Sunday, March 24, 2019

TRANSLATION "Pakistan Steel" by Dr. Farrukh Saleem

Pakistan Steel
پاکستان اسٹیل ملز
تاریخ: پاکستان اسٹیل ملز سال 2000ء سے لیکر 2007ء کے دوران ہر سال منافع دے رہی تھی۔ اِس تمام عرصے میں مجموعی منافع 20 ارب روپے تھا لیکن 2008ء سے 2013ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ 100ارب روپے تک پہنچ گیا‘ یعنی دوہزارآٹھ سے دوہزارتیرہ کے درمیان ہر سال اِس اہم قومی ادارے نے قومی خزانے کو مالی نقصان پہنچایا اُور اگر ہم مجموعی خسارے کی بات کریں تو اِس عرصے میں 138 ارب روپے نقصان ہوا تھا۔

سوال: پاکستان اسٹیل ملز کا مالی خسارہ اُور اِس کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں کی مالیت کتنی ہے؟
جواب: پاکستان اسٹیل ملز کل 476 ارب روپے کا مقروض ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اِس مالی خسارے کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقات نہیں کروائیں۔ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا اُور نہ ہی اِس سلسلے میں کسی کا احتساب ہوا۔ تصور کیجئے کہ 476 ارب روپے جیسا خطیر بوجھ اور اِس مالی بوجھ کو پر پاکستانی خاندان پر مساوی تقسیم کیا جائے تو یہ رقم 15 ہزار روپے فی خاندان بنے گی!

پاکستان اسٹیل ملز کے مالی نقصانات کے بارے میں ’سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ)‘ کو آگاہ کیا گیا ہے اُور اِس سلسلے میں عدالت کو فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسٹیل ملز کا ایک سال میں کاروباری خسارہ 4.68 ارب روپے۔ بدعنوانیوں کی وجہ سے ایک سال میں خسارہ 9.99 ارب روپے۔ بدانتظامیوں کی وجہ سے ایک سال میں ہونے والا خسارہ 11.84 ارب روپے اُوریوں سال2008-09ء کے دوران اِس کا کل خسارہ 26 ارب روپے تھا۔ 18 اگست 2009ء کے روز‘ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کے چیئرمین کو بدعنوانی کے الزامات پر اپنے عہدے سے الگ کیا لیکن خاص بات یہ ہے کہ اُن کے خلاف بدعنوانیوں کے جرم میں تحقیقات نہیں کی گئیں۔

خطرے کی گھنٹی: لائق توجہ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے سات ماہ کے عرصے میں بھی ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کے معاملات (خسارہ‘ بدعنوانی اُور بدانتظامی) کا سلسلہ جاری ہے اور تحریک انصاف حکومت (سات ماہ) کے دوران اِس ادارہ نے ہر دن 120 ملین (12 کروڑ روپے یومیہ) کے حساب سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور نقصان کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگست 2018ء سے مارچ 2019ء تک پاکستان اسٹیل ملز نے 25 ارب روپے نقصان کیا۔

پہلی حقیقت: سال 2015ء میں ایک موقع پر ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کو بند کر دیا گیا تھا۔ 
دوسری حقیقت: پاکستان ہر ماہ 40 کروڑ ڈالر مالیت کی اسٹیل درآمد کرتا ہے۔
تیسری حقیقت: پاکستان اسٹیل ملز سے پیداوار اُور منافع تو حاصل نہیں ہورہا لیکن اِس ادارے کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں 380 ملین (38 کروڑ روپے) ہیں۔
موجودہ صورتحال: اکتوبر 2018ء میں وزارت صنعت و پیداوار نے اسٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے 45 روزہ حکمت عملی (پلان) کا اعلان کیا۔ یہ حکمت عملی وزیراعظم کے مشیر رزاق داؤد کی سوچ بچار کا نتیجہ تھی۔ 16 نومبر 2018ء کے روز وزیرخزانہ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’’حکومت کا اسٹیل ملز اصلاحات کے حوالے سے بہت سا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔‘‘ مارچ 2019ء تک اسٹیل ملز بحالی سے متعلق حکومتی حکمت عملی کا اطلاق نہ ہوسکا اُور قابل ذکر ہے کہ اگست 2018ء سے مارچ 2019ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز نے مزید (اضافی) 25 ارب روپے کا خسارہ کیا۔

راقم کو ’اکنامک کورآرڈنیشن کونسل (اقتصادی رابطہ کونسل)‘ کے 7 اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ اجلاس اکتوبر 2018ء سے مارچ 2019ء کے درمیان منعقد ہوئے اور اِن میں پاکستان اسٹیل ملز کا معاملہ زیرغور آیا۔ مارچ 2019ء میں بھی اسٹیل ملز بحالی کی حکمت عملی نافذ نہیں ہو سکی اُور اِس ادارے نے مزید 25 ارب روپے کا خسارہ کیا ہے۔

رکاوٹیں کیا ہیں؟ مفادات کا تصادم پاکستان اسٹیل ملز سے متعلق حکومتی اصلاحات کے نفاذ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نجی شعبہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی صورت پاکستان اسٹیل ملز اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔

چوتھی حقیقت: پاکستان میں اسٹیل کی صنعت کے لئے حکومتی قیمتیں کچھ اِس طرح مرتب کی گئی ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کی عدم موجودگی میں نجی شعبہ ہر سال اربوں روپے کما رہا ہے۔

پہلی تجویز: سرکاری اداروں کو چلانے کے لئے ’’پبلک سیکٹر رولز 2013ء‘‘ پر عمل درآمد کیا جائے۔
دوسری تجویز: پیشہ ور اور تجربہ کار شخص کو پاکستان اسٹیل ملز کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
تیسری تجویز: اسٹیل ملز کے مالی امور کی درستگی اور سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لئے پیشہ ور‘ تجربہ کار اُور اچھی ساکھ رکھنے والا ’چیف فنانشیل آفسیر‘ (مالی امور کا منتظم) مقرر کیا جائے۔
چوتھی تجویز: پیشہ ور ڈائریکٹرز تعینات کئے جائیں۔
پانچویں تجویز: پیشہ ور جنرل منیجرز تعینات کئے جائیں۔
چھٹی تجویز: اسٹیل کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے اور پاکستان اسٹیل ملز کے لئے بھی کاروبار کے یکساں مواقع پیدا کئے جائیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں اسٹیل ملز کی بحالی کے لئے جو کامیابی کوششیں کی گئیں اُن کے لائحہ عمل اور نتائج مطالعے کے لئے موجود ہیں۔ اِن میں ڈاکٹر اکرم شیخ نے اسٹیل ملز کی افرادی قوت اور مالی امور کی درستگی کے لئے اقدامات کئے تھے۔ اِسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) صبیح قمر الزمان نے اسٹیل ملز کی 95فیصد پیداواری صلاحیت بحال کر دی تھی۔

اسٹیل ملز کی بحالی سے حکومت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اگر حکومت اسٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتی ہے اُور اِس کی پیداوار شروع ہونے کے بعد اسٹیل کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کرتی ہے تو اِس سے اضافی ٹیکسوں کی صورت اربوں روپے کا منافع حاصل ہوگا۔ دوسرا حکومت ملکی ضروریات پورا کرنے کے لئے جو 3 ارب ڈالر مالیت کی سالانہ اسٹیل درآمد کر رہی ہے اُس میں بھی بچت ہوگی۔ تیسرا یہ کہ حکومت نئے پاکستان میں 50لاکھ نئے گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کئے بیٹھی ہے اور اگر اسٹیل کی ملکی پیداوار کا آغاز ہوتا ہے تو اِس سے حکومت کے لئے کم قیمت میں اپنے وعدوں کی تکمیل ممکن ہوگی۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ کم قیمت اسٹیل سے ملک میں تعمیر ہونے والے پن بجلی کے منصوبوں کی ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی اُور پانچواں فائدہ قومی خزانے پر اسٹیل مل کا بوجھ کم ہونے کے ساتھ ملک کا اقتصادی تحفظ و مفاد یقینی اور مضبوط بنایا جا سکے گا۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, March 17, 2019

TRANSLATION: Is it working by Dr. Farrukh Saleem

 ? Is it working
طرزحکمرانی: خاطرخواہ نتائج؟

بیس اگست دوہزار اٹھارہ: سولہ رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھایا۔ اُس وقت (اگست دوہزاراٹھارہ) میں پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 10 ارب ڈالر تھا۔ تب سے آج (مارچ دوہزار اُنیس) تک پاکستان 3ارب ڈالر ’سعودی عرب‘ اُور 2 ارب ڈالر ’متحدہ عرب امارات (یو اے اِی)‘ یعنی مجموعی طور پر 5 ارب ڈالر قرض لے چکا ہے۔ اِس حساب سے پاکستان کے خزانے میں 15 ارب ڈالر ہونے چاہیءں لیکن صورتحال یہ ہے کہ 8 مارچ 2019ء کے روز‘ ملک کے مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 8.1 ارب ڈالر ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان کی اقتصادی بہتری کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!

پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کے آنے کے وقت (اگست 2018ء) میں ملک کا گردشی قرض 1.1 کھرب روپے تھا۔ 17 ستمبر 2018ء کو حکومت نے بجلی کے پیداواری شعبے میں اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا‘ اُور اِس مقصد کے لئے ایک ’ٹاسک فورس (task-force)‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ 20 اکتوبر 2018ء کے روز وفاقی حکومت نے ’خصوصی معاون برائے شعبۂ توانائی‘ مقرر کیا۔ اِس کوشش کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ نہ صرف توانائی کے پیداواری شعبے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے بلکہ اِس کی کارکردگی بھی بہتر بنائی جا سکے‘ جس سے ملک کو گردشی قرضے جیسے مسئلے سے مستقل نجات دلائی جائے لیکن گردشی قرض بڑھتا چلا گیا۔ جنوری 2019ء میں گردشی قرض کا حجم 1.4کھرب روپے تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے 137دن کے اندر گردشی قرضے میں 260 ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ چند برس قبل تک گردشی قرض میں ہر روز 1 ارب روپے اضافہ ہو رہا تھا۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان گردشی قرضے سے نمٹنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!

سال 2000ء سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز نے ’20 ارب روپے‘ منافع کمایا تھا۔ سال 2008ء اور 2013ء کے درمیان پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ 100 ارب روپے رہا یعنی اِس عرصے (سال 2013ء سے سال 2018ء) کے درمیان اسٹیل ملز نے 138 ارب روپے خسارہ کیا۔ فی الوقت (مارچ دوہزار اُنیس میں) ’پاکستان اسٹیل ملز‘ یومیہ 7 کروڑ (70ملین) روپے خسارہ کر رہی ہے اور یہ خسارہ کسی ایک دن نہیں ہوتا بلکہ سارا سال ہر دن سات کروڑ روپے کے حساب سے ہو رہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ’اسٹیل ملز‘ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور خسارے سے نکالنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!

سال 2013ء میں پاکستان کے تمام سرکاری اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) کا مجموعی خسارہ 495 ارب روپے تھا۔ سال 2018ء میں یہ خسارہ بڑھ کر 1100 ارب روپے ہو گیا۔ ’پندرہ نومبر دوہزار اٹھارہ‘ کے روز ’وفاقی کابینہ‘ کے ایک اجلاس میں ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ کے نام سے ایک حکومتی ادارہ قائم کیا گیا۔ اِس ادارے کی کارکردگی کیا رہی یہ جاننے کے لئے پندرہ نومبر سے آج تک ہوئے سرکاری اداروں کے خسارے پر نظر ڈالیں تو اِس میں ماضی کے مقابلے ’500 ارب روپے‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان سرکاری اداروں کے خسارے کو کم کرنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جولائی سے جنوری 2018ء کے مالی سال کے دوران پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری (foreign investment) کا حجم 4.1 ارب ڈالر رہا جبکہ جولائی سے جنوری 2019ء (تحریک انصاف کے دور حکومت میں) 1 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی! سیاسی رہنماؤں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمران بننے کے بعد اُن کے رویئے ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے لیکن اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے اور اعدادوشمار چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے لئے جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ اُس پر غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومتی کوششوں کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے!
کسی حکومت کی کارکردگی کا اصل احوال اِن دو امور سے چلتا ہے کہ اُس کے دور حکومت میں ملک کی مجموعی خام پیداوار میں کس قدر اضافہ ہوا‘ اُور اُس کے دور حکومت میں پاکستان کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں (قرضوں) کے حجم میں کس قدر کمی ہوئی۔ سال 2008ء‘ میں پاکستان کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت کے دوران اِس میں اضافہ کرتے ہوئے 16 کھرب روپے کر دیا گیا یعنی پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں ہر دن 5 ارب روپے قرض لیا۔ سال 2013ء میں پاکستان کے ذمے کل قرض 16کھرب روپے تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہر دن 7.7 ارب روپے قرض لیا گیا جس سے مجموعی قومی قرض کا حجم 30 کھرب روپے تک جا پہنچا۔

خطرے کی گھنٹی: تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان کے ذمے غیرملکی قرضہ جات کے حجم ’’5.7 ارب ڈالر‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں پاکستان ماہانہ 814 ملین (81 کروڑ 40لاکھ) ڈالر کی شرح سے قرض لے رہا ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ماہانہ ’556 ملین (55 کروڑ 60 لاکھ) ڈالر‘ قرض لیا جاتا رہا۔

جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے عوام نے ’تحریک انصاف‘ کو 5 سال حکومت کرنے کا اختیار (مینڈیٹ) دیا۔ کسی حکومت کی آئینی مدت 5 سال یعنی مجموعی طور پر 1825 دن بنتی ہے۔ اِس حساب سے موجودہ حکومت کے دور اقتدار کا آٹھواں حصہ مکمل ہو چکا ہے اُور اِس کے پاس کل آئینی مدت کے سات حصے باقی بچے ہیں لیکن مالی نظم و ضبط و اقتصادی بہتری کے لئے اب تک کئے گئے حکومتی اقدامات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, March 10, 2019

TRANSLATION: The Indo-Israeli nexus by Dr. Farrukh Saleem

The Indo-Israeli nexus
بھارت اِسرائیل گٹھ جوڑ!
دفاعی تعاون کے شعبے میں بھارت اُور اسرائیل کے درمیان ’گٹھ جوڑ‘ اسلحے کی خریدوفروخت کے علاؤہ بھی کئی اہداف رکھتا ہے۔ ہر سال اسرائیل بھارت کو ’اربوں ڈالر‘ مالیت کا جدید ترین اسلحہ فروخت کر رہا ہے اور یہ بات راز نہیں رہی کہ اسرائیل سے جنگی سازوسامان خریدنے والوں میں بھارت دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ 26 فروری کے روز صبح 3 بج کر 30 منٹ پر بھارتی فضائیہ کے 12 ’میراج (Mirage) 2000‘ نامی طیارے جو ’پوپائے (Popeye)‘ نامی فضاء سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیاروں (میزائلوں) سے لیس تھے‘ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ اسپائس (Spice) کہلانے والی میزائل ٹیکنالوجی مختلف قسم کے الیکٹرانک آلات پر مشتمل ہے‘ جس کے ذریعے کسی ہدف کو نہایت ہی صفائی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی جو کہ ’رافیل ایڈوانس ڈیفینس سسٹم‘ بھی بناتی ہے کی تخلیق ہے جس کا صدر دفتر (ہیڈکواٹر) ’حایفا (Haifa)‘ اسرائیل میں ہے۔ ’پوپائے‘ میزائل بھی اِسی کمپنی کا بنایا ہوا ہے۔

سال 1992ء تک بھارت کی شہریت (پاسپورٹ) رکھنے والوں کو اسرائیل سفر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 1997ء میں اسرائیل کے اُس وقت کے صدر ’وائزمین (Weizman)‘ نے بھارت کو ’باراک (Barak) ون‘ نامی میزائل فروخت کئے تاکہ بھارت پاکستان کے ’ہارپون (Harpoon)‘ بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کا جواب دے سکے۔ 1998ء میں اسرائیل نے بھارت کی ’آپریشن شکتی(Operation Shakti)‘ نامی کاروائی کی مذمت نہیں کی‘ جس میں بھارت نے 5 جوہری بموں کا تجربہ کیا۔

سال 1999ء میں اسرائیل نے بھارتی کاروائی ’آپریشن وجے (Operation Vijay)‘ کی حمایت کرتے ہوئے اِس مشق میں استعمال کے لئے اپنے ڈرون طیاروں‘ خلائی سیاروں اور لیزر گائیڈیڈ بم دیئے۔ قبل ازیں بھارت فوج کی نشانہ بنانے کی صلاحیت نہایت ہی کمزور اور بوسیدہ آلات پر منحصر تھی۔

سال 2000ء میں اسرائیلی بحریہ (نیوی) نے بھارتی سمندر میں اُن کروز (Cruise) میزائلوں کا تجربہ کیا‘ جو ’آب دوز (submarine)‘ سے فائر کئے جا سکتے ہیں۔ سال 2003ء میں بھارت کے فضائی دستے میں ’فیلکن اواکس (AWACS)‘ شامل ہوئے‘ جو اسرائیلی ساختہ ہیں تاکہ بھارت کی خطے کی فضائی حدود میں بالادستی قائم ہو جائے۔ بھارت نے ’ہیرون (Heron)‘ نامی ڈرون طیارے بھی خرید رکھے ہیں جو اسرائیلی ائرواسپیس انڈسٹری کا تیار کردہ ہے اور ایک طیارے کی قیمت 2 کروڑ 20 لاکھ (220ملین) ڈالر ہے۔

سال 2007ء میں بھارتی نیوی اور ائرفورس نے اسرائیل ائرواسپیس سے ایک معاہدہ کیا‘ جس کے تحت جدید ’باراک آٹھ (Barak-8)‘ نامی میزائل خریدے گئے۔ یہ بھارت کی اسرائیل سے اسلحے کی سب سے بڑی خریداری تھی۔ سال 2008ء میں بھارت نے اسرائیل فوج کے لئے کام کرنے والا ایک خلائی سیارہ (military satellite) بھیجا۔ سال 2008ء میں اسرائیل کی دفاعی افواج کے سربراہ ’لیفٹیننٹ جنرل گابی اشکینازئی (Lt. Gen. Gabi Ashkenazi)‘ نے بھارت کا دورہ کیا۔ سال 2011ء میں ’بھارت ڈئنامکس لیمٹیڈ (Bharat Dynamics Limited)‘ نے ’رافیل ایڈوانس ڈیفینس سسٹمز (اسرائیل)‘ سے ایک ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا‘ جس میں ’اسپائک (Spike)‘ نامی ’ٹینک شکن (anti-tank) میزائل‘ 321 لانچر‘ 8356 میزائل اُور 15 تربیتی آلات (simulators) شامل تھے۔

سال 2017ء میں 3 بھارتی بحری جہازوں نے ’حایفا (Haifa)‘ کا دورہ کیا اُور اسرائل کے ساتھ 2.5 ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کیا جس کے تحت 40 عدد ’باراک 8‘ میزائل خریدے گئے۔ بھارت کی نظریں اسرائیل کے ’ائرن ڈوم (iron dome)‘ اُور ’ڈیویڈ سلنگ (David Sling)‘ نامی میزائل خریدنے پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ فروری 2019ء میں بھارت نے اسرائیل سے 50کروڑ ڈالر مالیت کے ’ہیرون (Heron)‘ نامی مسلح ڈرون طیارے خریدے۔

بھارت کا خفیہ ادارہ ’را (RAW)‘ اُور اسرائیل کا خفیہ ادارہ ’موساد (Mossad)‘ کے درمیان ایک عرصے سے خفیہ طور پر تعاون ہو رہا ہے۔ بھارت جدید جنگی ہتھیاروں کے علاؤہ اسرائیل سے وہ سبھی طریقے (چالیں) سیکھ رہا ہے‘ جن کا استعمال کرکے وہ کسی ملک کے خلاف غیرروائتی محاذوں پر حملہ آور ہو سکے۔ ’را‘ نے اسرائیل سے یہ بھی سیکھا ہے کہ انٹرنیٹ پر منحصر سوشل میڈیا اور دیگر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح جھوٹ پھیلایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل دنیا میں غیرفوجی افراد کی نگرانی کرنے والے آلات کی فراہمی کرنے والا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے۔ ’را‘ اسرائیل سے ’سوشل میڈیا مانیٹرنگ سافٹ وئر‘ کے علاؤہ ٹیلی فون کالز سننے کے آلات‘ پوشیدہ پیغامات (decrypt messages) اور ایسے آلات خریدنا چاہتا ہے جس سے علاقوں پر مستقل نظر (surveillance) رکھی جا سکے۔

برازیل (Brazil) نے واٹس ایپ (Whats-App) کا استعمال کرتے ہوئے غلط معلومات پھیلائیں‘ جس کا اثر انتخابات کے نتائج پر ہوا۔ نائیجریا (Nigeria) کے ہاں بھی پہلی مرتبہ ’واٹس ایپ انتخابات‘ ہوئے جن کے ذریعے جھوٹی خبریں اور تصاویر پھیلائی گئیں‘ جن سے رائے عامہ پر اثرانداز ہوا گیا۔

سال 2019ء میں بھارت پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر ’واٹس ایپ انتخابات‘ کے دور (تجربے) سے گزرنے والا ہے‘ جس کے لئے ’بھارتیہ جنتہ پارٹی (BJP)‘ نے تیاری مکمل کر رکھی ہے جبکہ مدمقابل جماعت ’کانگریس (Congress)‘ نے نہیں۔ ڈیجیٹل آلات کا استعمال کرتے ہوئے جھوٹ اُور جعل سازی پر مبنی سیاسی خبریں اور معلومات تخلیق کرنے کے بعد اُنہیں اِس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ عام آدمی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اُن پر یقین کرتے ہوئے عام انتخابات میں ووٹ دینے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
’بی جے پی‘ کا اپنا ’آئی ٹی سیل (IT Cell)‘ ہے جہاں 9 لاکھ ’واٹس ایپ‘ استعمال کرنے والے کارکنوں پر مشتمل فوج کا تیار کیا گیا ہے۔ یہ تعداد بھارت میں پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے لئے کل ’’9 لاکھ 27 ہزار 533 پولنگ اسٹیشن‘‘ بنائے جاتے ہیں۔ بھارت میں 1.14 کھرب موبائل فون صارفین ہیں۔ 46کروڑ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین ہیں۔ 30 کروڑ لوگ ’سمارٹ فون‘ استعمال کرتے ہیں اُور 20 کروڑ ’واٹس ایپ‘ صارفین ہیں۔ 

معلوم حقیقت ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ دفاعی شعبے میں ہے لیکن یہ صرف دفاعی شعبے کی حد تک محدود نہیں بلکہ آنے والے بھارتی انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کے لئے بھی پوری طرح فعال اور تیاری کئے بیٹھا ہے تاکہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی (Modi) کی انتخابی کامیابی یقینی بنائی جا سکے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Thursday, March 7, 2019

Tit for Tat: US visa fee revised!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ناآشنا‘ کوئی نہیں!
اَمریکہ نے پاکستان کے لئے اپنی ’ویزا پالیسی‘ تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف ’ویزا فیسوں‘ میں اضافہ کیا ہے بلکہ مختلف ویزوں کے قیام کی مدت بھی کم کر دی ہے۔ نئے قواعد کی رو سے پاکستانیوں کے لئے امریکہ میں زیادہ سے زیادہ قیام کی مدت مختصر کرتے ہوئے 3 ماہ کر دی گئی ہے۔ اِس ردوبدل کی وجہ سے امریکی ویزے کے چار مختلف درجات (کیٹگریز) متاثر ہوں گی۔ 

عارضی قیام اُُور کام کاج کے لئے ایچ (H) ویزہ 38 ڈالر (5330 روپے) کے عوض حاصل کیا جا سکے گا۔ صحافی‘ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے پیشہ وروں کے لئے ’’آئی (I)‘‘ ویزے کی قیمت 6 ڈالر کم یعنی 32 ڈالر (4490 روپے) مقرر کی گئی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ملازمین 38 ڈالر کے عوض ایل (L) اُور مذہبی تقاریب یا سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے امریکہ جانے والے 38 ڈالر کے عوض ’آر (R)‘ قسم کا ویزہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ فیسیں ماضی کی طرح اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے سے قبل (پیشگی) ادا کرنا لازم ہوں گی اُور صرف قیمتوں میں ردوبدل ہی نہیں کیا گیا بلکہ امریکہ میں قیام کی مدت صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ’3 ماہ‘ جبکہ دیگر تین درجات کے لئے ایک سال (12ماہ) کر دی گئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے یہ تو نہیں کہا گیا کہ پاکستان سے متعلق امریکی ویزے کی پالیسی میں چند تبدیلیاں کرنے کی بنیادی وجہ ’’اینٹ کا جواب پتھر‘‘ سے دیا گیا ہے لیکن اِسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ایک ذمہ دار نے ’آف دی ریکارڈ‘ بات چیت کرتے ہوئے کم سے کم 4 ایسے امور کی نشاندہی کی ہے‘ جس کی وجہ سے ’ویزا پالیسی‘ پر حالیہ نظرثانی کی گئی۔ 1: پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کو کسی مقررہ شہر سے دوسری جگہ جانے سے قبل وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سے ’پیشگی سفری اجازت‘ حاصل کرنا پڑتی ہے‘ جس سے سفارتکار خود کو چاردیواریوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ 2: امریکی سفارت کاروں سے دیگر ممالک کے مقابلے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے حتیٰ کہ امریکیوں کو اپنی مرضی سے عام انتخابات کا عمل قریب سے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ 3: امریکی صحافیوں کو پاکستان کا ویزا جاری کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ملک کے کسی بھی حصے کا سفر نہیں کر سکتے بالخصوص حال ہی میں خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع (وفاق کے زیرانتظام رہے قبائلی علاقہ جات) کا دورہ کرنے پر امریکی صحافیوں اور سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔ 4: امریکی غیرسرکاری عالمی تنظیموں (iNGOs) کے اہلکاروں یا اُن کے غیرملکی نمائندوں کی پاکستان کے اندر آمدورفت پر پابندی کے علاؤہ‘ اُن کی اپنی ترجیحات کے مطابق کام کاج کی آزادی نہیں۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفارتکاروں کو دیگر بہت سے ’گلے شکوے‘ بھی ہیں تاہم اُن میں سے چند کا ’منطقی جواز‘ ملک میں امن و امان کی صورتحال (سیکورٹی) کو مدنظر رکھتے ہوئے تصور (فرض)کیا جا سکتا ہے لیکن لب لباب یہ ہے کہ امریکی سفارتکار پاکستانیوں سے زیادہ نہیں بلکہ کم سے کم اُس طرح کے روئیوں کے متقاضی ہیں جیسا کہ جرمنی کے سفارتکاروں کو حاصل ہیں اور جرمنی کے اِمدادی اداروں (جی آئی زیڈ) کی سرگرمیاں ملک کے چاروں صوبوں میں جاری ہیں۔ ویزہ پالیسی میں ردوبدل امریکہ کی جانب سے ’’اینٹ کا جواب پتھر (tit-for-tat)‘‘ ہے کیونکہ بقول سفارتکار پاکستان نے حال ہی میں امریکی باشندوں کے لئے ویزے کی اِنہی ’4کیٹگریز‘ میں ردوبدل کیا ہے۔ 21 جنوری (دوہزاراُنیس) کو امریکہ کے متعلقہ محکمے (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے پاکستان کے لئے ’ویزا پالیسی‘ میں پائی جانے والی ’اُونچ نیچ‘ کا مطالعہ کیا‘ جو (مبینہ طور پر) ’ایک عالمی جائزہ مہم‘ کا حصہ تھا اُور پایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے امریکیوں پر عائد سفری پابندیوں کا یکساں اطلاق پاکستانی باشندوں پر بھی کیا جائے‘ جس کی وجہ سے 5مارچ 2019ء کے روز نئی ویزا پالیسی جاری کی گئی۔

امریکی عوام کی جانب سے پاکستان میں امدادی سرگرمیوں کی تاریخ 60 سال پر محیط ہے‘ جس کے تحت کئی میگاپراجیکٹس جیسا کہ 1960ء اُور 1970ء کی دہائی میں منگلا اُور تربیلا ڈیموں کی تعمیر میں کے لئے مالی معاونت کی گئی اُور آج انہی منصوبوں سے پاکستان کی 60فیصد بجلی کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ سردست ’یوایس ایڈ (USaid)‘ ’5کلیدی شعبوں‘ میں پاکستان کی اِقتصادی ترقی و معاشی اِستحکام کے لئے طویل المعیادی ترقیاتی تعاون کر رہا ہے۔ اِن میں توانائی کے پیداواری منصوبے‘ اقتصادی شرح نمو میں اضافے کے لئے اقدامات‘ معاشی استحکام اُور صحت و تعلیم کے شعبوں میں مالی و تکنیکی امداد شامل ہیں‘ اِن منصوبوں کے لئے گذشتہ 10 برس کے دوران ’یو ایڈ‘ نے 7.7 ارب ڈالر اِمداد دی ہے۔ ممالک کے درمیان تعلقات اُور دوستیاں ’دوطرفہ مفادات‘ پر منحصر ہوتی ہیں۔ پاکستان اُور امریکہ کے تعلقات میں اُتارچڑھاؤ کا حالیہ دور ’ڈیموکریٹ پارٹی‘ سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے روز (20 جنوری 2017ء) سے شروع ہوا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ترتیبی و ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے بلکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت آئی ہے‘ جو امریکی دوستی اُور تعلقات کو لیکر زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں اُور حقیقت پسندی سے کام لے رہی ہے۔

جنوب ایشیائی خطے میں ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کی تکمیل اُور اَفغانستان سے اَمریکی افواج کے ممکنہ اِنخلأ کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد پاکستان کا اَمریکہ پر اِنحصار کم ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن اَمریکہ کو پاکستان کی ’’پہلے سے زیادہ‘‘ ضرورت پیش آئے گی۔ امریکہ کے تعاون سے ’سی پیک‘ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے علاؤہ پاک بھارت سرحدی کشیدگی بھی ختم کی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے پاکستان کو امریکہ اُور امریکہ کو پاکستان کے لئے اپنی اپنی ’ویزا پالیسیوں‘ پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری و گرمجوشی اُور بالخصوص امریکی امدادی ادارے (یو ایس اِیڈ) کے ترقیاتی حکمت عملیوں کو وسعت دی جا سکے۔ ترقی یافتہ دنیا کا اِستقبال بند سرحدوں اُور پابندیوں سے نہیں بلکہ اعتماد و یقین سے ہونا چاہئے اُور حالات حاضرہ کے تناظر میں پاکستان کے لئے ’’دوست دشمن کی پہچان‘‘ بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ ’’اپنے من کا عکس ہے اپنی صدا کی بازگشت ۔۔۔ دوست دشمن آشنا‘ ناآشنا کوئی نہیں (خورشید رضوی)۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2019-03-07

Sunday, March 3, 2019

TRANSLATION "Nuclear Winter" by Dr. Farrukh Saleem

Nuclear winter
جوہری جنگ: تباہی کا پیغام!

بھارت نے پاکستان پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا جس کا پاکستان کی طرف سے جواب دن کی روشنی میں دیتے ہوئے پاکستان نے بھارتی فضائیہ کی تنصیبات کو نشانہ بنایا‘ جو پاکستان کی اِس لحاظ سے بھی جیت ہے کہ اپنے دشمن کے ٹھکانوں اور تنصیبات کے بارے میں پاکستان کی معلومات زیادہ درست تھیں۔ فضائی دراندازی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی پاکستان کی خواہش ہے کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے بھارت کے ساتھ اِس کے تنازعات کا حل تلاش کیا جائے جبکہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ طاقت کے زور سے اپنا مؤقف مسلط کرے۔

دنیا کے پانچ جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس اور چین ’جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ایک معاہدے (NPT)‘ کی توثیق کئے ہوئے ہیں لیکن دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد 5 نہیں بلکہ 8 ہے جن کے پاس جوہری صلاحیت ہے اور جنہوں نے جوہری تجربات بھی کر رکھے ہیں اُور اِن میں امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس‘ چین کے علاؤہ بھارت پاکستان اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

بھارت کی حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی اکثریت پاکستان کے ساتھ جوہری تصادم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ اگر جوہری حملہ کیا جائے تو اِس کے 3 اثرات ہوں گے۔ دھماکے کی شدت سے شہر ملبے کے ڈھیر بن جائیں گے۔ فضا میں آگ پھیلنے سے درجۂ حرارت بڑھ جائے گا جس سے انسانوں کی جلد جل جائے گی اور بڑے پیمانے پر تابکاری پھیل جائے گی‘ جس کے اثرات کئی صدیوں تک رہیں گے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کم سے کم پیمانے پر بھی جوہری حملوں کو تبادلہ ہوتا ہے تو اِس کے نتیجے میں پہلے ہی ہفتے 2 کروڑ سے زائد لوگ مر جائیں گے۔ اِن کے علاؤہ پاکستان اور بھارت کے علاؤہ دیگر ممالک کے 2 ارب لوگ بھی جوہری بم کے منفی اثرات سے متاثر ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت میں رہنے والے کم سے کم 20 برس تک سورج کی کرنیں دیکھنے سے یا تو بالکل محروم ہو جائیں گے یا پھر اُنہیں جزوی طور پر کبھی کبھار سورج دکھائی دے گا۔ جوہری دھماکے سے زمین کے گرد ’اوزون (Ozone)‘ گیس کے اُس غلاف کا 50فیصد حصہ بھی ختم ہو جائے گا جو سورج سے آنے والی تابکاری (مضر شعاؤں) کو روکتا ہے۔ جوہری حملے کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کا درجہ حرارت ٹھنڈک کی طرف مائل ہوگا اُور یہ اثر ’’1 ہزار سال‘‘ تک جاری رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم 20 برس تک کاشتکاری (کھیتی باڑی) نہیں ہو سکے گی۔ علاؤہ ازیں کینسر کا مرض زکام سے زیادہ عام ہوگا۔ 

جوہری ہتھیار کے ماحول پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ’’15میگا ٹن‘‘ کاربن کے ذرات بالائی فضا میں دور تک پھیل جائیں گے۔ اِن سیاہ ذرات کے بادل ایک ہفتے میں جنوبی امریکہ اور دو ہفتوں میں پورے کرۂ ارض کو ڈھانپ لیں گے جس کے بعد دنیا کا ہر ملک اور ہر شہر پاک بھارت جوہری جنگ کے اثرات سے متاثر ہوگا۔

جوہری حملے کے نتیجے میں پہلے سے نویں ہفتے کے دوران 4 کروڑ تابکاری کی وجہ سے متاثرہ افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو جائیں گے۔ 10سے 12 ہفتوں میں مزید ہلاکتیں تابکاری سے پھیلیں گی۔ 20 ہفتوں اور اُس کے بعد بان میرو (bone-marrow) اُور خون سے متعلق لاحق ہونے والی دیگر بیماریوں سے ہلاکتیں ہوں گی۔ کینسر‘ معاہدے کی بیماریاں‘ نفسیاتی نظام کی خرابیاں‘ جگر کی بیماریاں اور انسانی اعضاء اپنا کام چھوڑنے سے بھی ہلاکتوں کا سبب بنیں گے۔

جوہری ہتھیاروں سے متاثرہ پاکستان اور بھارت کا نقشہ یہ بھی ہوگا کہ یہاں بچوں کی پیدائش دیگر بیماروں کے علاؤہ ’کینسر (سرطان)‘ اُور ’لیکومیا (leukaemia)‘ کے ساتھ ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جوہری حملے کی صورت سب سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے اور صرف وہ بچے نہیں جو کہ جوہری حملے کے وقت زندہ تھے بلکہ آنے والی نسلیں بھی معذور اور ناقابل علاج بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوں گی۔

جوہری حملے کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ مواصلاتی (tele-communication) کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو جائے گا۔ بجلی کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہوگا اُور وہ تمام برقی آلات جن میں مائیکرو پراسیسرز استعمال ہوتے ہیں وہ سب کے سب کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ اِس تمام تباہی و بربادی سے صنعتیں بھی متاثر ہوں گی جن میں ادویہ ساز صنعتیں (pharmaceuticals) شامل ہوں گی‘ جنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مزید کئی سو سال لگیں۔

دنیا میں جوہری حملوں اور اُن کے اثرات بارے تفصیلات موجود ہیں‘ جیسا کہ روس کے ایک شہر ’چرنوبل (Chernobyl)‘ میں ہوئے دھماکے کے بعد تابکاری کا اخراج ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرب و جوار کے بچوں میں ’تھائراڈ (thyroid)‘ کا کینسر پھیل گیا اور ’چرنوبل‘ سے برطانیہ‘ سوئیڈن‘ فن لینڈ‘ لیتھونیا‘ پولینڈ‘ ناروے اُور جرمنی تک تابکاری پہنچنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگا۔ چرنوبل سانحہ 1986ء میں پیش آیا تھا۔ جس کے 33 برس بعد بھی علاقے سے تابکاری ختم نہیں ہوئی ہے اُور اِس علاقے سے اشیاء کی نقل و حمل پر پابندی عائد ہے۔ 33 سال بعد بھی بھیڑ بکریاں تابکاری سے متاثر ملتے ہیں۔ اب تک 2 لاکھ بھیڑ بکریوں میں ’تابکاری (radiation)‘ پائی گئی ہے۔

جوہری دھماکوں سے پیدا ہونے والی تابکاری اور اِس کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں تک سورج کی کرنیں نہیں پہنچتیں‘ جس کی وجہ سے ناقابل برداشت (انتہائی) سردی کی لہر آتی ہے۔ بارشیں برسنا بند ہو جاتی ہیں۔ جوہری تابکاری کے نتیجے میں آنے والی ’سردی کی لہر‘ موت کا پیغام ہوتی! تباہی و بربادی کا پیغام ہوتی ہے! بھوک و افلاس کا پیغام ہوتی ہے! خشک سالی کا پیغام ہوتی ہے۔ اندھیرے اور ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا پیغام ہوتی ہے اور یہ اثرات صرف 2 ممالک (پاکستان اُور بھارت) کی حد تک محدود نہیں رہیں گے اور نہ ہی صرف اِن ممالک کے آس پاس کے خطے کو متاثر کریں گے بلکہ پاک بھارت جوہری حملے کے اثرات سے دنیا کا ہر ملک‘ ہر شہر اور ہر ذی روح کسی نہ کسی صورت متاثر ہوگا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)