Sunday, April 29, 2018

Translation: The defence budget by Dr. Farrukh Saleem

The defence budget
دفاعی بجٹ
پاکستان پر جنگ مسلط ہے اور اِس حالت جنگ میں جہاں روائتی ہتھیاروں اور طریقوں کو آزمایا جا رہا ہے وہیں غیرروائتی ہتھیاروں سے بھی کام لیا جا رہا ہے اور اِس پوری کوشش کا مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان کو کمزور کردیا جائے جس کے لئے اقتصادی طور پر ملک کو ناتواں کرنا ترجیح ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان کثیرالجہتی قومی سلامتی کی حکمت عملی مرتب کرے جس میں کسی بھی سمت سے آنے والے حملے کو پسپا کرنے کی صلاحیت اور قوت موجود ہو۔

وفاقی حکومت نے مالی سال برائے 2018-19ء کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں دفاعی بجٹ کے لئے 10فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے تاہم دفاعی بجٹ سے متعلق پائے جانے والے عمومی تصورات اور نظریات وضاحت طلب ہیں۔

پہلا تاثر: پاکستان کا سب سے بڑا خرچ اِس کا دفاع ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدن (مالی وسائل) کا سب سے بڑا حصہ دفاع کے لئے نہیں بلکہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا خرچ ادارہ جاتی خسارہ ہے جسے جان بوجھ کر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے)‘ پاکستان اسٹیل ملز‘ بجلی کا پیداواری شعبہ اُور پاکستان ریلویز اُن سرکاری اِداروں کی فہرست میں شامل ہیں‘ جو مسلسل خسارے کا سبب قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔ وفاقی حکومت کا تیسرا سب سے بڑا خرچ ’قومی ترقیاتی حکمت عملی‘ ہوتی ہے جو وفاق اور صوبے الگ الگ تشکیل دیتے ہیں جبکہ چوتھا بڑا خرچ دفاع (ڈیفینس افیئرز اینڈ سروسیز) ہے۔

دوسرا تاثر: دفاعی بجٹ کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے کیونکہ دفاع کے لئے مالی وسائل مختص کرنے کے بعد قومی ترقی کے لئے خاطرخواہ وسائل باقی نہیں رہتے۔ یہ تصور بھی درست نہیں۔ مالی سال 2018-19ء کے بجٹ کا اَگر جائزہ لیا جائے تو حکومتی اَخراجات کا ’18 فیصد‘ دفاعی امور اور خدمات ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 82فیصد حکومتی اخراجات کا تعلق دفاع سے نہیں۔

تیسرا تاثر: دفاع کے لئے ہر سال مالی وسائل میں غیرمعمولی اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی تاثر بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ مالی سال 2001-02ء یعنی 17 سال قبل‘ ملک کی مجموعی آمدن کا 4.6فیصد حصہ دفاع کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مالی سال 2003-04ء کے دوران دفاعی شعبے کے لئے بجٹ میں کمی کرتے ہوئے اِسے 3.9فیصد کر دیا گیا اور 2018-19ء میں دفاع کے لئے ملک کی مجموعی آمدنی (34 کھرب روپے) کا 3.2 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔

چوتھا تاثر: پاک فوج دفاع کے لئے مختص ہونے والے سارے مالی وسائل (بجٹ) کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ یہ تاثر بھی گمراہ کن ہے۔ 1960ء میں پاک فوج کا بجٹ قومی بجٹ کا 42 فیصد حصے پر مشتمل ہوا کرتا تھا جس میں ہر سال بتدریج کمی ہوتی چلی گئی اور آئندہ مالی سال 2018-19ء میں دفاع کے لئے کل مالی وسائل کا 9.6 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔

پانچواں تاثر: پاکستان اپنے دفاع پر قومی آمدنی کا سب سے زیادہ حصہ خرچ کرتا ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں۔ دنیا میں ایسے کم سے کم چار درجن ممالک ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا نسبتاً بڑا حصہ دفاعی امور پر خرچ کرتے ہیں‘ اِن میں بھارت‘ مصر‘ سری لنکا‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ جنوبی کوریا‘ فرانس‘ ارئٹیریا‘ عمان‘ سعودی عرب‘ اسرائیل‘ اُردن‘ لائبریا‘ برونائی‘ شام‘ کویت‘ یمن‘ انگولا‘ سنگاپور‘ یونان‘ ایران‘ بحرین‘ جبوتی‘ موروکو‘ چلی‘ لبنان‘ روس‘ کولمبیا‘ زمبابوے‘ ترکی‘ جارجیا‘ گنی بساؤ‘ ایتھوپیا‘ نامیبیا‘ گھنی‘ ترکمنستان‘ کرغستان‘ الجیریا‘ سربیا و موٹینیگرو‘ آرمینیا‘ بوسٹوانا‘ یوکرین‘ یوگینڈا‘ ایکواڈور‘ بلغاریہ‘ لیستھو اُور سوڈان شامل ہیں۔

پاکستان کے ’قومی اخراجات‘ سے متعلق چند حقائق بھی غورطلب ہیں۔

پہلی حقیقت: پاکستان کا گردشی قرضہ ملک کے دفاعی بجٹ کے قریب مساوی ہو چکا ہے۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر توانائی کے شعبے میں ہونے والے خسارے پر قابو پایا جائے تو اِس سے حاصل ہونے والی بچت ملک کے دفاع جیسی بنیادی و اہم ضرورت کے مساوی حاصل کی جا سکتی ہے۔

دوسری حقیقت: پاکستان کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں پر اوسطاً دنیا کا سب سے کم خرچ ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں چند ممالک کے اعدادوشمار سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ امریکہ اپنے ہر فوجی پر سالانہ اوسطاً چار لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ سعودی عرب سالانہ اوسطاً تین لاکھ چالیس ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ بھارت سالانہ اوسطاً 33 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ مصر سالانہ اوسطاً 18 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان سالانہ اوسطاً 12 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کر رہا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, April 22, 2018

TRANSLATION: Hybrid War by Dr. Farrukh Saleem

Hybrid war
نئے محاذ: مسلط جنگ!
انگریزی زبان کی اصطلاح ’ہائبرڈ (Hybrid)‘ کا استعمال ایسی ٹیکنالوجی کے لئے کیا جاتا ہے‘ جو ایک سے زیادہ طاقت کے ذرائع رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر ایسی گاڑی جو بیک وقت دو طرح کے ایندھن استعمال کرے۔ زراعت اور جنیاتی علوم میں ’ہائبرڈ‘ دوغلی نسل کے جانوروں اور سبزی یا پھل کے ایسے بیج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ پیداوار اور کسی پھل یا سبزی کی دیگر جنیاتی خصوصیات میں تبدیلی کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’ہائبرڈ‘ اصطلاح کا ایک مفہوم ’دوغلی نسل‘ بھی ہے۔ اگر ’ہائبرڈ‘ جیسی کثیرالمعانی اصطلاح کا استعمال سیاسی‘ اقتصادی اور دفاعی شعبوں پر کیا جائے تو اِس کا مطلب ایک ’غیرروائتی طرزعمل‘ہوگا۔

یادش بخیر اٹھارہویں صدی کی بات ہے جب پہلی قسم کے جنگ و جدل میں افرادی عسکری طاقت پر بھروسہ کیا جاتا ہے جو صف بستہ ہو کر مخالف فوجیوں پر حملہ آور ہوتے یا اپنے ملک (علاقے) کا دفاع کرتے۔ اُنیسویں صدی میں جنگ کا ہتھیار بندوق اور بارود رہا جبکہ اُنیسویں صدی میں تیسری قسم کی جنگ رفتار‘ فوری اور اچانک حملہ آور ہونے کی صلاحیت و تیاری کے ساتھ لڑی جاتی تھی۔ اِس تیسرے جنگی دور میں جنگی طیارے‘ ٹینک اور بھاری گولہ باری کرنے والے خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔

سال 2004ء میں ’جان پرکنز (John Perkins)‘ نے جنگ کے میدان‘ حالات اور ہتھیاروں کی تبدیلی سے متعلق نظریات کو بیان کیا کہ کس طرح جنگ جاری ہے لیکن ایک مختلف جنگی حکمت عملی کے ساتھ۔ سال 2006ء میں ’امریکن فوج کے وار کالج‘ اور ’کینیڈین لینڈ فورسیز کے تربیتی مرکز‘ کے ماہرین کا ’کوئنز یونیورسٹی آف کنگسٹن‘ کینیڈا‘ میں مشترک اجلاس ہوا۔ اِس اہم و کلیدی ملاقات کے دوران دو باتوں (لائحہ عمل) پر اتفاق ہوا۔ جس میں پہلا اتفاق یہ تھا کہ ’روائتی دفاعی اسلوب اور جنگی تیاری جاری رکھی جائے جو اگرچہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔‘ اور دوسرا چونکہ تغیرپذیر جنگ کا طریقۂ کار اُور حکمت عملی متقاضی ہیں کہ ایک کثیرالمحاذی اُور کثیرالجہتی جنگ کی تیاری کی جائے کیونکہ جنگ تبدیل ہو چکی ہے۔

پاکستان پر بھی ’دوغلی (ہائبرڈ)‘ جنگ 8 اطراف سے مسلط ہے۔ اقتصادی‘ غیرملکی دخل اندازی‘ غلط معلومات پھیلانے کی صورت‘ سفارتی محاذ‘ سائبر حملے‘ عمومی اور روائتی جنگی ہھتیاروں اور وسائل کے استعمال سے حملہ اور روائتی فوجی کاروائیوں کے ذریعے جنگ۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی ملک کو اقتصادی طور پر اِس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ اپنے دفاع کے قابل نہ رہ سکے اور نہ ہی اپنی دفاعی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل رہ سکے۔ تبدیل ہوتے عالمی ماحول میں ’تجارت‘ بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان پر مسلط نئے طرز کی جنگ اور اِس کی سنجیدگی کا ہمارے حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔ 27کلومیٹر اورنج لائن منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 162 ارب لگایا گیا ہے۔ اِس ٹرین منصوبے میں سفر کرنے کا خرچ فی مسافر 175 روپے بنتا ہے لیکن حکومت 20 روپے کا ٹکٹ فروخت کرے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر روز حکومت کو 4 کروڑ روپے خسارہ ہو گا جو سالانہ 14 ارب ہوگا۔ اِسی طرح دیگر ترقیاتی منصوبوں پر لاگت زیادہ اور اُن سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہے۔ ایسے ترقیاتی منصوبے بھی ہیں جن پر لاگت کے تخمینہ جات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ جو 3 کروڑ 29لاکھ ڈالر کے تخمینے سے شروع ہوا لیکن اس کی لاگت 8 کروڑ 47 لاکھ ہو چکی ہیں۔

پاکستان پر مسلط جنگ کے اقتصادی سیاسی اور سماجی محاذ ہیں‘ جس سے نمٹنے کے لئے ہر محاذ کی الگ الگ حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ آنے والے وقتوں میں ہلکے اُور بھاری ہتھیاروں سے ضرورت اپنی جگہ رہے گی لیکن اقتصادی سیاسی اور سماجی محاذوں پر جنگ سے بھی نمٹنا ہوگا جس میں روائتی جنگوں کی طرح خون خرابہ نہیں ہوتا لیکن نقصانات کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ کیا پاکستان نے ایسی کسی ’ہائبرڈ جنگ‘ سے نمٹنے اور اپنے دفاع کی تیاریاں کر رکھی ہیں؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, April 21, 2018

APR 2018: Vote registration. Be part of the change!

مہمان کالم
ایسے ویسے ووٹ: کیسے کیسے ووٹ!
’الیکشن کمشن‘ نے آئندہ عام انتخابات (دوہزاراٹھارہ) کے لئے ووٹروں کی رجسٹریشن اور ووٹرز فہرستوں میں تبدیلی کے لئے ’چوبیس اپریل‘ تک کی حتمی تاریخ (ڈیڈلائن) مقرر کر رکھی ہے لیکن ووٹ درج کرنے کے مراکز پر خاطرخواہ رش (جوش وخروش) دیکھنے میں نہیں آ رہا‘ کیونکہ سیاسی جماعتوں کو جس ’ووٹ بینک‘ سے دلچسپی ہے‘ وہ پہلے ہی رجسٹر (محفوظ) کیا جا چکا ہے اور ہر انتخابی حلقے کی سیاست میں ’روائتی ووٹ بینک‘ ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ 

پاکستان میں قریب 10کروڑ 43 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں اور ’نیا قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ بنوانے والا ہر فرد کے ووٹ کا اندراج آئندہ سے خودبخود ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ عام انتخابات (دوہزارتیرہ) سے رواں برس (دوہزاراٹھارہ) میں متوقع آئندہ عام انتخابات کے درمیانی عرصہ میں ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز بنوانے والے 81 لاکھ ’’نئے ووٹرز‘‘ کے کوائف کا اندراج خودکار طریقے سے ہو چکا ہے لیکن ووٹوں کا ازخود اندراج ہونا کافی نہیں بلکہ سب سے پہلے تو ہر پاکستانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُس کا ووٹ کس انتخابی حلقے میں درج ہے اور دوسرا اگر وہ اِسے کسی دوسرے عارضی یا مستقل پتے پر تبدیل (درج) کرنا چاہتا ہے تو اُس کا طریقۂ کار کیا ہے۔ ووٹ درج کرانے کے ساتھ اِس کا استعمال بھی ضروری اور لازمی سمجھنا چاہئے۔ ’الیکشن کمشن‘ مقررہ مدت کے علاؤہ ووٹوں کا اندراج‘ تصیح یا تبدیلی نہیں کرتا‘ اِس لئے ’جمہوری عمل میں حصہ لینے اُور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ۔۔۔ چوبیس اپریل (دوہزاراٹھارہ) مقررہ مدت تک ۔۔۔ ہر پاکستانی کو اپنے ووٹ کا اندراج‘ تصیح اور کوائف معلوم کر لینے چاہیءں کیونکہ اِسی ایک ایک ووٹ سے ملک و قوم کے مستقبل کا تعین ہوگا۔

ووٹ کی رجسٹریشن معلوم کرنے کے لئے موبائل فون سے ’8300‘ پر مختصر پیغام (ایس ایم ایس) ارسال کرنا پڑتا ہے‘ جس سے مردم شماری کی تفصیلات اور ووٹ کے اندراج کے بارے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں‘ اِس مقصد کے لئے متعلقہ (قریبی) ضلعی الیکشن کمشنر کے دفاتر بھی مدد کے لئے موجود ہیں‘ تاہم اُن کے اوقات کار عمومی دفتری اوقات سے زیادہ یا مختلف ہونے چاہیءں تھے تاکہ جو لوگ نجی ملازم ہیں وہ بعدازاں بھی اپنے ووٹوں کا اَندراج کروا سکتے یا آن لائن (online) جہاں انتخابی حتمی فہرستیں موجود ہوتی ہیں اور دفتری اوقات کے بعد (دیر شام گئے تک) یا تعطیلات کے روز بھی الیکشن کمشن دفاتر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ووٹوں کا اندراج ’الیکشن کمشن‘ کی ایپ (app) کے ذریعے بھی ممکن کی جاتی تو شفاف انتخابات کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اُوز)‘ سماجی کارکن اُور سیاسی جماعتیں گھر گھر جا کر ووٹوں کی رجسٹریشن کروانے میں مدد دیتیں۔

الیکشن کمشن نے ملک بھر میں 14ہزار487 ایسے مراکز قائم کئے ہیں‘ جہاں بلاقیمت ووٹ کی رجسٹریشن‘ کوائف کی درستگی یا ووٹرز فہرستوں سے ناموں کا اخراج کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایسے مراکز کی تعداد ’ڈھائی ہزار سے زیادہ‘ ہے جہاں بمعہ اصل شناختی کارڈ بمعہ نقل (فوٹوکاپی) رجوع کرنے پر ووٹ کے بارے کوائف میں تبدیلی مقررہ تاریخ تک ممکن ہے اُور اِس مقصد کے لئے ’فارم نمبر 15‘ خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے جو الیکشن کمشن کی ویب سائٹ (ecp.gov.pk) سے بھی مفت حاصل (download) کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ فارم کے ذریعے قومی شناختی کارڈ پر درج ’رہائش گاہ کے مقام اور شہر کی مناسبت سے ووٹ کی مناسبت منسلک کی جا سکتی ہے اور یہ عمل چند منٹ کی فرصت و توجہ چاہتا ہے۔ 

جو لوگ آئندہ عام انتخاب میں ’پوسٹل بیلٹ (بذریعہ ڈاک)‘ ووٹ ڈالنا چاہتے ہوں تو اُن کے لئے عرض ہے کہ عمومی طور پر سرکاری ملازمین اِس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ’پوسٹل بیلٹ آپشن‘ کا انتخاب الیکشن ڈیوٹی کے عملے کے ارکان بھی کر سکتے ہیں اور الیکشن کمشن کی مقررہ کردہ تاریخوں میں ’پوسٹل بیلٹ‘ کے ذریعے ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ جسمانی معذوری جو سفر کرنے سے قاصر ہو اور وہ ایک ایسے قومی شناختی کارڈ کا حامل ہو کہ جس پر ’جسمانی معذوری‘ کا نشان (logo) موجود ہو‘ تو وہ بھی ’پوسٹل بیلٹ‘ استعمال کر سکیں گے۔ زیرحراست اُور سزا کاٹنے والے اَفراد بھی ’پوسٹل بیلٹ‘ اِستعمال کرنے کے اہل ہیں۔ ووٹ ہر اُس شخص کا حق ہے جو پاکستان کا شہری ہو۔ جس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہو اُور جس کا نام ’انتخابی (ووٹر) فہرست‘ میں درج ہو۔ ووٹ ایک ایسا حق ہے جس کے حصول کی دستاویزی ضروریات اگر ایک مرتبہ پوری کر دی جائیں‘ تو یہ حق ہمیشہ کے حاصل ہو جاتا ہے اور کوئی بھی پاکستانی اپنا ووٹ کسی دوسرے شخص کے نام منتقل نہیں کرسکتا۔ 

آگاہی کے ساتھ ’سہولت کاری‘ یکساں اہم‘ ضروری و لازمی ہے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے امور خانہ داری کرنے والی بالخصوص کم خواندہ یا ناخواندہ خواتین (house wives) کے لئے ووٹوں کے اندراج کا خصوصی انتظام و اہتمام کرنا چاہئے تھا کیونکہ امور خانہ داری کے دباؤ کی وجہ سے خواتین (کمزور طبقے) کی ایک بڑی تعداد ہر مرتبہ عام انتخابات میں بھی ’حق رائے دہی‘ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا فرض (بنیادی ذمہ داری) ہے کہ وہ خواتین کے ووٹ کے اندراج میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں۔ اگر عام انتخاب (پولنگ) کے دن ووٹرز (مرد و خواتین) کے لئے ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات کا بندوبست ہوتا ہے تو یہ انتظام ووٹ کے اندراج کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا اُور کیوں نہیں کیا جاتا؟

حرف آخر: بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا حق رائے دہی کیسے استعمال کریں اور اگر اُن کے ووٹ درج نہیں‘ تو کس طرح انتخابی فہرستوں کا حصہ بن سکتے ہیں؟ سیاسی فیصلہ ساز تاحال اِس بات پر متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ عجیب مرحلہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ’ترسیلات زر‘ چاہیءں تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لائے جا سکے لیکن وہ اُنہیں ووٹ جیسا بنیادی حق دینا نہیں چاہتے! اِس ماحول میں انتخابی اصلاحات کی سب سے بڑی داعی‘ پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اندرون و بیرون ہر پاکستانی کو ’بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے‘ لیکن تحریک انصاف کے اِس مطالبے کی حمایت کرنے والوں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ میں کوئی کشش محسوس نہیں ہو رہی‘ جو جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی پاکستانی کی توقعات پر پورا نہیں اُترے‘ تو ووٹ کس منہ سے مانگیں گے اُور بیرون ملک ڈالے گئے ایسے ووٹ اندرون ملک مرتب ہونے والے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Tuesday, April 17, 2018

Apr 2018: Investment in HEALTH is actually investment is in future!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سرمایہ کاری برائے مستقبل!
کسی ملک یا معاشرے کے رہنے والوں کی صحت کا معیار جانچنے کا عالمی معیار (پیمانہ) ’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس‘ ہے جس کے مطابق دنیا کے ’188 ممالک‘ میں پاکستان ’147ویں‘ نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت مثالی نہیں بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں تعمیروترقی پر صحت سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پختہ سڑکیں‘ موٹروے‘ آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں‘ درآمد شدہ آسائشیں ایک طرف اور دوسری طرف اگر آبادی کے نصف سے زائد اگر غذائی قلت کا شکار ہیں یا اُنہیں حسب ضرورت غذا نہیں مل رہی تو قصوروار کون ہے؟ 

ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق پاکستان میں فی کس خوراک ملنے کا تناسب اور حسب آبادی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اسلام آباد سرفہرست (ویری ہائی لیول) ہے جبکہ اِیبٹ آباد اُور لاہور دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں‘ جن کا شمار اُن اضلاع میں ہوتا ہے کہ جہاں صورتحال نسبتاً بہتر (ہائی لیول) ہے لیکن بدقسمتی سے تین صوبوں (سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا) کے کئی ایسے اضلاع ہیں جن کا شمار انگلیوں پر گننا تک ممکن نہیں کہ جہاں ’غربت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے!‘

پاکستان میں 58 فیصد خاندان ’غذائی عدم اِستحکام (فوڈ اِن سیکورٹی)‘کا شکار ہیں جن میں سے قریب 10فیصد (9.8%) ایسے ہیں‘ جنہیں یومیہ ایک وقت کا کھانا تک میسر نہیں اُور یہ اعدادوشمار سال دوہزار گیارہ کے سروے (جائزے) سے معلوم ہوئے تھے جس کے بعد سے تاحال ’نیشنل نیوٹریشن سروے‘ نہیں ہو سکا ہے‘ جس پر اِظہار اَفسوس کرتے ہوئے ماہرین نے ’قومی صحت کو ترجیح‘ بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایبٹ آباد میں ’صحت سے متعلق عمومی شعور اُجاگر کرنے کی غیررسمی نشست میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے ’دوہزارسترہ‘ میں ہوئی مردم شماری میں صحت سے متعلق اعدادوشمار اکٹھا نہ کرنے پر بھی دکھ کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ سات سالہ پرانے اعدادوشمار کی بنیاد پر قومی اور صوبائی حکمت عملیاں مرتب کرنے کی بجائے بلاتاخیر سروے کروایا جائے‘ قومی وسائل کا بڑا حصہ کم آمدنی والے طبقات کو خوردنی اشیاء کی فراہمی پر خرچ ہونا چاہئے کیونکہ آبادی میں اضافے کا سیدھا سادا مطلب یہی ہے کہ غربت کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ نشست میں ’فوڈ سیکورٹی اینڈ ٹیوٹریشن اسٹریٹجک ریویو فار پاکستان 2017ء‘ نامی حکمت عملی کا بھی سرسری جائزہ لیا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا 18فیصد ’خوراک کی کمی‘ کا شکار ہے۔ بچوں کی اکثریت کا وزن اُن کی عمروں کے تناسب سے کم ہے اور جب تک ’تعلیمی پالیسی‘ میں خوراک کو شامل نہیں کیا جاتا‘ اُس وقت تک بچوں کو لاحق ہونے والے امراض میں کمی نہیں آئے گی۔ حاملہ خواتین کی صحت و خوراک اور بچے کی بعداز پیدائش سے نشوونما کے مختلف مراحل سے متعلق ایک ایسی قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری طور پر کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مالی سرپرستی کی جائے۔ اِس سلسلے میں مغربی (ترقی یافتہ) ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں عوام کی قوت خرید ہونے کے باوجود بھی حاملہ خواتین اور نومود بچوں کو حکومت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اُن کی خوردنی ضروریات پوری کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں نہ صرف بچوں کی جسمانی نشوونما بہتر ہوتی ہے بلکہ اُن کی ذہانت کا معیار بھی پاکستان سے کئی درجے بلند ہوتا ہے۔ ماں اور بچے کی صحت میں سرمایہ کاری درحقیقت مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے مترادف عمل ہے لیکن افسوس کہ صحت کے حوالے سے بالخصوص ہمارے سیاسی و غیرسیاسی پالیسی سازوں نے قوم کو سوائے بیماریوں اور مشکلات کے اُور کچھ نہیں دیا۔

مقام صد افسوس ہے کہ خیبرپختونخوا میں حاملہ خواتین کی پچاس فیصد سے زائد تعداد جبکہ عمومی طور پر تیئس فیصد آبادی ’فولاد کی کمی‘ کا شکار ہے۔ ’آئرن‘ کی کمی دور کرنے کے لئے عالمی ادارے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں مفت ادویات تقسیم کرنے کی حکمت عملی بنائے ہوئے ہیں جس میں ’آئرن کی کمی‘ کے بارے شعور اُجاگر کرنے کی مہمات بھی شامل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف شعور اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے توجہ دلانے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت اِس بات کی سکت ہی نہیں رکھتی کہ وہ فولاد سے بھرپور خوراک یا ادویات خرید سکیں! حکومت اگر بچوں کو ملنے والے ملاوٹ شدہ دودھ ہی کی خبر لے تو صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے علاقوں کے رہنے والے یہاں کے لوگ بھی فولاد کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے! وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہروں کی طرح دیہی علاقوں میں بھی لوگوں نے ’صحت مند رہن سہن ترک کر دیا ہے۔‘ کاربونیٹیڈ ڈرنکس اور خطرناک کیمیائی مادوں سے بھرپور اشیاء کی بھرمار ہے اور یوں ہمارے بڑے اور بچے صحت جیسی دولت سے محروم ہو رہے ہیں۔ کیمیائی مادوں سے بھرپور غیرصحت مند اشیائے خوردونوش کھانے سے قوت مدافعت کم ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے لاحق ہونے والے کسی معمولی مرض کا علاج بھی نہایت ہی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سرشام ماہر ڈاکٹروں کے کلینکس پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی کیونکہ مناسب خوراک اور صحت مند طرز زندگی ترک کرنے کی وجہ سے بیماریاں نہ صرف پھیل رہی ہیں‘ بلکہ وہ ہمارے گھروں میں گھر کر چکی ہیں۔ 

خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں مختلف قسم کے ساگ اُور سبزی بڑی مقدار میں پیدا ہو سکتی ہے لیکن زرعی پیداوار کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے موافق آب و ہوا اور زرخیز مٹی سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ تعجب خیزہے کہ خیبرپختونخوا میں غربت اِس انتہاء تک جا پہنچی ہے کہ خوراک کی کمی سے حاملہ خواتین کی پچاس فیصد اور عمومی سطح پر تیئس فیصد افراد فولاد کی کمی کا شکار ہیں۔ فولاد کی اِس کمی کے باعث بچوں کی جسمانی نشوونما اور ذہانت بالعموم متاثر ہے جبکہ بالغ افراد (مرد و خواتین) میں فولاد کی کمی باآسانی دور کی جا سکتی ہے کیونکہ قدرتی طور پر موجود یہ عنصر عام دستیاب ہے۔ 

آئرن ڈیفیشینسی بذات خود کسی بیماری کا نام نہیں لیکن اِس کمی کی وجہ سے کئی اقسام کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں اور ہمارے اردگرد پھیلی نمودونمائش پر مبنی ترقی بے معنی ہو کر رہ جائے گی اگر ہم جسمانی اور ذہنی طور پر لاغر اُور قوت مدافعت کے لحاظ سے صحت مند اعصاب کے مالک نہیں بن جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Sunday, April 15, 2018

TRANSLATION: Potpourri by Dr. Farrukh Saleem

Potpourri
اقتباسات
سیاسی منظرنامہ: مسلم لیگ (نواز) پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات میں دیگر ہم عصروں کے مقابلے سب سے ووٹ حاصل کئے لیکن پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کرنے سے پہلے اُس کے نام سے ’نواز‘ منہا ہو گیا لیکن ابھی نواز شریف کے نام سے منسوب ’مسلم لیگ‘ کے قائد کا مستقبل طے ہونا باقی ہے کیونکہ ’احتساب (نیب) عدالت‘ آئندہ چند ہفتوں میں فیصلہ سنانے والی ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’نواز لیگ‘ کی بیچ منجدھار کشتی ہچکولے کھا رہی ہے! اب تک عدالت کے سامنے پیش کئے جانے والے ثبوتوں کی روشنی میں اُس فیصلے کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں‘ جس کا پوری قوم کو انتظار ہے اور اِس سے پاکستان میں بہت سے صاحبان اختیار (حکمران خاندانوں) کے ’حال‘ اُور ’مستقبل‘ کا مستقل بنیادوں پر تعین ہو جائے گا۔

پاکستان تحریک اِنصاف کا شمار ملک کی اُس بڑی سیاسی جماعت میں ہوتا ہے جس نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات میں ’دوسرے نمبر‘ پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ تحریک انصاف کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں‘ جن کی نظر مستقبل پر ہے اور وہ خود کو وزیراعظم پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں اور نہ ہی نظریہ دکھائی دیتا ہے۔

مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مجموعی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ’پاکستان پیپلزپارٹی‘ تھی‘ جس کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ ہے لیکن ’پیپلزپارٹی‘ کا ووٹ بینک سکڑ رہا ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 1977ء سے 2013ء تک کے سیاسی سفر میں پیپلزپارٹی کے ’’ووٹ بینک‘‘ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 1977ء میں پیپلزپارٹی کو ملک میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کا 60 فیصد جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں 15فیصد حصہ ملا۔

اقتصادی منظرنامہ: پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہو رہا ہے کہ ملک کا ’تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالر‘ تک جا پہنچا ہے۔ اِسی طرح ’کرنٹ اکاونٹ (جاری اخراجات) کا خسارہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 15 ارب ڈالر ہے۔ آمدن و اخراجات (بجٹ) کا خسارہ 2 کھرب روپے سے زیادہ جبکہ قومی قرض 25 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ اِسی طرح قومی تاریخ میں 922 ارب روپے کا گردشی قرض بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی الگ سے تشویشناک امر ہے۔ اِس اقتصادی منظرنامے میں پانچ کردار قومی فیصلہ سازی کر رہے ہیں لیکن اِن سب کی مجموعی کارکردگی بھی پاکستان کو خسارے سے نکالنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے!

عالمی منظرنامہ: دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ امریکہ کے عسکری اور جنگی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جو چین اور روس کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ امریکہ چین کے ساتھ اقتصادی جنگ جبکہ روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ روس امریکہ اور یورپ کے ممالک کو مشرق وسطی میں چیلنج دے رہا ہے اور چین امریکہ کے لئے جنوب و مشرقی ایشیاء میں دردسر کا باعث ہے۔ 

امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت اپنے قومی مفادات اور دنیا پر حاکمیت کے لئے ’یک سو اور پرعزم‘ دکھائی دیتی ہے جنہوں نے ’نئی دفاعی حکمت عملی‘ تشکیل دی ہے۔ امریکہ چین اور روس کا ہرمحاذ اور ہرممکنہ طریقوں سے راستہ روک رہا ہے اور اِس منظرنامے میں جہاں امریکہ اور روس ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے ہیں ’عالمی سطح پر بحران‘ اُٹھ رہا ہے‘ جس کے اثرات سے نمٹنے اور خود کو آنے والے زیادہ کھٹن حالات سے محفوظ رکھنے کے لئے پاکستان نے خاطرخواہ تیاری نہیں کر رکھی! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں۔ ہمیں دوسروں کی طاقت اور ایک دوسرے کے نبردآزما ہونے سے کیا حاصل ہوگا جبکہ ہماری قیادت کمزور ہے اور عالمی طاقتوں کے درمیان پنجہ آزمائی سے اِس ناتوانی میں اضافہ متوقع ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, April 12, 2018

Apr 2018: Drought risk in Chitral - disaster knocking, need corrective measures!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
موسم‘ زراعت اُور اِنسان!

ہم زمین موسموں کی تبدیلی اور موسم اہل زمین کی سمجھ بوجھ پر ہنس رہے ہیں! 

انسانی تاریخ میں اِن دیکھے بھالے‘ مانوس تغیرات کے منفی اَثرات معلوم ہیں جو نہ صرف متاثرہ علاقوں کے رہنے والوں کے روزمرہ معمولات زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ ’زرعی پیداوار‘ اُور کسی نہ کسی صورت زرعی شعبے (زرعی معیشت و معاشرت) سے وابستہ غیرمقامی افراد کی بڑی تعداد بھی متاثرین میں شامل ہے اُور اندیشہ ہے کہ رواں برس (دوہزار اٹھارہ) کے دوران موسم گرما کی شدت ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گی لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آنے والے رواں شدید موسم گرما سے نمٹنے اور اِس دوران بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اِداروں اور دفاتر کے اُوقات بارے غوروخوض نہیں کیا گیا‘ جنہیں گرمی کے موسم میں بھی کام کاج جاری رکھنا پڑتا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا پہلا عکس ’بارشوں کی کمی‘ کی صورت ظاہر ہوتا ہے اور خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں بالخصوص ضلع چترال میں گذشتہ برس دسمبر سے بارشیں اور برفباری کا سلسلہ اوسط مقدار سے کم رہا ہے جس کی وجہ سے ’خشک سالی‘ مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن مجال ہے جو کسی سیاست دان کے منہ سے ’خشک سالی‘ کے بارے میں ایک لفظ بھی تشویش کا سننے کو ملا ہو۔ 

یہ موسم ہماری زرخیز زمینوں کو بنجر بنا رہے ہیں۔ ہماری فصلیں مقدار اور معیار کے لحاظ سے متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی قلت اور اِس قلت کی وجہ سے طلب میں اضافے کے باعث مہنگائی عام ہے۔ علاؤہ ازیں حکومت کو سبزی اور پھل جیسی غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں جبکہ اگر موسمی تبدیلیوں کے اثرات کا مطالعہ اور ان کے محرکات کے ازالے کی کوششیں کی جائیں تو بہتری (اصلاح و تبدیلی) ممکن ہے۔

سردست خیبرپختونخوا کے ضلع چترال پر اِس سال شدید خشک سالی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پورا موسم سرما گزر گیا ہے لیکن خاطرخواہ برفباری نہیں ہوئی ہے اور بارشوں کے موسم میں بھی اہل چترال کی آنکھیں اور زمین کی پیاس سیراب نہ ہو سکیں! چترال میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اِس سال ضلع کے بالائی علاقوں میں ’گندم‘ اُور ’جو (barley)‘ کی کم پیداوار حاصل ہوگی جبکہ اِن علاقوں (پہاڑوں اور ودایوں) سے حاصل ہونے والی سبزی بھی رواں سال کم حاصل ہونے کے واضح آثار ہیں۔ یاد رہے کہ چترال کی وادی بہترین معیار کی سبزی‘ پھل اور فصلوں کے لئے مشہور ہے‘ ایک وقت تھا کہ یہاں سے حاصل ہونے والی زرعی اجناس کا بڑا حصہ برآمد کیا جاتا تھا‘ لیکن آج کم مقدار میں سبزی‘ پھل اور فصلیں مقامی ضروریات ہی کے لئے کافی نہیں تو برآمدات کیسے ممکن ہوں گی!؟

ضلع چترال میں سبزی ماہ مارچ سے اپریل کے درمیان کاشت ہوتی ہیں‘ لیکن ملکو‘ شوٹخار‘ زیزدی ماداک‘ لون‘ ڈونے اویر‘ لووائی اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے آبپاشی کے لئے آبی وسائل کی کمی ہے! مقامی کاشتکاروں کے لئے اِس کے سوأ کوئی دوسری صورت نہیں رہی کہ وہ فصلوں اُور سبزی کی بجائے ایسے چارہ جات کاشت کریں جن سے اُن کے مال مویشیوں کا گزربسر ہو سکے اور آنے والے زیادہ مشکل دنوں کے لئے چارے کی کچھ نہ کچھ مقدار ذخیرہ بھی کی جا سکے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے جس میں چھوٹے پیمانے پر کاشتکاروں اور باغبانوں کو پیداوار کی نہیں بلکہ اپنی بقاء کی فکرلاحق ہے اور وہ اِس آزمائش کے مرحلے پر حکومت سے مدد چاہتے ہیں تاکہ اُنہیں زیادہ پیداوار والے بیج‘ فصلوں کی کاشت‘ باغات کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اَدویات اُور بلاسود زرعی قرضہ جات کی صورت سہارا دیا جائے‘ تاکہ خشک سالی کے جاری عرصے میں چترال سے نقل مکانی کی نوبت نہ آئے۔ ’’سمٹنے کا بھی ہے اَب ہوش کس کو ۔۔۔ اَبھی رخت سفر بکھرا ہوا ہے (سالم شجاع انصاری)۔‘‘

چترال کی وادی میں خشک سالی کے اثرات تاحد نظر پھیلے باغات پر دیکھے جا سکتے ہیں جن کی ہریالی اور اِن دنوں (ماہ اپریل کے دوران) پھولوں سے مزین خوبصورتی ماند دکھائی دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کی طرح پھل پھول نہیں لگ سکے اور چترال جو کہ منفرد ذائقے والے سیب‘ خوبانی‘ آڑو‘ ناشپاتی اور چیری جیسے پھلوں کے لئے مشہور ہوا کرتا تھا اندیشہ ہے کہ اِس سیزن غیرمعمولی حد تک مذکورہ پھلوں کی کم پیداوار حاصل ہوگی‘ جو مقامی افراد کے روزگار اور آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔ کوئی ہے کہ جس کے گوش گزار کیا جائے‘ توجہ دلائی جائے کہ چترال میں خشک سالی سے غربت کی شرح بڑھ رہی ہے!؟

پانی کی کمی کی وجہ سے سبزی کی کاشت اُور برداشت کی سرگرمیاں رواں برس شروع نہیں ہو سکی ہیں۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے ندی نالوں میں پانی کی مقدار کم ہے جس سے صرف کھیتی باڑی ہی نہیں بلکہ چھوٹے بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے جیسا کہ گولین (Golen) کے علاقے میں ’ایک سو آٹھ‘ میگاواٹ کا پن بجلی گھر (ہائیڈرو اسٹیشن) اپنی پیداواری صلاحیت کا نصف بھی نہیں دے رہا۔ معلوم ہوا کہ اگر موسم ہم سے ناراض ہو گئے تو نہ صرف زرخیز وادیوں سے انسانی آبادیوں کا وجود ختم ہوتا چلا جائے گا بلکہ وہ ترقی جس پر بحرانوں کے حل کا اِنحصار ہے‘ وہ بھی کارآمد نہیں رہے گی۔ جن فیصلہ سازوں کی نظر میں ’موسم‘ اُور ’موسمی تبدیلیاں‘ ترقی یافتہ (مغربی) ممالک کا مسئلہ ہے‘ اُنہیں اپنے گردوپیش پر نظر کرنی چاہئے کہ کس طرح صرف ایک بارش کے روٹھ جانے سے انسانی بقاء و ترقی کا مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اگر چترال کی وادیوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی تو اُس وقت پیدا ہونے والے بحران سے کس طرح نمٹا جائے گا اور کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے کسی بحران کو تحلیل کرنے کے لئے بروقت اقدامات کئے جائیں؟ ماضی میں لوگ اچھے موسم اور قدرت کو قریب سے دیکھنے کے لئے چترال کا رُخ کیا کرتے تھے لیکن اِس مرتبہ ’خشک سالی‘ کی وجہ سے اہل چترال قریبی علاقوں کو کوچ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت شمسی توانائی کے وسائل بروئے کار ہوئے بالائی دیہی علاقوں کو دریاؤں سے پانی کی فراہمی ممکن بنائے تو زرعی معیشت و معاشرت کو درپیش مشکلات میں بڑی حد تک اور وقتی طور پر کمی لائی جا سکتی ہے۔ 

صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے (ڈیزاسٹر مینجمنٹ) کا اِدارہ تو موجود ہے‘ جسے چترال کی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کیونکہ رواں خشک سالی سے چترال کی تہذیب و تمدن‘ ثقافت اُور رہن سہن پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں!
۔

Monday, April 9, 2018

Translation: Prospect for peace shatters by Rahimullah Yusufzai

Prospect for peace shatters
اِمکانات کا خون!
اگرچہ افغانستان کا کوئی ایک بھی حصہ نہیں جہاں امن و امان کی صورتحال مثالی ہو اور جہاں خانہ جنگی کے طویل دور کی تباہ کاریاں نہ دیکھی جا سکتی ہوں لیکن ’قندوز‘ اِن سب میں نمایاں اور سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔ اکتوبر 2015ء کی بات ہے جب امریکی فضائیہ کے جہازوں نے ’قندوز شہر‘ میں ’ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی تنظیم کے ایک شفاخانے پر بمباری کی تھی‘ جس سے 42 ہلاکتیں ہوئی تھیں اور ہلاک ہونے والوں میں زیرعلاج مریضوں کے ساتھ ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ جنگ زدہ علاقوں میں علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کرنے والے اِس ادارے نے ہسپتال پر حملے کو ’جنگی جرم‘ قرار دیا تھا لیکن امریکی فضائیہ کی ایک داخلی تفتیش کے بعد اِسے جنگی جرم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ یہ دانستہ طور پر سرزد نہیں ہوا تھا۔ اِس سے قبل جرمن فوج کی جانب سے طلب کرنے پر بھی امریکی فضائیہ نے قندوز میں ایک ایسے مقام کو نشانہ بنایا جہاں لوگ حادثے کا شکار آئل ٹینکر سے بہنے والا تیل جمع کر رہے تھے اور اُن پر طیاروں نے بم برسائے جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ حالیہ چند برسوں کے دوران کم سے کم دو مرتبہ طالبان جنگجوؤں نے قندوز شہر پر قبضہ کیا ہے اور اِس جاری جدوجہد مزاحمت اور حملوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد میں مقامی افراد نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔

تاجکستان کی سرحد سے جڑے صوبہ قندوز کے ضلع ’دشت آرچی‘ میں 2 اپریل کے روز ’’دارالعلوم ہاشمیہ‘‘ نامی مسجد و مدرسے پر مشتمل ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔ دفتیانو گاؤں کے اِس معروف مدرسے میں حملے کے وقت اُن طلبہ کی دستاربندی کی تقریب جاری تھی‘ جنہوں نے حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کر لی تھی اور اِس تقریب میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے علاؤہ دیگر بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔

سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر مذکورہ مدرسے کی تصاویر جاری ہوئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سفید پگڑیاں پہنے بچے اپنی تعلیمی اسناد تھامے قطاروں کی صورت کھڑے ہیں‘ یہ ایک پرمسرت دن ہوتا ہے اور مبارکبادوں کو تبادلہ جاری تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اِس اظہار مسرت و تشکر کی تقریب کشت و خون میں بدل جائے گی‘ جس سے نہ صرف قندوز بلکہ آس پاس کے علاقے بھی مغموم ہو جائیں گے! عینی شاہدین کے مطابق مسجد و مدرسے میں قریب 1000 افراد موجود تھے۔ دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک گن شپ ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے اور انہوں نے خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ بچوں نے ہیلی کاپٹرز کو دیکھ کر شور مچایا اور خبردار کیا لیکن تقریب میں موجود بڑوں نے اُنہیں چپ رہنے کو کہا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بچوں کے اندیشے درست تھے اور ہیلی کاپٹروں نے مدرسے کو اپنا نشانہ بنایا۔ واضح ہے کہ امریکہ نے افغان فضائیہ کو تربیت دی ہے اور زیادہ تر ہوائی حملوں میں افغان فوجی اہلکار ہی حصہ لیتے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج کی جانب سے اِس بات کی تردید آئی ہے کہ مدرسے پر حملہ امریکی یا نیٹو اہلکاروں نے کیا۔ اگر اِس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو چونکہ افغانستان کی فضائی حدود امریکیوں کی نگرانی میں ہے اور وہ افغان پائلٹوں کو فضائی حملے سے روک سکتے تھے لیکن ایسی کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ افغان طالبان جنگجوؤں کے پاس ائرفورس نہیں اور نہ ہی فضاء میں مار کرنے والے بھاری ہتھیار (انٹی ائرکرافٹ گنز اور میزائل) ہیں۔ 

افغان فوج اپنی اِس برتری کا فائدہ اٹھاتی ہے اور طالبان کے ممکنہ اہداف کو نشانہ بنانے کی مہمات میں حصہ لیتی ہے۔ اگست 2017ء میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’افغانستان کے لئے نئی حکمت عملی‘ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے افغان فوج زیادہ تر فضائی حملوں پر انحصار کر رہی ہے تاکہ اُسے طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے جانی نقصان کم ہو۔

قندوز حملے کی تفصیلات معلوم کرنے کے افغان صدر اشرف غنی نے ایک تفتیشی کمشن تشکیل دیا ہے لیکن اُن کی حکومت پہلے ہی مدرسے پر حملے سے متعلق ایک وضاحتی بیان میں کہہ چکی ہے کہ قندوز میں طالبان کے ایک ایسے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا جس میں سرکردہ رہنما افغان فوجوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے جمع ہوئے تھے۔ اگر وہاں طالبان جنگجو موجود تھے‘ تب بھی اِس بات کا جواز نہیں بنتا کہ ایک بڑے اجتماع پر اندھا دھند گولیاں برسائی جاتیں۔ 

افغان صدر کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں قندوز حملے کے بارے میں کہا گیا کہ اِس میں افغان عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں تاہم بیان میں اِس بات کاذکر نہیں کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے بے گناہ تھے اور زخمی و ہلاک ہونے میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے!

’افغان وزارت برائے فضائی دفاع (ائر ڈیفنس منسٹری)‘ نے دعویٰ کیا کہ ہوائی حملے میں بیس طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا جو طالبان کے انتہائی خطرناک دستے ’ریڈ یونٹ‘ کا حصہ تھے اور اِن میں سے بعض کا تعلق پاکستان سے بھی تھا۔

قندوز مدرسے حملے کے بارے میں افغان حکام کے بیانات سے غیریقینی اور گومگو جیسی کیفیات ظاہر ہوئیں۔ صوبہ قندوز کے گورنر کی ترجمانی کرنے والے نے کہا کہ مذکورہ حملے میں پانچ عام شہریوں (سویلینز) کی ہلاکتیں ہوئی جبکہ پچپن دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔ افغان محکمۂ دفاع نے کہا کہ کوئی بھی عام شہری نشانہ نہیں بنا۔ حکام کی جانب سے بیانات کا سلسلہ جاری تھا کہ اِسی دوران ہلاکتوں کا شمار بڑھتا چلا گیا اور عدد 150 ہلاکتوں 200 زخمیوں تک جا پہنچا۔ مذکورہ حملے کے تین دن گزرنے کے باوجود بھی درست اعدادوشمار دستیاب نہیں ہو سکے‘ جس کا مطلب ہے مذکورہ علاقے میں افغان حکومت کا کنٹرول نہیں۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق 70 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد 100 افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات آئیں جبکہ طالبان ذرائع 150 ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ 

عینی شاہدین اور حملے میں زندہ بچ جانے والوں نے افغان حکومت کے اِس دعوے کی تردید کی ہے کہ تقریب پر فضائی حملہ ہونے کے بعد صورتحال کو زیادہ سنگین بنانے کے لئے افغان طالبان نے بھی فائرنگ کی‘ جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

قندوز میں ہوئے مذکورہ حملے کے بارے میں اقوام متحدہ نے بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن اگر ماضی 
میں اِس قسم کی تحقیقات کے نتائج کو دیکھا جائے تو بھی انصاف ملنے کی اُمید نہیں۔

اَفغانستان میں موسم گرما کا آغاز ہوا چاہتا ہے اُور یہی وہ موسم ہوتا ہے‘ جس میں افغان طالبان کے ممکنہ حملوں میں تیزی آتی ہے جس سے نمٹنے اور طالبان کو امن مذاکرات کا حصہ بنانے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہیں۔ قندوز میں مسجد و مدرسے پر حملے سے افغانستان میں جاری خونریزی بڑھے گی۔ اگر ہم سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو اُس پر قندوز حملے کی روشنی میں جذباتی بحث جاری ہے اور حملے کا انتقام لینے جیسے مطالبات و جذبات ابھر رہے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کے امکانات پہلے ہی کم تھے اور ایک ایسی صورتحال میں جنگجوؤں سے کو مذاکرات کی کوششوں کی کامیابی کسی چیلنج سے کم نہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

TRANSLATION: Retired female civil servant to contest for Kurram NA seat

Retired female civil servant to contest for kurram NA seat
علی بیگم: ہمت مرداں کی عملی تصویر!
پاکستان کی صرف سیاسی جماعتیں ہی آئندہ عام انتخابات اُور ممکنہ کامیابیوں پر نگاہیں جمائے ہوئے نہیں بلکہ کئی سماجی شخصیات بھی بطور اُمیدوار انتخابی معرکے میں حصہ لینے کی تیاری کئے بیٹھی ہیں اور اِن میں کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والی علی بیگم بھی شامل ہیں جن کا تعلق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے ہے۔ اگرچہ علی بیگم ایسی پہلی خاتون نہیں جو قبائلی علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار ہوں گی لیکن وہ اپنی جیت کے لئے پراُمید اور مقابلے کے لئے سنجیدہ تیاری رکھتی ہیں۔ اُن کے عزم کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سات اپریل کو کرم ایجنسی کے صدر مقام (ہیڈکواٹر) پاڑہ چنار میں ایک عوامی اجتماع (پبلک میٹنگ) سے بھی خطاب کیا جبکہ ابھی عام انتخابات کا انعقاد مہینوں کے فاصلے پر ہے۔ درحقیقت انہوں نے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ سے اِس اجتماع کے انعقاد کی تحریری اجازت بھی حاصل کی تھی جس کے لئے ’’مہاجرین گراؤنڈ‘‘ کا انتخاب کیا گیا لیکن پولیٹیکل انتظامیہ نے سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے اُنہیں تاکید کی کہ وہ رابطہ عوام کے سلسلے میں عوامی اجتماع کا انعقاد اپنے انتخابی دفتر ہی کے احاطے میں کریں۔

علی بیگم‘ قومی اسمبلی کے انتخابی حلقہ 46 (این اے چھیالیس) کرم ایجنسی سے اُمیدوار ہوں گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ’مردم شماری 2017ء‘ کی روشنی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں طے کی گئی ہیں‘ جن کی رو سے کرم ایجنسی کے مذکورہ حلقے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس سے قبل کرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔ عمومی طور پر ایک نشست پر بالائی علاقوں پر مشتمل اکثریتی شیعہ اُمیدوار کامیاب ہوتا اور دوسری نشست جو کرم ایجنسی کے زریں اور وسطی علاقوں پر مشتمل ہوتی اُس سے سنی اُمیدوار کی کامیابی یقینی ہوتی۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے اِس مرتبہ کرم ایجنسی سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگا اُور اِسی وجہ سے سخت انتخابی مقابلے کی توقع ہے۔ نئی حلقہ بندی کی وجہ سے کرم ایجنسی کے بالائی‘ وسطی اور زریں علاقوں پر مشتمل نشست پر کامیابی کسی بھی طرح آسان نہیں ہوگی‘ کیونکہ اِن علاقوں میں فیصلہ کن اکثریت مردوں کی ہے لیکن اِس زمینی حقیقت کے باوجود ’علی بیگم‘ نے انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی جیت کے لئے پراُمید بھی ہیں۔

علی بیگم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ قبائلی علاقے ’اب پرامن ہیں‘ اور اَمن کی بحالی اِس حد تک ہو چکی ہے کہ اب ایک خاتون بھی انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہے اور اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں عوامی اجتماعات کا انعقاد بھی کر رہی ہے۔

علی بیگم کا تعلق کرم ایجنسی کے گاؤں ’ماکئی مالانہ (Maikai Malana) کے ایک معروف اور پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ اُن کے بھائی ڈاکٹر مقداد امراض قلب کے ماہر ہیں جن کا شمار معروف معالجین میں ہوتا ہے۔ علی بیگم نے جامعہ پشاور سے ’بیچلرز آف آرٹس‘ اور ’بیچلرز آف ایجوکیشن‘ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1977ء میں ’آل پاکستان فیڈرل سول سروس ایگزیمینیشن‘ (مقابلے کے امتحان) میں حصہ لیا۔ وہ ایسی پہلی قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون تھیں جنہوں نے مذکورہ امتحان میں حصہ لینے کی اہلیت حاصل کی تھی اور پھر انہیں سرکاری ملازمت (سول سرونٹ) حاصل کرنے میں بھی کوئی دقت نہ ہوئی۔ ملازمت ملنے کے بعد بھی اُنہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ’اسٹریٹجیک سٹڈیز‘ میں ماسٹرز کیا۔ علی بیگم اُنتیس برس تک مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد سال 2009ء میں 22ویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ اِس عرصے میں انہیں فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر‘ گورنر انسپکشن ٹیم کی چیئرپرسن‘ خیبرپختونخوا کی سیکرٹری برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ پاپولیشن ویلفیئر کی ڈائریکٹر جنرل اور سیکرٹری‘ ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن‘ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس اُور پلاننگ اینڈ ایجوکیشن میں فاٹا سیکشن میں بطور سربراہ خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا اُور اِس تمام عرصے میں وہ ہمیشہ ایک فرض شناس آفیسر کے طور پر متعارف ہوئیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد علی بیگم کچھ عرصہ کے لئے اپنے بیٹے کے پاس امریکہ میں مقیم رہیں تاہم اِس دوران وہ پاکستان آتی جاتی رہیں اور اپنے آبائی اور قبائلی علاقے کے لوگوں سے تعلق کو برقرار رکھا۔ امریکہ کے قیام کے دوران وہ ’ٹولیڈو (Toledo)‘ میں ’پان پیسیفک ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ویمن ایسوسی ایشن‘ کی سربراہ بھی رہیں‘ جو ایک معروف عالمی تنظیم ہے۔ اِس تنظیم کے پلیٹ فارم سے علی بیگم کو ’اقوام متحدہ‘ میں خواتین کی نمائندگی کا موقع ملا اور اُنہوں نے اپنی قابلیت و ذہانت سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ 

علی بیگم ایسی دوسری خاتون ہوں گی جو قبائلی علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے عام انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لیں گی۔ پہلی قبائلی خاتون جنہوں نے عام انتخاب (مئی دوہزارتیرہ) میں حصہ لیا تھا وہ 38 سالہ محترمہ بادام زری تھیں جو مردان میں پیدا ہوئیں اور اُن کی شادی باجوڑ ایجنسی (قبائلی علاقے) میں ہوئی تھی۔ بادام زری روائتی تعلیم یافتہ نہ تھیں‘ انہوں نے ’باجوڑ ایجنسی‘ سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اُن کے خیالات کو ذرائع ابلاغ نے بہت اہمیت دی۔ بادام زری خود تو ناخواندہ تھیں لیکن اُن کے شوہر نور محمد سکول پرنسپل تھے۔ عام انتخاب میں ’این اے 44‘ سے بادام زری کے حصے میں صرف 140 ووٹ آئے تھے اور مذکورہ نشست پاکستان مسلم لیگ نواز کے شہاب الدین خان نے 14 ہزار 990 ووٹ حاصل کرکے جیتی تھی۔

علی بیگم گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی بادام زری سے کئی لحاظ سے مختلف‘ منفرد اور نمایاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی ’انتخابی کامیابی‘ کے اِمکانات زیادہ روشن ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں علی بیگم قبائلی علاقے سے منتخب ہونے والی پہلی رکن قومی اسمبلی کا اعزاز حاصل کر جائیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, April 8, 2018

Translation: The cost overrun by Dr. Farrukh Saleem

The cost overrun
ترقی: اضافی لاگت!

نندی پور پاور پراجیکٹ: سال 2008ء میں ’پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو)‘ نے عوامی جمہوریہ چین کی ایک کمپنی ’ڈونگ فانگ الیکٹرک کارپوریشن‘ کے ساتھ 23 ارب روپے مالیت کے معاہدے پر دستخط کئے‘ جس کا مقصد یہ تھا کہ چینی کمپنی پاکستان میں 525 میگاواٹ پیداوار کا بجلی گھر قائم کرے گی۔ اِس منصوبے پر اب تک 84 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی اس سے استفادہ نہیں کیا جارہا جس کی وجہ یہ ہے کہ سال 2014ء میں بتایا گیا کہ نندی پور پاور پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت 42 روپے تھی‘ جس کی وجہ سے اِس بجلی گھر کو صرف پانچ دن چلانے کے بعد بند کر دیا گیا۔ اصولی طور پر منصوبہ تعمیر کرنے سے پہلے اِس کے تکنیکی پہلوؤں اور حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار کی قیمت کا جائزہ لینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سال 2008ء میں جس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 23 ارب روپے تھا آخر اُس کی تکمیل ہونے تک اخراجات 84 ارب روپے تک کیسے جا پہنچے؟ آخر خرابی کہاں ہوئی؟ کیا مذکورہ پاور پلانٹ کے لئے جو آلات خریدے گئے اُن کی قیمت مارکیٹ میں اچانک بڑھ گئی؟ کیا مزدوری کی لاگت بڑھی؟ کیا لوہے‘ سریے اور سیمینٹ وغیرہ جیسی اہم بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا؟ کیا اداروں کی نااہلی کے سبب ایسا ہوا؟ کیا اس میں مالی بدعنوانی کا عمل دخل ہے یا پھر ’نندی پور پاور پراجیکٹ‘ بدانتظامی کی نذر ہوا؟

نیلم جہلم ہائیڈرو پلانٹ: اِس منصوبے کی منظوری 1989ء میں دی گئی تھی جس پر اُس وقت لاگت کا تخمینہ 18 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ اِس منصوبے میں بعدازاں توسیع کی گئی اور ایک سرنگ کا سائز بڑھایا گیا جس سے لاگت 84 ارب روپے تک جا پہنچی۔ 3 جولائی 2014ء کو نیشنل اکنامک کونسل (ایکنک) کی ’ایگزیکٹو کمیٹی‘ نے منصوبے پر لاگت کے کل تخمینے 84 ارب روپے پر نظرثانی کی اور اِسے 274 ارب روپے کرنے کی منظوری دے دی۔ اب تک حکومت ’نیلم جہلم ہائیڈرو پلانٹ‘ پر 550 ارب روپے خرچ کر چکی ہے لیکن یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ آخر خرابی کہاں ہوئی؟ کیا مذکورہ پاور پلانٹ کے لئے جو آلات خریدے گئے اُن کی قیمت مارکیٹ میں اچانک بڑھ گئی؟ کیا مزدوری کی لاگت بڑھی؟ کیا لوہے‘ سریے اور سیمینٹ وغیرہ جیسی اہم بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا؟ کیا اداروں کی نااہلی کے سبب ایسا ہوا؟ کیا اس میں مالی بدعنوانی کا عمل دخل ہے یا پھر ’نیلم جہلم ہائیڈرو پلانٹ‘ بدانتظامی کی نذر ہوا؟

نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ: اِس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 37 ارب روپے لگایا گیا تھا‘ جبکہ حکومت اِس پر 100 ارب روپے خرچ کر چکی ہے اُور اعلان کیا گیا ہے کہ رواں ماہ (20 اپریل) اِس ائرپورٹ کا باقاعدہ افتتاح کر دیا جائے گا۔آخر خرابی کہاں ہوتی ہے جس کی وجہ سے منصوبوں پر لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے؟ کیا مذکورہ پاور پلانٹ کے لئے جو آلات خریدے گئے اُن کی قیمت مارکیٹ میں اچانک بڑھ گئی؟ کیا مزدوری کی لاگت بڑھی؟ کیا لوہے‘ سریے اور سیمینٹ وغیرہ جیسی اہم بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا؟ کیا اداروں کی نااہلی کے سبب ایسا ہوا؟ کیا اس میں مالی بدعنوانی کا عمل دخل ہے یا پھر ’نیلم جہلم ہائیڈرو پلانٹ‘ بدانتظامی کی نذر ہوا؟

مذکورہ تین بڑے ترقیاتی منصوبوں (نندی پور پاور پراجیکٹ‘ نیلم جہلم ہائیڈرو پلانٹ اُور نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ) کے تعمیراتی اخراجات مجموعی طور پر ’’600 ارب روپے‘‘ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی خاندان پر 20 ہزار روپے کا بوجھ بڑھا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا کل دفاعی بجٹ (سالانہ دفاعی اخراجات) 290 ارب روپے ہیں۔ صرف تین منصوبوں پر اضافی لاگت ملک کے مجموعی دفاعی بجٹ کا 65 فیصد بنتا ہے۔ اگر قومی مالی وسائل کا کفایت شعاری‘ دانشمندی اور ایمانداری سے استعمال کیا جائے تو اِس سے نہ صرف بچت ممکن ہے بلکہ زیادہ اخراجات کی صورت مالی وسائل ضائع کرنے کی بجائے اِن کا دیگر ترقیاتی مقاصد کے لئے بھی استعمال ممکن ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, April 1, 2018

TRANSLATION: Charter of economy by Dr. Farrukh Saleem

Charter of economy
اقتصادی میثاق!
پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ تجارتی خسارہ (درآمدات و برآمدات میں عدم توازن) 35 ارب ڈالر جیسی بلند سطح تک جا پہنچا ہو۔ اِسی طرح ملک کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاونٹ) کا 15 ارب ڈالر خسارہ بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اُور سالانہ آمدن و اخراجات میں خسارہ الگ سے تاریخی (اور پریشان کن) ہے جو ’’2 کھرب روپے‘‘ سے زیادہ ہو چکا ہے!

خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو موجودہ جاری و طاری اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے 26 ارب ڈالر جیسی خطیر رقم کی ضرورت ہے۔ ’بلومبرگ‘ کے مطابق ’’ایشیائی ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جس کے پاس موجود ڈالر کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اور بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ اِسی طرح برقرار رہا تو پاکستان کے پاس موجود ڈالروں کا ذخیرہ کمبوڈیا سے کم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ کمبوڈیا کی اقتصادیات کا حجم پاکستان سے دس گنا کم ہے!‘‘

پاکستان کے اقتصادی مسائل اور اِس کے لئے ذمہ دار فیصلہ سازوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 48 برس میں پاکستان میں 10 مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ سال 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 30.2 ملین (تین کروڑ سے زیادہ) خاندان آباد ہیں جن میں سے صرف ’’1ہزار 174 خاندان‘‘ ہی بار بار عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لیتے رہے ہیں اور مسلسل یہی خاندان ’ایک ہزار ایک سو چوہتر‘ قومی‘ صوبائی اور سینیٹ ایوانوں کی نشستوں پر براجمان ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات پر صرف اور صرف سرمایہ دار (بااثر) خاندانوں کی حکمرانی ہے جن کی ترجیحات میں ملکی اقتصادی صورتحال کی بہتری شامل نہیں اور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پر حکومت کرنے اور پاکستان کے عوام الگ الگ طبقات ہیں۔ ایک طبقے کو معاشی و اقتصادی محاذوں پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی فکر نہیں اور دوسرے کی بقاء کا انحصار ہی بہتر معاشی و اقتصادی فیصلوں پر ہے۔
سال 2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا‘ جسے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ذاتی و سیاسی مفادات کی حفاظت کریں گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لئے تو اکٹھا ہوتی ہیں لیکن پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل کے لئے سرجوڑ کر نہیں بیٹھتیں تاکہ اتفاق رائے سے کوئی ایسا ’لائحہ عمل‘ تشکیل دیں جس سے قومی اقتصادی مسائل اور بحران سے نمٹنے کی راہیں متعین ہو سکیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اور اقتصادی ادارے اپنی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اب تک ہوئے عام انتخابات 1970ء‘ 1977ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2002ء‘ 2008ء اُور 2013ء کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ سیاسی اشرافیہ اپنے مفاد کے لئے عوام (ووٹرز) کا استعمال کرتی ہے لیکن عوام کے اقتصادی مستقبل کو محفوظ اور یقینی بنانا اِس کے لائحہ عمل کا حصہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ قومی وسائل ’ایک ہزار ایک سو چوہتر‘ حکمراں خاندانوں کی بہبود کے لئے مختص دکھائی دیتے ہیں اور اسے تین کروڑ سے زائد پاکستانی خاندانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔

پاکستان جانتا ہے کہ اِس کی جملہ مشکلات کا سبب اور اِن مشکلات کا فوری اور پائیدار حل کیا ہے۔ ہمارے اقتصادی ادارے امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں مالی وسائل تقسیم کرنے والے افسانوی کردار ’رابن ہڈ‘ کے متضاد ہیں اور یہ غریبوں کو لوٹ کر امیروں کے اثاثوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران امیروں سے حسب آمدن و رہن سہن ٹیکس (محصولات) وصول کرنے میں مسلسل ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن وہ کم آمدنی والے طبقات پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عجب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس غریب اور اپنی آمدن کے تناسب سے سب سے کم ٹیکس ’صاحبان ثروت‘ اَدا کرتے ہیں!
مالی سال 2008-09ء کے دوران ’وزیراعظم پاکستان‘ کے دفتر کا یومیہ خرچ ’چھ لاکھ روپے‘ رہا اور یہ چھ لاکھ روپے یومیہ سال کے ہر دن قومی خزانے سے ادا کئے گئے۔ رواں مالی سال میں وزیراعظم پاکستان کے دفتر کا خرچ 25 لاکھ روپے یومیہ ہو چکا ہے!

مالی سال 2008-09ء میں وفاقی حکومت کے انتظامی دفاتر ’’کبینٹ ڈویژن‘‘ کا یومیہ خرچ 40 لاکھ روپے تھا جو رواں برس بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ روپے یومیہ ہوچکا ہے اور یہ رقم بھی قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔

مالی سال 2008-09ء میں صدر پاکستان کے دفاتر (پریذیڈنٹ ہاؤس) کا یومیہ خرچ 10لاکھ روپے تھا جبکہ رواں مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) میں یہ خرچ بڑھ کر ڈھائی کروڑ روپے یومیہ ہوچکا ہے جس کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے!

جاپان کی مثال ملاحظہ کریں جہاں گذشتہ 20 برس کے دوران قریب ایک درجن وزیراعظم تبدیل ہوئے لیکن اُن کا اقتصادی نظم و ضبط‘ منشور اور قومی معاشی لائحہ عمل مستقل لاگو رہا‘ جس پر سیاسی تبدیلیوں کا اثر نہیں ہوتا۔ آخر یہ کیوں ممکن نہیں کہ نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اُور تحریک انصاف (پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں) مل بیٹھ کر ایک ایسا ’قومی اقتصادی و معاشی لائحہ عمل (اقتصادی میثاق)‘ مرتب کریں‘ جس کے ذریعے کم خرچ حکمرانی اور اقتصادی شعبوں میں ترقی عملاً ممکن بنائی جا سکے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)