Wednesday, January 6, 2021

Tale of never ending encroachments & Peshawar!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

تجاوزات: نیا عزم

کراچی اُور پشاور کی کہانی اُور قسمت ایک جیسی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے پہلے اُور دنیا کے ساتویں بڑے شہر ’کراچی‘ میں تجاوزات سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کے چیف جسٹس گلزار احمد نے گزشتہ ہفتے (29 دسمبر 2020ءکے روز) اِس بارے سندھ حکومت کو متوجہ کیا تھا کہ ”کراچی گاوں نما لگتا ہے کیونکہ یہاں کچھ بھی مثالی حالت میں موجود نہیں۔ سڑکیں‘ پانی اُور سبزہ زاروں (باغات) کی خستہ حالی پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ خاطرخواہ اقدامات کرے۔“ عدالت کے روبرو پیش ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دہانی کروائی کہ وہ تجاوزات کے خاتمے اُور نشاندہی کئے گئے مسائل کے حل پر توجہ دیں گے۔ اطلاعات کے مطابق تجاوزات کے خلاف کراچی میں یوں تو سارا سال ہی کاروائیاں جاری رہتی ہیں تاہم چار جنوری دوہزار اکیس کے روز ’نئے عزم‘ سے مذکورہ کاروائیوں کا آغاز ’محمود آباد نالے‘ کے اطراف میں سات کلومیٹر پٹی پر قائم 319 تجاوزات کی نشاندہی کے بعد اُن کے خاتمے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ 

4 جنوری 2021ء ہی کے روز پشاور میں بھی تجاوزات خاتمے سے متعلق غوروخوض کے جاری عمل میں نکاسی آب کے قدیمی نظام (شاہی کٹھے) کی صفائی اُور اِس پر قائم غیرقانونی عمارتیں ختم کرنے پر اتفاق رائے سامنے آیا۔ اُور ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)“ نے پشاور میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے اُور آبادی کے لحاظ سے اِس نظام کی کشادگی پر ’ٹاون ون‘ اُور ’ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) سے تجاویز طلب کی ہیں۔ شاہی کٹھہ 10 کلومیٹر طویل ہے جس کا صرف 5 فیصد حصہ ہی تجاوزات سے بچ پایا ہے۔ نکاسی آب کا یہ نغام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں پشاور کے گورنر ’جنرل پاولو ایوٹیبل (Gen. Paolo Avitabile)‘نے تعمیر کروایا تھا اُور اِسی گورنر نے فصیل شہر کے کئی حصوں کو ازسرنو تعمیر کرتے ہوئے اِس میں نئے دروازوں اُور دیوار کی اونچائی میں اضافہ کروایا تھا۔ پشاور کے 2 بنیادی مسائل (امن و امان کے قیام اُور نکاسی آب کی بہتری) پر توجہ دینے سے پشاور اُور جنرل ایوٹیبل میں اجنبیت ختم ہوتی چلی گئی اُور اہل پشاور نے اُنہیں اپنائیت میں ’ابوطبیلہ‘ کے لقب سے پکارنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ جب کوئی غیرمقامی شخص مقامی مسائل کے حل پر توجہ دیتا ہے تو اُسے پیار ملتا ہے لیکن جب مقامی فیصلہ ساز اپنے شہر کے مسائل کے حل کی بجائے اِس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں تو ایسا طرزحکمرانی اُور حکمراں (بشمول اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) کی حیثیت و تذکرہ ضمنی رہ جاتا ہے کیونکہ جو مسئلے کا حل نہیں ہوتا وہ بذات خود مسئلہ ہوتا ہے۔ ”ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں .... ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں!“

شاہی کٹھہ سمیت پشاور میں نکاسی آب کے نظام کی اصلاح و توسیع کے لئے ’جامع تحقیقی رپورٹ‘ امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ (USAID)‘ کے مالی و تکنیکی تعاون و نگرانی میں مرتب کی گئی جو ”پلاننگ اینڈ انجنیئرنگ سروسیز فار ماسٹر پلان اِن پشاور خیبرپختونخوا‘ نامی منصوبے کا حصہ ہے۔ اِس حکمت عملی کی خلاصہ (ایگزیکٹو سمری) 69 صفحات پر مبنی ہے جس میں کلیدی تکنیکی پہلوو¿ں کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے اپریل 2014ءمیں رپورٹ ہر خاص و عام کے مطالعے و معلومات کے لئے جاری کی گئی۔ عجب ہے کہ اِس جامع حکمت عملی کی موجودگی میں بھی ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیصلہ سازوں کو ’ٹاو¿ن ون‘ اُور ’ضلعی حکومت‘ کی مدد و مشاورت درکار ہے‘ جنہیں اگر معاملے کی سمجھ بوجھ ہوتی اُور جن کا پشاور سے ’گہرا دلی تعلق‘ ہوتا تو یہ بات ممکن ہی نہیں تھی کہ شاہی کٹھہ پر 280 سرکاری اُور 120 نجی تعمیرات ہوتیں۔ جب ہم 280 سرکاری اثاثوں (عمارتوں اُور دکانوں) کی بات کرتے ہیں تو اگرچہ اِن کی ملکیت سرکاری ہے لیکن یہ مختلف ادوار میں منظورنظر سیاسی کارکنوں کو کرائے اُور اجارے پر کچھ اِس رازداری سے دی گئیں کہ اہل پشاور کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی اُور اب جبکہ شاہی کٹھے پر مذکورہ 400 تعمیرات کی فرداً فرداً جانچ پڑتال کی گئی ہے تو صرف پانچ دکانداروں کے پاس ایسے کاغذات ہیں جن کی بنیاد پر اُنہیں شاہی کٹھہ پر تعمیر کی اجازت حاصل ہوئی لیکن ٹاون اُور ضلعی حکومت کی جانب سے دی گئی یہ اجازت بھی اختیارات سے تجاوز (غیرقانونی) ہی ہے۔ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیصلہ ساز اگر سنجیدہ ہیں اُور اپنے قیام کے بنیادی مقصد کی تکمیل و تعمیل چاہتے ہیں تو ’یو ایس ایڈ‘ کی زیرنگرانی مرتب ہوئی مذکورہ حکمت عملی کا مطالعہ کریں جس پر عمل درآمد کی تکمیل و اختتام سال 2022ءمیں ہونا ہے اُور اِسی (حکمت عملی) کے تحت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تاہم پشاور میں نہ تو نکاسی آب کا نظام حسب حکمت عملی (ٹائم لائن) درست ہو سکا اُور نہ ہی پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکی۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے قیام سے قبل جس انداز میں صفائی اُور آبنوشی فراہم ہو رہا تھا آج بھی ترتیب وہی ہے صرف نام تبدیل ہوا ہے اُور خوشنما تشہیری مہمات اُور ملازمین کی ”فوج ظفر موج“ کی تنخواہوں اُور مراعات پر سالانہ کروڑوں روپے اضافی خرچ ہو رہے ہیں۔ 

پشاور کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے والے مختلف ادارے ایک دوسرے سے مربوط نہیں۔ ایک دوسرے کے حال اُور کام کاج سے آگاہ بھی نہیں۔ اِن کے الگ الگ دفاتر اُور فاصلے آپسی رابطے میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک ہی کام کے لئے ایک سے زیادہ محکمے‘ دفاتر اُور اہلکار خود کو مصروف رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے خط و کتابت کرتے رہتے ہیں اُور یہ بات بھی نمائشی کارکردگی پر مبنی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ مذکورہ خط و کتابت کی تشہیر صحافیوں (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کے ذریعے کر دی جائے تاکہ اہل پشاورکو یقین ہو کہ کوئی نہ کوئی‘ کہیں نہ کہیں‘ اُن کے بارے میں سوچ رہا ہے! پشاور کی تجاوزات صرف شاہی کٹھہ تک محدود نہیں جو کوہاٹی گیٹ سے شروع ہو کر قصہ خوانی‘ جہانگیرپورہ‘ کوچی بازار‘ محلہ جنگی‘ محمد علی جوہر روڈ‘ پیپل منڈی‘ ریتی بازار سے بل کھاتا ہوا بڈھنی نہر (نالے) میں جا گرتا ہے۔ 10کلومیٹر طویل اُور 8 فٹ چوڑا شاہی کٹھہ مٹی ریت اُور گندگی سے بھر چکا ہے جس کی صفائی کئی دہائیوں سے نہیں ہو رہی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں اُور نالے پر پُل ڈال کر دکانیں‘ مکانات‘ مساجد‘ سڑکیں اُور گلیاں راستے بنا دیئے گئے ہیں جن کی مالیت (مارکیٹ ویلیو) اربوں روپے ہے اُور اِن سے ماہانہ کروڑوں روپے کے مالی مفادات وابستہ ہیں‘ جن کا حصہ سرکاری اہلکاروں کی جیبوں میں بھی یقینا جاتا ہوگا بصورت دیگر صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے اُور خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر میں جہاں صوبائی اداروں کے صدر دفاتر موجود ہیں‘ اِس قدر لاقانونیت اُور وہ بھی کھلے عام رونما نہیں ہو سکتی! القصہ مختصر کراچی ہو یا پشاور‘ تجاوزات کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ قومی مسئلہ اُور ایسا درد سر ہے‘ جس کا ’سپرئم کورٹ‘ ازخود نوٹس نہ بھی لے اُور سپرئم کورٹ کا خوف نہ بھی محسوس کیا جائے تب بھی اِس مسئلے کا پائیدار حل ہونا چاہئے۔

....