Sunday, May 31, 2020

COLUMN: Heatwave & Corona in Pakistan

شبیرحسین امام
گرمی کی لہر
پاکستان کے کئی حصوں میں ’گرمی کی لہر‘ سے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں‘ جس میں وقت کے ساتھ شدت اُور اِس سے معمولات زندگی جو پہلے ہی کورونا وائرس کی سبب معطل ہیں‘ مزید خراب ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ ’مئی‘ کے مہینے کے دوران ملک کے میدانی اُور ساحلی علاقوں میں گرمی کی شدت بڑھی ہے اُور اِس غیرمتوقع اضافے کے پیش نظر محکمہ ¿ موسمیات نے کئی اقدامات تجویز کئے ہیں‘ جن کی تفصیلات اُن کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے‘ جس کی زد میں پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے ایسے اقدامات اشد ضروری ہیں‘ جن سے زرعی شعبے کو بچایا جا سکے۔ تصور کیجئے کہ ایک طرف کورونا وبا کی وجہ سے حکومتی فیصلہ سازی اُور محکمہ ¿ صحت کے وسائل دباو ¿ کا شکار ہیں تو دوسری طرف اگر ’گرمی کی شدت اُور شدید لہر‘ بھی آبادی کے لحاظ سے ملک کے بڑے شہروں اُور بالخصوص زرعی علاقوں کو متاثر کرتی ہے تو اِس سے کس قدر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ حکومتی اداروں کے لئے پہلے ہی ’ٹڈی دل‘ سے نمٹنا ممکن نہیں ہو رہا جبکہ کورونا اُور گرمی کی لہر جیسے مسائل الگ سے بحران میں اضافے کا باعث اُور توجہ طلب ہیں۔ یادش بخیر سال 2015ءمیں آئی گرمی کی لہر کے باعث 1 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں تھیں اُور تب سے حکومتی و نجی فلاحی اداروں کا معمول ہے کہ وہ ممکنہ متاثر ہونے والے شہری و دیہی علاقوں میں موسم گرما کی آمد سے قبل ’ہیٹ ویو (heat-wave)‘ سے نمٹنے کے لئے امدادی سرگرمیاں کی تیاریاں رکھتے ہیں۔

رواں برس (دوہزاربیس) گرمی کی لہر بارے حکومتی سطح پر غوروخوض زیادہ دیکھنے میں نہیں آ رہا کیونکہ فیصلہ سازوں کی توجہ اُور وسائل کورونا وبا کی جانب ہے‘ جس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی نوعیت یہ ہے کہ ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں علاج گاہیں مریضوں سے بھر گئی ہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے اُور ایک المیے کی نشاندہی ہے کہ گرمی کی لہر سے نمٹنے کی اِس سال تیاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں اُور اِس بارے میں اگر کہیں سے کوئی نکتہ یا بات سننے میں آتی بھی ہے تو وہ محکمہ ¿ موسمیات کے ذرائع ہیں۔

ماضی کی طرح ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی کورونا وبا پر مرکوز ہونے کی وجہ سے گرمی کی لہر تجزیہ کاروں کے لئے زیادہ پریشانی کا باعث نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی‘ صوبائی اُور مقامی حکومتیں گرمی کی لہر کا سامنا کرنے کی خاطرخواہ تیاری نہیں رکھتیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی شاید اُس وقت تک حرکت میں نہیں آئے گی جب تک (خدانخواستہ) سینکڑوں ہلاکتیں فیصلہ سازوں کے ضمیر کو جھنجوڑ نہ دیں! حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسی حقیقت‘ اِس کے منفی اثرات اُور بالخصوص انسانی جان کی اہمیت بارے زیادہ غوروخوض نہیں کیا جاتا یا پھر اُس وقت تک اِن موضوعات پر فیصلہ ساز سوچنا اُور بولنا گوارہ نہیں کرتے جب تک حالات قابو سے باہر ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ اگر گرمی کی لہر بڑھتے ہوئے اُس درجہ حرارت پر پہنچ جائے جہاں ہزاروں غریب اِس سے متاثر ہونے لگیں اُور بڑے پیمانے پر کسی ممکنہ تباہی نظر آنے لگے تو فیصلہ سازوں کے اجلاس طلب کر لئے جائیں گے!

سمجھنا ہوگا کہ کورونا وبا کی طرح ’گرمی کی لہر‘ بھی یکساں خطرناک ہے اُور اگر اِس سے بچنے کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو ہیٹ اسٹروک ہو جاتا ہے‘ جو ایک جان لیوا صورتحال ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ سرکاری علاج گاہوں کے دروازے کورونا وبا کے علاو ¿ہ دیگر بیماریوں کے لئے بند ہیں‘ اگر گرمی کی شدت اُور اِس کے لہر کی صورت پھیلنے کے امکان کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو عالمگیر وبا کی صورت ایک اُور بحران پھیل سکتا ہے۔ سال 2015ءمیں بڑے شہروں میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگائی گئیں تھیں جو ’ہیٹ ویو‘ کا مقابلہ کرنے کا سستا‘ آسان اُور درست طریقہ ہے۔ فیصلہ سازوں کو صرف انسان ہی نہیں بلکہ مال برداری و دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے مال مویشیوں (جانوروں) کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جنہیں گرمی کی شدت سے بچانے کے لئے پانی اُور سائے کا بندوبست ہونا چاہئے۔ ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ گرمی کی شدت والے ملک کے میدانی علاقوں میں رہنے والے غیرضروری طور پر اپنے گھروں یا کام کاج کی جگہوں سے باہر نہ نکلیں۔ کسی ضرورت کے تحت پیدل یا کسی ذریعے سے سفر کرنا بھی پڑے تو سر‘ گردن اُور چہرے کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ چھتری یا بھیگے ہوئے رومال کا استعمال معمولات کا حصہ ہونا چاہئے۔

کافی مقدار میں پانی یا دیگر مشروبات کا استعمال ’ہیٹ ویو‘ سے بچانے میں معاون ہو سکتا ہے۔

ہیٹ ویو کی یقینی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی کے ساتھ سماجی و فلاحی (نجی) اِداروں کو شریک سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ ¿ موسمیات نے ممکنہ انتہائی گرم علاقوں (hot-spots) کی نشاندہی کر دی ہے‘ ایسے تمام میدانی علاقوں میں نقل و حرکت کم سے کم رکھنے اُور پبلک مقامات پر پینے کے صاف (فلٹرشدہ) پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ سایہ دار بس اڈے اُور بس سٹاپ (انتظارگاہیں) بھی کارآمد ہو سکتی ہیں‘ جہاں حسب ضرورت‘ آگ برساتے سورج سے پناہ لی جا سکے۔ اِس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری مقامی حکومتوں کو سونپ دینی چاہئے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے اُور سیاسی و انتخابی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دیکھا جائے تو فعال بلدیاتی ادارے ہی گرمی کی شدید لہر اُور وبائی امراض جیسی صورتحال میں کارآمد ہو سکتے ہیں جنہیں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے ذریعے ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔
............
Editorial Page of Daily Aaj May 31, 2020
Clipping from Editorial Page of Daily Aaj - May 31, 2020

COLUMN: Demolition of al-Baqi

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
عالمی دن: جنت البقیع
اَٹھارہ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ’سلطنت عثمانیہ‘ کا قیام سال 1299ءسے اِختتام 1923ءتک کے واقعات‘ بنیادی مقاصد اُور ہدف یہ تھا کہ ’مسلم اُمہ‘ کے مقدس ترین مقامات مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) اُور مسجد نبوی شریف (مدینہ منورہ) کو پوری مسلم اُمت کی ملکیت اُور عبادات کی طرح اسلام کے سیاسی نظام کا بھی مرکز (قبلہ) ہوں۔ متحدہ مسلم اُمہ کی کوشش و مقصد کے لئے جدوجہد‘ پہلے مرحلے میں مکہ و مدینہ پر حکمرانی اُور انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لئے گئے اُور عثمانی خلفاءنے سال 1818ءسے 1860ءکے درمیان مقامات مقدسہ بشمول مسجد نبوی کی تعمیروتوسیع اُور تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا۔ یہ وہ ’سنہرا دور‘ تھا جب مسلمان ممالک کی اکثریت متحد اُور مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے مذہب کو آنکھ اُٹھانے کی جرا ¿ت نہ تھی لیکن مسلم اُمہ کا یہ اتحاد زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا اُور تاریخ میں وہ سبھی واقعات (سازشیں) تفصیلاً ذکر ہیں کہ کس طرح مغربی طاقتوں نے عرب سرزمین پر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے لئے مسلم ممالک کے اتحاد (خلافت عثمانیہ) کا خاتمہ کیا اُور مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات پر سیاسی و انتظامی حکمرانی ایسے حکمرانوں کو سونپ دی گئی‘ جن کے لئے اقتدار ہی پہلی اُور آخری ترجیح ہے۔ بہرحال خلافت عثمانیہ کا ذکر صرف تاریخ کی کتب تک محدود ہو کر رہ گیا جبکہ ’حجاز‘ کہلانے والی سرزمین ’سعودی عرب‘ کے نام سے ایک نئے ملک (بادشاہت) کے طور پر اُبھری۔

خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال کا محرک کوئی ایک سازش نہیں تھی بلکہ اِس کے کئی داخلی و خارجی عوامل اُور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بیرونی سازشوں کے علاو ¿ہ دیگر محرکات بھی تھے‘ جن کے چند پہلو ماہ  رمضان المبارک سے پاکستان میں نشر ہونے والے ترک ڈرامے ’دیریلیش ارطغرل (Dirilis: Ertugrul)‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اِن تاریخی حقائق کے کئی حیران کن اُور تکلیف دہ پہلوو ں میں شامل ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے کے بعد (1925-26ءمیں) مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان ’جنت البقیع‘ میں موجود اصحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ اُمہات المومنین اُور اہل بیت اطہار رضوان اللہ اجمعین کے مزارات کو ایک فقہی رائے کی بنیاد پر مسمار کر دیا گیا۔ جن مزارات کی نشانیاں تک نہیں چھوڑی گئیں اُن میں امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (تیسرے خلیفہ راشد) کے مزار سے لیکر دختر رسول حضرت بی بی فاطمة الزہرا طاہرہ سلام اللہ علیہا کے روضے جیسے مقدسات شامل تھے اُور یوں جنت البقیع میں موجود قبریں دور سے دیکھنے پر مٹی کے ڈھیر اُور ٹیلے دکھائی دینے لگے‘ جہاں چھوٹے بڑے پتھروں میں چھپی قبروں کی باقیات تلاش کرنے والے زائرین کو ایک خاص حد سے آگے جانے نہیں دیا جاتا۔ اِس اقدام سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کے 90 برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی زخم ہرے ہیں اُور ہر سال عالمی سطح پر ”8 شوال المکرم“ کا دن ”یوم انہدام جنت البقیع“ کے طور پر منانے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ .... ”جنت البقیع‘ میں موجود زیارات مقدسہ کو اُن کی اَصل حالت و جگہ پر بحال کیا جائے۔“

مدینہ منورہ شریف کا ”بقیع“ نامی قبرستان کی موجودہ حالت اُور اِس مقام کے قبل اسلام و بعد اسلام (ماضی و حال کی) تاریخی اہمیت اگر کچھ ہے تو وہ کیا ہے؟ مسلمان بھلے ہی خاموش ہوں لیکن تاریخ نہیں بلکہ درجنوں کتب کے اُوراق میں ایک جیسے واقعات اُور حوالے تحریر ملتے ہیں جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے عملاق کی اولاد نے مدینہ منورہ شریف آباد کیا‘ پر زراعت کے لئے زمین ہموار کی۔ درخت اُگائے۔ رہائشگاہیں اُور قلعے تعمیر کئے گئے۔ وقت کے ساتھ جب اِنسانی آبادی میں اضافہ ہوا۔ قبائل تشکیل پائے تو مدینہ منورہ شریف نہ صرف کاشتکاروں اُور شہ زوروں کا مرکز رہا بلکہ یہ اہم تجارتی گزرگاہ بھی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اُور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی یہاں وارد ہوئے۔ کچھ نے یہیں قیام کر لیا اُور کچھ کنعان یا دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے۔ ولادت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ایک ہزار سال قبل مدینہ منورہ شریف کے رہنے والے اِس بات (پیشگوئی) سے باخبر تھے کہ یہ شہر اللہ تعالیٰ کے آخری نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن قرار پائے گا۔ اِس سلسلے میں ’تبع حمیری‘ نامی بادشاہ کا تذکرہ بطور خاص ملتا ہے جو بڑی فوج کے علاو ہ کم و بیش چار ہزار کی تعداد میں علماءاُور حکماءبطور مشیر رکھتا تھا۔ ایک موقع پر جب مدینہ منورہ شریف کے کسی رہنے والے نے تبع بادشاہ کے اہل خانہ سے بدسلوکی کی تو اُس نے مجرم کی سرکوبی کے مدینہ کو تاراج کرنے کا فیصلہ کیا اُور اِس ارادے سے مدینہ کے باہر آ کر پڑاو ¿ ڈالا۔ اہل مدینہ کے علماءنے بادشاہ (تبع) سے ملاقات کی اُور مدینہ کے فضائل و مناقب کی تفصیلات کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی اُس کے گوش گزار کی کہ یہ شہر ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن ہوگا۔ یہ سننا تھا کہ اُس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اُس نے حملے کا ارادہ ترک کیا اُور روز قیامت اپنی شفاعت کی تمنا کے لئے ایک تحریر (خط) لکھا۔ یہ خط اُس کی پشت در پشت منتقل ہوتے‘ 90 واسطوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خط کو دیکھ کر مسکرائے‘ درخواست قبول فرمائی اُور 3 مرتبہ ارشاد فرمایا ’مرحبا باخ الصالح۔‘ اِسی شہر مدینہ کا ایک مختصر حصہ “جنت البقیع“ کہلاتا ہے۔

لغت کے مطابق ”بقیع“ اُس علاقے کو کہتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں درخت پائے جائیں گویا بقیع زمانہ قدیم (قبل اسلام) یہاں کثرت سے درخت ہوا کرتے تھے۔ ’بقیع‘ کو ’بقیع الغرقد‘ یعنی کانٹے دار جھاڑیوں کا علاقہ بھی کہتے ہیں چونکہ ایک وقت میں یہاں ’عوسج‘ نامی کانٹے دار پودے پائے جاتے تھے لہٰذا روزمرہ بول چال میں اِسے ’بقیع الغرقد‘ کہا جانے لگا۔ عرب قبائل ’بقیع‘ کا لفظ کسی گنبد یا اُٹھی ہوئی (بلند) جگہ کے لئے بھی استعمال کرتے۔ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے تیرہویں سال مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی۔ تب سے ’یثرب‘ عرف عام میں مدینہ اُور بطور خاص مدینہ منورہ شریف کہلایا جانے لگا کیونکہ اِس عزت مآب خاص شہر کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص دعا فرمائی (ترجمہ) ”بارالہا‘ اِس شہر کو محبوب قرار دے‘ (بالکل) اُسی طرح جیسا کہ تو نے مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال رکھی ہے۔ یہاں کے دانے پانی (اَجناس) میں برکت عطا فرما اُور اِس شہر کو (تاقیامت) بیماریوں اُور آفات و بلیات سے محفوظ رکھ۔“
........
Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Abbottabad  - May 31, 2020 - Sunday

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Islamabad Abbottabad  - May 31, 2020

Sunday, May 10, 2020

Corona Files: Failures in combating Covid-19

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
غربت
مسائل بڑے اُور وسائل چھوٹے ہیں۔ اِس عمومی تصور کی حقیقت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وسائل موجود ہیں لیکن اُن سے خاطرخواہ استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اِس تصور کی عملی شکل بیان کرنے کے لئے پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی روداد پیش کی جا سکتی ہے‘ جن میں اندرون شہر کے 2 ایسے بھائی بھی شامل ہیں جنہیں پانچ مرلے کے گھر میں قرنطینہ کیا گیا اُور نتیجہ یہ رہا کہ مجموعی طور 17 افراد کے اِس کنبے میں 11 افراد بشمول خواتین اُور بچے کورونا سے متاثر ہو چکے ہے!

محکمہ صحت کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والے مذکورہ خاندان کے گیارہ افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے اُور یہ بات صرف کسی ایک خاندان اُور صحافیوں ہی کی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں اکثر غریب گھرانوں کی ملتی جلتی روداد یہی ہے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زیادہ افراد کم رقبے کے مکانات میں رہتے ہیں‘ جہاں ایک کمرہ اُور ایک بیت الخلا گھر کے کئی افراد کے زیراستعمال رہتا ہے۔ اِس صورتحال کی وجہ سے خاندان کے مرد خواتین اُور کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ غریب علاقوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اِن کے اہل محلہ و علاقہ ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے ہیں اِس لئے متاثرین کا شمار کسی ایک خاندان کے اَفراد سے کہیں زیادہ ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے سے خیبرپختونخوا میں نئے کورونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زیادہ جبکہ 63 اموات اِس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ کم آمدنی اُور غریب طبقات کورونا وائرس کا باآسانی شکار بن رہے ہیں اُور اگر اِس جانب (اِس موقع پر بھی) خاطر خواہ (فوری) توجہ نہ دی گئی تو کورونا وائرس پھیلنے کا سلسلہ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔

کورونا وبا سے متاثرین کی کہانیاں اُور مسائل ایک جیسے  اہم ، تشویشناک  اُور لائق توجہ ہیں۔ 
اگر صحافی متاثر ہیں تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ خطرے سے متعلق علم ہونے کے باوجود بھی اِنہوں نے بنا حفاظتی تدابیر متاثرہ علاقوں کے دورے کئے۔ دیگر طبقات اُور پیشوں سے تعلق رکھنے والے اِس لئے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ کورونا وائرس کو اپنے لئے یکساں طور پر خطرہ نہیں سمجھتے اُور اب بھی یہ تاثر عام ہے کہ اموات وبا سے نہیں بلکہ اِس وبا کے خوف سے ہو رہی ہیں اُور خوف پھیلانے میں ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں!

آمدن کے لحاظ سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کورونا وائرس سے متعلق غلط فہمیوں کا پہلے اُور وائرس سے بعد میں شکار ہو رہی ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے یہ حالات اُور صورت حالات ایک جیسی ہے کہ ایک طرف وبا کا طلاطم خیز طوفان اُور دوسری طرف عالمگیر وبا کی صورت کھائی ہے۔ ایک طرف بھوک افلاس ہے اُور دوسری طرف بیماری سے موت کا خطرہ جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مرض سے خطرہ اُور موت کا امکان قابل برداشت ہوتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا اُور برسرزمین حقائق دیکھنا ہوں گے کہ آبادی کا وہ بڑا حصہ جس کے لئے سر پر چھت کا ہونا ہی سب سے بڑی نعمت ہے اُور ایسے طبقے سے یہ توقع کرنا کہ اُن کے پاس رہائش کے لئے اتنی جگہ ہو گی جہاں وہ دیگر اہل خانہ سے الگ تھلگ (یا مناسب فاصلے پر) رہ سکیں گے دراصل غلط فہمی ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے بالخصوص چھوٹے رقبے والے مکانات میں رہتے ہیں مگر ان کے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ہم پشاور کی بات کریں تو یہاں گھر چھوٹے لیکن مکینوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اُور آج بھی مشترکہ خاندانی نظام اِس سماج کا سب سے مضبوط حوالہ ہے۔ حکومتی فیصلہ سازوں نے کورونا متاثرین کے لئے قواعد (SOPs) تشکیل دے رکھے ہیں تو کیا اِس کے بعد کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی؟ ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کھڑی کرتے ہوئے برسرزمین حقائق‘ عام آدمی (ہم عوام) کی آمدنی و مالی حیثیت اُور اُس مشترکہ خاندانی نظام کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہو رہی جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اُور جس کی موجودگی میں کورونا متاثرین کا الگ تھلگ رہنا اُس وقت تک عملاً ناممکن رہے گا‘ جب تک کہ حکومت کی جانب سے خصوصی انتظامات‘ سہولیات بشمول مالی امداد نہیں دی جاتی۔

از خود علیحدگی (قرنطینہ) کے لئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری تھا لیکن کافی نہیں جب تک کہ عمل درآمد کی صورتحال اُور عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات بارے سوچ بچار نہ کیا جائے۔ جن نجی رہائشگاہوں کو اُن کے مکینوں کے لئے ’قرنطینہ مراکز‘ میں تبدیل کیا گیا ہے‘ اُن کے اعدادوشمار بشمول مکان کا خاکہ‘ وہاں دستیاب سہولیات اُور وہاں مقیم صحت مند افراد سمیت کل مکینوں کے بارے حکومت کے پاس اعدادوشمار نہیں۔ ضوابط بنانے کے ساتھ اگر اُن کے ضمنی و ذیلی پہلوو ¿ں پر بھی غور کیا جاتا اُور اب بھی کیا جائے تو کورونا وائرس کا پھیلاو  بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ 

صوبائی حکومت ہر سطح پر کوشش کر رہی ہے کہ ’طفل تسلیوں‘ سے وقت گزر جائے اُور کام چلتا رہے۔ ماضی کی طرح حکمرانوں کا طرزعمل یہی ہے کہ جہاں اِن کے پاس صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے‘ وہاں رابطے منقطع کر دیئے جاتے ہیں اُور جہاں حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مطلوب ہوتا ہے‘ وہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا جاتا ہے! یہ روش تشویشناک ہے کہ زبانی کلامی بیانات‘ وعدوں اُور یقین دہانیوں سے اب تک کی پراسرار اُور وباو ¿ں سے مقابلہ کرنے کی انسانی تاریخ میں منظرعام پر آنے والے خطرناک جرثومے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کورونا کی طرح غربت بھی لاعلاج مرض بن چکا ہے۔

پشاور کے ایک متاثرہ صحافی سے ہوئی بات چیت میں جب یہ پوچھا کہ حکومت نے تو کورونا سے متاثرہ صحافیوں کے لئے خصوصی امداد کا اعلان بھی کر رکھا ہے‘ کیا آپ تک وہ امداد پہنچی ہے تو اُس نے بناءتوقف اُور طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے فوراً کہا ”بھائی مذکورہ امدادی پیکج کے لئے کورونا وائرس سے فوت ہونا ضروری ہے!“
........


Saturday, May 9, 2020

Fitrana this year?

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پیشگی صدقہ فطر؟
کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی غیرمعمولی معاشی مشکلات اُور سماجی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ’پیشگی فطرانہ ادائیگی مہم‘ چلائی جا رہی ہے‘ جس کا خلاصہ یہ ہے 1: سرمایہ دار اِس مرتبہ اپنی زکوة‘فطرانہ اُور صدقات کی شرح میں اضافہ کریں اُور 2: فطرانہ اَدا کرنے کے لئے آخری روزے (ماہ رمضان المبارک) کی تکمیل کا انتظار نہ کیا جائے۔“ اِس سماجی مطالبے کے دونوں پہلووں کے بارے میں مختلف مسالک کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے چونکہ فطرانے کو فطر (یکم شوال یعنی عید کے دن) سے منسوب کیا گیا ہے‘ اِس لئے عید الفطر کا دن ہی فطرانہ کی ادائیگی کا وقت ہے جیساکہ رمضان المبارک کے کسی دن کا روزہ اُس کے افطار پر مکمل ہوتا ہے اِس جواز پر فقہاءکے ایک طبقے کا موقف غیرلچکدار ہے جو ”ماہ رمضان المبارک کے آخری یوم کا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا کرنے کو جائز قرار نہیں سمجھتے اُور اِس قدر رعایت دیتے ہیں کہ عیدالفطر سے 1یا 2 دن قبل فطرانہ ادا کر دیا ہے کیونکہ فطرانہ کی ادائیگی کا حقیقی وقت رمضان المبارک کے آخری روزے کا سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ اِس لئے افضل یہی ہے اُور اگر ممکن ہو تو عیدالفطر کی صبح فطرانہ اَدا کیا جائے۔“

اِس مسئلے کا ایک اِنسانی پہلو بھی ہے اُور وہ یہ کہ فطرانہ وقت سے پہلے ادا کرنے سے فطرانہ وصول کرنے والے (مستحقین) عید کی تیاریوں میں زیادہ بہتر انداز سے شامل ہو سکیں۔ ہر عبادت کی ایک روح (مقصدیت) بھی ہوتی ہے تو 3 پہلووں (انسانی ضرورت‘ مقصدیت اُور خصوصی حالات) کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اِس سال فطرانہ کی دس پندرہ روز قبل ادائیگی جائز قرار دی جائے تو یہ زیادہ مفید عمل ہوگا یقینا اِس سلسلے میں علمائے کرام بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اسلام صرف عبادات (حقوق اللہ) کی حد تک محدود نہیں بلکہ اِس میں دنیاوی حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے اُور اِسی لئے وجوب اُور عدم وجوب کے لحاظ سے 2 قسم کے صدقات (صدقہ واجبہ اُور صدقہ نافلہ) کا حکم ہے۔ واجبہ سے مراد ہر صاحب نصاب بالغ مرد یا عورت پر فرض (لازم) صدقات ہیں‘ اِن میں زکوة‘ صدقہ فطر اُور عشر وغیرہ شامل ہیں۔ بالخصوص صدقہ فطر ہر مسلمان غلام اُور آزاد‘ مرد و عورت‘ بچے اُور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا گیا ہے۔ زکوة کی ادائیگی کے لئے سال بھر ایک خاص نصاب کا باقی رہنا شرط ہے لیکن صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن کہیں سے اِس قدر رقم آ جائے جو زکوة کے نصاب کے برابر ہو اُور اُس کی حاجات اصلیہ سے زائد بھی ہو تو اُس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب (لازم) ہو جاتی ہے۔ ”صدقہ نافلہ“ کے تحت کوئی بھی شخص (مرد یا عورت) اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں‘ مسکینوں‘ محتاجوں اُور فقیروں میں تقسیم یا اُن پر خرچ کرتا ہے۔ صدقات واجبہ اُور نافلہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنے والوں کے روز قیامت درجات اُتنے ہی بلند ہوں گے۔ 

قرآن کریم کی 35ویں سورہ¿ مبارکہ فاطر کی 29ویں آیت میں ”اللہ تعالیٰ سے تجارت“ کرنے کے ایک طریقے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے (ترجمہ): ”جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اُور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اُور جو کچھ اُنہیں عطا کیا گیا اُس میں سے پوشیدہ اُور ظاہراً خرچ کرتے ہیں تو (درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی جانے والی) ایسی تجارت (لین دین) ہے جس میں خسارہ نہیں۔“ سورہ¿ مبارکہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال اُس دانے (اناج) جیسی ہے‘ جس میں سات بالیاں نکلیں اُور ہر بالی میں 100 دانے ہوں‘ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر اجر دے‘ وہ کشادگی اُور علم والا ہے۔“

صدقہ فطر مالی انفاق ہے جسے ادا کرنے کا حکم زکوٰة کی فرضیت سے قبل اُس برس دیا گیا جب ماہ¿ رمضان المبارک کے روزہ فرض ہوئے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ روزے کی فرضیت کا حکم سن 2 ہجری میں تحویل قبلہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا اُور روزے سے متعلق دوسرے سورہ¿ مبارک البقرہ کی 185ویں آیت شعبان المعظم میں نازل ہوئی تھی۔ صدقہ فطر صاحب نصاب لوگوں کی جانب سے غریبوں کو دیا جاتا ہے اُور اِس صدقے کو عرف عام میں ”فطرانہ“ کہتے ہیں‘ عمومی طور پر ہر زکوة ادا کرنے والے پر فطرانہ فرض ہے اُور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عیدالفطر کے تہوار میں معاشرے کے غریب‘ مسکین‘ نادار (مالی طور پر کمزور طبقات) بھی شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں ماہ رمضان المبارک میں روزے اُور دیگر عبادات کی قبولیت کو ”صدقہ فطر“ سے مشروط کر دیا گیا ہے‘ جس سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حکمت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اِس لئے فرض قرار دیا تاکہ روزے (فرض عبادت) کے خاطرخواہ احترام میں رہ جانے والی دانستہ و غیردانستہ کمی بیشی (غلطی‘ کوتاہی یا بے ادبی) کا اَزالہ ہو سکے۔

فطرانے کے حوالے سے مختلف مسالک کی جانب سے نصاب کا اعلان کر رکھا ہے۔ جامعة العلوم الاسلامیہ‘ بنوری ٹاون کراچی (دیوبند مسلک) دارالافتاءکے مطابق رواں برس (سال دوہزاربیس) کے لئے فطرانہ کی رقم مختلف اناج کے حساب سے طے کی گئی ہے‘ جس میں گندم کی قیمت کے تناسب سے 100‘ جو کے لئے 250‘ کھجور کے لئے 1100 اُور کشمش کے لئے 1700 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن یہ کم سے کم فطرانہ ہے‘ اگر کوئی صاحب ثروت اِس سے زیادہ‘ اُور جس قدر زیادہ فطرانہ اَدا کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی (مسجد قاسم علی خان) نے فطرانہ کی رقم 115 روپے مقرر کرتے ہوئے اعلان میں کہا ہے کہ 1: مستحقین زکوة ہی مستحقین صدقہ فطر ہیں۔ 2: فطرانہ نماز عید سے قبل ادا کرنے میں فضیلت اُور زیادہ اجروثواب ہے۔ 3: گندم 115‘ کھجور 880‘ جو 180‘ کشمش 1200 اُور پنیر کے مطابق 2800 روپے فطرانہ مقرر کیا گیا ہے۔ 

مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کے فتوی (بریلوی مسلک) کے مطابق اِس سال کے لئے صدقہ فطر 125 روپے ہے جو گزشتہ برس (2019) کے لئے 100 روپے تھا۔ اِس سلسلے میں صدقہ فطر اور فدیہ مقرر کرنے کے لئے 2کلوگرام چکی کے آٹا پر فی کس صدقہ فطر متعین کیا گیا ہے۔ دیگر اجناس میں جو کے نصاب سے فطرہ 320‘ کھجور کے نصاب سے 1600‘ کشمش (خشک میوہ) کے نصاب سے 1920 اور پنیر کے نصاب 3540 روپے بتایا گیا ہے۔ فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ ثروت اپنی مالی حیثیت کے مطابق فطرہ و فدیہ ادا کریں اُور جو لوگ کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے وہ 30 روزوں کا فدیہ بالترتیب چکی کا آٹا 3750‘ جو 9600‘ کھجور 48 ہزار‘ کشمش 57ہزار 600‘ اور پنیر 1 لاکھ 6200 روپے کے تناسب سے اَدا کریں۔

فقہ جعفریہ (اہل تشیع اثنائے عشریہ) کی جانب سے گذشتہ برس صدقہ فطر 150 روپے جبکہ اِس سال (2020) کے لئے 175 روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ احتیاط کے طور پر فی کس کم سے کم فطرانہ 200 روپے ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 

لب لباب یہ ہے کہ تمام مسالک کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ کم سے کم کے چکر پڑنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فطرانہ ادا کرنے میں حرج نہیں البتہ صدقہ فطر کی ابتدائی حد معلوم ہونی چاہئے کہ اُس سے کم شرح سے دیا گیا صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ صدقہ فطر عید (یکم شوال المکرم) سے چند روز قبل بھی ادا کیا جا سکتا ہے اُور اِس سلسلے میں بخاری شریف کے باب صدقہ فطر میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس معمول کا ذکر محفوظ ہے کہ آپ عید الفطر سے ایک دو روز قبل اپنا فطرانہ ادا کر دیا کرتے تھے۔ فطرانہ کی ادائیگی نماز عید الفطر کے بعد تک موخر کرنا مکروہ جبکہ بعض فقہاءکے نزدیک حرام اُور ایسا کرنے کی صورت میں قضاءواجب (لازم) ہوگی۔
........
Clipping from Daily Aaj May 09 2020  Saturday 


CORONA FILES: Promotions without Exams

امتحانات: سوالیہ نشان!
کورونا وائرس کے سبب جہاں پوری قوم امتحان سے گزر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے بناءامتحانات ترقیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اِس اقدام سے 14 لاکھ 25 ہزار سے زائد دسویں جماعت (میٹرک) اُور انٹرمیڈیٹ (گیارہوں اُور بارہوں جماعتوں) کے طلبا و طالبات نے بظاہر فائدہ اٹھایا ہے لیکن نقصان اٹھانے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس کے لئے صورتحال کو سمجھنا اُور فیصلہ سازوں کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا ایک معمہ دکھائی دے رہا ہے۔ بنا امتحانات ترقیاں دینے کا اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے جو کورونا وائرس کے سبب درس و تدریس کا عمل معطل ہونے کے باعث ہے لیکن یہاں ایک مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تمام طلبا و طالبات جنہوں نے گزشتہ امتحانات میں چند مضامین کے امتحانی پرچے کامیابی سے حل نہیں کئے اُن کی اگلے درجات میں ترقیاں کیسے ہوں۔ سردست طریقہ ¿ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بنا اِمتحان ترقی گزشتہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر منحصر ہے لیکن جو طلبہ گزشتہ امتحانات میں چند مضامین پاس کرنے میں ناکام رہے‘ اُن کا مستقبل اِس پوری صورتحال میں غیرواضح دکھائی دے رہا ہے!

امتحانات کے ذریعے طلبا و طالبات کی ذہانت اُور قابلیت جانچنے کا روائتی عمل بھی سوالیہ نشان ہے اُور ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مستقبل میں اِس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کیا جائے جس میں بنا امتحانات اگر طلبہ کی قابلیت کے بارے میں کوئی نتیجہ یا رائے قائم کرنا پڑے تو اُس میں نہ صرف آسانی رہے بلکہ اُن طلبہ کی حق تلفی بھی نہ ہو جو اپنی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اُور سارا سال امتحانات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ طلبہ کی وہ تعداد حکومتی فیصلے سے خوش ہے‘ جس کے لئے امتحانات کبھی بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں امتحانات کا نظام رائج نہیں اُور جہاں اساتذہ بچوں کی قابلیت اُن کے روئیوں‘ قول و فعل اُور تعلیمی عمل میں دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے خصوصی کمپیوٹرز سافٹ وئرز کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بچوں کو ہر سال نئے اساتذہ کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ کسی تعلیمی ادارے کے پہلے دن سے آخری دن تک اساتذہ اُور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سبھی ممالک جن میں طالب علموں کی علمی قابلیت و اہلیت اُور ذہانت کے لئے امتحانات کے علاو ¿ہ معیار مقرر ہیں‘ وہاں سب سے مشکل کام بطور معلم سرکاری ملازمت حاصل کرنا ہے جبکہ پاکستان میں یہ عمل اُلٹ ہے کہ اساتذہ کی بھرتی سب سے آسان اُور طلباءو طالبات کو نصاب کی حد تک محدود رکھتے ہوئے اُن کی امتحانی کارکردگی کے لئے اساتذہ ذمہ دار نہیں ہوتے!

ملک کے دیگر حصوں کی طرح اکثر طلبہ ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان نہیں دیتے بلکہ اُس کی بھرپور تیاری کرتے ہیں اُور تین ماہ بعد ضمنی اِمتحان کے ذریعے اپنے نمبر بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ امتحانی نظام کے لحاظ سے خیبرپختونخوا واضح طور پر 3 قسم کے طبقات میں تقسیم ہے۔ پہلا طبقہ اُن نجی سکولوں کا ہے جن کی کاروباری حکمت عملی کا حصہ یہ ہے کہ اُن سے وابستہ طلبہ امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوں۔ دوسرا طبقہ اُن طلبہ کا ہے جو سرکاری و کم معروف نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہوتے ہیں اُور اُنہیں امتحانی مرحلے سے درست انداز میں نمٹنے کی تربیت اُور معلومات فراہم نہیں کی جاتی۔ یہ طلبہ ٹیوشن سنٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ جن کی روائتی حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار امتحان میں کامیابی دلوائی جاتی ہے اُور طلبہ کا تیسرا طبقہ وہ ہے جن کے لئے تعلیمی عمل اُور امتحانات واجبی نمبروں سے پاس کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اُن کی نظریں سرکاری نوکریوں پر لگی ہوتی ہیں بالخصوص جہاں والد کے بعد بیٹے کو ملازمت ملتی ہے۔ درس و تدریس اُور امتحانی عمل کی خامیوں کے باعث پورا نظام تعلیم الجھ گیا ہے اُور اِس کی خرابیاں ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے طلبہ کو بنا امتحان نئے درجات میں ترقی تو دے دی ہے لیکن خیبرپختونخوا کے ایسے 3 لاکھ سے زیادہ طلبہ کے بارے میں نہیں سوچا گیا جن کے ایک یا دو پرچہ جات کا امتحان ہنوز باقی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ امتحانات کی فیس کی مد میں خیبرپختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز نے 1.7 ارب روپے وصول کر رکھے ہیں اُور اب جبکہ امتحانات کا انعقاد نہیں ہونا تو کیا یہ پیسہ طلبہ کو واپس کیا جائے گا؟
اگر نہیں تو کیا اِس قدر خطیر رقم سے امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اُن ترقی یافتہ مغربی ممالک کے تجربات کو پاکستان میں رائج کیا جا سکتا ہے جہاں امتحان اور امتحانی نتیجہ (حاصل) کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت‘ اہلیت‘ ذہانت اُور تعلیم میں دلچسپی کا عکاس نہیں ہوتا۔ وقت ہے کہ سوچا جائے اُور سطحی فیصلوں کی بجائے پاکستان میں درس و تدریس کو ایک نصاب اُور ایک نظام کے تحت منظم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قوموں کی حالت خودبخود تبدیل نہیں ہوتی۔ تعلیمی نظام کی اصلاح اُور امتحانات کا روائتی نظام بہرصورت نظرثانی کا متقاضی ہے‘ جس کی جانب اگر کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں توجہ مبذول ہوئی ہے تو اِس مشکل سے دیگر مشکلات آسان کرنے کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بھرپور فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔
............
Clipping from Daily Aaj - May 09, 2020

Clipping from Daily Aaj - May 09, 2020


Friday, May 8, 2020

Molvee Gee remembered

شبیرحسین اِمام
تیرہ رمضان المبارک چودہ سو اکتالیس ہجری
سات مئی دو ہزار بیس (بروز جمعرات)

مولوی جیؒ: شمع عمل

پشاور کے سرتاج سادات ’گیلانی‘ گھرانے سے تعلق رکھنے والے علمی‘ ادبی‘ سیاسی‘ سماجی اُور روحانی قائد سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوجی جی رحمة اللہ علیہ (پیدائش 1920ئ: وصال 2004ءبمطابق تیرہ رمضان المبارک چودہ سو پچیس ہجری) کے عرس مبارک کے سلسلے میں قرآن خوانی‘ ختم کلمہ  شریف‘ ختم غوثیہ‘ ذکر و اذکار‘ محافل حمد و نعت اُور منقبت کا سلسلہ ماہ ¿ رمضان کے دوسرے عشرے کے آغاز (گیارہویں شریف) ہی سے شروع ہو جاتا ہے درحقیقت عرس مبارک کی یہ تقاریب وابستگان و تشنگان علم و روحانیت کی اپنی تسکین و غذا کے لئے ہوتا ہے‘ جن کے لئے یہ مواقع تجدید عہد کا سنہرا موقع بھی ہوتے ہیں تاہم کورونا وائرس سے متعلق حکومتی ہدایات کا احترام کرتے ہوئے اِس مرتبہ اسلامی مہ و سال کے مطابق عرس مبارک (ایصال ثواب) کے معمولات تبدیل کرنے کا درست فیصلہ کیا گیا اُور اِس مناسبت سے نہایت ہی سادہ اُور مختصر دورانئے لیکن پرنور محافل منعقد ہوئیں‘ جنہیں سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا جو درحقیقت احسان ہے کہ اِن بابرکت محافل میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے تاکہ اُس سلسلہ  نور سے ہر سانس کا رشتہ برقرار رہے‘ جو کائنات کا حاصل اُور رواں دواں ہے۔

توجہ طلب ہے کہ مولوی جیؒ کے عرس مبارک کی مناسبت سے ماضی کی طرح بڑے اجتماعات کرنے اُور جذباتی انداز میں فیصلہ کرنے کی بجائے اہل تصوف و طریقت نے خاطرخواہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے‘ جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت تھی اُور اُمید ہے کہ اِس کی تقلید کرتے ہوئے دیگر علمی ادبی روحانی سیاسی اُور سماجی طبقات بھی اپنے اپنے قول و فعل سے ثابت کریں گے کہ وہ جذبات و روایات کی رو میں بہنے اُور اندھی تقلید کی بجائے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے اُور اِن کے مطابق معمولات کی تبدیلی جیسی دانشمندانہ جرات رکھتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ گنجان آباد پشاور کے دل میں واقع ’آستانے عالیہ قادریہ‘ کہ جہاں سارا سال‘ ہر دن‘ روحانی و اجتماعی عبادات و محافل کا انعقاد معمول رہتا ہے اُور جہاں ہر مہینے کی مقررہ مناسبت سے سینکڑوں ہزاروں مریدوں کے اجتماعات ہوتے ہیں لیکن آج وہاں سے مختلف عصری وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے اُور مریدوں و طالبین ذوق و شوق کو اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے براہ ¿ راست کر دیا گیا ہے اُور یوں گھر گھر آستانہ عالیہ قادریہ کی کھڑکیاں کھل گئی ہیں جن سے دنیاوی و اخروی بخشش و نجات کا باعث بننے والی ہوائیں اُور دعائیں آ رہی ہیں اُور دنیا کے کونے کونے میں گھر گھر فیضیاب ہو رہے ہیں۔ مولوی جیؒ کے فیضانِ نظر کا یہ سلسلہ اُور انداز اپنی جگہ روحانی سرور و مسرت کا باعث ہے کہ ایک دنیا سرچشمہ ہدایت سے سیراب ہو رہی ہے اُور کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خدشات تحفظات اُور خصوصی انتظامات میں روحانی محافل کی اہمیت و تقدس کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مولوی جیؒ کا عرس مبارک عیسوی تاریخ کی مناسبت سے بعدازاں منانے کا اہتمام کیا جائے گا بشرطیکہ کورونا وائرس کی وبا سے حالات معمول پر آ جائیں گے۔

مولوی جیؒ سے براہ راست تحصیل و تربیت کا شرف اُور سلسلہ  عالیہ قادریہ حسنیہ سے بعدازاں وابستہ ہونے والے مریدوں و طلاب کے لئے عرس مبارک کے جاری لمحات ’احتساب کی گھڑی‘ بھی ہیں کہ جنہیں اپنے معمولات زندگی بشمول عبادات اُور دنیاوی معاملات پر ایک نظر کرنی ہے کہ مولوی جیؒ نے جس طریق و تسلسل سے تعلیم و تربیت کے ذریعے اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو اپنے قول و فعل کی صورت پیش کیا‘ اُس پر عمل درآمد (اتباع) کی صورتحال کیسی ہے اُور وہ کون کون سے نظرانداز شعبے ہیں‘ جن میں بہتری کی گنجائش کے لئے روحانی و دنیاوی تربیت کے مراحل و مدارج طے ہونا باقی ہیں۔

اہل پشاور کے لئے اندرون یکہ توت (منڈا بیری روڈ)‘ آستانہ عالیہ قادریہ (کوچہ آقا پیر جان) کسی اضافی تعارف کا محتاج نہیں۔ تحریک پاکستان سے لیکر عصر حاضر تک اِس خانوادے کا اثرورسوخ صرف مذہبی اُور روحانی ہی نہیں بلکہ پشاور سے عہد وفا کا تسلسل بھی ہے‘ جو (الحمدللہ) پشت در پشت‘ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ مولوی جیؒ کے فرزند سجادہ نشیں سیّد نور الحسنین قادری گیلانی المعروف سلطان آغا مدظلہ العالی اُور تاج الشریعہ سیّد نور سبطین قادری گیلانی المعروف تاج آغا مدظلہ العالی اپنے گھرانے کی علمی‘ ادبی‘ سیاسی سماجی اُور روحانی وراثت کو نئی بلندیوں سے روشناس کرانے کے لئے جس انداز میں جدید عصری اسلوب اُور ذرائع ابلاغ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کا استعمال کر رہے ہیں وہ اُن کی محنت و خلوص کا منہ بولتا ثبوت اُور اِس حقیقت کا روشن پہلو ہے کہ ہر دور میں پیران پیر سیّد عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کی رشدوہدایت کے چراغ (شمع عمل) سے پشاور منور رہے گا اُور اِس درگاہ عظیم و عالیشان سے فیض و عنایات کے سلسلے بھی جاری و ساری رہیں گے۔
شاہِ جیلاں کی چوکھٹ سلامت رہے‘ تا قیامت رہے
نقش ِپا کا چمن پر کرامت رہے‘ تا قیامت رہے
خَلعت اجتبا زیب ِقامت رہے‘ تا قیامت رہے
سَر پہ ولیوں کا تاجِ امامت رہے‘ تا قیامت رہے:
سلسلہ غوث ِاَعظمؒ کے فیضان کا‘ مرحبا مرحبا
(پیر نصیرالدین نصیر گولڑویؒ)
Clipping from Daily Aaj Peshawar Abbottabad May 08 2020 Friday

Clipping from Daily Aaj Peshawar Abbottabad May 08 2020 Friday

Obituary: Ahmed Ayaz alias Jani of Peshawar!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
”جانی“ نقصان
وہ سخت جان تھا ایسا کہ چیخ بھی نہ سکا: فغاں فغاں تھی جہاں مرگ ناگہانی پر ....
اَحمد اَیاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔
کم و بیش تین ہفتے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے بعد سات مئی (تیرہویں رمضان المبارک کی) سحری کے اختتام سے چند منٹ قبل اُس کی شہادت سے متعلق مطلع کرتے ہوئے احمد ریاض (مرحوم کے بھائی) کی آواز پر افسوس کا غلبہ تھا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال (پشاور) میں مصنوعی آلہ تنفس (وینٹیلیٹر) کے ذریعے علاج معالجے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں اُور اِس عمل میں گزشتہ چند دنوں سے اہل خانہ کو ملاقات یا اُسے دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی‘ جن کے لئے یہ صدمہ بھی اپنی جگہ کم نہیں۔ وہ ایک عرصے سے زیرعلاج اُور نظروں سے اُوجھل تھا لیکن اُمید تھی کہ خاموش طبع‘ صوم و صلوة کے پابند کا ہمیشہ کی طرح مطمئن چہرہ پھر سے دیکھنے کو ملے گا کیونکہ وہ خوراک کے معاملے میں اِس حد تک محتاط تھا کہ چائے اُور قہوہ جیسے مشروبات بھی ایک خاص حد سے زیادہ استعمال نہیں کرتا تھا۔ محبتیں نچھاوڑ کرنے والے (پچپن سالہ) احمد ایاز کو اہل خانہ اُور عزیزواقارب ’جانی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ نام والدین کی طرف سے بچپن میں شاید اِس وجہ سے دیا گیا ہوگا کہ اُس کے چہرے سے ہمیشہ ایک ہی طرح کی معصومیت اُور اطمینان چھلکتا تھا۔ ذہن نیشن رہے کہ اہل پشاور کے رہن سہن اُور معاشرت سے متعلق ایک خوبصورت روایت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بچوں کے عرفی نام رکھتے ہیں اُور یہ نام اصل ناموں کی طرح ساری زندگی ایک خاص حلقہ ¿ احباب میں پکارے و مخاطب کئے جاتے ہیں۔ ”جانی“ بھی ایسا ہی خوبصورت اُور مرکب نام تھا جو اندرون پشاور کی یونین کونسل گنج کے محلہ دفتر بنداں میں رہنے والوں کے لئے مانوس اُور ایک ایسی خاموش طبع شخصیت کا حوالہ تھا‘ جسے فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ محلے اُور علاقے کے سارے بچے کرکٹ کے مرض میں مبتلا تھے لیکن جانی کے لئے سوائے فٹ بال کسی دوسرے کھیل میں کشش نہ تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوڈو‘ تاش یا کیرم بورڈ جیسے ’اِن ڈور کھیلوں‘ میں بھی اُس وقت بمشکل‘ مختصر اُور بہ امر مجبوری حصہ لیتا‘ جب شادی سے قبل گھر آئے دوست احباب اُسے مجبور کرتے جبکہ شادی کے بعد اُور گنج سے گل بہار منتقل ہونے کے بعد تو اُس کی زندگی اپنے گھر اُور اپنی ذات تک محدود ہو گئی تھی‘ جس کے چکر سے وہ خوشی یا غم کے مواقعوں پر نکلتا۔ دراز قد‘ کھلاڑیوں کی طرح چست جسم اُور سادہ لیکن پروقار لباس کے ساتھ اُس کا چہرے ہمیشہ سپاٹ رہتا۔ جان پہچان والے شخص سے ملنے پر چند ثانیے مسکراہٹ کی آمدورفت میں زیادہ وقفہ نہ ہوتا۔ اُسے دلی جذبات اُور خیالات کے اظہار پر قابو رکھنے جیسی مہارت حاصل تھی۔ کسی معاملے میں اُس کی رائے معلوم کرنا ہوتی تو اُس کے چہرے سے پریشانی کرب کی صورت عیاں ہو جاتی۔

تحمل مزاجی اُس کی عادت‘ خاصہ و تعارف بن چکی تھی۔ وہ ہر معاملے کے تکنیکی پہلوو ¿ں کا باریک بینی سے جائزہ لینے اُور نفاست کا قائل تھا لیکن جس ”ایک غلطی“ نے اُسے چاہنے والوں سے بظاہر اُور جسمانی طور پر الگ کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ اُس نے پشاور میں کورونا وائرس (وبا) کے پھیلنے (26 مارچ سے ماہ ¿ اپریل کے دوسرے ہفتے تک) سماجی دوری اختیار نہیں کی اُور آٹے و اجناس کی تھوک (ہول سیل) و پرچون منڈی‘ رام پورہ گیٹ میں اپنے آبائی کاروبار کی دیکھ بھال حسب معمول کرتا رہا۔ اگرچہ اُس نے شروع دن سے چہرے کو غلاف (ماسک) اُور ہاتھوں کو دستانوں سے ڈھانپ لیا تھا لیکن کاروباری مصروفیات میں (غیردانستہ طور پر) خاطرخواہ احتیاط نہیں کر پایا‘ جو ممکن بھی نہیں کہ اگر کوئی دکاندار ہر روز ایسے سینکڑوں گاہگوں سے روابط رکھتا ہے جو قرب و جوار کے علاو ¿ہ مختلف اضلاع سے پشاور آتے ہیں تو اِحتیاط کے باوجود بھی بچاو ¿ ممکن نہیں رہتا اُور یہی وہ نکتہ ہے جو پشاور کے دیگر کاروباری طبقات بالخصوص اُن تمام دکانداروں کو سمجھنا چاہئے جو جذباتی انداز میں ’لاک ڈاو ¿ن‘ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اُور سمجھتے ہیں کہ اگر تجارتی مراکز اُور بازار حسب معمول کھول دیئے جائیں گے اُور کچھ احتیاط برتی جائے گی تو کورونا وائرس پھیلنے یا لاحق ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا! اَحمد ایاز اُور اِس جیسے دیگر مریضوں کی مثالیں لائق توجہ ہیں‘ جن کی صورت ہونے والا ”جانی نقصان“ اُس ”واجبی منافع“ سے کئی گنا زیادہ (ناقابل تلافی) ہے‘ جس کے بارے میں سوچیں تو افسوس اُور صدمہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

احمد ایاز محنت کش تھا۔
رزق حلال کے لئے اُس کی زندگی کے معمولات میں صبح 9 بجے سے بوقت عصر یا اِس سے کچھ کم زیادہ وقت کے لئے دکان پر رہنا سالہا سال سے معمول رہا‘ جسے ترک کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سردی ہو یا گرمی‘ بارش ہو یا بہار و خزاں‘ اُس کی آمدروفت کے معمولات قریب ایک جیسے ہی رہتے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اہل پشاور کے تاجروں کی اکثریت ایسے ہی معمولات میں اپنی زندگیاں بسر کرتی ہے‘ جو اُوقات میں تو تقسیم ہے لیکن اُس میں بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کا احساس و ادراک شامل نہیں ہوتا۔ احمد ایاز کے لئے کورونا وبا کی ابتدائی علامات (بخار کی شدت‘ خشک کھانسی‘ جسم کے مختلف حصوں میں بیٹھے بٹھائے (بنا تھکاوٹ) درد کا احساس اُور چکھنے کی قوت میں تبدیلی) تشویش کا باعث نہیں تھیں۔ اُس نے مختلف علاج آزمائے۔ گھریلو ٹوٹکوں سے ڈسپنسر اُور علاقے کے مختلف ڈاکٹروں سے بتدریج رجوع کیا لیکن کورونا وائرس کے علاو ¿ہ اُس کے دیگر تجزیئے (ٹیسٹ) کروائے گئے اُور آخری مرتبہ اُس نے ’بازارِ کلاں‘ کے جس انتہائی معروف و تجربہ کار ماہر معالج (اسپیشلسٹ) سے رجوع کیا تو اُس بھی نے نمونیہ کی تشخیص کرتے ہوئے ایسی ادویات (تیز اثر کرنے والی انٹی بائیوٹکس) تجویز کیں‘ جن کے استعمال سے اُس کی جسمانی قوت مدافعت ’کورونا وائرس‘ کے ممکنہ علاج والی ادویات کے مقابلے حائل ہوگئی۔ انتہائی نگہداشت میں علاج شروع ہوا تو ابتدائی مراحل میں اُس کی رگوں میں پہلے سے موجود ادویات کی صفائی کرنا تھی تاکہ ہلکی طاقت والی متعلقہ انٹی بائیوٹکس سے دی جا سکیں‘ جن کا استعمال کورونا وائرس کے خلاف کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اپنی اِس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے اِس کی تفصیلات تو موجود نہیں لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ احمد ایاز اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔ دیگر مریضوں کی طرح وبا سے متاثر ہونے اُور اِس کا شکار بننے جیسے مراحل جان لیوا نہ ہوتے اگر بروقت کورونا وائرس کی تشخیص ہو جاتی۔ اُسے بیماری کی اُس آخری حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا جبکہ وہ بیہوش تھا اُور اُس کے علاج معالجے کی تمام کوششیں اُور اہل خانہ و عزیزواقارب کی دعائیں کام نہ آسکیں۔ درحقیقت یہ کسی طریقہ علاج کی ناکامی اُور کسی وبا کی کامیابی نہیں بلکہ اِس حقیقت سے انکار اُور اِس متعلق شعور کی کمی ہے کہ کورونا وائرس جان لیوا ہو سکتا ہے اگر معمولات ترک کرکے سماجی دوری اختیار نہ کی جائے۔

احمد ایاز مستحق تھا کہ اُس کی آخری رسومات میں غم زدہ اہل خانہ کے ہمراہ عزیزواقارب اُور دوست احباب بڑی تعداد میں شریک ہوتے‘ اُس کی تدفین اُن خاص قواعد (SOPs) کے تحت کی گئی ہے جبکہ بڑے جنازے جیسے دعائیہ اجتماع اُور آخری دیدار جیسے اعمال بامعنی و بامقصد ہوتے ہیں۔ احمد ایاز کے لئے نمازِ وحشت قبر کی ادائیگی کرتے ہوئے چند آنسو اُس دائمی حسرت کے نام رہے کہ اُسے شایان شان طریقے الوداع نہیں کیا جا سکا۔ 
”جائے عبرت سرائے فانی ہے .... مورد مرگ ناگہانی ہے (مرزا شوق لکھنوی)۔“

Clipping from Daily Aaj - Editorial Page - May 08, 2020 Friday

Clipping from Daily Aaj Editorial Page May 08 2020 Friday