ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایران پاکستان تجارت: امکانات کی دنیا!
ایران پاکستان تجارت: امکانات کی دنیا!
جمہوری اسلامی ایران کے صدر حسن روحانی کے دورۂ پاکستان کے جہاں سیاسی
پہلوؤں کی جہتیں غورطلب ہیں‘ وہیں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت و
اقتصادی شعبوں کی ترقی کے موجود امکانات کے پہلوؤں بارے بھی بحث ضروری ہے
اور پاکستان کے سیاسی فیصلہ سازوں بالخصوص امریکہ کے زیراثر اسٹیبلشمنٹ کو
اپنے رجحانات و میلانات پر نظرثانی کرتے ہوئے اِس نادر موقع سے ضرور فائدہ
اٹھانا چاہئے جو عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھنے اور ایران سے ہمارے گرمجوش
تعلقات میں کم و بیش 36 برس کی سردمہری ختم ہونے کا امکانی دور ہے اور سب
سے اچھی بات یہ ہے کہ ہم سے زیادہ ایران خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان کی تیل و
گیس اور بجلی جیسے شعبوں میں مدد کرے تو اِس پیشکش کے درپردہ نیک نیتی کو
شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔
پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ گوادر بندرگاہ متحدہ عرب امارات کی طرح ہمارا مستقبل بدل سکتی ہے۔ عرب ممالک سے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیرسمندر سرنگوں کے ذریعے زمینی راستے بنائے جاسکتے ہیں جیسا کہ برطانیہ اور روس کے درمیان موجود ہیں۔ گوادر کی ترقی سے ایران کی ’چہار بہار بندرگاہ‘ کے متبادل بلکہ مقابل تجارت کا ذریعہ اور وسیلہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ سب ہماری قومی ترجیحات یعنی اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سوچ کا حصہ بن جائے! سوال یہ ہے کہ کیا اِیران کی منڈی میں پاکستان کی زرعی مصنوعات کی کھپت و طلب موجود ہے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت پہلے ہی ایران پر حاوی ہو چکا ہے اور جو کچھ ہم آج سوچ رہے ہیں بھارت کئی برس قبل کر چکا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان اور ایران کے سیاسی تعلقات کے دو مراحل ہیں۔ ایک 1979ء سے پہلے کا عرصہ ہے جو بہت ہی گرمجوش تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران نے 1965ء میں ہماری بہت مدد کی لیکن جب ایران میں ’اسلامی انقلاب‘ آیا تو اُس کے تعلقات سعودی عرب کے زیراثر اسلامی دنیا سے کم ہوتے چلے گئے۔ عجیب مماثلت رہی کہ سعودی عرب کی طرح ’اسلامی انقلاب‘ امریکہ و مغربی یورپی ممالک کو بھی پسند نہ آیا اور ایک اسلامی ملک کی مدد سے دوسرے اسلامی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے لیکر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے تک اگر ایران کے ساتھ کوئی شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا تو وہ ’روس‘ اُور کسی حد تک چین تھا جبکہ مسلمان اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان کا کردار اپنی خارجہ پالیسی اور افغانستان میں مہم جوئی کی وجہ سے مخالف سمت رہا۔ ایران یورپی یونین اور امریکہ سے دور ہوتا چلا گیا تو پاکستان نے بھی ایران سے فاصلے بڑھا لئے لیکن اگر ماضی کو دفن کرکے موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو ایران سے ہمارا تعاون کا ایک فطری پہلو بھی ہے۔ ایران کے پاس فی الوقت تیل و ذخائر تو موجود ہیں لیکن اُن کی ترقی اور اُن سے استفادہ کرنے کے لئے ایران کو تکنیکی و فنی امداد کے ساتھ اربوں ڈالر اور سالہا سال کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران سے زرعی تجارت میں بھارت کے مقابلے پاکستان کا تناسب چالیس فیصد سے اگر کم ہے تو اس میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ زمینی طور پر منسلک ہونے کی وجہ سے ہم ایران کی منڈیوں تک کم وقت اور کم خرچ میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ تین اجناس یعنی کپاس‘ چاول اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد پر مرکوز رکھنی چاہئے لیکن اس کے لئے صنعتی و زرعی شعبے میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ مثال کے طور پر صنعتوں کو جو بجلی اور گیس (اِن پُٹ) دی جا رہی ہے اُس کی قیمت زیادہ اور مقدار کم ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے کو دی جانے والی کھاد‘ ڈیزل اور بیج (پیداواری ضروریات) کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ہمارے پاس چینی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن عالمی منڈی میں چینی کی کم ہونے کی وجہ سے ہم پاکستانی چینی برآمد نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس گندم ضرورت سے زیادہ (سرپلس) ہے لیکن 2نومبر 2014ء سے مقرر کردہ مقامی (امدادی) قیمت تیرہ سو روپے فی چالیس کلوگرام کے مقابلے عالمی منڈی میں قیمت 900روپے ہے تو پاکستان کی مہنگی گندم کون خریدے گا؟ زرعی شعبے کو سستی بجلی و گیس کی فراہمی ضروری ہے اور ساتھ ہی بڑے زمینداروں اور کھاد بنانے والے اداروں کی اجارہ داری و ناجائز منافع خوری جیسے منفی محرک پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے کسان کو کھاد سونے جیسے بھاؤ پر ملتی ہے جس پر جی ایس ٹی بھی عائد ہے۔ گھریلو صارفین کے لئے اگر گیس کی قیمت ڈھائی سو سے ساڑھے تین سو روپے‘ سی این جی اسٹیشنوں کے لئے چھ سے سات سو روپے لیکن کھاد بنانے والی صنعتوں (ایگروز) کو گیس 60 پیسے فی ملین مکعب فٹ کے حساب سے دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود کھاد کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ بنیادی و ذیلی مسئلہ یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپناں اپنی سرمایہ کاری کے عوض سالانہ 80فیصد سے زیادہ منافع کما رہی ہیں! تصور کیجئے کہ 100روپے پر 80روپے کمائی اور وہ بھی چند افراد کا گروہ! یقیناًحکومت کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔
پاکستان کی برآمدات کم ہونے کی ایک وجہ عالمی بحران بھی ہے جس کی وجہ سے بھارت جیسے ملک کی برآمدات بھی دس فیصد برآمدات کم ہوئی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ سے طلب اور مانگ کم ہونے کے منفی اثرات پھیل رہے ہیں لیکن ہماری برآمدات کم ہونے کی دیگر وجوہات (محرکات) بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں پیدا ہونے والی کپاس معیاری نہ ہونے کی وجہ سے کم مقدار میں برآمد ہوتی ہے اور اس میں بیرون یا داخلی سرمایہ کاری بھی نہیں کی جاتی جیسا کہ چینی کی صنعت میں ہوتی ہے۔ برآمدات کرنے والے تاجروں کے الگ گلے شکوے ہیں جنہیں انکم ٹیکس کی واپسی بروقت نہیں ہوتی۔ تصور کیجئے کہ وفاقی ادارے ’ایف بی آر‘ کے پاس واجب الادأ ’’ریفنڈ پے منٹ آرڈرز‘‘ کی مالیت تیس ارب سے زیادہ ہے! کیا یہ زرعی و صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے سازگار ماحول ہے؟
پچھلے دو سال میں جس تیزی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اُس سے حکومت کو کم سے کم ’’گیارہ ارب ڈالر‘‘ کا فائدہ ہوا لیکن یہ فائدہ صارفین کو منتقل کرنے کی بجائے بجٹ کے خسارے (غیرترقیاتی اخراجات) کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے فی پاکستانی خاندان پینتیس سے چالیس ہزار روپے کے مساوی معاشی فائدے کے ثمرات محدود ہو گئے۔ ایک تو بجٹ خسارہ پورا نہ ہوسکا اور دوسرا بلواسطہ (ڈائریکٹ) ٹیکس وصول کرنے میں حکومت نے ناکام ہونے کا آسان حل یہ نکالا کہ بلاواسطہ (اِن ڈائریکٹ) محصولات (ٹیکس) عائد کر دیئے جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدن کم لیکن ٹیکس کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے!
ہمارے حکمراں خواب بیچنے کے ماہر ہیں۔ چین سے اقتصادی راہداری کا خوشنما خواب ابھی کالا باغ ڈیم کی طرح تنازعات سے نکلا نہیں کہ ہماری توجہ ایرانی منڈیوں اور ایران کے وسائل کی جانب مبذول کر دی گئی ہے۔ نجانے کیوں ہمیں ایران کے مفادات دکھائی نہیں دے رہے جو ماضی میں ’رشین بلاک‘ میں ہونے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ سیاسی‘ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو زیادہ اہمیت دیتا رہا ہے اور اب بھی بھارت کے ساتھ زیادہ گہرے تجارتی روابط رکھتا ہے لہٰذا کسی (اضافی و امکانی) خوش فہمی میں مبتلا ہونے یا مفروضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اُن منفی امور کی اصلاح کی جائے جس سے پاکستان میں داخلی طور پر صنعتی یا زرعی شعبے کی ترقی ممکن نہیں ہو پا رہی! بہتری اِسی میں ہے کہ ہم دور کے سہانے ڈھول (امریکہ) کی تاپ پر رقص جاری رکھنے کی بجائے اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ مل کر ایسی (آزاد) تجارتی و علاقائی اقتصادی تعاون پالیسی (لائحہ عمل) تیار کریں جو بعدازاں چین کی اقتصادی راہداری کا حصہ بن کر زیادہ مفید و کارآمد اور منافع بخش ثابت ہو۔
پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ گوادر بندرگاہ متحدہ عرب امارات کی طرح ہمارا مستقبل بدل سکتی ہے۔ عرب ممالک سے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیرسمندر سرنگوں کے ذریعے زمینی راستے بنائے جاسکتے ہیں جیسا کہ برطانیہ اور روس کے درمیان موجود ہیں۔ گوادر کی ترقی سے ایران کی ’چہار بہار بندرگاہ‘ کے متبادل بلکہ مقابل تجارت کا ذریعہ اور وسیلہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ سب ہماری قومی ترجیحات یعنی اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سوچ کا حصہ بن جائے! سوال یہ ہے کہ کیا اِیران کی منڈی میں پاکستان کی زرعی مصنوعات کی کھپت و طلب موجود ہے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت پہلے ہی ایران پر حاوی ہو چکا ہے اور جو کچھ ہم آج سوچ رہے ہیں بھارت کئی برس قبل کر چکا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان اور ایران کے سیاسی تعلقات کے دو مراحل ہیں۔ ایک 1979ء سے پہلے کا عرصہ ہے جو بہت ہی گرمجوش تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران نے 1965ء میں ہماری بہت مدد کی لیکن جب ایران میں ’اسلامی انقلاب‘ آیا تو اُس کے تعلقات سعودی عرب کے زیراثر اسلامی دنیا سے کم ہوتے چلے گئے۔ عجیب مماثلت رہی کہ سعودی عرب کی طرح ’اسلامی انقلاب‘ امریکہ و مغربی یورپی ممالک کو بھی پسند نہ آیا اور ایک اسلامی ملک کی مدد سے دوسرے اسلامی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے لیکر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے تک اگر ایران کے ساتھ کوئی شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا تو وہ ’روس‘ اُور کسی حد تک چین تھا جبکہ مسلمان اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان کا کردار اپنی خارجہ پالیسی اور افغانستان میں مہم جوئی کی وجہ سے مخالف سمت رہا۔ ایران یورپی یونین اور امریکہ سے دور ہوتا چلا گیا تو پاکستان نے بھی ایران سے فاصلے بڑھا لئے لیکن اگر ماضی کو دفن کرکے موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو ایران سے ہمارا تعاون کا ایک فطری پہلو بھی ہے۔ ایران کے پاس فی الوقت تیل و ذخائر تو موجود ہیں لیکن اُن کی ترقی اور اُن سے استفادہ کرنے کے لئے ایران کو تکنیکی و فنی امداد کے ساتھ اربوں ڈالر اور سالہا سال کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران سے زرعی تجارت میں بھارت کے مقابلے پاکستان کا تناسب چالیس فیصد سے اگر کم ہے تو اس میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ زمینی طور پر منسلک ہونے کی وجہ سے ہم ایران کی منڈیوں تک کم وقت اور کم خرچ میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ تین اجناس یعنی کپاس‘ چاول اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد پر مرکوز رکھنی چاہئے لیکن اس کے لئے صنعتی و زرعی شعبے میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ مثال کے طور پر صنعتوں کو جو بجلی اور گیس (اِن پُٹ) دی جا رہی ہے اُس کی قیمت زیادہ اور مقدار کم ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے کو دی جانے والی کھاد‘ ڈیزل اور بیج (پیداواری ضروریات) کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ہمارے پاس چینی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن عالمی منڈی میں چینی کی کم ہونے کی وجہ سے ہم پاکستانی چینی برآمد نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس گندم ضرورت سے زیادہ (سرپلس) ہے لیکن 2نومبر 2014ء سے مقرر کردہ مقامی (امدادی) قیمت تیرہ سو روپے فی چالیس کلوگرام کے مقابلے عالمی منڈی میں قیمت 900روپے ہے تو پاکستان کی مہنگی گندم کون خریدے گا؟ زرعی شعبے کو سستی بجلی و گیس کی فراہمی ضروری ہے اور ساتھ ہی بڑے زمینداروں اور کھاد بنانے والے اداروں کی اجارہ داری و ناجائز منافع خوری جیسے منفی محرک پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے کسان کو کھاد سونے جیسے بھاؤ پر ملتی ہے جس پر جی ایس ٹی بھی عائد ہے۔ گھریلو صارفین کے لئے اگر گیس کی قیمت ڈھائی سو سے ساڑھے تین سو روپے‘ سی این جی اسٹیشنوں کے لئے چھ سے سات سو روپے لیکن کھاد بنانے والی صنعتوں (ایگروز) کو گیس 60 پیسے فی ملین مکعب فٹ کے حساب سے دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود کھاد کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ بنیادی و ذیلی مسئلہ یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپناں اپنی سرمایہ کاری کے عوض سالانہ 80فیصد سے زیادہ منافع کما رہی ہیں! تصور کیجئے کہ 100روپے پر 80روپے کمائی اور وہ بھی چند افراد کا گروہ! یقیناًحکومت کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔
پاکستان کی برآمدات کم ہونے کی ایک وجہ عالمی بحران بھی ہے جس کی وجہ سے بھارت جیسے ملک کی برآمدات بھی دس فیصد برآمدات کم ہوئی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ سے طلب اور مانگ کم ہونے کے منفی اثرات پھیل رہے ہیں لیکن ہماری برآمدات کم ہونے کی دیگر وجوہات (محرکات) بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں پیدا ہونے والی کپاس معیاری نہ ہونے کی وجہ سے کم مقدار میں برآمد ہوتی ہے اور اس میں بیرون یا داخلی سرمایہ کاری بھی نہیں کی جاتی جیسا کہ چینی کی صنعت میں ہوتی ہے۔ برآمدات کرنے والے تاجروں کے الگ گلے شکوے ہیں جنہیں انکم ٹیکس کی واپسی بروقت نہیں ہوتی۔ تصور کیجئے کہ وفاقی ادارے ’ایف بی آر‘ کے پاس واجب الادأ ’’ریفنڈ پے منٹ آرڈرز‘‘ کی مالیت تیس ارب سے زیادہ ہے! کیا یہ زرعی و صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے سازگار ماحول ہے؟
پچھلے دو سال میں جس تیزی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اُس سے حکومت کو کم سے کم ’’گیارہ ارب ڈالر‘‘ کا فائدہ ہوا لیکن یہ فائدہ صارفین کو منتقل کرنے کی بجائے بجٹ کے خسارے (غیرترقیاتی اخراجات) کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے فی پاکستانی خاندان پینتیس سے چالیس ہزار روپے کے مساوی معاشی فائدے کے ثمرات محدود ہو گئے۔ ایک تو بجٹ خسارہ پورا نہ ہوسکا اور دوسرا بلواسطہ (ڈائریکٹ) ٹیکس وصول کرنے میں حکومت نے ناکام ہونے کا آسان حل یہ نکالا کہ بلاواسطہ (اِن ڈائریکٹ) محصولات (ٹیکس) عائد کر دیئے جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدن کم لیکن ٹیکس کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے!
ہمارے حکمراں خواب بیچنے کے ماہر ہیں۔ چین سے اقتصادی راہداری کا خوشنما خواب ابھی کالا باغ ڈیم کی طرح تنازعات سے نکلا نہیں کہ ہماری توجہ ایرانی منڈیوں اور ایران کے وسائل کی جانب مبذول کر دی گئی ہے۔ نجانے کیوں ہمیں ایران کے مفادات دکھائی نہیں دے رہے جو ماضی میں ’رشین بلاک‘ میں ہونے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ سیاسی‘ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو زیادہ اہمیت دیتا رہا ہے اور اب بھی بھارت کے ساتھ زیادہ گہرے تجارتی روابط رکھتا ہے لہٰذا کسی (اضافی و امکانی) خوش فہمی میں مبتلا ہونے یا مفروضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اُن منفی امور کی اصلاح کی جائے جس سے پاکستان میں داخلی طور پر صنعتی یا زرعی شعبے کی ترقی ممکن نہیں ہو پا رہی! بہتری اِسی میں ہے کہ ہم دور کے سہانے ڈھول (امریکہ) کی تاپ پر رقص جاری رکھنے کی بجائے اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ مل کر ایسی (آزاد) تجارتی و علاقائی اقتصادی تعاون پالیسی (لائحہ عمل) تیار کریں جو بعدازاں چین کی اقتصادی راہداری کا حصہ بن کر زیادہ مفید و کارآمد اور منافع بخش ثابت ہو۔