Sunday, December 31, 2017

TRANSLATION: National interest by Dr. Farrukh Saleem

National interest
قومی مفاد
ریکو ڈیک (Reko Diq): 1993ء میں (صوبہ) بلوچستان کی حکومت نے ’بی ایچ پی (BHP)‘ نامی ایک آسٹریلوی کان کن کمپنی سے معاہدہ کیا۔ جس کان کا معاہدہ کیا گیا اُس میں ایک اندازے کے مطابق 5.9 ارب ٹن تانبے (copper) اور 41.5 ارب اُونس سونے (gold) کے ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان حکومت نے معاہدے میں ’بی ایچ پی‘ کمپنی کو آمدنی میں 75فیصد حصہ داری دے دی جبکہ اِس سے حکومت کو رائلٹی (royalty) کی مد حاصل ہونے والی آمدنی صرف دو فیصد رکھی گئی۔

لمحۂ فکریہ: پاکستان عالمی عدالت برائے تنازعات (انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈیسپیوٹس) میں 11.5 ارب ڈالر جرمانے کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اِس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے معاملات کو شفاف نہیں رکھا۔ سوالات یہ ہیں کہ آخر پاکستان تین کھرب ڈالر کے منصوبے سے کیوں الگ ہوا؟ کیا بلوچستان حکومت کا یہ اقدام قومی مفاد میں تھا؟

سینڈک کاپر اینڈ گولڈ: سال 2002ء میں حکومت پاکستان کی ملکیت ’سینڈیک میٹلز لمٹیڈ‘ اُور ’میٹلرلوجیکل کارپوریشن آف چائنا‘ نے دس سال کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ سال 2012ء میں ختم ہوا اور اِسے 31 اکتوبر 2017ء تک توسیع دے دی گئی۔ اِس معاہدے میں مزید پانچ سال کے لئے موجودہ شرائط و قواعد و ضوابط کے مطابق ایک مرتبہ پھر توسیع کی گئی۔

لمحۂ فکریہ: جب وفاقی حکومت غیرملکی کمپنیوں سے خفیہ معاہدے کرتی ہے تو کیا ایسا کرنا قومی مفاد میں ہوتا ہے؟ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے چین کی ایک کمپنی کو پندرہ سال کے لئے ’بناء تعطل‘ کان کنی کی اجازت دی اور اس معاہدے کی رو سے پانچ سو ارب ڈالر مالیت کا تانبا اور سونا حاصل کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان نے اِس منصوبے سے کیا حاصل کیا؟ قائد اعظم سولر پاور (پرائیویٹ) لمٹیڈ نامی منصوبہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پنجاب حکومت نے چینی ’ٹی بی ای اے TBEA‘ شیان جینگ کمپنی لمٹیڈ کے ساتھ 100 میگاواٹ شمسی توانائی کے پیداواری منصوبے کا معاہدہ کیا اور اِس منصوبے کو بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

لمحۂ فکریہ: اُنیس مارچ دوہزار پندرہ کے روز ’نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 18.0397 روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی کا نرخ منظور کیا۔ قائداعظم سولر پاور پراجیکٹ پر لاگت قریب پندرہ لاکھ ڈالر فی میگاواٹ آئی۔ 10فروری 2017ء کے روز سوئیڈن کی ایک کمپنی ’’سولینرگی پاور‘‘ نے بھارت میں پاکستان ہی کی طرز پر شمسی توانائی کے ایک منصوبے کے لئے پیشکش دی کہ وہ پندرہ لاکھ ڈالر کی بجائے چھ لاکھ نوے ہزار ڈالر فی میگاواٹ کے حساب سے بجلی کا پیداواری منصوبہ مکمل کریں گے۔ کیا یہ بات اکیس کروڑ پاکستانیوں کے مفاد میں تھی کہ پنجاب حکومت نے چین کے ساتھ پندرہ لاکھ ڈالر فی میگاواٹ شمسی توانائی کا پیداواری منصوبہ دستخط کیا؟

چار اکتوبر دوہزار سترہ کے روز بھارت میں گیس فراہمی کے نگران ادارے نے آسٹریلیا اور قطرسے سستے داموں مائع گیس (ایل این جی) کی خریداری کے بعد امریکہ اور روس سے خریداری کے معاہدوں پر نظرثانی کی اور اِن ممالک سے قیمتیں کم کروائیں لیکن جب ہم پاکستان کے عالمی معاہدوں کو دیکھتے ہیں تو اِن میں ملکی مفادات کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان حکومت ترکی‘ تھائی لینڈ‘ سنگاپور‘ ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ معاہدوں پر اِن دنوں نظرثانی کر رہی ہے۔

حالیہ چند برس میں پاکستان کی حکومت یا صوبائی حکومتوں نے بیرون ملک کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس سے اکیس کروڑ پاکستانیوں کو فائدہ ہو تو پھر ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کس کے ذمے ہے؟
پاکستان میں نہ صرف بجلی و گیس کی پیداوار مہنگے داموں ہو رہی ہے بلکہ درآمدات اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی قیمت پر سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں توانائی کے ذرائع خطے کے ممالک کے تناسب سے مہنگے ہیں اور مہنگائی توانائی کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔

پاکستانیوں کو ’ریکو ڈیک‘ منصوبے سے کیا حاصل ہوا؟ جواب یہ ہے کہ پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ قائد اعظم شمسی توانائی پیداواری منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 18.397میگاواٹ فی کلوواٹ مقرر کی گئی تو کیا یہ مہنگی بجلی پاکستان کے اقتصادی و صنعتی مسائل کا حل ہو سکتی ہے؟ اگر بھارت مائع گیس (ایل این جی) کے معاہدے پر نظرثانی کروا سکتا ہے تو یہی کام پاکستان کیوں نہیں کرسکتا اور ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین امام)

Dec 2017: The injustices & security in Khyber Pukhtunkhwa!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سرِعام ظلم!
سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر معاملے میں عدالت کو ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سرکاری اِداروں نے اپنے قواعدوضوابط پر عمل درآمد کرنے کی بجائے زیادہ آسان حل یہ تلاش کر لیا ہے کہ مقدمات کی آڑ لیں اور یہ سارا معاملہ ’’خالص بدنیتی‘‘ کا ہے۔ جہاں کسی ادارے کو کاروائی کرنا ہوتی ہے تو وہاں اخبار میں شائع ہونے والی ایک ’سنگل کالم‘ کی خبر پر ایکشن لے لیا جاتا ہے لیکن جہاں معاملہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ ہو‘ وہاں معاملے کو حل کرنے کی بجائے طول دیا جاتا ہے بالکل اُس ہندکو محاورے کی طرح کہ ’’دل حرامی تے حُجتاں بہت۔‘‘

’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے قواعد کی رُو سے جس کسی ایک اِنتخابی حلقے میں اگر خواتین کی شرح پولنگ (ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب) ’10فیصد‘ سے کم سامنے آئے گی‘ تو اُس حلقے میں ہونے والے عام انتخابات کالعدم تصور ہوں گے اور دوبارہ پولنگ (ووٹنگ) کرائی جائے گی۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں اُور سول سوسائٹی کے نمائندے 10فیصد کے اِس پیمانے پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ پچاس فیصد یا کم سے کم پچیس فیصد ہونا چاہئے کیونکہ خواتین کی سماجی و معاشرتی حصہ داری اُور آبادی پچاس فیصد سے زیادہ ہے تو اُن کی رائے کا احترام بھی اُسی تناسب سے ہونا چاہئے لیکن یہاں بات منطق اَصول یا حفظ مراتب کی نہیں ہو رہی بلکہ ایک ایسے معاشرے کی ہو رہی ہے‘ جس سے متعلق فیصلہ سازی خالصتاً ایک خاص طبقے اور سوچ کی غلام بن گئی ہے۔ 

اُنتیس دسمبر کے روز پشاور ہائی کورٹ کے یک رکنی بینچ نے خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر ’شاہی خیل‘ میں خواتین کے پولنگ میں حصہ نہ لینے سے متعلق دائر مقدمے کی سماعت میں جہاں الیکشن کمیشن ‘ متعلقہ ریٹرنگ آفیسر‘ صوبائی وزیر مظفر سید اور کامیاب اُمیدوار گل حکیم خان کو حکم دیا کہ وہ خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کے حوالے سے اپنا اپنا مؤقف تحریری طور پر عدالت میں جمع کروائیں وہیں عدالت عالیہ نے اِس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ جب الیکشن کمیشن کے قواعد میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ جس کسی بھی حلقے میں خواتین کی پولنگ ’10فیصد‘ سے کم ہوگی‘ وہاں عام اِنتخاب کے سلسلے میں پولنگ دوبارہ کروائی جائے گی تو ایسا کرنے میں کیا اَمر مانع ہے اور کیوں؟ عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ درخواست بھی مسترد کر دی کہ مذکورہ حلقے میں انتخاب اَزسرنو منعقد نہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ باعث حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن خود نہیں چاہتا اُور سمجھتا ہے کہ اگر دوبارہ بھی پولنگ ہوئی تو وہاں کی خواتین حصہ نہیں لیں گی۔ 

سرعام ظلم نہیں تو کیا ہے کہ خواتین کو اُن کے حق سے محروم رکھنے کے لئے سیاسی و غیرسیاسی جماعتیں حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کی رائے بھی ایک جیسی ہے!

خیبرپختونخوا میں صرف وفاقی حکومت کے اِدارے ہی غلطیوں کا دانستہ ارتکاب نہیں کر رہے بلکہ ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں صوبائی حکومت بھی ’مجرمانہ غلفت‘ کی مرتکب ہو رہی ہے اُور ایک عرصے سے ’مالاکنڈ‘ میں پولیس کی عمل داری بحال کرنے جیسی اہم ضرورت اِلتوأ (سردخانے) کی نذر ہے۔ 

مالاکنڈ کی انتظامی حیثیت ’بی ڈسٹرکٹ‘ کی ہے‘ جہاں خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں کی طرح ’پولیس ایکٹ‘ کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہاں ’لیویز اہلکار‘ پولیس کے متبادل کے طور پر قانون کا اطلاق کر رہے ہیں لیکن اِس سے پیدا ہونے والی کئی ایسی آئینی‘ قانونی اور مالی بے قاعدگیاں‘ بے ضابطگیاں اور پیچیدگیاں ہیں جو فوری حل طلب ہیں۔ اگر ہم قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت کا رونا روتے ہیں تو قبائلی علاقوں کی طرح ہم نے بندوبستی علاقوں کو بھی امتیازی حیثیت دے رکھی ہے‘ آخر کیوں؟ 

مالاکنڈ میں امن و امان کے حالات ماضی کے مقابلے معمول پر آ چکے ہیں تو وہاں پولیس کی عملداری بحال ہونی چاہئے۔ سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ جب وہاں عدالتی نظام موجود ہے تو مالاکنڈ کو ’اے ڈویژن‘ کی حیثیت دی جانی چاہئے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ’لیویز‘ کو پولیس میں ضم کردیا جائے اور لیویز اہلکاروں کو پولیس تربیتی مراکز بھیجا جائے جہاں وہ پولیس کے نظام اور بالخصوص تفتیشی طریقۂ کار کو سیکھ سکیں۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ جب لیویز کے اہلکار کسی ’ایف آئی آر‘ پر اَنگوٹھا لگا کر تفتیش مکمل کرتے ہیں تو عدالت میں ایسے مقدمات چند سماعتوں کے بعد ہی خارج ہو جاتے ہیں۔ مالاکنڈ میں سیشن جج‘ ایڈیشنل سیشن جج‘ سینئر سول جج اُور ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنر موجود ہیں لیکن پولیس فورس کی عدم موجودگی کے باعث گوناگوں مسائل موجود ہیں۔ 

ضرورت اِس امر کی ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر حصوں کی طرح مالاکنڈ میں پولیس فورس بحال کی جائے۔ فی الوقت کم و بیش ’تین ہزار لیویز اہلکار‘ ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول ہیں‘ جو سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ ’’افسرشاہی (بیوروکریسی) اپنے اختیارات اُور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھنے کے لئے انتظامی اصلاحات کی راہ میں حائل سب سے بڑی (بنیادی) رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ دور ہونی چاہئے۔ تجویز ہے کہ تین ہزار اِہلکاروں پر مشتمل ’مالاکنڈ لیویز‘ کو پولیس فورس میں ضم کیا جائے اور اِن کے لئے خصوصی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ’لیویز اہلکاروں‘ کی ایک تعداد موجود ضرور ہوتی ہے لیکن اُن کی موجودگی تھانہ جات پر حاوی یا پولیس فورس کے نظام میں مداخلت نہیں ہوتی۔ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات بارے سوچا جائے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے۔ مالاکنڈ میں موجودہ لیویز کے بیس یا پچیس فیصد جوانوں کو ’ڈپٹی کمشنر‘ کے اختیار میں دیا جا سکتا ہے جس سے صاحب بہادر کی تسکین ہوتی رہے کیونکہ ’پولیس ایکٹ‘ لاگو نہ ہونے سے درپیش مشکلات عمومی نہیں۔ 

کیا صوبائی حکمران نہیں جانتے کہ مالاکنڈ میں منفرد انتظامی معاملات کی وجہ سے ملحقہ مالاکنڈ‘ مردان‘ چارسدہ اور پشاور ڈویژنوں پر کس قسم کا دباؤ ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کس طرح اِس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالاکنڈ میں پناہ لے لیتے ہیں جہاں پولیس کی عملداری نہیں۔ 

معاملہ بالکل پشاور سے ملحقہ ’درہ آدم خیل‘ جیسے علاقے کا ہے کہ جہاں کی ایک پٹی سے پولیس گزر تو سکتی ہے لیکن وہ وہاں امن وامان کے لئے خطرہ بننے والے عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کرسکتی! ہمارے حکمرانوں کو اَمیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قول اَزبر ہے کہ ’’حکومتی نظام کفر سے تو چل سکتا ہے ظلم سے نہیں‘‘ لیکن وہ گردوپیش پر نگاہ نہیں کرتے جہاں ’ظلم سرعام ہے۔‘ اگرچہ مالاکنڈ میں پولیس فورس کی عملداری بحال کرنا اِس بات کی ضمانت نہیں ہوگی کہ راتوں رات انصاف ہونے لگے گا لیکن کم سے کم خیبرپختونخوا میں ’یکساں پولیسنگ‘ ممکن ہو جائے گی۔ 

صوبائی حکومت کو سخت مزاجی اور اپنے اختیارات کا سختی سے استعمال کرتے ہوئے دامن پر لگے اِس داغ کو دھونا ہوگا کیونکہ ضروری نہیں کہ سارے داغ اچھے ہی ہوں!
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-12-31
http://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1514648118_201712308658.gif

Saturday, December 30, 2017

Dec 2017: Giyarveen Sharif - day to remember & revise the promise!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
’تجدید عہد‘ کا دن!
برس ہا برس سے معمول ہے کہ ۔۔۔ عالم اِسلام اُور پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا کے صدر مقام ’پشاور‘ میں بھی ’ماہ ربیع الثانی‘ کی ’گیارہ تاریخ‘ بطور ’’گیارہویں شریف‘‘ شریف پورے اہتمام اور مذہبی جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔ پشاور میں اِن ایام کی مناسبت سے خصوصی محافل (ختم غوثیہ) اُور لنگر (نذر و نیاز) کا سلسلہ ’’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘‘ (اَندرون یکہ توت گیٹ‘ کوچہ آقا پیرجان) میں ’ربیع الثانی کی چاند رات‘ (یکم) سے ’بارہ ربیع الثانی‘ کی نماز فجر تک جاری رہتا ہے جس میں ذکر و اَذکار کے حلقے بطور خاص منعقد کئے جاتے ہیں۔ 

گیارہ تاریخ (بڑی گیارہویں شریف) کے بعد سلسلۂ قادریہ سے وابستہ مرید (تصوف کے ماننے والے) گھر گھر محافل نعت و منقبت اور لنگر (طعام) کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ قادریہ کے علاؤہ دیگر سلسلہ ہائے تصوف (چشتی‘ نقشبندی اور سہروردی) سے وابستہ اکثر عقیدتمندوں کے ہاں ’محافل سماع (قوالی)‘ کے ذریعے ’حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (اسم گرامی: عبدالقادر۔ کنیت: اَبومحمد۔ لقب: محی الدین۔ ولادت اٹھارہ مارچ 1077 عیسوی۔ قصبہ جیلان (ایران)۔ وصال: پندرہ جنوری 1166 عیسوی بمطابق گیارہ ربیع الثانی 571ہجری‘ بغداد عراق)‘ کی ذات بابرکات سے تجدید عہد اُور اُن کی یادآوری سے فیوض و برکات کے روحانی ثمرات حاصل کئے جاتے ہیں۔ گیارہویں شریف کی مناسبت سے پشاور کی مرکزی تقریب آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ اندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر جان‘ ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے‘ جس کا ’’بنیادی مقصد‘‘ ساڑھے آٹھ سو برس سے زائد عرصہ قبل اِسلامی تاریخ کی بزرگ شخصیت اور سلسلہ قادریہ کے بانی پیرانِ پیرؒ کی تلقین و ارشادات اور شریعت و طریقت (تصوف) کے حوالے سے تعلیمات کی علمی اُور روحانی پہلوؤں پر عصری حالات (تقاضوں کے مطابق) روشنی ڈالی جائے۔ یاد رہے کہ سلسلۂ تصوف و طریقت میں بزرگان دین (اُولیاء اللہ) کے دنیا سے پردہ فرمانے کے ایام کو بطور ’عرس‘ منایا جاتا ہے۔ ’عرس‘ کے لغوی معنی ’’شادی‘‘ یعنی وصل کے دن چونکہ وہ اپنے مزاروں میں جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرتے ہیں‘ جو ’وصال محبوب‘ یعنی اپنے محبوب کے دیدار سے مسرت و شادمانی کی سبیل ہے‘ اِس لئے ہر سال مخصوص تاریخوں میں عرس یعنی ’خوشیاں‘ منائی جاتی ہیں۔

پشاور کے سرتاج روحانی گھرانے کے چراغ‘ پیرطریقت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے کہ ’’اِسلام میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب نہیں لیکن بیعت کرنے سے مراد یہی ہے کہ بندہ کسی (صاحب علم و عمل) کی پیروی (تقلید) کرے یعنی کسی ایسے شخص کی بیعت جو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو ماننے اور اُن پر مکمل عمل کرنے والا ہو کیونکہ عام لوگوں اِس قابل نہیں ہوتے کہ وہ قرآن وحدیث اور علوم اسلامیہ میں مہارت رکھیں‘ اِس لئے راہِ حق پر چلنے کے لئے اُنہیں کسی رہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص خود علم و عمل کے اُس بلند درجے پر فائز ہو کہ وہ تفہیمِ شریعت میں کسی کی ضرورت محسوس نہ کرے اور شریعت کے علمی اور عملی میدانوں میں بھی ماہر ہو تو ایسے بندے کے لئے تو ضروری نہیں کہ وہ کسی کی بیعت کرے لیکن اگر ضروری ہو تو بیعت (پیروی) اُس بندے یا جماعت کی کرنی چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے علمی اور عملی پہلوؤں سے کماحقہ آشنا اور درجہ کمال پر فائز ہو ہونے کے ساتھ ’صحیح العقیدہ‘ بھی ہو۔ اللہ تعالی‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ صحابہ کرام‘ اہل بیت اطہار اور سلف صالحین رضوان اللہ اجمعین کا ادب واحترام کرتا ہو اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ بیت سے مقصود تو بس یہی ہے کہ انسان کی بہتر تربیت و تعلیم اور انسانیت کے احترام پر مبنی ’’تعلیماتِ اسلامیہ‘‘ کو فروغ حاصل ہو اور اسلام کا پرچمِ بلند رہے۔

’گیارہویں شریف‘ کے اِہتمام میں چراغاں اُور بالخصوص بڑی گیارہویں شریف کے ایام میں مبارکبادوں کا تبادلہ پشاور کے معمولات اُور روایات کا حصہ ہے لیکن اِس خاص دن کی مناسبت سے اگر ’’سالانہ علمی و عملی محاسبہ‘‘ بھی کیا جائے کہ سلسلۂ قادریہ سے وابستگی کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ سلوک کی منازل طے ہوتی رہیں۔ مرید (طلب گار) اپنے باطن کی صفائی کی جانب دھیان بنائے رکھے اُور باطنی صفائی کے لئے صوفیائے کرام کے چار درجات پر عمل کر کے ہر مسلمان نہ صرف اپنے ظاہری نفس بلکہ باطن کا تزکیہ کرنے کے قابل ہو سکے۔ 

قبلہ مولوی جیؒ تقویٰ‘ احسان یا بہ الفاظ متعارف تصوف کا بنیادی کام ’’دلوں کی صفائی‘‘ بیان فرماتے تاکہ اخلاق (عمل) نکھر جائیں۔ تصوف ’اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال‘ ہے‘ جس کا سرچشمہ قرآن و حدیث اور جس کی اساس شریعت اسلامی کے اصول ہیں اور انہی کے ذریعے دل‘ کان‘ زبان‘ ناک اور ذہن کے ذریعے جو آلودگیاں در آنے کے بعد روح کی بیماری کا سبب بنتی ہیں‘ اُن کا علاج (تدارک) ممکن ہو سکتا ہے۔

سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’محبت‘ محبوب کی طرف سے دل میں پائی جانے والی تشویش‘ فکر اور مستقل وابستگی کا نام ہے جسے محبت ہو جائے اُس کے سامنے دنیا کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ محبت ایک نشہ ہے جس سے ہوش جاتے رہتے ہیں۔ عاشق اپنے حال میں ایسے محو رہتا ہے کہ اُسے اپنے محبوب کے مشاہدے اور خوشنودی کے سوأ کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ وہ ایسا بیمار ہو جاتا ہے کہ اپنے مطلوب (محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتا۔ وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاؤہ دنیا میں کچھ اُور نہیں چاہتا۔ کسی دنیاوی چیز کا طلبگار نہیں ہوتا اور اپنے محبوب (رب تعالیٰ) کے ذکر کے سوأ‘ اُسے کسی شے کی خواہش (حرص بھی) نہیں ہوتی۔ (بہجۃ الاسرار)۔‘‘ آپؒ کا فرمان ہے کہ ’’اللہ کی محبت کا ’عملی تقاضا‘ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادیا جائے۔ ہر گھڑی اُس کی رحمت طلب کی جائے اور کسی غیراللہ کی طرف (اُمید و آس کی) نگاہ نہ کی جائے اُور اِنسان اَندھوں کی مانند ہو جائے‘ جب تک کہ وہ ’’غیر اللہ‘‘ کی طرف دیکھتا (متوجہ) رہے گا‘ اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا۔ (فتوح الغیب)۔‘‘
۔

Friday, December 29, 2017

Dec 2017: Report on Kelash, Chitral by NCHR

chitral kalash Banner Graphics

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ثقافت: مٹتے نقوش!
حکومت پاکستان نے عالمی معاہدے (پیرس پرنسپل) کے تحت سال 2012ء میں قانون سازی (Act XVI) کے ذریعے ’’اِدارہ برائے تحفظ انسانی حقوق (نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس)‘‘ تشکیل دیا‘ جس کا بنیادی مقصد آئین کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے میں ریاست کے واضح کردار کے عملی اطلاق کی کوشش ہے۔ اِس خصوصی ادارے کے تحت شکایات درج کرانے کے لئے ویب سائٹ (nchr.org.pk) پر سہولت دی گئی ہے کہ کوئی بھی پاکستانی (بلاامتیاز اور بناء جنسی تفریق) کسی اِنسانی حق کی تلفی بارے میں اپنی شکایات درج کرا سکتا ہے یا حکومت پاکستان کواِس بارے مطلع کر سکتا ہے۔ اِس ادارے کی فعالیت بڑھانے پر تو بات ہوسکتی ہے لیکن اِس کے وجود کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں اور اگرچہ پاکستان نے عالمی معاہدے ہی کے تحت ایک ادارہ قائم کیا ہو لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی اپنی ضرورت بھی ہے اور اِس ادارے کو زیادہ خودمختاری‘ آزادی اور وسائل دے کر نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر بنائی جا سکتی ہے بلکہ پاکستان میں جن تہذیبی نقوش کو خطرات لاحق ہیں‘ اُن کی سرپرستی تو بہرحال کی جا سکتی ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق کے قیام کا مقصد‘ کارکردگی اور عزم کا بیان چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) علی نواز چوہان کے اِس جامع قول سے اَخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’’اِنسانی حقوق کا تحفظ بناء کوشش و محنت ممکن نہیں‘ جس کے لئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے اور اِس عملی جدوجہد میں قربانیاں دینے کا حوصلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے عمومی تصور دھندلا ہے۔ ہم اداروں سے کارکردگی کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور جب تک سماجی رویئے تبدیل نہیں ہوتے‘ اُس وقت تک صرف اداروں کے قیام سے بہتری نہیں آ سکتی۔

نیشنل کمیشن آف ہیومین رائٹس (اسلام آباد) نے ’کیلاش قبیلے‘ کے حوالے سے قریب پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل رپورٹ جاری کی ہے‘ جس میں خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کی تین وادیوں (رامبور‘ بمبوریت اُور بریڑ) میں آباد اُن تین ہزار افراد کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے جو حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے سبب شدید سماجی دباؤ میں ہیں اور اِس دباؤ کی وجہ سے وہ اپنا مذہب‘ رہن سہن‘ اُور ثقافت ترک کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں اِس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہتا ہے تو کسی دن کیلاش قبیلے کی ثقافت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ کیلاش قبیلہ اور اس کا تحفظ ایک حساس موضوع ہے جس کے بارے میں چترال سے باہر رہتے ہوئے بہت کچھ سوچا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں حکومتی اِدارے اور قوانین کا اثرورسوخ کمزور دکھائی دیتا ہے۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں اور اِس کی قدر بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسے گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں پر یقین رکھنے والے پھول اپنی مہک اور الگ شناخت سے ’اِسلامی نظریاتی‘ ملک کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کا قدیم ترین و زندہ ثقافت ’کیلاش (کیلاشہ)‘ کی‘ تو غلط نہیں ہوگا۔ سکندر اعظم کی افواج کے ہمراہ آنے والے اِس قبیلے کے لوگ اپنی صدیوں پرانی زبان اور رہن سہن کو اپنائے ہوئے ہیں‘ جنہیں مقامی افراد ’کافر‘ بھی کہتے ہیں‘ تاہم یہ لوگ کسی بھی مقامی یا غیرمقامی گروہ کے لئے خطرہ نہیں اور نہ ہی اِن کی وجہ سے کبھی امن و امان کی صورتحال پیش آئی ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق ’’ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے منسلک وادیوں (بشمول ضلع چترال) میں اسلام اُنیسویں صدی کے اختتام تک پوری طرح پھیل چکا ہوگا۔‘‘ 

تو کیا کیلاش اپنا وجود کھو دیں گے؟ 
یہ ایک مشکل سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے والے اُن حکومتی کوششوں کو دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جو کیلاش ثقافت کو بچانے کے لئے ہونی چاہئے۔ ایک ایسا قبیلہ جو اپنے حال میں خوش ہے اور خوش رہنا چاہتا ہے جو مذہبی رسومات‘ تاریخ اور ثقافت کے نقوش کو سینے سے لگائے گردوپیش میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثر سے خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں لیکن پہلے جیسا توانا نہیں رہا‘ اور جاری مزاحمت زیادہ عرصہ برقرار رہتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ بہت سے ایسے بیرونی دباؤ بھی ہیں جن کے سامنے آج کا کیلاش نوجوان بالخصوص لڑکیاں ہار مان رہی ہیں اور اگر مذہب کی تبدیلی کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو (اندیشہ ہے کہ) اِس سے باقی ماندہ تین یا چار ہزار کیلاشی لوگ بھی ختم ہو جائیں گے اور اُن کا ذکر صرف تاریخ کی کتب ہی میں ملے گا۔

’نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس‘ کی رپورٹ کا تیسرا باب ’زبردستی مذہب کی تبدیلی‘ سے متعلق ہے جس میں کیلاش قبیلے کے بزرگوں سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مذہب کی تبدیلی کے لئے کیلاش قبیلے پر زور زبردستی نہیں کی جا رہی لیکن نوجوان سیاسی و سماجی ترقی کے مواقعوں سے مستفید ہونے کے لئے اپنے ماضی سے ناطہ توڑ رہے ہیں۔‘‘ اِس رپورٹ کا یہ بیانیہ کیلاش مذہب و ثقافت ترک کرنے والوں سے متعلق لاتعداد صحافتی رپورٹوں کے برعکس نتیجۂ خیال ہے لیکن بہرصورت یہ ذمہ داری حکومت پاکستان ہی کی بنتی ہے کہ آئین کی متعدد شقوں بالخصوص آرٹیکل اٹھائیس کے تحت غیرمسلم اقلیتوں اور ثقافتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور انہیں زندہ رکھنے والوں کے حقیقی تحفظات دور کرے۔ 

رپورٹ میں جن بنیادی موضوعات کو شامل کیا گیا ہے اُن میں اراضی کے تنازعات اور تعلیم سے متعلق بنیادی حقوق شامل ہیں تاہم رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ بیس سفارشات ہیں جو مختصر اور طویل المدتی ابواب میں الگ الگ تقسیم کرتے ہوئے آغاز کلام ہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ کیلاش مذہب و ثقافت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات اور اِس سلسلے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔ اِن سفارشات میں نہایت ہی باریک نکات کو بھی شامل کیا گیا‘ جو رپورٹ تحریر کرنے والوں کی محنت اور دیانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے تہوار اور فصل کاشت کرنے جیسے خصوصی ایام اپنے خاص کلینڈر (حساب) کے مطابق منایا کرتے تھے لیکن حکومت کی جانب سے اُن پر پابندی عائد کرکے تہواروں کے لئے سال کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ 

کمیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ماضی کی طرح کیلاش قبیلے کو اختیار واپس دیا جائے کہ وہ اپنے تہواروں کی تاریخوں کا چناؤ خود کریں۔ کیلاش لوگوں اور حکومت کے درمیان اراضی کے تنازعات بھی سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں اور جن جنگلات یا وادیوں پر کیلاش لوگ ملکیت کے دعویدار ہیں اُن سے متعلق حکومت اگر لچک کا مظاہرہ کرے اور کیلاش قبیلے کے تحفظات دور کئے جائیں تو اِس سے یقیناًصدیوں پرانے رہن سہن‘ بودوباش اور روایات کے باقی ماندہ آثار و نقوش کو مٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-12-29

Thursday, December 28, 2017

Dec 2017: Sugar Mafia hold over the commodity & farming!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’ ۔۔۔’مالیاتی دہشت گرد!‘
نصاب تعلیم کا حصہ ہے کہ ’’پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘ لیکن اِس حقیقت پر خاطرخواہ یقین اور اعتماد تو دور کی بات ’زرعی شعبے کی ترقی‘ میں پنہاں اِمکانات اُور غذائی خودکفالت جیسے کثیرالجہتی ثمرات بھی پیش نظر نہیں رہے۔ 

زرعی ملک‘ زرعی معیشت ومعاشرت‘ زرعی اقتصادی نظام‘ زرعی انحصار‘ زرعی منڈیاں‘ زرعی پیداواری عوامل‘ زرعی روزگار کے مواقع اور زرعی توسیع و تحقیق جیسے جملہ متعلقہ شعبے خاطرخواہ توجہ چاہتے ہیں۔ زراعت کے بارے ہمیں کسی مظالطے یا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اِس حقیقت کے کماحقہ ادراک کے لئے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کا تجاہل عارفانہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ جو دل کے اندھے ہیں‘ جنہیں توانائی بحران کی موجودگی میں ماحولیاتی و موسمیاتی منفی تبدیلیوں کا باعث بننے والی ’صنعتی ترقی‘ زیادہ پائیدار دکھائی دیتی ہے۔ 

زراعت کی سرپرستی چھوٹے کاشتکاروں اور زمینداروں کے لئے مراعات دینے سے ممکن ہے لیکن حکومت سطح پر رعائت (سبسڈی) کا بڑا حصہ صنعتوں جیسا کہ ’شوگرملز‘ کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے لیکن اُن محنت کشوں کا ضامن اور سرپرست بننے کے کوئی تیار نہیں‘ جنہیں بلاسود یا آسان شرائط پر قرضہ جات اِس لئے نہیں ملتے کہ اُن کی جان پہچان نہیں ہوتی۔ آج کھیتوں میں کام کرنے والوں کو اگر روزگار میسر نہیں تو اِس کا سبب وسائل کی غلط تقسیم اور سرکاری سطح پر غلط فیصلے ہیں کیونکہ جس محنت کش کو اعزاز ملنا چاہئے وہ راندۂ درگار ہے۔ جنہوں نے غذائی خودکفالت عملاً ممکن بنانے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر رکھا ہے‘ اُسی کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جارہا تو یاد رہے کہ ’’حکومتیں کفر سے تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے نہیں!‘‘

کراچی سے پشاور تک ’گنے کے کاشتکار‘ سراپا احتجاج ہیں کیونکہ شوگر ملوں نے پہلے گنے کی فصل خریدنے سے انکار کیا اور بعدازاں اُس کی قیمت بھی خود ہی مقرر کی‘ جن سے فصل کی کاشت (پیداواری) اور نقل و حمل پر اُٹھنے والے اخراجات ہی کی ادائیگی بمشکل ممکن ہو پاتی ہے۔ ’پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن‘ کا مؤقف ہے کہ اُن کے پاس پہلے ہی پچاس فیصد سے زائد گنے کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ ملک کی سالانہ ضروریات کے لئے درکار گنے کی مقدار 120 روپے فی 40 کلوگرام سے زیادہ نہیں خریدی جائے گی۔‘‘ یاد رہے کہ مالی سال 2017ء کے پنجاب‘ سندھ اور خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومتوں نے گنے کی اُس امدادی ’قیمت خرید‘ کو برقرار رکھا تھا‘ جو مالی سال 2015ء میں طے (مقرر) کی گئی تھی۔ یہ قیمت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لئے 180 روپے‘ سندھ کے لئے 182 روپے فی چالیس کلوگرام تھی جبکہ حکومت نے شوگرملز کے لئے دس روپے ستر پیسے فی کلوگرام سبسڈی (رعائت) دینے کا بھی اعلان کیا تھا‘ جو تین مراحل میں ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے والوں کو دی جائے گی تاکہ وہ عالمی منڈی میں چینی کی قیمتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

پاکستان میں کاشتکاروں کی قسمت اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی‘ جب تک ہر شعبے کی طرح شوگر ملوں کی ملکیت اُن بااثر شخصیات کے نام رہے گی‘ جن کی فیصلہ سازی اور کاروباری و ذاتی مفادات آپس میں متصادم ہیں۔ شریف اور زرداری (بھٹو) خاندان بالترتیب پنجاب اور سندھ کی پچاس فیصد سے زائد شوگر ملوں کے مالک ہیں جبکہ باقی ماندہ شوگر ملوں میں سے بھی اکثر سیاست دانوں یا اُن کے اہل خانہ کی ملکیت ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقات کی طرح شوگر ملز مالکان اپنی آمدن کا ایک خاص حصہ قومی سیاست کے لئے مختص رکھتے ہیں اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے فیصلہ سازی کے اُس عمل کو یرغمال (ہائی جیک) کئے ہوئے ہیں‘ جس کے ذریعے چھوٹے کاشتکاروں‘ زمینداروں‘ مزدوروں‘ محنت کشوں اور صارفین کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے۔ المیہ ہے کہ بہرصورت برسراقتدار حکمراں خاندانوں کی کھلم کھلا ’مالیاتی اجارہ داری‘ درحقیقت ’مالیاتی دہشت گردی‘ ہے‘ جس کا ادراک ہونے کے باوجود بھی عام آدمی (ہم عوام) اُنہی سیاست دانوں کو مرکز نگاہ و یقین بنائے ہوئے ہیں‘ جن کے ’قول و فعل‘ تضادات کا مجموعہ ہیں۔ بھلا ایسے حکمران پاکستان اور پاکستانیوں کے کیا کام آ سکتے ہیں جنہوں نے اپنے اثاثے‘ اہل و عیال اور سرمایہ کاری بیرون ملک محفوظ کر رکھے ہوں!؟ 

معلوم آمدن سے بڑھ کر اثاثہ جات کے علاؤہ مالی بدعنوانی میں ملوث ہمارے حکمرانوں کے کرتوت صرف پانامہ پیپرز ہی کے ذریعے منظرعام پر نہیں آئے بلکہ یورپ‘ اَمریکہ‘ خلیجی ریاستوں بشمول متحدہ عرب اَمارات میں جائیدادوں (ریئل اسٹیٹ) کی خریدوفروخت کرنے والوں میں بھی (الحمدوللہ) سرفہرست پاکستانی ہی ہیں‘ جو یہاں سے کمانے اور ٹیکس چوری کے عادی ہیں لیکن نہ تو پاکستانی قوانین و قواعد کے مطابق (حسب آمدن) ٹیکس اَدا کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستانی قوانین کا احترام کرتے ہیں!

انسداد دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ ہر سطح پر ’’سیاسی و غیرسیاسی‘‘ حکمران‘ تجزیہ کار‘ محقق‘ دانشور اور سرکاری اہلکار عام آدمی (ہم عوام) کو یقین دلاتے ہیں کہ داخلی و خارجی محاذوں پر پاکستان کو درپیش چیلنجز زیادہ گھمبیر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشی و اِقتصادی دہشت گرد‘ جو پاکستان کے زرعی شعبے کو مسلسل ڈس رہے ہیں‘ اُن کا سر کچلے بغیر کسی بھی محاذ اور مرحلے پر کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ پاکستان کے ’’اَن دیکھے‘‘ دشمنوں کے عزائم تو معلوم ہیں لیکن دوستوں کے بھیس میں دشمنوں (آستین کے سانپوں) سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے‘ جو مسلسل ڈس بھی رہے ہیں اور احسان بھی کر رہے ہیں۔ ’’عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا ۔۔۔ میں مطمئن ہوں‘ میرا دل تیری پناہ میں ہے!‘‘
۔

Wednesday, December 27, 2017

Dec 2017: Roshan Pakistan - Android App

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
روشن پاکستان!
طرزحکمرانی کی اصلاح ہی ملک میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے‘ جس میں کم خرچ ’اِی گورننس‘ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ خوش آئند ہے کہ ’(وفاقی) وزارت برائے توانائی‘ کے ’پاور ڈویژن‘ نے ایک ’موبائل فون ایپلی کیشن‘ تخلیق کی ہے‘ جس کی رونمائی ’چھبیس دسمبر (دوہزارسترہ)‘ کے روز کی گئی اُور اِس ’’موبائل فون سافٹ وئر‘‘ کو ’’روشن پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بال کی کھال اُتارنے کی ضرورت نہیں کہ آج کا پاکستان کتنا روشن ہے؟ اور کیا کسی موبائل فون سافٹ وئر کی تخلیق سے ملک میں جاری بجلی کی کمی دور ہو جائے گی؟ حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اُنہی علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں اِس کی چوری زیادہ ہو‘ لیکن کیا بجلی چوری رپورٹ کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقۂ کار (آپشن) وضع کیا جا سکتا ہے‘ جسے استعمال کرنے والوں کے لئے اپنی شناخت خفیہ رکھنا ممکن ہو اور بجلی چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے خود کو محفوظ بھی سمجھیں؟ 

فی الوقت یہ بات بھی غنیمت ہے کہ بجلی کی تقسیم کار اور منتظم دس کمپنیوں (واپڈا‘ لاہور الیکٹرک‘ گوجرانولہ الیکٹرک‘ فیصل آباد الیکٹرک‘ اسلام آباد الیکٹرک‘ پشاور الیکٹرک‘ حیدرآباد الیکٹرک‘ سکھر الیکٹرک‘ کوئٹہ الیکٹرک‘ ٹرائبل ایریاز الیکٹرک سپلائی کمپنی) کے صارفین کی پریشانیوں اور بنیادی ہی سہی لیکن سہولیات فراہم کرنے کا کسی کو تو خیال آیا۔ بھلے ہی ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ سے پاکستان روشن نہ ہو لیکن اِسے اَندھیروں میں رکھنے کے اُوقات تو ’کم سے کم‘ معلوم ہو ہی جائیں گے اُور یہ بھی کسی غنیمت سے کم نہیں۔ مثال کے طور پر صارفین اپنے ہاں خوشی یا غم کی تقریب کے لئے اُوقات کا تعین کرنے میں اِس ’سافٹ وئر‘ کی مدد لے سکتے ہیں اُور بجلی کی فراہمی کے اُوقات کے مطابق معمولات طے کر سکتے ہیں لیکن اِس بات کی ضمانت (گارنٹی) کون دے گا کہ دیئے گئے اُوقات کار حتمی (قابل بھروسہ) ہوں گی!؟ 

’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ تمام سمارٹ فونز جن میں ’اینڈرائڈ (Android)‘ اُور ’آئی اُو ایس (iOS)‘ آپریٹنگ سسٹمز شامل ہیں پر پر اِستعمال کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اِس کے لئے انٹرنیٹ (ڈیٹا کنکشن یا وائی فائی نیٹ) سے منسلک ہونا لازمی (ضروری) ہے۔ سافٹ وئر کو محدود رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے جس کے ذریعے کسی بھی صارف کو بلاقیمت اور کسی بھی وقت چار بنیادی سہولیات (معلومات) فراہم کی جاتی ہیں۔ 1: کسی بھی علاقے میں لوڈشیڈنگ کا شیڈول (معمولات) کیا ہیں؟ 2: متبادل ماہانہ بجلی بل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 3: نیٹ میٹرنگ (استعمال شدہ بجلی) کے بارے معلومات اور 4: بجلی کی فی یونٹ قیمت کی بنیاد پر اوسط ماہانہ بل حاصل کرنا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ کام بناء متعلقہ تقسیم کار دفتر کا دورہ کئے بناء ممکن نہیں ہوتا تھا۔

وزارت توانائی کے ذیلی اِدارے ’پاور اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی (لاہور)‘ کا تخلیق کردہ یہ پہلا سافٹ وئر نہیں بلکہ اِس سے قبل ’بجلی میٹر ریڈنگ‘ بذریعہ اینڈرائڈ موبائل فون جیسے ’انقلابی سافٹ وئر‘ سے یوٹیلٹی بلز بارے صارفین کی بڑی شکایت کا اَزالہ ہو چکا ہے اور عموماً میٹرریڈرز جس انداز میں گھر بیٹھے خرچ ہونے والے بجلی یونٹس کا اندراج کر دیا کرتے تھے یا کسی سب ڈویژن میں بجلی کے چوری شدہ یونٹ پورا کرنے کے لئے صارفین کے بلوں میں یونٹس کا اضافہ کرنا ایک معمول ہوا کرتا تھا تو اب یہ شکایات ممکن نہیں رہیں کیونکہ ہر صارف پر اُس کے میٹر کی ریڈنگ سے متعلق تصویر پرنٹ ہوتی ہے۔ ’روشن پاکستان ایپ‘ کے ذریعے اگر صارفین کو اپنے بجلی میٹروں کی تصاویر اِرسال کرنے کی سہولت بھی دے دی جائے تو اِس سے اُن شکایات کی ’داد رسی‘ ہوگی‘ جن کے بلوں پر تصاویر (پرنٹنگ کی وجہ سے) پڑھنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ 

اِسی طرح ماہانہ بل کی اقساط کروانے اور آخری تاریخ کے بعد جمع کئے جانے والے بلوں کا مرکزی ڈیٹابیس میں اندارج کرنے کی سہولت ہونی چاہئے۔ بجلی کے نئے کنکشن کی درخواست ‘ کنکشن عارضی یا مستقل معطل کرنے اور صارف کے کوائف میں تبدیلی کے بارے میں سہولیات اور طریقۂ کار بارے معلومات بھی اگر آن لائن فراہم کر دی جائیں تو اِس سے متعلقہ دفاتر سے رجوع کرنے والے صارفین کے دباؤ میں نمایاں کمی آئے گی۔

پاکستان میں ’بجلی کا ترسیلی نظام‘ سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ اِس بارے میں ’قومی سطح پر جائزہ‘ ضروری ہے۔ بجلی کی بوسیدہ تاریں نہ صرف برقی رو کی ’بلارکاوٹ ترسیلی مراحل‘ کی راہ میں حائل رہتی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں بالخصوص جب ہم خیبرپختونخوا کے شہری اُور بالائی علاقوں کی بات کرتے ہیں جہاں موسم سرما میں شدید برفباری‘ مٹی کے تودے گرنے اور موسم گرما میں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ بارشیں اور اِن سے پیدا ہونے والے سیلاب یا ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوتی ہے‘ جس کا پہلا منفی اثر بجلی کی فراہمی پر مرتب ہوتا ہے۔ 

بجلی کا نظام یوں تو سارا سال ہی کسی نہ کسی صورت متاثر (کمی بیشی کا شکار) رہتا ہے لیکن ایسے علاقوں کے بجلی صارفین کو بالخصوص بذریعہ ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ حکام تک رسائی دی جاسکتی ہے جو برقی رو کی کمی نہیں بلکہ ترسیلی نظام کی بوسیدگی کے باعث مشکلات سے دوچار ہیں۔ 

وزارت توانائی کو چاہئے کہ وہ خیبرپختونخوا میں ’بجلی کے ترسیلی نظام‘ کی وسعت و اصلاح کے لئے بھی کچھ مالی وسائل مختص کرے۔ بطور خاص ’جاری میگا ترقیاتی منصوبوں‘ کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں بجلی کا ترسیلی نظام جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جارہا جیسا کہ پشاور کی میٹرو بس (ریپیڈ بس ٹرانزٹ ’آر بی ٹی‘) کے لئے بجلی کے کھمبوں کو اکھاڑ کر دوبارہ ننگی تاریں آہنی کھمبوں پر آویزاں کر دی گئی ہیں۔ 

گھنٹہ گھر سے گورگٹھڑی (تحصیل) تک ’ہیرئٹیج ٹریل‘ کے لئے بھی ’بجلی کی تاریں بصورت جال (گھچے) بڑا چیلنج ہیں جبکہ مسجد مہابت خان سے متصل صرافہ بازار اُور اندرون شہر کے جملہ گلی محلے‘ کوچے اور تجارتی مراکز میں بجلی کے ’اڑھے ترچھے‘ تار ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)‘ کی کارکردگی (سوچ بچار) کا منہ بولتا ثبوت ہیں! اگر ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ کے ذریعے بجلی صارفین کی شکایت اُور تاثرات (فیڈ بیک) حاصل کرنے کی سبیل بھی مہیا کر دی جائے تو اِس سے بناء کسی اضافی خرچ یا کوشش گرانقدر معلومات (ڈیٹا) حاصل کیا جا سکے گا۔

بجلی کے وہ صارفین جو سمارٹ فونز‘ انٹرنیٹ اور اِی میل سے لیس ہیں‘ اُنہیں پرنٹ شدہ بل اِرسال کرنے کی بجائے الیکٹرانک بلوں کی ترسیل سے کروڑوں کی بچت الگ سے ممکن ہے۔ ’اِی گورننس‘ کا اطلاق جس قدر زیادہ اور جس قدر وسیع پیمانے پر کیا جائے گا‘ اِس سے اُتنے ہی ماحول دوست مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
۔۔

Monday, December 25, 2017

Dec 2017: Remembering Quaid e Azam - founder of Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قائد اعظمؒ : اظہار عقیدت!
بانئ پاکستان‘ بابائے قوم اُور قائد اعظمؒ جیسے جلیل القابات ’’محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش: 25 دسمبر 1876ء۔ وفات: 11 ستمبر 1948ء)‘‘ کی عملی زندگی‘ سیاسی جدوجہد اُور خداداد (شخصی) صلاحیتوں کا ’جامع تعارف‘ نہیں بلکہ پشاور سے اُن کی محبت کا ایک جیتا جاگتا مَظہر اور مُظہر ’اسلامیہ کالج‘ کی صورت یادگار بھی ہے جو آج ’پچیس دسمبر‘ کے روز بالخصوص ’دعوت (صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے)‘ دے رہی ہے کہ قائداعظمؒ کی ذات و فلسفے کو صرف نصابی اَسباق اور اُن کی یاد میں مخصوص ایام کے سانچوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُن کے اقوال و افعال کا گہرائی سے مطالعہ اور ’تدبر و تذکر‘ کیا جائے کہ آج کی تاریخ میں جبکہ ہر شعبے میں اغیار کی حکمرانی قائم و دائم ہو رہی ہے تو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ’’قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے رہنما اَصول کیا ہونے چاہیئں؟‘‘ 

قائد اعظمؒ نے جس عملی انداز میں شعبۂ تعلیم (درس وتدریس) کو پیش نظر رکھا‘ کیا پاکستان کی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اُس بلند معیار کے کم سے کم درجے پر بھی پوری اُترتی ہیں؟ قائد اعظمؒ نے وطن سے محبت کو ’’بے جان حلف ناموں‘‘ کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ ذاتی اثاثہ جات تعلیمی اِداروں کے نام وقف کر کے (درحقیقت) تلقین کی ہے کہ ہمیں نہ صرف قومی وسائل بلکہ ذاتی سرمایہ بھی اگر کسی چیز کے لئے وقف کرنا پڑے تو وہ تعلیم ہوگی‘ جس میں ’’ملک و ملت کا اِرتقاء‘ ترقی اُور بقاء‘‘ جیسے عروج (راز) پوشیدہ ہیں۔

پچیس دسمبر‘ آج پاکستان قائد اعظمؒ کی ’’142ویں‘‘ سالگرہ (جنم دن) منایا جا رہا ہے اور ایک روایت (رسم) رہی ہے کہ اِس دن کی مناسبت سے قومی سطح پر ’عام تعطیل‘ ہوتی ہے‘ حالانکہ یہ دن چند گھنٹے اضافی کام کرنے کا ہے۔ 

سرکاری سطح پر تقاریب کا انعقاد ایک معمول بن چکا ہے اور جہاں جہاں سرکاری وسائل مہیا (دستیاب) ہوں وہاں وہاں سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ’قائد اعظمؒ ‘ کی ذات کو ’خراج عقیدت‘ پیش کرنے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں‘ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس گرامی ذات کو کسی ایسی ’’اندھی عقیدت‘‘ کی قطعی کوئی ضرورت (حاجت) نہیں جس میں اُس کے پیغام‘ تعلیمات اور مقصد کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ یاد دہانی اور یاد آوری کے لئے ایسی تقاریب کا انعقاد اپنی جگہ ایک ’’شعوری کوشش (تصور)‘‘ تو ہو سکتی ہیں کہ قوم اور قوم کی قیادت کرنے والوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر بیدار کیا جائے لیکن یہ عمل کافی نہیں۔ 

تجدید عہد کی گھڑی ہے کہ قائد اعظمؒ کو دل سے ’’قائد‘‘ تسلیم کرتے ہوئے اُن کی فراموش تعلیمات و اسباق پر پڑی تہہ در تہہ ۔۔۔ بے حسی و خودغرضی‘ لالچ و فریب اور بدعنوانی (کرپشن) کی گرد جھاڑ دی جائے گی۔

قائد اعظمؒ جب کبھی بھی پشاور تشریف لائے اُنہوں نے اپنی فرصت نہیں بلکہ مصروفیات میں ’اِسلامیہ کالج‘ کو شامل رکھا۔ تاریخی طور پر اُن کی اِسلامیہ کالج کے معلوم تین دورے بالترتیب 1939ء‘ 1945ء اُور 1948ء میں ہوئے لیکن وہ بناء تقاریب و اہتمام بھی اِس اہم درسگاہ آتے رہے اور کچھ عجب نہیں کہ آج بھی اُن کی روح اسلامیہ کالج میں ہونے والی اُن خصوصی تقاریب کا حصہ بن کر مسرور ہو کہ اُن کے تحائف کی قدر کی گئی اُور اُن کا پیغام عام کرنے میں پشاور کا ’اسلامیہ کالج‘ آج بھی کلیدی (لانچ پیڈ جیسا) کردار اَدا کرسکتا ہے‘ جو یقیناًوقت کی ضرورت ہے۔ قائد اعظمؒ کی توجہ پاکستان کے ’شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقہ جات) کی جانب ’دل کو دل سے راہ‘ کی عکاس تھی۔ کوچہ آقا پیر جان (اندرون یکہ توت) پشاور کا سرتاج سادات گھرانہ‘ شروع دن سے مسلم لیگ کے ہراوّل دستے کا حصہ رہا‘ جن کی ضخیم سیاسی خدمات کا احاطہ کسی مضمون میں الگ سے ہونا چاہئے تاکہ پشاور کو اُس کے ماضی اور محسنوں سے روشناس کرایا جاسکے۔ 

بہرحال قائد اعظمؒ 1913ء سے ’(آل انڈیا) مسلم لیگ‘ کا حصہ بنے لیکن یہ جماعت 1886ء میں ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے طلبہ تحریک کی ترقی یافتہ اور منظم شکل تھی جو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے 1930ء میں باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری۔ اِس کے بانئ اراکین میں خواجہ سلیم اللہ‘ وقار الملک‘ خان بہادر غلام‘ مصطفی چوہدری‘ سید امیر علی اور سید نبی اللہ کے مشن آگے بڑھانے کے لئے 30 دسمبر 1906ء بمقام ’’ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش)‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کے رہنماؤں میں قائد اعظمؒ ‘ اے کے فضل حق‘ حسین شہید سہرودی‘ سر فیروز خان نون‘ خواجہ ناظم الدین‘ لیاقت علی خان‘ خلیق الزمان اور محمد علی بوگرہ شامل تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ’مسلم لیگ طلوع ہوئی اور غروب ہو گئی!‘ جبکہ اِس کا نام استعمال کرنے والی مختلف النظریات سیاسی جماعتیں (دھڑے) پاکستان‘ بنگلہ دیش اُور بھارت میں وجود تو رکھتے ہیں لیکن معنویت نہیں۔ 

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قیام پاکستان (14اگست 1947ء) کے روز جب ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ تحلیل ہوئی تب اُن کی نظریاتی اَساس بھی جاتی رہی۔ پاکستان کی سطح پر مطالعہ کریں تو موقع پرست سیاست دان ’مسلم لیگ‘ کے نام سے فائدہ اُٹھاتے رہے‘ جنہیں پہچان ملی‘ عزت ملی‘ اقتدار و اختیار ملا‘ لیکن اُنہوں نے ’’قائداعظمؒ کے نظریات اور عمل سے ثابت تعلیمات کا احیاء‘‘ نہیں کیا اور آج ’بمعہ اہل خانہ‘ عدالتوں میں مالی بدعنوانی جیسے سنگین و شرمناک الزامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ 

قائداعظمؒ کی اِس سے بڑھ کر توہین نہیں ہوسکتی کہ اُن کے نام اور نظریات سے خود کو منسوب کرنے والے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ پانچ براعظموں میں ظاہری اثاثے اور سرمایہ کاری رکھنے والی آج کی حکمراں ’مسلم لیگ (نواز)‘ عدالتوں کے سامنے اپنی ’’حیثیت سے بڑھ کر مالی حیثیت‘‘ کے دستاویزی شواہد پیش کرنے کی بجائے خود کو ’’سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ قرار دے رہی ہے! تاریخ سوال رہے گی کہ ’نوازلیگ‘ قائداعظم کو منہ دکھانے کے لائق ہے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کے اَصولوں پر کوئی ایک بھی ’مسلم لیگ‘ عوامی لیگ یا انڈین یونین مسلم لیگ‘ کاربند نہیں اور نہ ہی مسلم لیگ کا نام استعمال کرنے والی جماعتیں ہی ’’قائداعظمؒ شناسی‘‘ کو (آج کی تاریخ میں) ضروری سمجھتی ہیں! الگ الگ سیاسی و انتخابی منشور اُور اہداف اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اگر کسی ایک بات پر آج کی تاریخ میں سب سے کم غور ہوا ہے۔ اگر کسی ایک اثاثے کی سب سے کم حفاظت کی گئی ہے تو وہ بصورت ’’پاکستان‘‘ قائد اعظمؒ کے وہ نظریات ہیں‘ جس میں ’درس وتدریس (علوم و فنون کے حصول)‘کو مرکزی‘ کلیدی و بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ 

لب لباب (خلاصۂ کلام) یہ ہے کہ ’’پاکستان پر یقین‘‘ اُور ’’پاکستان میں یقین‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ کیا ہم قائداعظمؒ کے علاؤہ کسی دوسرے ایسے رہنما کا نام جانتے ہیں‘ جس نے اپنے اثاثہ جات (میراث) درس و تدریس کے لئے وقف کر دی ہو؟
۔

Sunday, December 24, 2017

Dec 2017: Examples of bad governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سزاوار پشاور کیوں؟
سیاست دانوں کے منہ سے اکثر نکلنے والے جملوں میں جہاں جمہوریت‘ جمہوری عمل‘ جمہوری اِداروں کے تحفظ کی تکرار ملتی ہے وہیں قانون ساز ایوانوں (پارلیمینٹ) کی بالادستی اُور خودمختاری پر آنچ نہ آنے دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک بھی ایسی منتخب حکومت نہیں آئی جس نے پارلیمینٹ کے فیصلوں کو صوابدیدی اختیارات سے بدلنے کی کوشش نہ کی ہو بلکہ ہر سیاسی (منتخب) حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں صوابدیدی اختیارات میں اضافہ کرے چاہے اِس سے پارلیمینٹ کو کتنی ہی سبکی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ 

مثالیں موجود ہیں کہ ماضی و حال کے وزرائے اعلیٰ نے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کرتے ہوئے اپنے منصب‘ ذمہ داریوں اور سب سے بڑھ کر خیبرپختونخوا کے عام آدمی (ہم عوام) سے اِنصاف نہیں کیا بلکہ اِس بات کو زیادہ اہم سمجھا کہ اپنے اپنے آبائی حلقوں (علاقوں) کو ترجیح دی جائے۔ یہ معاملہ (سیاسی بدنیتی) عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں زیرسماعت (زیرغور) آئی تو ضمنی طور پر اِس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کسی طرح ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ (درست) تقسیم کا کوئی ایسا (عادلانہ) طریقۂ کار (فارمولہ یا پیمانہ) وضع کر دیا جائے جس کے بعد کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہ رہے کہ وہ صوابدیدی اختیارات کے بل بوتے پر پسماندہ اور بالخصوص دور دراز کے اضلاع کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔ بائیس دسمبر کے روز پشاور ہائی کورٹ نے اِس بات کو ’’غیرقانونی‘‘ قرار دیا کہ صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی سالانہ ترقیاتی حکمت عملی (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام ’اے ڈی پی‘) میں شامل کسی ایک بھی منصوبے کو ختم کیا جا سکے۔ اگر کوئی ترقیاتی منصوبہ ایک مرتبہ ’اے ڈی پی‘ میں شامل ہو جائے تو اُس کے لئے مختص مالی وسائل کسی بھی صورت نہ تو روکے جا سکیں گے اور نہ ہی اُسے کسی دوسرے ترقیاتی منصوبے سے تبدیل کیا جا سکے گا۔ عدالت کی جانب سے واضح احکامات ہیں کہ وزیراعلیٰ (خیبرپختونخوا) سمیت کسی بھی صوبائی وزیر یا محکمے کے نگران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی اسمبلی سے منظوری کے بعد اپنے صوابدیدی اختیارات کے ذریعے اُن میں ردوبدل کرسکے! 

جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس محمد غضنفر خان کا یہ واضح حکم رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ آفریدی کے دائر کردہ مقدمے کی سماعت کے بعد ’تفصیلی فیصلے‘ میں لکھا گیا ہے‘ جو عدالت کی ویب سائٹ پر تاحال جاری نہیں ہوا اُور اُمید ہے کہ پہلی فرصت میں معاون عملہ اِسے جاری (اَپ لوڈ) کر دے گا۔ یوں تو ہر عدالتی فیصلہ ہی اہم اور لائق مطالعہ ہوتا ہے لیکن ’پشاور سے متعلق یہ فیصلہ یقیناًپورے خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں کے لئے ’رہنما اصول‘ ثابت ہوگا‘ جس سے سیاسی بددیانتی کے ایک ایسے دور (حاکمیت) کا اختتام ممکن ہوگا‘ جس کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز انتخابی حلقوں سے متعلق ترجیحات کی نذر ہوجاتے ہیں اور حکمراں جماعت کی ترجیحات ذاتی و سیاسی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہیں!

متنازعہ شخصیت و منفرد سیاسی اصولوں کے مالک‘ رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ آفریدی کی ذات کے بارے میں ہزار ہا اعتراضات اور اُن کی پسند و ناپسند پر مبنی مؤقف سے اختلاف کی گنجائش بہرحال موجود ہے لیکن جب اُنہوں نے پشاور سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے ون‘ میں ترقیاتی کاموں کی منسوخی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ سے باضابطہ رجوع کیا تو صوبائی حکومت کو اپنی غلطی کا فوری اعتراف کرتے ہوئے ’اے ڈی پی اسکیم نمبر 782‘ جو کہ مالی سال دوہزار پندرہ سولہ اور بعدازاں سے متعلق تھی کے لئے مختص فنڈز جاری کر دینے چاہیءں تھے یوں یہ معاملہ پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز (بدنامی کا باعث) نہ بنتا لیکن تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکمرانوں کے لئے اِس بات کی قطعی کوئی اہمیت نہیں کہ اُن کے لئے ’انقلاب و انصاف‘ جیسے ناموں سے سیاست کرنے والی جماعت کی ’نیک نامی (ساکھ)‘ کتنی اہمیت رکھتی ہے! مالی سال دوہزار پندرہ سولہ اور مالی سال دوہزار سولہ سترہ کی ترقیاتی حکمت عملی میں پشاور کے ’محل تیرائی‘ کے لئے متعدد ترقیاتی منصوبوں پر مبنی ایک حکمت عملی وضع کی گئی لیکن چونکہ وہاں سے رکن صوبائی اسمبلی نے تحریک انصاف سے اختلافات کا اظہار کیا اِس لئے وہ منظورشدہ ترقیاتی حکمت عملی منسوخ کر دی گئی یعنی سیاسی مخالفت کی سزا پشاور کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

معاملہ عدالت میں پہنچا جس کا ’مختصر فیصلہ‘ 3 اکتوبر کو سنایا گیا تھا اور ’تفصیلی فیصلہ‘ بائیس دسمبر کو جاری کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے احکامات کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا گیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی ایسی کسی حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی! عدالت نے ترقیاتی اسکیم نمبر 782 کو رواں مالی سال ’دوہزار سترہ اٹھارہ‘ کا حصہ بنانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اِسے آئندہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔ منطقی امر ہے کہ جب صوبائی اسمبلی جیسا معزز ایوان کسی ترقیاتی منصوبے کی ایک مرتبہ منظوری دے دیتا ہے تو یہ بات کسی کا بھی صوابدیدی اختیار کس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے اِس فیصلے میں ردوبدل کرے اگر اعتراض ہوتا بھی ہے تو اُسے منظوری سے قبل سامنے آنا چاہئے۔ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایک نہیں دو مرتبہ مذکورہ ترقیاتی منصوبوں کو سالانہ ترقیاتی ترجیحاتی فہرست سے الگ (ڈراپ) کیا۔ پہلی مرتبہ دو مارچ دوہزار سولہ اور دوسری مرتبہ ’دس جون دوہزار سولہ‘ کے روز لیکن اُن کی کابینہ میں موجود کسی بھی وزیر و مشیر نے ایسا کرنے پر اعتراض نہیں کیا جس سے عیاں ہے کہ ہر کسی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے اور ذاتی وسیاسی مفادات سے غرض ہے۔ کیا تحریک انصاف ادراک رکھتی ہے کہ پشاور کے حقوق غصب کرنے سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اُس کا آئندہ عام انتخابات پر کتنا منفی اثر پڑے گا؟ شاہانہ مزاج پر گراں نہ گزرے تو جان کی امان پاتے ہوئے سوال یہ بھی ہے کہ ’خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع اور علاقے کے لئے مختص (مشتہر) ترقیاتی فنڈز روک کر‘ وہاں کے رہنے والوں کو سزا دینا کہاں کا انصاف و دانشمندانہ اقدام تھا‘ جس کی اگرچہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے کوئی سزا مقرر نہیں کی اور نہ ہی مالی جرمانہ عائد کیا ہے لیکن درپردہ فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ موجودہ فیصلہ ساز قیادت کرنے کی کم سے کم اہلیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے!؟
۔

TRANSLATION: The Yuan by Dr. Farrukh Saleem

The Yuan
ہنس کی چال!
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’پاکستان چین کے ساتھ اپنے تجارتی لین دین کا انحصار امریکی ڈالر سے ختم کر کے چین کی کرنسی ’یوآن (Yuan)‘ پر منتقل کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔‘‘ چین کی کرنسی کا نام ’رینمین بی (Renminbi)‘ ہے جسے اصطلاحاً RMB کہا جاتا ہے اور ’یوآن‘ اِس کی ایک ذیلی اکائی (یونٹ) ہے۔ چین کے مرکزی بینک ’’پیپلزبینک آف چائنا‘‘ رینمین بی (کرنسی) سے جڑے معاملات کا نگران ادارہ ہے جیسا کہ پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان روپے اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی جمع پونجی اور روپے کی قدر کا تعین کرتا ہے۔

پاکستان کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 283 ارب ڈالر ہے جبکہ عوامی جمہوریہ چین کی قومی پیداوار کا حجم 11 کھرب ڈالر ہے اور ہم پاکستان اور چین کی قومی پیداوار کا موازنہ کریں تو پاکستان کی قومی پیداوار چین کے مقابلے ایک فیصد سے بھی کم یعنی صرف 0.4 فیصد ہے۔ اِسی طرح عالمی برآمدات میں چین کی حصہ داری 16 کھرب ڈالر ہے جس کے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان کی برآمدات 0.13فیصد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان چاہے چین سے اپنے تجارتی سودوں کو امریکی ڈالر سے کرے یا چین کی اپنی کرنسی سے عالمی سطح پر تو کسی کو خاص فرق نہیں پڑے گا نہیں پاکستان کا اپنا خسارہ ہوگا۔ پاکستان کی چین کے ساتھ تجارت 1.8 ارب ڈالر سالانہ ہے اور چین سے پاکستان کو ہونے والی برآمدات کا حجم ’14ارب ڈالر‘ سالانہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 12 ارب ڈالر سالانہ ہے‘ جو کسی بھی طرح معمولی نہیں۔

خطرے کی بات: پاکستان کی عالمی لین دین کا موازنہ اگر چین کے ساتھ ہونے والی تجارت سے کیا جائے تو یہ خسارہ قریب چالیس فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کئی ذرائع سے سے قرض حاصل کرکے چلتی ہے تاکہ تجارتی خسارے کو پورا کیا جا سکے۔ اگر پاکستان یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرے گا تو پھر اُسے تجارتی خسارہ ختم کرنے کیلئے چین سے قرضہ جات حاصل کرنا پڑیں گے‘ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اُن تمام ذرائع سے الگ ہو جائے گا‘ جو فی الوقت اِس کی معیشت و تجارت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔

خطرے کی بات: چین کے ساتھ تجارت بڑھنے اور چین کی کرنسی میں تجارت کرنے کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہم ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کو چین کے عمل دخل میں دے دیں جو ہماری مالیاتی پالیسی پر اثرانداز ہو۔ ایسی کسی صورتحال میں پاکستان سے زیادہ چین کو فائدہ ہوگا۔ 

چین کی ایک عرصے سے کوشش ہے کہ اُس کی کرنسی زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر استعمال ہو کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان میں چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری زیادہ محفوظ اور منافع بخش رہے گی جبکہ چین کی خطے میں بالادستی میں بھی اضافہ ہوگا جو ایک اہم جغرافیائی ہدف کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا اور یہ ہدف حاصل کرنے میں چین کو زیادہ کچھ خرچ کرنا بھی نہیں پڑے گا۔

چین کی کرنسی پر اِنحصار کرنے والے ایک ملک کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ زمبابوے (Zimbabwe) چین کا دوست ملک ہے۔ سال 2010ء سے 2015ء کے درمیان چین نے زمبابوے کو کم شرح سود پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض دیا۔ سال 2015ء میں چین کے صدر ’شی جن پنگ (Xi Jinping)‘ نے زمبابوے کا دورہ کیا اور زمبابوے کے لئے دیئے جانے والے کچھ قرضہ جات کو ختم کردیا‘ جس کا منفی اثر زمبابوے کی اقتصادیات پر پڑا اور اُس کی کرنسی بے قدر ہو گئی۔ 2009ء میں زمبابوے بینک کو ’زمبابوے ڈالر‘ ختم کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے زمبابوے بینک کا ملک کی مالیاتی پالیسی پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو گیا۔

پاکستان اور چین کے درمیان ’آزاد تجارتی معاہدہ (فری ٹریڈ ایگریمنٹ)‘ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان نے چین کو ’چھ ہزار آٹھ سو تین‘ اشیاء (مصنوعات بشمول الیکٹرانکس‘ مشینری‘ کیمیکل اور دیگر اشیاء) پر تجارتی رعائت دے رکھی ہے اِس رعائت سے پاکستان کے مقابلے چین کی صنعتیں اور ملک سراسر زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ قریب چھ برس قبل چین اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ سوال یہ ہے کہ آخر چین پاکستان سے مزید کیا چاہتا ہے؟ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایک متوازی و متبادل کے طور پر دوسری کرنسی پر انحصار کرے؟ ممالک اپنی اپنی کرنسی کی حفاظت کرنے کے لئے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔ 

کیا پاکستان کو بھی اپنی کرنسی کی حفاظت اور اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے کوششیں نہیں کرنی چاہیءں؟ کیا یہ آسان ہوگا کہ چین کی کرنسی پر تجارتی انحصار منتقل کردیا جائے اور کیا ایسا کرنے سے کیا چین سے زیادہ پاکستان کو فائدہ ہوگا؟ کیا پاکستان کی معیشت و اِقتصادیات کو سہارا دینے کے لئے ایک اُور خواب دیکھا جا رہا ہے یا پھر یہ پاکستان کو اکیسویں صدی عہد غلامی میں دھکیلنے کی سازش ہے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, December 23, 2017

Dec 2017: The Provincial Cricket League - a drop catch!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سکول کرکٹ لیگ!
تحریک اِنصاف کی قیادت میں موجودہ ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کی کارکردگی کسی ’سُہانے خواب‘ جیسی ہے‘ جس سے لطف اَندوز (مستفید) ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ’نیند‘ کی حالت یا تو مسلسل طاری رہے یا پھر خواب خرگوش کا تسلسل (سحر) ٹوٹنے نہ پائے۔ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں جبکہ چند ماہ کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے اور یہ عرصہ بھی اِس قدر کم ہے کہ اِسے اُنگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے تو صوبائی حکومت کی جانب سے ایسے نت نئے شوشے (تجربات) کا سلسلہ جاری ہے‘ جو قطعی انوکھے نہیں بلکہ ترقی پذیر دنیا کے کئی ممالک میں اِن پر عمل درآمد ہو رہا ہے جیسا کہ سکولوں (میٹرک کے درجے تک کے تعلیمی اِداروں) کے مابین صوبائی سطح پر ’کرکٹ مقابلوں کا اِنعقاد‘ کرنا اُور اِس حکمت عملی کو ’سکول کرکٹ لیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کی سطح پر سکولوں‘ کالجوں اُور جامعات (یونیورسٹیز) کے مابین صوبائی‘ ضلعی اُور ڈویژنل سطح پر کھیلوں کے سالانہ مقابلوں کو باقاعدگی سے اِنعقاد کیا جاتا ہے اُور اگر اُن مقابلوں میں کرکٹ کو بھی شامل کر لیا جاتا تو کسی ’منفرد نام‘ کی تشہیر اور میچز کے انعقاد پر اضافی سرکاری وسائل خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جہاں تک ’کرکٹ کے کھیل اُور موسم کا تعلق‘ ہے تو سولہویں صدی میں برطانیہ کے نوابوں (لارڈز) کی تخلیق اِس کھیل کے ’’کھیلنے اُور دیکھنے‘‘ کے بھی اپنے الگ الگ آداب ہیں‘ جو اگرچہ محدود دورانیئے کے (ون ڈے‘ ٹی ٹوئنٹی اُور ٹی ٹین نامی) نمائشی مقابلوں کی وجہ سے پس پشت چلے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ دیکھنے کا لطف آج بھی برطانیہ (لارڈز)‘ آسٹریلیا (میلبورن) یا پھر جنوبی افریقہ (نیولینڈز) گراونڈز پر ہی آتا ہے۔ باقی دنیا کے لئے کرکٹ نمائش‘ سٹے بازی اور مارکیٹنگ کا ذریعہ بن گئی ہے! 

کسی کھیل کے کمرشل ہونے سے اِس میں داخل ہونے والی خرابیاں (بدعات) ایک الگ موضوع ہے‘ جس کا احاطہ ’کارپوریٹ کلچر‘ کے منفی اثرات کے عنوان سے کسی دوسرے موقع کے لئے اٹھا رکھ لیتے ہیں‘ لیکن اِس مرحلۂ فکر پر مقصود یہ ہے کہ کرکٹ صرف کھیل ہی نہیں بلکہ تہذیب بھی ہے جس کے اَصولوں بارے تعلیمات کے بناء اِس کوشش سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور وہ سنجیدگی نہیں آئے گی‘ جس سے نوجوان کھیل کھیلتے ہوئے اِسے ایک درجہ بلند مقام پر فائز کریں‘ اُور اِس سے اُن کی زندگیوں میں نظم و ضبط اور آگے بڑھنے (صحت مند مقابلے) کا رجحان پیدا ہو۔ دنیا بھر میں کرکٹ کے مقابلے ترجیحاً موسم بہار یا موسم گرما کے آغاز پر منعقد ہوتے ہیں اُور اِسی دور میں تربیتی اور بچوں کے درمیان مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اِس عرصے میں دھوپ کی تمازت قابل برداشت ہوتی ہے‘ روشنی کے گھنٹے زیادہ ہوتے ہیں جس سے کھیل زیادہ سے زیادہ دن کی روشنی میں کھیلا جا سکتا ہے اور اِس کے لئے الصبح سے شروع ہونے والی ورزش کے بعد کھلاڑی پوری طرح کھیلنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ 

کرکٹ کے لئے بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب ’ہوا میں نمی کا تناسب‘ کم سے کم ہو تاکہ گھاس کی سطح پر شبنم کے قطرے گیند کو خراب نہ کریں اُور اِس مقصد کے لئے ’آؤٹ فیلڈ‘ کو سرسبز رکھا جاتا ہے جس سے میدان خوبصورت اور ہرے بھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ہوا میں نمی زیادہ ہوگی تو آؤٹ فیلڈ میں گھاس کم رکھنا پڑے گی تاکہ گیند تیزی سے سفر کرے اور یہ گیلا بھی نہ ہو!

کرکٹ کی سرپرستی دیگر کھیلوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے تو خیبرپختونخوا میں ایسے کتنے سرکاری سکول ہیں جہاں مصنوعی گھاس (artificial turf) کے میدان موجود ہیں جو سال 2000ء سے متعارف ہوئی اور کھیل کی دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک میں ایسے گراؤنڈز صرف ہاکی ہی کے لئے نہیں بلکہ دیگر کھیلوں کے لئے بھی استعمال ہو رہے ہیں تاکہ براعظمی (اولمپک) مقابلوں کے لئے کھلاڑی تیار کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کے سرکاری و نجی سکولوں کی سطح پر بمشکل ایسے کرکٹ گراؤنڈ ملیں گے جن میدانوں کی لمبائی چوڑائی قواعد و معیار پر پوری اُترتی ہو۔ کرکٹ کھیلنے کا جنون‘ شوق اُور اِس کھیل سے لگاؤ اپنی جگہ اہم لیکن کیا کبھی سکول کی سطح پر ’کرکٹ شناسی‘ بھی عام کی گئی کہ کرکٹ کی پچ 66فٹ (بائیس گز) ہونی چاہئے؟ ہمیں ہر کام کرنے کا شوق ہوتا ہے اور اِس شوق میں حدود و قیود کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتے! 
حالت حال کے سبب‘ حالت حال ہی گئی
شوق کا کچھ نہیں گیا‘ شوق کی زندگی گئی (جان ایلیا)۔

خیبرپختونخوا میں سکولوں کی سطح پر ’کرکٹ لیگ‘ کا تصور اُور جملہ اِنتظامات (بشمول معاہدہ اُور دیگر کاغذی کاروائی) صرف اُور صرف ’چار روز‘ میں مکمل ہوئی ہے‘ جس کی تفصیلات نجی اللہ خٹک (غیرسرکاری ترجمان و صلاح کار برائے صوبائی محکمۂ بنیادی و ثانوی تعلیم) کے بقول کچھ یوں ہے کہ ’’پاکستان کرکٹ لیگ سے متعارف ہونے والی ’’(پشاور) زلمے فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ کی چیئرمین عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ جس میں کرکٹ کے فروغ پر دونوں کی ایک جیسی دلچسپی و تجربے کو عملی شکل دینے پر اتفاق ہوا اور یوں طے پایا کہ آئندہ برس (دوہزاراٹھارہ) سے خیبرپختونخوا کے دس ہزار سکولوں کی سطح پر کرکٹ کے فروغ کے لئے ’پشاور زلمے فاؤنڈیشن‘ اپنی تکنیکی اور فنی مہارت دے گی اور سال کے اختتام کو زیادہ خوشگوار بنانے کے لئے ’سپرلیگ‘ کے نام سے صوبائی سطح پر کرکٹ مقابلے منعقد کئے جائیں گے۔ 

فی الوقت آج (تیئس دسمبر) سے ہری پور میں ہونے والے تین روزہ کرکٹ مقابلوں میں ’پشاور زلمے فاؤنڈیشن‘ کی موجودگی نظر آئے گی۔ یہ ’اِنٹر زون کرکٹ مقابلے‘ خیبرپختونخوا کے چار زونز (بنوں‘ مالاکنڈ‘ ہزارہ اُور پشاور کی سکولوں) کے مابین ہو رہے ہیں اور اِن کا ’فائنل‘ اُنتیس دسمبر کو پشاور میں کھیلا جائے گا۔ بنیادی طور پر ’زلمے سکول لیگ‘ دو مرحلوں میں مکمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں مذکورہ چار زونز کی ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز اور آرمی پبلک سکول پشاور کی ایک ٹیم پر مشتمل گروپ کے درمیان میچ ہوں گے۔‘‘ 

آیئے سوچتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں کرکٹ کا حال اَحوال‘ سہولیات اور اِس کی بہتری کے لئے صوبائی فیصلہ سازوں کی سوچ بچار کا عمل کہیں کسی نجی اِدارے کی نیک نامی میں اضافے (فائدہ پہنچانے) کی حد تک تو محدود نہیں اور کیا اِسے زیادہ وسیع کرنا بھی ممکن ہے!؟ جنوبی اَفریقہ اور سری لنکا کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں سکول سطح پر کرکٹ نے کئی عالمی کھلاڑی دیئے ہیں تو کیا کرکٹ کی سرپرستی کے لئے اپنے مفادات رکھنے والے نجی اداروں کی مہربانی ضروری ہوتی ہے؟
۔

Friday, December 22, 2017

Dec 2017: Laws over laws & performance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قوانین کی بہتات!
منشیات کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوششیں باہم مربوط نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کو ایسی کسی بھی قانون سازی سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو وفاقی قانون اُور اِداروں کی موجودگی میں اپنے وسائل ’اِنسداد منشیات‘ کی نذر کریں گویا وفاق کی جانب سے نہایت ہی مہذب و شائستہ انداز میں خیبرپختونخوا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے باز رہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اگر انسداد منشیات ہی مقصود ہے تو اِس کے لئے وفاقی قانون‘ اداروں اور اُن قواعد کافی ہیں‘ جو پہلے ہی سے نہ صرف موجود ہیں بلکہ فعال بھی ہیں اور کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی سے وہ عالمی امدادی ادارے یا پاکستان کے دوست ممالک پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ وفاق یا صوبے میں کس سے بات کریں اور اگر منشیات کا انسداد نہیں ہورہا تو اِس کے لئے ذمہ دار کون ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ خیبرپختونخوا حکومت کی شروع دن سے قانون سازی میں غیرمعمولی دلچسپی اپنی جگہ اہم لیکن قانون پر قانون سازی کرنے سے معاملات مزید اُلجھ جائیں گے‘ جس کا یقیناًفائدہ بڑے پیمانے پر منشیات کا دھندا کرنے والے اٹھائیں گے۔ کون نہیں جانتا کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی عام کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اِسی دھندے کے ذریعے کرنسی کی غیرقانونی لین دین (ہنڈی) بھی ہوتی ہے۔ حیرت انگیز نتائج برآمد ہوں گے اگر انسداد منشیات کے وفاقی ادارے سے وابستہ ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور وہ اربوں کے اثاثہ جات کے مالک نکلیں۔ اصولی طور پر پولیس کی موجودگی میں کسی انسداد منشیات کے ادارے (انٹی نارکاٹکس فورس) کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن وفاق کے زیرنگرانی اگر یہ ادارہ قائم کر بھی دیا گیا ہے تو اِس کی کارکردگی (موجودگی) خود وفاق ہی کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے آخر کیوں؟ وفاقی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کو بروقت خبردار کرنا خوش آئند اَمر ہے کیونکہ اِداروں کی جانب سے عموماً اِس قسم کا تیزرفتار ردعمل سامنے نہیں آتا لیکن یہاں معاملہ اربوں ڈالرز کی اُس غیرقانونی تجارت (خریدوفروخت) کا ہے تو صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی دکھائی دیتی ہیں!

وفاقی نارکوٹکس کنٹرول سیکرٹری کی جانب سے خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری کے نام لکھے گئے مکتوب میں کئی تحفظات کا اظہار لائق مطالعہ ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’انسداد منشیات کے لئے وفاقی ادارے اور پولیس کی موجودگی میں کسی بھی قسم کی صوبائی قانون سازی اور ادارہ قائم نہ کیا جائے۔‘‘ 

قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے ’’ایکسائز‘ ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ‘‘ نے ایک مسودہ قانون بنام ’خیبرپختونخوا نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ 2017ء‘ تیار کیا ہے اور اِس مجوزہ قانون کی صوبائی کابینہ منظوری بھی دے چکی ہے اور یہ ماہ اکتوبر کے دوران صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کردیا گیا تھا‘ جس کے بعد اِسے صوبائی قانون ساز پارلیمان کی ’سلیکٹ کمیٹی‘ کو غوروخوض کے لئے ارسال کیا گیا‘ جس کے سربراہی صوبائی وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 142 بی کے تحت اُسے اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی صوبائی قانون کو ترمیم یا ختم (واپس) کرسکتی ہے اور آئین ہی کی متعدد شقوں سے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسداد منشیات وفاقی معاملہ (فیڈرل سبجیکٹ) ہے اور خیبرپختونخوا اِس میں مداخلت نہ کرے۔ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کو اِس بات سے بھی مطلع کیا گیا ہے کہ وفاقی قوانین کی موجودگی میں صوبائی حکومتیں کسی بھی قسم کا نیا قانون منظور نہیں کر سکتیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین اور قواعد و ضوابط کی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک اور وسیع المعانی قانون موجود ہے لیکن اُس پر عمل درآمد کی عملی مثالیں موجود نہیں۔ قوانین کی بہتات کا اَندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود قانون ساز اِداروں کو معلوم نہیں کہ اُن کی حدود و قیود کیا ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو قوانین سازی اور اِن میں ترامیم کے حوالے سے عوامی سطح پر نہ تو شعور پایا جاتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو قوانین کے اطلاق اور اِن کے حوالے سے اپنے حقوق کا علم ہے۔ ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی طرح قوانین بنائے جاتے ہیں‘ جن کے بارے میں عوام کا نقطۂ نظر یا مختلف مکاتب فکر سے رائے (اِن پُٹ) لینے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ 

ذرائع ابلاغ میں بھی بحث نہیں کی جاتی تاکہ قانون کو جامع بنایا جا سکے۔ یہی سبب ہے کہ قوانین اور قانون ساز اداروں کی کارکردگی کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی رائے زیادہ مختلف نہیں کہ یہ دونوں ہی خاطرخواہ حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہیں! معاشرے میں قوانین کی بہتات سے نہیں بلکہ اُن کے اطلاق سے تبدیلی آتی ہے لیکن یہ بات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سمجھ میں آنے کے لئے شعور کی کئی درجہ بلندی درکار ہوگی۔

انسداد منشیات میں صرف ممنوع منشیات کی کاشت‘ نقل و حمل اور خرید و فروخت روکنا ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی بھی اُسی وفاقی قانون کا حصہ ہے جس پر وفاق پاکستان کی جملہ اکائیوں نے عمل درآمد کرنا ہے لیکن اب تک صرف سندھ حکومت نے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے ایسے مراکز (کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر میں) قائم کئے ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت ’ترک منشیات کے مراکز‘ قائم کرے اور پشاور جیسے مرکزی شہر میں جابجا منشیات کی فروخت کے منظم دھندوں پر ہاتھ ڈالے تو اِس کے لئے کسی اضافی قانون کی ضرورت نہیں۔ روزمرہ مشاہدے میں منشیات کی فروخت اور استعمال کھلے عام ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات اور سگریٹ نوشی کا رجحان صرف طلباء ہی نہیں بلکہ طالبات میں بھی پھیل چکا ہے‘ جس حقیقت کا مسلسل انکار اِس مسئلے کو بحرانی حدوں تک لے گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کے بعد صوبائی حکومت شاید اِس مسودۂ قانون کو آگے نہ بڑھائے اور یہ سلیکٹ کمیٹی کے سردخانے ہی میں رہے لیکن ایک ایسی قانون سازی کی کوشش اپنی جگہ زیربحث آنی چاہئے کہ مسائل کا حل نت نئے قوانین سے نہیں بلکہ اُن کے اطلاق میں ڈھونڈا جائے تو زیادہ بہتر و پائیدار (مثبت) نتائج برآمد ہوں گے۔
۔

Thursday, December 21, 2017

Dec 2017: The bloody affairs of governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لہو لہو پیراہن!
کہانیاں در کہانیاں ہمارے اِردگرد (چار سو‘ ہرسو) پھیلی ہیں‘ جن کی گونج اکثر قانون ساز ایوانوں میں ہونے والے ’رسمی‘‘ سوال و جواب کی نشستوں (سیشنز) میں بطور سوال ’’سنانے‘‘ اُور بطور جواب ’’گنگنانے‘‘ کی صورت سنائی دے جاتی ہیں تو اِس پر بھر سماعتوں کے بوجھل ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ 

بارہا تجربات سے ثابت (حاصل) ہو چکا ہے کہ پاکستان کے غریبوں (ہم عوام) کی قسمت جمہوری یا غیرجمہوری کرداروں سے نہیں بلکہ ایسے انقلاب سے بدلے گی جس میں ’عدل برسراقتدار ہو۔‘ جب انصاف تک فوری رسائی ہر خاص و عام کے لئے ممکن بنا دی جائے۔ جب وکلاء کی بھاری فیسیں انصاف کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ تصور کیجئے ایسے ملک کا‘ جس کی صرف عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کے سامنے لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرالتوأ ہیں؟ تصور کیجئے کہ سال دوہزار گیارہ میں عدالت عظمیٰ میں زیرالتوأ مقدمات کی تعداد 19 ہزار تھی جو یکم دسمبر دوہزار سترہ تک بڑھتے بڑھتے 38 ہزار 200 ہو چکی ہے اُور رواں برس (دوہزارسترہ) کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ’’7 ہزار‘‘ نئے مقدمات عدالت عظمیٰ میں درج ہو چکے ہیں! اگر اِنصاف کی فراہمی میں تاخیر‘ اِنصاف سے انکار نہیں تو پھر یہ سب ماجرا کیا ہے؟ ’’چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ۔۔۔ ہمارے جیب (زخم) کو اَب حاجت رفو کیا ہے۔ (غالبؔ )۔‘‘

یادش بخیر‘ جنوری دوہزار پندرہ میں پاکستان کی نامور اور ایک سے بڑھ کر ایک دانشوروں پر مشتمل پارلیمانی جماعتوں نے اِتفاق رائے سے ’اِنسداد دہشت گردی کی بیس نکاتی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ تشکیل دی۔ رواں ہفتے (دسمبر دوہزارسترہ) میں ’’اِنسانی حقوق اُور کاروبار‘‘ سے متعلق بھی ’نیشنل اَیکشن پلان‘ بنانے کی ضرورت اُور صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ’2 روزہ‘ اجلاس کا اختتام اِس تشویش کے اظہار پر ہوا کہ ’’پاکستان کے آئین میں اِنسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہے لیکن پاکستان میں لگ بھگ چھ کروڑ افرادی قوت (ورک فورس) ایسی ہے جس کے لئے روزگار کے مواقع یا تو دستیاب نہیں یا پھر اِن کے لئے آمدنی کے ذرائع پائیدار نہیں اور وہ بد ترین معاشی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں!‘‘ یہ جملے کسی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما کے منہ سے اَدا نہیں ہوئے بلکہ وفاقی وزیر برائے اِنسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ کے ہیں جو (اُنیس دسمبر کے روز) ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسیز اُور عالمی ادارے ’آکس فام (Oxfam)‘ کے زیرانتظام ’دو روزہ مشاورتی اِجلاس‘ سے خطاب کررہے تھے۔ اِجلاس کا بنیادی مقصد قانون سازوں کی آنکھیں کھولنا تھا تاکہ وہ اپنی ذمہ داری اور فرائض کا احساس کریں اور فیصلہ و قانون سازی میں پاکستان کی معاشی و اقتصادی صورتحال‘ افرادی قوت اور انسانی حقوق کو بھی مدنظر (پیش نظر) رکھیں! وفاقی وزیر کی جانب سے حاضرین کو مزید حیرت و صدمے میں مبتلا کرنے کے لئے یہ بھی اِرشاد فرمایا گیا کہ ’’پاکستان میں (بالعموم) مزدوروں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں‘ جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملازمین کے لئے حکومت کی مقرر کردہ ’کم سے کم‘ تنخواہ کی شرح کے مطابق تنخواہیں اَدا نہیں کی جاتیں۔ 

نجی ادارے بڑے پیمانے پر ملازمین کا استحصال کرتے ہیں۔ مزدور یونین بنانے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا بھی ایک معمول ہے۔ ملازمت کے اُوقات کار اُور حالات کار محفوظ نہیں ہیں جبکہ ملک بھر میں لاکھوں بچے اور خواتین بہ حالت مجبوری نامساعد حالات میں ملازمت کر رہے ہیں اور اُنہیں سخت ترین جسمانی محنت کا کم ترین معاوضہ دیا جاتا ہے۔‘‘ 

اجلاس کے شرکاء نے زور دیا کہ ’’پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے ’قومی حکمت عملی‘ تشکیل دینا ’ناگزیر ضرورت‘ بن چکی ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اِس کے لئے اقدامات کرے۔ ‘‘ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے ’’تحفظ اِنسانی حقوق‘‘ نے سال دوہزار چودہ میں رکن ممالک کو بنیادی حقوق کی عملداری یقینی بنانے کے لئے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ تیار کرنے کو کہا تھا اور اِسی سلسلے میں اُنیس دسمبر کو اسلام آباد میں اِجلاس اِس سلسلے میں جاری کوششوں کو نکتۂ عروج ہے‘ جس میں ملک بھر سے مندوبین شریک ہوئے لیکن مہمان خصوصی (وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق) ممتاز تارڑ کی سنجیدگی اور ترجیحات کا اندازہ لگائیں کہ موصوف بروقت نہ پہنچ سکے‘ جس کی وجہ سے اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع کیا گیا اور ملکی و غیرملکی مندوبین اُن کی راہ دیکھتے رہے۔ وزیر موصوف کو اگر اجلاس کی حقیقت (اہمیت) کا احساس ہوتا تو رسمی خطاب کرنے کے بعد عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اُور اُنہی قدموں پر واپس نہ جاتے‘ جن پر چل کر آئے تھے بلکہ تقریب کے اختتام تک موجود رہتے۔ 

مذکورہ نشست میں صوبائی صورتحال پر الگ الگ غوروخوض کرتے ہوئے مقررین کی جانب سے جس ایک بات کا بار بار ذکر کیا گیا وہ یہ تھا کہ ’’نیشنل ایکشن پلان متعلقہ وزارت کے لئے اچھوتا تصور تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفاقی سطح پر تحفظ اِنسانی حقوق سے متعلق اِس قسم کا موضوع آج سے پہلے کبھی بھی زیر بحث نہیں آیا۔‘‘ رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی بھی اِس موقع پر موجود تھے جنہوں نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے طرز عمل پر تنقید کر کے خوب داد وصول کی۔ انہوں نے سچ کہا کہ ’’یہ امر افسوسناک ہے کہ انتہائی اہم نوعیت کے موضوع پر بات چیت کے لئے بھی ’وزیر انسانی حقوق‘ کے پاس وقت نہیں اُور (شاید) اِسی وجہ سے فیصلہ ساز اور اسٹیک ہولڈز عالمی قوانین برائے انسانی حقوق اُور کاروباری سرگرمیوں کے تعلق سے لاعلم ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔‘‘

بلاشک و شبہ ’سنجیدہ حکومتی روئیوں‘ کی ضرورت ہے۔ اِنسانی حقوق اُور کاروبار کے رہنما اصولوں کو عملی شکل دینے لئے تحفظ ماحول کو یقینی بنانا ہوگا۔ قابل کاشت اراضی‘ جنگل‘ جنگلی حیات اور دیہی آبادیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے بلدیاتی اداروں کو منظم‘ مضبوط اور فعال کرنا ہوگا۔ 

دو روزہ نشست کا حاصل ’’مثبت و محتاط نکتۂ نظر‘‘ (لب لباب) یہ ہے کہ ۔۔۔ پاکستان میں بنیادی اِنسانی حقوق کا تحفظ‘ محنت کشوں‘ مزدوروں‘ کسانوں‘ ملازمت پیشہ افراد‘ خواتین اور بچوں کا استحصال روکنے کے لئے قوانین سازی اور قوانین کے اطلاق میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ جہاں کروڑوں بچے جبری مشقت کی وجہ سے افرادی قوت کا حصہ بن گئے ہیں۔ جہاں مجبور خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت پر ملازم رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ جہاں کم عمر گھریلو ملازم غلاموں کی طرح بدترین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہاں بااثر کاروباری طبقات ’’لیبرقوانین‘‘ کا احترام نہیں کرتے اور جہاں حکومتی اِدارے قوانین شکنی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ اُس ملک کی برآمدات اور عالمی سطح پر ساکھ ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔
۔

Wednesday, December 20, 2017

Dec 2017: Democracy without power & power without accountability!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ڈُوبتا یقین!
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایوان بالا (سینیٹ) اراکین کو پاکستان کی داخلی اور خطے (جنوب مشرق ایشیاء میں آنے والی تبدیلیوں سے متعلق) صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی ہے‘ جس سے اُمید ہے کہ ابہام دور اُور دونوں اہم ادارے (پارلیمان اور فوج) کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔ سردست اراکین اسمبلی میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاک فوج قومی فیصلے بلاشرکت غیرے (بناء مشاورت) کرتی ہے اور جب فوجی مداخلت سے داخلی و خارجی معاملات انتہاء تک خراب ہو جاتے ہیں تو اُسے سیاست دانوں کو سونپنا پڑتا ہے جو مشکل کی اُس گھڑی ’سودا بازی‘ کرتے ہیں اور اپنی بدعنوانیوں اور قوانین سے خود کو مستثنیٰ قرار دلواتے ہیں۔ سینیٹ میں ایسی کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں جن میں سب سے توانا پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) کی جانب سے ہے کہ ’’پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات سے فوج کے ادارے کو الگ ہونا چاہئے اور قومی پالیسیوں سے متعلق اُس کا ’فیصلہ کن کردار‘ بھی محدود بلکہ پارلیمان کے تابع ہونا چاہئے۔‘‘ پاکستان میں قومی اداروں کے درمیان پائی جانے والی ’بداعتمادی‘ ماضی میں بھی رہی لیکن جس انداز میں اِس کا کھل کا اظہار فی الوقت دیکھنے میں آرہا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ 

قومی ادارے جب ایک دوسرے سے مربوط (ہم آہنگ) نہ ہوں تو اُن کی وضع کردہ پالیسیاں کس طرح قومی مفاد میں ’جامع (وسیع تر حجم) کی مالک ہو سکتی ہیں؟

پاکستان کی داخلی افراتفری پر مبنی صورتحال سے فائدہ اٹھانے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے جس نے جنوب مشرق ایشیاء کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے اور وہ اب نہ صرف بھارت کو خطے میں کلیدی کردار (اہمیت) دے رہا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور دہشت گردی کے بارے میں اُسے تشویش نہیں! بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے تو اِس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال کر اُسے ’عالمی عدالت میں باعزت بری‘ کردیا جاتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ جب اَجمل قصاب نے بھارت میں دہشت گرد حملہ کیا تو اُس حملے یا سازش میں پاکستان کی ریاست شامل نہیں تھی اُور نہ ہی پاکستان کی ریاست یا کسی ریاستی ادارے نے اجمل قصاب یا اُس دہشت گرد حملے کی حمایت کی لیکن جب کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس پاکستان سے گرفتار ہوا تو بھارت اِس معاملے کو عالمی عدالت اِنصاف تک لیجا چکا ہے‘ اُور اُسے رتی بھر بھی خفت نہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہے اور اِس بات کے ناقابل تردید ثبوت و زندہ شواہد موجود ہیں! 

بھارت کی اِس جرأت (ہٹ دھرمی) کی پشت پناہی یقیناًامریکہ کر رہا ہے جس نے پاکستان پر اقتصادی جنگ مسلط کر رکھی ہے اور بات صرف ’سرد جنگ‘ کی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکی قیادت کی جانب سے الفاظ اور کردار بدل بدل کر پاکستان کو ’ڈومور‘ کرنے کے ساتھ باقاعدہ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ اِس پورے منظرنامے میں تین محرکات بالخصوص لائق توجہ ہیں: (1: پاکستان عالمی سطح پر اپنے خلاف بھارتی سازشوں کا دفاع (مقابلہ) کامیابی سے نہیں کر پا رہا۔ 2: پاکستان امریکہ اور عالمی برادری کو مطمئن نہیں کر پا رہا کہ وہ دہشت گرد نہیں بلکہ بذات خود دہشت گردی کا شکار (دوچار) ہے اُور 3: پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدیں پہلے سے زیادہ ’غیرمحفوظ‘ ہو چکی ہیں تو پاکستان عالمی برادری سے کس قسم یعنی دفاعی‘ سیاسی اور سفارتی تعاون کا طلبگار ہے؟ اِن سبھی امور کے بارے میں ’پاک فوج‘ کی سوچ‘ لائحہ عمل اور اب تک کا عمل درآمد کس مقام پر کھڑا ہے‘ اِس کا تعین بہرحال ضروری ہے‘ یقیناًہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے ’ڈومور‘ کے مطالبے میں تیزی آ رہی ہے تو اِس کی وجہ ہماری سیاسی و سفارتی کمزوریاں کا علاج بھی ضروری ہے۔ 

پاکستان کو دباؤ میں لانے کے منجملہ مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے درمیانہ راستہ اختیار کیا جائے اور پاکستان امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں اُس حد سے آگے نہ بڑھے جہاں اُس پر ایران کا گمان ہونے لگے کیونکہ امریکہ دنیا میں صرف ایک ہی ایران چاہتا ہے اور کسی دوسرے ملک (بالخصوص ترکی اور پاکستان) کی سیاسی قیادت کو اتنی ’چھوٹ‘ نہیں دے سکتا کہ وہ اُس کے لئے پہلے سے موجود‘ دردسر کی شدت میں اضافے کا باعث بنیں۔

اُنیس دسمبر کے روز پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینیٹ آمد اور یریفنگ سے غیرمتوقع طور پر ایوان بالا میں فوج کو کاروباری سرگرمیوں سے روکنے اور انہیں دفاعی معاملوں تک محدود کرنے کے لئے تحریک پیش کی گئی۔ ’’روح بے چین ہے اِک دل کی اذیت کیا ہے ۔۔۔ دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوزِمحبت کیا ہے!‘‘ سینیٹ میں پیش کردہ مذکورہ تحریک پر بحث کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز اور پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمینٹرین) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دوران اجلاس (آن دی ریکارڈ) کہا کہ ’’فوج سے کاروباری اور کمرشل سرگرمیوں کے منصوبے واپس لے کر انہیں نجی شعبوں کو دیا جانا چاہئے تاکہ نجی شعبوں کو زیادہ سے زیادہ کاروبار کرنے کے مواقع مل سکیں۔‘‘ انہوں نے سینیٹ میں فوج کے زیرنگرانی پچاس سے زائد ذیلی اِداروں کی تفصیلات پیش کیں‘ جن میں سیمنٹ‘ زرعی کھادیں (فرٹیلائزر)‘ چینی کی پیداوار‘ مالیاتی اِدارے (بینکنگ) اُور تجارتی و رہائشی جائیداد کی خریدوفروخت (رئیل اسٹیٹ) سمیت دیگر کئی اداروں کو فہرست کیا گیا ہے۔ تحریک میں کہا گیا ہے کہ ’’فوج کے زیرنگرانی اداروں میں شفافیت کا فقدان پایا جاتا ہے اور معاہدوں (کنٹریکٹس)کو بغیر بولی جاری کرنا اور فوجی اِداروں کا آپس میں ایک دوسرے کو قرض دینے سے متعلق سوالات کا جواب (جواز) چاہتا ہے۔‘‘ 

سینیٹ اجلاس میں حکومت کی جانب سے امریکہ کو پاکستان کی حدود میں سال دوہزار کے بعد سے ہونے والے ڈرون حملوں سے معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرنے پر بھی قرارداد منظور کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جبکہ پاک فوج کا سربراہ کی سینیٹ آمد ہونے والی تھی اور اُس سے صرف ایک دن پہلے اِس قسم کی بحث سے کیا یہ تاثر نہیں دیا گیا کہ پارلیمان فوج کے ادارے پر اعتماد نہیں کرتی اور اُس کے معاملات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں اِداروں کے درمیان پایا جانے والا یہ ’ڈوبتا یقین‘ کسی بھی طرح خوش آئند نہیں اور نہ ہی اِس کے اظہار سے کسی بھی قسم کی قومی خدمت ہو رہی ہے بلکہ پہلے سے سنجیدہ و پیچیدہ معاملات کو مزید اُلجھایا جا رہا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اُٹھا رہے ہیں۔ 

سترہ دسمبر کے روز کوئٹہ کے ’مرکزی گرجاگھر‘ پر حملہ اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد کی طاقت کے مراکز منتشر تو ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی اپنی (ضمیرفروش) قیادت پر انتہاء درجے کا اِعتماد اُور ’غیرمتزلزل یقین‘ رکھتے ہیں‘ جس کا (بدقسمتی سے) قومی اِداروں میں فقدان پایا جاتا ہے!
۔

Tuesday, December 19, 2017

Dec 2017: Snowfall and lack of facilities in Galliyat

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
برفباری اور سرد مہری!
’’سر میں سموم سروری‘ رُخ پہ رقوم دلبری‘ دل میں ہجوم قاہری‘ لب پہ نجوم ابتسام‘‘ جیسا رنگارنگ منظر پیش کرنے والے ’خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے‘ بالخصوص ہزارہ ڈویژن کے معروف سیاحتی مقامات ’گلیات‘ نے موسم سرما کی ’پہلی برف باری‘ کے بعد سفید چادر اُوڑھ لی ہے‘ جنہیں دیکھنے اور برف پوش وادیوں میں پھیلی خوبصورتی اور موسم سے محظوظ ہونے کے لئے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اُمڈ آئی ہے‘ جو خلاف توقع نہیں۔ 

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے مطابق ماہ دسمبر کے پہلے ہفتے ہوئی برفباری دیکھنے کے لئے تین لاکھ سے زائد سیاح آ چکے ہیں یہ بھی خلاف توقع نہیں جبکہ اکیس مارچ تک جاری رہنے والے برفباری کے متوقع ’سیزن‘ کے دوران یہ تعداد مجموعی طور پر دس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی لیکن یہ تعداد بڑھنے کی توقع ہے۔ موسم سرما ہو یا گرما‘ گلیات کی کشش لاکھوں سیاحوں کو کھینچ لاتی ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت کے بلندبانگ دعوؤں کے باوجود گلیات (ضلع ایبٹ آباد کے بالائی بیشتر دیہیعلاقوں) میں بنیادی سہولیات کی سارا سال ہی فقدان رہتا ہے۔ قیام و طعام جیسی نجی خدمات فراہم کرنے والے سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور گراں فروشی کی انتہاء کر دیتے ہیں‘ جبکہ برف ہٹانے‘ بہتر و معیاری سہولیات اور سیاحوں کی رہنمائی اور شکایات کے لئے مربوط نظام کا مطالبہ ایک عرصے سے اِنہی سطور کے ذریعے بار ہا دہرایا جا رہا ہے‘ لیکن مجال ہے جو فیصلہ سازوں میں سے کسی ایک کے کان پر بھی جوں رینگے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی برفباری اور نظاروں سے محظوظ ہونے کے لئے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گلیات (آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ’سرکل بکوٹ‘) میں رہنے والے مقامی اَفراد کی زندگیاں بھی آسان نہیں ہوئی‘ جنہیں عمومی و اجتماعی طور پر برفباری سے راستوں اور بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کا گویا تجربہ ہو چکا ہے۔

حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن گلیات کی قسمت وہی کی وہی ہے۔ رواں ماہ ہوئی چند روزہ برفباری کے بعد سے ایبٹ آباد مری روڈ (مرکزی شاہراہ) کئی مقامات پر بند رہنے سے سیاح پھنسے رہے۔ نتھیاگلی‘ ڈونگا گلی اور ایویبہ کی سیر کے لئے آنے والوں پاس گاڑیوں کا ایندھن نہ رہا حتیٰ کہ موبائل فون کی بیٹریوں نے بھی کام چھوڑ دیا‘ جو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بذریعہ سماجی رابطہ کاری اکاونٹس صورتحال سے مطلع کرتے رہے لیکن اس دوران متعلقہ حکام کی سردمہری و بے حسی کا سورج سوا نیزے پر چمکتا رہا۔ ’جی ڈی اے‘ حکام نے ’خیبرپختونخوا ہائی وے اتھارٹی‘ کی درخواست پر باڑہ گلی سے نتھیاگلی اور ایویبہ تک کے راستوں کی صفائی کی تو اِس کا خوب چرچا کیا گیا لیکن محدود پیمانے پر ہونے والی اِن کوششوں اور جاری برفباری زیادہ بڑے پیمانے پر انتظامات کی متقاضی تھی۔ کیا متعلقہ حکام کو علم نہیں ہوتا کہ ہر سال گلیات میں برف پڑنے کے بعد‘ ذرائع ابلاغ پر برفباری کی خبریں نشر ہونے کے ساتھ ہی سیاحوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے لیکن نہ تو صوبائی حکومت کے ادارے اور نہ ہی ضلعی حکومتیں سیاحوں کی رہنمائی اور اُن کی شکایات کے ازالے کے لئے صف بستہ ہوتے ہیں۔ 

ایک عرصے سے گلیات کے لئے ’ٹورازم ایف ایم ریڈیو‘ اور سیاحوں کی گلیات میں داخلے کے موقع پر رجسٹریشن کی تجاویز دی جا رہی ہیں جو متعلقہ حکام کے سامنے زیرغور بھی ہیں لیکن چونکہ سہولیات کی فراہمی سے متعلق ایک جیسی ذمہ داری کے لئے ایک سے زیادہ ادارے فعال ہیں اِس لئے کوئی ایک حکومتی ادارہ اِسے اپنی ذمہ داری قرار نہیں دیتا۔ سیاحت کے فروغ کا ادارہ‘ گلیات کی ترقی کا ادارہ‘ شاہراؤں کی تعمیر و مرمت‘ توسیع اور اُنہیں سارا سال قابل استعمال رکھنے والا ادارہ اُور ضلعی حکومتیں اپنی اپنی جگہ موجود تو ہیں‘ ملازمین کی فوج ظفرموج بھی ہے اور ’’مراعات کی تقسیم‘‘ کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے لیکن اِس افرادی قوت اور وسائل کا عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کم سے تعلق نہیں! پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نتھیاگلی سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور موسم گرما میں اُن کے لئے گوشۂ سکون یہی مقامات رہے حتی کہ اپنے صاحبزادوں کو سیروتفریح کروانے کے لئے بھی وہ گلیات اور شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں جبکہ اِن علاقوں میں سیاحوں کے لئے فراہم کردہ سہولیات (مقدار و معیار کے لحاظ سے) اُنہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان باریک بین نہیں وہ سرسری طور پر بڑے بڑے فیصلے اور حکم صادر کرنے میں اپنا ایک خاص مزاج کی بدولت جس کسی چیز کے بارے میں ایک مرتبہ رائے قائم کر لیں تو اُس سے رجوع نہیں کرتے اور نہ ہی مڑ کر دیکھتے ہیں! اُن کی سماعتوں کو بھلے لگنے والے اعدادوشمار بھی ’ذہنی تفریح و تسکین‘ کا ذریعہ ہیں اور ساڑھے چار سال کی حکومت میں افسرشاہی جان چکی ہے کہ ’خان صاحب‘ کو کس طرح مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

حالیہ برفباری کے دوران‘ خوش قسمتی رہی کہ گلیات میں کوئی بڑا ٹریفک حادثہ نہیں ہوا۔ چند ایک مقامات پر درجنوں گاڑیاں پھسلن کے باعث آپس میں ٹکرائیں جس سے مالی نقصانات ہوئے اور اگر شاہراہیں صاف کرنے کے بڑے پیمانے پر اور بروقت انتظامات کئے جاتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ برفباری دیکھنے کے لئے آنے والوں کو زیادہ لطف آتا اور اُن کے ساتھ اچھی یادیں واپس جاتیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) ایبٹ آباد ’اشفاق انور‘ کے مطابق پولیس کی اضافی نفری اور ٹریفک پولیس کے حکام تعینات کر دیئے گئے تھے‘‘ جس کا فائدہ یقیناًہوا لیکن سیاحوں کے ساتھ مقامی افراد اور گلیات سے جڑی رابطہ شاہراؤں (لنک روڈز) کئی مقامات پر تاحال بند ہیں‘ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ صوبائی حکومت نے انقلابی اقدام کرتے ہوئے سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں کو ’گلیات‘ میں شامل کر دیا ہے تاہم رابطہ شاہراؤں میں توسیع اور انہیں قابل استعمال رکھنے سے متعلق اعلانات (انتخابی وعدے) ہنوز پورے نہیں کئے جاسکے اور اگر تحریک انصاف سرکل بکوٹ پر مشتمل علاقوں کو الگ تحصیل کا درجہ دینے کا وعدہ پورا نہیں کرتی تو اِس کے نامزد انتخابی اُمیدواروں کو آئندہ عام انتخابات میں عوام کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جو گلیات کے چند علاقوں پر نظرکرم سے نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضرورت ہی کم سے کم فراہم کر دی جائے۔ 

عجب ہے کہ برطانوی راج کے ایک معاہدے کے تحت گلیات (خیبرپختونخوا) سے پینے کا پانی مری (پنجاب) کو فراہم (سپلائی) ہوتا ہے لیکن مقامی افراد اِس آب زلال سے محروم تھے‘ آج بھی محروم ہیں!
۔