Tuesday, June 23, 2020

Remembering Allama Talib Johari

موت العالم‘ موت العالم
معروف مذہبی شخصیت علامہ طالب جوہری کے انتقال پر صرف مذہبی حلقے اُور اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل علم و ادب بھی اُداس‘ مغموم اُور سوگوار ہیں کیونکہ اُنہوں نے کمال محنت سے علم کے سمندر (قرآن کریم) سے ایسے نایاب موتی تلاش کئے‘ جن کی بدولت علوم قرآن کو سمجھنے کے ساتھ عوام و خواص کو قرآن کریم کی روشنی میں عقائد و دینی اصلاحات بارے رائے قائم میں آسانی رہی اُور یہی وجہ تھی کہ اُنہیں اتحاد بین المسلمین کا داعی قرار دیا جاتا تھا۔ گزشتہ چند برس سے علیل رہنے اُور کمزوری کے باعث اُنہوں نے مجالس اُور اجتماعی عبادات میں شرکت کم کر دی تھی اُور اِس عرصے کے دوران کم سے کم تین مرتبہ اُن کے انتقال کی خبریں زیرگردش رہیں کیونکہ وہ جسمانی طور پر اِس حد تک نحیف ہو چکے تھے کہ زیادہ بات چیت بھی نہیں کرتے تھے اُور سارا وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتے۔ بائیس جون کی شب رات ایک بجکر ایک منٹ پر جب اُن کے انتقال کی خبر موصول ہوئی تو جوہری خانوادہ سے تعلق رکھنے والی محترمہ نسرین پرویز نے واٹس ایپ پر صوتی پیغام دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ موبائل اُور لینڈ لائن فون مصروف ہونے کی وجہ سے اِس ’خبرِ غم‘ کی تصدیق نہیں ہو رہی تاہم چند ہی منٹ بعد انچولی سے مختصر دورانئے کی 2 ویڈیوز موصول ہوئیں جنہیں دیکھ کر تصدیق ہو گئی کہ علامہ طالب جوہری بارگاہ ¿ اہل بیت اطہار میں منتقل ہو چکے ہیں۔ وہ 10 جون سے ایک نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے اُور چھاتی کے امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اُنہیں آخری چند روز مصنوعی آلات (وینٹی لیٹر) کے ذریعے سانس دی جا رہی تاہم اِس مرتبہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔ (انا للہ و انا علیہ راجعون)۔

کراچی میں قیام کے دوران تین مرتبہ عشرہ محرم الحرام کے دوران علامہ طالب جوہری اُور آیت اللہ سیّد عقیل الغروی (بھارت) کی مجالس سننے کا اتفاق ہوا‘ جہاں شیعہ سنی کی تمیز نہیں ہوتی۔ ہر مکتبہ ¿ فکر اُور بودوباش سے تعلق رکھنے والے کئی کئی گھنٹے قبل فرش عزا پر جا بیٹھتے تاکہ وہ علامہ کا قریب سے دیدار بھی کر سکیں۔ اہل کراچی (شیعہ و سنی) کی اُن سے محبت اُور عقیدت کے رشتے الگ الگ نہیں بلکہ وہ ایک ہی سکے کے دو رخ تھے اُور یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی بھی متنازعہ نہیں رہے۔ انتہائی نوعیت کے فروعی اُور اختلافی مسائل کے بارے میں بھی اُن کے بیان قرآن کی آیات سے مدلل و مزین ہوتے‘ جو اُن کے قوی حافظے اُور وسیع مطالعے کی دلیل تھی۔ اسلامی موضوعات اُور ادیان کے تقابلی جائزے کے علاو ¿ہ بطور تاریخ داں‘ شاعر اُور فلسفی اُن کی تصانیف تحقیق و بیان کا شاہکار ہیں کہ اُنہیں پڑھتے ہوئے کانوں میں اُن کے مخصوص طرز خطاب کی گونج محسوس ہوتی ہے اُور یہ صرف اُنہی کا خاصہ رہا کہ وہ تحریر (نثر) کو بھی کلام جیسی خوبیاں سے مرصع کر دیا کرتے تھے اُور یوں کتاب پڑھنے والے کو الفاظ کے سننے جیسا گمان ہونے لگتا۔

علامہ طالب جوہری کا تعلق اُس علمی ادبی گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد گرامی مولانا مصطفیٰ جوہری کا شمار بھی جید علمائے کرام میں ہوتا تھا جن کے ہاں طالب جوہری کی پیدائش (27 اگست 1939ئ) پٹنہ (بھارت) میں ہوئی اُور علوم کی منتقلی کا ابتدائی سلسلہ گھر ہی سے شروع ہوا۔ اِس کے بعد 10 برس تک نجف اشرف (عراق) میں آیت اللہ العظمی سیّد ابو القاسم الخوئی کی زیرنگرانی دینی و دنیاوی علوم حاصل کرتے رہے۔ آپ نے آیت اللہ العظمی سیّد باقر الصدر سے بھی تحصیل علم کیا جو بعد میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ایک نجی محفل میں اُن سے بات چیت کا شرف ملا اُور جب نجف اشرف سے متعلق اُن کی یادوں بارے سوال کیا گیا تو قوی ¿ الحافظہ ہونے کے باوجود آپ نے فوری جواب نہیں دیا بلکہ کئی منٹ تک خاموش رہے اُور ایسا بہت کم ہوتا کہ جب اُن سے کسی بھی موضوع پر بات کی جاتی تو وہ قرآن کریم اُور احادیث سے درجنوں حوالہ جات اُس وقت تک بیان کرتے رہتے جب تک کہ سوال پوچھنے والے کی تسکین یا ممکنہ ضمنی سوالات کے تمام جوابات ادا نہ ہو جاتے لیکن نجف اشرف کے تذکرے پر اُنہوں نے کہا کہ ”بیٹا جسم یہاں ہے لیکن روح وہیں رہ گئی ہے!“ 

علامہ طالب جوہری 1965ءمیں نجف اشرف سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی واپس آئے اُور جامعہ امامیہ مدرسے کے نگران (پرنسپل) کے طور پر خدمات سرانجام دینے لگے۔ آپ پانچ برس تک گورنمنٹ کالج ناظم آباد (کراچی) میں علوم اسلام (اسلامک سٹیڈیز) کے معلم بھی رہے۔ واقعات کربلا اُور اسلام کے عصری شعور کو بیان کرنے میں آپ کا ثانی نہیں تھا۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ”علامات ظہور مہدی“ ایک ایسی جامع کتاب ہے‘ جس میں اِمام زمانہ عجل اللہ و فرج کے ظہور سے متعلق ماضی‘ حال اُور مستقبل کے سبھی متعلقہ عنوانات کا احاطہ پیش کیا گیا ہے۔ اُن کی تفسیر قرآن‘ احسن الاحادیث‘ حدیث کربلائی‘ عقلیات معاصر‘ ذکر معصوم‘ نظام حیات انسان‘ خلفائے اثنائے عشر قابل ذکر ہیں جبکہ شاعری کے 3 مجموعے حرف نمو‘ پس آفاق اُور شاخ صدا لاجواب ادبی فن پارے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے علامہ طالب جوہری کو نئی پہچان ملی۔ 

پاکستان اُور اُردو سمجھنے والی دنیا میں اُن کا تعارف 1980ءاُور 1990ءکی دہائیوں میں ہوا۔ ابتدا میں قرآنی موضوعات کے حوالے سے ”تفہیم دین“ اُور ”فہم القرآن“ کے نام سے مختصر دورانئے کی درسی نشست سے خطاب کرتے رہے‘ جس میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوتا۔ تاہم اُن کا راج کئی دہائیوں تک دس محرم الحرام کی شب مجلس شام غریباں سے خطاب کی صورت رہا‘ جو عوام و خواص کی پسندیدگی کے باعث یوم عاشور کی مناسبت سے لازم و ملزوم جز رہا اُور اُنہوں نے علامہ نصیرالدین اجتہادی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی‘ جو اُن سے قبل شام غریباں کے مقرر تھے اُور علامہ اجتہادی نے علامہ نصیر ترابی کے معیار خطابت و تحقیق کو ایک نئی بلندی سے روشناس کیا تھا۔ ذاتی مشاہدہ ہے کہ کراچی کے ایرانیان کھارادر (قدیمی امام بارگاہ) میں جب علامہ طالب جوہری عشرہ محرم کی مجالس سے خطاب کرتے تو اُنہیں سننے والوں میں بوہری اُور اسماعیلی شیعہ مسالک کے علاو ¿ہ بڑی تعداد میں اہلسنت و الجماعت کے علما بھی موجود ہوتے۔ یہ اعزاز اپنی جگہ ہے کہ آیت الہ ابوالفضل بہاو ¿الدینی‘ ولایت فقیہہ آیت اللہ العظمیٰ سیّد علی خامنہ ائی کے نمائندہ اُن کی مجالس میں تشریف فرما ہوتے۔ یقینا علامہ طالب جوہری کے اِس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکے گا اُور ایک عالم کی موت (موت العالم) تو درحقیقت ایک عالم کی موت (موت العالم) ہوتی ہے!
....
Editorial Page - Daily Aaj - June 23, 2020 Tuesday

Monday, June 22, 2020

TRANSLATION: Covid Budget by Taimour Saleem Jhagra

Covid budget
خیبرپختونخوا: کورونا بجٹ
کورونا وبا کی صورتحال میں شروع دن سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی کوشش رہی کہ وہ ایک تو عوام کو وبا کے بارے باخبر (مطلع) رکھیں۔ غیر ضروری رازداری کی بجائے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اُور دوسرا اہم پیشرفت اِس بارے میں تھی کہ صحت کی سہولیات میں حسب ضرورت اضافہ کیا جاتا تھا تاکہ آنے والے دنوں میں درپیش حالات کا مقابلہ کرنے کی پیشگی تیاری رہے۔ یہ ایک ایماندارانہ اُور پرخلوص کوشش تھی‘ جس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اُور بالخصوص وزیراعظم عمران خان کے اُس عزم کو عملی جامہ پہنایا جس میں وہ عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولیات دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے بجٹ کی تیاری اُور منظوری کے مراحل میں ’عوام دوست بجٹ‘ جیسی ترجیح کو بہرصورت پیش نظر رکھا گیا۔

خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کے تناظر میں تیار ہونے والے بجٹ کی تیاری و منظوری کے مراحل میں پانچ امور کا بطور خاص خیال رکھا گیا اُور اگر اِن پانچ ترجیحات کی اہمیت اُور حکمت کو سمجھ لیا جائے تو صوبائی آمدن و اخراجات کے میزانیئے برائے مالی سال 2020-21ءکو سمجھنا بڑی حد تک آسان (سہل) ہو جائے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے ’کورونا بجٹ (Covid-19 budget)‘ پیش کیا گیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ سرمایہ سرکاری علاج معالجے کی سہولیات کے لئے مختص کی گئی ہے۔ جس میں خیبرپختونخوا کی تاریخ میں صحت کے شعبے کے لئے سب زیادہ مالی وسائل مختص کئے گئے ہیں اُور صرف یہی نہیں کہ تمام مالی وسائل علاج معالجے کی سہولیات کے مطابق مختص ہوئے ہیں بلکہ کورونا وبا کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کرنے اُور عوام کو اِس مرض سے بچانے کے لئے ہر قسم کی ضروریات و سہولیات کی فراہمی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جبکہ مستقبل میں اِس وبا کے دوبارہ پھوٹ پڑنے کو روکنے کے لئے بھی اقدامات پیش نظر رہے ہیں۔ 

خیبرپختونخوا میں عالمی معیار کے مطابق وباو ں سے بچاو  کے لئے ادویات فراہم کی جائیں گی اُور اِس ویکسینیشن پروگرام کی وجہ سے خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد ایسا صوبہ ہوگا‘ جہاں عوام کو وباو ¿ں سے بچانے کے لئے اِس قدر بڑے پیمانے پر ادویات (ویکسینیشن) فراہم کی جائے گی۔

بجٹ میں 15 ارب روپے ’کورونا وبا سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات‘ سے نمٹنے کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ پندرہ ارب روپے ایک ہنگامی پروگرام کے تحت ہیں جبکہ صحت کا بجٹ اِس کے علاو ¿ہ ہے۔ صحت کے شعبے کے لئے عمومی و خصوصی مدوں میں مختص بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے طبی و معاون طبی عملے کی حفاظت کے لئے مختص کیا جائے گا۔ علاج گاہوں میں بستروں کی تعداد‘ آکسیجن کی سہولیات میں اضافہ اُور مصنوعی آلات تنفس (وینٹی لیٹرز) پر مشتمل خصوصی نگہداشت کے مراکز (وارڈز) قائم کئے جائیں گے۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ایک وسیع و مضبوط بنیادوں پر صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی جو پہلے ہی زیرتوجہ ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا نے کورونا وبا کی تشخیص و تصدیق کے لئے تجزئیات (ٹیسٹنگ) کی سہولیات میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے اُور اِس ٹیسٹنگ صلاحیت کو مزید بھی بڑھایا جائے گا۔

خیبرپختونخوا بجٹ کا تیسرا نمایاں پہلو یہ رہا کہ اِس میں روائتی اخراجات کے لئے روائتی انداز سے مالی وسائل مختص نہیں کئے گئے اُور یہیں سے مشکل فیصلوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ ترقیاتی بجٹ کو حالات کے مطابق دانشمندی سے استعمال کرنے کا فیصلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی بصیرت کا مظہر ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے 318 ارب روپے مختص کرنا اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ یہ رقم صوبہ سندھ کے مختص کردہ ترقیاتی حجم سے زیادہ ہے جبکہ آبادی کے لئے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تقریباً مساوی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ ترقیاتی عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لئے محدود مالی وسائل کی کمی کو آڑے نہ آنے دیا جائے اُور دیگر ذرائع سے مالی وسائل حاصل کر کے خیبرپختونخوا کی معیشت و معاشرت کے آگے بڑھنے کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ صوبائی بجٹ چوتھی اہم بات یہ تھی کہ اِس میں چند محصولات (ٹیکسوں) کی شرح میں کمی بھی کی گئی۔ کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اُور نہ ہی کسی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔ اِس حکمت عملی کو اُس وسیع منظرنامے اُور کوششوں کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جس میں حکومت ٹیکس کلچر کے فروغ اُور ٹیکس اصلاحات کے ذریعے معیشت کو راہ راست پر لانا چاہتی ہے۔ ایسے ٹیکسوں کو بھی آپس میں ضم کیا گیا ہے جو کسی ایک شعبے پر زیادہ مرتبہ لاگو تھے۔ اِسی طرح خدمات (سروسز) کے شعبے پر 27 مختلف درجات میں سیلز ٹیکس کی شرح کم کی گئی ہے اُور یہ سبھی اقدامات اِس لئے کئے گئے ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ چل سکے۔ روزگار کے مواقع پیدا اُور برقرار رہیں اُور کورونا وبا کی وجہ سے جو خصوصی حالات پیدا ہوئے ہیں اُن سے خاطرخواہ انداز میں نمٹا جا سکے۔ مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹ) کے محکمے نے پہلے ہی 200 چھوٹے کاروباروں پر عائد ٹیکس ختم یا کم کیا ہے۔ اِسی طرح ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے بھی کئی صوبائی محصولات کو ختم کیا ہے اُور جہاں ایک سے زیادہ ٹیکس مختلف ناموں سے لاگو تھے اُنہیں ضم کیا ہے۔ یہ ٹیکس اصلاحات کے سلسلے میں اہم ترین عملی کوشش ہے۔ 

قابل ذکر ہے کہ اب ہوٹلوں پر منفی ٹیکس کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے جبکہ 18 درجات میں پیشہ ور ٹیکسوں کو بھی ختم کیا گیا ہے اگر وہ ادارے اپنے آپ کو کیپرا (KPRA) کے ساتھ رجسٹرڈ کر لیں۔ تفریح (انٹرٹینمنٹ) پر عائد ٹیکس مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اُور موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن کو مفت کر دیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا بجٹ کا پانچواں قابل ذکر پہلو نوجوانوں کی بہبود اُور ضروریات کو مدنظر رکھنا ہے اُور اِس سلسلے میں محدود مالی وسائل کے باوجود نوجوانوں کی ترقی کے لئے اُن سبھی منصوبوں کے لئے فراخدلی سے مالی وسائل مختص کئے گئے ہیں‘ جن کی ضرورت تھی۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ میں اصلاحات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حکومت نے اخراجات میں کمی‘ بچت کے امکانات کی نشاندہی اُور اِن سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کی سرمایہ کاری جیسی حکمت عملی مرتب کی ہے اُور اِسی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے حوالے کی گئی اصلاحات کی بدولت حکومت کو سال بھر میں 20 ارب روپے جیسی غیرمعمولی بچت ہوگی اُور یہی رقم کورونا وبا سے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے نمٹنے کے لئے کافی ہے۔ حکومتی محکموں کے اخراجات کم کرنے کے لئے بھی اقدامات (اصلاحات) متعارف کی گئیں ہیں اُور اِس سلسلے میں تنخواہوں کے علاو ¿ہ دیگر غیرترقیاتی اخراجات جیسا کہ پیٹرول وغیرہ کی مد میں ہونے والے اخراجات کم کئے گئے ہیں۔ اِسی طرح سرکاری ملازمین کے سفر کی صورت قیام و طعام (TA/DA) اُور دیگر غیرضروری اخراجات کی مد میں کٹوتیاں کی گئی ہیں یقینا کوئی بھی بجٹ اپنی ساخت میں مکمل دستاویز نہیں ہوتا بلکہ اِس میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ 

خیبرپختونخوا حکومت کی خواہش تھی کہ وہ بہت سے شعبوں کے لئے زیادہ مالی وسائل مختص کرتی لیکن کورونا وبا کی موجودہ صورتحال میں عوام کی صحت اُور معاشی سرگرمیاں حکومتی ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔ اِس سلسلے میں عوام الناس اُور ماہرین کے مشوروں اُور مثبت تنقید کا خیرمقدم کیا جائے گا تاکہ نہ صرف آئندہ مالی سال کے لئے صوبائی آمدن و اخراجات کے سالانہ میزانئے پر عمل درآمد اُور حکیمانہ اقدامات کے ثمرات ظاہر ہوں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود اُور ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں اگر کہیں کمی بیشی رہ گئی ہے تو اُسے بھی پورا کیا جا سکے۔ 

(مضمون نگار خیبرپختونخوا کے وزیرخزانہ و صحت ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: تیمور سلیم جھگڑا۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............

Clipping from Daily Aaj Editorial Page June 22, 2020  Monday
Editorial Page of Daily Aaj - June 22, 2020  Monday
Clipping - Daily Aaj - 22 June 2020 Monday

Sunday, June 21, 2020

Internet for entertainment alone!

حقیقت حال .... جو میں نے دیکھا!
پہلی حقیقت: 
کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی کا ’عالمی پیمانہ‘ باکس آفس (Box Office) کارکردگی یعنی کمائی (حاصل وصول) بارے جاری ہونے والے اعدادوشمار ہوتے ہیں کہ مذکورہ فلم یا ڈرامے نے خاص عرصے کے دوران کتنا ’بزنس‘ کیا۔ رواں ماہ (جون دوہزاربیس) کے دوران پاکستان میں ’نیٹ فلیکس (Netflix)‘ کے ذریعے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے دس (top-10) فلموں ڈراموں میں پہلے نمبر پر براجمان پولش (Polish) زبان میں بنایا گیا 114 منٹ دورانئے کا کھیل ہے‘ جس کی کہانی جرائم‘ منشیات‘ بے راہ روی‘ تشدد اُور جنسی تعلقات جیسے تخریبی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ مذکورہ کھیل (ٹیلی فلم) کو پولش (پولینڈ کی سرکاری زبان) میں وہاں کے خاص حالات اُور ثقافت کی نمائندگی تو کرتا ہے اُور اُس معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کو نئے زوایئے تو دیتا ہے لیکن اُسے انگریزی میں ترجمہ کر کے پاکستان جیسے ملک میں پیش کرنے کی ضرورت و منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف حکومت کے ادارے (سنسربورڈ اُور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) موجود ہیں لیکن اُن کی اجازت کے بغیر غیرملکی مواد پاکستان میں صرف نشر ہی نہیں بلکہ فروخت بھی ہو رہا ہے لیکن کسی کی توجہ نہیں۔ افسوس کے ساتھ شرم کا بھی مقام ہے کہ ایک مسلمان اکثریتی معاشرے میں انگریزی ڈرامہ ’356 دن‘ جس کا اصل (پولش) نام 365 Dni ہے سرفہرست اُور مقبول ترین ہے! سات فروری (دوہزاربیس) کے روز پولینڈ میں پہلی مرتبہ نشر اُور انٹرنیٹ پر منحصر ’نیٹ فلیکس‘ کی وساطت سے دنیا بھر میں جاری (ریلیز) ہونے والے مذکورہ ڈرامے نے چار ماہ کے عرصے (بارہ جون دوہزاربیس تک) ’باکس آفس‘ پر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کمائے ہیں جو اِس پر اُٹھنے والی لاگت سے ہزاروں گنا زیادہ منافع ہے! ذہن نشین رہے کہ پانچ لاکھ سال پر محیط انسانی آبادی کی تاریخ رکھنے والا ملک ’پولینڈ‘ وسط یورپی میں واقع ہے اُور اِس کی سرحدیں شمال میں روس‘ مشرق میں بیلاروس اُور یوکرین‘ جنوب میں چیک ری پبلک جبکہ مغرب میں جرمنی سے ملتی ہیں اُور 27 یورپی ممالک میں معاشی ترقی و قومی پیداوار کے لحاظ سے پولینڈ چھٹے نمبر پر ہے‘ جہاں دیگر صنعتوں کی طرح ٹیلی ویژن اُور فلم کی صنعت قومی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔

دوسری حقیقت: 
ٹیلی ویژن کے ذریعے تفریح (اِنٹرٹینمنٹ) کیبل نیٹ ورک یا روائتی چھت پر لگے انٹینا کے ذریعے موصول ہونے والے چینلز کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ ثقافتی یلغار سیٹلائٹ (ڈش) اُور انٹرنیٹ کی مدد سے ترقی یافتہ اشکال میں سامنے آ چکی ہیں جن میں ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ آئی پی ٹیلی ویژن (IPTV) اُور مختلف قسم کے سی لائن (سرورز) شامل ہیں۔ پاکستان میں اِن سبھی وسائل سے مختلف ضرورتوں (فلمیں‘ ڈرامے‘ ناچ گانے‘ کھیل‘ معلومات اُور عالمی خبروں و تجزئیات) کے لئے استفادہ کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے لیکن اِس سے حکومت نہ تو مالی طور پر خاطرخواہ فائدہ اُٹھا رہی ہے اُور نہ ہی غیرروائتی نت نئے طریقوں سے تفریح بذریعہ ٹیلی ویژن جیسے شعبے کو نظم و ضبط کا پابند (ریگولیٹ) کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اپنی تاریخ و ثقافت اُور بالخصوص اِسلام کے بتائے ہوئے اَصولوں کے مطابق نظر‘ زبان‘ سماعت اُور خیالات کو آلودہ کرنے کی کھلم کھلا اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ لمحہ  فکریہ ہے کہ تفریح کے نام پر اُن اخلاقی اَقدار کو شکار کیا جا رہا ہے‘ جو کبھی اسلام اُور مشرقی روایات کے عنوان سے پاک و پاکیزہ معاشرت و سماجیات کا خاصہ سمجھا جاتی تھیں۔ اِس بات پر جس قدر بھی اَفسوس کا اظہار کیا جائے کم ہوگا کہ ہمارے فیصلہ سازوں کو تفریح کے نام پر سازش پر برائے نام جیسی تشویش بھی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جدید رہائشی بستیوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں کے رہنے والوں ڈی ٹی ایچ‘ نیٹ فلیکس‘ آئی پی ٹی وی یا لائن سرور کے صارف نہ ہوں۔ ”وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا .... کارواں کے دل سے اِحساس زیاں جاتا رہا!“

تیسری حقیقت: 
انٹرنیٹ کے ذریعے تفریحی مواد تک رسائی مختلف طریقوں سے ہو رہی ہے‘ جس میں سب سے پہلا براہ راست تعلق ہے جس میں کوئی بھی صارف ویڈیو بلاگنگ کی لاکھوں ویب سائٹس میں سے اپنے ذوق و پسندیدگی اُور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے چند ایک کا انتخاب کرتا ہے اُور جہاں کچھ نشریاتی مواد بلاقیمت (مفت) فراہم کیا جاتا ہے تاکہ صارفین عادی ہو جائیں اُور پھر اُن کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید مواد دیکھنے کی ’رعائتی پیشکش‘ کی جاتی ہے اُور اِس کی مقررہ قیمت اَدا کرنے کے لئے جن ممکنہ ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے اُن میں موبائل فون کمپنیاں بھی حصہ دار (برابر کی شریک) ہیں جو صارفین کو گھر بیٹھے بیرون ملک ادائیگیاں کرنے جیسی سہولت فراہم کر رہی ہیں اُور یوں ماہانہ اربوں روپے تفریح برائے تفریح (گناہ ¿ بے لذت) کی نذر ہو رہے ہیں!

چوتھی حقیقت:
دنیا جاگ اُٹھی ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے صرف سماجی سرگرمیاں ہی محدود کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عالمی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش اُور اِس سے ہونے والے تعلیمی حرج کو کم سے کم کرنے کے لئے اِنٹرنیٹ (آن لائن) وسائل (فاصلاتی درس و تدریس) سے اِستفادہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کی صورتحال یکسر مختلف (اُلٹ) ہے کہ غربت زیادہ ہونے کی وجہ سے طلبا و طالبات کی اکثریت کے پاس کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل فون یا ٹیبلٹ نہیں اُور جن کے پاس یہ وسائل اُور سہولیات ہیں تو وہ بھی اِس سے اصل ضرورت یعنی تعلیم کے لئے استفادہ نہیں کر رہے کیونکہ ایک طرف رہنمائی اُور تربیت کا فقدان ہے تو دوسری طرف سینئر اساتذہ کی بڑی تعداد بشمول نجی تعلیمی اداروں کی اِنتظامیہ (مالکان) ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے بنیادی استعمال سے متعلق خاطرخواہ ہنرمند نہیں! لمحہ ¿ فکریہ ہے کہ لاک ڈاو ¿ن کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرصت کے باعث پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے استعمال میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے اُور یہ اضافہ دنیا بھر میں دیکھنے کو ملا ہے تاہم پاکستانی انٹرنیٹ سے خاص استفادہ مختلف انداز سے کرتے ہوئے اکثریت کے لئے انٹرنیٹ تفریح کا ذریعہ جبکہ دنیا بھر میں جوابدہ اُور شفاف طرزحکمرانی کے علاو ¿ہ یہی انٹرنیٹ عوامی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنا رہا ہے! تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث تعلیم اُور تربیت کی ذمہ داری والدین کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ کیا کوئی شخص اپنے بچوں کو کسی ایسے پانی کے تالاب میں دھکا دینا پسند کرے گا جس کی گہرائی کے بارے میں اُسے صرف اتنا معلوم ہو کہ وہ معلوم نہیں؟

اِنٹرنیٹ کی دنیا گہرائی‘ وسعت اُور اِمکانات کے لحاظ سے عمودی اُور افقی لحاظ سے لامحدود ہے۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کا ادراک رکھنے والوں میں شامل والدین‘ اساتذہ‘ ماہرین تعلیم‘ ذرائع ابلاغ‘ مذہبی و سیاسی رہنماو ں اُور قومی سطح پر سیاسی اُور غیرسیاسی فیصلہ سازوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ خودکشی پر آمادہ نئی نسل کو غیرتحریری اُور غیرشعوری طور پر ایک ایسے دریا میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس کا کوئی کنارہ نہیں!
اِک اُور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا‘ تو میں نے دیکھا! (منیر نیازی)
........
Clipping from Daily Aaj - June 21, 2020 Sunday 
Editorial Page Daily Aaj - June 21, 2020 Sunday

IN-OBSERVANCE: May I know why?

بے خبری
ماضی کی طرح موجودہ وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ہر روز‘ بلاناغہ‘ مہنگائی کی شرح پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے پاس روائتی بیانات کو نئے اَنداز میں پیش کرنے کے لئے الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ گراں فروشی کی اِجازت نہیں دی جائے گی۔ ذخیرہ اَندوزوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے۔ خصوصی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ .... صورتحال یہ ہے کہ حکمراں برہم اُور عوام پریشان ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اِس پوری صورتحال سے فائدہ کون اُٹھا رہا ہے؟

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام آدمی (ہم عوام) تک کب پہنچیں گے؟ 
چینی کمیشن رپورٹ اُور گندم کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق حکومتی تحقیقات کے ثمرات کب ظاہر ہوں گے؟ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز مالکان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دائر کرنے پر حکم امتناعی (سٹے آرڈر) جاری کر کے جس انداز سے عوام کی نظروں میں اپنا مقام بلند کیا ہے‘ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سیاہ ابواب میں رقم ہو چکا ہے۔ کیا اب بھی ہم عوام نہیں سمجھ سکے کہ جمہوریت اُور جمہوریت کے نام قائم ہونے والی سیاسی جماعتیں اُور یہ حکمران اُن کے مسائل کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہیں!؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو اُس کا فوری اطلاق ہوتا ہے لیکن اِس میں کمی کا ایک مہینہ گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف پیٹرول ناپید ہے بلکہ اِس کی گرانفروشی بھی جاری ہے۔ 

عجیب صورتحال ہے کہ پیٹرول پمپوں پر سرکاری نرخ کے مطابق پیٹرول دستیاب نہیں لیکن سڑک کنارے پلاسٹک کے ڈرم میں غیرمحفوظ انداز سے انتہائی جلد آگ پکڑنے والا محلول سرعام فروخت ہو رہا ہے۔ اگر پیٹرول کی قلت ہے تو غیرقانونی طور پر فروخت کرنے والے پیٹرول کہاں سے حاصل کر رہے ہیں؟ کیا اُنہوں نے اپنے گھروں میں تیل کے کنویں کھود رکھے ہیں اُور اپنی آئل ریفائنریز بنا رکھی ہیں؟

ماضی کی طرح حال کے حکمرانوں کی بے خبری اُور تغافل عیاں ہے‘جن کے پاس عوام کو دی جانے والی طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کو خبر ہے کہ عالمی منڈی میں صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہی کم نہیں ہوئیں بلکہ خوردنی تیل پام آئل اُور دیگر روغنیات کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں لیکن پاکستان میں صارفین مہنگے داموں گھی اُور خوردنی تیل خرید رہے ہیں۔ چاول دال چائے اُور خشک مصالحہ جات کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہیئں لیکن چینی سے لیکر سبزی اُور دال چاول تک ہر جنس نہ صرف مہنگی بلکہ اِن کی قیمتوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اُور اِس پورے منظرنامے کی عینی شاہد (تماشائی) حکومت کی نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی (این پی ایم سی) کے ایک حالیہ اجلاس سے متعلق سرکاری خبررساں ادارے نے خبر جاری کی ہے کہ ملک میں مرغیوں اُور انڈوں کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا گیا ہے اُور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو منافع خوروں کے خلاف کاروائی اور قیمتوں میں کمی لانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ کیا اِس کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی ہے یا ہوگی؟ یادش بخیر یکم رمضان المبارک سے ایک دن قبل مرغی کی فی کلوگرام قیمت 120 روپے تھی جو پورے رمضان المبارک اُور شوال المکرم کے اختتام کے قریب 200 روپے کی اوسط سے فروخت ہو رہی ہے لیکن این پی ایم سی اچانک جاگ اُٹھی ہے اُور پچاس دن سے زائد فروخت ہونے والی پولٹری مصنوعات کی قیمتوں پر حیرت کا اظہار کر رہی ہے! نجانے یہ حکمران کسے دھوکہ دے رہے ہیں!؟

تفصیلات اہم ہیں اُور اِن تفصیلات سے اُن سبھی کرداروں کی کارکردگی کو سمجھا جا سکتا ہے جنہوں نے ایک طرف مہنگائی کی غیرتحریری اجازت دے رکھی ہے اُور دوسری طرف اِن کی آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسوو ¿ں جیسی موسلادھار بارش بھی برس رہی ہے۔ ظلم اُور صبر کی بھی آخر کوئی نہ کوئی تو انتہا ہوتی ہے۔ ہم عوام اِس بات پر کتنا فخر کریں کہ پاکستان کا وزیراعظم ایک ایسا شخص ہے جو بدعنوان نہیں۔ جس کی بیرون ملک سرمایہ کاری اُور جائیدادیں نہیں۔ جس کے کاروباری مفادات اُس کے عہدے سے متصادم نہیں لیکن اگر اِس قدر شریف النفس اُور ایماندار وزیراعظم تمام تر اختیارات اُور حکومتی وسائل کے باوجود عوام کو ناجائز منافع خوری جیسے ظلم سے نہیں بچا سکتا تو محض ایمانداری اُور صداقت و امانت جیسی اہلیت کافی تصور نہیں کی جا سکتیں۔ 

توجہ مبذول رہے کہ حالیہ ’این پی ایم سی‘ اجلاس کی سربراہی (غیرمنتخب سرکاری عہدیدار) وفاقی سیکرٹری برائے خزانہ نوید کامران بلوچ نے کی‘ جس میں ضروری اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ عوام کا منتخب نمائندہ اُور متعلقہ وزیر کہاں مصروف تھے؟ 

مہنگائی جیسا سنجیدہ اُور اہم مسئلہ متقاضی ہے کہ این پی ایم سی اجلاس کی سربراہی وزیراعظم خود کریں اُور سب سے پہلے اُن فیصلہ سازوں کو جیل بھجوائیں جو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے تنخواہیں اُور مراعات وصول کر رہے ہیں! مذکورہ اجلاس میں کمیٹی نے صوبائی حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو منافع خوروں کے خلاف سخت کاروائی اُور مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی فراہمی میں آسانی اور اِن کی قیمتوں میں کمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔ جیسا کہ اگر کمیٹی یہ ہدایات جاری نہ کرتی تو اسلام آباد اُور کے دیگر حصوں میں ضلعی انتظامیہ مہنگائی جاری رکھنے کی اجازت برقرار رکھتیں۔ کیا مہنگائی حکومت سے اجازت لیکر کی گئی ہے جو اِسے ختم کرنے کے لئے باقاعدہ اجلاس اُور ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی‘ منتخب اُور غیرمنتخب‘ ضلعی‘ صوبائی اُور وفاقی حکمرانوں سے التماس ہے ہم عوام کو مزید دھوکہ اُور دلاسہ دینے سے گریز کریں کیونکہ گزشتہ دو سال سے قائم تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ دو ماہ کی انتہائی خراب کارکردگی سے یہ حقیقت ظاہر (بخوبی عیاں) ہو چکی ہے کہ حکمرانی میں ناتجربہ کاری کا فائدہ سرمایہ دار طبقات ہی نہیں بلکہ حکمراں (خاندان و طبقات) بھی کسی نہ کسی صورت اُٹھا رہے ہیں!
........
Clipping from Daily Aaj - 21 June 2020 Sunday
Editorial Page of Daily Aaj - June 21, 2020 Sunday


Monday, June 15, 2020

OVER PRICED SUGAR: The Nexus of Govt, Mafia and Court

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
گھاٹے کا سودا
وفاقی کابینہ اجلاس (اکیس مئی) نے ’شوگر کمیشن رپورٹ‘ منظرعام پر لانے کی منظوری دی جس سے قبل کسی بھی اِدارے اُور چینی ساز صنعتوں کو تحقیقات پر اِس قدر اعتراضات نہ ہوئے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ پھر اِس دوسرا مرحلے پر جبکہ تحقیقاتی رپورٹ صیغہ راز میں نہ رکھنے کا فیصلہ ہوا تو اِس پر شوگر ملز مالکان خاموش رہے کیونکہ وہ ماضی میں بھی اِس قسم کی تحقیقات سے نمٹ چکے تھے اُور یہ بات صرف صنعتکار ہی نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ سرمایہ داروں اُور صنعتکاروں کے خلاف اِس قسم کی تحقیقات ہر دور حکومت میں ہوتی رہتی ہیں لیکن اوّل تو یہ تحقیقات اِس انداز سے کی جاتی ہیں کہ اِس میں فائدہ اُٹھانے والے فریق (نجی کاروباری طبقات کا) فائدہ ہو اُور دوسرا اِس قسم کی رپورٹیں خفیہ رکھی جاتی ہیں جن کے صفحات میں کیا لکھا ہوتا ہے اِس بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کو زیادہ معلومات نہیں ہو سکتیں اُور تیسرا تحقیقات مکمل ہونے کے بعد نامزد اداروں کے خلاف کاروائی نہ کرنا بھی ایک معمول ہے لیکن تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں سے قطعی مختلف ثابت ہوئی۔ ملک میں چینی کی قلت‘ قیمت میں اضافے اُور حکومت کی جانب سے شوگر ملوں کو دی جانے والی سبسڈی کے بارے میں تحقیقات کروائی گئیں اُور یہ بنا سیاسی دباو ¿ اپنے مقررہ وقت (تین ماہ میں) مکمل ہوئیں۔ مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں سامنے آنے والی جملہ سفارشات منظرعام پر ہیں تو کیا کیونکہ سزا و جزا دیکھنے میں نہیں آ رہی؟

چینی تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات سے متعلق 7 جون کے روز فیصلہ ہوا کہ اِنہیں قومی احتساب بیورو کے حوالے کیا جائے گا تاکہ جو شوگر ملیں دروغ گوئی سے اربوں روپے بطور سبسڈی وصول کرتی رہی ہیں‘ جنہیں ناجائز منافع خوری کی عادت پڑ چکی ہے‘ جن کی ٹیکس چوری اُور غیرقانونی کاروباری دھندوں سے ہر خاص و عام کسی نہ کسی صورت آگاہ ہے لیکن ابھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت قانون کے مطابق کاروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ شوگرملز مالکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا اُور نہ صرف ممکنہ کاروائی اُور مزید بدنامی کا راستہ روک لیا بلکہ اُس پورے تحقیقاتی عمل کو ہی دفن کر دیا ہے‘ جس کے ذریعے سے پہلی مرتبہ یہ اُمید ہو چلی تھی کہ چینی کی آڑ میں عوام کو لوٹنے والوں کا اِحتساب ہوگا اُور بات صرف چینی تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ بھی توقع تھی کہ عوام کو چینی جیسی بنیادی اُور ضروری جنس اِس کی اصل قیمت پر ملنا شروع ہو گی لیکن عدالت نے یہاں دخل اندازی کر کے اپنی طرف سے قیمت مقرر کر دی جو عدالت کا اختیار ہی نہیں اُور نہ ہی تحقیقاتی رپورٹ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اِس مضحکہ خیز صورتحال نے ’خراب طرز حکمرانی‘ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ ایک تو حکومت اپنے فیصلوں کو صیغہ ¿ راز میں نہیں رکھ پائی جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شوگرملز مالکان نے جو ہر مرتبہ حکومت سے ریلیف حاصل کیا کرتے تھے اُور دوسرا اِس مرتبہ اگر حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو عدالت شوگرملز کے لئے بطور نجات دہندہ سامنے آئی ہے۔ اگر کسی عام آدمی کے خلاف قانونی کاروائی کرنا ہوتی ہے تو اُسے کان کان خبر بھی نہیں ہوتی اُور نامعلوم افراد اُسے اُٹھا لے جاتے ہیں جبکہ (اربوں روپے کی بدعنوانی کے پچاس سالہ دور سے متعلق) شوگر ملز کے معاملے میں حکومت‘ احتساب کا عمل‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے اُور عدالت نے کسی نہ کسی مرحلے پر سہولت کاری کر رہے ہیں! اصولاً عدالت کو درخواست واپس کر دینا چاہئے تھا اُور اِس کے لئے ”ایگزیکٹو معاملات میں مداخلت نہ کرنا“ اپنی جگہ مضبوط و کافی دلیل تھی۔

شوگر مل مالکان کی درخواست کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کچھ سوالات اٹھائے اُور پھر خود ہی اِن سوالات کا جواب بھی کہیں واضح تو کہیں لیکن ’اَن کہے‘ اَنداز میں دیا ہے۔ شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں صنعتی اجارہ داری کے غلط استعمال کا الزام لگایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا بلکہ شوگر ملز نے قیمتوں کے تعین کو بھی عملاً اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اگرچہ عدالت نے 10 دن کے لئے حکم امتناعی جاری کیا لیکن یہ 10دن گویا 10سال جیسا ریلیف دینا ہے کیونکہ اِس دوران کروڑوں روپے فیس وصول کرنے والے وکیل نہ صرف اپنی قانونی مہارت دکھائیں گے بلکہ پس پردہ معاملات بھی طے پانے کے لئے دس دن کی مہلت بہت ہے۔ جن شوگر ملز مالکان کو کم سے کم 29 ارب روپے لی گئی سبسڈی واپس کرنے سے بچانی ہے اگر وہ دس پندرہ ارب خرچ بھی کر دیں اُور سبسڈی لینے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے چینی کی قیمتوں کے تعین کا اپنا اختیار بھی برقرار رکھیں تو یہ قطعی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ خسارہ اگر کسی کا ہوا ہے اُور ہو رہا ہے تو وہ ہم عوام ہیں‘ جن کی نظروں میں حکومت‘ قومی احتساب بیورو‘ خفیہ اُور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ساتھ عدالت بھی ایک ہی صف میں صنعتکاروں کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یقینا یہ درست تاثر نہیں اُور نہ ہی ایک اسلامی اُور جمہوری مملکت کے شایان ہے!

شوگر ملز نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ 70 روپے فی کلوگرام چینی فروخت کریں گے جبکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں چینی بنانے اُور اُس کی نقل و حمل (منڈیوں کو فراہمی پر اُٹھنے والے اخراجات کے بعد فی کلوگرام چینی کی قیمت 30 سے 40 روپے کے درمیان معلوم ہوتی ہے اگر بہت زیادہ منافع بھی دیا جائے تو اضافی 10 روپے کے ساتھ 50 روپے فی کلوگرام چینی ہونی چاہئے اُور سال 2019ءمیں چینی اِسی قیمت پر فروخت ہوتی تھی تو اب کیوں نہیں؟

معلوم ہوتا ہے کہ انکوائری کمیشن کے خلاف پوری چینی کی صنعت جملہ ہتھیاروں یعنی نوٹوں سے بھری بوریوں کے منہ کھول کر میدان میں اُتر آئی ہے۔ تنازعہ کا بنیادی نکتہ وفاقی حکومت کا منظور کردہ 2017کا قانون ہے جس کے تحت آئینی مینڈیٹ اور تحقیقات کے لئے فیڈرل کمیشن آف انکوائری کے بارے میں اعتراض اُٹھایا گیا ہے۔ شوگر انڈسٹری کا دعویٰ ہے کہ کمیشن نے اُن معاملات میں دخل اندازی کی جو درحقیقت صوبوں کے ایگزیکٹو اور قانون سازی سے متعلق اختیارات ہیں۔

غورطلب ہے اعتراض کا نکتہ کیا ہے اُور یہ نہیں کہا جا رہا کہ جو کچھ تحقیقاتی کمیشن نے لکھا ہے وہ غلط ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں تھا! شروع دن سے تشنگی محسوس ہو رہی ہے اُور واضح ہے کہ کمیشن کی 324صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ابھی بہت سارے نکات اُور پہلوو ¿ں کو شامل نہیں کیا گیا جو شامل ہونے چاہیئں اُور اگر عدالت عوام کے حق میں ہوتی تو اُن سبھی پہلوو ¿ں پر بھی تحقیقات کا حکم صادر کر سکتی تھی۔ بہرحال شوگر تحقیقاتی کمیشن نے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کر دی ہے اُور تجویز کیا ہے کہ وہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے لیکن یہ کاروائی کون کرے گا اُور کیسے ممکن ہوگی‘ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی!؟
............
Clipping from Daily Aaj - June 15, 2020
Editorial Page - Daily Aaj - June 15, 2020

Sunday, June 14, 2020

Wonders of Peshawar: Beju Di Qabar

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پراسرار پشاور: بیجو دی قبر!
جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ کے کئی ایک ایسے اسرار اُور ابواب ہیں‘ جن سے بالخصوص نئی نسل تو کیا یہاں کے قدیمی باشندے بھی شناسا نہیں اُور اِنہی میں سے ایک ’درانی قبرستان‘ ہے‘ جہاں کم سے کم 2 قدیمی مساجد آج بھی نسبتاً بہتر حالت میں موجود ہیں جبکہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے مزارات کی شان و شوکت اگرچہ ویسی نہیں رہی لیکن اُن کی باقیات کو دیکھ کر تصور کیا جاسکتا تھا کہ وہ ایک وقت میں کس قدر خوبصورت رہی ہوں گے اُور قبرستان و اِس سے ملحقہ علاقہ کس قدر اہم رہا ہو گا۔

معروف تاریخ داں ڈاکٹر احمد حسن دانی نے اپنی کتاب ”پشاور: ہسٹوریکل سٹی آف دی فرنٹیئر (Peshawar: Historical City of the Frontier) میں درانی قبرستان کا ذکر کیا ہے۔ اُن نے لکھا کہ ”درانیوں کے قبرستان میں اینٹوں سے بنی ہوئی 2 مساجد ہیں۔ ایک مسجد بزرگ دین شیخ حبیبؒ کے مزار کے پاس ہے جو حافظ مراد نے 1725ءمیں تعمیر کروائی تھی۔ اِس مسجد کی خاص بات فن تعمیر ہے جو یہاں پہلے سے موجود مساجد سے مختلف اُور زیادہ محنت و خوبصورتی کا مظہر ہے۔ دوسری مسجد 1796ءمیں شیخ ایواز (Shaikh Iwaz) نے درانیوں کے دور حکومت ہی میں تعمیر کروائی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ درانی سلطنت کا آغاز 1747ءمیں ہوا تھا اُور یہ 1826ءتک جاری رہا تھا جن کے بانی احمد شاہ درانی تھے۔ اُنہوں نے جون 1747ءمیں نادر خان افشر کو قندھار (افغانستان) میںشکست دے کر سلطنت قائم کی۔ یہ سلطنت اِس قدر تیزی سے پھیلی کہ ایک ہی سال اِس کا ایک سرا بلوچستان (پاکستان) سے لیکر غزنی‘ کابل اُور پشاور تک پھیل گیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ درانی قبرستان پشاور میں موجودہ شاہی قبروں کے کتبے اُور اُن پر لگی سنگ مرمر و دیگر پتھروں کی سلیں تک اکھاڑ (چوری) لی گئیں۔ اِس سلسلے میں سردار محمد ایوب خان کی قبر سب سے نمایاں خسارہ ہے‘ جو معروف میوند کی جنگ کے فاتح تھے اُور اُنہیں پشاور لا کر آسودہ ¿ خاک کیا گیا۔ کون جانتا تھا کہ دنیا کے چند بہادر ترین فوجیوں میں شمار ہونے والے اِس سپاہ سالار کی قبر کبھی خستگی کی یوں تصویر پیش کرے گی۔ مقام فکر ہے کہ ہمارے بچوں کے ہیرو فلمی اداکار بن چکے ہیں‘ جبکہ اُنہیں تاریخ سے لگاو ¿ نہیں رہا اُور اگر ذرائع ابلاغ (بلخصوص اخبارات) تاریخ کے بیان کو مستقل موضوع بنائیں تو ممکن ہے کہ تاریخ (ماضی) سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو جائے۔

درانی قبرستان کے ایک حصے میں ’بیجو دی قبر‘ کے نام سے مشہور ایک مقبرہ اپنی تعمیرکے لحاظ سے انتہائی سادہ لیکن اپنی مثال آپ ہے۔ محبت کی اِس لازوال کہانی کا آغاز 1772ءسے ہوا جب تیمور شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ تھا۔ وہ اُس بہادر سپاہی کا فرزند تھا جس نے مرہٹوں کے خلاف برصغیر میں جنگ جیتی تھی۔ سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی درانی بادشاہوں کی طرح تیمور شاہ پشاور کا رخ کرتا کیونکہ اُن دنوں افغانستان میں سردی کی شدت زیادہ ہوا کرتی تھی اُور آج بھی پاکستان کی نسبت کابل کی آب و ہوا موسم سرما میں زیادہ شدید ہوتی ہے۔ 

1780ءمیں تیمور شاہ پشاور آیا تو یہ معمولی بات نہیں تھی بلکہ بادشاہوں کے پشاور آنے کے موقع پر سینکڑوں ہاتھیوں اُور گھوڑوں پر مشتمل قافلے پوری شان و شوکت سے وارد ہوا کرتے تھے اُور اُس دور کی چند محفوظ تصاویر میں دیکھنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بادشاہوں کے قافلے پشاور پہنچتے تھے تو اِس شہر کا ماحول کس قدر تبدیل ہو جایا کرتا تھا اُور پشاور کے بازاروں اُور راستوں کو سجانے کی وجہ سے یہاں کی رونقوں (گہما گہمی) میں کس قدر اضافہ دیکھنے میں آتا تھا۔ تیمور شاہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ پشاور پہنچا۔ ملکہ ¿ اول چونکہ حسب و نسب سے شاہی تھی اُس کی دوسری بیوی محترمہ بی بی جان تھی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ انتہا درجے کی ذہین خاتون تھیں اُور یہی وجہ تھی کہ تیمور شاہ اُن سے امور سلطنت کے بارے مشورہ لیا کرتا تھا جبکہ اِس کی وجہ سے شاہی خاندان کے دیگر افراد بی بھی جان سے حسد کرتے تھے۔ تیمور شاہ کی پہلی بیوی کی نسبت دوسری بیوی (بی بی جان) سے زیادہ محبت بھی عداوت کا ایک سبب تھی اُور یوں بی بی جان کو شربت میں تھوڑا تھوڑا کر کے زہر دیا جانے لگا‘ جس سے وہ کمزور ہوتی چلی گئی اُور بالآخر اِسی زہرخوری (مرض) کی وجہ سے اُس کی موت ہو گئی۔ جب تیمور شاہ کو بی بی جان کی خراب ہوتی طبیعت کا علم ہوا تو اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تیمور شاہ جو کہ شاہی باغ میں قیام کرتا تھا اُور شاہی باغ ہی میں بی بی جان کی موت بھی ہوئی تھی تو اُن سے محبت کی یادگار کے طور پر اُن کا مزار (شہر کے جنوب میں) ’وزیرباغ‘ کے قریب بنوایا۔ 

تیمور شاہ بہت غمزدہ تھا اُور وہ طویل عرصے اِس غم میں امور سلطنت سے الگ بھی رہا تاہم بعد میں وقت کے ساتھ قافلے آگے بڑھ گئے۔ 

شاہی عشق کی جو لازوال داستان پشاور میں اختتام پذیر ہوئی تھی اُس کی یادگار (مزار) قائم ہونے کے بعد بھی شاہی خاندان کے افراد کی بی بی جان مرحومہ سے حسد و عداوت ختم نہ ہوئی اُور اُنہوں نے بی بی جان کو بیجو (بندریا) کے نام سے مشہور کر دیا کہ مذکورہ مزار میں کوئی انسان نہیں بلکہ ایک بندریا کی قبر ہے اُور چونکہ یہ منظم انداز میں اُڑائی گئی افواہ تھی‘ اِس لئے صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پوری سلطنت میں پھیلا دی گئی اُور تاریخ میں بھی اِس کا زیادہ تذکرہ (چرچا) درج ہونے نہیں دیا گیا۔ بی بی جان سے متعلق اگرچہ تاریخ خاموش ہے لیکن اُن کے اوصاف بشمول ذہانت کا تذکرہ سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے لیکن اُس کی مثالیں اُور واقعات کا تفصیلاً و مستند ذکر موجود نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر کے بہت سے نامور تاریخ داں بھی ’بی بی جان‘ کو ’فرضی کہانی‘ ہی سمجھتے ہیں۔ 

بی بی جان ایک حقیقت تھی اُور پشاور کے درخشاں ماضی اُور یہاں کی تاریخ کا روشن باب اُور حوالہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اہل پشاور اپنے بچوں کو وہ سبھی قصے کہانیاں سنائیں‘ جو اُن کے آبائی شہر کے ماضی سے متعلق ہیں اُور انہیں اِن مقامات کی سیر کے لئے بھی لے جائیں۔ بی بی جان مرحومہ کا اہل پشاور پر اتنا حق تو ہے کہ اُس کی قبر پر ایک عدد فاتحہ کے لئے حاضری دیا کریں یا کم سے کم سے وہاں سے گزرتے ہوئے اُسے یاد کر لیا کریں۔

یہی مرحلہ  فکر دعوت دیتا ہے کہ اہل پشاور آثار قدیمہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اِس بات کا احساس کیا جائے کہ آثار قدیمہ کی اہمیت‘ اِس کی آئینی حفاظت اُور اِن کے ساتھ سماجی طور پر زندگی بسر کرنے کا مفہوم اپنی ذات میں کیا ہے اُور اِس سے کیا کچھ ذمہ داریاں جڑی ہوئی ہیں۔ 

یہی مرحلہ  فکر متقاضی ہے کہ ’پشاور شناسی‘ عام کی جائے۔ 
اغیار کی لکھی ہوئی تاریخ یا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں صرف اُسی صورت ناکام ہو سکتی ہیں جبکہ حکومت اُور حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ 

اہل پشاور بالخصوص اندرون شہر اُور شہر کے اُن حصوں میں رہنے والوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تاریخ کے بھولے بسرے واقعات کے بارے بھی اپنی معلومات درست کریں۔ یہ کہانیاں صرف واقعات نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کا جز ہیں‘ یہاں کے رہنے والوں کے محبت بھرے مزاج کی عکاس ہیں۔ یہاں پلنے والی حسد و عداوات کا بیان بھی ہیں‘ جنہیں انسانی رشتے داریوں کے تناظر میں سمجھنا اُور بیان کرنا قطعی مشکل نہیں۔ بی بی جان کی قبر توجہ چاہتی ہے کہ اِسے بحال کیا جائے۔ پشاور سراپا محبت اُور محبت کرنے والوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں محبت کی ایک نشانی (مقبرہ بی بی جان المعروف بیجو دی قبر) الفت و حسد سے متعلق بیان اُور تاریخ پشاور کی تمہید کے طور پر ازبر‘ پیش اُور دستاویز (محفوظ) ہونی چاہئے۔
........
Daily Aaj Editorial Page June 14, 2020 

Clipping from Daily Aaj  - 14 June 2020

Saturday, June 13, 2020

Agricultre sector ignored once again in Budget (FY2020-21)

بجٹ: کورونا ہنگام
قومی آمدن اُور اخراجات میں عدم توازن (مالی خسارہ) کسی ایک بجٹ کی ”داستان خصوصی“ نہیں بلکہ سال ہا سال سے معمول ہے کہ وفاقی اُور صوبائی حکومتیں خسارے کا بجٹ پیش کرتی ہیں‘ جو ’ٹیکس فری‘ بھی ہوتا ہے یعنی اُس میں نئے محصولات عائد نہیں کئے جاتے اُور مختلف شعبوں پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جاتی ہے جیسا کہ جائیداد کی خریداری پر عائد 5 فیصد اسٹمپ ڈیوٹی کو کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے اُور زیادہ بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو وفاقی حکومت نے صنعتکاروں کے مطالبے پر ’سیلز ٹیکس‘ کی شرح میں بھی کمی کی ہے۔ جب ایک طرف آمدنی کم ہو اُور دوسری طرف محصولات میں اضافے کی بجائے اِن کی شرح میں کمی کی جا رہی ہو تو اِس مالی عدم توازن (خسارے) کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو (نہ چاہتے ہوئے بھی) قرض لینا پڑتا ہے اُور یہیں سے پاکستان کی مالی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ 

بارہ جون کو پیش کردہ ’قومی اقتصادی جائزے‘ کے مطابق ”جولائی 2019ءسے مارچ 2020ءکے درمیانی عرصے میں پاکستان کے ذمے مجموعی قرض اور مالی واجبات 20کھرب 59ارب 70کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ قرض و واجبات بڑھتے بڑھتے قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں اُور صورتحال یہ ہے کہ قرض پاکستان کی مجموعی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 102.6فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی پاکستان کی قومی آمدنی کے ہر 100 روپے میں سے 102روپے 60 ساٹھ پیسے قرضوں (مالی ذمہ داریوں) کی ادائیگی پر خرچ ہوتے ہیں اُور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مالی سال 2020-21ءکا بجٹ ایک ایسی صورتحال میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ہر طرف ’کورونا کہرام‘ برپا ہے! حکومت کے شاہانہ اَخراجات میں غیرمعمولی کمی کی ضرورت ہے تاکہ قرضوں پر منحصر معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو۔ اِقتصادی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی قرضوں میں سب سے زیادہ اضافہ مقامی قرضوں کی وجہ سے ہوا‘ جو بڑھتے ہوئے 10کھرب 74ارب 60کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ بقیہ اِضافہ حکومت کے غیرملکی قرض سے ہوا جو ”6کھرب 3ارب“ روپے تک جا پہنچے ہیں۔ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020ءتک سرکاری قرض ’جی ڈی پی‘ کے 84.4 فیصد تھا۔

تحریک اِنصاف کی شروع دن سے کوشش و خواہش ہے کہ قومی قرضوں کے حجم میں کمی یعنی قومی مالیاتی ذمہ داریوں ادا ہوں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اِس کوشش و خواہش میں مزید قرض لئے گئے۔ وزیراعظم نے مال مویشیوں (لائیو سٹاک) پر توجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ ’مرغ بانی‘ کی بات ہوئی لیکن اُسے بھی مذاق میں اُڑایا گیا۔ سوشل میڈیا پر طنز عام ہوا۔ اَب وزیراعظم نے کہا ہے کہ ”حکومت نے چھوٹے کاروبار کی سرپرستی کا اعلان کیا ہے لیکن اِس اعلان کو بھی خاطرخواہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔“ لیکن بہتری (تبدیلی) اُسی صورت آئے گی جب وزیراعظم چھوٹے کاروبار کے لئے قرض دیتے ہوئے یہ شرط عائد کریں نئے کاروبار اُور صنعتوں کے لئے پچانوے فیصد (بیشتر) مشینری مقامی طور پر خریدی جائے گی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی ادارے کو چند سو سلنڈرز کی بھی ضرورت ہوتی ہے تو وہ چین یا دیگر ممالک سے درآمد کر لیتے ہیں لیکن گوجرانوالہ‘ لاہور اُور دیگر صنعتی مراکز سے رجوع نہیں کرتے۔ ’میڈ اِن پاکستان‘ اُور ’میڈ فار پاکستان‘ کی حکمت عملیاں وضع ہونی چاہیئں۔ کورونا وبا کی صورتحال میں بجٹ اگر خصوصی طور پر پیش کیا جا سکتا ہے تو خصوصی صنعتی و کاروباری حکمت عملیاں کیوں نہیں ترتیب دی جا سکتیں۔ 

کورونا وبا کی وجہ سے آکسیجن سلنڈرز کی ضرورت (مانگ) بڑھ گئی ہے اُور حیرت انگیز طور پر ہر سرکاری و نجی ہسپتال کی پہلی کوشش و ترجیح سلنڈرز درآمد کرنے کی ہے! حکومت جہاں نجی شعبے کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کا فروغ چاہتی ہے لیکن حکومتی اِداروں کا قبلہ اُور ترجیحات درست کرنے جیسی ’کم محنت‘ کی جانب توجہ مبذول نہیں ہے۔

وفاقی بجٹ کا ’2فیصد سے کچھ زیادہ حصہ‘ بڑی فصلوں کی ترقی کے لئے مختص کیا گیا ہے حالانکہ ضرورت اِس سے کہیں گنا زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کی ہے اُور بحیثیت مجموعی زرعی شعبے کو سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہئے کیونکہ زراعت کا شعبہ ہی پاکستان کو ’کورونا وبا‘ سے بچا سکتا ہے۔ یکم جولائی سے شروع ہونے والے پہلے بجٹ کے پہلے چھ ماہ کورونا وائرس سے متاثر رہے گی۔ 

صنعتیں اُور کاروبار پھل پھول نہیں سکیں گے۔ نئی ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے۔ زمینیں پڑی ہیں۔ کم سے کم آبادی کے تناسب سے فصلیں ہونی چاہیئں۔ ٹماٹر آلو جیسی چیزیں کم ہوجاتی ہیں اُور اس سے نہ صرف غذائی خودکفالت ہو گی بلکہ زرعی شعبہ روزگار کی فراہمی کے ساتھ ’ایس اُو پیز‘ کے ساتھ روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ دیگر شعبے بھی اِہم اُور ضروری ہیں لیکن وہاں کی ترقی کے ساتھ جو ملازمتی مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن میں ’ایس اُو پیز‘ پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ زرعی شعبے کو ’ٹڈی دل‘ سے خطرات لاحق ہیں۔ ماضی میں بھی ’ٹڈی دل‘ آتا رہا۔ اَفریقہ میں زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے ٹڈی دل اتنی بڑھی کہ وہ ہوا کے ساتھ ایران کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے۔ پاکستان پہنچنے سے پہلے مغربی ذرائع ابلاغ خبر دے رہے تھے کہ اِس سال 400 گنا بڑا ٹڈی دل آگے بڑھ رہا ہے جسے پاکستان کے فیصلہ سازوں نے خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔

ایک سیاسی قیادت ہوتی ہے۔ وزیر ٹیکنوکریٹ ہوتا ہے جس سے توقع نہیں ہونی چاہئے۔ اِس وزیر کے نیچے بیوروکریٹ (افسرشاہی) ہوتا ہے جو کئی وزارتوں کا خانہ خراب کرنے کے بعد کسی نئی وزارت کے معاملات دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اِس طرح 2 لائق اکٹھا ہو کر قومی فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ سیکرٹری کے نیچے ڈپٹی سیکرٹری اُور ڈپٹی سیکرٹری کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹری اُور اُن کے نیچے درجہ بہ درجہ فوج ظفر موج نالائقوں کی جمع ہے اُور اِن کے غلط فیصلے عملاً ثابت ہیں۔ 

ٹڈی دل اَفریقہ سے چل کر پاکستان پہنچنے میں ایک مہینہ لگا لیکن ہمارے سیاسی اُور غیرسیاسی فیصلہ ساز نہ تو بھانپ سکے اُور نہ ہی اُنہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کب پہنچے گا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین ٹڈی دل چاروں صوبوں کو کہیں کم تو کہیں زیادہ متاثر کر رہا ہے اُور ہمارے پاس فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے اعدادوشمار بھی دستیاب نہیں کہ کل کتنا نقصان ہو چکا ہے اُور کس قدر (ممکنہ طور پر) مزید ہو گا۔ اِقتصادی حالات یہ ہیں کہ بیروزگاری (کم سے کم) آئندہ مالی سال کے ’پہلی شش ماہی‘ تک برقرار رہے گی اُور یہی وہ سخت ترین عرصہ (اِمتحان) ہے جسے حکومت اُور عوام دونوں کے لئے گزرنا آسان نہیں!
....
Editorial Page Daily Aaj June 13, 2020 
Clipping from Daily Aaj, 13 June 2020 Saturday

Covid19 and Public Transport

سچائی کا سفر
پبلک ٹرانسپورٹ مستقل مسئلہ (دردِ سر) ہے اُور اِس درد کا مستقل بنیادوں پر حل (علاج) ہونا چاہئے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ’حسب توقع‘ نہ تو کرایوں میں عملاً کمی ہوئی اُور نہ ہی بسوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے جیسے عمومی طرزعمل (قانون شکنی) سے رجوع کیا گیا جو کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو ¿ کم کرنے کے لئے (حتی الوسع) ’سماجی فاصلے (social distancing)‘ سے متعلق حکومتی قواعد و ضوابط (SOPs) کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی لیکن رواں ہفتے پبلک ٹرانسپورٹ مالکان کی جانب سے 2 اعلانات سامنے آئے کہ ایک تو بین الاضلاعی راستوں (روٹس) پر مقررہ کرائے کی شرح میں مزید کمی کر دی گئی ہے اُور دوسرا ’ایس اُو پیز‘ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں ذرائع ابلاغ نے فوری خبر (Breaking News) اُور شہ سرخیوں (Headlines) کے ساتھ بالکل اُسی اہتمام کے ساتھ شائع کیں‘ جس طرح پیٹرولیم مصنوعات اُور آٹے کی قیمتیں کم ہونے کے بارے میں عوام کو روزانہ ’خوش خبریاں‘ دی جاتی ہیں لیکن اِن خبروں کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں ہوتا اُور نہ ہی خبر دینے سے پہلے اُس کے مندرجات کے بارے خاطرخواہ تحقیق کے عمل کو خاطرخواہ اہمیت دی جا رہی ہے جو صحافت کا پہلا اُور بنیادی اصول ہے۔ اِس سلسلے میں اُردو اُور انگریزی صحافت دو الگ الگ سمتوں اُور دو الگ الگ بلندیوں پر بھی اِس لئے دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ دونوں کے ہاں حقائق کی تصدیق و جانچ کے لئے محنت کا معیار ایک جیسا نہیں۔

بنیادی طور پر کسی بھی آمدہ اطلاع کو خبر اُور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اُور ذمہ داری کی ساتھ اَدا (شائع) کرنے سے قبل‘ اُس کی آزاد ذرائع یا اپنے طور پر تصدیق ہونی چاہئے۔ اِس بات کو عملاً اُور باآسانی ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ 1: کوئی بھی خبر تصدیقی مراحل سے گزرے بغیر شائع یا نشر نہ ہو۔ 2: خبر ضروری ہوتی ہے اُس کو پیش کرنے کا انداز ضمنی اہمیت رکھتا ہے۔ بالخصوص صفحے کی خوبصورتی کے لئے خبروں کو دو‘ تین یا چار کالموں میں مزین و سجاوٹ کے لئے منتخب اُور نمایاں کرنے کا بھی کوئی نہ کوئی تو اصول بھی ہونا چاہئے کیونکہ صرف خبر کا ہونا ہی اہم اُور کافی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اِس میں سچ جھوٹ یا جھوٹ سچ کی آمیزش کا تناسب جاننے کا بھی پیمانہ ہونا چاہئے کیونکہ خبر کے ساتھ صحافتی اِدارے کی ساکھ اُور کاروباری مستقبل بھی جڑا ہوتا ہے۔

’سچائی‘ کا وہ سفر جو اِنفردی حیثیت سے جتماعی قالب میں ڈھل کر اپنی انتہائی (ترقی یافتہ) شکل (وجاہت) میں ”صحافت“ کہلاتا ہے اُور یہ لفظ اصطلاحاً صحیفے سے بھی ماخوذ ہے یعنی ایک ایسی دستاویز (صحیفہ) جو خالق کائنات کے مقدس کلام کی ترسیل سے منسوب ہے تو اِس بات میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی خبر کی فوری تصدیق ممکن نہ ہو تو اُسے (تا دم تصدیق) روک کر شائع کر لیا جائے۔ درحقیقت صحافت کسی بھی شکل میں ہو لیکن اگر یہ ذمہ داری اُور اِحساس ذمہ داری کے ساتھ اَدا نہیں ہوتی تو پھر یہ ایک ایسا معمول بن جائے گی جس سے معاشرے میں نہ تو خیر اُور بہتری کی صورتیں برآمد ہوں گی اُور نہ ہی حکومتی سطح پر فیصلہ ساز اپنی ترجیحات کے تعین میں درست رہنمائی حاصل کر پائیں گے بلکہ عوام اُور حکمران دونوں ہی گمراہ ہوں گے کیونکہ اگر کسی نے اُن کی آنکھوں کی دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے تو اُس کوشش (جھوٹ) کو کامیاب بنانے میں ذرائع ابلاغ بھی شریک ہو گئے ہیں اُور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے‘ جس سے صحافتی ذمہ داریاں ترتیب و تشکیل پاتی ہیں۔

عام آدمی (ہم عوام) کے نکتہ نظر سے عندیہ (خوش خبری) اگر صرف سماعتوں اُور بصارتوں ہی کی آسودگی کے لئے شائع کی جاتی ہے‘ تب تو ٹھیک (قابل فہم) ہے لیکن اگر ذرائع ابلاغ ”اَزرائے طنز و مذاق“ قیمتوں اُور نرخناموں میں کمی سے متعلق ایسی خبریں شائع کرتے ہیں کہ جن میں عوام کے لئے کسی ریلیف کا ذکر ہوتا ہے اُور برسرزمین حقیقت یا حقائق یکسر مختلف (برعکس) ہوتے ہیں تو یہ طرزِعمل اَمانت و دیانت کے اَصولوں کے منافی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسی خبریں (بالخصوص پرنٹ میڈیا جب شہ سرخیوں کے ساتھ) شائع کرتے ہیں تو اِس سے عوام کی نظروں میں بطور اِدارہ اِن کی اہمیت‘ فرض شناسی‘ ذمہ داری‘ صحافتی اَخلاقیات و اَقدار اُور سماجی کردار قابل اِعتبار و بھروسہ نہیں رہتا یقینا کوئی بھی شخص (قاری‘ ناظر و سامع) نہیں چاہے گا کہ جن حقائق سے اُسے عملی زندگی میں ہر روز واسطہ پڑ رہا ہے اُن سے متعلق خبرنگاری مصدقہ نہیں۔ اِس پورے تناظر کا تیسرا پہلو اُور ضرورت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی توجہ (جملہ وسائل‘ رائے اُور جھکاو ¿) عوام کی طرفداری جانب مائل ہونی چاہئے۔ وہ کاروباری گروہ اُور طبقات جو اَجناس کی فروخت یا خدمات کی فراہمی جیسے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں اگر اُنہیں یقین ہو کہ حکومت اُور ذرائع ابلاغ عوام کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں تو یوں کھلم کھلا لاقانونیت دیکھنے میں نہ آئے کہ اجناس میں ملاوٹ سے لیکر کم وزن‘ گرانفروشی اُور ذخیرہ اندوزی قانونی و اخلاقی و سماجی طور پر جرائم ہی تصور نہ ہوں۔

عوامی مفاد کیا ہوتا ہے؟
اِس کی حفاظت کس کی ذمہ داری اُور کیسے کی جائے؟
اِن تینوں امور سے متعلق سوچ بچار اُور لائحہ عمل ’طرزحکمرانی‘ کہلاتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کرائے ناموں کی شرح میں کمی تو بہت دور کی بات لیکن اگر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے کرایوں پر صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی مقررہ کردہ شرح کے مطابق عمل درآمد اُور کورونا وبا سے متعلق حکومتی ہدایات کا احترام ضروری سمجھا جا رہا ہوتا تو صرف پشاور میں گزشتہ چند دنوں کے دوران ’1200ٹرانسپورٹرز‘ کو جرمانے اُور 4 بس اڈے سربمہر نہ کئے گئے ہوتے! لائق توجہ یہ بھی ہے کہ اگر نجی شعبے کی اجارہ داری سے چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے امور صوبائی دارالحکومت ہی میں تسلی بخش نہیں تو صوبائی حکمرانوں اُور متعلقہ فیصلہ سازوں نے کس بنیاد (جواز) پر یقین کر لیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز اضلاع اُور علاقوں پبلک ٹرانسپورٹرز مسافروں (صارفین) کو لوٹ نہیں رہی اُور سب سے بڑھ کر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے کورونا وبا کے پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ ’صوبائی ٹرانسپورٹ اٹھارٹی‘ اُور ’پبلک ٹرانسپورٹ اُونرز ایسوسی ایشن‘ گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لئے ضلعی انتظامیہ (کمشنری نظام) کام آ رہا ہے‘ جنہیں جرمانہ اُور سزائیں دیتے ہوئے صرف خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے مرکزی اُور ضلعی دفاتر میں تنخواہیں اُور مراعات باقاعدگی سے وصول کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے جو مسافروں کی جان و مال کے تحفظ‘ سہولیات کی فراہمی اُور مقررہ شرح سے زائد کرایوں کی وصولی سے متعلق قوانین اُور قواعد شکنی میں برابر (یکساں) شریک جرم (ملوث) ہیں۔
مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی (اَزہر درانی)
....
Clipping from Editorial Page of Daily Aaj - June 13, 2020 Saturday
Editorial Page of  Daily Aaj - June 13, 2020 Saturday


Wednesday, June 10, 2020

COLUMN: Wazifa (Benefice) as shield and stay safe from Corona Virus!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
روحانی مشورہ
پشاور کے سرتاج سادات گھرانے کے روحانی‘ علمی‘ اَدبی اُور سیاسی کردار کو حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے‘ نئی بلندیوں سے روشناس کرانے اُور تصوف (احسان و سلوک) کی تعلیمات عام کرنے میں مصروف عمل نورِچشمی سیّد نور السبطین قادری گیلانی المعروف تاج آغا نے طبی ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنے اُور کورونا وبا کے بارے میں سنجیدگی و ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ زندگی کی قریب ستر بہاریں دیکھنے والے تاج آغا (پیدائش گیارہ نومبر اُنیس سو اکیاون) پیرطریقت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمة اللہ علیہ کے فرزند ارجمند ہیں جنہوں نے کورونا وبا سے بچاو کے لئے خصوصی وظیفہ عنایت کرتے ہوئے اِسے ہر خاص و عام تک پہنچانے کی تلقین کی ہے۔ یہ وظیفہ قرآن کریم کی مختلف سورتوں اُور وظیفہ شروع کرنے سے اوّل و آخر خاص ترتیب و تعداد سے درود شریف پر مشتمل ہے۔

ایک ہی نشست میں باوضو‘ قبلہ رو بیٹھ کر سورہ فاتحہ (تین مرتبہ)۔ آیت الکرسی (تین مرتبہ)۔ سورہ یاسین (تین مرتبہ)۔ سورہ اخلاص (تین مرتبہ)۔ سورہ الم نشرح (پانچ مرتبہ) اُور سورہ کوثر (پانچ مرتبہ) تلاوت کرنی ہیں۔ اِس وظیفے کو شروع کرنے سے قبل گیارہ مرتبہ درود ابراہیمی (نماز کے دوران تشہد میں پڑھا جانے والا درود شریف) یا کوئی بھی دوسرا درود شریف پڑھا جس سکتا تاہم اوّل و آخر پڑھے جانے والے اِس درود شریف کا شمار طاق یعنی گیارہ گیارہ مرتبہ رکھا جائے گا۔ درود شریف پڑھتے ہوئے صاحب درود ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت‘ خلوص اُور توجہ کا اظہار کرنا ہے‘ جس کے لئے ٹھہر ٹھہر کر اُور الفاظ پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہر سورت کے شروع میں ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ پڑھنی ہے۔ بہتر ہے اِس وظیفے کو نماز فجر کی ادائیگی سے فارغ ہونے کے بعد اُسی مقام پر بیٹھ کر پڑھا جائے جہاں نماز فجر ادا کی گئی ہو لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دن کے کسی بھی وقت اُور کسی بھی مقام پر اِسے حسب فرصت پڑھا جا سکتا ہے۔ ہدایت ہے کہ نمازِ فجر کے بعد کسی سے بات چیت کئے بغیر اُور اُسی مقام پر اشراق کی نماز تک بیٹھ کر یہ وظیفہ عبادات کے معمولات کا جز بنا لیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ نماز فجر‘ مذکورہ وظیفہ اُور نماز چاشت کی ادائیگی کے بعد پانی پر دم کیا جائے اُور یہ پانی خود اُور گھر کے تمام افراد کو پلایا جائے تو یہ نہ صرف موجودہ وبائی اُور پریشان کن صورتحال کے لئے مفید رہے گا بلکہ عمومی حالات میں بھی اِس وظیفے کے خاص فوائد (اثرات) ہیں اُور انہیں دیگر عبادات کی طرح معمولات میں شامل کر لیا جائے تو حسب تلقین (اِن شا اللہ) ”دنیا و آخرت میں کامیابی ہوگی۔“

آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ (اَمیریہ) پشاور (اندرون یکہ توت گیٹ) کی روح رواں سیّد نورالحسنین قادری گیلانی المعروف سلطان آغا سجادہ نشین ابوالبرکات سیّد حسن بادشاہ نے کورونا وبا کے شروع دن سے مریدوں اُور عقیدت مندوں کو احتیاط کا مشورہ دیا اُور آستانہ عالیہ پر ہر قمری ماہ کی گیارہ تاریخ کو ہونے والے ختم غوثیہ اُور دیگر جملہ اجتماعی تقاریب و عبادات کو منسوخ کر دیا لیکن محافل ذکر و اَذکار اُور وظائف کا سلسلہ اِنفرادی حیثیت سے جاری رکھا گیا‘ جس میں مریدوں اُور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد آن لائن ذرائع (انٹرنیٹ) کی مدد سے شریک ہوتی ہے۔ سال ہا سال کا معمول تھا کہ ہجری ماہ و سال کی ترتیب کے اعتبار سے مولوی جیؒ کے عرس مبارک کے سلسلے تقاریب کا عموماً آغاز رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا‘ جو رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کے اختتام تک یہاں وہاں جاری رہتا تاہم اِس مرتبہ (1441ہجری) عرس مبارک کی تقاریب کے سلسلے میں ختم قرآن‘ ختم غوثیہ‘ محافل حمد و نعت‘ منقبت اُور شبینہ کا انعقاد بھی انتہائی سادگی سے (محدود پیمانے پر) کیا گیا جس میں صرف اہل خانہ اُور قرابت داروں کے علاوہ مریدوں کی اِنتہائی قلیل تعداد شریک ہوئی۔ اہل تصوف کی جانب سے کورونا وبا کے حوالے سے طبی ماہرین کے مشوروں کو سنجیدگی سے لینا اپنی جگہ قابل ذکر ہے بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جہاں اجتماعی عبادات ترک کرنے اُور حکومت کی جانب سے قواعد (SOPs) پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آرہا اُور اگر صرف پشاور کی بات کی جائے تو خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع (علاقوں) کی نسبت یہاں کورونا وبا سے متاثرین اُور اموات کی شرح صرف صوبائی ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر زیادہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ مختلف صورتوں میں قیادت کے منصب پر فائز شخصیات اُور گھرانوں نے اپنی قائدانہ ذمہ داریاں اَدا نہیں کیں اُور یہی وجہ رہی کہ عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات سرایت کر چکے ہیں۔ کورونا وبا سے محفوظ رہنے کے لئے مذہبی قائدین کو ’رہنما کردار‘ اَدا کرنے کی ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں دیگر کئی آستانوں اُور مدارس کی طرح پشاور شہر کے اہل تصوف نے جو عملی اُور روشن مثال قائم کی ہیں وہ پشاور سے محبت کی بھی آئینہ دار (عکاس) ہیں کہ اِس شہر اُور یہاں کے رہنے والوں کی نسل در نسل عقیدت و احترام کا جواب دیتے ہوئے ’اہل تصوف‘ نے بھی محبت ہی سے جواب دیا ہے۔

کورونا وبا سے ممکنہ بچاو  کے لئے جہاں طبی ماہرین اُور حکومت مشورے دے رہی ہے‘ وہیں اہل طریقت کی جانب سے بھی ’روحانی مشورہ‘ لائق توجہ ہے جو ’نسخہ ¿ شفا (قرآن کریم و مجید)‘ سے آیات کریمہ کے ورد پر مشتمل ہے اُور اِس کی متعلقہ عوامی حلقوں میں تشہیر کے لئے ذرائع ابلاغ بشمول سوشل میڈیا کے وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ہونا چاہئے کیونکہ کسی مسلمان کے لئے آسانی ہو یا مشکل‘ دکھ ہو یا سکھ‘ خوشی ہو یا غم‘ ہر ساعت اپنی توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف مائل کرنے اُور عبادات و نسخہ  کیمیا (قرآن مجید کی آیات) کے ذریعے نجات و رہائی طلب کرنی چاہئے ۔علاو ¿ہ ازیں تاج آغا کی جانب سے پانچ وقت کی فرض اُور تہجد کی نمازیں باقاعدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے توجہ دلائی گئی ہے کہ .... ”اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی آزمائش و امتحان کی موجودہ گھڑی میں اُٹھتے بیٹھتے اُور چلتے پھرتے (دل ہی دل میں) ’استغفر اللہ‘ کا ورد بھی کیا جائے کہ مصیبت کی یہ گھڑی اگر (کسی بھی صورت) ٹل سکتی ہے تو وہ صرف اُور صرف رب تعالیٰ کی مرضی ہی سے ہوگی کیونکہ بلاشک و شبہ زندگی‘ موت اُور شفا اُسی (خالق و مالک ِکائنات) کے ہاتھ میں ہے‘ جو رحمان‘ رحیم و کریم ہونے کے ساتھ اپنی حکمتوں کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔
........

Page 1/3

Page 2/3
Page 3/3

Sunday, June 7, 2020

COLUMN: Higher Education must not be lockdown!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
کورونا وائرس کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل معطل ہوئے کامل تین ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے اُور اِس دوران سب سے زیادہ تعلیمی حرج اُن طلبا و طالبات کا ہو رہا ہے‘ جو اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہے تھے اُور اِس مقام تک پہنچنے کے لئے اُنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت اُور سرمایہ صرف اُور صرف کتابوں کی نذر کیا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے ساتھ درس و تدریس کا عمل بلاامتیاز معطل کرنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند اُور اُن کے والدین جس ذہنی دباو  سے گزر رہے ہیں‘ اُس کا بیان الفاظ میں کرنا ممکن نہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ جو بیش قیمت وقت ضائع ہو رہا ہے‘ وہ ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ وقت گزر رہا ہے اُور اِسی جانب توجہ مبذول کروانے کے لئے ملک کے مختلف شہروں اُور بالخصوص اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے صدر دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کو توقع ہے کہ قومی فیصلہ سازوں نے جس طرح لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کرتے ہوئے پہلے اجتماعی عبادات اُور بعدازاں کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی ہے‘ بالکل اِسی اصول اُور نظریہ ¿ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے (سرکاری و نجی) اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رونقیں بھی بحال کی جا سکتی ہیں‘ جہاں کورونا وائرس سے بچاو ¿ اُور اِس کے ممکنہ پھیلاو ¿ کو روکنے کے لئے طلبہ اُور تدریسی عملہ اُن احتیاطی تدابیر (SOPs) پر سختی اُور بالعموم زیادہ سنجیدگی سے عمل درآمدکریں گے جنہیں معاشرے کے دیگر طبقات نے مذاق میں اُڑا دیا ہے۔

کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے جب تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا تو اُس وقت اعلیٰ اُور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے کو بھی جلدبازی (بنا سوچے سمجھے) بند کر دیا گیا حالانکہ معاشرے کا اکثریتی باشعور اُور نظم و ضبط کا زیادہ پابند طبقہ اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہا ہوتا ہے اُور اگر اعلیٰ تعلیم کی درسگاہیں بند کرنے کی بجائے وہاں پہلے سے موجود قیام و طعام کی سہولیات کو حسب ضرورت وسعت دی جاتی تو اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کئے بغیر بھی مطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکتے تھے۔

حکومت کی ترجیح اگر تعلیم اُور بالخصوص اعلیٰ تعلیم و تحقیق نہیں ہے تو اِس سے کورونا وائرس یا مستقبل قریب و بعید میں اِس جیسے دیگر چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ہی حکومت نے آن لائن تعلیم کے وسائل میں اضافے کا وعدہ کیا۔ یہ تصور نیا نہیں تھا بلکہ اِس سے قبل بھی فاصلاتی تعلیم کے سلسلے جاری تھے جن میں حاصل مہارت و تجربے کو دیگر اداروں تک وسعت دینا تھی لیکن یہ عمل (ہدف) باوجود خواہش و کوشش بھی مکمل نہ ہو سکا‘ جس کی راہ میں تکنیکی وجوہات حائل تھیں کہ ایک تو ہر طالب علم کے پاس آن لائن وسائل سے استفادہ کرنے کی ٹیکنالوجی (موبائل فون‘ ٹیبلٹ‘ لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر وغیرہ) نہیں تھے تو دوسری طرف پورے ملک میں تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کا نظام بھی واجبی تھا۔ صرف بڑے شہروں یا اُن کے خاص حصوں تک ہی ایسے تیزرفتار (آپٹیکل فائبر) انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے‘ جو فاصلاتی تعلیم (آڈیو اُور ویڈیوز اسٹریمنگ) ممکن بنانے کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں دوسرا ذریعہ موبائل فون ہیں‘ جن کے ذریعے کم قیمت اُور قدرے تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی ہو سکتی تھی لیکن موبائل فون کی نجی کمپنیوں نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی ہنگامی و بحرانی صورتحال میں سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اِسے منافع کمانے کا ذریعہ (نادر موقع) تصور کیا۔

حکومت نجی کمپنیوں کو اپنے منافع کم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اُور نہ ہی حکومت کے پاس اپنا کوئی ایسا قومی ادارہ ہے کہ جس کے ذریعے رعائتی نرخوں پر انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے۔ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں اِن دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ قبل جب تعلیمی ادارے بند کئے گئے تو کوئی بھی ایسا متبادل ذریعہ (پلیٹ فارم) موجود نہیں تھا جو فوری طور پر درس و تدریس کے عمل کو وہیں سے شروع کرتا‘ جہاں سے اِس کا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ دل شکنی کا باعث اَمر یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی عمل معطل ہونے سے طلبا و طالبات کی پریشانی میں اساتذہ کی اکثریت شامل نہیں اُور نہ ہی اساتذہ کی نمائندہ تنظیمیں طلبہ کے اِس مطالبے میں ہم آواز ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن میں نرمی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی بحال ہونا چاہئے۔

اعلیٰ تعلیم کی نجی درسگاہوں نے ’آن لائن ایجوکیشن‘ کے نام پر طلبہ سے فیسیں بھی وصول کیں لیکن وہ خاطرخواہ سہولیات فراہم نہ کرسکے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے گزشتہ 2 برس سے متواتر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے سرکاری جامعات بھی اِس قابل نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے آن لائن درس و تدریسی سرگرمیوں کا اجرا کر سکتیں۔

نجی جامعات اُور کالجز نے جیسے تیسے آن لائن تعلیم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن سرکاری اداروں کی حالت زیادہ مثالی نہیں‘ جن کے لئے پہلی مشکل تو اِس تصور کو ہضم کرنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم آن لائن بھی ہو سکتی ہے اُور دوسری مشکل یہ تھی کہ سینئر اساتذہ کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ وہ نہ صرف ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے نابلد ہے بلکہ اُن کے لئے کمپیوٹر سافٹ وئرز پر لیکچرز کی تیاری ممکن نہیں ہوتی اُور صرف اِسی صورت میں کارآمد ہو سکتے ہیں کہ اُنہیں تختہ ¿ سیاہ کے سامنے کھڑا کر کے کسی خاص وقت تک بولنے دیا جائے۔ اِس عمل میں رٹے رٹائے اسباق اُور مثالوں کو دہرانے سے اگر طلبہ تعلیم اخذ کر لیں تو یہ اُن کی قسمت بصورت ِدیگر اساتذہ اِس بات کے لئے ذمہ دار نہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ آ بھی رہا ہے یا نہیں!

آن لائن ایجوکیشن کے وسائل کا ایک کمال (خوبی) یہ (بھی) ہے کہ اِس میں ہر معلم کی کارکردگی یعنی اُس کے مطالعے اُور تدریسی انداز کو آڈیو ویڈیو کی صورت محفوظ کرکے نہ صرف بار بار دیکھا جا سکتا ہے بلکہ معلم کا احتساب بھی ممکن ہے۔ کسی کلاس روم میں جہاں پچاس سے دو سو تک طلبہ ہوتے ہیں اگر ایک معلم چاہے بھی تو ہر طالب علم کو خاطرخواہ توجہ نہیں دے سکتا لیکن آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے وہ اسباق زیادہ روانی اُور سہل انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وبا پھیلنے میں بتدریج کمی ماہ ¿ ستمبر تک آئے گی‘ جس کے بعد حالات معمول پر آتے چلے جائیں گے لیکن اگر حالات معمول پر آتے بھی ہیں تب بھی حکومت کو روائتی تدریس کے ساتھ آن لائن ایجوکیشن میں سرمایہ کاری کرنا پڑے گی تاکہ آئندہ کسی ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا نسبتاً آسان ہو۔ سردست اعلیٰ تعلیمی سرگرمیوں کو اِس مشروط اجازت (اُور عہد) کے ساتھ بحال کر دینا چاہئے کہ سماجی فاصلہ رکھنے سے متعلق وضع کردہ اُور معلوم احتیاطی تدابیر پر کماحقہ سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
........
Editorial page of Daily Aaj - June 07, 2020 Sunday

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj - June 07, 2020