Friday, July 21, 2023

Muharram ul Harram 2023 - 1445 Hijri - Security Plan

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : محرم سیکورٹی : خطرات و خدشات

حالیہ چند روز یعنی محرم الحرام (1445 ہجری) کے آغاز سے قبل اُور بالخصوص یکم محرم الحرام (بیس جولائی کے روز) پیش آئے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرچہ ’پشاور پولیس‘ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مستعد و چوکنا اُور پہلے سے زیادہ پرعزم دکھائی دیتی ہے لیکن غیرمعمولی حالات‘ غیرمعمولی اقدامات و انتظامات کے متقاضی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’امامیہ کونسل‘ نے تجویز دی ہے کہ دو اُور گیارہ محرم الحرام (جمعة المبارک) کے ایام میں نماز جمعة المبارک کے اجتماعات کی سیکورٹی کے لئے صرف پولیس کے افرادی وسائل پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ عبادت گاہوں کے لئے متبادل سیکورٹی انتظامات بھی ہونی چاہئے جبکہ کونسل کی جانب سے پشاور پولیس کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ ’حفاظتی حکمت عملی (محرم کنٹیجینسی پلان)‘ پر نظرثانی کریں کیونکہ سیکورٹی خطرات و خدشات حقیقی ہیں تاہم حفاظتی انتظامات خوف و دہشت پھیلانے کا باعث نہیں ہونے چاہیئں۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور پولیس نے مختلف مسالک کی عبادتگاہوں‘ اجتماعات اُور جلوسوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لئے ’تین سطحی حفاظتی انتظامات‘ کر رکھے ہیں جس کے لئے ساڑھے تیرہ ہزار پولیس اہلکاروں‘ دو سو کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ خفیہ اطلاعات کے مربوط نظام اُور کرائے کے گھروں و ہوٹلوں‘ سرائے خانوں میں مقیم افراد پر بھی نظر رکھی گئی ہے جبکہ افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاہم پشاور شہر اُور اِس کے مضافات میں افغان مہاجرین مستقل مقیم ہیں یعنی وہ پہلے ہی شہر کی حدود میں داخل ہیں جبکہ ایسے افغان مہاجرین بھی ہیں جنہوں نے جعل سازی سے پاکستان کی شہریت حاصل کر رکھی ہے اُور اُنہیں صرف بول چال و رہن سہن کی عادات سے پہچانا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی شناختی دستاویزات کسی بھی غلط طریقے (بذریعہ رشوت اُور قبائلی اضلاع سے دستاویزات بنوا کر حاصل کرنا) جرم ہے لیکن چونکہ اِس جرم میں ’افغان مہاجرین‘ کی معاونت کرنے میں پاکستان کے اپنے سرکاری اہلکار ملوث پائے گئے ہیں‘ اِس لئے دوسروں سے گلہ کرنے کی بجائے اپنے گھر (داخلی امور) کی اصلاح کی جانی چاہئے۔ افغان مہاجرین چاہے قانونی ہوں یا غیرقانونی اُن کی باعزت اُور رضاکارانہ وطن واپسی کے لئے دی جانے والی رعایت و سہولت کا خاطرخواہ ہمدردی سے جواب نہیں دیا گیا۔ 

افغان مہاجرین یہ بات سمجھنے کے باوجود نہیں سمجھ رہے کہ اُن کی آڑ میں منظم جرائم پیشہ عناصر اُور پاکستان دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں اُور اِس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان مہاجرین کو پاک افغان سرحد سے متصل (شہروں سے دور) خیمہ بستیاں قائم کر کے اِن کی نقل و حرکت محدود کر دی جائے لیکن ظاہر ہے کہ اِس کے لئے پاکستان کے پاس نہ تو درکار مالی و افرادی وسائل ہیں اُور نہ ہی وقت۔ دوسرا حل اِن مہاجرین کی رضاکارانہ یا غیررضاکارانہ وطن واپسی کا ہے جو قابل عمل حل ہے اُور اِس میں افغان مہاجرین کی بھی بہبود شامل ہے کیونکہ کم آبادی اُور قومی ترجیحات کے درست تعین کی وجہ سے افغانستان کے معاشی حالات میں ہر دن بہتری آ رہی ہے‘ جس کا افغان مہاجرین اُور افغان امور کے تجزیہ کار اکثر پاکستان کی معاشی صورتحال کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اگر واقعی ایسا ہی ہے تو افغان مہاجرین کو فوراً سے پہلے اپنے ملک واپس چلے جانا چاہئے اُور اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری خوش قسمتی اُور کیا ہوگی کہ اگر کسی شخص کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقع مل جائے؟

پشاور کو لاحق امن و امان کے خطرات اُور اِن خطرات سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے شہر کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں‘ جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر بحران سے گزر رہی تھیں لیکن ظاہر ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی پہلی (at-most) ذمہ داری ہوتی اِس لئے سوچ بچار سے لیکر عملی اقدامات تک ہر پہلو سے غور و خوض اُور اِس سلسلے میں ہر فریق (اسٹیک ہولڈر) سے مشاورت کی گئی ہے اُور گیارہ اضلاع (پشاور‘ کوہاٹ‘ ہنگو‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرم‘ اورکزئی‘ ٹانک‘ مردان‘ نوشہرہ‘ ہری پور اُور ایبٹ آباد) کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ضلع پشاور کی بات کریں تو محرم الحرام کا آغاز ہونے سے قبل ’دفعہ 144‘ نافذ کر کے افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے‘ اسلحے کی نمائش اُور موٹرسائیکل پر ایک سے زیادہ (ڈبل سواری) پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ موٹرسائیکل کم آمدنی رکھنے والوں کی سواری ہے اُور پشاور شہر کے گنجان آباد (پرہجوم) قدیمی حصوں میں آمدورفت کے لئے موٹرسائیکل سواری کا واحد ذریعہ بھی ہے تو ایسی صورت میں اُن علاقوں سے رعایت ہونی چاہئے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات یا جلوس نہیں ہوتے۔ پشاور میں لگائی گئی ’دفعہ 144‘ کے تحت موٹرگاڑی اُور موٹرسائیکل کے کرائے پر دینے یا حاصل کرنے‘ بغیر نمبرپلیٹ موٹرگاڑی یا موٹرسائیکل اُور دیگر گاڑیوں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اُن علاقوں میں چھت پر کھڑے ہونے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات یا جلوس گزرتے ہیں۔ پشاور شہر و مضافات اُور چھاؤنی کی حدود میں آتش بازی کے سامان کی خرید و فروخت بھی اِس پابندی کا حصہ ہے۔ 

مجموعی طور پر 25 پابندیاں 15 روز کے لئے نافذ کی گئی ہیں لیکن اِن میں کئی ایسی پابندیاں بھی شامل ہیں جو مستقل ہونی چاہیئں جیسا کہ آتش گیر مادے کی خریدوفروخت‘ جو بچوں اُور بڑوں کے لئے یکساں خطرہ اُور مالی وسائل کا ضیاع بھی ہے۔

 توجہ طلب ہے کہ محرم الحرام کے موقع پر جبکہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی حرکت میں نہیں آتے بلکہ ضلعی انتظامیہ اُور بنام مقامی حکومتوں عوام کے منتخب (بلدیاتی) نمائندے بھی حرکت میں آ جاتے ہیں تو اِس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پشاور شہر کے بازاروں کا سروے کر لیا جائے کہ کن کن بازاروں میں دکانداروں نے اپنی اپنی حدود سے تجاوز کر رکھا ہے اُور تجاوزات کے لئے استعمال ہونے والی اشیا دکانوں کے باہر ہی ڈھانپ کر رکھی جاتی ہیں یا ایک ایسی صورتحال میں جبکہ بازاروں میں آمدورفت کم ہو اُور کاروباری سرگرمیاں بھی بند کروا دی گئی ہوں تو دکانوں کے پختہ تعمیر شدہ یا غیرپختہ (مستقل و عارضی) اضافی حصے باآسانی شناخت اُور ہٹائے جا سکتے ہیں اُور اگر حکام کی جانب سے اپیل کی جائے تو محب الوطن تاجر از خود ’انسداد تجاوزات‘ کے سلسلے میں تعاون کریں گے کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ کسی ایک مذہب و مسلک کو لاحق نہیں اُور نہ ہی اِس کے خاتمے کی ذمہ داری صرف اُور صرف حکومت اُور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے بلکہ یہ پورے پشاور کو لاحق خطرہ اُور ایک اجتماعی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے ’اجتماعی (مربوط) محنت و کوشش کی پہلے سے زیادہ آج ضرورت ہے۔‘

....

Editorial Page Daily Aaj 21 July 2023

Clipping from Editorial Page Daily Aaj 21 July 2023


Monday, July 17, 2023

Paigham e Karbala Conference (Zarf e Nigha English Version)

Paigham e Karbala Conference : 

Strengthens Unity and Promotes Peace.


Shabbir Hussain Imam

(Peshawar - 16 July 2023)

Under the joint efforts of the Imamia Council for the Unity of the Muslims (Rejection of Sectarianism) Khyber Pakhtunkhwa and the Qoumi Aman Jirga, a significant event called the "Paigham e Karbala Conference" took place in Peshawar on Saturday night. The conference aimed to foster unity and harmony among Muslims, with a specific focus on the importance of prayer and early prayer as the core message of Karbala.


The effort saw the presence of esteemed individuals, including Director General of Iranian Culture Centre in Peshawar Mr. Asghar Khosrow'abadi, who emphasized the significance of prayer and its place in both ceremonies and daily life. Iqbal Haidari, Chairman of the Qoumi Aman Jirga, highlighted significant events in Muharram ul Harram and other Islamic months, underlining their importance in Islamic history.


Hajjat-ul-Islam wa Muslimeen Khatib Allama Syed Zafar Naqvi emphasized the responsibility of mosques and pulpits in accurately representing the true essence of Muharram. Allama Abid Hussain Shakri, the Principal of Madrasa Arif Hussain Al-Hussaini Shaheed, shed light on the unwavering commitment of Imam Al-Maqam, emphasizing the visible and hidden aspects of martyrdom.


The ceremony witnessed the participation of numerous custodians of Imam Bargahs, Taiziadars, founders of Majlis, Salars of Matami Sangats, and their representatives from Peshawar District. Notably, this unique event successfully brought together Shia and Sunni Muslims under one roof, promoting unity, understanding, and brotherhood.


Speakers at the conference highlighted commonalities, values, tolerance, and brotherhood, with a particular focus on strengthening the bonds of Islamic brotherhood through a deeper understanding of Karbala. By emphasizing shared aspects rather than differences, the aim was to thwart the ambitions of those who perpetuate sectarian tensions and conspiracies against Islam.


The choice of venue, the "Waheed Banquet (Wedding) Hall near Yakatoot Gate," instead of a mosque or an Imambargah, was a symbolic representation of inclusivity. It signified the unity of purpose and the participation of a predominantly youthful audience. However, it is regrettable that decision-makers from the provincial and district governments, district administration, and law enforcement agencies did not participated in the event. Their involvement could have led to better peace and order arrangements, eliminating the need for separate meetings with different sects every year and dispelling the notion of religious monopoly over Muharram.


Worth knowing that in anticipation of upcoming Muharram-e-Haram, extensive security measures have been put in place, with the Provincial Department of Home Affairs designating 4,500 locations in 11 districts of Khyber Pakhtunkhwa as highly sensitive. As necessary, mobile phone services may be temporarily suspended in certain areas of the said districts. However, it is crucial to recognize that terrorists can target any location, not just those designated as sensitive. Therefore, comprehensive security measures are essential.


The representative body "Qoumi Muharram Committee (QMC)" has expressed some concerns over unjust restrictions imposed on Imambargahs and interference in mourning rituals. Such actions infringe upon constitutional and human rights, contradicting decisions made at higher levels. It is imperative for the police to implement security arrangements seriously, taking into account the suggestions and concerns of all stakeholders, to ensure peace and order prevail. Overall, the Paigham e Karbala Conference served as an important platform for promoting unity, harmony, and mutual understanding among Muslims. It aimed to alleviate sectarian tensions and create an atmosphere of cooperation and respect. By fostering a deeper understanding of Karbala and embracing shared values, not only Muharram but also the remaining eleven months can be characterized by peace and order.


Ends.

Paigham e Karbala Conference by Imamia Council & Qoumi Aman Jirga to Strengthens Unity and Promotes Peace.

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

استقبال محرم الحرام

اِمامیہ کونسل برائے اتحاد بین المسلمین (رد ِفرقہ واریت) خیبرپختونخوا اُور ’قومی امن جرگہ‘ کے زیراہتمام ’استقبال محرم الحرام‘ کے حوالے سے خصوصی نشست بعنوان ”پیغام کربلا کانفرنس“ کا اہتمام کیا گیا جس سے خانہ فرہنگ جمہوری اِسلامی ایران کے پشاور میں تعینات ڈائریکٹر جنرل اصغر خسرو آبادی نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”کربلا کا پیغام‘ نماز کی پابندی اُور اوّل وقت میں نماز کی ادائیگی ہے‘ جسے مراسم و معمولات اُور مصروفیات میں فراموش (گم) نہیں کرنا چاہئے۔“ تقریب کے دیگر مقررین میں قومی امن جرگہ کے چیئرمین اقبال حیدری نے محرم الحرام اُور دیگر اسلامی مہینوں میں پیش آئے اہم واقعات کا تذکرہ کیا اُور کہا کہ اسلامی سال کی اہمیت اُور اِن میں پیش آئے واقعات خاص اہمیت کے حامل ہیں اُور اسلامی تاریخ کے اِن تمام درخشاں ابواب کا ذکر ہونا چاہئے۔ اُنہوں نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ اسلامی مہینوں کے بارے میں نوجوان نسل کو بالخصوص آگاہ کیا جائے۔

حجة الاسلام و المسلمین خطیب علامہ سیّد ظفر نقوی نے محرم الحرام کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے سے متعلق ’مسجد و منبر کی ذمہ داریوں‘ پر روشنی ڈالی جبکہ مدرسہ عارف حسین الحسینی شہید کے پرنسپل علامہ عابد حسین شاکری نے اِمام عالی مقامؓ کی استقامت و شہادت کے ظاہری و پوشیدہ پہلوؤں کو اُجاگر کیا اُور اپنے مدلل خطاب کے آغاز پر یہ شعر پڑھا کہ ”آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اِک ہجوم .... شاید غم ِحسین (ع) کا موسم قریب ہے۔“ پروقار تقریب میں ضلع پشاور کی امام بارگاہوں کے متولیان‘ تعزیہ دار‘ بانیان مجالس اُور ماتمی سنگتوں کے سالار یا اُن کی نمائندگی کرنے والوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

 پہلی مرتبہ محرم الحرام کے آغاز پر اپنی نوعیت کی اِس منفرد تقریب کی خاص بات یہ نہیں تھی کہ اہل تشیع اُور اہل سنت والجماعت (مختلف مسالک) سے تعلق رکھنے والے ایک چھت کے تلے ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوئے بلکہ بظاہر الگ الگ مسالک کے طور پر نشاندہی ہونے والے اِن مسالک نے محرم الحرام کے حوالے سے جو نکات پیش کئے اُن میں مشترکات‘ اقدار‘ رواداری‘ بھائی چارے اُور اخوت پر زور دیا گیا اُور یہی وہ خاص نکات تھے جس کا تمام مقررین نے احاطہ کیا۔ بطور خاص علامہ سیّد ظفر نقوی نے کہا کہ رواں برس ’رہبر معظم آیت اللہ سیّد خامنہ ای حفظہ اللہ‘ کی جانب سے جاری ہونے والے محرم الحرام کے حوالے سے پیغام میں علمائے کرام و ذاکرین اُور نوحہ خوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محرم الحرام کے دوران اسلام کے حقیقی تشخص اُور توحید کو اُجاگر کریں اُور فروعی مسائل اُور اختلافات کا تذکرہ کرنے کی بجائے مشترکات کا ذکر کریں تاکہ ’کربلا شناسی‘ کے ساتھ اسلامی اخوت میں اضافہ ہو اُور یہی ’کربلا کا پیغام‘ بھی ہے کہ عالم اسلام اِس ایک نکتہ حریت پر متفق ہو جائے کہ امام عالی مقام اُور کربلا میں اِمام عالی مقام اُور آپ کے جانثار ساتھیوں (رضوان اللہ اجمعین) کی استقامت و قربانی کا مقصد یہی تھا کہ اسلام کا حقیقی تشخص اُجاگر ہو اُور اسلام کے اِس حقیقی تشخص کو اُجاگر کر کے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے والوں کے عزائم خاک میں ملائے جا سکتے ہیں اُور بالخصوص اِسلام کے خلاف جاری منظم و مربوط سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔“

 اِستقبال ِمحرم الحرام کے حوالے سے منعقدہ مذکورہ نشست کا عنوان ”پیغام کربلا کانفرنس“ رکھا گیا جو انتہائی موزوں تھا اُور اِس سے بھی زیادہ موزوں انتخاب تقریب کے لئے مقام کا انتخاب تھا جو کسی مسجد یا امام بارگاہ کی بجائے ’وحید بینکویٹ (شادی) ہال نزد یکہ توت گیٹ‘ تھا جہاں شرکا میں شیعہ و سنی مسالک سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ قریب دو گھنٹے جاری رہنے والے اِس تقریب کے اختتام (عشایئے) تک حاضرین نشستوں پر جمے رہے اُور بلند آواز میں درود شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے مقررین کے مو¿قف کی تائید بھی کی جاتی رہی‘ جس سے روحانی محفل کی رونق میں مزید اضافہ ہوا۔

اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اِس غیرمعمولی تقریب میں اگر صوبائی حکومت‘ ضلعی حکومت‘ ضلعی اِنتظامیہ اُور بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے فیصلہ سازوں بھی شریک ہوتے تو امن و امان کے انتظامات و تیاریاں (محرم کنٹی جینسی پلان) کے تحت الگ الگ مسالک سے الگ الگ ملاقاتیں کرنے جیسی حسب روایت سالانہ مشق کی محتاج نہ رہتیں اُور نہ ہی محرم الحرام پر کسی مسلک کی اجارہ داری اُور چھاپ کا تاثر پیدا ہوتا۔ متعلقہ تھانے کو اطلاع دے دی گئی تھی لیکن اِس کے باوجود خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بہرحال احساس کر لیا گیا ہے کہ بنیادی ضرورت ’کربلا شناسی‘ کے فروغ اُور استقامت و قربانیوں کے مقاصد عالیہ کو مدنظر رکھنے کی ہے‘ جس کے لئے مسالک کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے اُور اگر اِس ’بابرکت اتفاق رائے (مشترکات)‘ کو فروغ دیا جائے تو صرف محرم الحرام ہی نہیں بلکہ دیگر گیارہ مہینے بھی امن و امان سے گزر سکتے ہیں جن کے لئے عمومی حفاظتی انتظامات کے علاؤہ خصوصی انتظامات (محرم کانٹی جَینسی (سیکورٹی) پلان) کی ضرورت نہیں پڑے گی اُور نہ ہی کسی ایک مسلک کے ہاتھوں دوسرے کی دل شکنی ہو گی جس سے اختلافات بڑھتے ہیں اُور مسالک ایک دوسرے کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ مشترکات موجود ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ محرم الحرام کے لئے رواں برس سال گزشتہ کے مقابلے زیادہ بڑے پیمانے پر حفاظتی انتظامات وضع کئے گئے ہیں۔

صوبائی محکمہ داخلہ (ہوم ڈیپارٹمنٹ) نے خیبرپختونخوا کے 11 اضلاع میں 4500 مقامات کو انتہائی حساس قرار دیا ہے تاہم ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہوئے اعلامیہ کے مطابق پشاور‘ کوہاٹ‘ ہنگو‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرم‘ اورکزئی‘ ٹانک‘ بنوں‘ لکی مروت‘ مردان‘ ہری پور‘ ایبٹ آباد اُور مانسہرہ میں موبائل فونز سروسیز حسب ضرورت (اجتماعات کے موقع پر) بند رکھی جائیں گی لیکن اِس طرح کے انتظام کو مسئلے کا پائیدار حل سمجھنا خام خیالی ہو گی اُور دوسری اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے نشانے پر صرف وہی ساڑھے چار ہزار مقامات ہونا بھی درست اندازہ نہیں بلکہ کوئی بھی دوسرا مقام (جسے فی الوقت غیرحساس سمجھ لیا گیا ہے) وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتا ہے اِسی لئے وسیع اُور غیرلچکدار حفاظتی انتظامات کئے جاتے ہیں اُور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی مذکورہ شہروں میں شہری زندگی کے معمولات شدید متاثر ہوں گے لیکن اگر فرقہ ورانہ ہم آہنگی اُور مسالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہو جائیں تو اِس سے مالی و افرادی وسائل کی بچت کے علاؤہ معمولات ِزندگی کے متاثر ہونے کے امکانات بھی کم اُور مرحلہ وار ختم ہوتے چلے جائیں گے اُور یہی حفاظتی انتظامات کا بنیادی نکتہ ہونا چاہئے۔ فکرانگیز ہے کہ ایک طرف امن کوششیں ہو رہی ہیں اُور دوسری طرف پولیس ایسے اقدامات کر رہی ہے جس کے بارے میں قومی محرم کمیٹی کو تحفظات ہیں۔

سولہ جولائی دوہزارتیئس کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں قومی محرم کمیٹی نے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ رواں برس محرم الحرام کے آغاز سے قبل ’عزاداری سیّد الشہدا‘ بلاجواز پابندی اُور قدغن لگانے کے لئے امام بارگاہوں کے متولیان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اُور متولیان سے ایسے نوٹسیز پر دستخط لینے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کے مطابق وہ پولیس کی مرضی سے اپنے ہاں عزاداری کا آغاز و اختتام کریں گے جو انتہائی غیرمناسب رویہ ہے اُور اِس کوشش کو محرم کمیٹی نے مسترد کیا ہے کیونکہ یہ بنیادی آئینی و انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود بھی اگر تھانہ جات کی سطح پر قدغنیں لگانے کی کوشش ہو رہی ہے تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ سطحی فیصلے‘ جو جملہ فریقین (مختلف مسالک) کی آرا و تجاویز اُور تحفظات و شکایات سننے کے بعد کئے گئے اگر اِن پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو اِس سے حفاظتی انتظامات کی کامیاب بھی ممکن نہیں ہوگی اُور خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں امن و امان کو نقصان پہنچانے کے لئے تاک میں بیٹھے ’دشمن (دہشت گردوں)‘ کو وار (حملہ) کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ 

....

Imamia Council organizes Paigham-e-Karbala Conference (app.com.pk)

Imamia Council organizes Paigham-e-Karbala Conference

Sun, 16 Jul 2023, 4:33 PM

PESHAWAR, Jul 16 (APP):Imamia Council for the Unity of the Muslims (Rejection of Sectarianism) Khyber Pakhtunkhwa in collaboration with Qoumi Aman Jirga organized ‘Paigham e Karbala Conference’ here the other day, said a press release issued here on Sunday.

Director General (DG), Iranian Cultural Centre, Peshawar Asghar Khusro Abadi attended the conference as the chief guest.

Addressing the participants of the conference, Asghar Khusro Abadi said that the message of Karbala was offering timely and early prayers, which could not be forgotten due to engagements relating to customs, traditions and other routine matters.

Chairman, Qoumi Aman Jirga, Iqbal Haidri highlighted the significant events organized in Muharram ul Harram and other holy Islamic months underlining their importance in Islamic history and stressed for highlighting these golden chapters. He further stressed for creation of awareness amongst the youth about Islamic calendar.

Allama Syed Zafar Naqvi highlighted the responsibility of masajid and emphasized presentation of the importance of Muharram-ul-Haram in true sense.

Allama Abid Hussain Shakri, the Principal of Madrasa Arif Hussain Al-Hussaini Shaheed, shed light on the unwavering commitment of Imam Aali-e-Maqam, emphasizing the visible and hidden aspects of martyrdom.

Custodians of numerous Imam Bargahs, Taiziadars, founders of Majalis, Salars of Matami Sangats and their representatives from Peshawar turned over to the conference.

The unique event successfully brought together Shia and Sunni Muslims under one roof, promoting unity, understanding, and brotherhood.

The speakers at the conference highlighted commonalities, values, tolerance and brotherhood, with a particular focus on strengthening the bonds of Islamic brotherhood through a deeper understanding of Karbala. By emphasizing shared aspects rather than differences, the aim was to thwart the ambitions of those who perpetuate sectarian tensions and conspiracies against Islam.

APP/aqk


Editorial Page - Daily Aaj - 17th July 2023.

Clipping from Daily Aaj - 17th July 2023







Saturday, July 15, 2023

Gandhara dreams by Dr Ramesh Kumar Vankwani

 Gandhara dreams

گندھارا تہذیب: خواب اُور حقیقت

پاکستان میں گندھارا تہذیب کے آثار اُور منسوب مقامات کی سیر کے لئے دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ حال ہی میں اِس سلسلے میں ایک ’عالمی کانفرنس‘ کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں بالخصوص بدھ مت کے پجاری اُور اُن ممالک کے نمائندہ وفود نے شرکت کی جہاں ’بدھ مت‘ سرکاری مذہب کے طور پر رائج ہے۔ گندھارا تہذیب کو مقدس اُور تاریخی اہمیت کی حامل سمجھنے والے جو ممالک دلچسپی لے رہے ہیں اُن میں تھائی لینڈ‘ نیپال‘ ویت نام‘ چین‘ ملائیشیا‘ کوریا‘ سری لنکا‘ میانمار‘ کمبوڈیا‘ انڈونیشیا اور دیگر بودھی اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ حال ہی میں معزز بودھی بھکشو نے پاکستان کا دورہ کیا اُور چند دنوں روز یہاں مقیم رہے۔ اِن کی پاکستان یاترا (آمد) کا مقصد وزیر اعظم کی ’خصوصی ٹاسک فورس برائے گندھارا ٹورازم‘ اُور ہم خیال ’تھنک ٹینک نجی اداروں‘ کے تعاون سے منعقد ہونے والے پہلے بین الاقوامی گندھارا سمپوزیم میں شرکت تھی جس کے لئے وفود اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اُترے اُور اُنہوں نے مذکورہ سمپوزیم میں شرکت کے علاؤہ گندھارا تہذیب کے مقامات پر حاضری بھی کی اُور وہاں عبادت و مختصر قیام کے دوران تاریخ کے اُن رشتوں کو زندہ بھی کیا جن پر دہائیوں سے مٹی پڑی ہوئی ہے۔

بین الاقوامی بودھی راہبوں کے ہمراہ تخت باہی مردان کے قدیم گندھارا مقام کا دورہ کرتے ہوئے راقم الحروف کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی شخص جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہو اور جب آنکھیں کھلیں گی تو یہ ویران کھنڈرات اپنے شاندار ماضی پر ماتم کرتے نظر آئیں گے۔ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لئے ’مذہبی سیاحت‘ کو فروغ دینے کا خواب بالآخر حقیقت بن رہا ہے۔ اِس سمپوزیم سے قبل‘ بدھ بھکشوؤں‘ مختلف ممالک کے سفیروں اور ذرائع ابلاغ کے وفود کے ہمراہ جدید ٹیکسلا اور گندھارا دور کے عظیم تعلیمی مرکز‘ تکششیلا (Takshashila)کے قدیم شہر میں واقع قدیم دھرم راجیکا (Dharmarajika) عبادتگاہ (سٹوپا) کا دورہ کیا۔ معلوم انسانی تاریخ کی یہ پہلی یونیورسٹی تھی اور اِس جامعہ میں عظیم فلسفی کوٹلیہ چانکیہ ڈھائی ہزار سال پہلے حکمت پڑھاتے تھے۔ ’ارتھ شاستر‘ اور ’چانکیہ نیتی‘ کے عنوان سے اُن کی کتابیں اکیسویں صدی میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ قدیم شہر ٹیکسلا کی اہمیت کے پیش نظر گندھارا ٹورازم سے متعلق وزیراعظم پاکستان کی بنائی ہوئی ’ٹاسک فورس‘ نے ایک اعلامیہ بھی تیار کیا ہے جسے کانفرنس کے مندوبین اور سفیروں کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ راقم الحروف کو یقین ہے کہ اِس عاجزانہ کوشش کو تاریخ میں ’تکششیلا اعلامیہ‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

بین الاقوامی مندوبین نے ٹیکسلا اور پشاور کے عجائب گھروں کا دورہ بھی کیا۔ اِس موقع پر راہبوں سے ہوئی بات چیت میں اِس بات کا خصوصی طور پر اظہار کیا گیا کہ گندھارا کے بارے میں بہت کچھ پڑھنے اُور سننے والوں کو جب اِس سے متعلقہ مقامات اُور آثار کو قریب سے دیکھنے کا پہلا اُور نادر موقع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اپنے آبائی ممالک واپس جانے کے بعد پاکستان اور پاکستان کے عوام کے بارے میں اچھی باتیں اُور یادیں بطور سوغات لیکر جائیں گے۔ ذہن نشین رہے کہ گندھارا سیاحت کے فروغ کے لئے جب وزیر اعظم کی ٹاسک فورس نے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اُور بدھ مت زائرین نے تخت بھائی کا دورہ کیا تو راقم الحروف نے اُس وفد کی قیادت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اُور اُس وقت یہ بالکل ناممکن دکھائی دے رہا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک سے بدھ بھکشو پاکستان کا دورہ کر سکیں گے تاہم جہاں ارادہ موجود ہو اُور جہاں نیک نیتی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔ ذاتی طور پر راقم الحروف کا ماننا ہے کہ ہر قوم اور ملک کا کوئی نہ کوئی خواب ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے۔ امریکہ کے 16ویں صدر ’ابراہم لنکن‘ نے اپنی قوم کو سپر پاور بننے کا خواب دیا۔ اسی طرح چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی اپنی قوم کو عالمی سطح پر متعارف کرایا اُور چین کی صنعتی و سفارتی طاقت کو منوایا۔ 

ہمارے بزرگوں نے بھی ایک خودمختار اور آزاد ریاست کا خواب دیکھا تھا جو بانیئ پاکستان قائد اعظم کی دور اندیش قیادت میں پورا ہوا۔ جناح صاحب نے ’11 اگست 1947ء‘ کے روز اپنی تقریر میں اِس خواب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”وہ پاکستان کو ’مثالی رول ماڈل ریاست‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہر کسی کو مسجد یا مندر یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کی آزادی ہو۔“ ایک محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے راقم الحروف کا بھی خواب ہے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہو اُور پاکستان کا تعارف ترقی یافتہ‘ پرامن اُور خوشحال ملک کے طور پر کیا جائے۔ ’گندھارا ڈریم‘ کے ساتھ پاکستان نے مذہبی سیاحت کے فروغ سے متعلق ’واضح اہداف‘ مقرر کئے ہیں اُور اِس کوشش میں بڑی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ سینکڑوں سال پہلے ہماری سرزمین پر پھلنے پھولنے والی عظیم گندھارا تہذیب دنیا کی ’اَنوکھی قدیم‘ تہذیب ہے۔ اِس تہذیب کے باقی ماندہ آثار میں ہر پتھر‘ ہر کھنڈر‘ ہر کونا کوئی نہ کوئی کہانی بیان کر رہا ہے۔ 

گندھارا ورثہ پراسرار ہے اُور اِس کی پراسراریت جدید دور میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ گندھارا کے مقدس مقامات کی زیارت دنیا کے ہر بدھ مت پیروکار کا خواب ہے لہٰذا ہمیں اِس جانب راغب کرنے کے لئے غیرملکی سیاحوں کے لئے سہولیات کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ 

(مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)


Development in Peshawar - At a glance

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی .... شہری منصوبہ بندی

صوبائی دارالحکومت پشاور کا کوئی ایک بھی رہائشی یا کاروباری علاقہ ایسا نہیں جہاں بنیادی سہولیات کا نظام مثالی شکل و صورت میں موجود ہو اگرچہ عوامی اجتماعی مسائل کے حل کے لئے فیصلہ سازی کا عمل وسیع کر دیا گیا ہے اُور مقامی حکومتیں (بلدیاتی نظام) اِسی لئے وضع کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے علاقائی سطح پر عوام کی نمائندگی ہو اُور علاقائی سطح پر ہی بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے ضلع پشاور میں 216 تحصیل کونسلز‘ 1438 ویلیج کونسلز‘ 1076 نیبرہڈ کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں۔ اِس نظام میں ویلیج کونسلوں کے علاؤہ نیبرہڈ کونسلیں اُور اِن سے منتخب خواتین‘ مزدور کسان‘ یوتھ اُور اقلیتی اراکین خصوصی اضافی نمائندگی رکھتے ہیں۔ اِن بلدیاتی نمائندوں کی کل تعداد ’4 ہزار 244‘ بنتی ہے جن میں جنرل نشستوں پر (ویلیج اُور نیبرہڈ کونسلوں کی صورت متعلقہ علاقوں کی) نمائندگی کرنے والوں کی تعداد 2 ہزار 514 کونسلر بھی شامل ہیں اُور یہی ڈھائی ہزار سے زیادہ منتخب بلدیاتی نمائندے وہ ہیں جنہیں کی منظوری سے پشاور کی ترقیاتی فیصلہ سازی کا تعین ہوتا ہے۔ اِس نتیجہ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پشاور کے مشرق میں واقع 4 نیبرہڈ کونسلوں (این سیز) کا جائزہ لیں جنہیں سرکاری دستاویزات میں ’گل بہار نمبر ون‘ گل بہار نمبر ٹو‘ رشید ٹاؤن اُور گل بہار نمبر فور‘ کا نام دیا گیا ہے اُور اِن چار نیبرہڈ‘ ویلیج کونسلوں سے منتخب ہونے والے جنرل کونسلروں کی کل تعداد 58 ہے جن میں 16خواتین کے لئے‘ آٹھ مزدور کسان نمائندوں کے لئے‘ آٹھ یوتھ (نوجوانوں) کے لئے اُور آٹھ نشستیں اقلیتوں کے لئے مختص کی گئی ہیں۔ غور ہونا چاہئے کہ بلدیاتی نظام کی صورت اِس پوری کوشش (مشق) کا مقصد کیا ہے اُور کیا وہ بنیادی مقصد حاصل ہو رہا ہے؟ گل بہار نمبر ون کے 25‘ گل بہار نمبر ٹو کے 24‘ رشید ٹاؤن کے 25 اُور ’گل بہار نمبر فور‘ کے 24 بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب و تقرری کیوں کی گئی اُور اگرچہ اِن میں سے اکثر سیٹوں پر انتخاب بھی مکمل ہو چکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پھر بھی ’شہری مسائل‘ جوں کے توں برقرار ہیں اُور ترقیاتی ترجیحات کا تعین کرنے میں وہی ’دانستہ غلطیاں‘ آج بھی دُہرائی جا رہی ہیں جو ماضی میں کی جاتی تھیں جبکہ بلدیاتی نمائندے نہیں ہوتے تھے؟

پشاور کو سیاست دیمک کی طرح صرف اندر ہی اندر سے نہیں بلکہ باہر سے بھی کھا گئی ہے! مقامی حکومتوں کے نام سے وہ بلدیاتی نظام جو ’بلاامتیاز و تفرقہ خدمت‘ کے لئے وضع کیا گیا تھا اُسے سیاسی جماعتوں نے یرغمال (ہائی جیک) کر لیا ہے اُور ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ یعنی ’جس سیاسی جماعت کی حکومت اُس کی من مانی‘ کے اصول پر پشاور کے ترقیاتی فیصلے ہو رہے ہیں‘ جو سیاست سے بالاتر نہیں بلکہ سیاست پشاور کے ہر فیصلے پر حاوی ہو چکی ہے۔ اگر پشاور اُور اِس کے موجودہ مسائل پر غور کیا جائے تو یکساں توجہ طلب امر (یہ پہلو) بھی سامنے آتا ہے کہ بنیادی طور پر پشاور کے مسائل کی وجہ اُور اِس کے وسائل پر ’2 قسم‘ کے بوجھ ہیں۔ ایک اِس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز دیگر اضلاع سے بہتر معاشی مستقبل (روزگار و ملازمت)‘ حفاظت‘ تعلیم اُور حتیٰ کہ علاج معالجے کے لئے بھی پشاور کا رخ کیا جاتا ہے اُور یہ بھی پشاور کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں جب بھی کوئی ’وارد‘ ہوا تو اُن کی ایک تعداد پشاور ہی کی ہو کر رہ گئی۔ شاید اِسی لئے تاریخ کی کتب میں ”پشاور“ کی وجہ تسمیہ ’پیش آورد‘ بھی ملتی ہے۔ بہرحال پشاور کا انتخاب کرنے والوں کی نظر میں فوری طور پر یہاں کی سہولیات جم جاتی ہیں اُور اِس کا محرک سرسری و فطری بھی ہے جس کا ایک تعلق پشاور کی آب و ہوا سے ہے اُور اگرچہ اب ماضی کی طرح مثالی نہیں رہی لیکن دیگر اضلاع سے پھر بھی نسبتاً بہتر ہے۔ جب ہم سہولیات کے تناظر میں پشاور کا جائزہ لیتے ہوئے موازنہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے کرتے ہیں تو پشاور کی صورتحال نسبتاً زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہے اُور یہی کشش یہاں کے مسائل میں اضافے کا ’کلیدی محرک‘ ہے جس کا ”بوجھ“ پشاور کی زرخیز زرعی (قابل کاشت) اراضی پر رہائشی کالونیاں بننے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ پشاور کا نہری نظام گندگی و غلاظت کا مجموعہ بن چکا ہے۔ شاہی کٹھہ اُور بازار تجاوزات سے بھر گئے ہیں۔ اکثر علاقوں میں نہری نظام نکاسی آب کا بنیادی ذریعہ ہے جس میں گھریلو و کاروباری اُور صنعتی کوڑا کرکٹ‘ فضلہ اُور کیمیائی مادے بنا روک ٹوک اُور بنا تطہیر بہائے جا رہے ہیں۔ پوچھنے والے تو ہیں اُور پوچھنے والوں کا عوام نے بلدیاتی نمائندوں کی صورت انتخاب بھی کر دیا ہے لیکن پشاور سے دلی تعلق کی بجائے سیاسی تعلق نے صورتحال کو اجتماعی مفاد سے ذاتی و جماعتی مفاد کا اسیر بنا دیا ہے۔ 

توجہ طلب ہے کہ پشاور کا وہ نہری نظام جو کبھی آبنوشی کے لئے استعمال ہوتا تھا چند دہائیوں میں نکاسی آب کا ذریعہ بن گیا ہے اُور یہی ’آلودہ پانی‘ ضلع و تحصیل پشاور کی باقی ماندہ زراعت و باغبانی کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے نت نئی اُور پیچیدہ بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ پشاور کا اِسی آلودہ پانی میں ’پولیو‘ و دیگر خطرناک بیماریوں کے جرثومے بھی پائے گئے ہیں! ایک ایسا صدر مقام‘ جو پھولوں کا شہر کہلاتا ہو اُور اُس کی مثالی آب و ہوا‘ اگر مثالی نہیں رہی تو قصور وار کون ہے؟جہاں رہائشی و تجارتی علاقوں کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہو چکا ہے اُور جہاں دانستہ و غیردانستہ سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھنے یعنی اصلاح احوال کا جذبہ بھی نہیں پایا جاتا تو اُس طول و عرض میں پھیلتے شہر کے ساتھ بڑھتے مسائل اگر مربوط و جامع حکمت عملی کے ساتھ حل نہیں کئے جاتے تو مبینہ ترقیاتی عمل کی صورت مالی وسائل کا ضیاع جاری رہے گا۔

منتخب نمائندوں پر مبنی مقامی حکومتوں کے نظام اُور پشاور کے مسائل کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے توجہات ’گل بہار‘ کی جانب مبذول کرتے ہیں جس کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اُور یہ تقسیم وقت کے ساتھ ’گل بہار‘ کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے خودبخود ہوتی چلی گئی اُور ’گل بہار‘ کی ابتدائی آبادی (پہلے حصے یعنی گل بہار نمبر ون) کے بعد کسی بھی دوسرے حصے (گل بہار نمبر دو‘ رشید ٹاؤن اُور گل بہار نمبر چار) میں خاطرخواہ شہری منصوبہ بندی کا عمل دخل نظر نہیں آتا بلکہ کھیتی باڑی کے لئے استعمال ہونے والی یہ اراضی ٹکڑوں میں فروخت ہوتی رہی اُور یوں راستے (گلیاں اُور سڑکیں) تخلیق پاتے رہے‘ جن پر تعمیر ہونے والے بے ترتیب گھروں کی اکثریت اُن تعمیراتی نقشوں کے مطابق نہیں جن کی متعلقہ میونسپلٹی (بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) سے منظوری لی گئی تھی۔ بہرحال ’گل بہار‘ پشاور شہر کا پہلا توسیعی منصوبہ بصورت رہائشی بستی قرار دی جا سکتی ہے جس کے اکثر حصوں میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے اُور چار سے پانچ دہائیوں میں ’گل بہار‘ کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں رہا‘ جہاں اینٹ رکھنے (نئی آبادی) کی گنجائش باقی رہی ہو اُور یہ وہ وقت ہے جب گل بہار کے رہنے والے ’نیند سے بیدار‘ ہوئے ہیں اُور آنکھیں مل کر اپنے گردوپیش کو دیکھنے پر اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ فٹ پاتھ تجاوزات سے بڑھ چکے ہیں۔ فٹ پاتھ کے ساتھ بنی ہوئی نالے نالیوں پر بھی قبضہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اُن کی صفائی پندرہ بیس برس سے نہیں ہوئی اُور معمولی سی بارش بھی گل بہار کے نشینی و نسبتاً بالائی حصوں کے لئے طغیانی کا باعث بنتی ہے یا سڑکوں پر کئی کئی دن تک بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے جس سے تعلیمی اداروں‘ دفاتر اُور مساجد کو باقاعدگی سے جانے والوں کو مشکلات رہتی ہیں! میئر پشاور نے حال ہی میں انم صنم چوک سے عشرت سینما چوک اُور عشرت سینما چوک سے آفریدی گڑھی تک سڑک کی تعمیر و مرمت کے لئے فراخ دلی سے مالی وسائل فراہم کئے ہیں لیکن یہ مالی وسائل اگر سڑک کے اُن چند حصوں کی مرمت پر خرچ کئے جاتے جو توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ گل بہار کے 3 مسائل انتہائی ضروری ہیں۔ نکاسی آب کا نظام گلیوں سے متصل نہیں۔ گلیاں نیچے اُور سڑک کی سطح ہر ترقیاتی کام کے بعد بلند ہو رہی ہے۔ کئی گلیوں کی فرش بندی چاہئے جو عرصہ بیس سال پہلے بنائی گئی تھیں اُور بجلی کی فراہمی کا بوسیدہ (ناکافی) نظام کی اصلاح و توسیع ہونی چاہئے کیونکہ گل بہار کی آبادی میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اِس کے ساتھ بجلی پانی و گیس جیسی سہولیات کی فراہمی کو مربوط توسیع نہیں دی گئی! 

اگر ’مکھی پر مکھی مارنا‘ مقصود نہیں اُور گل بہار کی ترقی سے کوئی سیاسی‘ جماعتی و سیاسی فائدہ بھی نہیں جڑا ہوا تو نمائشی اقدامات پر ’مالی وسائل‘ ضائع کرنے کی بجائے حسب ِحال (حسب ِضرورت) ترقیاتی حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے۔

....

Editorial Page - Daily Aaj - 15th July 2023

Clipping from Editorial Page - Daily Aaj - 15th July 2023