National interest
قومی مفاد
ریکو ڈیک (Reko Diq): 1993ء میں (صوبہ) بلوچستان کی حکومت نے ’بی ایچ پی (BHP)‘ نامی ایک آسٹریلوی کان کن کمپنی سے معاہدہ کیا۔ جس کان کا معاہدہ کیا گیا اُس میں ایک اندازے کے مطابق 5.9 ارب ٹن تانبے (copper) اور 41.5 ارب اُونس سونے (gold) کے ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان حکومت نے معاہدے میں ’بی ایچ پی‘ کمپنی کو آمدنی میں 75فیصد حصہ داری دے دی جبکہ اِس سے حکومت کو رائلٹی (royalty) کی مد حاصل ہونے والی آمدنی صرف دو فیصد رکھی گئی۔
لمحۂ فکریہ: پاکستان عالمی عدالت برائے تنازعات (انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈیسپیوٹس) میں 11.5 ارب ڈالر جرمانے کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اِس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے معاملات کو شفاف نہیں رکھا۔ سوالات یہ ہیں کہ آخر پاکستان تین کھرب ڈالر کے منصوبے سے کیوں الگ ہوا؟ کیا بلوچستان حکومت کا یہ اقدام قومی مفاد میں تھا؟
سینڈک کاپر اینڈ گولڈ: سال 2002ء میں حکومت پاکستان کی ملکیت ’سینڈیک میٹلز لمٹیڈ‘ اُور ’میٹلرلوجیکل کارپوریشن آف چائنا‘ نے دس سال کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ سال 2012ء میں ختم ہوا اور اِسے 31 اکتوبر 2017ء تک توسیع دے دی گئی۔ اِس معاہدے میں مزید پانچ سال کے لئے موجودہ شرائط و قواعد و ضوابط کے مطابق ایک مرتبہ پھر توسیع کی گئی۔
لمحۂ فکریہ: جب وفاقی حکومت غیرملکی کمپنیوں سے خفیہ معاہدے کرتی ہے تو کیا ایسا کرنا قومی مفاد میں ہوتا ہے؟ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے چین کی ایک کمپنی کو پندرہ سال کے لئے ’بناء تعطل‘ کان کنی کی اجازت دی اور اس معاہدے کی رو سے پانچ سو ارب ڈالر مالیت کا تانبا اور سونا حاصل کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان نے اِس منصوبے سے کیا حاصل کیا؟ قائد اعظم سولر پاور (پرائیویٹ) لمٹیڈ نامی منصوبہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پنجاب حکومت نے چینی ’ٹی بی ای اے TBEA‘ شیان جینگ کمپنی لمٹیڈ کے ساتھ 100 میگاواٹ شمسی توانائی کے پیداواری منصوبے کا معاہدہ کیا اور اِس منصوبے کو بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
لمحۂ فکریہ: اُنیس مارچ دوہزار پندرہ کے روز ’نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 18.0397 روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی کا نرخ منظور کیا۔ قائداعظم سولر پاور پراجیکٹ پر لاگت قریب پندرہ لاکھ ڈالر فی میگاواٹ آئی۔ 10فروری 2017ء کے روز سوئیڈن کی ایک کمپنی ’’سولینرگی پاور‘‘ نے بھارت میں پاکستان ہی کی طرز پر شمسی توانائی کے ایک منصوبے کے لئے پیشکش دی کہ وہ پندرہ لاکھ ڈالر کی بجائے چھ لاکھ نوے ہزار ڈالر فی میگاواٹ کے حساب سے بجلی کا پیداواری منصوبہ مکمل کریں گے۔ کیا یہ بات اکیس کروڑ پاکستانیوں کے مفاد میں تھی کہ پنجاب حکومت نے چین کے ساتھ پندرہ لاکھ ڈالر فی میگاواٹ شمسی توانائی کا پیداواری منصوبہ دستخط کیا؟
چار اکتوبر دوہزار سترہ کے روز بھارت میں گیس فراہمی کے نگران ادارے نے آسٹریلیا اور قطرسے سستے داموں مائع گیس (ایل این جی) کی خریداری کے بعد امریکہ اور روس سے خریداری کے معاہدوں پر نظرثانی کی اور اِن ممالک سے قیمتیں کم کروائیں لیکن جب ہم پاکستان کے عالمی معاہدوں کو دیکھتے ہیں تو اِن میں ملکی مفادات کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان حکومت ترکی‘ تھائی لینڈ‘ سنگاپور‘ ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ معاہدوں پر اِن دنوں نظرثانی کر رہی ہے۔
حالیہ چند برس میں پاکستان کی حکومت یا صوبائی حکومتوں نے بیرون ملک کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس سے اکیس کروڑ پاکستانیوں کو فائدہ ہو تو پھر ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کس کے ذمے ہے؟
پاکستان میں نہ صرف بجلی و گیس کی پیداوار مہنگے داموں ہو رہی ہے بلکہ درآمدات اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی قیمت پر سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں توانائی کے ذرائع خطے کے ممالک کے تناسب سے مہنگے ہیں اور مہنگائی توانائی کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔
پاکستانیوں کو ’ریکو ڈیک‘ منصوبے سے کیا حاصل ہوا؟ جواب یہ ہے کہ پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ قائد اعظم شمسی توانائی پیداواری منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 18.397میگاواٹ فی کلوواٹ مقرر کی گئی تو کیا یہ مہنگی بجلی پاکستان کے اقتصادی و صنعتی مسائل کا حل ہو سکتی ہے؟ اگر بھارت مائع گیس (ایل این جی) کے معاہدے پر نظرثانی کروا سکتا ہے تو یہی کام پاکستان کیوں نہیں کرسکتا اور ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین امام)