ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
محفوظ فیصلہ: وزیراعلیٰ کون؟
’عام انتخابات 2018ء‘ کی گرد بڑی حد تک بیٹھ چکی ہے۔ چند ایک حلقوں میں دوبارہ گنتی اور انتخابی تنازعات کے معاملات حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا کی حد تک ’تحریک انصاف‘ کی فیصلہ کن برتری واضح ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف میں وزارت عظمیٰ کے لئے ’عمران خان‘ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص نہیں لیکن خیبرپختونخوا کے لئے وزیراعلیٰ کے انتخابی اُمیدواروں کے درمیان ’تحریک‘ کے اندر ’تحاریک‘ (جوڑ توڑ) کا سلسلہ جاری ہے اور فیصلہ سازی کے اِن مراحل سے باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایک رائے یہ بھی زیربحث ہے کہ پرویز خٹک کو ’تین وجوہات‘ کی بناء پر دوبارہ وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ 1: صوبائی حکومت کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور ترجیحات کا تسلسل رہے گا۔ 2: پرویز خٹک کی کوششوں سے جو الیکٹیبلز ’پچیس جولائی‘ کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں‘ اُنہیں نظم وضبط کا پابند بنائے رکھنے کے لئے پرویز خٹک کا ہونا ضروری ہے تاہم (3:) اقلیتی دھڑے کی رائے ہے کہ اِس مرتبہ پرویز خٹک کی بجائے کسی ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جائے جو سیاست سے زیادہ سماجی و انسانی ترقی کے بارے میں علم و تجربہ رکھتا ہو۔ اِس ضرورت کو بھی محسوص کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ’توجہ سے محروم‘ شعبے بالخصوص ’زراعت اور لائیوسٹاک‘ خیبرپختونخوا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیءں‘ چونکہ پرویز خٹک سیاسی جوڑتوڑ اُور ترقیاتی کاموں کے معیار و تکنیکی باریکیوں سے واقف ہیں‘ اِس لئے ان کی خدمات سے بطور ’سینیئر وزیر خزانہ‘ مواصلات یا بطور وزیراعظم کے مشیر‘ بھی یکساں استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں تک خیبرپختونخوا کی زرعی معیشت و معاشرت کا تعلق ہے تو اِس مقصد کے لئے الگ سوچ اور مہارت رکھنے والے شخص کا انتخاب نسبتاً بہتر (مفید) رہے گا۔ تحریک انصاف کے قائدین اِس رائے سے متفق ہیں کہ خیبرپختونخوا میں دوسری مرتبہ اقتدار ملنا زیادہ کھٹن (challenging) ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخی فتح کسی شرمناک شکست میں تبدیل ہو جائے۔ اِس لئے ماضی میں ’سوفیصد‘ نظرانداز رہے ’زرعی شعبے‘ کو بطورخاص توجہ دی جائے جو خیبرپختونخوا میں 70فیصد سے زائد آبادی کے لئے بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار کا ذریعہ ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے لئے ’’زیرغور‘‘ کئی ناموں میں سرفہرست سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک جبکہ اِن کے علاؤہ عاطف خان (سابق صوبائی وزیر تعلیم)‘ اسد قیصر (سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی)‘ شہرام تراکئی (سابق وزیر صحت) اُور تحریک انصاف کے کلیدی فیصلہ ساز (تھنک ٹینک) رہنما میں ’تیمور سلیم خان (جھگڑا)‘ شامل ہیں جنہوں نے پچیس جولائی کے اِنتخاب میں ’PK-73‘ سے ’15 ہزار 449 ووٹ‘ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ اُن کے مدمقابل تمام بڑی سیاسی جماعتوں نواز لیگ‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ متحدہ مجلس عمل پاکستان اور پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین اور آزاد حیثیت سے 14 اُمیدوار انفرادی حیثیت میں 4 چار ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اُور عالمی مشاورتی ادارے ’میکنسے اینڈ کمپنی (Mckinsey & Company)‘ سے وابستہ ’تیمور سیلم خان جھگڑا‘ ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کی جانب سے موزوں ترین اُمیدوار ثابت ہو سکتے ہیں‘ جبکہ چیئرمین عمران خان عالمی سطح اور بالخصوص خطے اور ہمسایہ ممالک کے تجربے‘ تجارتی روابط اور اثرورسوخ سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان کو اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ تیمور جھگڑا (ٹوئیٹر اکاونٹ @jhagra) کا تعلق دیہی پشاور سے ہے جو صوبائی اسمبلی کے ’8ویں انتخابی حلقے‘ کا حصہ ہے اور اگر انہیں بطور وزیراعلیٰ چن لیا جاتا ہے تو اِس سے ’’پشاور‘‘ کی اِس محرومی کا ازالہ بھی ہو جائے گا کہ آخری مرتبہ ارباب جہانگیر خان (7 اپریل 1985ء سے 31مئی 1988ء) تین سال ایک ماہ چوبیس دن وزیراعلیٰ رہے تھے جس کے بعد تیس برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی پشاور کو وزارت اعلیٰ کا منصب نہیں ملا۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک 22ویں وزیراعلیٰ تھے جبکہ وہ تین ایسے وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں بھی شامل ہیں جنہوں نے خیبرپختونخوا کی تاریخ میں اپنے عہدے کی آئینی مدت (پانچ سال) مکمل کی۔ اُن سے قبل امیر حیدر خان ہوتی (مردان) اُور اکرم خان درانی (بنوں) اپنے عہدوں کی مدت مکمل کر چکے ہیں۔
’’سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے۔۔۔
بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا!(حیدر قریشی)۔‘‘
نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ خیبرپختونخوا کی ترجیحات بھی نئی ہونی چاہیءں۔ یادش بخیر تحریک اِنصاف حکومت نے اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ’مالی سال 2017-18ء‘ کے بجٹ میں ’208 ارب روپے‘ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص کئے تھے‘ جو گذشتہ مالی سال کے بجٹ سے 29فیصد زیادہ لیکن اِن سے ایک بھی شعبے کی ترقی سے متعلق منصوبوں کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ترجیحات ملاحظہ کریں کہ ’208 ارب روپے‘ میں سے شعبۂ زراعت کے لئے ’3.99 ارب روپے‘ مختص ہوئے اور اِس رقم کا بڑا حصہ بھی پہلے سے جاری 17 منصوبوں کی نذر ہوگیا جبکہ زراعت سے متعلق جن 21 نئے منصوبوں کی منظوری دی گئی تھی‘ اُن کی تکمیل کے لئے مالی وسائل کافی نہ تھے۔ اِسی طرح کل ترقیاتی رقم (208 ارب روپے) میں سے ’پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ کے منصوبوں کے لئے ’5.16 ارب روپے‘ میں سے ’84 ترقیاتی منصوبوں‘ کی تکمیل ہونا تھی۔ اِن میں 68 جاری جبکہ 16نئے منصوبوں کو حکمت عملی میں شامل کیا گیا۔ وعدہ کیا گیا کہ مالی وسال 2017-18ء میں (3 شہروں) اِیبٹ آباد‘ مانسہرہ اُور ہری پور کو ’پینے کا صاف پانی‘ فراہم کیا جائے گا لیکن صاف پانی تو کیا‘ گندے پانی کی فراہمی کا ترسیلی نظام (نیٹ ورک) بھی وسیع نہیں کیا جا سکا اُور 2013ء سے قبل مذکورہ ’3 شہری علاقوں‘ میں سے جہاں جہاں پانی کی فراہمی ہو رہی تھی‘ 2018ء میں دوبارہ انتخابات کے بعد بھی اُنہی چند یونین کونسلوں میں آج بھی ناقص المعیار پانی‘ ناکافی مقدار میں فراہم ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خیبرپختونخوا میں ماہ و سال رک گئے ہیں؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ صرف 2 ایسے شعبوں (زراعت اور پینے کے پانی کی فراہمی) کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ جس سے شہری و دیہی علاقوں کی 100فیصد کی روزمرہ زندگی کا براہ راست تعلق ہے لیکن افسوس کہ یہ کلیدی اہمیت کے حامل شعبے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پہلے دور (2013ء سے 2018ء) کے دوران پانچ شعبوں (صحت‘ تعلیم‘ تحفظ ماحولیات‘ سیاحت کے فروغ اُور پولیس اصلاحات) پر توجہ دی گئی لیکن اگر آئندہ چار یا پانچ مالی سالوں کے دوران سائنسی بنیادوں پر کھیتی باڑی بشمول پھل سبزی کی فصلیں جن کی زراعت اگر سائنسی بنیادوں پر کی جائے تو کم پانی سے فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ مال مویشیوں کی افزائش و صحت اُور حاصل ہونے والے دودھ‘ گوشت‘ کھال اور جانوروں کے بالوں (اُون) سے بننے والی مصنوعات کو صنعت کا درجہ دے کر ترقی اور دیہی و شہری علاقوں میں رہنے والوں کو پینے کے صاف پانی جیسی نعمت فراہم کر دی جائے تو 2023ء کے عام انتخابات بھی تحریک انصاف کے نام رہیں گے جن کے نتائج سیاسی مخالفین کے لئے زیادہ پریشان کن بنائے جا سکتے ہیں۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات (2023ء) اِس لحاظ سے دلچسپ ہوں گے کہ اِس میں حصہ لینے والی تینوں بڑی جماعتیں (تحریک انصاف‘ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) وفاق اور صوبوں میں حکومت کر چکے ہوں گے اُور یوں ہر ایک پاس اپنی اپنی کارکردگی اور عوام کے پاس رائے دینے کے لئے زیادہ بہتر موازنہ موجود ہوگا۔