ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَپنا پشاور: رَنگوں کی چاشنی!
ہر رخ سے زیادہ حسین اور جس کے کسی بھی پہلو کا ذکر ایسا جامع سخن ہو‘ کہ
دفتروں کے دفتر کم پڑ جائیں‘ تو اِس جہاں نما عنوان کو ’’پشاور‘‘ کہتے ہیں۔
پشاور کی خوبیوں کا شمار ممکن نہیں۔ جنوب ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی
شہر کے رہنے والوں کا رہن سہن‘ فن تعمیر اور بودوباش کے انداز تحریر و
تحقیق کرنے والوں کے لئے دلچسپی کے پہلو لئے رہتے ہیں لیکن بہت کم مصوروں
نے اس سلسلے میں اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے جو پشاور کی محبت کا ثبوت ہے۔
واٹر ہوں یا آئل کلرز (پانی یا تیل میں حل ہونے والے رنگوں) کا پھیکا پن
چاشنی میں بدل جاتا ہے جب یہ پشاور کی عکاسی کر رہے ہوں۔ مصوری کے ذریعے
پشاور فہمی عام کرنے میں جامعہ پشاور کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا امتیاز
میڈیم طیبہ یا پھر ڈاکٹر غلام شبیر ایک جیسے محسوسات رکھتے ہیں۔ پشاور کے
حوالے سے تخلیق کردہ چالیس فن پاروں کی نمائش بائیس نومبر تک ’نشتر ہال‘
میں جاری رہے گی۔ اہل پشاور کو فرصت میسر ہو یا نہ ہو لیکن انہیں بمعہ اہل
خانہ اِس ’نادر نمائش‘ کو دیکھنے ضرور جانا چاہئے‘ کیونکہ یہ انہی سے متعلق
ہے اور ایک ایسا وسیلہ ثابت ہوگی جو اُنہیں ’اپنے پشاور‘ سے جڑے رہنے اور
اِس پر ’بجاطور فخر‘ کرنے کا ایک اُور مستند جواز فراہم کرے گا۔ خوش قسمت
ہیں جو پشاور میں نہیں بلکہ پشاور کی سوچ میں رہتے ہیں اور ڈاکٹر شبیر کا
شمار بھی ایسے ہی نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جو اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی
بصارت بھی رکھتے ہیں اور یہ بصیرت بھی کہ پشاور اُنہیں ہمیشہ زندہ و تابندہ
رکھ سکتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر شبیر پیشے کے لحاظ سے باقاعدہ مصور نہیں‘ لیکن
خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور طب کے شعبے میں تدریس سے وابستہ ہونے کے
باوجود اپنی مصروفیات میں سے بہت سا وقت پشاور کے نام کرنے میں انہیں کوئی
امر مانع نہیں۔ ایک ایسا ماحول جس میں ہر شخص فرصت کے لمحات میں مال و متاع
کمانے کی فکر میں لگا ہو تو ایسے دُرویش کو اپنے درمیان پانے کا احساس ہی
مست کر دیتا ہے۔ مصوری کے اسلوب کی ادائیگی اور رنگوں کے موزوں استعمال کے
ذریعے پشاور کے مختلف حوالوں کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش اس بات کی عکاس
ہے کہ انہوں نے بہت گہرائی میں جا کر اپنے گردوپیش کو محسوس کیا ہے اور
اِسے آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ ’پشاور
شناسی‘ اور ’وابستگی‘ پر نہ صرف فخر کریں بلکہ اس کے بچاؤ میں بھی اپنا
کردار ادا کریں۔
ڈاکٹر شبیر اندرون پشاور میں پیدا ہوئے اور گذشتہ کئی
دہائیوں سے یہاں ہونے والی تغیرات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی
باقی رہ گیا ہے اُسے حافظے اور مشاہدے سے کینوس پر منتقل کر دینا چاہئے۔
مصوری کے جو چالیس خاکے نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں اُن میں پشاور کی سیاسی‘
سماجی‘ اقتصادی اور ثقافتی عنوانات محفوظ بنائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر شبیر کے تخلیق کردہ فن پارے چند روزہ ’نمائش‘ کے نہیں بلکہ ایک مستقل
’آرٹ گیلری‘ کی زینت ہونے کا متقاضی ہیں۔اگر پشاور کا اپنا الگ عجائب گھر
ہو سکتا ہے تو ایسی آرٹ گیلری کیوں نہیں ہو سکتی جہاں سارا سال صرف اور صرف
پشاور ہی کے بارے میں نمائش یا غوروفکر کرنے والے حلقوں کے اجتماعات منعقد
ہوں۔ اعزازات اور عہدوں کی لالچ نے ’آرٹ کونسلوں‘ کو چند افراد کی جاگیر
بنا دیا ہے‘ جو افسرشاہی کی تعریف و توصیف کے ہر ایک لفظ جملے اور نکتے کا
پورا پورا معاوضہ بمعہ سود اُٹھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ بہرحال موقع پرستوں
کی ہر دور میں موجودگی کسی مستقل طاری عذاب سے کم نہیں اور گھٹن کے اِس
ماحول میں ڈاکٹر شبیر کی مصوری نے گویا ’تازہ ہوا‘ کاکام کیا ہے۔ نمائش کی
افتتاحی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد حسین نے کہا
کہ ’’پشاور نسبتاً چھوٹا شہر ہو سکتا ہے لیکن اس کی مٹی سے ایسے افراد اٹھے
ہیں جنہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام
دیئے۔‘‘ یقیناًڈاکٹر امجد کو دیکھ کر اُن کے ہم پیشہ اور ہم عصروں کی ایک
بڑی تعداد ’پشاور آشنا‘ ہوئی ہے اور یہ کسی بھی طرح معمولی بات نہیں۔
برق رفتار ذرائع ابلاغ کے دور میں سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس استعمال
کرنے والے ’پشاور آشناؤں‘کی تعداد یہاں کے دردمندوں سے کئی گنا زیادہ ہے‘
جو ڈاکٹر شبیر کے فن پاروں پر اظہار خیال اور اس پھیلا رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ پر بھی ایسی فنی کوششوں اور شخصیات کے بارے
میں الگ معلومات (پروفائل) ہونے چاہئے بلکہ فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف میں
جس کسی نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو‘ اُس کے بارے میں مصدقہ
معلومات کی تشہیر ہونی چاہئے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ملے اور یوں چراغ سے
چراغ روشن ہونے کا سلسلہ رہے! ’’نہیں بھی ہوں تو دیواروں میں دروازے بنا
دیں۔۔۔ فصیل شہر پر جو سحر گر بیٹھے ہوئے ہیں!‘‘