Saturday, July 18, 2020

Social Media & changing role of journalism

سوشل میڈیا: روشن پہلو
اِنفارمیشن ٹیکنالوجی ’مشکل‘ نہیں ’مشکل کشا‘ ہے لیکن یہ مکمل حقیقت (پورا سچ) نہیں۔
پاکستان میں عمومی تاثر ’گمراہی کا سبب‘ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیدا ہونے والی مشکلات اُس کے عمومی اُور روائتی طور طریقوں‘ تجربات (کامیابیوں) کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ٹیکنالوجی ’غیرروائتی انداز میں فکر و عمل (تحریک)‘ کا نام ہے‘ جسے ہمہ وقت رہنما اُور رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے تاکہ یقین کی کشتی معلوم اُور نامعلوم جزیروں (حقائق) کے درمیان سفر جاری رکھے اُور یہ سفر محفوظ‘ آسان اُور مالی و افرادی وسائل کی بچت کے ساتھ باسہولت بھی رہے۔

کون نہیں جانتا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت وقت اُور جغرافیائی سرحدوں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے اُور ایک ایسا ”عالمی معاشرہ“ تخلیق پا چکا ہے‘ جس میں ہر دن قربت اُور تعاون کے نت نئے اِمکانات جنم لے رہے ہیں اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی جو کہ بنیادی طور پر ’سہولت کاری‘ جیسا کلیدی کردار اَدا کر رہی ہے اِس کی بدولت انسانی معاشروں کے سماجی‘ سیاسی‘ درسی و تدریسی‘ تحقیقی‘ طبی‘ معلوماتی اُور معاشی و اقتصادی معمولات (رویئے) تبدیل ہو رہے ہیں۔ بالخصوص جب ہم صحافت (ذرائع ابلاغ) کے تناظر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اُور اِس کے استعمال سے نتائج یعنی سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کے حاصل وصول (اثرات) کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا حسب ضرورت‘ انتخاب‘ پسند اُور ترجیح جیسے مدارج تو طے کر گئی ہے لیکن اِس سے متعلق قومی حکمت عملی (مربوط کوششیں) دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔

دعوت فکر ہے کہ سوشل میڈیا کے شعوری (بامقصد) استعمال و ترقی کے لئے حکومت اُور نجی اِدارے اِنفرادی و اِجتماعی سطح اُور شراکت داری ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا خودرو نہیں۔ سوچ‘ سمجھ بوجھ اُور منصوبہ بندی جیسی تین ضروریات پیش نظر رہنی چاہئے۔ اب تک وقت‘ توجہ‘ تحقیق اُور مالی وسائل کے ذریعے خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی لیکن انفرادی و اجتماعی طور پر‘ ہر کس و ناکس (خاص و عام) کی کوشش و خواہش ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی (بھیڑ چال) میں ’سوشل میڈیا‘ سے مقبولیت‘ مالی فوائد یا یہ دونوں ثمرات حاصل کرے اُور اِس سوچ و مقصد کے تحت ایک ایسے مقصد کا طواف جاری رکھے جس کے کئی زیادہ روشن (ضمنی تعمیری) پہلو نظروں سے اُوجھل ہو گئے ہیں۔

مفید اُور مفاد میں توازن ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے مفید ہونے سے کسی کو انکار نہیں لیکن اِس سے جڑے مفادات اُور اُن کے اثرات بارے نسبتاً زیادہ غور و خوض ہونا چاہئے۔ ’سوشل میڈیا‘ کا صحافت اُور صحافت کے ’سوشل میڈیا‘ کے مختلف شعبوں پر الگ الگ اثرات کو سمجھنے اُور اِن کی اخلاقیات (حدود) کے ’معلوم تعین‘ کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سچائی پر سمجھوتہ کئے بغیر کسی کی ہتک و خاطرشکنی (دل آزاری) نہ ہو اُور بیان و اظہار کے شائستہ پہلو بھی نمایاں رہیں۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مظاہر ہوں یا ٹیکنالوجی کے نت نئے انداز‘ اِنسانی جذبات اُور احساسات کی اہمیت کم یا اِن پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے‘ جس کی جانب عظیم اُردو شاعر اُور فلسفی ڈاکٹر علامہ اقبالؒ (1877ء- 1938ئ) نے اپنی نظم ’لینن‘ میں اشارہ کیا تھا۔ ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت .... احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔“

پہلا تعمیری پہلو
سوشل میڈیا سے قبل اخبارات‘ جرائد اُور ٹیلی ویژن چینلز (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) یک طرفہ (monologue) اِظہار کا ذریعہ تھے‘ جنہیں سوشل میڈیا نے دو طرفہ اظہار (dialogue) کی مدد سے زیادہ موثر بنا دیا ہے اُور یہیں سے صحافیوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ اب اُنہیں صرف خبر اُور تجزئیات کا اِظہار ہی نہیں بلکہ اُن کا تاحیات دفاع بھی کرنا ہوتا ہے اُور وہ قارئین و صارفین سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جو کسی جاندار کے لئے آکسیجن جیسی ضرورت ہوتی ہے۔ روائتی ذرائع ابلاغ کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک خبر پر کئی دن‘ ہفتوں یا سالہا سال بحث جاری رکھیں لیکن سوشل میڈیا کی وساطت سے کسی خبر اُور تجزیئے کا سورج غروب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک ’زندہ حقیقت‘ بن کر دائمی شکل اِختیار کر لیتا ہے اُور یہی سوشل میڈیا کا وہ ’روشن (تعمیری) پہلو‘ ہے جو ’آزادی اظہار (freedom of speech)‘ سے متعلق ہے۔ اِنسانی تاریخ میں اپنے خیالات (پسند و ناپسند پر مبنی عمومی یا ماہرانہ رائے) کا اِظہار کبھی بھی اِس قدر آسان نہیں تھا۔

دوسرا تعمیری پہلو:
 سیاسی رہنماوں اُور صحافیوں کی اکثریت اظہار کے لئے سوشل میڈیا کے مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر (Twitter)‘ سے استفادہ کر رہی ہے۔ ٹوئیٹر کا باضابطہ پہلا دن (launching) 15 جولائی 2006ءکے روز 13 سال قبل (رواں ہفتے) ہوئی تھی اُور فروری 2020ءمیں جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ٹوئیٹر کے فعال (active) صارفین کی تعداد 32 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے‘ جن میں امریکہ کے صدر سے لیکر پاکستان و بھارت کے وزرائے اعظم اُور دنیا کے سبھی ممالک کے فیصلہ سازوں کی کسی نہ کسی صورت موجودگی اِس حقیقت کا بیان ہے کہ سیاست ہو یا صحافت‘ اظہار کے لئے سوشل میڈیا ہی پہلا انتخاب (choice) اُور ترجیح (priority) بن چکی ہے۔

تیسرا تعمیری پہلو
سوشل میڈیا نے ذرائع ابلاغ کے نئے اسلوب متعارف کروائے ہیں جیسا کہ بز فیڈ (Buzz Feed) اُور لیڈ بائبل (LADbible) وغیرہ جبکہ خبروں (نیوز)‘ اطلاعات (اناو نسمنٹ) اُور معلومات (انفارمیشن) تک رسائی کے لئے نت نئی سہولیات کا اجرا مسلسل ہو رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ وجود میں آنے والے ’ذرائع ابلاغ کے نئے ادارے‘ صرف اُور صرف سوشل میڈیا کا احاطہ کرتے ہیں‘ جن کے مطالعے سے سوشل میڈیا کے رجحانات اُور مقبول اسلوب کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی سمجھنا چاہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا کی بدولت جو اپنی طرز (نوعیت) کی ”انوکھی مشکل“ پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب خبروں کی کمی نہیں رہی بلکہ بہتات ہو گئی ہے اُور اِس ”لمحہ بہ لمحہ خبرنگاری“ نے پیشہ ور (تربیت یافتہ) صحافیوں کے شانہ بشانہ سوشل میڈیا صارفین کو لاکھڑا کیا ہے جو ایک دوسرے کے ”مدمقابل“ نہیں بلکہ ایک دوسرے کی خدمات‘ تجربے اُور رسائی سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اُور ایسی سینکڑوں ہزاریں مثالیں موجود ہیں‘جن سے تعمیری و تحقیقی صحافت نے جنم لیا ہے۔ 

سوشل میڈیا سے قبل کسی خبر (متن) کی تصدیق کے لئے ادارہ جاتی ساکھ کو دیکھا جاتا تھا اُور اب کسی خبر کی ذیل میں ’آن لائن تبصروں‘ سے اُس کے مندرجات کی سچائی اُور اُن سبھی ضمنی پہلووں سے شناسائی حاصل کی جاتی ہے جن کا ذکر کوئی ادارہ یا صحافی دانستہ یا غیردانستہ طور پر نہیں کرتا۔ مختصراً سوشل میڈیا کے 3 تعمیری پہلووں (آزادی اظہار‘ انتخاب و ترجیح اُور مجموعات پر مبنی نئے اسلوب) کا احاطہ ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین (بشمول ذرائع ابلاغ سے جڑے صحافتی اِداروں اُور پیشہ ور صحافیوں) کو اِس بارے میں سوچنا ہوگا کہ .... ”سوشل میڈیا کے مستقبل میں صحافتی اداروں اُور پیشہ ورانہ (تربیت یافتہ) صحافیوں کی  اہمیت و کردار کیا ہوگا؟
Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad - Saturday, 18 July 2020
Editorial Page - Daily Aaj Peshawar / Abbottabad - July 18, 2020 Saturday

COLLECTIVE SACRIFICE: An idea and need of the hour!

اجتماعی قربانی
معروف لسانی و سیاسی جماعت ”پاکستان ہندکووان تحریک (پشاور شاخ)“ کی جانب سے جاری ہونے والا غیرسیاسی پیغام توجہ طلب ہے جس میں عیدالاضحی کے موقع پر (اِس مرتبہ) زیادہ سے زیادہ ’اجتماعی قربانی‘ اُور اِس سلسلے میں تحریک کی زیرنگرانی کئے گئے خصوصی انتظامات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ قبل ازیں کورونا وبا کے سبب معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے ’ہندکووانوں‘ کے لئے مالی امداد اُور رمضان المبارک کے دوران اشیائے خوردونوش کی مستحق ’ہندکووان خاندانوں‘ میں تقسیم نے مذکورہ تحریک کو نئی پہچان‘ جان اُور شان عطا کی ہے اُور اِس کا شمار پاکستان کی اُن صف اوّل میں شامل معروف فلاحی تنظیموں کے ساتھ ہونے لگا ہے جو مشکل کی ہر گھڑی میں پیش پیش رہتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’ہندکوان تحریک‘ کے اہداف و مقاصد صرف اُور صرف ہندکو زبان بولنے والوں کے سیاسی و سماجی حقوق کا تحفظ اُور اُن کی ہر ممکنہ امداد ہے جو نہایت ہی خوش اسلوبی‘ ذمہ داری اُور امانت و دیانت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری ہے۔
جولائی 2018ءکے عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کو اگرچہ ہندکوزبان بولنے والوں کی جانب سے انتخابی مرحلے میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی لیکن جس سیاسی جماعت کا عام انتخاب سے اپنے سفر کے آغاز اُور روائتی انداز میں سیاسی بیان بازی کی بجائے کسی غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) اُور فلاحی ادارے کی طرح سماجی خدمت پر یقین ہو اُس کی سیاست کو زوال نہیں ہوسکتا اُور نہ ہی اُس کی مقبولیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو سکتی ہے۔ پہلی نظر میں ’ہندکووان تحریک‘ کا پیغام تعصب اُور امتیازی لگتا ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو قومی سیاست کرنے والی خیبرپختونخوا‘ پنجاب‘ بلوچستان اُور سندھ کی قوم پرست جماعتیں کم وبیش اِسی قسم کے اہداف و مقاصد رکھتی ہیں لیکن وہ اِن کا زیادہ پرچار اُور اظہار نہیں کرتیں۔ امتیاز لائق توجہ ہے کہ ہندکووان تحریک کے انتخابی و سیاسی منشور کا ہر لفظ اُور جملہ صرف اُور صرف ہندکو زبان اُور اِس زبان کے بولنے والوں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر میں لایا گیا ہے اُور حسن ظن یہ ہے کہ یقینا فیصلہ سازی کا موقع ملنے پر اِسے فراموش نہیں کیا جائے گا اُور مادری زبان ہندکو بولنے والوں سے ہونے والے امتیازی سلوک اُور روئیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔
متعدد سوشل میڈیا وسائل اُور بالخصوص واٹس ایپ گروپس کے ذریعے اُن ”سفید پوش ہندکو بولنے والوں“ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اپنی ضروریات کے لئے ہاتھ پھیلا نہیں سکتے۔ جو اپنی محتاجی و لاچاری کا پرچار کرنے کے ماہر نہیں اُور جن کو سہارا دینے کے لئے سیاسی و سماجی سطح پر خاطرخواہ دردمندی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ پشاور کی ایک معروف کاروباری شخصیت سے بات چیت کے دوران ایک ایسی پریشان کن حقیقت معلوم ہوئی‘ کہ جس کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اُور وہ یہ کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ پشاور کے اِس سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کے دروازوں پر زکوة اُور خیرات و صدقات کی صورت مالی مدد مانگنے والوں کی بھیڑ میں ہندکوزبان بولنے والے شامل ہوں لیکن اب اکثریت ہندکو بولنے والوں کی ہوتی ہے!“

آخر ایسا کیا ہوا کہ ہندکو بولنے والے مفلس اُور محتاج ہوتے چلے گئے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو اُن سیاسی امتیازات اُور لسانی تعصبات (سلوک) کو بھی شمار و فہرست کرنا ہوگا‘ جو مادری طور پر ’ہندکو زبان‘ بولنے والوں سے روا رکھا گیا اُور یہ کسی ایک سیاسی دور کی بات نہیں لیکن گزشتہ بیس برس کے دوران بالخصوص خیبرپختونخوا کے ہندکووان گھرانوں کو سرکاری و نجی ملازمتوں‘ معیاری تعلیم و روزگار اُور کاروبار میں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع ملے ہیں۔

اُمید ہے کہ ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کی پشاور شاخ ہندکووان گھرانوں کے کوائف جمع کرنے اُور اُن کی مالی معاشی و دیگر مشکلات سے متعلق اعدادوشمار جمع کرے گی۔ اِس سلسلے میں تحریک کی ’موبائل فون ایپ‘ جوکہ پہلے ہی فعال ہے‘ کے ذریعے خانہ و مردم شماری کے ساتھ خاندانوں کی انفرادی معاشی و مالی حالت کے بارے میں بھی کوائف (ڈیٹا) جمع کیا جا سکتا ہے اُور چونکہ آئندہ عام انتخابات کی اُلٹی گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اُور 2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی موجودہ حکومت اپنی نصف مدت مکمل کر چکی ہے اِس لئے ہندکووانوں کو اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے۔ اغیار سے توقعات وابستہ رکھنا خود کو مزید دھوکہ دینے کے مترادف عمل ہے۔

وقت ہے کہ صاحب ثروت ہندکووان عیدالاضحی کے موقع پر نہ صرف اجتماعی قربانی بلکہ دیگر ایام میں اپنے ’ہم زبان‘ قرابت داروں اُور دکھ درد کے حقیقی شرکا کی استعانت کریں۔

وقت ہے کہ ہندکووان خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے متعلق قومی و صوبائی فیصلہ سازی کا اختیار اُن نمائندوں کے حوالے کریں‘ جنہیں نمائندگی کرنے کا حق ہونا چاہئے اُور جو اُن کے دکھ درد‘ مشکلات‘ مصائب اُور پریشانیوں کا کماحقہ احساس کرتے ہوئے صرف پریشان نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھکان چکے ہیں جو ہندکو زبان اُور ہندکو زبان بولنے والوں سے روا رکھے گئے تعصبات‘ امتیازات اُور اِن کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔

یقینا یہ وقت اجتماعی قربانی کا ہے۔
ایک ایسی قربانی جو معنوی اعتبار سے زیادہ وسیع ہو۔ جو محض عیدالاضحی کے موقع پر مال مویشیوں کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ اِس میں حقوق العباد کی ادائیگی اُور اِس کے لئے قرابت داروں کے انتخاب پر مبنی ترجیح بھی شامل حال ہونی چاہئے۔

”انسانیت کے درد کی آواز بن سکے ....
سوزِ نوا سے سینچئے زخم خیال کو (رفیق خاور جسکانی)۔“
........
Clipping from Daily Aaj - 18 July 2020 Saturday
Editorial Page of  Daily Aaj Peshawar / Abbottabad . Saturday 18 July 2020