شبیرحسین امام
گرمی کی لہر
پاکستان کے کئی حصوں میں ’گرمی کی لہر‘ سے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں‘ جس میں وقت کے ساتھ شدت اُور اِس سے معمولات زندگی جو پہلے ہی کورونا وائرس کی سبب معطل ہیں‘ مزید خراب ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ ’مئی‘ کے مہینے کے دوران ملک کے میدانی اُور ساحلی علاقوں میں گرمی کی شدت بڑھی ہے اُور اِس غیرمتوقع اضافے کے پیش نظر محکمہ ¿ موسمیات نے کئی اقدامات تجویز کئے ہیں‘ جن کی تفصیلات اُن کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے‘ جس کی زد میں پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے ایسے اقدامات اشد ضروری ہیں‘ جن سے زرعی شعبے کو بچایا جا سکے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف کورونا وبا کی وجہ سے حکومتی فیصلہ سازی اُور محکمہ ¿ صحت کے وسائل دباو ¿ کا شکار ہیں تو دوسری طرف اگر ’گرمی کی شدت اُور شدید لہر‘ بھی آبادی کے لحاظ سے ملک کے بڑے شہروں اُور بالخصوص زرعی علاقوں کو متاثر کرتی ہے تو اِس سے کس قدر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ حکومتی اداروں کے لئے پہلے ہی ’ٹڈی دل‘ سے نمٹنا ممکن نہیں ہو رہا جبکہ کورونا اُور گرمی کی لہر جیسے مسائل الگ سے بحران میں اضافے کا باعث اُور توجہ طلب ہیں۔ یادش بخیر سال 2015ءمیں آئی گرمی کی لہر کے باعث 1 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں تھیں اُور تب سے حکومتی و نجی فلاحی اداروں کا معمول ہے کہ وہ ممکنہ متاثر ہونے والے شہری و دیہی علاقوں میں موسم گرما کی آمد سے قبل ’ہیٹ ویو (heat-wave)‘ سے نمٹنے کے لئے امدادی سرگرمیاں کی تیاریاں رکھتے ہیں۔
رواں برس (دوہزاربیس) گرمی کی لہر بارے حکومتی سطح پر غوروخوض زیادہ دیکھنے میں نہیں آ رہا کیونکہ فیصلہ سازوں کی توجہ اُور وسائل کورونا وبا کی جانب ہے‘ جس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی نوعیت یہ ہے کہ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں علاج گاہیں مریضوں سے بھر گئی ہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے اُور ایک المیے کی نشاندہی ہے کہ گرمی کی لہر سے نمٹنے کی اِس سال تیاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں اُور اِس بارے میں اگر کہیں سے کوئی نکتہ یا بات سننے میں آتی بھی ہے تو وہ محکمہ ¿ موسمیات کے ذرائع ہیں۔
ماضی کی طرح ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی کورونا وبا پر مرکوز ہونے کی وجہ سے گرمی کی لہر تجزیہ کاروں کے لئے زیادہ پریشانی کا باعث نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی‘ صوبائی اُور مقامی حکومتیں گرمی کی لہر کا سامنا کرنے کی خاطرخواہ تیاری نہیں رکھتیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی شاید اُس وقت تک حرکت میں نہیں آئے گی جب تک (خدانخواستہ) سینکڑوں ہلاکتیں فیصلہ سازوں کے ضمیر کو جھنجوڑ نہ دیں! حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسی حقیقت‘ اِس کے منفی اثرات اُور بالخصوص انسانی جان کی اہمیت بارے زیادہ غوروخوض نہیں کیا جاتا یا پھر اُس وقت تک اِن موضوعات پر فیصلہ ساز سوچنا اُور بولنا گوارہ نہیں کرتے جب تک حالات قابو سے باہر ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ اگر گرمی کی لہر بڑھتے ہوئے اُس درجہ حرارت پر پہنچ جائے جہاں ہزاروں غریب اِس سے متاثر ہونے لگیں اُور بڑے پیمانے پر کسی ممکنہ تباہی نظر آنے لگے تو فیصلہ سازوں کے اجلاس طلب کر لئے جائیں گے!
سمجھنا ہوگا کہ کورونا وبا کی طرح ’گرمی کی لہر‘ بھی یکساں خطرناک ہے اُور اگر اِس سے بچنے کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو ہیٹ اسٹروک ہو جاتا ہے‘ جو ایک جان لیوا صورتحال ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ سرکاری علاج گاہوں کے دروازے کورونا وبا کے علاو ¿ہ دیگر بیماریوں کے لئے بند ہیں‘ اگر گرمی کی شدت اُور اِس کے لہر کی صورت پھیلنے کے امکان کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو عالمگیر وبا کی صورت ایک اُور بحران پھیل سکتا ہے۔ سال 2015ءمیں بڑے شہروں میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگائی گئیں تھیں جو ’ہیٹ ویو‘ کا مقابلہ کرنے کا سستا‘ آسان اُور درست طریقہ ہے۔ فیصلہ سازوں کو صرف انسان ہی نہیں بلکہ مال برداری و دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے مال مویشیوں (جانوروں) کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جنہیں گرمی کی شدت سے بچانے کے لئے پانی اُور سائے کا بندوبست ہونا چاہئے۔ ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ گرمی کی شدت والے ملک کے میدانی علاقوں میں رہنے والے غیرضروری طور پر اپنے گھروں یا کام کاج کی جگہوں سے باہر نہ نکلیں۔ کسی ضرورت کے تحت پیدل یا کسی ذریعے سے سفر کرنا بھی پڑے تو سر‘ گردن اُور چہرے کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ چھتری یا بھیگے ہوئے رومال کا استعمال معمولات کا حصہ ہونا چاہئے۔
کافی مقدار میں پانی یا دیگر مشروبات کا استعمال ’ہیٹ ویو‘ سے بچانے میں معاون ہو سکتا ہے۔
ہیٹ ویو کی یقینی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ سماجی و فلاحی (نجی) اِداروں کو شریک سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ ¿ موسمیات نے ممکنہ انتہائی گرم علاقوں (hot-spots) کی نشاندہی کر دی ہے‘ ایسے تمام میدانی علاقوں میں نقل و حرکت کم سے کم رکھنے اُور پبلک مقامات پر پینے کے صاف (فلٹرشدہ) پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ سایہ دار بس اڈے اُور بس سٹاپ (انتظارگاہیں) بھی کارآمد ہو سکتی ہیں‘ جہاں حسب ضرورت‘ آگ برساتے سورج سے پناہ لی جا سکے۔ اِس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری مقامی حکومتوں کو سونپ دینی چاہئے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے اُور سیاسی و انتخابی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دیکھا جائے تو فعال بلدیاتی ادارے ہی گرمی کی شدید لہر اُور وبائی امراض جیسی صورتحال میں کارآمد ہو سکتے ہیں جنہیں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے ذریعے ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔
............
گرمی کی لہر
پاکستان کے کئی حصوں میں ’گرمی کی لہر‘ سے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں‘ جس میں وقت کے ساتھ شدت اُور اِس سے معمولات زندگی جو پہلے ہی کورونا وائرس کی سبب معطل ہیں‘ مزید خراب ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ ’مئی‘ کے مہینے کے دوران ملک کے میدانی اُور ساحلی علاقوں میں گرمی کی شدت بڑھی ہے اُور اِس غیرمتوقع اضافے کے پیش نظر محکمہ ¿ موسمیات نے کئی اقدامات تجویز کئے ہیں‘ جن کی تفصیلات اُن کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے‘ جس کی زد میں پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے ایسے اقدامات اشد ضروری ہیں‘ جن سے زرعی شعبے کو بچایا جا سکے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف کورونا وبا کی وجہ سے حکومتی فیصلہ سازی اُور محکمہ ¿ صحت کے وسائل دباو ¿ کا شکار ہیں تو دوسری طرف اگر ’گرمی کی شدت اُور شدید لہر‘ بھی آبادی کے لحاظ سے ملک کے بڑے شہروں اُور بالخصوص زرعی علاقوں کو متاثر کرتی ہے تو اِس سے کس قدر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ حکومتی اداروں کے لئے پہلے ہی ’ٹڈی دل‘ سے نمٹنا ممکن نہیں ہو رہا جبکہ کورونا اُور گرمی کی لہر جیسے مسائل الگ سے بحران میں اضافے کا باعث اُور توجہ طلب ہیں۔ یادش بخیر سال 2015ءمیں آئی گرمی کی لہر کے باعث 1 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں تھیں اُور تب سے حکومتی و نجی فلاحی اداروں کا معمول ہے کہ وہ ممکنہ متاثر ہونے والے شہری و دیہی علاقوں میں موسم گرما کی آمد سے قبل ’ہیٹ ویو (heat-wave)‘ سے نمٹنے کے لئے امدادی سرگرمیاں کی تیاریاں رکھتے ہیں۔
رواں برس (دوہزاربیس) گرمی کی لہر بارے حکومتی سطح پر غوروخوض زیادہ دیکھنے میں نہیں آ رہا کیونکہ فیصلہ سازوں کی توجہ اُور وسائل کورونا وبا کی جانب ہے‘ جس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی نوعیت یہ ہے کہ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں علاج گاہیں مریضوں سے بھر گئی ہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے اُور ایک المیے کی نشاندہی ہے کہ گرمی کی لہر سے نمٹنے کی اِس سال تیاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں اُور اِس بارے میں اگر کہیں سے کوئی نکتہ یا بات سننے میں آتی بھی ہے تو وہ محکمہ ¿ موسمیات کے ذرائع ہیں۔
ماضی کی طرح ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی کورونا وبا پر مرکوز ہونے کی وجہ سے گرمی کی لہر تجزیہ کاروں کے لئے زیادہ پریشانی کا باعث نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی‘ صوبائی اُور مقامی حکومتیں گرمی کی لہر کا سامنا کرنے کی خاطرخواہ تیاری نہیں رکھتیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی شاید اُس وقت تک حرکت میں نہیں آئے گی جب تک (خدانخواستہ) سینکڑوں ہلاکتیں فیصلہ سازوں کے ضمیر کو جھنجوڑ نہ دیں! حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسی حقیقت‘ اِس کے منفی اثرات اُور بالخصوص انسانی جان کی اہمیت بارے زیادہ غوروخوض نہیں کیا جاتا یا پھر اُس وقت تک اِن موضوعات پر فیصلہ ساز سوچنا اُور بولنا گوارہ نہیں کرتے جب تک حالات قابو سے باہر ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ اگر گرمی کی لہر بڑھتے ہوئے اُس درجہ حرارت پر پہنچ جائے جہاں ہزاروں غریب اِس سے متاثر ہونے لگیں اُور بڑے پیمانے پر کسی ممکنہ تباہی نظر آنے لگے تو فیصلہ سازوں کے اجلاس طلب کر لئے جائیں گے!
سمجھنا ہوگا کہ کورونا وبا کی طرح ’گرمی کی لہر‘ بھی یکساں خطرناک ہے اُور اگر اِس سے بچنے کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو ہیٹ اسٹروک ہو جاتا ہے‘ جو ایک جان لیوا صورتحال ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ سرکاری علاج گاہوں کے دروازے کورونا وبا کے علاو ¿ہ دیگر بیماریوں کے لئے بند ہیں‘ اگر گرمی کی شدت اُور اِس کے لہر کی صورت پھیلنے کے امکان کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو عالمگیر وبا کی صورت ایک اُور بحران پھیل سکتا ہے۔ سال 2015ءمیں بڑے شہروں میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگائی گئیں تھیں جو ’ہیٹ ویو‘ کا مقابلہ کرنے کا سستا‘ آسان اُور درست طریقہ ہے۔ فیصلہ سازوں کو صرف انسان ہی نہیں بلکہ مال برداری و دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے مال مویشیوں (جانوروں) کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جنہیں گرمی کی شدت سے بچانے کے لئے پانی اُور سائے کا بندوبست ہونا چاہئے۔ ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ گرمی کی شدت والے ملک کے میدانی علاقوں میں رہنے والے غیرضروری طور پر اپنے گھروں یا کام کاج کی جگہوں سے باہر نہ نکلیں۔ کسی ضرورت کے تحت پیدل یا کسی ذریعے سے سفر کرنا بھی پڑے تو سر‘ گردن اُور چہرے کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ چھتری یا بھیگے ہوئے رومال کا استعمال معمولات کا حصہ ہونا چاہئے۔
کافی مقدار میں پانی یا دیگر مشروبات کا استعمال ’ہیٹ ویو‘ سے بچانے میں معاون ہو سکتا ہے۔
ہیٹ ویو کی یقینی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ سماجی و فلاحی (نجی) اِداروں کو شریک سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ ¿ موسمیات نے ممکنہ انتہائی گرم علاقوں (hot-spots) کی نشاندہی کر دی ہے‘ ایسے تمام میدانی علاقوں میں نقل و حرکت کم سے کم رکھنے اُور پبلک مقامات پر پینے کے صاف (فلٹرشدہ) پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ سایہ دار بس اڈے اُور بس سٹاپ (انتظارگاہیں) بھی کارآمد ہو سکتی ہیں‘ جہاں حسب ضرورت‘ آگ برساتے سورج سے پناہ لی جا سکے۔ اِس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری مقامی حکومتوں کو سونپ دینی چاہئے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے اُور سیاسی و انتخابی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دیکھا جائے تو فعال بلدیاتی ادارے ہی گرمی کی شدید لہر اُور وبائی امراض جیسی صورتحال میں کارآمد ہو سکتے ہیں جنہیں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے ذریعے ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔
............
Editorial Page of Daily Aaj May 31, 2020 |
Clipping from Editorial Page of Daily Aaj - May 31, 2020 |