Sunday, July 29, 2018

July 2018: Who will be the next CM? Why not this time from Peshawar?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
محفوظ فیصلہ: وزیراعلیٰ کون؟

’عام انتخابات 2018ء‘ کی گرد بڑی حد تک بیٹھ چکی ہے۔ چند ایک حلقوں میں دوبارہ گنتی اور انتخابی تنازعات کے معاملات حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا کی حد تک ’تحریک انصاف‘ کی فیصلہ کن برتری واضح ہوچکی ہے۔ 

تحریک انصاف میں وزارت عظمیٰ کے لئے ’عمران خان‘ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص نہیں لیکن خیبرپختونخوا کے لئے وزیراعلیٰ کے انتخابی اُمیدواروں کے درمیان ’تحریک‘ کے اندر ’تحاریک‘ (جوڑ توڑ) کا سلسلہ جاری ہے اور فیصلہ سازی کے اِن مراحل سے باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایک رائے یہ بھی زیربحث ہے کہ پرویز خٹک کو ’تین وجوہات‘ کی بناء پر دوبارہ وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ 1: صوبائی حکومت کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور ترجیحات کا تسلسل رہے گا۔ 2: پرویز خٹک کی کوششوں سے جو الیکٹیبلز ’پچیس جولائی‘ کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں‘ اُنہیں نظم وضبط کا پابند بنائے رکھنے کے لئے پرویز خٹک کا ہونا ضروری ہے تاہم (3:) اقلیتی دھڑے کی رائے ہے کہ اِس مرتبہ پرویز خٹک کی بجائے کسی ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جائے جو سیاست سے زیادہ سماجی و انسانی ترقی کے بارے میں علم و تجربہ رکھتا ہو۔ اِس ضرورت کو بھی محسوص کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ’توجہ سے محروم‘ شعبے بالخصوص ’زراعت اور لائیوسٹاک‘ خیبرپختونخوا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیءں‘ چونکہ پرویز خٹک سیاسی جوڑتوڑ اُور ترقیاتی کاموں کے معیار و تکنیکی باریکیوں سے واقف ہیں‘ اِس لئے ان کی خدمات سے بطور ’سینیئر وزیر خزانہ‘ مواصلات یا بطور وزیراعظم کے مشیر‘ بھی یکساں استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں تک خیبرپختونخوا کی زرعی معیشت و معاشرت کا تعلق ہے تو اِس مقصد کے لئے الگ سوچ اور مہارت رکھنے والے شخص کا انتخاب نسبتاً بہتر (مفید) رہے گا۔ تحریک انصاف کے قائدین اِس رائے سے متفق ہیں کہ خیبرپختونخوا میں دوسری مرتبہ اقتدار ملنا زیادہ کھٹن (challenging) ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخی فتح کسی شرمناک شکست میں تبدیل ہو جائے۔ اِس لئے ماضی میں ’سوفیصد‘ نظرانداز رہے ’زرعی شعبے‘ کو بطورخاص توجہ دی جائے جو خیبرپختونخوا میں 70فیصد سے زائد آبادی کے لئے بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار کا ذریعہ ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے لئے ’’زیرغور‘‘ کئی ناموں میں سرفہرست سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک جبکہ اِن کے علاؤہ عاطف خان (سابق صوبائی وزیر تعلیم)‘ اسد قیصر (سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی)‘ شہرام تراکئی (سابق وزیر صحت) اُور تحریک انصاف کے کلیدی فیصلہ ساز (تھنک ٹینک) رہنما میں ’تیمور سلیم خان (جھگڑا)‘ شامل ہیں جنہوں نے پچیس جولائی کے اِنتخاب میں ’PK-73‘ سے ’15 ہزار 449 ووٹ‘ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ اُن کے مدمقابل تمام بڑی سیاسی جماعتوں نواز لیگ‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ متحدہ مجلس عمل پاکستان اور پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین اور آزاد حیثیت سے 14 اُمیدوار انفرادی حیثیت میں 4 چار ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اُور عالمی مشاورتی ادارے ’میکنسے اینڈ کمپنی (Mckinsey & Company)‘ سے وابستہ ’تیمور سیلم خان جھگڑا‘ ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کی جانب سے موزوں ترین اُمیدوار ثابت ہو سکتے ہیں‘ جبکہ چیئرمین عمران خان عالمی سطح اور بالخصوص خطے اور ہمسایہ ممالک کے تجربے‘ تجارتی روابط اور اثرورسوخ سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان کو اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ تیمور جھگڑا (ٹوئیٹر اکاونٹ @jhagra) کا تعلق دیہی پشاور سے ہے جو صوبائی اسمبلی کے ’8ویں انتخابی حلقے‘ کا حصہ ہے اور اگر انہیں بطور وزیراعلیٰ چن لیا جاتا ہے تو اِس سے ’’پشاور‘‘ کی اِس محرومی کا ازالہ بھی ہو جائے گا کہ آخری مرتبہ ارباب جہانگیر خان (7 اپریل 1985ء سے 31مئی 1988ء) تین سال ایک ماہ چوبیس دن وزیراعلیٰ رہے تھے جس کے بعد تیس برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی پشاور کو وزارت اعلیٰ کا منصب نہیں ملا۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک 22ویں وزیراعلیٰ تھے جبکہ وہ تین ایسے وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں بھی شامل ہیں جنہوں نے خیبرپختونخوا کی تاریخ میں اپنے عہدے کی آئینی مدت (پانچ سال) مکمل کی۔ اُن سے قبل امیر حیدر خان ہوتی (مردان) اُور اکرم خان درانی (بنوں) اپنے عہدوں کی مدت مکمل کر چکے ہیں۔

’’سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے۔۔۔
بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا!(حیدر قریشی)۔‘‘

نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ خیبرپختونخوا کی ترجیحات بھی نئی ہونی چاہیءں۔ یادش بخیر تحریک اِنصاف حکومت نے اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ’مالی سال 2017-18ء‘ کے بجٹ میں ’208 ارب روپے‘ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص کئے تھے‘ جو گذشتہ مالی سال کے بجٹ سے 29فیصد زیادہ لیکن اِن سے ایک بھی شعبے کی ترقی سے متعلق منصوبوں کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ترجیحات ملاحظہ کریں کہ ’208 ارب روپے‘ میں سے شعبۂ زراعت کے لئے ’3.99 ارب روپے‘ مختص ہوئے اور اِس رقم کا بڑا حصہ بھی پہلے سے جاری 17 منصوبوں کی نذر ہوگیا جبکہ زراعت سے متعلق جن 21 نئے منصوبوں کی منظوری دی گئی تھی‘ اُن کی تکمیل کے لئے مالی وسائل کافی نہ تھے۔ اِسی طرح کل ترقیاتی رقم (208 ارب روپے) میں سے ’پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ کے منصوبوں کے لئے ’5.16 ارب روپے‘ میں سے ’84 ترقیاتی منصوبوں‘ کی تکمیل ہونا تھی۔ اِن میں 68 جاری جبکہ 16نئے منصوبوں کو حکمت عملی میں شامل کیا گیا۔ وعدہ کیا گیا کہ مالی وسال 2017-18ء میں (3 شہروں) اِیبٹ آباد‘ مانسہرہ اُور ہری پور کو ’پینے کا صاف پانی‘ فراہم کیا جائے گا لیکن صاف پانی تو کیا‘ گندے پانی کی فراہمی کا ترسیلی نظام (نیٹ ورک) بھی وسیع نہیں کیا جا سکا اُور 2013ء سے قبل مذکورہ ’3 شہری علاقوں‘ میں سے جہاں جہاں پانی کی فراہمی ہو رہی تھی‘ 2018ء میں دوبارہ انتخابات کے بعد بھی اُنہی چند یونین کونسلوں میں آج بھی ناقص المعیار پانی‘ ناکافی مقدار میں فراہم ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خیبرپختونخوا میں ماہ و سال رک گئے ہیں؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ صرف 2 ایسے شعبوں (زراعت اور پینے کے پانی کی فراہمی) کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ جس سے شہری و دیہی علاقوں کی 100فیصد کی روزمرہ زندگی کا براہ راست تعلق ہے لیکن افسوس کہ یہ کلیدی اہمیت کے حامل شعبے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پہلے دور (2013ء سے 2018ء) کے دوران پانچ شعبوں (صحت‘ تعلیم‘ تحفظ ماحولیات‘ سیاحت کے فروغ اُور پولیس اصلاحات) پر توجہ دی گئی لیکن اگر آئندہ چار یا پانچ مالی سالوں کے دوران سائنسی بنیادوں پر کھیتی باڑی بشمول پھل سبزی کی فصلیں جن کی زراعت اگر سائنسی بنیادوں پر کی جائے تو کم پانی سے فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ مال مویشیوں کی افزائش و صحت اُور حاصل ہونے والے دودھ‘ گوشت‘ کھال اور جانوروں کے بالوں (اُون) سے بننے والی مصنوعات کو صنعت کا درجہ دے کر ترقی اور دیہی و شہری علاقوں میں رہنے والوں کو پینے کے صاف پانی جیسی نعمت فراہم کر دی جائے تو 2023ء کے عام انتخابات بھی تحریک انصاف کے نام رہیں گے جن کے نتائج سیاسی مخالفین کے لئے زیادہ پریشان کن بنائے جا سکتے ہیں۔ 

لمحۂ فکریہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات (2023ء) اِس لحاظ سے دلچسپ ہوں گے کہ اِس میں حصہ لینے والی تینوں بڑی جماعتیں (تحریک انصاف‘ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) وفاق اور صوبوں میں حکومت کر چکے ہوں گے اُور یوں ہر ایک پاس اپنی اپنی کارکردگی اور عوام کے پاس رائے دینے کے لئے زیادہ بہتر موازنہ موجود ہوگا۔

TRANSLATION: Challenges ahead by Dr. Farrukh Saleem

Challenges ahead
تحریک انصاف چیلنجز
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انتخابی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ غیرموروثی سیاست کرنے والی کوئی سیاسی جماعت اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہو کہ اُس کی حکومت بننا واضح ہو چکا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے انتخابی نشستوں پر بیک وقت کامیاب ہوئی ہو لیکن جیسا کہ ہر عہدے کے ساتھ ذمہ داری جڑی ہوتی ہے اِس لئے غیرمعمولی انتخابی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت پر غیرمعمولی دباؤ بھی آیا ہے کہ اب اُنہیں اپنی کارکردگی کے ذریعے ووٹروں کے فیصلے کو فیصلے کو درست ثابت کرنا ہے اور یہ قطعی آسان نہیں بلکہ جلتے ہوئے انگاروں پر چلنے جیسا عمل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو آنے والے دنوں میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جن کا مختصر بیان آئندہ چند سطور میں کیا جا رہا ہے۔

18 ارب ڈالر: پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ملک کو 18 ارب ڈالر جیسا بڑا ’جاری اخراجات‘ کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔ اِس غیرمعمولی خسارے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ہر ماہ ڈیڑھ ارب روپے خسارہ کر رہا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران جاری اخراجات کا خسارہ گذشتہ مالی سال کے مقابلے 45 فیصد زیادہ ہے اور اگر 2 برس قبل کی بات کی جائے تو جو مالی خسارہ آج 18 ارب ڈالر ہے وہی 4.9 ارب ڈالر تھا۔ کسی بھی وزیر اعظم کے لئے سب سے بڑا اور پہلا چیلنج اِس قدر بڑے مالی خسارے پر قابو پانا ہوگا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے جبکہ حکومت نے برآمدکنندگان کے اربوں ڈالر بھی واپس کرنے ہیں۔ ہمیں پیٹرولیم مصنوعات کی داآمد‘ مشنیری‘ مائع گیس (ایل این جی)‘ کوئلہ‘ کوکنگ آئل اور دالیں تک درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کسی بھی مہینے عدم توازن یا تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو اِس سے ملک گیر سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی کمی بحرانی شکل اختیار کر لے گی اور پیٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں گی۔ اِن مسائل کا حل موجود ہے لیکن یہ حل قدرے مشکل علاج ہے یعنی اگر پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کر دی جائے۔ شرح سود میں اضافہ کر دیا جائے۔ سرمائے کی نقل و حرکت پر حکومت کا سخت گیر کنٹرول نافذ ہو۔ درآمدات کم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرے۔ برآمدکنندگان (ایکسپورٹرز) کے لئے حکومت خصوصی مراعات کا اعلان کرے اُور بیرون ملک پڑے چوری شدہ اثاثہ جات کو پاکستان واپس لایا جائے۔

4 ارب روپے: نئی حکومت کو آنے والے تین سے چار مہینوں میں ’4 کھرب روپے‘ مالیت کے ’ٹی بلز‘ یعنی واجب الادأ مالی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

2.2 کھرب روپے: پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ پاکستان کو 2.2 کھرب روپے جیسے بڑے ’بجٹ خسارہ‘ کا سامنا رہا ہوں۔ اِس 2.2 کھرب روپے کے خسارے سے نمٹنا بھی ممکن ہے جس کے لئے ترقیاتی عمل پر اخراجات کو غیرمعمولی طور پر کم کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو زیادہ سخت فیصلہ کرتے ہوئے ’نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)‘ کے تحت صوبوں کو دیئے جانے والے ’مالی وسائل‘ روکنا ہوں گے اور ظاہر ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔

1.1 کھرب روپے: پاکستان کو گردشی قرضے کا سامنا ہے جس کا حجم 1.1 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اِس گردشی قرضے میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اِسے ضبط (کنٹرول) میں نہ لایا گیا تو اندیشہ ہے کہ یہ گردشی قرضہ ہی پاکستان کے پورے ’اقتصادی نظام‘ کو دیوالیہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان ہر سال قریب 12 ارب ڈالر مالیت کی بجلی پیدا کرتا ہے جس میں سے 4 ارب ڈالر کی بجلی چوری یا گم ہو جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان ہر سال گیس کی مد میں 200 ارب روپے کا نقصان کر رہا ہے!

پاکستان میں بجلی کی قیمت اِس کی پیداواری لاگت سے کم ہے۔ کیا نئی حکومت بجلی کی فی یونٹ قیمت کو بڑھانے جیسا فیصلہ کرے گی؟ مہنگی گیس (ایندھن) کی وجہ سے پنجاب میں سینکڑوں ٹیکسٹائل کارخانے بند ہوئے ہیں۔ نئے وزیراعظم کے لئے کوئی دوسری صورت نہیں لیکن وہ ’توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائیں۔‘ اور یہ اصلاحات ہنگامی و جنگی بنیادوں پر (فوری) ہونی چاہیئں۔

1.1 کھرب روپے: مالی سال 2017ء کے دوران 190سرکاری اداروں نے قومی خزانے کو مجموعی طور پر ’1.1 کھرب روپے‘ کا نقصان پہنچایا اُور اگر گذشتہ 5 سال کا حساب کتاب کیا جائے تو مذکورہ 190 سرکاری محکمے ’3.7 کھرب روپے‘ نقصان کر چکے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 5 سال کے عرصے میں ہر پاکستانی خاندان کا ’1لاکھ 25 ہزار روپے‘ کا نقصان ہوا ہے۔

464 ارب روپے: حکومت کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں میں ’چارسوچونسٹھ ارب روپے‘ بھی ایک قسم کا گردشی قرضہ ہی ہے جو صوبائی خوراک کے محکموں اور دیگر ایسے اداروں کا پیدا کردہ ہے‘ جو مختلف قسم کی اجناس و اشیاء کی خریداری کرتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق خریداری کی مد میں پیدا ہونے والے آمدن و اخراجات کے عدم توازن کی وجہ سے قومی خزانے کو خسارہ 464.2 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔

نئی حکومت کو ایسے تمام خسارے ختم کرنا ہوں گے جس کے لئے صرف اور صرف سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی آمدنی کے وسائل اور اخراجات کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا اور بالخصوص آمدنی کو اخراجات کے ساتھ توازن میں لانا ہوگا۔ اب تک یہ کام اگر نہیں ہو سکا تو اِس کے پیچھے کارفرما محرک یہی رہا کہ ’سیاسی قوت ارادی‘ کی کمی تھی۔

لب لباب یہ ہے کہ نئے ’وزیراعظم پاکستان‘ کو ’’12 کھرب روپے‘‘ جیسے بڑے چینلج کا سامنا ہے۔ رواں ماہ (پچیس جولائی) عام انتخابات میں ہر سیاسی جماعت نے اپنا اپنا بیانیہ پیش کیا اُور پاکستانیوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پیش کردہ بیانیئے کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف ایک حقیقی قیادت اور قومی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے‘ جس نے 45 سال سے جاری مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اقتدار کی ایک دوسرے کو منتقلی کے عمل کو روک دیا ہے۔ سیاسی و انتخابی طور پر تحریک انصاف نے بھلے ہی بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن اب وقت کارکردگی دکھانے کا ہے اور اب وقت عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, July 22, 2018

TRANSLATION: Who will be the PM? by Dr. Farrukh Saleem

?Who will be the PM
وزیراعظم کون ہوگا؟
عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ’اراکین قومی اسمبلی‘ پاکستان کے لئے ’نئے وزیراعظم‘ کا چناؤ کریں گے۔ وہ ایک سوال جس کے بارے میں انتخابات سے قبل اکثر تبادلۂ خیال ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ ’’پاکستان کا آئندہ وزیراعظم کون ہوگا؟‘‘ اِس سلسلے میں جو نام زیرگردش ہیں اُن میں عمران خان‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اُور سنجرانی شامل ہیں۔ سنجرانی سے مراد شخصیت نہیں بلکہ کوئی بھی سنجرانی جیسا شخص جو اچانک اِس اہم عہدے کے لئے حتمی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے اور پھر اُسی کا انتخاب بھی ہو جائے۔ میرے ذاتی خیال میں پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی قریب 100 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لے گی جبکہ مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد سے نصف اور پیپلزپارٹی و آزاد اراکین 3 درجن نشستوں پر کامیاب ہو جائیں گے۔ نتیجۂ خیال یہ ہے کہ ’بلے‘ اور ’جیپ‘ کا نشان رکھنے والوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ’عمران خان‘ وزارت عظمی تک پہنچ جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ 119 آزاد اُمیدواروں کی خواہش پر اُنہیں ’جیپ‘ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے۔

نواز شریف پاکستان میں موجود ہیں تو کیا اُن کی یہ موجودگی ’عام انتخابات‘ میں اُن کی جماعت ’نوازلیگ‘ کے لئے سودمند ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستان کی قوم انتخابات میں نوازشریف کی جانب سے عدلیہ اور فوج مخالف نکتۂ نظر سے اتفاق کریں گے؟

پاکستان کی ’قومی اسمبلی‘ کے لئے انتخابی معرکے میں کامیابی ’روال پنڈی سے ملتان‘ کے درمیان قومی اسمبلی کے 95 حلقوں پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ پانچ کم ایک سو نشستیں صوبہ پنجاب کے 25 اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں رہنے والوں کے ووٹوں سے حکومتیں بنتی ہے لیکن حکومتوں کو گرانے میں فیصلہ کن کردار دیہی علاقوں سے حاصل ہونے والے ووٹوں سے ہوتا ہے۔ 95 حلقوں پر براہ راست انتخابی حلقوں کا تعلق ’بالائی پنجاب‘ کے قریب 6درجن ایسے حلقوں سے ہے جو دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ 45 برس کے دوران 10مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے اور اِس پورے انتخابی عمل میں منتخب ہونے والوں کا ’ووٹروں کے رجحانات‘ پر اگر کنٹرول نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ نااہلی اور بدعنوانی ہے۔ اگر عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے اپنا تعلق عوام سے قائم رکھتے اور عوام کے مسائل کا حل اُن کی ترجیح ہوتا تو کسی 45 برس کا تعلق کسی ایک عدالتی فیصلے سے متاثر نہ ہوتا اُور ووٹروں کو ’’ووٹ کی مبینہ بے توقیری‘ کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے اکسانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی!

پاکستان کی انتخابی تاریخ کے گزشتہ 45 برس اور اِس عرصے میں 10 مرتبہ عام انتخابات کا مطالعہ کیا جائے تو 3 ایسے طاقتور محرکات فیصلہ سازی پر غالب نظر آتے ہیں‘ جن کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ووٹروں کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ اِن میں ’’1: تھانہ کچہری 2: ذات برادری اُور 3: عمومی اِنتخابی رائے عامہ (ماحول)‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مغیث احمد (Dr. Mughees Ahmad) نے اپنے تحقیقی مقالے ’صوبہ پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں میں ووٹروں کے رجحانات‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ پیش کیا ہے کہ جٹ‘ راجپوت‘ آرائیں‘ بلوچ‘ گجر اُور کھرل قبائل (ذات برادری) سے تعلق رکھنے والے انتخابی اُمیدوار ہی گزشتہ 45برس میں ہوئے 10مرتبہ عام انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ذات برادری ہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا ماحول تشکیل پاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنا ووٹ کسی ایسے اُمیدوار کے حق میں استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے بارے میں رائے عامہ کے جائزے اور عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہو کہ اُس کی انتخابی کامیابی ممکن نہیں یعنی پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اِسی طرح پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی ترجیح یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی ایسے انتخابی اُمیدوار کی کامیابی کا حصہ بنیں جو اُن کی بعدازاں تھانہ کچہری کے معاملات میں معاونت کرے یا پھر جائیداد و اراضی کے تنازعات میں اُن کے اور حکومت کے درمیان ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اگر پنجاب کے دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو عمومی تاثر یہی ’تحریک انصاف‘ کی انتخابی کامیابی کے بارے میں ہے اور عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف ہی اکثریتی جماعت بن کر اُبھرے گی۔

ملتان سے رحیم یار خان تک کے علاقے میں قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی تعداد 46 ہے جو مجموعی طور پر 11 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اِن علاقوں میں بھی ’تحریک انصاف‘ کی انتخابی کامیابی یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ قابل ذکر ہے یہاں سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اور 13 سابق اراکین صوبائی اسمبلی پہلے ہی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ اِس علاقے میں ووٹروں کی ترجیحات بالائی پنجاب کے علاقوں کے مقابلے مختلف بہت مختلف ہے۔ یہاں شرح خواندگی کم ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کی آمدن کم اور آمدنی کے ذرائع محدود ہے اُور اِن علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی پہنچ بھی شہری علاقوں کے مقابلے کم ہے۔ علاؤہ ازیں اِس خطے میں بسنے والے ووٹرز کی اکثریت اپنے فیصلوں میں ’آزاد‘ ہے کیونکہ وہ چھوٹے رقبوں کی زرعی اراضی کے مالک ہیں اور یہاں خواتین کی اکثریت گھرانے کے سربراہ کی خواہش پر اپنا ووٹ دیتی ہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ملتان اور رحیم یار خان کے درمیان خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد قریب 70 لاکھ ہے۔

1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 60فیصد ووٹ حاصل کئے تھے لیکن پیپلزپارٹی کی انتخابی مقبولیت اور کارکردگی میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کا موازنہ اگر 1977ء کے عام انتخابات سے کیا جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ مجموعی قومی ووٹوں میں 15فیصد کمی آئی ہے اور پیپلزپارٹی جو کبھی ملک گیر انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے والی جماعت ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ ٹھٹھہ اور سکھر کے درمیان پائی جانے والے قومی اسمبلی کے 40 حلقوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب کے 141 انتخابی حلقوں کی صورتحال یہ ہے کہ آج 104 ایسے حلقے ہیں جہاں پیپلزپارٹی انتخابات کے لئے اپنے اُمیدوار بھی نامزد نہیں کر سکی! پاکستان کی سیاست میں انتخابی عروج اور زوال سب سے زیادہ پیپلزپارٹی نے دیکھا ہے!

پاکستان کو درپیش مسائل بحرانی ہیں۔ 
روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی آ چکی ہے۔ 
قومی خزانہ خالی پڑا ہے۔ 
ملکی اخراجات اور آمدن میں توازن نہیں رہا۔ 
قرض کی ادائیگی کے لئے قرض لینا پڑتا ہے اور
عوام میں قومی مسائل کے لئے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور اِن مسائل کے حل کے لئے کسی ایک قائد کی ذات پر بڑے پیمانے پر اتفاق رائے بھی نہیں پایا جاتا۔ ایسی صورتحال میں حکمرانی (وزارت عظمیٰ) ملنا کانٹوں کا تاج ہوگا اور کون پسند کرے گا کہ وہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالے۔ کون پسند کرے گا کہ وہ دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگے پاؤں چلے؟ 

کیا پاکستان کا آئندہ وزیراعظم عمران خان ہوگا یا کوئی ایسا کردار‘ جس کے وزیراعظم بننے کی آج کسی کو توقع بھی نہیں؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, July 19, 2018

July 2018: Mixture of Religion Politics of Peshawar - fine example!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: نوبہار عجبے!
تحریک (قیام) پاکستان اُور بعدازاں ملک کو فلاحی اِسلامی ریاست بنانے کے لئے پشاور کے سرتاج روحانی وعلمی ’’گیلانی خانوادے‘‘ کی کوششیں اُور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس خانوادے کا سیاسی اُور غیرمشروط تعلق ’پاکستان کی خالق جماعت ’مسلم لیگ‘ سے اُس وقت تک استوار رہا جب تک کہ مسلم لیگ کئی شاخوں میں بٹ نہیں گئی اور یہی وہ صدمہ تھا‘ جس نے ’اندرون یکہ توت گیٹ‘ کے اِس ’سادات گھرانے‘ کو عملی سیاست سے آہستہ آہستہ الگ کر دیا۔ آج بھی اندرون پشاور میں اِن کی حمایت کے بغیر کسی کی انتخابی اُمیدوار کی یقینی کامیابی مشکل ہی نہیں ناممکن سمجھی جاتی ہے اُور بات اِس گھرانے کی صرف انتخابی حمایت کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ 

پشاور نے وہ درخشاں دور بھی دیکھا جب ’شاہ احمد نورانی‘ کی قیادت میں ملک بھر سے علماء و مشائخ نے فیصلہ کیا کہ ’’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری‘ اَدا کی جائے۔ تب آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ کوچہ آقا پیر جان پر ’گنبد خضریٰ‘ سے مزین سبز پرچم لہرانے لگا اور یوں 70ء کی دہائی (آئین پاکستان کی منظوری کے بعد ہوئے پہلے عام انتخابات) سے پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ ’جمعیت علمائےپاکستان (نورانی) کا حصہ رہے‘ جن کے وصال کے بعد بھی ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کی صدارت و مرکزی فیصلہ سازی میں پشاور کو کلیدی مقام حاصل رہا لیکن پھر ’جمعیت علمائے پاکستان‘ پر ’جمعیت سادات‘ (خاندانی مفادات) حاوی ہوتے چلے گئے۔ تقسیم در تقسیم ہو گئی! جس کے بارے خاموشی ہی بہتر ہے!

پانچ دینی جماعتوں کا اِتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ نومبر 2017ء میں بحال ہوا‘ جس کے بعد اُمید تھی کہ دینی جماعتوں کا ’’ووٹ بینک‘‘ تقسیم ہونے سے بچ جائے گا‘ لیکن جمعیت علمائے اِسلام (فضل الرحمن)‘ جماعت اِسلامی‘ جمعیت علمائے پاکستان (اِمام نورانی)‘ جماعت اِلحدیث اُور تحریک اِسلامی پر مشتمل اِس اتحاد میں شامل قوتوں کی ’’انتخابی توقعات اُور اُمیدیں‘‘ شاید پوری نہ ہوں کیونکہ ’ہوم ورک‘ نہیں کیا گیا۔ دنیاوی اہداف رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی طرح یہاں بھی داخلی اختلافات ختم کرنے کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرحال سوال یہ نہیں کہ 2007ء سے 2017ء تک ’ایم ایم اے‘ کیوں غیرفعال رہی اور آخر عام انتخابات کے موقع پر ہی ہر طرف سے ’اتحاد اتحاد کی صدائیں‘ اٹھنا کیوں شروع ہو جاتی ہیں؟ بلکہ توجہ طلب امر یہ ہے کہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے کاروباری گھرانے دینی جماعتوں کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن یہ بات دھڑے بندیوں پر فخر کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اُن کی قیمت بالخصوص عقیدت مند حلقوں (مریدوں) کی وفاداریاں پیش نظر رکھتے ہوئے لگائی جاتی ہیں۔ (قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند)۔ 

قابل فہم ہے کہ غریب اور متوسط آمدنی رکھنے والے طبقات مالی و معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اپنا ووٹ بیچ دیں لیکن گدی نشین بھی ’بہ صد سامان رسوائی سر بازار می رقصم‘ ہو جائیں گے‘ آنکھوں دیکھی اِس حقیقت کا یقین نہیں ہو رہا۔ یادش بخیر 2002ء میں ’ایم ایم اے‘ تخلیق کی گئی تو پہلی ہی مرتبہ اِس انتخابی اتحاد نے قومی اسمبلی کی 58 نشستیں جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا‘ اور یہاں بھی بات ’حیرانی کی حد تک ہی محدود رہی‘ جس کے بارے میں مزید کچھ کہنے سے خاموشی بہتر ہے!

پچیس جولائی کے (متوقع) عام انتخابات کے لئے ’ایم ایم اے‘ نے 12 نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کیا‘ جس کے بنیادی نکات میں ’شریعت کا نفاذ‘ اور عالمی سطح پر مسلمان ممالک کا ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا شامل ہے‘ جو مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی آمادگی‘ بیداری اور تیاری کر سکے۔ یہ اہداف کیسے حاصل ہو سکیں گے جبکہ ’سنی مکتب فکر‘ کے پاس انقلاب اسلامی ایران جیسی ایک کامیابی عملی مثال بھی نہیں!؟ اگر بات پشاور کے تناظر اور ’گیلانی سادات گھرانے‘ کی عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی کے حوالے سے کی جائے تو پشاور ’شاہ احمد نورانی مرحوم و مغفور‘ کے وارث گروپ ’اِمام نورانی‘ کی بجائے ’صاحبزادہ ابوالخیر‘ کے ساتھ کھڑا ہے‘ جنہوں نے 2014ء میں اپنا الگ دھڑا بنا لیا تھا۔ اب جمعیت علمائے پاکستان کے اِس گروہ کو ’نورانی‘ کے لقب سے پہچانا جاتا ہے جبکہ ’اِمام نورانی‘ گروپ ’ایم ایم اے‘ کا حصہ ہے۔ 

رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات کے لئے ’’بریلوی مکتبۂ فکر‘ سے تعلق رکھنے والے ’’جمعیت علمائے پاکستان‘ نورانی گروپ‘‘ نے ’متحدہ نفاذ نظام مصطفی محاذ‘ کا حصہ بننے کو ترجیح دی‘ لیکن چونکہ اِس اتحاد کی الیکشن کمشن میں بطور سیاسی پارٹی باضابطہ رکنیت حاصل نہیں‘ اِس لئے اِن کے تمام نامزد اُمیدوار آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ جمعیت علمائے پاکستان ’امام نورانی‘ نے الیکشن کمشن کے ساتھ رجسٹریشن نہ ہونے کی کمی ’ایم ایم اے‘ کے انتخابی نشان کے ذریعے پوری کر لی جو زیادہ دانشمندانہ فیصلہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ ’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔‘‘ پشاور کی سطح پر ’جمعیت علمائے پاکستان ’نورانی‘ اور ’اِمام نورانی‘ اقلیتی گروپوں کی سوچ اور پسند الگ الگ ہے۔ نورانی گروپ کے مرکزی نائب صدر سیّد محمد سبطین گیلانی (تاج آغا) نے اندرون پشاور سے پیپلزپارٹی کی صوبائی نشست کے لئے حمایت کا اعلان کردیا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی آئندہ چند روز میں حمایت کا اعلان متوقع ہے۔ یوں 2 مختلف النظریات جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد اُس گھرانے کا عکاس بن گیا ہے‘ جس کو اِس حد تک ناتواں کر دیا گیا ہے کہ اُس کا اثرورسوخ 2 انتخابی نشستوں کی حد تک محدود ہو گیا ہے! 

لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونے والے عام انتخابات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر عام انتخابات کا انعقاد ہو بھی جاتا ہے تو اِن کا قابل یقین حد تک شفاف ہونا بھی ضروری ہے جبکہ دہشت گردی کے باعث بڑی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیاں پہلے ہی محدود کر دی ہیں تاہم ایک جماعت (تحریک انصاف) کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت کو دیگر اپنے لئے مشکلات قرار دے رہے ہیں! کسی ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دیگر سبھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک ہی نوعیت کی شکایت اور بیانات‘ محض حسن اتفاق اور گٹھ جوڑ یا سازش کا نتیجہ نہیں۔ جب ساری جماعتیں ایک ہی قسم کے حالات سے دوچار ہو جائیں تو پھر ذمہ داروں‘ بالخصوص الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں کو سوچنا پڑے گا کہ ایک آدھ کے سوأ سبھی تحفظات کا اظہار کیوں کررہی ہیں اُور چاروں طرف سے ایک ہی آواز کیوں اُٹھ رہی ہے؟ کہیں یہ انتخابات (جمہوری عمل) کے خلاف سازش تو نہیں؟
۔۔۔۔


Tuesday, July 17, 2018

July 2018: What we need? Elections, Politics and [POLITICAL] Reconciliation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: سیاست اُور مفاہمت!
پاکستان کی ’70 سالہ‘ سیاسی تاریخ میں جن ’مشکل اَدوار‘ کا ذکر ملتا ہے‘ اُن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’قومی اِداروں‘ کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ’اِختلاف رائے‘ پایا جاتا ہے اُور جب تک یہ ’’اِختلاف رائے‘ اِتفاق رائے‘‘ میں تبدیل نہیں ہوتا‘ اُس وقت تک قومی مسائل کے حل کے لئے ترجیحات کے تعین اور اِن ترجیحات کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہوگا۔ سردست پاکستان کی ضروریات میں شامل ہے 1: عدالتی اِصلاحات (جوڈیشل ریفارمز) کے ذریعے کم سے کم وقت اُور خرچ میں اِنصاف تک رسائیاور بلاامتیاز احتساب کا عمل۔ 3: اِنتخابی اِصلاحات (اِلیکٹورل ریفارمز) جن کے ذریعے عملاً غیرمتنازعہ‘ شفاف اُور آزادانہ اِنتخابات کا اِنعقاد ممکن ہو۔ 3: مؤثر خارجہ اَمور (فارن پالیسی) جس کے ذریعے خطے اُور عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کو سفارتی طور پر اُجاگر کیا جائے۔ 4: دفاع (ڈیفنس)‘ دفاعی پیداوار و صلاحیت میں اِضافہ اُور داخلہ حفاظتی اَمور (ہوم لینڈ سیکورٹی) جن کے ذریعے اِنتہاء پسندی اُور دہشت گردی جیسے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔5: سیاسی قیادت جو ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے کی بجائے عوام کی ’نبض آشنا‘ ہو اُور 6: اِحساس ذمہ داری کے ساتھ ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک اُور پرنٹ میڈیا) کا مثبت کردار۔ ہمیں اُس ’مستقل اِنکاری کیفیت‘ سے بھی باہر آنا ہے‘ جس میں فوج‘ عدلیہ بشمول اِنسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ‘سیاست دانوں‘ افسرشاہی اور ذرائع ابلاغ کے وجودکو تسلیم نہیں کیا جاتا اور جب تک اِن 6 شعبوں کے فیصلہ سازوں کے درمیان ’’قومی مفاہمت‘‘ نہیں ہوتی‘ جس میں مل بیٹھ کر ہر طاقت اپنے اپنے کردار اُور ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر لیتے اُس وقت تک وقفوں سے ’عام اِنتخابات‘ کا اِنعقاد کروانا کافی نہیں ہوگا۔

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن پاکستان کے ’’سیاسی کلچر‘‘ میں فوج کی حکمرانی اب ایک ’زندہ روایت‘ جیسی حقیقت حاصل کر چکی ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں باہم بر سرِ پیکار ہوتی ہیں‘ سیاست دان ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے سے انکاری ہیں‘ سول حکومتیں بدانتظامی‘ عدمِ استحکام اور اخلاقی انحطاط کا بدترین نمونہ پیش کر رہی ہیں۔ عوام الناس حکمرانوں کے آگے اپنے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ غیر مقبول مذہبی اور سیاسی گروہ فوج کو حکومت سنبھالنے کی پیشکش کرتے ہیں اور فوجی پوری آمادگیِ دل کے ساتھ اس صداے خوش نوا پر لبیک کہتے اور قوم کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ آئین کو بالائے طاق رکھ کر مسندِ اقتدار پر نہ صرف فائز ہوتے ہیں بلکہ اقتدار کے زیادہ سے زیادہ مظاہر کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ استحکام حاصل کر لینے کے بعد اپنے اقتدار کے آئینی جواز کے لئے سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بالآخر عوام کی ناپسندیدگی کا داغ اپنے دامن پر سجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔

اس روایت کا آغاز ’27 اکتوبر 1958ء‘ میں جنرل ایوب خان صاحب کے مارشل لاء سے ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سکندر مرزا نے سیاست دانوں کے پر زور ایماء پر ’مارچ 1959ء‘ میں عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کر رکھا تھا۔ سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ رہی تھیں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اب سکندر مرزا کے لئے عام انتخابات سے گریز ممکن نہیں ہو گا اور عام انتخابات کے نتیجے میں اسے لازماً کرسیِ صدارت سے محروم ہونا پڑے گا۔ محرومی کے اس خدشے کے پیشِ نظر اُس نے جنرل ایوب خان کے ذریعے سے مارشل لاء نافذ کر دیا اور اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی اعتبار سے تین بڑے اقدامات کئے۔ 1: انہوں نے سکندر مرزا کو منصبِ صدارت سے اتارا اور خوداس پر فائز ہو گئے۔2: 1956ء کے آئین کو منسوخ کیا۔3: ایک موقع پرسیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی اور سیاست دانوں ہی کو سیاست کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ ایوب خان ’25 مارچ 1969ء‘ کے روز رخصت ہوئے تو اس دوران میں انہوں نے جمہوریت کا نعرہ بھی لگایا‘ عام انتخابات بھی کرائے اور آئین بھی تشکیل دیا مگرتاریخ میں وہ ایک آمراورمخالفِ جمہوریت ہی کی حیثیت سے جانے گئے۔ 

عوام کی زور دار احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔اس موقع پر انہی کے وضع کردہ آئین کا تقاضا تھا کہ اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کیا جائے مگر انہوں نے حکومت چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کی۔ جنرل یحییٰ نے دو سال حکومت کی‘ اس دوران میں ان کے اہم سیاسی اقدامات یہ تھے:1: مارشل لاء نافذ کیا۔2: عوام سے رائے لئے بغیر ’ون یونٹ‘ کو توڑ دیا۔3: انتخابات کے بعد اقتدار میں اپنی شرکت کی تگ و دو‘ منتخب نمائندوں کو انتقالِ اقتدار میں اِلتوأ اور مشرقی حصے میں فوجی کاروائی جیسے بعض ایسے معاملات کئے کہ جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کوکامیاب بنانے میں حتمی کردار ادا کیا۔ یحییٰ خان کے بعد کچھ عرصہ تک جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سول حکومت قائم رہی۔1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر بھٹو حکومت کے خلاف ایک زوردار عوامی تحریک شروع ہوئی اور ملک سیاسی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ اِس صورتحال کو بنیاد بنا کر’16 ستمبر 1978ء‘ کے روز جنرل ضیاء الحق نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ اور اعلان کیا کہ وہ ’90 روز‘کے اندر انتخابات کرا کے رخصت ہو جائیں گے مگر وہ 10سال تک حکمرانی کے منصب پر فائز رہے اُور ’17 اگست 1988ء‘ فرشتۂ اجل ہی اُنہیں مسندِ اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا۔ اس دوران میں وہ بتدریج اپنے فوجی تشخص کو کم کرتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ جمہوری اداروں کو بھی کسی حد تک بحال کر دیا مگر اقتدار سے علیحدگی کو وہ کسی لمحے بھی گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔

ضیاء الحق کے سیاسی اقدامات میں 1: آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لاء کا نفاذ۔ 2: ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے اقتدار کو آئینی تحفظ دینے کی کوشش۔ 3: غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد۔4: گروہی‘ انتہاء پسندانہ اور فرقہ ورانہ سیاست (کلاشنکوف کلچر) کا فروغ شامل تھا۔ اُس وقت کی عدالت عظمیٰ نے حسبِ سابق انہیں سندِ جواز فراہم کر دی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ جب کبھی اور جس کسی بھی ضرورت کے تحت فوج اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو اِس سے پیدا ہونے والے چند مسائل میں سرفہرست ’دین کے مسلمات‘ کا مجروح ہونا شامل ہوتا ہے۔ اسلام نے اصول طے کردیا ہے کہ: ’وامرہم شوریٰ بینہم‘ یعنی ’’مسلمانوں کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘ مسلمان جب بھی کوئی اجتماعی نظام قائم کریں گے‘ اس کا اصلِ اصول یہی قاعدہ ہو گا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ریاست کی سطح پر اجتماعی نوعیت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگا اور اس ضمن میں ان کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہو گی۔ جب یہ اصول طے ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرہم شوریٰ بینھم‘ ہے‘ اس لئے ان کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔ فوج کے بلواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی سے دوسرا مسئلہ ایسے اقدامات کی صورت ظاہرہوتا ہے‘ جو آئین کی خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔ 

ہمارا آئین درحقیقت وہ دستور العمل ہے جس کے بارے میں قوم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی امور کو اس کی روشنی میں انجام دے گی۔ اس میں ہم نے قومی سطح پر یہ طے کیا ہے کہ ہمارانظامِ حکومت کیا ہو گا؟ حکومت کس طریقے سے وجود میں آئے گی اور کس طریقے سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا؟ سربراہانِ ریاست و حکومت کس طریقے سے منتخب ہوں گے‘ ان کے کیا ا ختیارات ہوں گے اور کس طرح ان کا مواخذہ کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار امور جزئیات کی حد تک دستور میں طے ہیں صرف قومی مفاہمت کے ذریعے اُن کی حدود (دائرہ کار) وضع کرنا ہے۔ کسی بھی قوم کا سیاسی استحکام اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ وہاں کی تمام قوتیں (فوج‘ عدلیہ‘ انسداد بدعنوانی کے ادارے‘ سیاست دان‘ افسرشاہی اور ذرائع ابلاغ) آئین کے ہر ایک لفظ پر پوری دیانت داری سے عمل کریں‘ بصورت دیگر مسائل اور بحرانوں سے نکلنے کی کوئی دوسری صورت نہیں!

Sunday, July 15, 2018

TRANSLATION: We need dams? by Dr. Farrukh Saleem

?We need dams
ڈیموں کی ضرورت
دریاؤں کے ذریعے پاکستان کو ملنے والے پانی کی کل مقدار 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ہے۔ اِن دریاؤں میں سندھ سے 89 ایم اے ایف‘ جہلم سے 22 ایم اے ایف‘ چناب سے 25 ایم اے ایف‘ اور مشرقی دریاؤں سے 9 ایم اے ایف پانی ملتا ہے جبکہ اِس دستیاب پانی کے مقابلے مانگ زیادہ ہے۔

’145 ایم اے ایف‘ میں سے ’104 ایم اے ایف‘ زراعت کی ضروریات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مقامی ضروریات کے لئے پانی کی دستیابی کا عالمی معیار یہ ہے کہ فی کس 35 گیلن دستیاب ہو۔ مردم شماری 2017ء کے مطابق پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور اِس آبادی کے تناسب سے 12 ایم اے ایف پانی درکار ہے۔ صنعتی استعمال کے لئے پاکستان کے زیراستعمال پانی 18 ایم اے ایف ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس دستیاب پانی اِس کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے اور پانی کے دستیاب ذرائع بھی محفوظ نہیں۔

پاکستان کو دستیاب پانی کی بڑی مقدار میں تین وجوہات کی بناء پر ضائع ہو رہی ہے۔ 24ایم اے ایف پانی نہروں میں‘ 21ایم اے ایف آبی گزرگاہوں سے گزرگاہوں میں جبکہ 33 ایم اے ایف دیگر مقامات پر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ یوں مجموعی طور پر 77 ایم اے ایف پانی ضائع ہوتا ہے۔

ڈیم کیوں ضروری ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کئے جاتے ہیں لیکن ڈیموں کی تعمیر کے لئے پانی کی مسلسل فراہمی یقینی ہونی چاہئے۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو چونکہ پانی برفانی تودوں سے حاصل ہوتا ہے‘ اِس لئے پانی کی دستیابی کا انحصار موسمیاتی اثرات پر ہے جو کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتا ہے۔ آبی ذخائر سے دوسرا استفادہ ’پن بجلی‘ کی صورت حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس صلاحیت کے حصول پر کافی لاگت آتی ہے بالخصوص ایک ایسے دور میں جبکہ دیگر متبادل ذرائع سے بجلی کا حصول ممکن بھی ہو اور یہ بجلی فی یونٹ قیمت کے لحاظ سے بھی کم ہو تو پھر بجلی دیگر سستے ذرائع سے حاصل کرنے ہی میں دانشمندی ہے۔

کسی بھی ذریعے سے بجلی حاصل کرنے سے زیادہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کیا ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں نیلم جہلم سے حاصل ہونے والی بجلی ایک لاکھ روپے جبکہ اُسی مقدار کی بجلی شمسی توانائی سے پچاس روپے میں حاصل ہو تو بہتر کیا ہے؟ متعلقہ شعبے کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق ’’شمسی توانائی سے 20فیصد کم قیمت پر بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘

بھاشا ڈیم کا جائزہ لیں۔ اِس ڈیم کی تعمیر پر 14 ارب ڈالر درکار ہیں جس کے بعد اِس میں 6 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس مقدار میں پانی سے حاصل ہونے والے فوائد کو شمار کیا جائے تو 30 برس میں ڈیم کی تعمیر پر اُٹھنے والے اخراجات پورے ہوں گے۔ یہ ایک بہت طویل عرصہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی دریاؤں کے بہاؤ میں سال 2050ء تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔

پاکستان کی زرعی پیداوار 60 ارب ڈالر کے مساوی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے 104 ایم اے ایف پانی استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جو اِس سے کئی گنا زیادہ پیداوار کم پانی کے استعمال سے کرتے ہیں۔ آبپاشی کے متبادل ذرائع اور اِس شعبے میں ہونے والی تحقیق و ترقی سے پاکستانی کاشتکار آشنا نہیں اور اگر حکومت زرعی شعبے میں پانی کے بہترین استعمال کو متعارف کرے تو پانی کی زیراستعمال موجودہ مقدار سے مزید پچاس فیصد پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ پانی کے موجود ذرائع سے دانشمندانہ استفادہ ہے۔ پانی کم نہیں لیکن پانی بڑی مقدار میں ضائع ہو رہا ہے۔ ڈیموں کی تعمیر پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ ماضی میں ڈیموں پر انحصار کیا جاتا تھا لیکن اب چونکہ متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار اور کم پانی میں فصل حاصل کی جاسکتی ہے‘ اس لئے پانی ذخیرہ کرکے استعمال کرنے کی بجائے اِس کا جدید خطوط پر محتاط استعمال ہی دانشمندی ہے۔ ڈیم دنیا کے اُن ممالک میں تعمیر کئے جاتے ہیں جہاں پانی کی دستیابی مسلسل اور یکساں رہے پاکستان میں پانی کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے اور ایسی صورت میں آبی ذخائر کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, July 12, 2018

July 2018: Reham Khan by Rehman Khan : BOOK REVIEW!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کتاب: ریحام خان!
پاکستان تحریک اِنصاف کے سربراہ عمران خان کی دوسری شادی ’برطانوی شہریت‘ رکھنے والی خاتون ’ریحام خان‘ سے اُس ملاقات کا نتیجہ تھی‘ جو ایک پارٹی کے سربراہ اور صحافی کے درمیان (پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے‘ طے شدہ مقام اور مقررہ وقت پر) ہوئی لیکن رسمی سوال و جواب کی نشست برخاست ہونے کے بعد دونوں نے ’غیررسمی طور پر‘ ایک دوسرے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ انہیں تو ایک دوسرے کا ’شریک حیات‘ ہونا چاہئے۔ ریحام 2012ء میں پاکستان آئیں اور عمران خان سے اُن کی ملاقاتوں کا سلسلہ (نتیجہ) 2015ء میں شادی کی صورت سامنے آیا لیکن یہ شادی 2015ء ہی میں انجام (طلاق) کو پہنچی‘ جو شادی ہی کی طرح غیرمتوقع بات تھی۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی جانب سے ریحام کو ’8 کروڑ روپے‘ ادا کئے گئے۔ یہ رقم اقساط میں ادا کی گئی اور عمران خان کے قریبی دوست ذوالفقار العمروف زلفی بخاری جو کہ برطانیہ میں کاروبار رکھتے ہیں اُنہوں نے ادائیگیاں کیں‘ البتہ ریحام نے ایسی کسی بھی ’لین دین (ادائیگی یا وصولی)‘ سے انکار کیا اور پہلی مرتبہ ’8 نومبر 2015ء‘ کے روز باضابطہ طور پر اعتراف کیا کہ اُن کے اور عمران خان کے درمیان طلاق واقع ہو چکی ہے۔‘ عمران خان کی جانب سے یہ اعلان اِس سے پہلے ہی کردیا گیا تھا۔

ریحام خان کی طلاق کے محرکات کیا تھے؟ باشعور اور تعلیم یافتہ جوڑے کی پسند سے ہونے والی ایک ایسی شادی جس کا جشن پورے پاکستان اور دنیا بھر میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے منایا‘ وہ چند ماہ میں کیسے ختم ہوئی؟ عمران خان کی نجی معمولات کیا ہیں؟ یہ سب اور بہت کچھ مزید جاننے کا تجسس رکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے کارکنوں کی بھی ہے‘ جنہیں عمران خان کی سماجی و سیاسی خدمات اور عزائم کا تو علم ہے‘ وہ یقین بھی رکھتے ہیں لیکن عمران خان کے ’پراسرار معمولات زندگی‘ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی اکثریت کو عمران خان کی نجی زندگی اور ریحام خان کی کتاب سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ اِس کتاب کو ’دل آزاری اُور سیاست میں الزام تراشیوں کے نئے باب کا اضافہ‘ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کے سبھی سیاست دان اپنی نجی زندگی کو سیاسی زندگی سے الگ کئے ہوئے ہیں اور اُن کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاست دانوں کو اُن کی سیاسی زندگی‘ بیانات اور مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید کرنے کے حوالے سے دیکھا اور سمجھا (پرکھا) جاتا ہے لیکن بطور انسان اُن کی شخصیت کے کتنے ظاہری اور کتنے پوشیدہ پہلو ایسے بھی ہوں گے‘ کہ جنہیں سامنے رکھتے ہوئے اُن کی مستقل مزاجی اور بصیرت و کردار کو سمجھا جا سکے۔ 

مغربی معاشروں میں اگر جمہوریت مضبوط دکھائی دیتی ہے تو اُس کی بنیاد ’سچ‘ پر ہے جبکہ ہمارے ہاں کی جمہوریت میں سیاسی رہنما بالخصوص سیاسی جماعتوں کے قائدین ’سچ‘ صرف اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بولنا اُور سننا پسند کرتے ہیں۔ اِس تناظر (پس منظر) کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’محترمہ ریحام خان‘ کی تحریر کردہ ’آپ بیتی (کتاب)‘ خاص اہمیت کی حامل ہے‘ جس میں لکھی ہوئی اگر ہر بات سچ نہیں ہو سکتی تو ہر بات کا انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ریحام خان کو یہ سب باتیں کتابی صورت میں مرتب کرنی چاہیئں تھیں یا نہیں۔ بیوی کی حیثیت یا اُس سے قبل ایک دوست کی حیثیت سے اُن کا جتنا بھی وقت عمران خان کی قربت میں گزرا‘ کیا اُس کے بارے میں لکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں پردے اور اخلاقیات کے پیمانے‘ شرعی رشتے کی باریکیوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے تھا بالخصوص جہاں کہیں عمران خان کے علاؤہ دیگر افراد کے نام آئیں۔ مثال کے طور پر کتاب میں پلاسٹک کی 2 تھیلیوں کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے‘ جن میں بھرے سفید رنگ کے پوڈر (powder) کو دیکھا جاسکتا ہے اور اِس کے نیچے تفصیل (کیپشن) میں لکھا ہے کہ یہ ’کوکین (نشہ آور مادہ)‘ عمران خان کی جیب میں موجود پائی گئی تھی لیکن یہ بات کس طرح ثابت کی جائے گی کہ یہ دونوں تھیلیاں عمران خان کے زیراستعمال تھیں؟ کیا ریحام خان کی بنی گالہ میں موجودگی بطور جاسوس تھی جو وہ عمران خان کی جیبوں کی تلاشی لینے اور اُن میں موجود اشیاء کے تصویری شواہد (ثبوت) جمع کرتی رہیں؟ کیا مزید ایسی تصاویر کا ذخیرہ بھی اُن کے پاس ہے جن کے مطالعے (مشاہدے) سے عمران خان کی نہایت ہی خلوت میں بسر ہونے والی زندگی کے بارے حقائق معلوم ہوسکیں؟ کیا ریحام خان اپنی ’آپ بیتی‘ کی دوسری اشاعت (نئے ایڈیشن) میں مزید تصاویر اور تفصیلات کو وضاحت سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟

عمران خان کی نجی زندگی سے متعلق ریحام خان کی کتاب 365 صفحات پر مشتمل ہے‘ جو 30 ابواب پر مشتمل ہے۔ صفحہ 311 سے 365 تک کا حصہ تصاویر پر مشتمل ہے جو تحریری ابواب میں اضافہ ہے۔ یہ کتاب الیکٹرانک طور پر ایمازون (Amazon) نامی ادارے کے ذریعے فروخت کے لئے پیش کی گئی ہے جس کی قیمت قریب 10 امریکی ڈالر یعنی پاکستانی بارہ یا تیرہ سو روپے بنتی ہے۔ برطانیہ میں اِسے کتابی شکل (Hard Copy) میں بھی جاری کیا گیا ہے لیکن اِس کتاب نے پاکستانی سیاست میں جس قدر ہنگامہ برپا کرنا تھا‘ وہ نہیں کر سکی یعنی کتاب کی اشاعت سے جو مقصد حاصل ہونا تھا وہ نہیں ہوسکا کیونکہ 12جولائی کو ’آن لائن (منظرعام)‘ پر آنے والی اِس کتاب پر ’نواز شریف اور مریم نواز‘ کی وطن واپسی اور گرفتاری جیسے موضوعات حاوی ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریحام خان (مصنفہ) کی ’’ریحام خان‘‘ نامی کتاب تحریر کرنے اور اِسے عام انتخابات سے قبل شائع کرنے میں مسلم لیگ (نواز) کی دلچسپی و سرپرستی ’شامل حال‘ رہی ہے‘ جو اِن الزامات حتی کہ اپنی طلاق (عمران خان سے علیحدگی) کے عوض 8 کروڑ روپے کی وصولی سے بھی انکار کر چکی ہیں۔ 

کتاب کی سب سے خاص بات عمران خان کے بارے میں ریحام خان کے تجزیئے ہیں بلکہ پے در پے اور غیرمحتاط تجزئیات پریشان کن حد تک یک طرفہ ہیں۔ مثال کے طور پر ’’عمران خان ایک ایسا شخص ہے جس سے ہر کوئی (اپنے مقاصد کے لئے) استعمال کر چکا ہے۔ (صفحہ 294)‘‘ اِسی صفحے پر مزید لکھا ہے کہ ’’عمران خان وزیراعظم بننے کی حوص میں اندھا ہو چکا ہے۔‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’عمران خان کی عادت ہے کہ وہ سنجیدہ نوعیت کی باتیں بھی اپنے ذاتی ٹیلی فون نمبر کے ذریعے کرتا ہے اور بار بار میرے سمجھانے کے باوجود بھی اپنی اِس عادت سے باز نہیں آتا۔‘‘ تو اِس کا جواب ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے یہی آ سکتا ہے کہ عمران خان کوئی جاسوس نہیں اور نہ ہی اپنی نجی اور سیاسی زندگی میں کچھ بھی پوشیدہ رکھنے کی اُسے (دروغ گوئی کی) ضرورت ہے۔ یقینی بات ہے کہ عمران خان کا ماضی جو بھی تھا‘ اُس کا حال اُور مستقبل مختلف دکھائی دے رہے ہیں لیکن اِس پوری کہانی (کتاب و انتساب) کے بعد ریحام خان کہاں کھڑی ہے؟ ریحام خان نے عمران خان پر اُنگلیاں اٹھانے کی کوشش (شوق) میں اپنے آپ کو ہی مشکوک بنا دیا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

July 2018: Is the Peshawar, a priority in GE2018?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: پشاورہے ترجیح!؟
قومی سیاست اُور عام انتخابات میں ’’پشاور شہر‘‘ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا اور پشاور کی دلچسپی ہی عام انتخابات کو گرمجوش یا سرد بناتی ہے لیکن بدقسمتی سے حملہ آوروں کا نشانہ بننے والا یہ جنوب مشرق ایشیاء کا زندہ تاریخی شہر آج بھی خاطرخواہ توجہ اُور (حسب آبادی) ترقیاتی کاموں سے محروم ہے۔ 

پشاور کی سب سے بڑی ضرورت امن و امان کی بحالی ہے۔ آبادی کے تناسب سے پولیس اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کا مسلسل مطالبہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ پشاور ترجیح نہیں۔ تین اطراف قبائلی علاقوں میں گھرے پشاور میں سال 2013ء سے سال 2017ء کے درمیان مختلف دہشت گرد کاروائیوں میں 929 افراد جاں بحق جب کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے‘ پشاور میں گزشتہ پانچ برس کے دوران 149بم دھماکے اور 22خودکش حملے ہو چکے ہیں! جس کا نشانہ بننے والے اُن زخمیوں کی زندگی کس کرب سے گزر رہی ہے جو محتاجی اور معذوری سے گزر رہے ہیں!

پشاور کے مسائل کا ذکر کرنے سے پہلے یہاں آبادی کی اُس تقسیم کو نہایت ہی باریک بینی سے سمجھنا ضروری ہے جس میں دانستہ طور پر شہری علاقوں کی اہمیت کم اور دیہی علاقوں کو بالادست رکھا گیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں قومی اسمبلی کے پانچ اِنتخابی حلقوں کی مجموعی آبادی ’’42 لاکھ (شہری ’19 لاکھ‘ دیہی ’23 لاکھ)‘‘ میں رجسٹرڈ ووٹرز 17 لاکھ (سات لاکھ خواتین اور 10 لاکھ مرد ووٹرز) ہیں۔ این اے 27 سے 31 اُور پی کے 66 سے 79 تک کے اِن حلقوں میں اکثریت دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ این اے ’29‘ سے ’31‘ تک تین قومی اسمبلی کے حلقوں کا بڑا حصہ دیہی آبادی ہونے کی وجہ سے پشاور شہر کے مسائل اور یہاں کے رہنے والوں کی پریشانیوں پر دیہی علاقے کی ترقیاتی ضروریات و ترجیحات حاوی دکھائی دیتی ہیں! پشاور کی حدود میں 30 نجی اور 20 سرکاری بڑی علاج گاہیں جبکہ 52ڈسپینسریاں ہیں اور اگر ہم 2013ء کے عام انتخابات سے 2018ء کا موازنہ کریں تو اِس عرصے کے دوران پشاور 2 نئے سرکاری ہسپتالوں کا اضافہ ہوا۔ اِسی طرح شعبۂ تعلیم کے لحاظ سے بھی پشاور کا معیار قدرے بہتر ہے اور قومی سطح پر 155 اضلاع میں پشاور 64ویں نمبر پر ہے!

کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کو یکجا اور ٹھکانے لگانا نہایت ہی آسان لیکن اِسے اِس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ گندگی کے ڈھیر ہر علاقے میں یہاں وہاں نظر آتے ہیں۔ پینے کے پانی کی اندرون شہر (بوسیدہ) پائپ لائنوں سے ترسیل کا نظام نصف صدی پرانا ہے‘ جس میں جان ڈالنے کے لئے وقتاً فوقتاً ٹیوب ویلوں کا اضافہ آبادی کی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ پشاور کی ضروریات کو سیاسی رنگ کس نے دیا اُور کیوں دیا‘ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ شہر کے بلندترین مقام ’’گورگٹھڑی (تحصیل)‘‘ کے گردوپیش میں 14ٹیوب ویل نصب کرنے والوں نے اگر متعلقہ ماہرین کی ’وارننگ‘ نظرانداز کی تو اِس کا مقصد گورگٹھڑی پر قبضہ کرنا تھا‘ جو محکمۂ آثار قدیمہ کی مستعدی سے نہیں ہونے دیا گیا۔ پشاور کے شہری علاقے پانی کی بدترین قلت اور شہری بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پشاور پر حکومت کرنے والے دیگر اضلاع کے لوگوں کو سرکاری ملازمتوں میں اِس حد تک مقررہ کوٹے سے زائد ملازمتیں دی گئیں کہ ہر صبح پشاور ملازمین کئی بسوں میں سوار آتے‘ جنہیں سیکرٹریٹ اور دیگر محکموں میں حاضری کرتے ہی واپسی کی فکر لاحق ہوتی اور وہ دفتری اوقات کا آغاز و اختتام اپنے گھروں سے کرتے ہیں! سرکاری محکموں میں بائیومیٹرک حاضری نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی ایسے ہی ’سیاسی ملازمین‘ کو تحفظ دینا ہے جو دیگر اضلاع سے یومیہ آمدورفت کرتے ہیں!

پشاور میں تجاوزات اور ٹریفک اپنی مثال آپ لیکن انتخابی نعرہ نہیں۔ سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے آج تک انسداد تجاوزات کی کاروائیاں مکمل نہ ہو سکیں۔ نئی حکومت کے لئے یہی سب سے بڑ چیلنج ہوگا۔ تین اطراف سے قبائلی علاقہ جات میں پھنسے پشاور کی سیاست پر تین پختون قبائل کی چھاپ واضح ہے۔ داود زئی‘ خلیل اور مومند قبیلے کے بااثر افراد اپنے نام کے ساتھ ارباب لگاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں برادری سے تعلق رکھنے والا ووٹ اثر رکھتا ہے اور عمومی طور پر برادری کی نسبت سے نامزد افراد کو ووٹ دینا ہی پسند کیا جاتا ہے۔ شہری حدود میں ہندکو زبان بولنے والے افراد شہری نمائندوں کو ووٹ دیتے ہیں لیکن ایسے انتخابی اُمیدوار بھی ہیں‘ جو پختونوں اور شہریوں کے لئے یکساں قابل قبول ہیں۔ محمد زئی‘ یوسف زئی‘ اعوان (ملک)‘ مہمند‘ خواجہ‘ صدیقی‘ بخاری‘ گیلانی‘ قریشی اور دیگر برداریاں اپنے اپنے حلقوں میں محدود نفوس رکھتی ہیں۔

پشاور کا سب سے اہم انتخابی حلقہ این اے 31 (ماضی میں ’’این اے ون‘‘) پختونوں کی اکثریت کے ساتھ ہندکو زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ لسانی بنیاد پر تقسیم اِس حلقے میں پختونوں کی حمایت کے بغیر ہندکووان اور ہندکووانوں کی حمایت کے بغیر پختون کامیاب نہیں ہو سکتے‘ تاہم اِس مرتبہ (دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات) میں ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ نے کم سے کم ارتعاش تو پیدا کر ہی دیا ہے‘ جو ایک نپی تلی شعوری کوشش ہے۔ اگر دلچسپی برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں ہندکوانوں کا یہ اتحاد تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو متاثر کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ’اے این پی‘ ایسے تمام گروہوں کو پسند کرتی ہے‘ جو ہندکووانوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کردے۔ اس حلقے میں سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے کوئی دوسری پارٹی ایک سے زائد بار نہیں جیت سکی! 

دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان یہاں سے کامیاب لیکن ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور نے دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد اور تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقابلہ جیت لیا‘ لیکن صرف انتخابی کامیابی (الیکشن منیجمنٹ) ہی کافی نہیں ہوتی۔ کسی حلقے کے ’ووٹ بینک‘ کا دلی تعلق پشاور سے جوڑنے اور پشاور کی ترقی کا چیلنج قبول کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔ 

ایک موقع پر جب بشیر احمد بلور کا وزیراعلیٰ بننا ممکن بھی تھا اور قریب بھی‘ تب ’ولی باغ‘ نے ’بلور ہاؤس‘ کی قربانیوں کے مقابلے جوانسال عزیز کا انتخاب کیا‘ جس کا دکھ بشیربلور کو ہمیشہ رہا۔ 

اگر ’اے این پی‘ سے بلور خاندان کی مالی و سیاسی معاونت اور بالخصوص پشاور کی حمایت کو منہا کر دیا جائے تو باقی جو کچھ بھی بچتا ہے وہ کافی نہیں رہتا۔ دس جولائی کی شب خودکش حملے نے ’بلور خاندان‘ کو ایک مرتبہ پھر سوگوار کر دیا ہے‘ جنہیں ایام غم کے بعد سنجیدگی سے ’پشاور اتحاد‘ کے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ اگر اُن کی پہچان پشاور ہے‘ اُنہوں نے اپنی عزیزوں کو پشاور کی خاک کے سپرد کیا ہے تو پھر ذاتی دلچسپی کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی تعلق بھی پشاور ہی کے نام کردیں۔ پشاور کو ایک ایسے وسیع البنیاد اتحاد (نمائندگی و سرپرستی) کی ضرورت ہے‘ جس میں نسلی لسانی گروہی اور قبائلی حوالوں جیسی ترجیحات پر پشاور حاوی نظر آئے۔ ’’پشاور تھا خوشیاں: پشاور تھا سکھ ۔۔۔ نظر لگ گئی ہے‘ نظر لگ گئی ہے ۔۔۔ یہ دہشت‘ یہ صدمے‘ پشاور کے دکھ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Tuesday, July 10, 2018

July 2018: The bunch of lies and liars!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابات: سب جھوٹ ہے!؟

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں کی مثال ’ہاتھی‘ جیسی ہے‘ جس کے کھانے اُور دِکھانے کے دانت الگ الگ ہوتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو عام اِنتخابات کے لئے جمع کروائے گئے ’اثاثہ جات‘ کی تفصیلات پر نظر کریں‘ جہاں جھوٹ ہی جھوٹ تحریر ملے گا کہ کس طرح اَربوں کی جائیدادوں کی قیمت کروڑوں نہیں بلکہ لاکھوں میں ظاہر کی گئی ہے!

پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے مرکزی صدر‘ شہباز شریف نے اپنی ’’مری روڈ رہائشگاہ‘‘ پر واقع 9 مرلے گھر کی قیمت 34ہزار اور اِسی مقام پر دوسرے گھر کی قیمت 27ہزار روپے ظاہر کی ہے۔ شہباز شریف 38 لاکھ روپے کے مقروض بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ملکیت میں ’طلائی زیورات‘ کا نہ ہونا قابل فہم ہے لیکن اگر عمران خان یہ کہتے ہیں کہ اُن کے پاس ذاتی کوئی گاڑی بھی نہیں تو اِس بات پر کوئی ’’اَندھا پاکستانی‘‘ ہی یقین کر سکتا ہے کیونکہ لینڈکروزر (V8) گاڑیوں کے سبھی جدید اور نئے ماڈل سیاستدانوں کے زیراستعمال ہیں۔ ظاہر ہے کہ کاغذات نامزدگیوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں کوئی (ناشائستہ) سوال نہیں پوچھا جاتا جیسا کہ آپ جناب کی ملکیت اور زیراستعمال گاڑیوں کی تفصیلات کیا ہیں؟ ایسی تفصیلات طلب کی جائیں تو صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ملک کی سبھی سیاسی جماعتیں مشکل میں پھنس جائیں جنہیں اپنے اپنے مالی سرپرستوں (اے ٹی ایم مشینوں) کے نام ظاہر کرنا پڑیں جو دراصل سیاسی جماعتوں کے ذریعے انتخابات میں سالہا سال سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے سربراہ کے پاس ذاتی گاڑی نہ ہونے پر اُن کے حامی پریشان نہ ہوں کیونکہ عنقریب ’’جیپ گروپ‘‘ کے ذریعے ’سیاسی زندگی‘ کا باقی ماندہ سفر آرام و سہولت سے گزر جائے گا۔ 

جان لیجئے کہ عمران خان کے اثاثوں میں 2 لاکھ روپے مالیت کے جانور شامل ہیں اور وہ ایسے واحد سیاسی جماعتوں کے قائد ہیں جنہیں تفریح طبع کے لئے پالتو جانوروں سے لگاؤ ہے لیکن الیکشن کمشن کو 2 لاکھ روپے کے جانوروں کے نام اور تفصیلات نہیں دی گئیں یقیناًیہ قیمت اُن کی خریداری کے وقت کی تھی اور اب جبکہ ان جانوروں کو پال پوس کر بڑا کر دیا گیا ہے تو اُن کی قیمت کسی بھی طرح دس لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ کیا عمران خان کے پاس ’’سونے کا انڈہ‘‘ دینے والی مرغی بھی ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ خود ہی بہتر دے سکتے ہیں‘ لیکن بہرحال عمران خان کے پاس جو بھی جانور ہیں اُن کی خوراک معمولی اور عمومی نہیں ہوگی۔ الیکشن کمشن اگر باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتا تو عمران خان کی آمدنی نہ سہی لیکن اُن کے اخراجات کے ذریعے حقیقت کی بڑی حد تک کھوج نکالی جا سکتی تھی! پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی شہباز شریف کی طرح مقروض ہیں‘ جن کے اثاثہ جات کی تفیصلات میں 35 لاکھ روپے کا قرض بھی شامل ہے لیکن 6 لگژری گاڑیاں جن کی مالیت اربوں روپے ہے تو یہ گاڑیاں شمسی توانائی سے چلتی ہیں؟ ایندھن کی مد میں اِن گاڑیوں کا ماہانہ اُور سالانہ خرچ کتنا ہے‘ اگر یہ معلوم ہو جائے تو سب پر بھاری ’قائد‘ کی آمدن کا ایک پہلو تو معلوم ہو سکتا ہے!؟ 

دنیا جانتی ہے کہ زرداری کو صرف جانور پالنے کا ہی نہیں بلکہ اُن کے مقابلوں کا بھی شوق ہے اور اُن کے اعلی نسل گھوڑے تو عالمی سطح پر مقبول ہیں۔ یہاں بھی الیکشن کمشن کی جانچ پڑتال کافی ثابت نہ ہوئی‘ ورنہ زرداری کے پسینے چھوٹ سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے جن کے تمام اثاثہ جات اُنہیں تحائف کی صورت ملے ہیں! تحفے دینے والوں میں والد (آصف علی زرداری)‘ والدہ (بینظیر بھٹو) اُور دادا (حاکم علی زرداری) کے ساتھ بلاول کی پیدائش سے قریب 9 سال قبل پھانسی ہونے والے نانا جان (ذوالفقار علی بھٹو) بھی شامل ہیں جنہیں معلوم تھا کہ مستقبل میں ایک ہی نواسہ اس قدر ذہین ثابت ہوگا کہ وہ اُن کی ’سیاست‘ اور ’جائیداد کا وارث‘ ہونا چاہئے۔ 

مقام حیرت ہے کہ کراچی کے بلاول ہاؤس کی کل قیمت 30لاکھ روپے بتائی گئی ہے جبکہ اُس کے احاطے میں لگے ہوئے درختوں کی قیمت اِس سے کئی گنا زیادہ ہے! 

پاکستان مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز نے بھی الیکشن کمشن کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کی بجائے صرف اُن کی مالیت ظاہر کرنے پر اکتفا کیا جو کہ مجموعی طور پر ’’4کروڑ 92 لاکھ 77 ہزار روپے‘‘ ہے! اتنی مالیت کے تحائف تو کسی عام آدمی (ہم عوام) کو چار شادیاں کر کے اور تمام عمر ہر دن سالگرہ منا کر مجموعی طور پر بھی نہیں ملتے! بہرحال یہاں بات عام پاکستانیوں کی نہیں ہو رہی! مریم نواز خوش قسمت ہیں کہ اُنہیں اپنے بھائی (حسن نواز) نے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے دیئے اور پھر وہ یہ خطیر رقم واپس لینا بھول گئے۔ کاش ہر پاکستانی بہن کو ایسے ہی بھائی میسر ہوں۔ 

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا شمار بھی ملک کے غریبوں میں ہونا چاہئے جن کے بینک اکاونٹ میں صرف 20لاکھ روپے ہیں جبکہ اُن کے معلوم کاروبار اور سیاسی جماعت کے علاؤہ ’’کشمیر کمیٹی‘‘ سے حاصل آمدن کے مقابلے یہ رقم ’ناقابل یقین بچت‘ ہے۔ الغرض کیس بھی سیاست دان اور کسی بھی انتخابی اُمیدوار کے اثاثوں پر نظر کریں‘ وہ ایسی ہی ’حیرت انگیز معلومات‘ کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی شخص کو اِس بات پر تعجب ہے کہ پاکستان میں ووٹ کا تقدس اور شرح پولنگ کیوں کم ہوتی ہے تو اُس کا بنیادی سبب یہی حلیفہ دروغ گوئی ہے جس کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں۔

’’اہل بصیرت اب نہیں دیکھیں گے کھوٹ کو ۔۔۔ حاصل کریں گے لاکھ طریقوں سے ووٹ کو (سیّد جعفری)۔‘‘ پاکستان کی سیاست میں ووٹوں کی خریداری کا عنصر بھی اِسی وجہ سے در آیا ہے کہ سیاست دانوں کی آمدنی‘ اثاثہ جات اور رہن سہن سے متعلق حلفیہ بیانات ناقابل یقین نہیں۔ رواں ہفتے پنجاب کے شہر رحیم یار خان کے ایک شہری نے سرعام اعلان ’’ووٹ برائے فروخت‘‘ کا اعلان آویزاں کر کے پورے انتخابی نظام اور جمہوریت کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے۔ 

(محلہ) ’’اسلام نگر‘‘ نئی آبادی کے رہائشی صادق نے ایک یا دو نہیں بلکہ پورے 400ووٹ فروخت کے لئے پیش کر دیئے کہ جو چاہے وہ رابطہ کرے! سوشل میڈیا پر اُن کا اعلان مقبول (وائرل) ہونے کے بعد مقامی پولیس نے صادق کو گرفتار کر لیا‘ جو ووٹ بیچنا چاہتا ہے (یعنی ابھی اُس نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا)۔ پاکستان میں ووٹ خریدنے والا مجرم نہیں‘ جس نے انتخابی عمل کو بے معنی‘ بے سود اور بے روح بنا کر رکھ دیا ہے! جنس ہے ووٹ۔ بیچنے والا ہے تاجر جبکہ ووٹ کا خریدار سزا کا مستحق نہیں! 

’’یا تو سورج جھوٹ ہے‘ یا پھر سایہ جھوٹ ہے ۔۔۔ 
آنکھ تو اِس پر بھی حیراں ہے کہ‘ کیا کیا جھوٹ ہے۔ (اَختر شمار)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, July 8, 2018

TRANSLATION: Street Protest by Dr. Farrukh Saleem

Street protest
اقتصادی مسائل: پائیدار حل!
تاریخ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات و سانحات کے مطالعے کا نام ہے بالخصوص وہ سبھی امور کہ جن کا تعلق انسانی معاشرت و معمولات سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ملک کے بااثر سیاسی خاندانوں سے اُن کی پراسرار مالی حیثیت کے بارے میں سوال کیا گیا ہو۔ یوں لگتا ہے کہ جب احتساب اور قانون کی حکمرانی کا ذکر ہو تو پاکستان میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہو لیکن شاید اب پاکستان ماضی سے مختلف ثابت ہوگا اور 70 سال کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عدالت نے اپنا طرزعمل تبدیل کیا ہے اور تاریخ کو نئے انداز میں لکھا ہے۔

بدعنوانی کسے کہا جاتا ہے؟ اگر کوئی شخص (مرد یا عورت) جہاں کہیں بھی فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہو۔ انتظامی معاملات اُس کے ہاتھ میں ہوں اور وہ ایسے فیصلے کرے کہ جس سے اُس کو ذاتی مالی فوائد ہو‘ تو ایسے طرزعمل کو ’بدعنوانی‘ کہا جاتا ہے۔ احتساب کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد یا ادارے کی جانب سے اِس بات کو ممکن بنایا جائے کہ بدعنوان عناصر اور طریقۂ کار کو روکا جائے۔ احتساب وقتی اور سطحی نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ ہمہ وقت جاری رہنا چاہئے اور بدعنوانوں کو معاشرے میں عزت و مرتبہ دیتے ہوئے اور قدر کی نگاہ سے نہیں بلکہ حقارت سے دیکھا جانا چاہئے۔

احتساب کسی ایک شخص کے خلاف کاروائی نہیں بلکہ ایک ایسا مرکزی نظام ہونا چاہئے جس میں بلاامتیاز بدعنوانوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جب احتساب فرد واحد یا جماعتی بنیادوں پر ہوگا تو اُس سے بہتری نہیں بلکہ خرابی آئے گی۔ احتساب ملک و قوم کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے لیکن جہاں احتساب امتیازی ہو‘ وہاں بدعنوان عناصر کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔

ملائشیا کی مثال موجود ہے۔رواں برس 10 مئی کے روز مہاتیر محمد نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا۔ 22 مئی کو سابق وزیراعظم نجیب رزاق سے انسداد بدعنوانی کے ادارے نے چار گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی۔ 24 مئی کو ملائیشین کی خصوصی فورس نے امریکی ادارۂ انصاف اور ایف بی آئی حکام سے ملاقاتیں کی۔ ملائشیا میں 6 بینک اکاونٹس منجمند کئے گئے کیونکہ اِن کے ذریعے 70 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی تھیں۔ اِسی طرح آٹھ ہفتوں کے اندر سنگاپور میں بھی 2 بینک اکاونٹ منجمند کئے گئے۔ بدعنوانی کے خلاف اِن اقدامات کے بعد مہاتیر نے اپنے ملک کی بہتری کی جانب توجہ مبذول کی۔

نائجیریا کی مثال موجود ہے جہاں حکومت لوٹے گئے 30کروڑ ڈالر وطن واپس لائی اور اِس رقم کو ہر تمام نائیجرین خاندانوں میں مساوی تقسیم کر دیا گیا۔ اِس طرح ہر خاندان کو 3 لاکھ 60 ہزار نائیجریا نائیر ملے۔
پاکستان کی مثال موجود ہے۔ اپریل 2016ء میں ’پانامہ پیپرز‘ کے نام سے دنیا کی بااثر سیاسی شخصیات کی مالی بدعنوانیوں سے متعلق تفصیلات عالمی سطح پر شائع ہوئیں۔ 27 مہینے تک ’پانامہ پیپرز‘ میں نامزد ایک پاکستانی سیاست دان اور اُن کے اہل خانہ کے بارے میں حکومت کے خرچ سے مقدمات چلے اور اگر گذشتہ 6 مہینوں کے معاشی و اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اِس عرصے میں ہر پاکستانی خاندان قریب 20 فیصد غریب ہوا ہے۔ تلخ حقیقت ہے کہ اشیائے خوردونوش‘ بجلی‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان برقرار ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل لوٹنے والوں نے قومی خزانے کو اِس حد تک خالی کر دیا ہے کہ اب ملک کے جاری اخراجات کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔

نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہوئے 1 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک نواز شریف کو پاکستان کی موجودہ معاشی و اقتصادی خرابیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ سابق وزیرخرانہ اسحاق ڈار کو بھی اقتدار سے الگ ہوئے ایک سال ہو چکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم اسحاق ڈار کو کب تک پاکستان کی موجودہ معاشی و اقتصادی خرابیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ پاکستان کی کشتی بیچ سمندر طوفانوں میں گھری ہوئی ہے۔ نگران حکمران اِس صورتحال میں اپنے اِختیارات سے بڑھ کر اصلاحات لانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن پاکستان کی معاشی و اقتصادی کشتی کو ڈوبنے سے کون بچائے گا؟

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 9.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اُور اِس صورتحال میں پاکستان کے پاس سوائے اِس بات کے کوئی دوسری صورت نہیں رہی کہ وہ مزید قرض لینے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جائے۔ یہ بات ’آئی ایم ایف‘ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کو غیرملکی قرض کی کتنی اشد ضرورت ہے اور ایسی صورت میں وہ پاکستان سے اپنی شرائط کس حد تک منوا سکتے ہیں۔

پاکستان عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سخت شرائط پر ’آئی ایم ایف‘ سے قرض حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان مزید مہنگائی کی طرف برھ رہا ہے۔ پاکستان سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اُس انتہاء کی طرف بڑھ رہا ہے جب عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا مسئلے کا وقتی حل تو ہے لیکن یہ پائیدار نہیں۔ اُردن کی حکومت نے ’آئی ایم ایف‘ سے 723 ملین ڈالر قرض لیا۔ 3 جون کو اردن کے عوام مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اُنہوں نے وزیراعظم کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا۔ آئی ایم ایف نے ارجنٹینا کو ’50 ارب ڈالر‘ قرض دیا۔ 26مئی کو ہزاروں کی تعداد میں (اَرجنٹائنز) عوام سڑکوں پر نکلے اُور انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں میں مہنگائی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ عوام یہ پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ آخر ایسے معاشی و اقتصادی حالات کے لئے ذمہ دار کون ہوتا ہے کہ کوئی ملک ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے پر مجبور ہو جائے؟

پاکستان کے پاس زیادہ سوچنے کا وقت نہیں رہا۔ ملک تیزی سے انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں مزید قرض لینے سے بھی مسائل ختم نہیں ہوں گے کیونکہ بدعنوانی کا عنصر موجود ہے۔ قومی وسائل کو اس قدر ترقی نہیں دی جا سکی کہ جس کی بنیاد پر آمدن کو بڑھایا جا سکے اور اِسی میں پائیدار حل پوشیدہ ہے کہ قومی بشمول انسانی وسائل کو ترقی دی جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, July 1, 2018

TRANSLATION "Deceased voters" by Dr. Farrukh Saleem

Deceased voters
متوفی ووٹرز

عام انتخابات 2018ء کے موقع پر ووٹ دینے کی اہلیت اُن پاکستانیوں کو بھی حاصل ہے‘ جو اَب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ تمام پاکستانی ووٹرز جو کسی بھی وجہ سے دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور اب ہمارے درمیان نہیں لیکن اُن کے نام ’ووٹروں کی فہرست‘ میں موجود ہیں تو اِن متوفی ووٹرز کے بارے میں غور ہونا چاہئے۔

مئی 2013ء کے عام انتخابات کے لئے ’’8 کروڑ 57 لاکھ افراد‘‘ ووٹ دینے کے اہل تھے جبکہ 2018ء کے عام انتخابات کے لئے ’’2 کروڑ 20 لاکھ نئے ووٹرز‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اِس عرصے (مئی دوہزار تیرہ سے مئی دوہزار اٹھارہ) کے دوران 25 لاکھ ایسے افراد کے نام ووٹر لسٹوں سے نکالے گئے جو مر چکے تھے۔ اِس تبدیلی کے بعد مرتب کی گئی ووٹرز فہرست میں کل ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ سے زیادہ تھی۔

ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی سالانہ اوسط شرح آبادی 2.4 فیصد ہے۔ پہلا سوال: جن 2کروڑ 20 لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ کیا گیا یہ پانچ سال کے عرصے میں کہاں سے آئے؟ کیونکہ پاکستان کی سالانہ اوسط شرح آبادی تو قریب ڈھائی فیصد ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے دو کروڑ سے زائد ووٹرز کا اضافہ کیسے ممکن ہے؟

متوفی ووٹرز کے بارے میں غور ہونا چاہئے۔ پاکستان میں سالانہ شرح اموات 7.5 فیصد ہے یعنی ہر سال ہر ایک ہزار افراد میں سے 7.5 افراد فوت ہو جاتے ہیں۔ ووٹروں کی فہرست سے ’پچیس لاکھ‘ مرحومین کے نام منہا کئے گئے جو سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی سالانہ شرح اموات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اگر سالانہ شرح اموات کو پیش نظر رکھیں تو پانچ سال کے عرصے میں 70 لاکھ سے زائد پاکستانی مر چکے ہیں جن کے نام ووٹر فہرستوں سے منہا ہونے چاہیءں تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 50 لاکھ ایسے مرحومین ہیں جن کے نام 2018ء کی ووٹر فہرستوں میں درج ہیں۔ کیا مرحوم افراد کے نام ووٹر فہرستوں میں جان بوجھ کر رکھے گئے ہیں یا یہ ایک غیردانستہ غلطی ہے؟ کیا ہمارے ہاں قبرستانوں میں تدفین اور ہسپتالوں میں مرنے والوں کے اعدادوشمار رکھے جاتے ہیں؟

مرنے والے ووٹروں کے نام سے ووٹ بذریعہ ’پوسٹل بیلٹ‘ ڈالے جا سکتے ہیں اور یہ بھی اندیشہ نہیں کہ کوئی مرنے والا اپنی قبر سے اُٹھ کر کہہ سکے یا اعتراض کر سکے کہ اُس کا ووٹ جعل سازی سے ڈالا گیا ہے!

2018ء کے عام انتخابات کے لئے ووٹ دینے کے اہل افراد میں غیرملکی پاکستانی بھی شامل ہیں جن کی تعداد قریب 75لاکھ ہے۔ اپریل 2013ء میں چیئرمین ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ طارق ملک نے سپرئم کورٹ آف پاکستان کے سامنے ووٹ ڈالنے کا ایسا عملی تجربہ کیا تھا جس میں ووٹ ڈالنا‘ اُنگلیوں کے نشان کی فوری ’آن لائن‘ اُور حاضر وقت (real-time) تصدیق (بائیومیٹرک) کے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اِس نظام کو وضع کرنے کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی کے استعمال کی صورت نکالنا تھی۔ نادرا کی جانب سے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں تجرباتی ووٹر مراکز قائم کئے گئے۔ سال 2018ء میں سپرئم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا حق آئندہ عام انتخابات (پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کے روز) حاصل نہیں ہوگا۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 10 کروڑ ساٹھ لاکھ مردوں اور 10 کروڑ دس لاکھ خواتین پر مشتمل ہے۔ حالیہ ووٹر فہرستوں میں 5 کروڑ92لاکھ مرد اور 4 کروڑ 67لاکھ خواتین ووٹرز ہیں جس کا مطلب ہے کہ چند لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر نہیں۔

رواں ماہ (جولائی 2018ء) ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کی تصدیق الیکٹرانک آلات و ذرائع (بائیومیٹرک) سے نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان میں موبائل فون کنکشن (SIM) جاری کرنے کے لئے کوائف کی بائیومیٹرک تصدیق کی جاتی ہے اور یہ عمل اگست 2014ء سے جاری ہے۔

تصور کیجئے کہ 22لاکھ نئے ووٹروں کے نام ووٹرز فہرستوں میں درج کئے گئے ہیں۔

تصور کیجئے کہ کم سے کم 50 لاکھ ایسے افراد کے نام ووٹر فہرستوں میں درج ہیں‘ جو وفات پا چکے ہیں۔
تصور کیجئے کہ 75 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام ووٹر فہرستوں میں تو درج ہیں لیکن اُنہیں ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا۔

یہ سبھی ووٹرز جن کے نام ووٹر فہرستوں میں تو درج ہیں لیکن وہ ووٹ دینے کے لئے موجود نہیں تو درحقیقت یہ دھاندلی کا ایک ایسا امکان ہے‘ جس کا استعمال ہو سکتا ہے۔ علاؤہ ازیں ووٹر فہرستوں میں اِس قسم کی سنجیدہ غلطیوں کی وجہ سے ووٹروں کا اعتماد عام انتخاب جیسے جمہوری عمل سے اُٹھ سکتا ہے اور ووٹروں کی نظر میں انتخابی عمل مشکوک ہو سکتا ہے۔

تصور کیجئے کہ لاکھوں کی تعداد میں خواتین کے نام ووٹر فہرستوں میں درج نہیں۔ جس کی دیگر کئی وجوہات میں وہ سماجی رجحانات اور دباؤ بھی ہیں کہ جن میں خواتین کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے الگ رکھا جاتا ہے لیکن عمومی اور روائتی فرق کے مقابلے لاکھوں کی تعداد میں خواتین کے ووٹ درج نہ ہونا غیرمعمولی ہے جبکہ خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرنے کی تحاریک اور کوششیں بھی ماضی کے مقابلے کئی گنا بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آتی رہیں ہیں۔ 

(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)