Sunday, March 27, 2016

Mar2016: Trade in Iran, yet another dream!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایران پاکستان تجارت: امکانات کی دنیا!
جمہوری اسلامی ایران کے صدر حسن روحانی کے دورۂ پاکستان کے جہاں سیاسی پہلوؤں کی جہتیں غورطلب ہیں‘ وہیں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت و اقتصادی شعبوں کی ترقی کے موجود امکانات کے پہلوؤں بارے بھی بحث ضروری ہے اور پاکستان کے سیاسی فیصلہ سازوں بالخصوص امریکہ کے زیراثر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے رجحانات و میلانات پر نظرثانی کرتے ہوئے اِس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے جو عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھنے اور ایران سے ہمارے گرمجوش تعلقات میں کم و بیش 36 برس کی سردمہری ختم ہونے کا امکانی دور ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہم سے زیادہ ایران خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان کی تیل و گیس اور بجلی جیسے شعبوں میں مدد کرے تو اِس پیشکش کے درپردہ نیک نیتی کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔

پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ گوادر بندرگاہ متحدہ عرب امارات کی طرح ہمارا مستقبل بدل سکتی ہے۔ عرب ممالک سے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیرسمندر سرنگوں کے ذریعے زمینی راستے بنائے جاسکتے ہیں جیسا کہ برطانیہ اور روس کے درمیان موجود ہیں۔ گوادر کی ترقی سے ایران کی ’چہار بہار بندرگاہ‘ کے متبادل بلکہ مقابل تجارت کا ذریعہ اور وسیلہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ سب ہماری قومی ترجیحات یعنی اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سوچ کا حصہ بن جائے! سوال یہ ہے کہ کیا اِیران کی منڈی میں پاکستان کی زرعی مصنوعات کی کھپت و طلب موجود ہے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت پہلے ہی ایران پر حاوی ہو چکا ہے اور جو کچھ ہم آج سوچ رہے ہیں بھارت کئی برس قبل کر چکا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان اور ایران کے سیاسی تعلقات کے دو مراحل ہیں۔ ایک 1979ء سے پہلے کا عرصہ ہے جو بہت ہی گرمجوش تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران نے 1965ء میں ہماری بہت مدد کی لیکن جب ایران میں ’اسلامی انقلاب‘ آیا تو اُس کے تعلقات سعودی عرب کے زیراثر اسلامی دنیا سے کم ہوتے چلے گئے۔ عجیب مماثلت رہی کہ سعودی عرب کی طرح ’اسلامی انقلاب‘ امریکہ و مغربی یورپی ممالک کو بھی پسند نہ آیا اور ایک اسلامی ملک کی مدد سے دوسرے اسلامی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے لیکر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے تک اگر ایران کے ساتھ کوئی شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا تو وہ ’روس‘ اُور کسی حد تک چین تھا جبکہ مسلمان اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان کا کردار اپنی خارجہ پالیسی اور افغانستان میں مہم جوئی کی وجہ سے مخالف سمت رہا۔ ایران یورپی یونین اور امریکہ سے دور ہوتا چلا گیا تو پاکستان نے بھی ایران سے فاصلے بڑھا لئے لیکن اگر ماضی کو دفن کرکے موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو ایران سے ہمارا تعاون کا ایک فطری پہلو بھی ہے۔ ایران کے پاس فی الوقت تیل و ذخائر تو موجود ہیں لیکن اُن کی ترقی اور اُن سے استفادہ کرنے کے لئے ایران کو تکنیکی و فنی امداد کے ساتھ اربوں ڈالر اور سالہا سال کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران سے زرعی تجارت میں بھارت کے مقابلے پاکستان کا تناسب چالیس فیصد سے اگر کم ہے تو اس میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ زمینی طور پر منسلک ہونے کی وجہ سے ہم ایران کی منڈیوں تک کم وقت اور کم خرچ میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ تین اجناس یعنی کپاس‘ چاول اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد پر مرکوز رکھنی چاہئے لیکن اس کے لئے صنعتی و زرعی شعبے میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ مثال کے طور پر صنعتوں کو جو بجلی اور گیس (اِن پُٹ) دی جا رہی ہے اُس کی قیمت زیادہ اور مقدار کم ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے کو دی جانے والی کھاد‘ ڈیزل اور بیج (پیداواری ضروریات) کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ہمارے پاس چینی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن عالمی منڈی میں چینی کی کم ہونے کی وجہ سے ہم پاکستانی چینی برآمد نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس گندم ضرورت سے زیادہ (سرپلس) ہے لیکن 2نومبر 2014ء سے مقرر کردہ مقامی (امدادی) قیمت تیرہ سو روپے فی چالیس کلوگرام کے مقابلے عالمی منڈی میں قیمت 900روپے ہے تو پاکستان کی مہنگی گندم کون خریدے گا؟ زرعی شعبے کو سستی بجلی و گیس کی فراہمی ضروری ہے اور ساتھ ہی بڑے زمینداروں اور کھاد بنانے والے اداروں کی اجارہ داری و ناجائز منافع خوری جیسے منفی محرک پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے کسان کو کھاد سونے جیسے بھاؤ پر ملتی ہے جس پر جی ایس ٹی بھی عائد ہے۔ گھریلو صارفین کے لئے اگر گیس کی قیمت ڈھائی سو سے ساڑھے تین سو روپے‘ سی این جی اسٹیشنوں کے لئے چھ سے سات سو روپے لیکن کھاد بنانے والی صنعتوں (ایگروز) کو گیس 60 پیسے فی ملین مکعب فٹ کے حساب سے دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود کھاد کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ بنیادی و ذیلی مسئلہ یہ ہے کہ کھاد بنانے والی کمپناں اپنی سرمایہ کاری کے عوض سالانہ 80فیصد سے زیادہ منافع کما رہی ہیں! تصور کیجئے کہ 100روپے پر 80روپے کمائی اور وہ بھی چند افراد کا گروہ! یقیناًحکومت کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔

پاکستان کی برآمدات کم ہونے کی ایک وجہ عالمی بحران بھی ہے جس کی وجہ سے بھارت جیسے ملک کی برآمدات بھی دس فیصد برآمدات کم ہوئی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ سے طلب اور مانگ کم ہونے کے منفی اثرات پھیل رہے ہیں لیکن ہماری برآمدات کم ہونے کی دیگر وجوہات (محرکات) بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں پیدا ہونے والی کپاس معیاری نہ ہونے کی وجہ سے کم مقدار میں برآمد ہوتی ہے اور اس میں بیرون یا داخلی سرمایہ کاری بھی نہیں کی جاتی جیسا کہ چینی کی صنعت میں ہوتی ہے۔ برآمدات کرنے والے تاجروں کے الگ گلے شکوے ہیں جنہیں انکم ٹیکس کی واپسی بروقت نہیں ہوتی۔ تصور کیجئے کہ وفاقی ادارے ’ایف بی آر‘ کے پاس واجب الادأ ’’ریفنڈ پے منٹ آرڈرز‘‘ کی مالیت تیس ارب سے زیادہ ہے! کیا یہ زرعی و صنعتی شعبے کی ترقی کے لئے سازگار ماحول ہے؟


پچھلے دو سال میں جس تیزی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اُس سے حکومت کو کم سے کم ’’گیارہ ارب ڈالر‘‘ کا فائدہ ہوا لیکن یہ فائدہ صارفین کو منتقل کرنے کی بجائے بجٹ کے خسارے (غیرترقیاتی اخراجات) کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے فی پاکستانی خاندان پینتیس سے چالیس ہزار روپے کے مساوی معاشی فائدے کے ثمرات محدود ہو گئے۔ ایک تو بجٹ خسارہ پورا نہ ہوسکا اور دوسرا بلواسطہ (ڈائریکٹ) ٹیکس وصول کرنے میں حکومت نے ناکام ہونے کا آسان حل یہ نکالا کہ بلاواسطہ (اِن ڈائریکٹ) محصولات (ٹیکس) عائد کر دیئے جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدن کم لیکن ٹیکس کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے!


ہمارے حکمراں خواب بیچنے کے ماہر ہیں۔ چین سے اقتصادی راہداری کا خوشنما خواب ابھی کالا باغ ڈیم کی طرح تنازعات سے نکلا نہیں کہ ہماری توجہ ایرانی منڈیوں اور ایران کے وسائل کی جانب مبذول کر دی گئی ہے۔ نجانے کیوں ہمیں ایران کے مفادات دکھائی نہیں دے رہے جو ماضی میں ’رشین بلاک‘ میں ہونے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ سیاسی‘ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو زیادہ اہمیت دیتا رہا ہے اور اب بھی بھارت کے ساتھ زیادہ گہرے تجارتی روابط رکھتا ہے لہٰذا کسی (اضافی و امکانی) خوش فہمی میں مبتلا ہونے یا مفروضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اُن منفی امور کی اصلاح کی جائے جس سے پاکستان میں داخلی طور پر صنعتی یا زرعی شعبے کی ترقی ممکن نہیں ہو پا رہی! بہتری اِسی میں ہے کہ ہم دور کے سہانے ڈھول (امریکہ) کی تاپ پر رقص جاری رکھنے کی بجائے اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ مل کر ایسی (آزاد) تجارتی و علاقائی اقتصادی تعاون پالیسی (لائحہ عمل) تیار کریں جو بعدازاں چین کی اقتصادی راہداری کا حصہ بن کر زیادہ مفید و کارآمد اور منافع بخش ثابت ہو۔

Mar2016: Pak Iran Relations: New Era

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاک اِیران تعلقات: توقعات کا نیا دور!
جب کسی ملک کی قیادت داخلی و خارجی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خلوص نیت و عمل سے اقدامات کرتی ہے تو لامحالہ ’وقوع پذیر‘ ہونے والی بہتری کے بارے میں صرف اپنے ہی نہیں بلکہ غیروں کے منہ سے بھی تعریفی کلمات کی بارش ہونے لگتی ہے یقین نہ آئے تو مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے تبصروں اور جائزوں کو ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح پاکستان کے اُس کردار کو سراہا جا رہا ہے جو سعودی عرب کے قریب رہتے ہوئے اپنے ہمسایہ ’جمہوری اسلامی ایران‘ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے اُمت مسلمہ کے دو اہم ممالک میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کرنے کے لئے مثبت‘ کثیرالجہت مثبت کردار سے متعلق ہے‘ اور جس کا اعتراف خود ایران بھی بارہا کرچکا ہے۔ اگرچہ ایک ہمسایہ ملک کے صدر کو اسلام آباد کا دورہ کرنے میں چار سال کا وقفہ ہے لیکن اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے کے قریب آئے گی۔ اراکین اسمبلی کے وفود کا زیادہ بڑے پیمانے پر تبادلہ ہوگا اور پاکستان و ایران باہم تجارت کے امکانات کے علاؤہ خطے میں امن و سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ایران سے کیا چاہئے؟ پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اُور گیس کا پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات کے ساتھ تبادلہ۔ سوال یہ ہے کہ ایران کی پاکستان سے توقعات کیا ہیں؟ ایک ایسی تجارت جس میں اجناس کے بدلے اجناس سے زیادہ نقد قیمت وصول کی جائے جو ایران کی فی الوقت ضرورت ہے۔ پاکستان دوطرفہ تجارت میں درآمدات و برآمدات کے توازن کو اپنے حق میں رکھنا چاہتا ہے اور ایران کو ایک ایسی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے جہاں خوردنی اجناس اُور ملبوسات کی مانگ ہے۔ دوسری طرف ایران مسلم امہ اور عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جبکہ پاکستان داخلی محاذ پر ایران کے اثرورسوخ سے فرقہ واریت پر قابو پانے کا متمنی ہے۔ دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے ’’توقعات اُور اُمیدوں کی پیاس‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کامیابی کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔

ایران کے صدر حسن روحانی اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ایک ہی وقت یعنی سال 2013ء سے برسراقتدار ہیں اور دونوں رہنماؤں کو کم و بیش ایک جیسے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے‘ جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسن روحانی نے ’مشروط حالات اور وابستگی‘ کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’پاکستان کی سلامتی و خوشحالی ایران کی سلامتی و خوشحالی کا ذریعہ ہے۔‘‘ ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس تو دونوں ممالک کی قیادت کو پہلے ہی سے تھا لیکن جس انداز میں ایران کے صدر نے تعلقات و تجارت بڑھانے کی بات کی ہے‘ اُس سے دلی کیفیت پوشیدہ نہیں رہی۔ تصور کیجئے کہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد روس کے صدر ولادمیر پوٹن وہ پہلے غیرملکی رہنما تھے جنہوں نے نومبر دوہزار پندرہ میں ایران کا دورہ کیا۔ جس کے بعد جنوری دوہزار سولہ میں چین کے صدر زی جن پنگ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے دوسرے ایسے مستقل رکن تھے جو تہران جا پہنچے۔ قابل ذکر ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی روس اور چین کا ایران سے تجارت کا حجم بالترتیب چار اور پانچ سو ارب ڈالر رہا۔ ایران نے حال ہی میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ چین سے تجارت کو چھ سو ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے اور اسی طرح کی کوشش میں روس بھی لگا ہوا ہے جس نے جوہری و دفاعی شعبوں کے علاؤہ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات و گیس کی ترقی کے لئے حال ہی میں معاہدے کئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمسایہ ملک پاکستان اور ایران کے درمیان فاصلے نہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہونے والی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی‘ جسے بہرحال کم کرنے کے لئے دونوں ممالک کی قیادت پراُمید دکھائی دے رہی ہے۔

اگر اندیشہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے کے قریب آنے کو کس نظر سے دیکھتا ہے تو اس بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلم ممالک کے عسکری اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان نے جس غیرجانبداری کا ثبوت دیا ہے‘ اُس سے دنیا پر پاکستان کی غیرجانبدار و آزاد خارجہ پالیسی واضح ہوگئی ہے۔ یہی وہ امر بھی ہے جس نے ایران کی قیادت و عوام کے دل جیت لئے ہیں اور دراصل اِسی کا اظہار تشکر کرنے کے لئے صدر روحانی پچیس مارچ کو اسلام آباد پہنچے۔ اگر ہم نوروز (نئے سال) کے موقع پر ایرانی صدر کی تقریر دیکھیں تو اُس میں بھی خطے کے ممالک سے تجارتی روابط بہتر بنانے کی ضرورت اور قیام امن کے لئے تعاون کی جو بات کہی گئی ہے تو اشارہ پاکستان ہی کی طرف تھا یقیناًایران پاکستان کی مدد سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے جو درپردہ (بادی النظر میں) سب سے مثبت و اہم پیشرفت ہے۔

پاکستان کے اِس مؤقف کو پوری امہ میں پذیرائی ملی ہے کہ سعودی عرب اُور ایران کے کردار و باہمی تعلقات کو دوست یا دشمن کی اصطلاحوں یا حوالوں سے نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ہی امت کے جز اور انہیں ایک ہی امت کے نظریئے سے دیکھنا چاہئے۔ ایران پاکستان کے لئے یکساں مفید (کارآمد) ہے کیونکہ ہمیں ’انتہاء پسندی‘ کے جس مسئلے کا سامنا ہے اُس میں ایران اپنے اثرورسوخ سے کمی لا سکتا ہے۔ ایران کے صدر کا پاکستان آنا بہت ہی غیرمعمولی بات ہے تاہم برسوں کا تعلق لیکن چار سال بعد ایران کے صدر کا دورہ فاصلوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ایران پر امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے اقتصادی و معاشی تعلقات بحال رکھنا پاکستان کے لئے مشکل تھا لیکن اسے پاکستان کی طرف سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا کیونکہ ثقافتی و دیگر شعبوں میں بھی تعاون اور تعلقات بھی کم ترین سطح پر رہے۔

ایک دہائی سے جو رکاوٹیں (مجبوریاں) تھیں وہ (الحمدللہ) ختم ہو گئیں ہیں۔ ایران دنیا کے تجارتی و اقتصادی ترقی کے نقشے پر اُبھر رہا ہے اور ایسے وقت میں جو کوئی ایران کے قریب ہوا وہی مستقبل میں زیادہ مستفید ہوگا کیونکہ باہم تجارت کے روابط گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ ایران سے ہمارا کوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔ جتنی تجارت ہوگی اُتنے ہی اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے۔ دنیا میں سفارتکاری کے اسلوب بدل رہے ہیں۔ اگر ہمارے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایران سے دوری (کنارہ کشی) اختیار کر لیں۔ دونوں ممالک نے پانچ ارب تک تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جس میں اِس سے دگنا اضافہ ممکن ہے کیونکہ اگر پاکستان ایران سے صرف گیس ہی خریدتا ہے تو یہ سودا 2ارب ڈالر سے زیادہ ہوگا۔ البتہ دونوں ممالک کو مشترکہ باڈر منیجمنٹ‘ دفاعی شعبوں میں تعاون‘ خفیہ معلومات کے تبادلے اور پاکستان اور ایران کے درمیان بلوچستان میں امن کی بحالی کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ایران اور پاکستان کے درمیان دفاع کے شعبوں میں تعاون اور خفیہ معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کے برابر ہے جسے بڑھانے کا کھلے عام تذکرہ (چرچا) تو نہیں ہوا‘ لیکن اِیرانی ذرائع کے مطابق ’’پاکستانی قیادت سے ہوئی ملاقاتوں میں اِس شعبے میں بھی تعاون کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔‘‘
The new era of cooperation with Iran based on lot of expectations, only from the Pakistan side

Wednesday, March 23, 2016

Mar2016: Hopes & Disappointments about Regi!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اُمید و یاس: ریگی ماڈل ٹاؤن
درخت امن‘ خوشحالی اور زندگی کی علامت ہیں‘ جنہیں اُن کے تعمیروترقی کا استعارہ قرار دیتے ہوئے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک نے روایت شکنی اور غیرمعمولی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح جنگلات کے عالمی دن (اکیس مارچ) کے موقع پر وزیراعلیٰ نے نہ صرف خود بلکہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ ایک ایسا خطرہ مول لیا‘ جس کا ایک عرصے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اور پشاور میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ جیسی اہم شخصیت ایسے علاقے کا دورہ کرنے گئی جو ’نوگو ایریا‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو کسی ’سرکاری عمارت یا اپنی رہائشگاہ‘ کے سبزہ زار میں بھی رسمی طور پر ایک درخت لگا کر اُس شجرکاری مہم کا افتتاح کرسکتے تھے‘ جس میں رواں سال دس لاکھ جبکہ پانچ سالہ حکمت عملی کے تحت ایک کروڑ سے زائد درخت لگائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ کے ہمراہ دیگر اہم شخصیات اور اِس موقع پر موجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک ایسی اجاڑ زمین میں پودے لگائے جہاں اِس قسم کی سرگرمیوں کے انعقاد کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا اُور اہم شخصیات تو درکنار مسلح پولیس اہلکار بھی دن دیہاڑے جانے سے کتراتے تھے۔ یہ بات وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں بھی کہی اُور اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ایک دہائی سے قانونی کاروائیوں کے باعث سردخانے کی نذر ’ریگی (للمہ) ماڈل ٹاؤن‘ نامی ایک معیاری و ضروری ’جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی منصوبے‘ کو مکمل کی جائے گا اور اِس اراضی پر ملکیت کا دعویٰ رکھنے والے مقامی افراد کی رضامندی حاصل کی جائے گی۔‘‘

ریگی ماڈل ٹاؤن نہایت ہی خطرناک‘ پیچیدہ اور دیرینہ تنازعہ ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس معاملے کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اتنا ہی الجھتا چلا جا رہا ہے اور یقینی امر ہے کہ اگر صوبائی حکومت اِس منصوبے کی تکمیل میں دلچسپی لے گی تو مخالفت کرنے والے عناصر کی تسلی و تشفی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ 25 برس قبل (سال 1991ء میں) شروع ہونے والا ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ منصوبہ 27 ہزار سے زائد مکانات پر مشتمل ہوگا لیکن چونکہ ’پشاور کے ترقیاتی ادارے (پی ڈی اے)‘ نے منصوبے کے اراضی کی حصول (خریداری) میں خاطرخواہ احتیاط و دردمندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ اِس لئے کئی فریق اِس بنجر زمین کی ملکیت کے اچانک دعویدار بن کر سامنے آگئے اور انہوں نے بھاری رقومات (معاوضے) کامطالبہ شروع کردیا۔ المیہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے دو دہائیوں سے زائد التوأ کا شکار رہنے والے اِس منصوبے کی تکمیل پر لاگت کا تخمینہ کئی ہزار گنا بڑھ چکا ہے۔ تصور کیجئے کہ جو منصوبہ صرف 7 ارب روپے سے مکمل ہو سکتا تھا اب اُس کی تکمیل کے لئے 35ارب روپے درکار ہوں گے!
پشاور کی آواز (Peshawar Voice) کے نام سے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’ٹویٹر‘ پر ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ منصوبے کیجانب فیصلہ سازوں کی توجہ مبذول کرانے کی ایک ’خصوصی مہم‘ @Regi_Model_Town کے ہینڈلر سے جاری ہے اور اِس مہم کی حمایت یا اِس میں سرگرمی سے حصہ لینے والے اراکین کی تعداد (بائیس مارچ دوہزار سولہ دوپہر دو بجے تک) 1769 تک پہنچ چکی ہے۔ اِس گروپ کی جانب سے 217 افراد کے دستخطوں سے 2 سال قبل ایک ’کھلا خط‘ بنام عمران خان‘ اسد عمر‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اُور وزیر بلدیات عنایت اللہ کے نام شائع کیا گیا جس کا یک نکاتی مطالبہ یہ تھا کہ ’’گرین اینڈ کلین پشاور‘‘ نامی مہم میں ’ریگی ٹاؤن شپ‘ کو بھی شامل کی جائے۔‘‘ تنظیم کی جانب سے صوبائی حکومت کی توجہ اِس امر کی جانب بھی مبذول کرائی گئی کہ ’ریگی منصوبے‘ پر کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں‘ جن سرکاری ملازمین کو چھت فراہم کرنے اور گنجان آباد پشاور میں رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک معیاری منصوبہ تشکیل دیا گیا‘ اُس کے خالق عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے اور اب تک پانچ حکومتیں اِس منصوبے کی تباہی خاموش تماشائی بن کر دیکھ چکی ہیں لہٰذا موجودہ صوبائی حکومت پشاور کے اِس سب سے بڑے اُور منفرد رہائشی منصوبے کی تکمیل کو عملاً ممکن بنائے۔ یقیناًسماجی رابطہ کاری کے ذریعے اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچانے والوں کی کوششیں رنگ لائی ہیں اور اُنہیں اکیس مارچ کی تقریب و اعلانات سے راحت کا احساس ہو رہا ہوگا لیکن یہ مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہونے والا نہیں کیونکہ جس وقت عمران خان اور پرویز خٹک سمیت اہم شخصیات ریگی کی مٹی میں درخت لگا کر پشاور کی ترقی‘ سرسبزی وشادابی کی دعائیں مانگ رہے تھے عین اُن لمحات میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر خیبرایجنسی کی تحصیل جمرود کے ’’غنڈئ چھوٹا نہار‘‘ نامی مقام پر قبائلی عمائدین بشمول اراکین قومی اسمبلی (الحاج شاہ جی اور باز گل آفریدی) جمع ہوئے اُور کوکی خیل قبیلے کے اِن عمائدین نے ریگی ماڈل ٹاؤن کی تکمیل کے حوالے سے صوبائی حکومت کے بیانات و تقریب کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دی کہ ’’اگر صوبائی حکومت نے ماورائے عدالت (متنازعہ) ’ریگی ماڈل ٹاؤن‘ کو بنانے کی کوشش کی تو نہ صرف تعمیراتی و ترقیاتی کام روکا جائے گا بلکہ پاک افغان (جمرود) شاہراہ بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دی جائے گی!‘‘ ضرورت نپے تلے اقدامات کے ساتھ قبائلی روایات کو سمجھتے ہوئے جرگہ کی صورت متعلقہ قبائلی عمائدین کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی ہے تاہم اِس حکمت عملی کی کامیابی کے صوبائی حکومت کو بطور فریق سامنے آنا ہوگا۔ بہت سا وقت ضائع ہوچکا ہے اور ریگی ماڈل ٹاؤن کو ایک ماڈل بنا کر تحریک انصاف کی قیادت اپنے اُس انتخابی وعدے کی تکمیل میں ایک اہم سنگ میل عبور کر سکتی ہے جو پشاور میں رہائشی وسائل میں اضافے اور متعلقہ مسائل کے حل کے سلسلے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ’’اُمیدویاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے۔۔۔مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے!‘‘


The future of Regi Model Town still not clear as CM KP Pervez Khattak promised to resume the development work

Tuesday, March 22, 2016

Mar2016: Corruption & Plantation Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شجر کاری مہم: منفی عوامل!
عمران خان پشاور تشریف لائے لیکن خبر یہ ہے کہ اُنہوں نے اکیس مارچ کے روز دوپہر دو بجکر بیس منٹ پر ’ریگی للمہ ٹاؤن شپ‘ کے مقام پر ’شجرکاری مہم‘ کا افتتاح کیا جس سے قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’رواں موسم بہار میں دس لاکھ پودے لگائے جائیں گے جبکہ مجموعی طور پر درخت لگانے کے ہدف کو ایک ارب سے بڑھا دیا گیا ہے۔‘‘ اس موقع پر گرمجوش انداز میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’’پاکستان کی 70سالہ تاریخ سب سے زیادہ درخت خیبرپختونخوا میں لگائے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے ’سبز ربن مہم (Green Ribbon)‘ بھی متعارف کرائی جس میں ہر طالبعلم پر زور دیا گیا کہ وہ رواں برس کم سے کم ایک پودا ضرور لگائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی خواہش پر صوبائی حکومت ہر سال پہلے سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ پانچ سال میں ’ایک ارب درخت‘ نامی شجرکاری مہم کو عملی جامہ پہنایا جاسکے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کی معیشت و اقتصادیات پر طویل المعیاد مثبت اثرات مرتب کرے گی بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے اور بالائی علاقوں میں بارشوں کا اعتدال‘ زمینی کٹاؤ کے کم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کا عمل روکنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن شجرکاری مہم کو دیمک کی طرح چاٹنے والے چند ایسے منفی عوامل بھی ہیں جن کی بارہا اِن سطور میں نشاندہی کی جاتی رہی ہے لیکن صوبائی کابینہ کی سطح پر اُن کے امکانی و ظاہری وجود کے بارے سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں شجرکاری کے نام پر پودوں کی خریداری میں گھپلوں کے انکشاف نہ صرف صوبائی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہا ہے بلکہ شجرکاری مہم جیسی اہم ضرورت کی رفتار بھی سست ہونے کا اندیشہ ہے! علاؤہ ازیں جنگلات میں اضافے کے لئے صوبائی حکومت کے عزم کو لگنے والا دھچکا الگ سے توجہ طلب ہے‘ جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہوگی!

توجہ رہے کہ خیبرپختونخوا میں شجرکاری مہم کے لئے مختلف اضلاع میں پودوں کی مہنگے داموں اُور من مانی قیمتوں پر خریداری کا معاملہ ’درختوں کے عالمی دن (اکیس مارچ)‘ کے روز منظرعام پر آیا ہے جبکہ بدعنوانی سے پاک طرزحکمرانی متعارف کرانے کا دعویٰ کرنے والوں میں پائی جانے والی مایوسی یقیناًاُن تمام سرکاری اہلکاروں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے جنہوں نے ’شجرکاری مہم‘ کی آڑ میں بدعنوانی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا! قابل ذکر ہے کہ ہرسال اکیس مارچ کے روز ’تین عالمی دنمنائے جاتے ہیں۔ 1: جنگلات کا عالمی دن۔ 2: شجرکاری کا عالمی دن۔ 3: لکڑی کا عالمی دن اُور تینوں ایام کا تعلق ایک ہی شے یعنی درخت سے ہے‘ جس کی اہمیت و ضرورت کو سمجھ لیا گیا ہے لیکن چند ایسے عناصر بھی ہیں جو ترقی کے عمل اور اِس کے مقاصد کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ’شجرکاری مہم‘ سے ذاتی مفادات وابستہ کررکھے ہیں!

افسوسناک امر ہے کہ خیبرپختونخوا میں شجرکاری کے لئے کی گئی خریداری میں خردبرد سامنے آئی ہے‘ جس کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ضلع مردان میں چیر درخت کا ایک پودا چھ روپے جبکہ دیگر اضلاع میں ایک سو روپے سے زائد کے عوض خریدا گیا۔ اسی طرح آم کا پودا جو کہ پشاور کی نرسریوں میں بھی عام طور پر ایک سو روپے قیمت رکھتا ہے لیکن اِس پودے کی سرکاری کاغذوں میں دو سو تیس روپے قیمت ادا کی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شجرکاری مہم کے اخراجات میں سرکاری اہلکاروں نے اپنی صوابدید پر تین ہزار روپے فی پودا خریداری بھی فرمائی ہے جبکہ شجرکاری مہم کی ایک افتتاحی تقریب ایسی بھی ہوئی جس کے لئے 1200 روپے کا پودا خریدا گیا! بے قاعدگیوں کی ایسی درجنوں مثالیں مزید تحقیقات کے لئے خفیہ ادارے کو سونپ دی گئی ہیں۔ اگر ماضی میں اِس طرح کی بے قاعدگیوں کی خاطرخواہ تحقیقات کی جاتیں اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے معاف نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اِس قدر بڑے پیمانے پر مالی وسائل خردبرد ہوتے۔ محکمۂ جنگلات و زراعت سمیت جملہ سرکاری محکموں میں ’سزا و جزأ‘ کا تصور اور صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثہ جات سے متعلق کوائف بمعہ بیان حلفی داخل دفتر کریں۔ عجب ہے کہ جملہ سرکاری وسائل بشمول گاڑیوں اور اُن کے ایندھن کی مد میں ہونے والی خردبرد چند ہزار درختوں کی خریداری میں ہوئی لاکھوں ہزار روپے کی خردبرد سے کہیں زیادہ اور مستقل بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک ’شجرکاری مہم‘ کی بدنامی و ناکامی کا سبب بننے والے جملہ محرکات کی اصلاح فرماتے ہوئے سرکاری وسائل کی اندھا دھند لوٹ مار کا بھی نوٹس لیں گے اور فوری طور پر ابتدا اِس بات سے کر سکتے ہیں کہ دفتری اُوقات کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ سخت ترین مالی و انتظامی نظم وضبط لاگو کئے بناء اصلاحاتی کوششیں معنوی و عملی لحاظ سے کافی ثابت نہیں ہوں گی۔
Corruption shadow the plantation drive in KP, Pakistan