Pakistan Steel
پاکستان اسٹیل ملز
تاریخ: پاکستان اسٹیل ملز سال 2000ء سے لیکر 2007ء کے دوران ہر سال منافع دے رہی تھی۔ اِس تمام عرصے میں مجموعی منافع 20 ارب روپے تھا لیکن 2008ء سے 2013ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ 100ارب روپے تک پہنچ گیا‘ یعنی دوہزارآٹھ سے دوہزارتیرہ کے درمیان ہر سال اِس اہم قومی ادارے نے قومی خزانے کو مالی نقصان پہنچایا اُور اگر ہم مجموعی خسارے کی بات کریں تو اِس عرصے میں 138 ارب روپے نقصان ہوا تھا۔
سوال: پاکستان اسٹیل ملز کا مالی خسارہ اُور اِس کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں کی مالیت کتنی ہے؟
جواب: پاکستان اسٹیل ملز کل 476 ارب روپے کا مقروض ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اِس مالی خسارے کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقات نہیں کروائیں۔ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا اُور نہ ہی اِس سلسلے میں کسی کا احتساب ہوا۔ تصور کیجئے کہ 476 ارب روپے جیسا خطیر بوجھ اور اِس مالی بوجھ کو پر پاکستانی خاندان پر مساوی تقسیم کیا جائے تو یہ رقم 15 ہزار روپے فی خاندان بنے گی!
پاکستان اسٹیل ملز کے مالی نقصانات کے بارے میں ’سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ)‘ کو آگاہ کیا گیا ہے اُور اِس سلسلے میں عدالت کو فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسٹیل ملز کا ایک سال میں کاروباری خسارہ 4.68 ارب روپے۔ بدعنوانیوں کی وجہ سے ایک سال میں خسارہ 9.99 ارب روپے۔ بدانتظامیوں کی وجہ سے ایک سال میں ہونے والا خسارہ 11.84 ارب روپے اُوریوں سال2008-09ء کے دوران اِس کا کل خسارہ 26 ارب روپے تھا۔ 18 اگست 2009ء کے روز‘ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کے چیئرمین کو بدعنوانی کے الزامات پر اپنے عہدے سے الگ کیا لیکن خاص بات یہ ہے کہ اُن کے خلاف بدعنوانیوں کے جرم میں تحقیقات نہیں کی گئیں۔
خطرے کی گھنٹی: لائق توجہ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے سات ماہ کے عرصے میں بھی ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کے معاملات (خسارہ‘ بدعنوانی اُور بدانتظامی) کا سلسلہ جاری ہے اور تحریک انصاف حکومت (سات ماہ) کے دوران اِس ادارہ نے ہر دن 120 ملین (12 کروڑ روپے یومیہ) کے حساب سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور نقصان کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگست 2018ء سے مارچ 2019ء تک پاکستان اسٹیل ملز نے 25 ارب روپے نقصان کیا۔
پہلی حقیقت: سال 2015ء میں ایک موقع پر ’پاکستان اسٹیل ملز‘ کو بند کر دیا گیا تھا۔
دوسری حقیقت: پاکستان ہر ماہ 40 کروڑ ڈالر مالیت کی اسٹیل درآمد کرتا ہے۔
تیسری حقیقت: پاکستان اسٹیل ملز سے پیداوار اُور منافع تو حاصل نہیں ہورہا لیکن اِس ادارے کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں 380 ملین (38 کروڑ روپے) ہیں۔
تیسری حقیقت: پاکستان اسٹیل ملز سے پیداوار اُور منافع تو حاصل نہیں ہورہا لیکن اِس ادارے کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں 380 ملین (38 کروڑ روپے) ہیں۔
موجودہ صورتحال: اکتوبر 2018ء میں وزارت صنعت و پیداوار نے اسٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے 45 روزہ حکمت عملی (پلان) کا اعلان کیا۔ یہ حکمت عملی وزیراعظم کے مشیر رزاق داؤد کی سوچ بچار کا نتیجہ تھی۔ 16 نومبر 2018ء کے روز وزیرخزانہ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’’حکومت کا اسٹیل ملز اصلاحات کے حوالے سے بہت سا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔‘‘ مارچ 2019ء تک اسٹیل ملز بحالی سے متعلق حکومتی حکمت عملی کا اطلاق نہ ہوسکا اُور قابل ذکر ہے کہ اگست 2018ء سے مارچ 2019ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان اسٹیل ملز نے مزید (اضافی) 25 ارب روپے کا خسارہ کیا۔
راقم کو ’اکنامک کورآرڈنیشن کونسل (اقتصادی رابطہ کونسل)‘ کے 7 اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ اجلاس اکتوبر 2018ء سے مارچ 2019ء کے درمیان منعقد ہوئے اور اِن میں پاکستان اسٹیل ملز کا معاملہ زیرغور آیا۔ مارچ 2019ء میں بھی اسٹیل ملز بحالی کی حکمت عملی نافذ نہیں ہو سکی اُور اِس ادارے نے مزید 25 ارب روپے کا خسارہ کیا ہے۔
رکاوٹیں کیا ہیں؟ مفادات کا تصادم پاکستان اسٹیل ملز سے متعلق حکومتی اصلاحات کے نفاذ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نجی شعبہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی صورت پاکستان اسٹیل ملز اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔
چوتھی حقیقت: پاکستان میں اسٹیل کی صنعت کے لئے حکومتی قیمتیں کچھ اِس طرح مرتب کی گئی ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کی عدم موجودگی میں نجی شعبہ ہر سال اربوں روپے کما رہا ہے۔
پہلی تجویز: سرکاری اداروں کو چلانے کے لئے ’’پبلک سیکٹر رولز 2013ء‘‘ پر عمل درآمد کیا جائے۔
دوسری تجویز: پیشہ ور اور تجربہ کار شخص کو پاکستان اسٹیل ملز کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
تیسری تجویز: اسٹیل ملز کے مالی امور کی درستگی اور سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لئے پیشہ ور‘ تجربہ کار اُور اچھی ساکھ رکھنے والا ’چیف فنانشیل آفسیر‘ (مالی امور کا منتظم) مقرر کیا جائے۔
چوتھی تجویز: پیشہ ور ڈائریکٹرز تعینات کئے جائیں۔
پانچویں تجویز: پیشہ ور جنرل منیجرز تعینات کئے جائیں۔
چھٹی تجویز: اسٹیل کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے اور پاکستان اسٹیل ملز کے لئے بھی کاروبار کے یکساں مواقع پیدا کئے جائیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اسٹیل ملز کی بحالی کے لئے جو کامیابی کوششیں کی گئیں اُن کے لائحہ عمل اور نتائج مطالعے کے لئے موجود ہیں۔ اِن میں ڈاکٹر اکرم شیخ نے اسٹیل ملز کی افرادی قوت اور مالی امور کی درستگی کے لئے اقدامات کئے تھے۔ اِسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) صبیح قمر الزمان نے اسٹیل ملز کی 95فیصد پیداواری صلاحیت بحال کر دی تھی۔
اسٹیل ملز کی بحالی سے حکومت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اگر حکومت اسٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتی ہے اُور اِس کی پیداوار شروع ہونے کے بعد اسٹیل کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کرتی ہے تو اِس سے اضافی ٹیکسوں کی صورت اربوں روپے کا منافع حاصل ہوگا۔ دوسرا حکومت ملکی ضروریات پورا کرنے کے لئے جو 3 ارب ڈالر مالیت کی سالانہ اسٹیل درآمد کر رہی ہے اُس میں بھی بچت ہوگی۔ تیسرا یہ کہ حکومت نئے پاکستان میں 50لاکھ نئے گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کئے بیٹھی ہے اور اگر اسٹیل کی ملکی پیداوار کا آغاز ہوتا ہے تو اِس سے حکومت کے لئے کم قیمت میں اپنے وعدوں کی تکمیل ممکن ہوگی۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ کم قیمت اسٹیل سے ملک میں تعمیر ہونے والے پن بجلی کے منصوبوں کی ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی اُور پانچواں فائدہ قومی خزانے پر اسٹیل مل کا بوجھ کم ہونے کے ساتھ ملک کا اقتصادی تحفظ و مفاد یقینی اور مضبوط بنایا جا سکے گا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)