Saturday, November 21, 2015

Nov2015: Peshawar through Paintings

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَپنا پشاور: رَنگوں کی چاشنی!
ہر رخ سے زیادہ حسین اور جس کے کسی بھی پہلو کا ذکر ایسا جامع سخن ہو‘ کہ دفتروں کے دفتر کم پڑ جائیں‘ تو اِس جہاں نما عنوان کو ’’پشاور‘‘ کہتے ہیں۔ پشاور کی خوبیوں کا شمار ممکن نہیں۔ جنوب ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر کے رہنے والوں کا رہن سہن‘ فن تعمیر اور بودوباش کے انداز تحریر و تحقیق کرنے والوں کے لئے دلچسپی کے پہلو لئے رہتے ہیں لیکن بہت کم مصوروں نے اس سلسلے میں اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے جو پشاور کی محبت کا ثبوت ہے۔ واٹر ہوں یا آئل کلرز (پانی یا تیل میں حل ہونے والے رنگوں) کا پھیکا پن چاشنی میں بدل جاتا ہے جب یہ پشاور کی عکاسی کر رہے ہوں۔ مصوری کے ذریعے پشاور فہمی عام کرنے میں جامعہ پشاور کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا امتیاز میڈیم طیبہ یا پھر ڈاکٹر غلام شبیر ایک جیسے محسوسات رکھتے ہیں۔ پشاور کے حوالے سے تخلیق کردہ چالیس فن پاروں کی نمائش بائیس نومبر تک ’نشتر ہال‘ میں جاری رہے گی۔ اہل پشاور کو فرصت میسر ہو یا نہ ہو لیکن انہیں بمعہ اہل خانہ اِس ’نادر نمائش‘ کو دیکھنے ضرور جانا چاہئے‘ کیونکہ یہ انہی سے متعلق ہے اور ایک ایسا وسیلہ ثابت ہوگی جو اُنہیں ’اپنے پشاور‘ سے جڑے رہنے اور اِس پر ’بجاطور فخر‘ کرنے کا ایک اُور مستند جواز فراہم کرے گا۔ خوش قسمت ہیں جو پشاور میں نہیں بلکہ پشاور کی سوچ میں رہتے ہیں اور ڈاکٹر شبیر کا شمار بھی ایسے ہی نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جو اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی بصارت بھی رکھتے ہیں اور یہ بصیرت بھی کہ پشاور اُنہیں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھ سکتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر شبیر پیشے کے لحاظ سے باقاعدہ مصور نہیں‘ لیکن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور طب کے شعبے میں تدریس سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے بہت سا وقت پشاور کے نام کرنے میں انہیں کوئی امر مانع نہیں۔ ایک ایسا ماحول جس میں ہر شخص فرصت کے لمحات میں مال و متاع کمانے کی فکر میں لگا ہو تو ایسے دُرویش کو اپنے درمیان پانے کا احساس ہی مست کر دیتا ہے۔ مصوری کے اسلوب کی ادائیگی اور رنگوں کے موزوں استعمال کے ذریعے پشاور کے مختلف حوالوں کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش اس بات کی عکاس ہے کہ انہوں نے بہت گہرائی میں جا کر اپنے گردوپیش کو محسوس کیا ہے اور اِسے آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ ’پشاور شناسی‘ اور ’وابستگی‘ پر نہ صرف فخر کریں بلکہ اس کے بچاؤ میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔

 ڈاکٹر شبیر اندرون پشاور میں پیدا ہوئے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے یہاں ہونے والی تغیرات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی باقی رہ گیا ہے اُسے حافظے اور مشاہدے سے کینوس پر منتقل کر دینا چاہئے۔ مصوری کے جو چالیس خاکے نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں اُن میں پشاور کی سیاسی‘ سماجی‘ اقتصادی اور ثقافتی عنوانات محفوظ بنائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر شبیر کے تخلیق کردہ فن پارے چند روزہ ’نمائش‘ کے نہیں بلکہ ایک مستقل ’آرٹ گیلری‘ کی زینت ہونے کا متقاضی ہیں۔اگر پشاور کا اپنا الگ عجائب گھر ہو سکتا ہے تو ایسی آرٹ گیلری کیوں نہیں ہو سکتی جہاں سارا سال صرف اور صرف پشاور ہی کے بارے میں نمائش یا غوروفکر کرنے والے حلقوں کے اجتماعات منعقد ہوں۔ اعزازات اور عہدوں کی لالچ نے ’آرٹ کونسلوں‘ کو چند افراد کی جاگیر بنا دیا ہے‘ جو افسرشاہی کی تعریف و توصیف کے ہر ایک لفظ جملے اور نکتے کا پورا پورا معاوضہ بمعہ سود اُٹھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ بہرحال موقع پرستوں کی ہر دور میں موجودگی کسی مستقل طاری عذاب سے کم نہیں اور گھٹن کے اِس ماحول میں ڈاکٹر شبیر کی مصوری نے گویا ’تازہ ہوا‘ کاکام کیا ہے۔ نمائش کی افتتاحی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد حسین نے کہا کہ ’’پشاور نسبتاً چھوٹا شہر ہو سکتا ہے لیکن اس کی مٹی سے ایسے افراد اٹھے ہیں جنہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔‘‘ یقیناًڈاکٹر امجد کو دیکھ کر اُن کے ہم پیشہ اور ہم عصروں کی ایک بڑی تعداد ’پشاور آشنا‘ ہوئی ہے اور یہ کسی بھی طرح معمولی بات نہیں۔

برق رفتار ذرائع ابلاغ کے دور میں سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس استعمال کرنے والے ’پشاور آشناؤں‘کی تعداد یہاں کے دردمندوں سے کئی گنا زیادہ ہے‘ جو ڈاکٹر شبیر کے فن پاروں پر اظہار خیال اور اس پھیلا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ پر بھی ایسی فنی کوششوں اور شخصیات کے بارے میں الگ معلومات (پروفائل) ہونے چاہئے بلکہ فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف میں جس کسی نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو‘ اُس کے بارے میں مصدقہ معلومات کی تشہیر ہونی چاہئے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ملے اور یوں چراغ سے چراغ روشن ہونے کا سلسلہ رہے! ’’نہیں بھی ہوں تو دیواروں میں دروازے بنا دیں۔۔۔ فصیل شہر پر جو سحر گر بیٹھے ہوئے ہیں!‘‘

Monday, November 16, 2015

Translation: Death of a maulana

Death of a maulana
ایک عالم دین کی رحلت!
کبھی کبھار ہمارے اردگرد کچھ ایسا بھی رونما ہوتا ہے جس پر ہمارا اختیار تو نہیں ہوتا کہ اُس کو روک یا تبدیل کر سکیں لیکن اُس کے بارے میں بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع خیبرپختونخوا کے معروف عالم دین کی رحلت تھی‘ جن کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور اُن کا جنازہ اِس قدر بڑا تھا کہ جس کا بیان کرنا محال ہے! وہ کوئی حکمران‘ بادشاہ یا سرمایہ دار شخص نہیں تھے لیکن اُن کے جنازے نے ایسے تمام طبقات کو پیچھے چھوڑ دیا اور ماضی میں ہوئے بڑے جنازوں سے زیادہ بڑے اِس الوداعی اجتماع نے حاضرین کا نیا ریکارڈ بھی قائم کرڈالا۔ سوال یہ ہے کہ نوشہرہ کے قریب اکوڑہ خٹک میں مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ کی تدفین میں اس قدر بڑی تعداد میں سوگوار کیوں شریک ہوئے؟ اُن 86 سالہ بزرگ نے کس طرح لوگوں کے دل میں جگہ بنائی جبکہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ضعیفی کے باعث اپنے طور چل بھی نہیں پاتے تھے اور انہیں ویل چیئر کی ضرورت ہوتی تھی؟ اُن کی نماز جنازہ جی ٹی روڈ کے کنارے‘ اکوڑہ خٹک کی معروف دینی درسگاہ کے بالمقابل قبرستان میں ادا کی گئی جہاں کے وسیع وعریض میدان میں جس قدر گنجائش تھی‘ اُس سے کئی گنا زیادہ افراد نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جمع ہوئے جن میں بوڑھے‘ جوان اور ہرعمر کے افراد شامل تھے اور جوق در جوق شرکت کے لئے آ رہے تھے۔ کوئی پوچھ سکتا تھا کہ آخر اُنہوں نے اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کرکے مولانا کے جنازے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جنازے میں شریک ایک افغان مہاجر محبوب فرط جذبات میں کہہ رہے تھے کہ ’’میں مولانا شیر علی شاہ کا نہ تو شاگرد تھا اور نہ ہی زندگی میں کبھی اُن سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکا لیکن میں اُن کے جنازے میں شرکت کرنے کے لئے اس لئے حاضر ہوا کیونکہ وہ ایک ولی اللہ (اللہ کے دوست) تھے اور اُن کے جنازے میں شرکت کرنا اپنی عاقبت کے لئے باعث و اجر و ثواب ہے۔‘‘ ایسے کسی شخص سے بحث نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ کسی اپنے جیسے انسان کے لئے اِس قدر مضبوط اعتقاد رکھتا ہو۔ الغرض اُن کے جنازے میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز یا اجروثواب کا باعث سمجھنے والوں کی تعداد غیرمعمولی تھی اور وہ سبھی اسی قسم کا عقیدہ رکھتے تھے کہ مولانا شیر علی شاہ نے خلوص نیت اور بناء کسی دنیاوی لالچ اپنی تمام زندگی دین کے بتائے ہوئے خالص اصولوں کے مطابق بسر کی گویا اس قدر لوگوں کا اعتراف حقیقت اُن کے لئے ایک سند تھا کہ وہ کامیاب و کامران زندگی بسر کرکے دارفانی سے رخصت ہو رہے تھے۔

یہ حقیقت شک وشبے سے بالاتر ہے کہ شیخ الحدیث مولانا شیر علی شاہ نہایت ہی معزز انسان تھے۔ وہ غیرمعمولی حافظہ اور علوم اسلامیہ سے بہرہ مند تھے۔ انہوں نے جامعۃ المدینہ (مدینہ منورہ یونیورسٹی‘ سعودی عرب) سے پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی سند حاصل کی اور اُن کا شمار پاکستان کے اُن چند عالم دین افراد میں ہوتا تھا جنہوں نے دینی علوم کے ساتھ منطق (فلاسفی کے مضمون) میں بھی سند حاصل کررکھی تھی۔ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں رہنے والا ہر شخص اُن سے واقف نہیں تھا لیکن جس کسی کو بھی اُن سے ملاقات کا شرف ملا اور اُن کے خیالات اور شریں بیان سننے کا کبھی اتفاق ہوا تو وہ اُن کا گرویدا ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور پھر یہ تعلق ہمیشہ کے لئے قائم رہا۔ اُن کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والوں کی بڑی تعداد پاکستانی و افغانی طالبعلموں کی ہے جن کی بڑی تعداد اُن کے جنازے میں شرکت اور اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔

مولانا شیر علی شاہ کا مذہبی حلقوں کے ساتھ سیاسی حلقوں پر بھی کافی اثرورسوخ تھا۔ ایسے علماء کی تعداد بہت کم ہے جنہیں افغان طالبان اور کچھ حد تک پاکستانی طالبان عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور اِس فہرست میں وہ علماء تو بالکل بھی شامل نہیں جو سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مولانا شیر علی شاہ کا نام سرفہرست رہا جس میں کراچی کے مرحوم مفتی رشید احمد اور مفتی نظام الدین شموزئی اور چمن (بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالغنی شامل تھے جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ مولانا شیر علی شاہ نے 38 برس تک دارالعلوم حقانیہ کے مدرسے میں علوم اسلامیہ کی تعلیم دی۔ اُن کے شاگرد آج اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُنہیں مولانا شیر علی شاہ جیسے معلم نصیب ہوئے۔ اُن کے شاگردوں کا شمار ہزاروں میں ہے اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے جنازے میں شریک افراد اُن کے ساتھ کسی نہ کسی دور میں اپنے قریبی تعلق کا بیان کرکے غمزدہ پائے گئے۔

مولانا شیر علی شاہ کے بہت سے مشہور شاگرد تھے۔ جن میں ایک مولانا فضل الرحمن (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے سربراہ) اور مولانا جلال الدین حقانی (افغان مجاہدین کے رہنما جنہوں نے ’حقانی نیٹ ورک‘ کے نام سے روس اور امریکی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت کی قیادت کی) شامل ہیں۔ مولانا شیر علی شاہ نے روس اور بعدازاں امریکہ کی افغانستان پر فوج کشی کی نہ صرف مذمت کی تھی بلکہ اُنہوں نے اِس کے خلاف مزاحمت (جہاد) کرنے کو اسلامی نکتۂ نظر سے جائز بھی قراردیا تھا۔

پاکستانی حکام اکثر مولانا شیر علی شاہ کے طالبان پر اثرورسوخ ہونے کی وجہ سے اُن سے مشاورت کیا کرتے تھے اور اُن کی مدد ایسے مواقعوں پر بالخصوص لی جاتی تھی جبکہ کہیں مغویوں کو بازیاب کرانا ہوتا یا جب کبھی عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ بندی پر عمل درآمد ممکن بنانے میں رکاوٹیں حائل ہوا کرتیں تھیں۔ وہ ہمیشہ کامیاب بھی نہیں رہے کیونکہ عسکریت پسند اکثر کسی کی بھی سننے سے انکار کر دیتے لیکن اس کے باوجود وہ امن دوست تھے اور ہمیشہ ہی سے قیام امن کے لئے کوششوں کا حصہ رہتے۔

مولانا شیر علی شاہ کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ اُن کی دینی تعلیمات اور عمل ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے تھے۔ مذہبی رہنما ہونے کی حیثیت سے انہوں نے پیسہ کمانے کو متمع نظر نہیں رکھا اور یہی وجہ تھی کہ حق شناس شخص حق کے بیان میں کبھی مصلحتوں کا شکار نہیں رہا۔ انہوں نے 1990ء کے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا لیکن ناکامی کے بعد انتخابی سیاست سے ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی تمام زندگی مذہبی تعلیمات کے وقف کر دی جس کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں بلند درجے کی عزت و تکریم حاصل ہوئی‘ جس کی ایک جھلک اُن کے جنازے کے موقع پر دیکھی گئی جبکہ جنازے کے شرکاء کی غیرمعمولی تعداد کی وجہ سے گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) اکوڑہ خٹک کے مقام پر کئی گھنٹوں تک بند رہا۔ اُن کا آخری دیدار کرنے کے لئے ہر سمت سے اُمنڈ آنے والے ایک ایسے شخص کی رحلت پر غمگین تھے جس نے پوری زندگی بناء کسی لالچ و طمع اُن کی رہنمائی کی تاکہ وہ عملی و شعوری زندگی میں زیادہ بہتر (محتاط) انسان اور (متقی) مسلمان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوسکیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

Sunday, November 1, 2015

TRANSLATION: The Middle East meltdown!

The Middle East meltdown
مشرق وسطیٰ کے حالات
مشرق وسطیٰ کے کل 17 ممالک ہیں جن میں بحرین‘ قبرص‘ مصر‘ ایران‘ عراق‘ اسرائیل‘ اُردن‘ کویت‘ لبنان‘ عمان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ شام‘ ترکی‘ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اُور یمن شامل ہیں۔ اِن سترہ میں سے کم از کم گیارہ ممالک ایسے ہیں جہاں کی داخلی صورتحال کئی معاشی و اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے مخدوش ہے۔ ان ہی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا عروج پر دکھائی دیتا ہے جبکہ بیرونی عناصر کی پشت پناہی سے اشرافیہ ملک کی جملہ فیصلہ سازی پر حاوی ہو چکی ہے۔ جن ممالک میں صورتحال مخدوش ہے کہ ان میں بحرین‘ قبرص‘ مصر‘ اُردن‘ کویت‘ لبنان‘ عمان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں۔ جو امر تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اِن مخدوش ممالک کی تعداد ساٹھ فیصد بنتی ہے!

مشرق وسطیٰ کے تین ممالک (عرق‘ شام اُور یمن بشمول لیبیا) میں خانہ جنگی ہے۔ ان سترہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں 20فیصد ناکام ریاستیں ہیں جو اپنے شہریوں کو اقتصادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ ریاستیں انصاف‘ پانی اور بجلی جیسی ضروریات بھی فراہم نہیں کر رہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اس قدر بڑی تعداد میں ناکام ریاستیں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں تین ایسی ریاستیں بھی ہیں جو مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان میں ایران‘اسرائیل اور ترکی شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تین درجاتی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ پہلا درجہ شیعہ و سنی کا تنازعہ ہے جس میں ایران اور سعودی عرب ملوث ہیں اور ان ممالک نے شام‘ عراق‘ یمن‘ بحرین اور لبنان میں جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔ دوسرے درجے کا تنازعہ سنی بمقابلہ سنی مسلک کے مخالف دھڑے ہیں جن کی پشت پناہی سعودی عرب‘ قطر اور ترکی کر رہے ہیں۔ تیسرے درجے میں اسلامک اسٹیٹ (داعش) ہے‘ جو سنی مکتبہ فکر ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ چوتھے درجے کے تنازعے میں روس کا عمل دخل بھی نظر آتا ہے‘جس میں چار جمع ایک (شام‘ عراق’ ایران‘ حزب اللہ اور روس) ممالک کا اِتحاد نظر آتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں پہلی مرتبہ امریکہ کی شراکت داری بھی نظر آتی ہے جو گذشتہ چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ رونما ہو رہی ہے اور اس کی ابتدأ پیٹرولیم مصنوعات (ہائیڈور کاربن) کی برآمدات سے ہوئی ہے۔ امریکہ میں توانائی کے محکمے نے کہا ہے کہ اُن کے پاس شیل گیس کے 353 سے 827 کھرب کیوبک فٹ ذخائر ہیں جو 100 سال کی برآمدات کے لئے کافی ہیں۔ روس کے بعد امریکہ دنیا میں قدرتی گیس برآمد کرنے کا والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے اور آئندہ پانچ برس میں ہوسکتا ہے کہ امریکہ اس قابل ہو جائے کہ وہ یومیہ 5 ارب کیوبک فٹ ’مائع گیس (ایل این جی)‘ برآمد کر رہا ہو۔

امریکہ میں اپنے (شیل) گیس کے ذخائر کی دریافت نے اس کے دیگر ممالک کے توانائی ذرائع پر انحصار کو کم کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ ممالک کے داخلی تنازعات میں بہت کم دلچسپی رکھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کسی برفانی تودے کی پگھل رہا ہے اور حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں تو انہیں دیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات محدود دکھائی دیتے ہیں کہ بہتری آئے گی۔ بشارالاسد کی حمایت ایران اور روس کر رہے ہیں جبکہ اُن کے مخالفین کی امداد امریکہ‘ سعودی عرب اور ترکی کی طرف سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات تبھی بہتر ہوں گے جبکہ امریکہ‘ روس‘ ترکی‘ سعودی عرب اُور ایران حمایتی دھڑوں کی پشت پناہی ترک کردیں جس کے بعد ان ممالک میں قیام امن کے لئے کسی نتیجہ خیز اتفاق رائے پر پہنچا جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

TRANSLATION: Another October quake!

Another October quake
زلزلہ: اَیک اُور آفت!
خیبرپختونخوا اُور قبائلی علاقوں پر ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری سوگواری کی کیفیت میں کسی صورت کمی نہیں آ رہی۔ یہاں قدرتی اور غیرقدرتی محرکات کی وجہ سے آنے والی آفات نے معمولات زندگی کو بُری طرح متاثر ہی نہیں بلکہ کئی علاقوں میں تہہ و بالا کر رکھ دیا ہے۔ حالیہ زلزلے نے بھی آفت کی جلتی ہوئی آگ پر مزید تیل چھڑکا ہے۔ اگرچہ چھبیس اکتوبر کے روز آنے والے زلزلے کے جھٹکے پورے ملک میں محسوس کئے گئے لیکن اس سے جانی و مالی نقصانات خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقوں جو کہ افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں میں نسبتاً زیادہ رونما ہوئے۔ زلزلے سے گلگت بلتستان‘ آزاد کمشیر اُور صوبہ پنجاب کے چند حصے بھی زلزلے سے متاثر ہوئے جہاں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ زلزلے سے صرف زمین ہی نہیں ہلتی بلکہ اس سے خوف کا ایک ماحول بھی طاری ہو جاتا ہے جس کے نفسیاتی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اگر ان کی کلی پیمائش کی جائے۔ حالیہ زلزلے کا دورانیہ زیادہ لیکن شدت کم تھی جس کی وجہ سے کم پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے کیونکہ جو مقام زلزلے کا نکتۂ آغاز تھا وہ زیرزمین زیادہ گہرائی پر ہونے کی وجہ سے کم جانی و مالی نقصانات کا باعث بنا۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والی تباہی کا تعلق اُن کی گہرائی سے ہوتا ہے۔ زیرزمین تہہ در تہہ پرتوں میں کسی قسم کی تبدیلی جس قدر گہرائی میں ہوگی اتنا ہی کم پیمانے پر نقصانات کا باعث ہوگی۔ حالیہ زلزلہ کا مرکز افغانستان کا شمال مشرقی ضلع جورام میں تھا جو صوبہ بدخشاں میں واقع ہے اور یہ علاقہ پاکستان و چین کی سرحدوں سے ملتا ہے۔ زلزلے کی سطح زمین سے گہرائی 193 سے 212کلومیٹر ناپی گئی۔ اگر ہم 26اکتوبر 2015ء کے زلزلے کا موازنہ 8 اکتوبر 2005ء کے روز آئے زلزلے سے کریں تو دونوں میں فرق یہ ہے کہ دو ہزار پانچ کا زلزلہ سطح زمین سے صرف 15کلومیٹر گہرائی پر تھا اور یہی سبب تھا کہ اُس زلزلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی یعنی 87 ہزار 351 لوگ ہلاک جبکہ 75 ہزار 266 دیگر زخمی ہوئے تھے اور زلزلے سے کم و بیش 28 لاکھ لوگ اپنی رہائشگاہوں سے محروم ہوگئے تھے لیکن دس برس بعد اکتوبر ہی کے مہینے میں آنے والے حالیہ زلزلے سے 300 سے کم ہلاکتیں ہوئیں۔ حالیہ زلزلے سے ہونیو الی کم ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زلزلے کے مرکز سے قریب مالاکنڈ ڈویژن کے جن پہاڑی علاقوں میں تباہی ہوئی وہاں آبادی کم تھی اور جن دیگر علاقوں میں زلزلے کی شدت محسوس کی گئی وہ اس کے مرکز (صوبہ بدخشاں‘ افغانستان) سے فاصلے پر تھے۔مالاکنڈ ڈویژن میں ہوئے نقصانات کا زیادہ اثر ضلع شانگلہ میں ہوا جہاں سب ہونیو الی ہلاکتیں مجموعی ہلاکتوں کا پچاس فیصد ہیں‘ اس کے بعد متاثر ہونے والے اضلاع میں سوات‘ چترال‘ لوئر دیر‘ اپر دیر اور بونیر شامل ہیں جبکہ قبائلی علاقوں میں باجوڑ ایجنسی میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔

حالیہ زلزلے کی شدت کیا تھی؟ یہ ایک متنازعہ سوال ہے کیونکہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے ریکٹر اسکیل پر 8.1 شدت بتائی گئی جبکہ امریکہ کے زلزلہ پیما مرکز کی جانب سے پہلی شدت 7.7 جبکہ نظرثانی شدہ شدت 7.5بتائی گئی۔ زلزلے کے بارے میں دو مختلف ذرائع سے مختلف اعدادوشمار تعجب خیز رہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 ریکارڈ کی گئی تھی۔

حالیہ زلزلے کے بارے میں موصول ہونے والی اطلاعات یہ تھیں کہ اس کی پھیلاؤ افغانستان سے ملحقہ ممالک تک ہی محدود رہا ہو گا لیکن بعدازاں معلوم ہوا کہ اس سے افغانستان و پاکستان کے علاؤہ بھارت‘ نیپال‘ چین‘ تاجکستان اور کرغستان بھی متاثر ہوئے۔ امریکہ کے جیوگرافکل سروے نامی ادارے کے مطابق پاکستان جو کہ زیرزمین ہونے والی تبدیلیوں کے علاقے پر واقع ہے‘ حالیہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات اسی خطے میں رونما ہوئے۔


چھبیس اکتوبر کے روز دوپہر 2بجکر 9منٹ پر زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہونے والا ہے کیونکہ زلزلے کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن کسی معجزے اور اللہ تعالی کے کرم سے درختوں کی طرح جھولنے والی عمارتیں زمین بوس نہیں ہوئیں۔ اُس عالم میں سب سے پہلا خیال یہی ذہن میں اُبھرا کہ کلمۂ طیبہ کا ورد کیا جائے اور اللہ سے معافی‘ مدد و مغفرت طلب کی جائے۔ زلزلہ اُن چند قدرتی آفات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں انسانی علوم خاموش ہیں اور انسان اس کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا ہے۔

زلزلے کے فوراً بعد عموماً تین طرح کے ردعمل دیکھنے میں آتے۔ سب سے پہلے تو عزیزواقارب کی خیریت جاننے کے لئے اُن سے فون پر رابطہ کیا جاتا ہے۔ حال احوال دریافت کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے پر رہائشگاہوں کے نقصانات اور دیواروں میں آنے والی دراڑوں کو دیکھا جاتا ہے اور تیسرے مرحلے پر اگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہو تو اہل خانہ کو کسی محفوظ مقام یا عزیز و رشتہ داروں کے ہاں منتقل کیا جاتاہے یا پھر حکومتی امداد کا انتظار کیا جاتا ہے جو ایسی صورتحال میں خیمے و بنیادی ضروریات کی دیگر اشیاء مہیا کرتی ہے جہاں عارضی سکونت اختیار کرکے متاثرین کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی رہائشگاہیں پھر سے بحال و تعمیر کر سکیں۔

زلزلے کے فوراً بعد پشاور میں حکومتی ادارے متحرک ہوگئے جہاں نہ صرف پورے صوبے کی صورتحال سے متعلق غوروخوض ہونا شروع ہوا بلکہ قبائلی علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی بھی یہیں بیٹھ کر وضع کی گئی۔ فیصلہ سازوں نے ہنگامی اجلاس طلب کئے گئے جبکہ حکومتی و حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورکا دورہ کیا جہاں زلزلے کے زخمیوں کو منتقل کرنے کا سلسلہ تمام دن جاری رہا۔ قلعہ بالاحصار کی ایک دیوار بھی زلزلے کی وجہ سے منہدم ہو گئی۔

زلزلے کی وجہ سے شاہراؤں کا نظام متاثر ہوا‘ جس کے سبب متاثرہ علاقوں تک غذائی اشیاء و دیگر امداد پہنچانے میں رکاوٹیں حائل تھیں۔ ایک تو بالائی علاقوں میں موسم سرد تھا اور دوسرا زمینی راستے منقطع ہو چکے تھے۔ قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)‘ اور صوبائی ادارے ’پروانشیل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)‘ کی طرف نظریں اُٹھیں جو حسب اعلانات عملی طور پر قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جس کا مطلب تھا کہ ان اداروں نے دوہزار پانچ کے زلزلے یا بعدازاں دو ہزار دس کے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے کچھ سبق نہیں سیکھا تھا۔
زلزلے کے فوراً بعد ہیلی کاپٹروں نے پروازیں بھریں اور وہ سیّدو شریف کے اُس ائرپورٹ پر اُترنے لگے جو اِس علاقے میں عسکریت پسندی کی وجہ سے کئی برس تک بند رہا تھا۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اشیائے خوردونوش و دیگر امدادی اشیاء کے ساتھ اہم شخصیات بھی سوات کی صورتحال کا جائزہ لینے اور برسرزمین حقائق بارے جاننے کے علاؤہ ذرائع ابلاغ کی اُس تنقید سے بچنے کی کوشش میں متحرک دکھائی دیں جو مصیبت کی اِس گھڑی میں قیادت سے وابستہ اُمیدوں اور توقعات کو پیش کر رہا تھا۔ وزیراعظم جو امریکہ کے سرکاری دورے کے بعد واپسی میں برطانیہ پہنچ چکے تھے اپنے سرکاری دورے کو مختصر کرکے فوراً وطن واپس پہنچے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تاکہ وہ خیبرپختونخوا کی حکمراں اپنی جماعت کو زیادہ سے زیادہ امدادی سرگرمیوں اور متاثرہ علاقوں میں درکار ضروریات پہنچانے میں مستعد و فعال کرسکیں۔ اس پوری صورتحال میں نجی فلاحی و امدادی اداروں کی کارکردگی بھی قابل ستائش رہی جنہوں نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق فوری ردعمل کا اظہار کیا۔

زلزلے کے بعد وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے متاثرین کے لئے امدادی پیکجز کے اعلانات خوش آئند ہیں لیکن حسب روایت ایسے اعلانات کے بارے میں دیکھنا ہے کہ انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے جس قدر سنجیدگی سے کام لیا جاتا ہے۔ عموماً ایسے مواقعوں پر گرمجوشی میں ایسے امدادی وعدے اور اعلانات بھی کر دیئے جاتے ہیں جنہیں بعدازاں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا یا ادارے حکمرانوں کی جانب سے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ماضی کی قدرتی آفات سے متاثر ہونیو الوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنہیں تاحال بحالی و آبادکاری کے لئے حکومتی وعدوں کے ایفاء ہونے کا انتظار ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائی سے متاثرین کی بحالی و آبادکاری کے لئے جون دوہزار چودہ میں اعلان کیا گیا کہ ہر متاثرہ گھر کی تعمیر کے لئے مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے لیکن شمالی وزیرستان سمیت جنوبی وزیرستان‘ اورکرزئی‘ کرم‘ خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اُنہیں دی جانے والی امدادی قطعی ناکافی ہے‘ جس سے اُن کی معیشت و معاشرت کی بحالی و تعمیرنو ممکن نہیں۔ حالیہ زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے حکومت نے اپنے وسائل پر انحصار کرنے کا اعلان کیا اور غیرملکی امداد کے لئے اپیل یہ کہتے ہوئے جاری نہیں کی کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں اور زلزلہ متاثرین کی امداد اپنے ہی وسائل سے کی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ دعویٰ کہاں تک درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے فخریہ و پرجوش اعلانات ہنوز پورے نہیں کئے جا سکے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Nov2015: Truth about Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غضب کا سچ!
پشاور پولیس اِس بات کو فخر سے بیان کرتی ہے کہ گذشتہ دس ماہ کے دوران صوبائی دارالحکومت میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور اگرچہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تین اطراف میں قبائلی علاقوں سے جڑے پشاور کے لئے دہشت گردی کے اِمکانات تو موجود ہیں لیکن ’پولیس کی مؤثر حکمت عملی کے باعث عمومی جرائم پیشہ گروہوں کی بڑے پیمانے پر سرکوبی کی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں اندرون و بیرون شہر کے علاقوں میں کئے گئے ’سرچ آپریشنز‘کا بطور خاص حوالہ دیا جاتا ہے‘جس میں جرائم پیشہ عناصر کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا لیکن کیا پشاور سمیت خیبرپختونخوا پولیس جرائم پیشہ عناصر کے لئے خطرے یا خوف و دہشت کا نشان ہے جبکہ اس کے پاس اَفرادی و تکنیکی سہولیات و وسائل کی بھی کمی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ جرائم پیشہ عناصر کے بارے میں ڈیٹا (معلومات) جمع کرنے کا مربوط نظام موجود نہیں۔ اَصولی طور پر خیبرپختونخوا کا ہر تھانہ اور ہر تفتیشی مرکز ایک ڈیٹابیس سے جڑا ہونا چاہئے تھا‘ جس میں معمولی و خصوصی نوعیت کے ہر ملزم و مجرم کے کوائف بمعہ تصاویر‘ انگلیوں کے نشانات و آنکھ کے اندرونی پردے کے نقش (iris scanning) محفوظ ہوتی لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے گروہ یہاں وہاں سرگرم ہے اور پشاور پولیس جس جرائم میں کمی کو اپنی کارکردگی میں شمار کر رہی ہے دراصل وہ جرائم پیشہ گروہوں کی حکمت عملی ہے جو پولیس سے نہیں بلکہ فوجی اداروں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں اور اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کے لئے بالخصوص اندرونی علاقوں میں سرچ آپریشنز شروع نہ کردیئے جائیں جو پندرہ اکتوبر سے محرم الحرام 1437ہجری کے آغاز سے قبل تک زیرغور تھا۔ ایک عرصے سے اِس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ صرف رونما ہونے والے جرائم کی تعداد میں کمی بیشی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جرائم کے اصل تدارک یعنی اُن سہولت کاروں اور جرائم کی پشت پناہی کرنے والے عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے مالی و سیاسی قدکاٹھ اور اس سے حاصل ہونے والے اثرورسوخ‘ میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے‘ جن کے اثاثے اُن کے معلوم آمدنی کے وسائل سے زیادہ ہیں اور جو کرائے کے مکانات سے عالیشان محلوں اور صنعتوں کے مالک بن بیٹھے ہیں‘ تو ایسے مشکوک آمدنی کے ذرائع رکھنے والے معززین و عمائدین کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے‘ جنہیں ملکہ حاصل ہے کہ وہ ذاتی ترجیحات کے لئے کہیں سیاسی تو کہیں مذہب‘ ذات برادری‘ نسلی و لسانی اختلافات کو ہوا دیتے حقائق کا علم ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے بلدیاتی انتخابات اور بعدازاں محرم سے آغاز سے قبل اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کیا بلکہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پولیس کی اپنی ہی مرتب کردہ ’انتہائی خفیہ‘ فہرست بھی سالہاسال سے زیرگردش ہے جس میں قبضہ مافیا کے نام تو موجود ہیں لیکن ’ناقابل بیان اور شکوک وشبہات سے بھری مصلحتوں کی بناء پر‘ اِن بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ بات صرف ضلع پشاور کی حد تک محدود نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع تک پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے ’نیٹ ورک‘ ایسے علاقوں میں زیادہ فعال دکھائی دیتے ہیں جہاں امن و امان کی بظاہر صورتحال تسلی بخش و مثالی ہے!

پشاور پولیس کی بات کی جائے تو دس ماہ کی جس کارکردگی کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے اُس کے مطابق 376 افراد قتل جبکہ دیگر 508 قتل یا اقدام قتل کی وارداتوں میں زخمی ہوئے۔ ایسے جرائم قتل یا اقدام قتل کے علاؤہ ہیں جن میں درج ’ایف آئی آرز‘ کے مطابق 424افراد زخمی ہوئے۔ 15افراد کا اغوأ ہونا‘ 43خواتین کے اغوأ بارے پولیس کو یہ کہتے ہوئے مطلع کیا گیا کہ اُن کی رضامندی اس میں شامل نہیں تھی اور اغوأ کار زبردستی شادی کرنا چاہتے ہیں! جبکہ 35 اغوأ خاندانی جھگڑوں کا شاخسانہ بتائے گئے۔ دس ماہ کے قلیل عرصے میں پانچ بچوں کا اغوأ اور پندرہ زنا کے مقدمات درج ہونے کے علاؤہ پولیس پر 54 عدد حملے اور 20 عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ‘ 170چوریاں‘ 75 گاڑیوں کا چوری ہونا‘ جن میں 15 اسلحے کی نوک چھینی گئیں ہیں۔ دس ماہ میں 102موٹرسائیکلوں کی چوری جبکہ 42 دیگر چھیننے کی کوشش کرنے جیسے جرائم اگرچہ تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن کیا اِن سب پر اظہار افسوس و مذمت کے ساتھ تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے اِنہیں معمولی قرار دے کر اُس کبوتر کی طرح آنکھیں موند لی جائیں جو خطرات کا مقابلہ کرنے کی فطری قوت نہیں رکھتا؟

لمحۂ فکریہ ہے کہ آج کے پشاور میں وہ جرائم ایک معمول بن چکے ہیں جو کبھی بھی اِس ’گل و گلزار شہر‘کے لئے آشنا نہیں تھے۔ حفظ مراتب‘ اَدب و اِحترام کے علاؤہ ہر خاص و عام (امیروغریب) کی جان و مال اُور عزت وآبرو کا جس قدر تقدس واحترام ’’عام‘‘ ہوا کرتا تھا‘ اُس کی اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف علاقوں کے بدمعاش ہی اپنے علاقوں کے رکھوالے ہوا کرتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کسی کی جان ومال یا عزت کو بُری نگاہ سے دیکھے۔ آج پشاور کے وہ روائتی بدمعاش نہیں رہے۔ تلے دار نقش و نگار والی ٹیڑھی ٹوپی‘ دو گھوڑا بوسکی کی زردی مائل قیمض‘ جس پر سونے کے بٹن‘ کان میں سونے کی چمکتی بالی‘ کھلے پائنچوں والی سفید رنگ کی اُجلی شلوار‘ کندھے پر رومال‘ شلوار کے نیفے میں خنجر اور گلے میں ہار کی طرح قاف چمڑے سے بنا ہوا ’کاش‘ جس میں سلیقے سے لگی ہوئی چمکتی دمکتی گولیوں کی قطاریں اور ہاتھ میں بٹیر عجب رعب و دبدبے کی علامت ہوا کرتا تھا۔ چوک یادگار میں ’بازار سراجاں‘ آج بھی اُس عہد کی یادگار ہے جہاں اسلحے کے لئے چمڑے کے خوبصورت و دیدہ زیب غلاف (جنہیں عرف عام میں ’کاش‘ کہا جاتا ہے) تیار کئے جاتے ہیں‘ لیکن اِس بازار کی پشاور ہی کی طرح وہ پہلے جیسی رونقیں باقی نہیں رہیں! موازنہ کیجئے کہ ماضی کے بدمعاش سفید پوش نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت تو کرتے تھے لیکن خود یا اپنے بچوں کے ذریعے انتخابات میں براہ راست بطور اُمیدوار حصہ نہیں لیتے تھے۔ وہ عام انتخابات میں دھونس و دھاندلی کے لئے اسلحے یا بڑی بڑی مونچھوں والے قدآور محافظوں کا استعمال بھی نہیں کرتے تھے۔ پولیس اور اُن کے درمیان تعلق کھانے پینے یا چھوٹی موٹی (بناء طے شدہ مستقل) ادائیگیوں کی حد تک ہی محدود رہتا۔ اُن بدمعاشوں کے ڈیرے بھارتی فلموں کی نمائش‘ منشیات (چرس و شراب) کے استعمال اور دائرے کی شکل میں بیٹھ کر جوأ کھیلنے کی حد تک محدود رہتے۔ منشیات کی حسب آڈر گھروں کی دہلیز تک فراہمی‘ کرکٹ یا دیگر کھیلوں کے مقابلوں پر سٹہ بازی اُور بھتہ کی پرچیاں ارسال کرنے جیسے جرائم تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پشاور کے بدمعاش آج کے عمائدین کہلانے والے کرداروں سے زیادہ شریف تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ یکایک صورتحال اگر مختلف ہو چکی ہے تو اِس سے فائدہ اُٹھانے والے ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ الفاظ و اصطلاحات آج بھی وہی ہیں لیکن اِن کے اطلاق و تعارف کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں۔ لباس کی تراش خراش‘ وضع قطع اُور طریقۂ واردات بدل چکے ہیں‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اِداروں بالخصوص ’پشاور پولیس کے پرجوش و پرعزم فیصلہ سازوں‘ کو بھی اپنا طرزفکروعمل قدرے تبدیل کرنا پڑے گا۔