Wednesday, October 1, 2014

Oct2014: Our attitude & governance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آخر کیا بنے گا؟
جب ہم ’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب‘ سے نہیں کرتے تو بھی مایوسی ہی ہوتی ہے‘ نجانے ہم کس زعم اور کس دنیا میں رہتے ہیں جہاں نہ تو صفائی کا شعور عام ہے اور نہ ہی فرائض و ذمہ داریوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جا رہا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُس سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو اور اس پر عجب یہ کہ ہمارے شوق بھی عجیب ہیں‘ مہمات بھی منفرد ہیں۔ خوشیاں بھی جدا اور غم بھی ایسے ہیں کہ ان کی گہرائی ایک سے بڑھ کر ایک شدید ہے۔ ہم میں بحیثیت قوم صبر و برداشت کی کمی ہے۔ کہیں لائن لگی ہو تو ہمیں بے چینی ہونے لگتی ہے۔ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے دوسروں کی حق تلفی کرتے ہوئے گویا ہمیں لطف آتا ہے۔

چونکہ ہم میں سے ہر ایک بندہ خود بد دیانت ہے مگر دوسروں سے دیانت داری کی توقع رکھتا ہے۔ ذخیرہ اندوز سے جب سرکاری دفتر میں رشوت طلب کی جاتی ہے تو وہ تاسف سے کہتا ہے ’’آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ رشوت خور کو اگر کوئی ذمہ دار پکڑتا ہے تو شرمندہ ہونے کے بجائے مزید سینہ پھلا کر چلتا ہے۔ روزمرہ کا معمول ہے کہ ٹریفک قواعد کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جب کوئی اپنی گاڑی رواں ٹریفک میں گھسیڑ کر اسے بلاک (block) کر دیتا ہے تو غصے سے کہتا ہے ’’ان لوگوں میں ڈرائیونگ کا شعورہی نہیں۔‘‘ دوسرے کی طرف سے قطار توڑنے پر مرنے مارنے کے لئے تل جانے والا خود یہ حرکت کرے تو فاتحانہ مسکراہٹ سے کہتا ہے ’’یہ پاکستان ہے‘ یہاں سب جائز ہے۔‘‘ رات کو چوری کے لئے جانے والا ساتھیوں کو اپنی ناکامی کا فسانہ یوں سناتا ہے ’’وہ بے ایمان جاگ رہے تھے۔‘‘ (گویا یہ ایماندار تھا اور جو لٹنے سے بچ گئے وہ سب بے ایمان!) زیادتی کے ملزم کے سرپرست جب مظلوم کے گھر راضی نامے کے لئے جاتے ہیں تو واپسی پر بتاتے ہیں ’’بے غیرت مان ہی نہیں رہے!‘‘

ڈاکو اپنی ناکامی کا ذمہ دار شکار کو ٹھہراتا ہے کہ اس نے مزاحمت کر دی۔ جس نے اپنی جڑوں کی سیرابی بدعنوانی سے کی ہوتی ہے‘ وہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ ’’کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔‘‘ یہ ہے کہ پاکستان کہ جہاں آمروں کے حقے تازہ کرنے اور ان کے دستر خوان کی ہڈیاں چبانے والے خم ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں ’’جمہوریت کے لئے تن من دھن نچھاور کر دیں گے!‘‘ مقصدیت اور معقولیت سے عاری دھرنا بازوں کو جب مطلوبہ تعداد میں ’’بھیڑ بکریاں‘‘ تک میسر نہیں آتیں تو وہ آپس میں کہتے ہیں کہ ان لوگوں میں شعور ہی نہیں۔ بنیادی حقوق کی سرکوبی پر مبنی منشور رکھنے والے جن نابغوں کو عوام اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے وہ صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔ کوئی ہمارا توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی واقعے پر سیخ پا ہونا بھی دیکھے اور پھر ناجائز کمائی سے ہماری مکے مدینے کی طرف آنیاں جانیاں بھی ملاحظہ کرے۔ کوئی دنیا کے در در پر پھیلے ہمارے کشکول کی زیارت کرے اور پھر اس میں خیرات ڈالنے والوں کو فتح کرنے کے ہمارے عزم بھی دیکھے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے ارباب اختیار کی تقاریر سنے اور پھر ہمارا شرمناک تعلیمی بجٹ بھی ملاحظہ کرے۔ لوگوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کی خوشخبریاں سنے اور پھر مارکیٹ میں جعلی ادویات کی بھرمار بھی دیکھے۔

جرائم کی بیخ کنی کے دعوے دیکھے اور مجرموں کی سرپرستی کی کہانیاں بھی سنے۔ افسروں اور وزیروں کی رشوت ستانی کے خلاف بڑھکیں سنے اور پھر ان کا معیار زندگی بھی ملاحظہ کرے۔ رہنماؤں کی طرف سے ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کے عزم دیکھے اور پھر ترقی کی تھک تھگڑیاں بھی تماشا کرے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی خوشخبریاں سنے اور پھر لوڈ شیڈنگ کے عذاب بھی چکھے۔ ہماری پانی ملی دودھ فروشیوں سے لے کر ضمیر فروشیوں وملت فروشیوں پر نگاہ ڈالے اور پھر ہمارے بزعم خویش امہ کی قیادت کے دعوؤں پر دانتوں میں انگلیاں بھی دابے۔ غریب عوام کے غم میں رہنمائے ملت کے آنسوؤں کے درشن کرے اور پھر غریبوں کی کمائی سے ان کی عیاشیاں بھی دیکھے۔ دہشت گردی سے اڑتے انسانیت کے پرخچے دیکھے اور آپریشن ضرب عضب پر صالحین کی دل گرفتگی پر بھی سَر دھنے۔ اتحاد امت کے لئے ہماری تڑپ کا نظارہ کرے اور پھر کفر کے فتوے بھی سنے۔ اربوں کے بنگلوں میں مسکراتی زندگی دیکھے اور پھر کچی بستیوں میں سسکتی انسانیت کے درشن بھی کرے۔ ’صفائی نصف ایمان‘ کے ہمارے لیکچرسنے اور پھر فکری جالے اور گندگی سے اٹے نالے بھی دیکھے۔

ہم وہ پارہ صفت ہیں کہ بیک وقت شوقِ جمہوریت بھی پال رکھا ہے اورنظریاتی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔ عوام کو اختیارات کا منبع کہتے ہیں اور ان کا فیصلہ بھی قبول نہیں۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے قائل ہیں اور آزادی اظہار کا سلیقہ بھی نہیں۔ تنقید کو اپنا حق خیال کرتے ہیں اور تنقید کا قرینہ بھی نہیں۔ سچ‘ ایمانداری‘ قانون کی پاسداری‘ انصاف اور احترامِ انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ہیں اور ہم کج ادا‘ اِن سے دور بھی ہیں اور دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر مصر بھی۔ مقابلہ خوب ہے کہ مہذب دنیا ہماری بدعنوانی‘ غربت‘ جہالت‘ ناخواندگی‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ جرائم اور حرص و طمع کیاعدادو شمار بیان کرتی ہے اور جواب میں ہم اپنا سر شرم سے جھکانے کی بجائے اُن کی خامیوں کے دفتر کھول دیتے ہیں‘ آخر ہمارا کیا بنے گا؟ ’’زباں پہ مصلحت‘ دل میں محبت۔۔۔بڑا آیا محبت کرنے والا!‘‘