Sunday, July 31, 2016

Jul2016: Edhism & self center approach!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَدھوری فلاح!

بصارت سے محروم اَفراد کو فنی و تکنیکی جدید علوم سے آراستہ کرنے کے اِدارے ’ایمپاور پاکستان‘ خصوصی تعلیمی کی درسگاہ ’رائز سکول اُور میڈی بینک ٹرسٹ کی ایبٹ آباد (ہزارہ) شاخ کے زیراہتمام ’جلال بابا آڈیٹوریم‘ میں انعامات کی تقسیم ایک ایسی غیرمعمولی تقریب تھی جس میں اگرچہ سیاسی و سماجی‘ فلاحی و رفاحی خدمات فراہم کرنے والوں کی بھرپور شرکت دیکھنے میں نہیں آئی لیکن تشہیر کا ’ذوق و شوق‘ رکھنے والوں کے نمائشی چہرے بہرحال و بہرصورت اگلی نشستوں پر بُراجمان دیکھے گئے۔ 

جسمانی اور ذہنی کمزوریوں کے باوجود اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوانے والوں نے ایک مرتبہ پھر داد و تحسین وصول کی لیکن اُن کے حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی اور اِس تکلیف دہ حقیقت پر وہ بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں جن کے ہاتھ فیصلے اُور وسائل ہی! قرآن کریم سے تلاوت‘ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ قومی ترانہ‘ ملی نغمے‘ موسیقی کی تیز دھنوں پر خاکے اُور انگریزی اُردو زبانوں میں نظمیں پیش کرنے والے خصوصی بچے اُور بچیوں کی سرپرستی کا حق نہ تو انفرادی حیثیت سے ہو رہا ہے اُور نہ ہی ریاست خاطرخواہ حساس ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ عوام کے منتخب سیاسی و بلدیاتی نمائندوں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے‘ جن کی موجودگی سے کمی پوری نہیں ہو رہی لیکن کمی کا احساس بڑھ گیا ہے! سالانہ اربوں کا منافع کمانے والے نجی صنعتی و کاروباری ادارے بھی اپنی ’سماجی ذمہ داری (سوشل رسپانسبلٹی) کرنے میں کنجوسی سے کام لے رہے ہیں‘ ضرورت اِس امر کی ہے کہ خیرخواہی کے کام‘ مستحق افراد کی بحالی اُور انہیں معاشرے کا کارآمد جز بننے میں ممکنہ وسائل سے بڑھ کر مدد کی جائے۔

خصوصی افراد کی تقریب کے لئے حفاظتی و رہنمائی کے اِنتظامات ’سول ڈیفنس (شہری دفاع)‘ کے مستعد رضاکار سرانجام دے رہے تھے۔ ضلع ایبٹ آباد کے نگران صغیر احمد سواتی‘ ڈویژنل وارڈن سیّد ذاکر حسین شاہ‘ گروپ وارڈن سردار غلام مرتضیٰ اور دو درجن سے زائد رضاکاروں کی موجودگی ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد عمارہ خٹک نے باوجود دکھائی دینے کے بھی نظرانداز کی۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’آج اپنی چھوٹی چھوٹی سماجی خدمات کو عبدالستار ایدھی مرحوم کے نام کر رہے ہیں تاکہ ہماری زندگی کا کوئی نہ کوئی حصّہ سماجی خدمت سے منسوب ہو سکے۔‘‘ ضلعی انتظامیہ کو شہری دفاع کے رضاکاروں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے ’ریسکیو 1122‘ میں ملازمتیں ترجیحی بنیادوں پر دینے کے لئے کوششیں کرنی چاہیءں کیونکہ رضاکار پہلے ہی فرسٹ ایڈ‘ ریسکیو اُور فائر فائٹنگ کی تربیت اور عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ایبٹ آباد کے طول و عرض کو جانتے ہیں اور ایک عرصے سے شہری دفاع کے نام پر پیش پیش ہیں۔ 

ضلع ایبٹ آباد میں شہری دفاع کی موجودگی 1965ء سے ہے لیکن ہزارہ کے دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی تنظیمی ڈھانچہ بنیادی افرادی قوت سے محروم ہے۔ ڈویژنل انچارج فضل الرحمن مرحوم اُور گروپ وارڈن غلام قادر مرحوم کی خدمات کا اعتراف بھی تاحال نہیں کیا جاسکا‘ جنہیں سول ایوارڈز اور تنظیم کی طرف سے پسماندگان کے لئے مالی امداد یا بچوں کے لئے ملازمتیں فراہم کرنے کی سفارش صوبائی حکومت کو ارسال کی گئی ہے جس پر خاموشی طاری ہے۔ اگر شہری دفاع کا کوئی رضاکار ’بی بی اے‘ کی تعلیم کر رہا ہے اور وہ اپنا وقت سماجی و فلاحی خدمات میں بناء نمودونمائش صرف بھی کر رہا ہے تو ’ریسکیو1122‘ میں میٹرک یافتہ کی بجائے اِنہیں موقع ملنا چاہئے۔ یادش بخیر خیبرپختونخوا میں 31 ملازمتیں مشتہر کی گئیں ہیں جن میں ضلع ایبٹ آباد کے لئے 6 اسامیوں پر انسٹرکٹر گریڈ ٹو مرد‘ انسٹرکٹر گریڈ ٹو خاتون‘ انسٹرکٹر گریڈ تھری (مرد)کی تین اسامیاں اُور جونیئر کلرک کی اسامی مشتہر کی گئیں جن پر بھرتی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ بارہ جولائی درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ 

پچیس جولائی کو شارٹ لسٹ اُمیدواروں کی فہرست جاری ہونا تھی جو پانچ روز تاخیر سے جاری کی گئی اور حیرت انگیز طور پر سوائے جونیئر کلرک کے باقی اسامیوں پر غیر مقامی افراد کو چن لیا گیا۔ 

کمشنر ہزارہ کو نوٹس لینا ہوگا کہ کوہستان‘ بٹ گرام‘ طورغر‘ مانسہرہ‘ ایبٹ آباد اُور ہری پور میں شہری دفاع کے دفاتر موجود ہیں جن میں پانچ مقامی افراد کے علاؤہ باقی ایسے غیرمقامی ملازمین ہیں جو نہ تو مستقل موجود رہتے ہیں اور نہ ہی قابلیت و تجربے کے لحاظ سے اہل ہیں! 

ایدھی کو ایک فلسفہ بنا کر پیش کرنے والوں کو اپنے قول و فعل پر نظر کرنی چاہئے کہ کس طرح اُن کی ذات معاشرے کے لئے مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود مسئلہ ہے۔ ایدھی کو اتنا مظلوم نہ بنایا جائے کہ اُس کا نام استعمال کرکے ہمدردیاں بٹوری جائیں۔ جس سست روی سے معاشرے کے غریب طبقات‘ کمزور و خصوصی افراد کی زندگیاں تبدیل کرنے کے نام پر تنخواہیں اور مراعات وصول کی جا رہی ہیں‘ اُس سے بیرون ممالک کے دورے کرنے اور اعزازات پانے والوں کی فوج تو پیدا ہو گئی ہے لیکن مستحقین کے شب و روز وہی کے وہی ہیں! تصور کیجئے کہ 1975ء میں قائم ہونے والے ہزارہ ڈویژن کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں پینے کا صاف (فلٹرشدہ) پانی تیس جولائی دو ہزار سولہ کے دن فراہم ہونا شروع ہوا‘ اور جب اِس بات کا تذکرہ ’ڈی سی صاحبہ‘ کر رہی تھیں تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا‘ شاید وہ ’’داد‘‘ نہیں بلکہ ایسی ’’فریاد‘‘ تھی‘ جو غریبوں کی ’حالت زار‘ کی طرح سمجھی نہیں جا سکی!
Remembering Edhi but our own cause