Saturday, December 25, 2021

The Damage by Damage Control Measures

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

.... نہ جانے محبت کا انجام کیا ہے!

اُنیس دسمبر دوہزار اکیس: خیبرپختونخوا کے 17اضلاع کی 63 تحصیلوں میں مقامی حکومتوں کے قیام کے سلسلے میں انتخابات کے پہلے مرحلے میں 47 تحصیلوں کے سرکاری نتائج کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سترہ جبکہ تحریک انصاف نے بارہ تحصیلوں میں ’چیئرمین شپ‘ کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تحریک کے لئے شکست کا صدمہ ’تحصیل پشاور‘ میں ناکامی کی وجہ سے زیادہ محسوس ہو رہا ہے جہاں حاجی زبیر علی (جے یو آئی ف) کو باسٹھ ہزار تین سو اٹھاسی جبکہ رضوان بنگش (تحریک انصاف) کو پچاس ہزار چھ سو اُنسٹھ ووٹ ملے اگرچہ 6 پولنگ مراکز پر تشدد کاروائیوں (نقص امن) کے باعث الیکشن کمیشن نے انتخابی نتیجے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن گیارہ ہزار سے زائد ووٹوں کی فیصلہ برتری سے جمعیت کی انتخابی کامیابی شک و شبے سے بالاتر یقینی ہے۔ پشاور کی باقی ماندہ چھ تحصیل چیئرمین کی نشستوں میں سے جے یو آئی (ف) نے چار نشستیں جبکہ پی ٹی آئی اور اے این پی نے ایک‘ ایک نشست جیتیں جبکہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں نے سات تحصیلوں کی چیئرمین شپ حاصل کی۔ مجموعی طور پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے تحصیل کونسل چیئرمین کی چھ‘ مسلم لیگ (ن) نے تین‘ جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور تحریک اصلاحات پاکستان نے ایک‘ ایک نشست جیتی۔

بیس دسمبر دوہزاراکیس: وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں امیدواروں کے غلط انتخاب کو تحریک انصاف کی خراب کارکردگی کی ”بنیادی وجہ“ قرار دیا اُور کہا کہ پہلے مرحلے میں غلطیاں کیں اور اس کی قیمت ادا کی۔ دوسرے مرحلے اور ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے حکمت عملی کی نگرانی خود کروں گا۔ 

چوبیس دسمبر دوہزار اکیس: وزیراعظم نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اہلیت کے برعکس خاندانوں میں ٹکٹ دیئے جانے کی شکایات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ملک بھر میں تنظیموں تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کے بقول ”اگر تحریک انصاف کی سیاست متاثر ہوتی ہے تو دراصل یہ پاکستان کی سیاست متاثر ہونے کے مترادف ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اُور کہا کہ پی ٹی آئی خاندانی سیاست والی جماعت نہیں۔

اُمید یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد ’تحریک انصاف‘ زیادہ چمک دمک اُور کارکنوں کے حمایت کے سبب زیادہ پروقار و پراعتماد انداز سے دوسرے انتخابی مرحلے میں اُن سیاسی مخالفین کا سامنا کرے گی جن میں بہت کم نظریاتی ہیں اُور یہی بات تحریک انصاف کو عصری جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے کہ شروع دن سے کا نعرہ ’موروثیت اُور مفادات‘ سے پاک سیاست کا رہا ہے تاہم اِس خواب کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ جماعت کی قیادت سے بار بار ’عالمانہ غلطیاں‘ سرزد ہو رہی ہیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تحریک اپنی غلطیوں کو تسلیم کر رہی ہے اُور مرکزی قیادت کا کھلے دل سے حقیقت و شکست کو تسلیم کرنا بھی اِس اَمر کی عکاسی کرتا ہے کہ تحریک واحد ایسی جماعت ہے جس میں 1: ’خوداحتسابی‘ عملاً زندہ ہے اُور 2: تحریک خاندانی (موروثی) سیاست کو اپنے نظریئے کی موت سمجھتی ہے۔ اگر خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے نتائج کی تہہ میں دیکھا جائے تو بال کی کھال اُتارنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1: تنظیمیں تحلیل کرنا مرض کا علاج نہیں ہے کیونکہ پارٹی ٹکٹ تنظیموں کی سفارشات پر نہیں دیئے گئے تھے۔ 2: تنظیمیں تحلیل کرنے کا یہ وقت انتہائی نامناسب ہے کیونکہ تحریک انصاف کی تاریخ رہی ہے کہ جب کبھی بھی اِس کے جماعتی انتخابات ہوئے اُس سے کئی دھڑوں نے جنم لیا اُور وہ سبھی کردار جو پہلے ہی پارٹی کی فیصلہ سازی کو ہائی جیک کر چکے ہیں اگر دوبارہ تنظیم سازی بھی کی گئی تو اُنہی کے ہم خیال منتخب ہو جائیں گے۔ 3: توانائی‘ وقت اُور دیگر وسائل تنظیم سازی کی نذر کرنے کی بجائے اگر تحریک ِانصاف ”آن لائن رکن سازی مہم“ کا آغاز کرے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 4: وزیراعظم سٹیزن پورٹل کی طرز پر ’کارکن پورٹل‘ کا آغاز کیا جائے جس کے ذریعے پارٹی کے کارکن کسی انتخابی حلقے یا اپنے حلقوں سے منتخب ہوئے یا متعلقہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اُور سینیٹرز کی کارکردگی کے بارے خیالات و شکایات کا اندراج کر سکیں۔ شاید بنی گالہ کے سامنے منتخب اراکین اسمبلی کی کارکردگی کا یہ پہلو پیش نہیں کیا گیا کہ تحریک کی نامزدگی حاصل کر کے اُور غیرمقامی ہونے کے باوجود جو اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹ تک پہنچے ہیں‘ وہ اپنے متعلقہ حلقوں کو خاطرخواہ اہمیت اُور توجہ نہیں دے رہے۔ اِس سلسلے میں پشاور شہر کے چودہ صوبائی اُور پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جس میں تحریک انصاف کو بالترتیب گیارہ اُور پانچ کا بلند ترین تناسب حاصل ہے لیکن اِس کے باوجود بھی اراکین اسمبلی بالخصوص وفاقی و صوبائی کابینہ کے اراکین اُور کارکنوں کے درمیان روابط مستحکم و مربوط نہیں ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سیاسی تاریخ میں تحریک ِانصاف کا جواب تلاش کرنے والوں کو اگر کوئی جواب مل سکتا ہے تو وہ بھی تحریک ِانصاف ہی ہوگا لیکن اِس سیاسی متبادل کو نظریاتی متبادل بنانے کے لئے اُن سبھی کمزور پہلوو¿ں پر غور کرنا ہوگا جو حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کا باعث بنے۔

جمہوریت کی بنیاد انتخابات اُور انتخابات کا مقصد حزب اختلاف اُور حزب اقتدار کی صورت ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحصیل پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی اکثر تحصیلوں پر ’حزب اختلاف‘ کی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں تو یہ نتیجہ اِس لحاظ سے باعث ِخیروبرکت ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی وسائل کی فراہمی اُور اِن کی کارکردگی پر صوبائی حکومت کڑی نظر رکھے گی اُور کسی بے قاعدگی کو جماعتی مصلحت کی وجہ سے درگزر نہیں کیا جائے گا۔ اِسی طرح حزب اختلاف پر مبنی مقامی حکومت (بلدیاتی نظام) بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دانستہ غلطیوں (تجاہل عارفانہ) سے ہر ممکنہ حد تک گریز کرے گی تاکہ حزب اقتدار کے ہاتھ اُس کی کوئی کمزوری نہ لگے۔ جمہوریت کا دوسرا نام ایک ایسا نظام ہے جس میں عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اُور اگر آسانیاں ہی مطلوب و مقصود ہیں تو پھر اِس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون جیتا اُور کون ہارا البتہ انتخابی کارکردگی کو متاثر کرنے والے صرف عوامل ہی نہیں بلکہ اُن عناصر (نادان و مفادپرست ساتھیوں) کی نشاندہی اُور احتساب بھی ضروری ہے‘ جنہوں نے تحریک پر پشت سے وار کیا ہے۔ ”نہ جانے محبت کا انجام کیا ہے .... میں اب ہر تسلی سے گھبرا رہا ہوں (اِحسان دانش)۔“

....


Friday, December 17, 2021

LG Polls: The world of consciousness!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : اِرتقا کا شعور

شاعر سیاسچدیو نے کہا تھا ”پہلے ہوتا اگر شعور اِتنا .... شیشہ¿ دل نہ ہوتا چور اِتنا۔“ شعور کی منازل لاشعوری طور پر طے ہونا ممکن نہیں ہوتیں بلکہ اِس کے لئے دل و جان لگا کر بے لوث محنت کرنا پڑتی ہے اُور ہمارے ہاں سیاست اُور بالخصوص اِنتخابی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس میں ماضی کے واقعات یا اِداروں کی کارکردگی کا اِحتساب نہیں ہوتا اُور یوں ہر انتخاب کے بعد وہ تمام غلطیاں دہرائی جاتی ہیں‘ جن کی وجہ سے سیاست و انتخابات دونوں ’ناکام تجربات‘ ثابت ہو رہے ہیں اُور اِن سے مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پہلا منظرنامہ: بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں اُمیدواروں اُور سیاسی جماعتوں کی ’تشہیری مہمات‘ سے پشاور کے گلی کوچے اُور بازار سجے ہوئے ہیں۔ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے تشہیری مواد سے متعلق وضع کردہ قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے علاو¿ہ اشتہارات آویزاں کرنے کے لئے جس بھیڑ چال کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اُس سے عام انتخابات کی روح اُور پشاور کی خوبصورتی دونوں متاثر ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ وہ بلدیاتی اُمیدوار جو اپنی تشہیر پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی مالی سکت رکھتے ہیں اُور وہ بلدیاتی اُمیدوار جو تشہیر کا جواب تشہیر سے نہیں دے سکتے دونوں کے درمیان ہونے والا انتخابی مقابلہ کس طرح برابری کی بنیاد پر ہو سکتا ہے اُور کس طرح بلدیاتی انتخابات کے جاری مراحل کو منصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف سیاسی جماعتیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں اُور پیسہ پانی کی طرح بے قدری سے بہایا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف ایک عام انتخابی اُمیدوار جو اپنے حلقے کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے اُور چاہتا ہے کہ متعلقہ شہر یا علاقے کی خدمت کا حق ادا کرے لیکن اُسے اپنا پیغام انفرادی حیثیت میں گھر گھر پہنچانے کی سہولت میسر نہیں۔ عام اِنتخابات کی ”شفافیت“ کے لئے ضروری تھا کہ الیکشن کمیشن ’بے لگام تشہیری مہمات‘ کا نوٹس لیتا۔ 

دوسرا منظرنامہ: پشاور میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ہونے والے ”تشہیری بے قاعدگیوں“ کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ محکمہ¿ آثار قدیمہ کو بھی اِس بے قاعدگی کا نوٹس لینا چاہئے کہ انتخابی اُمیدوار اپنے پیغامات یا سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشورات و اعلانات آویزاں کرنے کے لئے فصیل شہر اُور پشاور کے دروازوں کا استعمال کر رہی ہیں جبکہ آثار قدیمہ کے قوانین و قواعد کے مطابق کوئی بھی شخص یا اِدارہ اپنے اعلانات فصیل شہر یا پشاور کے دروازوں پر آویزاں نہیں کر سکتا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرق ایشیا کا قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہے جہاں زندگی کے آثار 539 قبل مسیح سے ملتے ہیں اُور تاریخ دانوں کا بھی اِس بات پر اتفاق ہے کہ پشاور سے قبل قائم ہونے والے شہر اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن یہ شہر ڈھائی ہزار سال سے زائد عرصے سے آباد ہے۔ مختلف ادوار میں پشاور کو حملہ آوروں اُور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھنے کے لئے یہاں 16 دروازے قائم کئے گئے تھے جن کے نقوش وقت کے ساتھ مٹتے چلے گئے لیکن پشاور کی تاریخی حیثیت کا ادارک کرتے ہوئے اِن دروازوں کو عجلت میں دوبارہ تعمیر کیا گیا اُور اب یہ سبھی دروازے انتخابی اُمیدواروں کی تشہیر کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر متعلقہ بلدیاتی ادارہ اِس بات کا نوٹس نہیں لے رہا تو آثار قدیمہ کو اِس جانب توجہ دلانی چاہئے۔ جن انتخابی اُمیدواروں کو پشاور کی تاریخی و سیاحتی حیثیت کا علم یا ادراک نہیں اُور وہ اِس کے عملی تقاضوں کو نبھانے کا شعور نہیں رکھتے‘ اُن سے کس طرح اِس بات کی اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پشاور کو اُجاگر کرنے یا اِس دیرینہ مسائل کے حل میں کافی و کامیاب ثابت ہوں گے!؟

تیسرا منظرنامہ: بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں پر اُٹھنے والے اخراجات یعنی صرف ’قیمت (price-tag)‘ ہی باعث تشویش نہیں بلکہ ضلع پشاور میں بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے لئے 2 روز کے لئے تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل رہیں گی یعنی 2 روز (اٹھارہ اُور اُنیس دسمبر دوہزاراکیس) پشاور سمیت 9 اضلاع میں صرف اِس وجہ سے نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند رہیں گے کیونکہ بالخصوص سرکاری سکولوں کی عمارت اُور وسائل کو ’پولنگ مراکز‘ کے لئے استعمال کیا جائے گا اُور اِس سلسلے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں کو ”عوام کے (وسیع تر) مفاد میں بند کیا جا رہا ہے۔“ سمجھ سے بالاتر ہے کہ تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنا ”عوام کا وسیع ترمفاد“ کس طرح ہو سکتا ہے! عوامی مفاد تو یہ ہے کہ تعلیم کا سلسلہ بلاتعطل جاری رہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والا تعلیمی حرج پورا کیا جائے اُور اِس مقصد کے لئے نہ صرف تعطیل کے روز بھی تعلیمی اِدارے کھلے رکھے جائیں بلکہ اِنفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے آن لائن تدریسی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استفادہ عام ہونا چاہئے کیونکہ آج کے دور میں اگر کسی ایک چیز کی اہمیت ہے تو وہ علم اُور خواندگی (عوامی شعور میں اضافہ) ہے جبکہ یہ دونوں امور عوامی نمائندوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہونے چاہیئں۔ قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کے لئے جاپان کی مثال پیش ِخدمت ہے جہاں ایک مرحلے پر جب کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بند کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو اگست دوہزار اکیس میں وفاقی وزیر تعلیم کوئچی ہاگودا (Koichi Hagiuda) نے تعلیمی ادارے کسی بھی صورت بند نہ کرنے اِعلان کیا اُور کہا کہ ”حکومت کسی بھی درجے کے تعلیمی اِدارے (ثانوی‘ بنیادی اُور ہائی سکولز) بند نہیں کرے گی بلکہ وبا کا مقابلہ حفاظتی انتظامات سے کیا جائے گا۔“ اِس سے قبل جب جاپان میں ایک جوہری بجلی گھر سے خارج ہونے والی تابکاری سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی کی تو حکومت نے کھیلوں کے میدان (فٹ بال گراؤنڈز) کو سکولوں میں تبدیل کر دیا تاکہ ہنگامی حالات کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں کا حرج نہ ہو۔ دنیا نے دیکھا کہ جاپان نے عوامی شعور میں اضافے اُور قواعدوضوابط (SOPs) پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے کورونا وبا پر قابو پایا اُور اپنی اِس کوشش میں وہ کامیاب رہے۔ اگر عوام کی نمائندگی کے لئے خود کو ’اہل‘ سمجھنے اُور اپنے آپ کو سماجی خدمات کے لئے رضاکارانہ طور پر پیش کرنے والے صرف اِس ایک بات کا فیصلہ کر لیں کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر ہونے نہیں دیں گے اُور مصمم ارادے کے ساتھ عہد کریں کہ اپنی سیاسی و انتخابی سرگرمیوں کو تعلیمی بندوبست اُور معمولات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے تو اِس کے ثمرات معاشرے میں شعور اُور احساس ذمہ داری (civic-sense) کی صورت پھیلتے چلیں جائیں گے۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر عام آدمی کو بھی مطالبہ کرنا چاہئے اُور اِس بات پر احتجاج ضروری ہے کہ سیاسی یا انتخابی سرگرمیوں کے لئے تعلیمی اداروں کی بندش نامنظور ہے تو سیاسی جماعتیں اُور آزاد اُمیدوار اِس ترمیم و اصلاح کو اپنے اپنے انتخابی منشور کا جز بنا لیں گے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر اصلاح و تبدیلی کے لئے مالی وسائل (ترقیاتی فنڈز) درکار ہوں بلکہ بہت سارے کام عوامی شعور میں اضافے سے بھی عملاً ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔ ”اِسی میں ذات کا ادراک‘ اِرتقا کا شعور .... مری نظر میں محبت ہے‘ انتہاءکا شعور (شاہد فیروز)۔“

....


Sunday, December 12, 2021

The carpetbagger of Peshawar

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

سیاسی نقل مکانی

پشاور میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اُور متعلقہ رجحانات کا اثر خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع تک ’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلعی باجوڑ (قبائلی پٹی) سے تعلق رکھنے والے ملک کے سیاسی و مالی طور پر انتہائی بااثر ”بلور خاندان“ کے ایک اہم سپوت (ستون) کی ’تحریک انصاف‘ میں شمولیت کو غیرمعمولی سیاسی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اِس سے زیادہ غیرمتوقع پیشرفت ’بلور خاندان‘ کی جانب سے فوری ردعمل میں افسوس کا اظہار ہے حالانکہ عموماً ایسے مواقعوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اُور ’بلاتبصرہ‘ کہہ کر سوالات کو ہنسی مذاق میں اُڑا دیا جاتا ہے لیکن جس انداز میں انتہائی سنجیدہ اُور ذمہ دارانہ ردعمل کا اظہار سامنے آیا ہے اُس پر تحریک انصاف کے کچھ حلقوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے اُور وہ اِسے بلور خاندان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں کہ ایک نسبتاً کمزور مہرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ”ولی باغ“ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ .... ”اگر عوامی نیشنل پارٹی کے فیصلہ سازوں نے پشاور سے متعلق بلور خاندان کی رائے کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے سے رجوع نہ کیا تو آئندہ انتخابات میں یہ پورا خاندان ”سیاسی نقل مکانی“ کر سکتا ہے اُور اِس پر کم سے کم تحریک انصاف کے دروازے بند نہیں ہیں۔“ دس دسمبر سے جاری ہونے والا بلور خاندان کا ہر ردعمل ”تعجب کے اظہار سے شروع اُور صدمے کے اظہار پر ختم“ ہو رہا ہے جبکہ کسی بھی فریق کی جانب سے پوری بات بیان (حقیقت) نہیں کی جا رہی! بلور خاندان کے کسی ایک فرد کے ’عوامی نیشنل پارٹی‘ سے لاتعلقی کا اعلان درحقیقت اِس لئے بھی بڑی خبر ہے کیونکہ یہ عین اُس وقت وقوع پذیر ہوئی ہے جبکہ 19 دسمبر کے روز ہونے والی پولنگ میں عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد بلدیاتی اُمیدواروں کا ’ٹاکرا‘ براہ راست تحریک انصاف سے پڑنے والا ہے جس کی تیاریوں میں پشاور کو رنگ برنگے پوسٹروں سے سجا دیا گیا ہے۔

اہل پشاور نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات کی اِس قدر تیاریاں نہیں دیکھیں جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ گلی محلے‘ کوچہ و بازار اُور بڑی شاہراؤں پر ضلع کے کونے سے دوسرے کونے تک پارٹی پرچموں لہرا رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابی اُمیدواروں کو جاری کردہ ضابطہ اخلاق کو بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا! صورتحال یہ ہے کہ پشاور کا اصل مقابلہ ’میئر شپ (ضلع ناظم)‘ کے لئے ہے اُور اِسی مقابلے کے لئے 17 اُمیدوار ایک دوسرے کی عوامی مقبولیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ میئرشپ کی اِس دوڑ میں 9 اُمیدوار آزاد جبکہ 8 اُمیدوار مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد ہیں تاہم پولنگ کی تاریخ (اُنیس دسمبر) قریب آتے ہی مرکزی کردار پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز) اُور عوامی نیشنل پارٹی زیادہ سے زیادہ اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں کیونکہ یہی بلدیاتی انتخابات (طبل جنگ) آئندہ عام انتخابات کی تیاری بھی ہیں اُور ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے انتخابی تجربے کو نئے سیاسی حالات میں آزمانے جا رہی ہے۔

پشاور کی سیاست میں بلور خاندان کی رونمائی 1965ءکے صدراتی انتخابات کے موقع پر ہوئی۔ جس کے بعد اُنہوں نے اپنے نظریات سے قریب ترین یعنی قوم پرستی کی سیاست کا انتخاب کیا جو اُس وقت مشکل فیصلہ تھا کیونکہ قوم پرستی پشاور کے اطراف بالخصوص دیہی علاقوں میں تو مقبول تھی جبکہ پشاور شہر اُور اِس کے قریب اُور دور دراز علاقوں میں بھی مسلم لیگ اُور بعدازاں پیپلزپارٹی مقبول رہی ۔ 70ءکی دہائی میں بلور خاندان نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1975ءمیں ایوان بالا کی رکنیت حاصل کی اُور پھر اِس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا۔ سیاست اُور انتخابات میں ہر کامیابی اِس خاندان کے حصے میں آتی رہی اُور جس انتخابی اُمیدوار کے نام کے ساتھ ”بلور“ لکھا ہوتا اُس کی انتخابی کامیابی یقینی ہوتی تھی لیکن سیاست کے ترازو کا جو پلڑہ چار دہائیوں تک بلور خاندان کے حق میں رہا‘ اُسے روائتی حریفوں نواز لیگ یا پیپلزپارٹی نے نہیں بلکہ تحریک انصاف نے اپنے حق میں کیا کیونکہ بلور خاندان کے ذاتی تعلقات اُور سیاست میں سرمایہ کاری پر یقین کے باعث قومی سیاسی جماعتیں پشاور سے متعلق اپنے فیصلوں کی منظوری بھی ’بلور ہاؤس‘ کی رضامندی سے مشروط رکھے رہیں اُور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ پاکستان کا وہ ’سیاسی بندوبست‘ ہے جس میں تحریک انصاف سے قبل قومی وسائل اُور ووٹ بینک کی تقسیم سوچی سمجھی رہی ہے۔

 اہل پشاور کو دیکھنا اُور سیاسی و انتخابی تاریخ پر نظر رکھنی چاہئے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اُمیدوار نامزد کئے ہوئے ہیں ماضی میں یہی ایک دوسرے کے اتحادی رہے اُور اب بھی قومی سطح پر اتحادی ہیں لیکن اہل پشاور کو کم علم سمجھتے ہوئے اِس مرتبہ الگ الگ چہرے‘ اپنی اپنی حیثیت میں ووٹ مانگ رہے ہیں! ”اِس سفر کا چہرہ چہرہ آئنہ والا لگا .... چل پڑا تو مجھ کو سارا راستہ دیکھا لگا (قوس صدیقی)۔“

پشاور کی سیاست میں موروثیت کا عمل دخل اُور خاندانوں کی اجارہ داری کے لئے کوئی ایک خاندان نہیں بلکہ قریب سبھی سیاسی جماعتیں یکساں ملوث ہیں۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کے کئی رہنما بھی ایسے ہیں کہ جنہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹ کی نشستوں کے لئے سوائے اپنے عزیزواقارب کے علاؤہ کوئی دوسرا کارکن ”اہل“ دکھائی نہیں دیا۔ جاری انتخابی مہمات میں کئی حلقے ایسے ہیں جہاں تحریک انصاف کا مقابلہ خود اپنی ہی جماعت کے کارکنوں سے ہے جبکہ دیگر حلقوں میں بھی تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے لئے درد سر اُن کے اپنے ہی رفقا بنے ہوئے ہیں۔ انتہائی ضروری تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل تحریک انصاف ضلعی اُور صوبائی تنظیم سازی پر توجہ دیتی اُور کسی حکمراں جماعت کے لئے یہ کام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کہ وہ سرکاری وسائل کا استعمال کر سکتی ہے جیسا کہ اگر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کا صوبائی اجتماع کروایا جائے یا طلبہ شاخوں (سٹوڈنٹس یونین) کا الگ سے صوبائی کنونشن منعقد ہو اُور اِسی طرح خواتین ونگ کا صوبائی کنونشن اُور آن لائن و دیگر روائتی ذرائع سے بروقت تنظیم سازی مہمات شروع کی جاتیں‘ جن کی جانب اِن سطور کی جانب بارہا توجہ دلائی جاتی رہی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ کسی ایک شخصیت کے آنے یا جانے سے متاثر نہیں ہوگا لیکن اصل مرحلہ آئندہ قومی انتخابات ہیں جس کا طبل جنگ بج چکا ہے اُور 2018ءکے انتخابات میں پشاور سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے غضنفر بلور جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ ووٹ لئے تھے اُور جن کی شخصیت سیاست سے زیادہ کاروباری و صنعتکار حلقوں میں زیادہ فعال و مقبول ہے تحریک انصاف کے لئے انتہائی مفید (کارآمد) ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جماعتی سیاست کسی ایک رکن کے اخراج سے ختم نہیں ہوتی لیکن جماعتی سیاست میں کسی ایک رکن کی شمولیت معنی خیز اُور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے کیونکہ نئے جذبے سے شمولیت کرنے والے دیگر کارکنوں کا حوصلے بلند کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں اُور اپنے حلقہ ارباب یا اثرورسوخ بھی اُن کے شانہ بشانہ ایک نئے سفر پر چل نکلتا ہے۔ تحریک انصاف مبارکباد کی مستحق ہے کہ اُس کی قیادت اپنی ساری توجہ صرف اُور صرف بلدیاتی انتخابات ہی پر مرکوز کئے ہوئے نہیں بلکہ وہ بیک وقت مختلف محاذوں پر ڈٹ کر روائتی اُور موروثی سیاست کا مقابلہ کر رہی ہے‘ بس اِس تگ و دو میں‘ یہ بنیادی بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پشاور سے تحریک ِانصاف کے کارکن پہلے سے زیادہ تقسیم اُور پارٹی کی صوبائی قیادت سے زیادہ ناراض ہیں۔ اُن کے گلے شکوے سننے کا اہتمام نہیں۔ اِی گورننس سے سیاست نظم و نسق کو بھی درست کیا جا سکتا ہے۔ ہر رکن کے کوائف (پروفائل) بمعہ تعلیمی قابلیت‘ تجربہ اُور اہلیت کے بارے اگر اعدادوشمار دستیاب ہوں گے تو آئندہ انتخابات کے لئے نامزدگیاں کرنے کا عمل شفاف و آسان ہوگا۔ تجویز ہے کہ ”سٹیزن پورٹل“ کی طرح کارکنوں کی شکایات درج کرانے کے لئے ”آواز موبائل ایپ“ کا اجرا کیا جائے‘ جہاں آئندہ پارٹی ٹکٹ اجرا¿ سے قبل رجسٹرڈ کارکنوں کی رائے (ووٹنگ) کی بنیاد پر نامزدگیوں سے متعلق فیصلہ ہو اُور اِسی ’اِی گورننس‘ کا ثمر یہ بھی ہوگا کہ پیراشوٹ سے اُترنے والے کردار (جو سازش بھی ہو سکتی ہے) پارٹی نامزدگیوں سے متعلق فیصلہ سازی کو ’ہائی جیک‘ نہیں کر سکیں گے۔ تحریک انصاف کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہتے ہوئے سیاسی مخالفین کو بیوقوف سمجھنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔

....


The ethical side of Politics

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

سیاسی اَخلاقیات

اخلاق کا نچوڑ یہ ہے کہ ’جھوٹ‘ غیبت یا تہمت‘ سے گریز کیا جائے۔ بقول آتش بہاولپوری ”یہ ساری باتیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی .... سُنیں بُرائی نہ ہم کسی کی‘ نہ خود کسی کو بُرا کہیں ہم۔“ اِس تمہید اُور نتیجہ¿ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے خبر ملاحظہ کیجئے کہ ”تحریک ِانصاف نے کارکنوں کی ”اخلاقی تربیت“ کا فیصلہ کیا ہے“ جو پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اپنی نوعیت کا منفرد (انوکھا اُور ناقابل یقین) اقدام ہے اُور یقینا اِس بات (کوشش) کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اِس مرحلہ فکر پر 2 باتیں اہم ہیں۔ سیاست سماج کی عکاس ہے تو کیا صرف سیاسی کارکنوں ہی کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے یا معاشرے کی ہر سطح پر رہنما و قائدین سمیت ہر سطح پر عوام الناس کو تربیتی مراحل و ماحول سے گزرنا چاہئے۔ اِس ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پنجگانہ اُور ہفتہ وار نماز کے اجتماعات کی تاکید و اہمیت کی مقصدیت و جامعیت پر غور ضروری ہے اُور دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کی ٹوہ میں عموماً بھیڑ چال کا مظاہرہ کرتی ہیں کیا ’تحریک انصاف‘ کی دیکھا دیکھی کارکنوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں گی یا اُنہیں بھی ایسا کرنا چاہئے؟ 

اہل الرائے سے الگ ’سیاسی اَخلاقیات‘ کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ سیاست کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اُور اِس سلسلے میں بطور حوالہ اِس محاورے کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ”محبت نفرت اُور سیاست میں سب جائز ہوتا ہے۔“ جہاں سیاست اَخلاق کے تابع ہو گئی وہاں اِس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک خاص قسم کی بودوباش رکھنے والے طبقات سرگرم دکھائی دیتے ہیں‘ جن کے مدمقابل وہی ہوتے ہیں جو اِن جیسی سوچ یا عمل پر یقین رکھنے کی ذہنیت اُور صلاحیت کے حامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست سے قوم پرستی تک موروثیت حاوی دکھائی دیتی ہے جو درحقیقت سیاسی اخلاقیات کے بارے میں قومی سطح پر بحث و مباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے در آئی اخلاقی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہرحال سیاسی اخلاقیات کی ضرورت اُور تذکرہ کرتے ہوئے بالخصوص اُور عموماً صرف ’عام سیاسی کارکنوں‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جبکہ سیاست و اخلاقیات الگ الگ موضوعات ہیں اُور اُنہیں سیاست بطور پیشہ اختیار کرنے والوں سے زیادہ عام آدمی کو سمجھنا چاہئے تاکہ وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت اُور بالخصوص اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرتے وقت ”درست“ فیصلہ کر سکے۔ ”ہم لوگ تو اَخلاق بھی رکھ آئے تھے ساحل .... ردی کے اُسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے (خالد ملک ساحل)۔“

لفظ ’سیاست‘ کا لغوی مطلب فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانا یا قومی‘ صوبائی اُور علاقائی سطح پر پائے جانے والے اختلافات ختم یا اِنہیں کم کرنے یا ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ جس میں اختلافات سرے سے پیدا ہی نہ ہوں۔ سیاست کے بعد دوسری اصطلاح ”اَخلاق“ کے تقاضے سمجھنے کی ہے جو زیادہ وسیع المعانی موضوع ہے۔ اَخلاق کا مادہ(خ‘ل‘ق) ہے اگر لفظ ”خ“ کے اُوپر زَبر پڑھیں یعنی خَلق تو اِس کے معنی ظاہری شکل وصورت ہوں گے اور اگر ”خ“ پر پیش پڑھیں یعنی ”خُلق“ تو اِس کا مطلب باطنی اور داخلی ونفسانی شکل وصورت کے ہوں گے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت اور باطنی حالت دونوں اچھے ہیں۔ خُلق ”نفسانی ملکہ“ ہے جو کسی انسان کے بغیر فکرو تامل اور غور و خوض کے اُس کے معمولات پر حاوی نظر آئے یعنی نفسانی کنٹرول کے ذریعہ سرانجام دیئے جانے والے اعمال کو خُلق کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ”خَلق“ اُور ”خُلق“ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن خَلق مخصوص ہے ظاہری شکل وصورت سے اور خُلق باطنی اور معنوی شکل وصورت کے لئے مخصوص ہے۔ اِسی طرح ”اَخلاق“ علم کا درجہ بھی رکھتا ہے اُور یہ ایک پیمانہ بھی ہے جس کے ذریعے کسی اِنسان کی فضیلت اُور رذیلت کی پہچان ہوتی ہے یعنی یہ اخلاق رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے کہ کون سا کام اچھا اُور کون سا کام بُرا ہے اُور علم کی یہی شاخ ”علمُ اَلاخلاق“ کہلاتی ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے اخلاق ”افعال“ کے وزن پر ہے یعنی اخلاق صرف باتوں سے ظاہر یا باتوں کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ لازماً عمل سے ظاہر ہونا چاہئے جبکہ ”خُلق“ اِس کی جمع ہے جو انسان کی نفسانی خصوصیات کا عکاس ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے خَلق جو کسی انسان کی ”بدنی صفات“ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

عام آدمی (ہم عوام) اُور ’ٹائیگرز فورس‘ کہلانے والے کارکنوں کی بھی انتہائی مختصر تعداد کو اِس بات کا علم ہوگا کہ تحریک انصاف میں ’تعلیم و تربیت‘ کا خصوصی شعبہ (اِیجوکیشن ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ) موجود ہے۔ اِس شعبے کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری (سنٹرل) اعجاز بٹ نے پشاور کے ایوان ِصحافت میں ’پریس کانفرنس (دس دسمبر دوہزاراکیس)‘ کے دوران کہا کہ ”پارٹی کارکنوں کو اخلاقیات سکھانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خدمات کی فراہمی میں یہ ’ورکرز‘ بہتر اَنداز میں اپنا موقف پیش کر سکیں کیونکہ موجودہ دور میں بہتر کارکردگی اور گڈ گورننس (اچھے طرزحکمرانی) کے لئے اَخلاقیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔“ اِس ضرورت و حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی پر ’اَخلاقیات‘ حاوی ہونے چاہیئں اُور ’جامع اَخلاقیات‘ کا بہترین و عملی نمونہ پیغمبر اِسلام‘ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جن کے اَخلاق بارے گواہی قرآن مجید کی 68ویں سورہ قلم کی چوتھی آیت مبارکہ میں اِن الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے۔ ”وَ اِنَکَّ لَعَلیٰ خلقٍ عَظِیمٍ (ترجمہ) اُور بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عظیم الشان اَخلاق پر قائم ہیں۔“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اللہ تعالیٰ نے اَخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لئے مجھ کو بھیجا۔“ تو جس ملت کے پاس قرآن حکیم و مجید جیسی مستند کتاب موجود ہو اُور جسے ’خلق عظیم‘ کی اُمت ہونے کا شرف حاصل ہو‘ اُس کے لئے خَلق و خُلق کا کوئی دوسرا نمونہ باعث ِسرخروی نہیں ہو سکتا۔ اخلاقیات کی تربیت صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے اُور بالخصوص ”باب الاخلاق“ ہر درجے کی نصاب ِتعلیم کا ’مستقل حصہ‘ ہونا چاہئے یعنی درجہ اوّل سے درجہ آخر تک اَخلاق کے مختلف پہلوؤں کے بارے اسباق ’اخلاقیات‘ کے مختلف پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کریں اُور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے سماج کی گاڑی اخلاقیات کی پٹڑی پر رواں دواں ہو سکتی ہیں۔”اَخلاق کے عنصر ہوں اگر اصل مزاج .... جو قوم ہو کبھی نہ محتاج ِعلاج (عبدالغفور شہباز)۔“



Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 12 December 2021


Friday, December 10, 2021

Price tag & Medical Education in Khyber Pukhtunkhwa

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

طب کی تعلیم: پریشانیاں مقدر کیوں؟

خیبرپختونخوا کے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی شرح فیس میں اضافے پر والدین اُور نئے تعلیمی سال (دوہزاربائیس میں) داخلوں کے خواہشمند طلبہ پریشان ہیں‘ جن کے لئے فیسوں میں اِس اچانک اضافے کا فیصلہ غیرمنطقی اُور ناقابل یقین ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ اگر طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم مہنگی کی جائے گی تو پاکستان کی آبادی کے تناسب سے درکار ڈاکٹروں کی کمی کیسے پوری ہوگی؟ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ قومی فیصلہ ساز پاکستان کو ”ایک زرعی ملک“ تو قرار دیتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات کی زرعی اجناس جیسا کہ ٹماٹر‘ پیاز‘ لہسن‘ ادرک‘ آلو‘ دالیں اُور خشک چائے کی پتی درآمد کی جاتی ہے تو کیا پاکستان کے فیصلہ سازوں نے بھی تیاری کر رکھی ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کی مقامی تیاری کے عمل کو مہنگا کر دیا جائے تاکہ ذہانت و اہلیت کے باوجود متوسط اُور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نہ بن سکیں اُور دوسرا ڈاکٹروں کی کمی سرمایہ دار عرب خلیجی و یورپی ممالک کی طرح افرادی قوت کو درآمد کرنے سے پوری کی جائے؟ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ہر ایک ہزار لوگوں کے لئے 0.473 ڈاکٹر دستیاب ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق آبادی کے تناسب سے اگر ڈاکٹروں کی تعداد پوری نہ بھی کی جائے تب بھی پاکستان کو قریب ساٹھ ہزار ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈاکٹروں کی یہ کمی اِس لئے بھی ہے کہ طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹروں کے لئے سرکاری ملازمتیں اُور طب ہی کے شعبے میں مزید تربیت کے مواقع خاطرخواہ دستیاب نہیں ہیں‘ جن کی وجہ سے ذہین اُور تعلیم یافتہ نوجوان بہتر تعلیمی و معاشی مستقبل کے لئے بیرون ملک موجود مواقعوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اِسے ’برین ڈرین (ذہانت کی نقل مکانی)‘ قرار دیا جاتا ہے اُور ترقی پذیر ممالک اگر اپنے ہاں علاج معالجے کی خاطرخواہ سہولیات کی فراہمی نہیں کر پا رہیں تو اِس کی ایک وجہ یہی ’برین ڈرین‘ بھی ہے! دوسرا لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ جب پاکستان میں طب کی تعلیم کو مہنگا اُور اِس تعلیم کی سرکاری سرپرستی میں کمی کی جائے گی تو طلبہ کی بڑی تعداد خطے بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے جائیں گے‘ جہاں پاکستان کے مقابلے مالی لاگت کم اُور معیار تعلیم بہتر ہے اُور یوں پاکستان سے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بالخصوص وسط ایشیائی ریاستوں‘ ترکی‘ یورپی ممالک اُور چین منتقل ہو جائے گا اُور یہ سلسلہ فی الوقت بھی جاری ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہشمند اُور زیرتعلیم والدین کی جانب سے صحافیوں کو ارسال کئے جانے والے برقی مکتوبات (اِی میلز) میں اِس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ”خیبرپختونخوا کے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی شرح فیس نجی کالجوں کے قریب لانے سے طلبہ کی ایک تعداد اہلیت کے باوجود بھی تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے اُور ایک تعداد مالی سکت نہ ہونے کے باعث داخلوں سے محروم رہ جائے گی۔ پریشانی اُن ملازمت پیشہ یا ریٹائرڈ والدین کو بھی ہے جن کے بچے سرکاری اداروں سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن فیسوں میں اچانک سو گنا سے زائد اضافے نے اُنہیں پریشان کر رکھا ہے کہ مہنگائی و معاشی سست روی کے سبب آمدنی کے محدود ہوتے وسائل میں اضافی فیس کی ادائیگی کا فوری بندوبست کہاں سے کریں گے!“ ذہن نشین رہے کہ طب کی سرکاری کالجوں کی فیسوں میں اضافے اُور داخلہ قواعد میں تبدیلی کی منظوری ”صوبائی داخلہ کمیٹی“ کے اجلاس (پانچ نومبر دوہزاراکیس) میں دیا گیا جس کی صدارت صوبائی وزیرصحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کی جبکہ دیگر شرکا میں سیکرٹری ہیلتھ طاہر اورکزئی‘ چیئرمین کمیٹی و وائس چانسلر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق‘ رجسٹرار سلیم گنڈاپور‘ کنونیئر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر جواد اُور کمیٹی کے سیکرٹری و ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمشنز ارشد خان شامل تھے۔ مذکورہ اجلاس کی تفصیلات (منٹس آف میٹنگ) کی نقول بھی والدین کی جانب سے صحافیوں کو ارسال کی گئی ہیں جن کے مطابق ”مذکورہ نشست میں وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے قبل ازیں کمیٹی اجلاس (24 ستمبر 2021ئ) کے فیصلوں سے اجلاس کو آگاہ کرتے ہوئے نئی داخلہ حکمت ِعملی (ایڈمشن پالیسی 2021-22ء) پیش کی جس سے صوبائی وزیرصحت و خزانہ نے اتفاق کیا اُور یوں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی نئی شرح فیسیں بھی لاگو کر دی جائیں گی۔ داخلہ حکمت ِعملی پر نظرثانی کے عمل میں چار بنیادی نوعیت کے فیصلے کئے گئے۔1: اوپن میرٹ (خالصتاً اہلیت) پر داخلہ حاصل کرنے والوں کے فیس کی شرح 23 ہزار 370 روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دی جائے۔ 2: جنرل سیلف فنانس اُور افغان شہریت رکھنے والے اُور غیرملکی مقیم پاکستانیوں کے لئے (کٹیگری بی ٹو) کی شرح فیس جو 4 لاکھ13 ہزار 209روپے مقرر ہے اِسے بڑھا کر 8 لاکھ روپے کر دی جائے۔ 3: اُوپن میرٹ اُور سیلف فنانس کی داخلہ فیس 1 لاکھ 47 ہزار 800 روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ روپے اُور 5 لاکھ 54 ہزار روپے سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے کر دی جائے۔ 4: ویٹھ ایج فارمولہ کے تحت دیئے جانے والے ’ایم بی بی ایس اُور بی ڈی ایس‘ ایڈمشنز کے لئے میٹرک یا اِس کے مساوی امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کا 10فیصد‘ ایف ایس سی یا اِس کے مساوی امتحان کے نمبروں کا 40فیصد اُور ایم ڈی کیٹ امتحان کے حاصل کردہ کل نمبروں کا 50فیصد شمار کرتے ہوئے داخلہ اہلیت (میرٹ) بنایا جائے۔

پاکستان میں طب کی تعلیم اگرچہ مرکزی انتظام (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے تابع فرمان ہے لیکن اِس تعلیمی نظم و نسق کے خلاف ”پہلی بغاوت“ سندھ کی صوبائی کابینہ کی جانب سے اِس فیصلے کی صورت سامنے آئی کہ سندھ کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں ’ایم ڈی کیٹ امتحان (2021ء)‘ میں 50فیصد نمبر حاصل کرنے والوں کو بھی داخلہ دیا جائے گا جبکہ پاکستان میڈیکل کمیشن بار بار اِس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ ”اگر کسی بھی میڈیکل کالج نے ’ایم ڈی کیٹ‘ میں 65 فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو اپنے ہاں داخلہ دیا تو مرکزی ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) ایسے داخلوں کی تصدیق نہ کرتے ہوئے طلبہ کو قومی رجسٹریشن نمبر جاری نہیں کرے گا۔“ اگر طب کی تعلیم کے بنیادی نظم و نسق جو اپنی جگہ تعلیمی قابلیت و اہلیت جانچنے کا معیار بھی ہے قابل بھروسہ نہ رہا اُور کوئی ایک صوبہ اِس کے احترام کو ضروری نہیں سمجھتا تو اِس سے پیدا ہونے والی صورتحال (تنازع) مستقبل میں دیگر صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے جو کسی بھی صورت طب کے شعبے میں درس و تدریس اُور اِس شعبے کے مستقبل و معیار کے حوالے سے خوش آئند (اچھی خبر) نہیں ہے۔ 

توجہ طلب ہے کہ بیچلرز آف میڈیسن اینڈ بیچلرز آف سرجری (MBBS) اُور بیچلرز آف ڈینٹل سرجری (BDS) کے لئے صرف داخلہ فیسیں ہی نہیں بڑھائی گئیں بلکہ دیگر ماہانہ اُور سالانہ وصولیوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اُور والدین کے لئے صورتحال کا یہی پہلو پریشانی کا باعث ہے کیونکہ جہاں ایک طرف مہنگائی اُور کورونا وبا کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں محدود ہیں‘ وہیں اگر سرکاری تعلیمی اِداروں کے اخراجات بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں تو یہ پریشان کسی بھی طرح معمولی (جائز) نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) تعلیم کے مواقعوں (زیرتعلیم طلبہ کی تعداد) میں اضافہ کر کے ادارہ جاتی آمدنی بڑھائی جائے اُور سرکاری و نجی اداروں کے درمیان شرح فیس کے لحاظ سے واضح فرق برقرار رکھا جائے کیونکہ سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں اہلیت کا جو بلند معیار مقرر ہے اگر اِس کے باوجود بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے لاکھوں روپے درکار ہوں گے تو اِس سے سرکاری و نجی اداروں کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اُور صرف اہلیت ہی نہیں بلکہ اُن طلبہ کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جیسے خواب کا بھی خون ہوگا‘ جس کے لئے وہ اپنی زندگی کا بہترین وقت‘ صلاحیت اُور توانائی وقف رکھتے ہیں۔ 

....





Tuesday, December 7, 2021

Vote for Peshawar, this time.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

.... پھر پشاور کی یاد آئی ہے

محبت غیرمشروط نہ ہو تو بے معنی ہوتی ہے۔ مقصد محبت کا انجام بن جاتا ہے اُور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں اہل پشاور کو جذبات‘ وابستگیوں اُور ذاتی‘ لسانی یا گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر وہ فیصلے کرنا ہوں گے‘ جن کا تعلق مستقبل سے ہے۔ مرحلہ ’میئر پشاور‘ یعنی نظامت کے لئے ’درست شخصیت‘ کے انتخاب کا ہے‘ جس کے لئے حسب سابق و توفیق سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اِس سلسلے میں کچھ روایات دہرائی جا رہی ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے جاری کردہ ’اِنتخابی منشورات‘ کی صورت سامنے آئی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ مذکورہ انتخابی منشورات تحریر کرتے ہوئے زیادہ ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے اُور تقریباً سبھی شقوں (وعدوں) کے ساتھ ’کوشش‘ کا سابقہ یا لاحقہ کسی نہ کسی صورت جوڑ دیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں یہی منشور طعنہ نہ بن جائیں اُور چونکہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے اِس لئے سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور کا ہر لفظ سوچ سمجھ کر تحریر کیا ہے۔ یہاں ایک علمی ادبی (لطیف) نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ عربی زبان کے لفظ ’منشور‘ کا استعمال اگر بطور اسم کیا جائے تو اِس سے مراد کتاب یا کتابچہ جبکہ بطور فعل منشور کا مطلب ’مردوں کو زندہ کر کے اٹھانے‘ یا ’(لکڑی کاٹنے کے لئے) آرا چلانے‘ کے عمل کو بیان کرے گا۔ معلوم نہیں کہ انتخابات کے موقع پر کئے جانے والے وعدوں کے لئے ’منشور‘ کا لفظ کب سے استعمال ہونے لگا جبکہ انگریزی زبان کے لفظ manifesto کے لئے اُردو ترجمہ ’محضَر‘ یا ’منادیِ عام‘ زیادہ موزوں (قریب المعانی) اصطلاحات ہیں کیونکہ قومی ہوں یا ضمنی اُور بلدیاتی انتخابات ہر سیاسی و غیرسیاسی اُمیدوار کی جانب سے جو وعدے کئے جاتے ہیں اُن کی تکمیل انتخابی کامیابی سے مشروط ہوتی ہے یعنی جب تک کوئی انتخابی اُمیدوار کامیاب نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہوا کہ جس کسی سیاسی یا غیرسیاسی انتخابی اُمیدوار نے اگر سماجی خدمت کرنی ہے تو اُس کے لئے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اُسے انتخابی کامیابی دلائی جائے۔ سوچئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سماجی خدمت بنا کسی شرط نہیں ہو سکتی یا نہیں ہونی چاہئے؟

حسن ظن یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام انتخابات کے موقع پر جو وعدے کئے جاتے ہیں اُنہیں کتابی (دستاویزی) صورت میں ’منشور‘ کہہ کر ایک لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے‘ جس پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اُور نہ ہی آج تک کسی ایک بھی سیاسی جماعت کا احتساب اِس کے انتخابی منشور پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ جن معاشروں میں جمہوریت پروان چڑھی اُور جن اقوام نے جمہوریت کے ثمرات حاصل کئے وہاں رہنماو¿ں کے ہر ایک لفظ اُور بالخصوص انتخابی منشور کی خاص اہمیت ہوتی ہے اُور سیاسی جماعتوں کے منشور ایک دوسرے کی نقل سے نہیں بلکہ اپنی سوچ اُور ماضی‘ حال و مستقبل کی ترجیحات مدنظر رکھتے سے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ انتخابی منشور ایک رسم سے زیادہ نہیں رہے اُور یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے لئے منشور سے زیادہ انتخابی نشان اہم ہو چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 19 دسمبر کے روز بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں پولنگ ہوگی جس کے لئے 37ہزار752 اُمیدوار سٹی‘ تحصیل‘ ویلیج اُور نیبرہڈ کونسلوں کے لئے میدان میں ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں دوسرے مرحلے کے انتخابات اگلے ماہ (جنوری دوہزاربائیس) میں ہوں گے۔

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ’ضلع پشاور‘ کی نظامت (میئرشپ) کے لئے اگر مختلف انتخابی منشورات کو جمع کیا جائے تو سترہ مختلف سیاسی و غیرسیاسی میئر شپ کے اُمیدواروں نے پشاور کے جن مسائل کی فہرست عوامی عدالت میں پیش کی ہے اُس کے مطابق 1: پشاور کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ 2: پھیلتے ہوئے پشاور کے لئے قبرستانوں کی ضرورت ہے۔ 3: قبرستانوں کے لئے جنازہ مساجد کی ضرورت ہے بلکہ اِیک سیاسی جماعت نے قبرستان مساجد واگزار کرانے کا وعدہ کیا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قبرستانوں کی اراضی پر جنازہ مساجد تعمیر کی جائیں گی اُور یہی وہ طرزعمل ہے جس سے قبرستان کی اراضی پر قبضے کا آغاز ہوتا ہے اُور ایک جنازہ مسجد بنانے کے بعد اُس کے ساتھ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لئے وزیرباغ سے متصل سبزہ زار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں سب سے پہلے وزیرباغ کی چاردیواری کو پیچھے دھکیلا گیا۔ اِس کے بعد سبز راہداری بنائی گئی اُور پھر کچھ عرصہ بعد اُس کی دیکھ بھال سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ جب پودے اُور درخت دیکھ بھال اُور پانی نہ ملنے کے نتیجے میں مرجھا گئے اُور گرد نے پتوں کا سبز رنگ سفیدی سے بدل دیا تو چونکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی جس کے تحت علاقے کی گندگی وہاں پھینکنا شروع کر دی گئی اُور یوں کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کے ڈھیر لگتے چلے گئے اُور اِس کے بعد سرکاری ’آٹو ورکشاپ‘ بنائی گئی۔ ایک سرکاری گودام بنایا گیا جس کے ساتھ جنازہ مسجد‘ پرائمری سکول اُور وزیرباغ کے چوکیداروں کے کمرے اُور بعد میں رہائشگاہیں بن گئیں جبکہ وزیرباغ کی چاردیواری سے متصل قبروں کا نام و نشان نہیں رہا۔ اِس منظرنامے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ پشاور کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب کا سب سیاست کی وجہ سے ہے اُور یہ سیاست ہی ہے کہ جس کی طرف دیکھتے ہوئے اہل پشاور ماضی میں ہوئی غلطیوں کی اصلاح ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کے منشور کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں‘ جن میں پشاور کا تذکرہ اُور پشاور کے چرچوں کی دھوم ہے۔ درحقیقت ہر کوئی پشاور کے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ ایسے مسائل جو دیرینہ صورت اختیار کر گئے ہیں اُور یہ اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک انتخابی اُمیدواروں کی پسند و ناپسند میں اہل پشاور ”ایک ووٹ ’صرف پشاور“ کے نام پر نہ دیں۔ یقینی امر ہے کہ جب پشاور‘ اہل پشاور کی ترجیح نہیں بنے گا اُس وقت کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پشاور کی محبت عملی اِظہار کی متقاضی ہے اُور بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ اِس سلسلے میں اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ پشاور کی یاد مسلسل رہنے اُور اِس یاد کے اِحترام میں ”ایک ووٹ‘ صرف پشاور“ سے ہمہ جہت تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے ورنہ انتخابات کے موسم آنے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ”یہی تقاضا ہے اِس بار بھی محبت کا .... بدن پہ گرد سفر کو جو مل سکو‘ تو چلو (نبیل احمد نبیل)۔“

....



Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Abbottabad dated December 07, 2021