بنیاد پر پنجاب کی صوبائی حکومت پہلے ہی پٹوارخانے کا بیشتر ریکارڈ (land-record) کمپیوٹرائزڈ کر چکی ہے؟ خیبرپختونخوا کی اِنتظامی تقسیم سات ڈویژنوں اُور پینتیس اضلاع پر مشتمل ہے اِن میں بنوں (3)‘ ڈیرہ اسماعیل خان (3)‘ ہزارہ (8)‘ کوہاٹ (5)‘ مردان(2)‘ مالاکنڈ(9) اُور پشاور ڈویژن کے 5 پانچ اضلاع کی کل آبادی اُور رقبہ پنجاب سے کم ہونے کے باوجود یہاں کمپیوٹرائزیشن ایک معمہ (جوئے شیر لانے کے مترادف ناممکن) بنا ہوا ہے‘ آخر کیوں؟

تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں میں ایک وعدہ ’اِی گورننس‘ بھی متعارف کروانا تھا جس پر عمل درآمد کی رفتار سست نہیں بلکہ تیز ہونی چاہیئے۔

پچیس جنوری 2019ءکے روز خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا‘ اِس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم خان جھگڑا‘ صوبائی وزیر برائے ریونیو اینڈ اسٹیٹ شکیل احمد خان‘ رکن صوبائی اسمبلی مصور خان اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی جنہوں نے فیصلہ کیا کہ کمپیوٹرائزیشن کا عمل مرحلہ وار آگے بڑھایا جائے اُور پہلے مرحلے میں سات اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ اگر صوبائی وزراءاپنی اپنی وزارتوں کا ریکارڈ چیک کرتے تو اُنہیں معلوم ہوتا کہ ماضی میں بھی اِس قسم کی اعلانات ہو چکے ہیں اُور خود تحریک انصاف حکومت ہی کے پہلے دور (2018-2013) کے دوران چوبیس دسمبر 2014ءکو اِسی قسم کے مرحلہ وار لینڈ کمپیوٹرائزیشن منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا‘ جس کے لئے پشاور‘ مردان‘ اِیبٹ آباد اُور ڈی آئی خان کا اِنتخاب کیا گیا۔ ابتدائی (ڈیٹا انٹری) فوری طور پر شروع ہونے کی نوید سنائی گئی ‘جس کے بعد کوہاٹ بنوں اُور بونیر کے اضلاع کے لئے بھی نجی کمپنیوں (M/S Systems Ltd & Deloitte) سے معاہدے کئے گئے لیکن مذکورہ حکمت عملی منطقی انجام تک نہیں پہنچائی گئی اُور ایک مرتبہ پھر نئے عزم سے لینڈریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے!

ایک لالی پاپ ہضم نہیں ہوا کہ دوسرا تھما دیا گیا ہے!
یہاں سوال یہ نہیں کہ ماضی میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل کیوں مکمل نہیں ہو سکا لیکن پیش نظر رہنا چاہئے ماضی میں اِس مقصد کے لئے کروڑوںروپے کے جو آلات خریدے گئے وہ کہاں گئے اُور مزید کروڑوں کی خریداری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یادش بخیر 28 اپریل 2014ءکے روز اُس وقت کے صوبائی وزیر برائے ریونیو سردار علی امین خان گنڈا پور نے ’لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن‘ کے لئے نجی کمپنی سے معاہدے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں آئندہ لینڈ ریکارڈ کی آئندہ 3 برس میں کمپیوٹرائز کر دیا جائے گا۔“ کیا ایسا ہو سکا اگر نہیں تو حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے۔
یہ بات باعث حیرانگی نہیں کہ کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں پٹوار خانے تعاون نہیں کر رہے لیکن ماضی کی طرح ہر کوشش ناکام ثابت ہو گی اگر حائل رکاوٹیں دور کرنے میں عوامی مفاد کو پیش نظر نہ رکھا گیا!

تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت (2013-2018ئ) نے پورے دھوم دھام سے خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع کی لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا اعلان کیا تھا‘ مذکورہ منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ 6.8 ارب لگایا گیا لیکن اعلان کرنے کے بعد اِس مد میں صرف 42 کروڑ 73 لاکھ 67 ہزار روپے جاری کئے گئے‘ جو منصوبے کی کل لاگت کا بمشکل 7 فیصد تھا۔ دوسری طرف حکمت عملی یہ تھی کہ کمپیوٹرائزیشن دو مراحل میں مکمل کی جائے لیکن جاری کئے گئے فنڈز ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات اور آلات کی خریداری کی نذر ہو گئے!

حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سب سے پہلے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی بات 2012ءمیں کی گئی جب اُس وقت کی صوبائی حکومت نے سات اضلاع بشمول پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈیرہ اسماعیل خان کا انتخاب کیا اِس پہلے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 1.245 ارب روپے تھا‘ جو 2016-17ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن 2013-14ءسے جاری کام مکمل نہیں ہو سکا اُور تحریک انصاف کے بعد پھر تحریک انصاف ہی کی حکومت نے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کو مزید 12اضلاع بشمول چارسدہ‘ نوشہرہ‘ صوابی‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ سوات‘ شانگلہ‘ کرک‘ ہنگو‘ لکی مروت اُور ٹانک تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس دوسرے مرحلے پر لاگت کا تخمینہ 5.561 ارب روپے لگایا گیا‘ جسے 2017-18ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن کام جاری تھا‘ جاری ہے اُور اِس کی رفتار دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کمپیوٹرائزیشن کا یہ کام یونہی جاری رہے گا۔
........


Friday, September 6, 2019

Graveyards of Peshawar in danger!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
قبرستان: شریک جرم حکمران!

جنوب مشرق اِیشیاءکے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ میں قبرستانوں کی اَراضی نہایت ہی منظم اَنداز میں قبضہ ہو رہی ہے اُور یہ سلسلہ وفاقی حکمراں پیپلزپارٹی کی صوبائی اتحادی پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے دور حکومت (2008ءسے 2103ئ) میں زیادہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔

پشاور کے انتخابی حلقوں میں اکثریت (ووٹ بینک) بنانے کے لئے ’اے این پی‘ نے قبرستانوں کی سیاسی جس کے خلاف اہل پشاور نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے بھی رجوع کیا اُور پشاور کے حق میں عدالت کا یہ فیصلہ موجود ہے کہ قبرستانوں میں تجاوزات کی اراضی تجاوز واگزار کرائی جائے اور مزید تجاوزات نہ ہونے دی جائے۔ عوامی دباو کارگر (فتح یاب) ثابت ہوا۔

جون 2011ءمیں ’قبرستان بچاو تحریک‘ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے اراکین (مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں) نے قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کے ساتھ ’پریس کلب‘ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اُور قدیمی ’رحمان بابا قبرستان‘ میں ہونے والی تجاوزات کے خلاف صوبائی حکومت و ضلعی انتظامیہ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی۔ اِس موقع پر تحریک کی جانب سے قبرستانوں کی اراضی پر بننے والے رہائشی بستیوں اُور کاروباری مراکز کی جاری تعمیرات سے متعلق مدعا مو ¿ثر انداز میں اُجاگر کرتے ہوئے یہ اعدادوشمار بھی جاری کئے گئے کہ .... ”پشاور کے ’رحمان بابا قبرستان‘ کا کل رقبہ جو کبھی ’198 ایکڑ‘ ہوا کرتا تھا ’74 ایکڑ‘ رہ گیا ہے اُور قبرستان تجاوزات کے باعث کم سے کم ’ایک ارب روپے‘ سے زائد کی اراضی قبضہ کی جا چکی ہے لیکن اِس ”عوامی توجہ دلاو ¿ نوٹس“ کا بھی خاطرخواہ نوٹس نہیں لیا گیا اُور سال 2011ءسے 2019ءکے درمیانی عرصے میں بھی تجاوزات کا سلسلہ جوں کا توں جاری رہا‘ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ رحمان بابا قبرستان کا رقبہ (اندازاً) 50 ایکڑ ہی باقی بچا ہے اُور یہ صورتحال اِس لئے بھی توجہ (غور) طلب ہے کہ باقی ماندہ قبرستان کی اراضی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے‘ جسے گلی کوچوں کی تعمیر‘ ٹیوب ویل‘ سکول‘ مساجد‘ کیمونٹی سنٹرز (حجروں) اُور ضلعی حکومت کے دفاتر قائم کرنے کے لئے مختص کر لیا جائے گا۔ پشاور کے دیگر اثاثوں کی طرح قبرستانوں کی اراضی ’مال مفت‘ ہے‘ جس کے رہے سہے ٹکڑے قبضہ کرنے ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہو گئے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی رکھنے والے عناصر‘ متعلقہ پولیس تھانہ جات اُور پٹوار خانے کی ملی بھگت سے راتوں رات نہیں بلکہ دن دیہاڑے بھی قبرستان کی اراضی قبضہ کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔

آج کے پشاور میں ’قانون شکنی‘ جرم نہیں رہا۔
قانون شکنوں کو کسی کا خوف نہیں اُور صوبائی و ضلعی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی کا خاص نکتہ یہ ہے کہ اِن میں سے کسی کا بھی آبائی قبرستان پشاور میں نہیں‘ اِس لئے اگر رحمان بابا سمیت پشاور کے تمام قبرستانوں کی اراضی بھی قبضہ کر لی جائے تو اِنہیں کچھ فرق نہیں پڑے گا اُور نہ ہی ’قبرستان قبضہ مافیا‘ کو کھلی چھوٹ دینے والے شریک جرم حکمرانوں کو ضمیر نامی کوئی شے جھنجھوڑ رہی ہے!
رواں ہفتے (یکم سے چار ستمبر کے درمیان) پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ’ہزارخوانی قبرستان‘ میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا اُور اِس فیصلے پر ’نمائشی طور پر عمل‘ کرتے ہوئے 15 سے زائد غیرقانونی تعمیرات مسمار کرنے جیسی بڑی کامیابی حاصل کرنے دعویٰ کیا ہے۔ قومی تمغہ برائے ’حسن کارکردگی‘ کے زمرے میں شمار ہونے والی یہ کاروائی ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ٹاون ون آصف اقبال کی قیادت میں سرانجام پائی‘ جن کے بقول .... ”تجاوزات مافیا کو کئی بار نوٹس جاری کئے گئے لیکن اُن پر اثر نہیں ہو رہا تھا۔“ جس کے بعد ڈپٹی کمشنر پشاور محمد علی اصغر کی تائید و منظوری سے کی گئی کاروائی سے قبل پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی‘ جنگ کا سماں بنایا گیا لیکن اِس پوری کاروائی میں نہ تو کسی نے مزاحمت کی اُور نہ ہی کارسرکار میں مداخلت کے جرم میں کوئی ایک بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ کیا جن چودہ تجاوزات کو منہدم کیا گیا‘ وہ جنات نے تعمیر کی تھیں کہ جن کا اتہ پتہ معلوم نہ ہو سکا؟ اگر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مقامی تھانے ہی سے پوچھ لیں تو تجاوز کرنے والے ہر شخص کا نام بمعہ ولدیت و شناختی کارڈ اُور موبائل نمبر اب بھی حاصل کر سکتے ہیں‘ جن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے قبروں کو توڑ پھوڑ کر خستہ کیا جاتا ہے۔ راتوں رات سنگ مرمر کے کتبے (اگر ہوں) تو غائب کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر اُن قبروں پر گندگی ڈھیر (انبار) کی صورت ڈال دی جاتی ہے۔ چند روز بعد ضلعی انتظامیہ ہی کے اہلکاروں کی مٹھی گرم کر کے گندگی اٹھوائی جاتی ہے جس کے ساتھ قبر پر ڈھیر کی صورت مٹی اور اِس کے باقی ماندہ آثار زمین بوس (ہموار) کر دیئے جاتے ہیں۔ اِس کے بعد ہفتہ وار یا مسلسل کئی روز سرکاری تعطیلات کا انتظار کیا جاتا ہے‘ جب غیرمعیاری تعمیر کرتے ہوئے تیار چھتوں کے استعمال سے مکان اور دکانیں تعمیر کر لی جاتی ہیں۔ قبرستانوں کی اراضی پر بننے والے مکانات زیادہ تر کرائے پر دیئے جاتے ہیں اُور قبضہ مافیا چند ہزار روپے کے عوض تعمیر ہونے والے اِن مکان سے ماہانہ کرایہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ اِسی بھتے کی رقم سے عام انتخابات میں ووٹوں کی خریداری اُور دیگر اخراجات اَدا ہوتے ہیں!

قومی وسائل اُور سیاسی و بلدیاتی انتخابات لوٹنے پر استوار اِس طرزِ عمل و حکمرانی کے باعث پشاور اُس حقیقی قیادت سے محروم ہو گئی ہے‘ جس کا جینا‘ مرنا یہاں کی مٹی اُور پشاور سے وابستہ ہے! جن اغیار کے ہاتھوں پشاور کے بزرگوں کی ہڈیاں اُور اُن کی آخری نشانیاں تک محفوظ نہیں اُن سے کس طرح توقع کی
جاسکتی ہے کہ وہ یہاں کی تعمیروترقی (مفاد) کے بارے سوچیں گے!؟
قصور اَپنوں کا بھی ہے۔
بے پرواہی اُور خاموشی علاج غم نہیں‘ ترک ہونی چاہئے۔
اہل پشاور کو اپنے زندہ ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت دینا ہوگا کیونکہ یہاں کا صرف ’شہر خموشاں‘ ہی ’فتح‘ نہیں کر لیا گیا بلکہ ”حملہ آور“ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر نشانی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وقت ہے کہ اہل پشاور ثابت کریں کہ وہ زندہ اُور فکرمند ہیں۔ اپنے آباواجداد کی آخری آرامگاہوں کی حفاظت کے بارے میں متحدہ لائحہ عمل کی تشکیل میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ یقینا بہت دیر ہو چکی ہے لیکن نقصان کے تخمینے اُور پشیمانی کے اظہار سے زیادہ غلطی کی اِصلاح ضروری ہے۔
...


Tuesday, September 3, 2019

The ideologists - a reflection of Iranian revolution!

از ایبٹ آباد‘ بروز منگل
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
تین محرم الحرام چودہ سو اکتالیس ہجری
تین ستمبر دوہزار اُنیس عیسوی
....
....مشت خوں یادگار ہے میرا ....

’انقلاب اسلامی (1979)‘ کے ظہورپذیر ہونے کے بعد پاکستان میں بھی بیداری کی لہر اُٹھی۔ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں بالخصوص شیعہ اثنائے عشریہ (فقہ جعفریہ) سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی باکردار اُٹھے‘ جنہوں نے بانی ¿ انقلاب اِمام خمینی رحمة اللہ علیہ کی صورت میں صرف ایران ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لئے ایک نجات دہندہ کا روپ دیکھا اُور یہیں سے اُنہوں نے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ وہ انقلاب کے شانہ بشانہ چلے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں کہلانے والے طاغوت و استعمار کے سامنے انقلاب کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے اُور جانی و مالی قربانیوں کے ذریعے ثابت کیا کہ کسی انقلاب کا حقیقی ثمر ایسے ہی جانباز ہوتے ہیں جو خطروں کو خاطر میں نہیں لاتے اُور پشاور کو فخر ہونا چاہئے کہ اِس سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی سرفروشوں نے اپنے وسائل و توانائیاں (دام‘ درہمے‘ سخنے) انقلاب اسلامی ایران کے لئے وقف کیں۔

انقلاب اسلامی کے پیغام اور مقصد کی ترویج و اشاعت (سرپرستی) اُور حفاظت کے لئے پشاور میں 2 ایرانی اداروں کا بنیادی کردار رہا ہے‘ جن میں سے ایک ثقافتی مرکز (خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران) اُور دوسرا سفارتی مرکز (قونصل جنرل جمہوری اسلامی ایران) کے دفاتر ہیں۔ یہ دونوں ایرانی مراکز انقلاب اسلامی سے قبل قائم ہوئے تاہم انقلاب کے بعد اِن کی انتظامیہ تبدیل ہوئی اُور اُمید تھی کہ ایران امتیازات کو ختم کرنے کے لئے جس انقلاب کو دنیا میں متعارف کروا رہا ہے‘ اُس کی عملی مثالیں خود ایرانی سفارتکاروں کے کردار سے چھلکیں گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ پشاور میں ایران حکومت کے مذکورہ دونوں دفاتر میں تعینات پاکستانی اہلکاروں اگرچہ شکایت نہیں کرتے لیکن اُن کے حالات دیکھ کر اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اِن پاکستانیوں سے دوران ملازمت اُور بعدازملازمت ہمدردی کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا اُور نہ ہی اُن کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کیا جاتا ہے بلکہ ملازمتوں سے برخاست کرنے یا کسی اہلکار کے شہادت کے بعد اُس کے اہل خانہ کی ازخود خاطرخواہ مالی امداد بھی نہیں کی جاتی۔ یہ امتیازی سلوک کی حقیقی مثالیں ناقابل بیان اور ناقابل یقین ہیں! اِس سلسلے میں ایران کے ثقافتی مرکز اُور قونصل خانے کا موقف جاننے کے لئے الگ الگ رابطہ کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ہے اُور متعلقہ ایرانی حکام اِس بارے میں کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے معذرت کر رہے ہیں۔

پشاور میں تعینات ایران کے سفارتی اہلکاروں کا پاکستانی ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق صرف 2 مثالوں کے ذکر پر اکتفا کیا جائے گا۔ پہلی مثال 55سالہ (خلدآشیاں) سیّد ابوالحسن جعفری کی ہے‘ جنہیں نومبر 2009ءکی ایک صبح گھر سے دفتر جاتے ہوئے انتہائی ماہر نشانہ بازوں نے قتل کر دیا جبکہ کوئی 9ملی میٹر کی ایک بھی گولی خطا نہیں گئی۔

خوش لباس و خوش گفتار‘ نرم خو‘ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک‘ ابوالحسن نہ صرف پشاور قونصل خانے کے ترجمان تھے بلکہ پاکستان میں ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی آمد جیسے اہم مواقعوں پر بھی ترجمانی و مترجم کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے لیکن ابوالحسن کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان میں ایرانی سفارتکاروں کے قریب تھے جن کو نشانہ بنانے کے ذریعے ایرانی حکام کو اپنی آمدورفت محدود کرنے کا پیغام دیا گیا۔ اَبواَلحسن ایک روشن خیال شخص تھا لیکن وہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔ دوسری مثال رواں برس (دوہزاراُنیس) کی ہے۔

چند روز قبل جب پشاور میں ایران کے ثقافتی مرکز جانے کا اتفاق ہوا اُور استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ترجمان و مترجم اُور فارسی زبان کے معلم جیسے اہم عہدوں پر (ایک تنخواہ میں) متعدد خدمات سرانجام دینے والے سیّد غیور حسین سے اب شرف ملاقات نہیں ہو سکے گی! آپ جامعہ پشاور کے شعبہ فارسی اور خانہ فرہنگ میں فارسی زبان کی تدریس کرنے کے علاو ¿ہ علمی ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں اُور آپ کی گرانقدر علمی تحقیقات سے ایک زمانہ آج بھی استفادہ کر رہا ہے۔ سیّد غیور حسین کو کئی عالمی سیمیناروں میں پاکستان کی نمائندگی اُور اِس خطے میں بزرگان دین کے کلام و خدمات بارے اپنی تحقیق پیش کرنے کا موقع ملا اُور انہوں نے عالمی سطح پر اپنے علم و دانشوری کا لوہا منوایا لیکن افسوس کہ اگر اُن کی قدر کسی نے نہیں کی تو خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران پشاور نے‘ اِس ہیرے جیسے شخص کی اہمیت کو نہیں سمجھا اُور اُنہیں بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کر دیا گیا جبکہ وہ بزرگی کے عالم میں اِس قابل بھی نہیں کہ کسی دوسرے شعبے میں محنت مزدوری کر کے اہل خانہ کی کفالت کر سکیں۔

تصور کیجئے کہ .... جن افراد نے اپنی ساری زندگیاں‘ اپنے وسائل اور نوجوانیاں ایران کے انقلاب اُور اُس کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں صرف کیں۔ جنہوں نے فارسی زبان کو زندہ رکھنے اور ایران کے سیاسی و مذہبی اثرورسوخ کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لئے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والوں اُور ایران کے درمیان ایک ’پُل (bridge)‘ کا کردار ادا کیا لیکن ایسے افراد کی خاطرخواہ قدرشناسی نہ ہونا کس قدر افسوسناک بات ہے۔

تصور کیجئے کہ .... جب پشاور میں انقلاب اسلامی کا نام لینا جرم اُور موت کو دعوت دینے کے مترادف تصور ہوتا تھا‘ تب ایران سے نسبت اپنی بودوباش پر سجائے یہی ہستیاں تھیں‘ جنہوں نے اتحاد بین المسلمین سے لیکر علمی ادبی محافل تک اسلامی نظریات کا دفاع کیا۔
”مرید پیر مغاں صدق سے نہ ہم ہوتے
جو حق شناس کوئی اُور بھی نظر آتا (میر تقی میر)“  
نظریاتی لوگوں کی بس یہی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ جس سے ’وفا‘ کا عہد کر لیں تو پھر جانی و مالی قربانیوں میں کمال صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ابوالحسن سے سیّد غیور تک (کرداروں) کی کہانی ایک جیسی ہے۔ دونوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ دونوں نے کبھی ایرانی حکومت اُور پشاور میں ایرانی انتظامیہ سے متعلق شکایت نہیں کی کیونکہ وہ شاید اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کے مسلک (تشیع) کو نقصان اور تشیع کے خلاف محاذ بنانے والے مخالفین کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اِنہیں آج بھی مجنوں کی طرح ہر جانب لیلیٰ (انقلاب اسلامی) دکھائی دے رہا ہے اُور یہی اِن کی سب سے بڑی بھول ثابت ہوئی‘ جسے اگرچہ یہ اب بھی غلطی تسلیم نہیں کرتے!

بہرحال ایران کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے ابوالحسن اور سیّد غیور کی خدمات کو جس قدر سراہا جائے کم ہوگا لیکن اِن کا انجام قریب ایک جیسا رہا کہ ایک کو ’لب سڑک‘ خون میں لت پت چھوڑ دیا گیا‘ جس کی برسی کی مناسبت سے آج ایک بھی دن مخصوص نہیں۔ کوئی ایک شمع بھی نہیں جلائی جاتی‘ ایک آنسو بھی نہیں بہایا جاتا اور دوسرے وفا شعار (سیّد غیور) کو خانہ فرہنگ ایران سے بے روزگار کر کے ایک ایسی خونخوار دنیا کے منہ دھکیل دیا گیا ہے‘ جو اِس مالی مجبور شخص کو نوچ کھانے کی منتظر ہے!

”میرے قاتل کی کف حنائی نہیں
مشت خوں یادگار ہے میرا (ولی عزلت)۔“
............
It is easier to forgive an enemy than to forgive a friend

Monday, September 2, 2019

Muharram Security Plan for Peshawar 2019

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
!تدبر بمقابلہ تدبیر
اقوام عالم کے عروج و زوال کے اسباب و اسباق غور طلب ہیں۔ گیارہ مارچ دوہزار گیارہ کے روز جاپان کے شہر ’فوکوشیما (Fukushima)‘ میں زلزلے سے جوہری بجلی گھر سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا‘ جس سے بچانے کے لئے پورے شہر کی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے حکومتی مشینری حرکت میں آئی۔ جاپان کی تاریخ میں چرنوبل (ستمبر 1982ئ) کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا‘ جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ تین لاکھ آبادی کے ’فوکوشیما‘ شہر سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی بچے کو‘ کسی ایک بھی دن سکول سے رخصت نہیں دی گئی بلکہ قریبی (محفوظ) شہروں میں کھیلوں کے میدانوں کو سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ تعلیم کا حرج نہ ہو۔

تعلیم کو ترجیح دینے کے ثمرات یہ ہیں کہ جاپان کا شمار دنیا کے سرفہرست تین امیرترین ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں فی کس اوسط آمدنی سالانہ 50 ہزار جبکہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی قریب 6 ہزار ڈالر ہے! زلزلے جیسے قدرتی آفت سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے والے جاپان میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں تعلیمی اداروں کو کسی بھی وجہ سے ایک دو نہیں بلکہ کئی کئی روز تک بند کیا جا سکتا ہے لیکن کیا پاکستان کے فیصلہ سازوں میں اِس قدر حساسیت پائی جاتی ہے کہ وہ تعلیم کو خاطرخواہ اہمیت کا احساس کریں؟
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حکم جاری کیا گیا ہے کہ ”ماہ محرم الحرام (چودہ سو اکتالیس ہجری) کے ’پہلے 10روز‘ پشاور میں 15 تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔“ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے کی سفارش محکمہ ¿ پولیس کی جانب سے کی گئی ہو گی جس کی محرم الحرام سے متعلق ’خصوصی حفاظتی تدابیر (سیکورٹی پلان)‘ میں تدبیر تو ملتی ہے البتہ تدبر کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے
محرم الحرام کے پہلے عشرے (ابتدائی دس دنوں کو) ’مثالی (نمائشی) پرامن‘ بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں لیکن اگر اِسی ’اشتراک عمل‘ کا سال کے باقی مہینوں (پیشگی مظاہرہ) جاری رہتا تو محرم الحرام کے موقع پر ایسی ہنگامہ خیزی کی قطعی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ کہ جس سے اہل پشاور کے معمولات (ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر) بُری طرح متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر رواں برس پہلی مرتبہ 10روز کے لئے ’15 سرکاری و نجی تعلیمی اداروں‘ کو بند رکھنے کا فیصلہ غیرمنطقی ہے۔ فیصلہ سازوں کی ذہانت کو داد دینی پڑتی ہے‘ جو عشرہ محرم کی ابتداءاور اختتام پر اندرون شہر کے تعلیمی اداروں کی تالہ بندی کر دیتے ہیں۔ سلامتی کے مراکز مساجد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا جاتا ہے جبکہ آمدورفت کے لئے عمومی استعمال ہونے والے راستوں پر خاردار رکاوٹیں کھڑی کر کے داخلی شہر کے اندر ہی مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا جاتا ہے!

لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دوڑ دھوپ ’امن‘ اُور ایک ایسے ’محترم و مکرم مہینے کے نام پر ہوتا ہے‘ جس کی حرمت مسلمہ و معلوم ہے۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ دس روز کے لئے بند کئے جانے والے تعلیمی اداروں میں خصوصی بچوں کا ایک تعلیمی و تربیتی مرکز بھی شامل ہے۔ جن تعلیمی اِداروں کی اِس سال تالہ بندی کر دی گئی ہے اُن میں گورنمنٹ ہائی سکول (گونگے بہرے) محلہ جٹاں‘ گورنمنٹ پرائمری سکول مچھی کھٹہ‘ سنٹرل سٹی پبلک سکول محلہ دفتر بنداں‘ بلاول ملک سکول محلہ جٹاں‘ السید پبلک سکول محلہ قاضی خیلاں‘ تصور پبلک سکول محلہ جٹان‘ رمشا پبلک سکول کوچہ سید ولی‘ پشاور کمپیوٹر پبلک سکول محلہ فرشی گلی‘ یونیک پبلک سکول منڈا بیری‘ ٹیلنٹ پبلک سکول منڈا بیری‘ سیڈز پبلک سکول منڈا بیری‘ تاج پبلک سکول میر پور فرشی گلی اُور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول منڈا بیری شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہمارے ہاں ہر غیرقانونی کام کے پیچھے بھی ایک قانون چھپا ملتا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے بقول ”سکولوں کی بندش کا فیصلہ ’ضلعی حکومت کے قانون (لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013) کی شق 71
(a)
 کے تحت اِس اقدام کا اطلاق صرف اُنہی علاقوں پر کیا گیا ہے‘ جہاں محرم الحرام کے حوالے سے اجتماعات کا انعقاد یا ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں اُور یکم سے تیرہ محرم الحرام کے دوران موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔“ لیکن بناء رجسٹریشن‘ بناءنمبرپلیٹ اُور جعلی نمبرپلیٹوں والے موٹرسائیکلوں کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی! کوئی بھی شخص پشاور کی درودیوار پر سارا سال لکھائی کرتا رہے لیکن ایسا کرنا محرم الحرام کے دوران ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر اختلافات بھڑکانے والی تقاریر‘ نفرت انگیز مواد کی اشاعت و تشہیر بھی محرم الحرام کے دوران کرنے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگر کوئی سال کے باقی مہینے اور محرم الحرام کے دوران بھی سوشل میڈیا کے ذریعے تعفن پھیلاتا رہے تو اُس کے خلاف کاروائی کی صورت کیا ہوگی؟

افغان مہاجرین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے کیمپوں کی حد تک سرگرمیوں کو محدود رکھیں لیکن شہروں کے اندر بسنے والے مہاجرین کے لئے حکم کیا ہے‘ تاحال یہ واضح نہیں

ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی وقتی طور پر ’تین سطحی سیکورٹی پلان‘ کے تحت پشاور میں 10 ہزار پولیس
 اہلکار تعینات ہوں گے‘ جبکہ موبائل فونز کی بندش بھی کی جائے گی اُور اِس پوری تدبیر کو ’فول پروف (fool-proof)‘ سیکورٹی کا نام دیا گیا ہے! ماہ محرم الحرام کے حوالے سے پشاور کے ماضی و حال میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے؟

فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اہل پشاور باہم شیروشکر ہوا کرتے تھے تو بھائی چارے اور برداشت کا وہ ماحول پھر سے بحال کیوں نہیں ہو سکتا‘ جو پشاور کا خاصہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال اہم ہے کہ آخر امن کے لئے ’دائمی خطرہ‘ بننے والوں سے کیوں نہیں نمٹا جاتا‘ جبکہ اُن کرداروں کے نام و کام ڈھکے چھپے نہیں! دیر اب بھی نہیں ہوئی‘ موثر پولیسنگ کے ذریعے وہ سب کچھ ممکن ہے‘ جو فی الوقت ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ امن و امان کی عمومی صورتحال معمول پر آنے کے باوجود اگر محرم الحرام کے موقع پر ماضی کے مقابلے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑ رہے ہیں‘ تو اِس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہے کہ دہشت کا سبب بننے والا تخریب و خطرہ اُور انتہاءپسندی اپنی جگہ موجود ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی عاجلانہ حکمت عملی (تدبیر) پر غور (تدبر) کرنا چاہئے۔
............

Sunday, September 1, 2019

TRANSLATION: Electrocuted in Karachi by Dr Farrukh Saleem

Electrocuted in Karachi
بجلی‘ کرنٹ اُور کراچی!

دنیا میں ایسے شہروں کی تعداد 4 ہزار 416 ہے‘ جن کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سوال: دنیا کا ایسا شہر کونسا ہے کہ جہاں بارش کے بعد بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ کی وجہ سے درجنوں لوگ ہر سال ہلاک ہو جاتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کے لئے چند اشارے یہ ہیں کہ وہ شہر افریقہ یا جنوبی امریکہ کا نہیں بلکہ براعظم ایشیاءسے تعلق رکھتا ہے۔ جواب ہے کراچی۔ جی ہاں کراچی دنیا کا ایسا واحد شہر ہے جہاں ہر سال بارشوں کے موسم میں درجنوں ہلاکتیں صرف اِس وجہ سے ہوتی ہیں کیونکہ بجلی کا ترسیلی نظام خرابیوں کا مجموعہ ہے۔

کراچی میں اوسط 6.8 انچ بارش ہوتی ہے۔ کولمبیا کا شہر کیبوڈو (Quibdo) میں سالانہ 288 انچ بارش ہوتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے ملک لائبریا (Liberia) کے شہر مون روویا (Monrovia) جس کی آبادی مشکل دس لاکھ ہے وہاں سالانہ 182 انچ بارش ہوتی ہے لیکن اِن شہروں میں ایک بھی ہلاکت بجلی کا کرنٹ لگنے (electrocution) کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اِسی طرح ہوائی (Hawaii) کے شہر ہیلو (Hilo) میں سالانہ 127 انچ بارش ہوتی ہے اور یہ سلسلہ سال 272 دن جاری رہتا ہے لیکن وہاں بھی کوئی ایک ہلاکت بجلی کا کرنٹ لگنے سے نہیں ہوتی۔ ایسے بہت سے شہروں کی فہرست پیش کی جاسکتی ہے جہاں کراچی سے زیادہ بارش ہوتی ہے لیکن تصور کیجئے کہ 6.8 انچ بارش ہونے پر بھی کراچی میں درجنوں ہلاکتیں ہونا کس قدر تشویشناک اور افسوسناک امر ہے۔ دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہو گی کہ یہاں کس قسم کے فیصلہ ساز بستے ہیں‘ جن کی تعلیمی اسناد پلندوں میں پڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اُن کی منصوبہ بندیاں اُور برسرزمین کارکردگی انتہائی ناقص و مایوس کن ہے۔

کراچی میں بارش سے ہونے والی درجنوں ہلاکتیں مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہیں‘ جن کے لئے کیا ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA)‘ کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے؟ کاروباری اخلاقیات بھی کیا کوئی چیز ہوتے ہیں؟ ایک ایسا شہر‘ جہاں کی شرح خواندگی 20فیصد ہو۔ کیا یہ ادویہ ساز ادارے (فارماسوٹیکل کمپنیوں) کو جائز ہے کہ وہ کراچی کی 80فیصد آبادی کو زائد المعیاد ادویات فروخت کریں؟ اِسی طرح اموات بجلی کے کرنٹ لگنے سے ہوتی ہیں اور درجنوں لوگ مر چکے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز کہاں ہیں اُور کیا کر رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کی تاریں جن کھمبوں سے باندھی جاتی ہیں لیکن اُنہیں محفوظ نہیں بنایا جاتا کہ کرنٹ بارش کے پانی کے ساتھ نہ پھیلے اُور نہ ہی اِن کھمبوں (بجلی کے ترسیلی نظام) پر باقاعدگی سے نظر رکھی جاتی ہے تاکہ اِن سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔

سال 2012ءمیں انجنیئر ارشد عباسی نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (KESC) کی نجکاری کے بعد کی کارکردگی کے بارے میں ایک تحقیق کی۔ جس میں نجکاری کے عمل کا بھی جائزہ شامل تھا۔ سوال یہ تھا کہ آخر حکومت کو اِس بات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ وہ بجلی کی ترسیلی کمپنی کی نجکاری کر دے؟ اِس کا جواب یہ تھا کہ کراچی میں بجلی کی فراہمی پر حکومت کو بھاری رعایت (سبسڈیز) دینا پڑ رہی تھیں۔ جب حکومت بجلی کی ترسیلی کمپنی چلا رہی تھی تو اِسے سالانہ 9 ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑتی تھی جس کا بوجھ ختم کرنے کے لئے نجکاری کی گئی لیکن سبسڈی دینے کا سلسلہ ختم نہ ہوا بلکہ بڑھ گیا۔ سال 2013ءمیں حکومت نے 76 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی۔ تلخ حقیقت ہے کہ کراچی میں بجلی کی ترسیلی کمپنی (K-Electric) کو نجکاری کے بعد سے ”400 ارب روپے“ سبسڈی دی جا چکی ہے۔

کیا ’نیپرا‘ نے کبھی ’کے الیکٹرک‘ سے پوچھا ہے کہ اُسے اب تک جو 400 ارب روپے سبسڈی دی گئی ہے تو اِس کا استعمال کہاں اور کیسے کیا گیا ہے؟ حکومت ’کے الیکٹرک‘ کو 600 میگاواٹ بجلی کم نرخوں پر دیتی ہے جسے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ رواں برس اپریل میں سیکرٹری پاور عرفان علی نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ”کے الیکٹرک نے مختلف محکموں کے 125 ارب روپے دینے ہیں۔ اِس اجب الاداء رقم میں 90 ارب سوئی سدرن گیس کمنی اور 35 ارب ’این ٹی ڈی سی‘ کے بقایا جات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سبسڈی کا بوجھ اُتارنے کے لئے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری کی گئی تھی اُور نجکاری کے بعد بھی سبسڈی دینے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اِس سبسڈی (قومی خزانے کو پہنچنے والے خسارے) میں اضافہ ہو رہا ہے تو ایسی نجکاری کا فائدہ ہی کیا ہے؟ دوسری طرف ’کے الیکٹرک‘ کا مو ¿قف ہے کہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین بلوں کی ادائیگی نہیں کر رہے اُور اُس کے عوام کے ذمے واجب الاداءبل کی مجموعی مالیت 158.8 ارب روپے ہیں! 

اعدادوشمار کے اِس گورکھ دھندے میں ’کے الیکٹرک‘ میں سرمایہ کاری کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں‘ قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہے اُور کراچی کے عوام کرنٹ لگنے سے مر رہے ہیں! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)