Cut corporate tax
کاروباری ٹیکس اور معیشت!
سوال: کیا وزیراعظم عمران خان پاکستان کی معاشی اِصلاح کر سکیں گے؟ جواب: عمران خان میں یہ صلاحیت بدرجہ¿ اتم موجود ہے کہ وہ جس چیز کا وعدہ کریں اُسے عملاً کر بھی دکھائیں۔ ایسا کیوں نہ ہو آخر یہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جن کے ذاتی و سیاسی اہداف اور قومی اہداف ایک دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں وضاحت پیش ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور سرفہرست دشمن ’بیروزگاری‘ ہے جس کے کئی محرکات ہیں۔
گاڑیاں: اگست 2018ء میں 15 ہزار 389 نئی گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جبکہ اگست 2019ءمیں 9 ہزار 126 نئی گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ یوں ایک سال کے عرصے میں گاڑیوں کی فروخت میں 40 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ کرولا (ٹیوٹا) گاڑیوں کی فروخت میں 58فیصد‘ ہونڈا (سوک) گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد اُور سوزوکی (ویگنور) کی فروخت میں 71 فیصد کمی آئی ہے۔ ہنڈا‘ انڈس اُور سوزوکی نامی موٹر ساز صنعتیں 10 ہزار ملازمتیں فراہم کرتی ہیں اور ایسی ہر براہ راست ملازمت کے ساتھ 8 دیگر ملازمتیں جڑی ہوتی ہیں یعنی کاروباری سرگرمیوں سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے اداروں کی بات کریں تو مجموعی طور پر اِس صنعت سے 80 ہزار افراد ملازمتیں وابستہ ہیں اور یوں 5 لاکھ 36 ہزار افراد کی کفالت ہو رہی ہے کیونکہ 80 ہزار افراد 6.7 افراد فی خاندان کے تناسب سے اوسط خاندان تشکیل دیتے ہیں۔
ٹرک: جولائی اگست 2018ءمیں 1 ہزار 199 نئے ٹرک فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 648 نئے ٹرک فروخت ہوئے اور یوں ٹرکوں کی فروخت میں ایک سال کے دوران 46فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہی صورتحال بسوں کی بھی ہے کہ جولائی اگست 2018ءمیں کل217 نئی بسیں فروخت ہوئیں جبکہ جولائی اگست 2019ءکے دوران 160 بسیں فروخت ہوئیں اور یوں 26فیصد کم بسیں فروخت ہوئی ہیں۔
ٹریکٹرز: جولائی اگست 2018ءکے دوران 7 ہزار 831 ٹریکٹر فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 5 ہزار 592 نئے ٹریکٹر فروخت ہوئے جو ٹریکٹروں کی فروخت میں 29فیصد کمی کا اشارہ ہے۔ مالی سال 2018ءکے مقابلے 2019ءمیں موٹرسائیکلوں کی فروخت میں بھی 13فیصد کمی آئی ہے۔ سال 2019ءکے دوران 24 لاکھ موٹرسائیکل فروخت ہوئے اُور سیلز میں اِس کمی کی وجہ سے 15فیصد مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت اِن اُور دیگر صنعتوں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔
فیصل آباد میں کپڑوں پر نقش و نگار بنانے کی صنعت جسے ایمبریڈیری (embroidery) کہا جاتا ہے مشکل دور سے گزر رہی ہے اور قریب المرگ ہے اُور اگر حکومت نے خاطرخواہ توجہ نہ دی تو اندیشہ ہے کہ اِس صنعت سے وابستہ 2 لاکھ افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے۔ جولائی اگست 2018ءکے درمیان 17 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا جبکہ جولائی اگست 2019ءمیں 9 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا ہے جو 46فیصد کمی ہے۔ اِس کے علاوہ بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے جو قبل ازیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ قائداعظم یونیورسٹی‘ سندھ یونیورسٹی اور سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی نے بینکوں سے قرض لیکر ملازمین بشمول اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات ادا کئے ہیں۔
جولائی اگست 2018ءمیں پاکستان نے 2.2 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ جولائی 2019ءمیں 2.3 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اِس سلسلے میں دو اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستانی سے ٹیکسٹائل برآمدات میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کرنٹ اکاونٹ کے خسارے میں کمی آئی ہے۔
پاکستان کی معیشت سے متعلق سب سے بڑی اور بُری خبر یہ ہے کہ سینکڑوں ہزار کی تعداد میں ملازمتیں کم ہوئی ہیں اُور صرف ایک ہی برس میں لاکھوں افراد کا بیروزگار ہونا نیک شگون نہیں۔ اس کے علاو¿ہ تحریک انصاف حکومت کے دور میں پچاس لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
اِس صورتحال میں حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟
بھارت نے کاروباری و صنعتی اداروں پر ٹیکس کی شرح میں 10فیصد کمی کی تاکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ نہ ہو۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تاکہ معاشی تنگدستی کے موجودہ حالات سے نکل سکے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کاروباری و صنعتی اداروں پر عائد ٹیکس کی شرح دنیا کی بلند ترین ہے۔ اِس کے علاو¿ہ حکومت کو شرح سود میں بھی کمی لانی چاہئے تاکہ سرمایہ کاروبار‘ تجارت اور صنعتوں میں لگایا جائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ پاکستان حکومت کی سب سے بڑی اور پہلی ترجیح روزگار کے مواقعوں کا تحفظ اور روزگار کے مواقعوں (امکانات) میں اضافہ ہونا چاہئے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
کاروباری ٹیکس اور معیشت!
سوال: کیا وزیراعظم عمران خان پاکستان کی معاشی اِصلاح کر سکیں گے؟ جواب: عمران خان میں یہ صلاحیت بدرجہ¿ اتم موجود ہے کہ وہ جس چیز کا وعدہ کریں اُسے عملاً کر بھی دکھائیں۔ ایسا کیوں نہ ہو آخر یہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جن کے ذاتی و سیاسی اہداف اور قومی اہداف ایک دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں وضاحت پیش ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور سرفہرست دشمن ’بیروزگاری‘ ہے جس کے کئی محرکات ہیں۔
گاڑیاں: اگست 2018ء میں 15 ہزار 389 نئی گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جبکہ اگست 2019ءمیں 9 ہزار 126 نئی گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ یوں ایک سال کے عرصے میں گاڑیوں کی فروخت میں 40 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ کرولا (ٹیوٹا) گاڑیوں کی فروخت میں 58فیصد‘ ہونڈا (سوک) گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد اُور سوزوکی (ویگنور) کی فروخت میں 71 فیصد کمی آئی ہے۔ ہنڈا‘ انڈس اُور سوزوکی نامی موٹر ساز صنعتیں 10 ہزار ملازمتیں فراہم کرتی ہیں اور ایسی ہر براہ راست ملازمت کے ساتھ 8 دیگر ملازمتیں جڑی ہوتی ہیں یعنی کاروباری سرگرمیوں سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے اداروں کی بات کریں تو مجموعی طور پر اِس صنعت سے 80 ہزار افراد ملازمتیں وابستہ ہیں اور یوں 5 لاکھ 36 ہزار افراد کی کفالت ہو رہی ہے کیونکہ 80 ہزار افراد 6.7 افراد فی خاندان کے تناسب سے اوسط خاندان تشکیل دیتے ہیں۔
ٹرک: جولائی اگست 2018ءمیں 1 ہزار 199 نئے ٹرک فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 648 نئے ٹرک فروخت ہوئے اور یوں ٹرکوں کی فروخت میں ایک سال کے دوران 46فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہی صورتحال بسوں کی بھی ہے کہ جولائی اگست 2018ءمیں کل217 نئی بسیں فروخت ہوئیں جبکہ جولائی اگست 2019ءکے دوران 160 بسیں فروخت ہوئیں اور یوں 26فیصد کم بسیں فروخت ہوئی ہیں۔
ٹریکٹرز: جولائی اگست 2018ءکے دوران 7 ہزار 831 ٹریکٹر فروخت ہوئے۔ جولائی اگست 2019ءمیں 5 ہزار 592 نئے ٹریکٹر فروخت ہوئے جو ٹریکٹروں کی فروخت میں 29فیصد کمی کا اشارہ ہے۔ مالی سال 2018ءکے مقابلے 2019ءمیں موٹرسائیکلوں کی فروخت میں بھی 13فیصد کمی آئی ہے۔ سال 2019ءکے دوران 24 لاکھ موٹرسائیکل فروخت ہوئے اُور سیلز میں اِس کمی کی وجہ سے 15فیصد مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت اِن اُور دیگر صنعتوں کو مشکلات سے نکالنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔
فیصل آباد میں کپڑوں پر نقش و نگار بنانے کی صنعت جسے ایمبریڈیری (embroidery) کہا جاتا ہے مشکل دور سے گزر رہی ہے اور قریب المرگ ہے اُور اگر حکومت نے خاطرخواہ توجہ نہ دی تو اندیشہ ہے کہ اِس صنعت سے وابستہ 2 لاکھ افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے۔ جولائی اگست 2018ءکے درمیان 17 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا جبکہ جولائی اگست 2019ءمیں 9 لاکھ ٹن تیل درآمد ہوا ہے جو 46فیصد کمی ہے۔ اِس کے علاوہ بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے جو قبل ازیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ قائداعظم یونیورسٹی‘ سندھ یونیورسٹی اور سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی نے بینکوں سے قرض لیکر ملازمین بشمول اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات ادا کئے ہیں۔
جولائی اگست 2018ءمیں پاکستان نے 2.2 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ جولائی 2019ءمیں 2.3 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اِس سلسلے میں دو اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستانی سے ٹیکسٹائل برآمدات میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کرنٹ اکاونٹ کے خسارے میں کمی آئی ہے۔
پاکستان کی معیشت سے متعلق سب سے بڑی اور بُری خبر یہ ہے کہ سینکڑوں ہزار کی تعداد میں ملازمتیں کم ہوئی ہیں اُور صرف ایک ہی برس میں لاکھوں افراد کا بیروزگار ہونا نیک شگون نہیں۔ اس کے علاو¿ہ تحریک انصاف حکومت کے دور میں پچاس لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
اِس صورتحال میں حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟
بھارت نے کاروباری و صنعتی اداروں پر ٹیکس کی شرح میں 10فیصد کمی کی تاکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ نہ ہو۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تاکہ معاشی تنگدستی کے موجودہ حالات سے نکل سکے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کاروباری و صنعتی اداروں پر عائد ٹیکس کی شرح دنیا کی بلند ترین ہے۔ اِس کے علاو¿ہ حکومت کو شرح سود میں بھی کمی لانی چاہئے تاکہ سرمایہ کاروبار‘ تجارت اور صنعتوں میں لگایا جائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ پاکستان حکومت کی سب سے بڑی اور پہلی ترجیح روزگار کے مواقعوں کا تحفظ اور روزگار کے مواقعوں (امکانات) میں اضافہ ہونا چاہئے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)