مہمان کالم:شبیرحسین امام
الیکشن انجنیئرنگ
عام انتخابات کی بہار میں نجی و سرکاری ٹیلی ویژن چینلوں پر جاری بحث کا زاویہ اور زور (focus) جن موضوعات پر ہے اُن میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے تو کیا یہ حسن اِتفاق ہے؟ اِس مرتبہ الیکشن کمشن کی جانب سے انتخابی حلقہ بندیاں ازسرنو مرتب کرنے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کی حدود اور ماضی کی حلقہ بندیوں میں بنیادی ردوبدل کے بارے میں معلومات جاری نہیں کی جا رہیں تو کیا یہ بھی حسن اتفاق ہے؟
الیکشن کمشن آف پاکستان کے پاس ’جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس)‘ کے تحت مرتب شدہ جغرافیائی اعدادوشمار سے متعلق ڈیٹا‘‘ نہیں‘ کیا یہ حسن اتفاق ہی کا اعجاز ہے؟ طویل تاخیر کے بعد غیرضروری جلدبازی میں بناء ’GiS‘ مردم و خانہ شماری کرنا بھی حسن اتفاق ہے؟ بہت بڑے پیمانے پر ’اِنتخابی نتائج‘ پہلے ہی سے تیار کر لئے گئے ہیں‘ جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے ’پچیس جولائی‘ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ اُس بااختیار ’درپردہ قوت‘ کے بارے میں نہ پوچھیں جو اِس پوری کہانی کی تخلیق کار ہے اور اگر کوئی اپنے ذہن سے‘ اپنے رسک پر‘ نتیجہ اخذ کرنا چاہے تو دیکھ لے کہ پاکستان میں وہ طاقت کونسی ہے جس کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے!؟
الیکشن انجنیئرنگ کا سارا کمال ’انتخابی حلقہ بندیوں‘ میں چھپا ہوا ہے!
الیکشن انجنیئرنگ کا سارا کمال ’انتخابی حلقہ بندیوں‘ میں چھپا ہوا ہے!
نئی اِنتخابی حلقہ بندیوں کے ’اَثرات بصورت نتائج‘ ظاہر ہونے کے بعد دو طرح کے ممکنہ ردعمل دیکھنے میں آئیں گے۔ عوام کی حیرانی و پریشانی ظاہر ہو سکتی ہے‘ کیونکہ بڑی تعداد میں غیرمقبول افراد منتخب ہو جائیں گے اور دوسرا ممکنہ ردعمل سیاسی جماعتوں اور نامور سیاسی کرداروں کی طرف سے ’احتجاجی تحریک‘ کی صورت دیکھنے میں آ سکتا ہے‘ جس کے بعد امن و امان کی صورتحال اِس حد تک خراب ہو جائے گی کہ (بہ امر مجبوری) چند برس یا برس ہا برس کے لئے جمہوریت معطل کر دی جائے۔ مئی 2013ء کے (دسویں) عام انتخابات اِس لحاظ سے منفرد تھے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کے بعد چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں اکثریتی جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف‘ پنجاب میں مسلم لیگ نواز‘ سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز جبکہ بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان میں براہِ راست انتخاب والے حلقوں کی کل تعداد 849 ہے۔ قومی اسمبلی کے 272حلقوں کی تعداد کو منہا کردیا جائے تو ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے‘ براہِ راست انتخابی حلقوں کی تعداد 577ہے‘ جن میں پنجاب کے 297‘ سندھ کے 130‘ خیبر پختونخوا کے 99اور بلوچستان کے 51 انتخابی حلقے شامل ہیں۔
سائنسی تجزیہ یہ ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ نے پنجاب اسمبلی کی 297نشستوں میں سے 212 حاصل کیں جو 71فیصد تھیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی 130نشستوں میں سے 70حاصل کیں جو 54فیصد تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 99 میں سے 35 نشستیں حاصل کیں‘ جو 34فیصد تھا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 51میں سے 10نشستیں حاصل کیں جو 20فیصد بنتی تھیں۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب میں نواز لیگ کے مدمقابل سیاسی حریفوں کو صرف 29فیصد‘ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مدِمقابل سیاسی حریفوں کو 46فیصد جبکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مدِمقابل سیاسی حریفوں کو 66فیصد ووٹ ملے تھے۔ یوں پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (نواز لیگ‘ پییپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف) کو صوبائی اسمبلیوں میں ملنے والی نشستوں کی تعداد سے تھا کہ نواز لیگ اپنے انتخابی ’’بیس کیمپ پنجاب‘‘ میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط جبکہ تحریکِ انصاف اپنے انتخابی ’’بیس کیمپ خیبر پختونخوا‘‘ میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے کمزور تھی۔ لائق توجہ ہے کہ نواز لیگ نے پنجاب میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں سادہ اکثریت کے ساتھ جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کو سادہ اکثریت کے ساتھ‘ جماعت اسلامی‘ قومی وطن پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ ’غیرفطری اتحاد‘ کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ ’’عام انتخابات جولائی 2018ء‘‘ میں کیا ہونے جارہا ہے؟
مئی 2013ء کے مقابلے (متوقع) عام انتخابات میں سوائے تحریک انصاف ہر سیاسی جماعت خود کو مشکل میں تصور کر رہی ہے اور اِس سے زیادہ موافق (آسان) سیاسی و انتخابی حالات ’غنیمت‘ سے کم نہیں تو کیا اِسے ’حسن اتفاق‘ قرار دیا جائے!؟ نئے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کے انتخابی کامیابی ناممکن حد تک دشوار بنا دی گئی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آزاد اُمیدوار محدود مالی وسائل اور انتخابی تجربے کی بنیاد پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے یہ تک معلوم نہیں کر سکیں گے کہ اُن کے حلقے کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہو رہے ہیں!
الیکشن کمشن اگر 28 جون کو حسب اعلان انتخابی حلقہ بندیوں کے اعدادوشمار اور پولنگ مراکز کے نام جاری کر دیتا ہے تو بھی تین ہفتوں میں پولنگ اسٹیشنوں کو ڈھونڈنا اور اِس بات کا موازنہ کرنا کہ متعلقہ ووٹرز کے لئے یہ پولنگ اسٹیشن کتنے قابل رسائی (نزدیک) ہیں اور کیا پولنگ مراکز پر درج کی گئی ووٹروں کی تعداد (شمار) منطقی ہے کہ وہ مقررہ پولنگ اوقات میں اپنا ووٹ سہولت سے ڈال سکیں گے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمشن پولنگ کے وقت پر نظرثانی کرنے کی درخواست پہلے ہی مسترد کر چکا ہے تو کہیں موسم گرما کی شدت کو نظرانداز کرتے ہوئے ووٹروں کو انتخاب نہیں بلکہ امتحان میں مبتلا کر دیا گیا ہے؟ پولنگ مراکز پر سایہ دار جگہیں‘ پینے کے صاف اور ٹھنڈے پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ایک الگ ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا کے تناظر میں ’’تبدیلی‘‘ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عوام کی اکثریت ہر پانچ برس بعد ’سیاسی جماعت بدل‘ لیتی ہے اور پانچ برس بمشکل اتحادی حکومت چلانے والی ’تحریک انصاف‘ کو اگلے پانچ برس کے لئے مضبوط مینڈیٹ ملنے کی اُمید تو ہے لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی‘ قومی وطن پارٹی‘ جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور جماعت اسلامی کی قیادت میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ جیسے چیلنجز کو خاطر میں نہیں لا رہی! تو اِس کی وجہ وہ ’’الیکشن انجنیئرنگ‘‘ ہے‘ جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہی لیکن اِس کی موجودگی نہ تو ’خارج اَز امکان‘ ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت‘ جس میں تہہ در تہہ سچائیاں چھپی ہوئی ہیں! ’’مخالف ہو گئے مرکز کے لیکن ۔۔۔ اگر ٹوٹا نہ ہم سے دائرہ تو؟ (وکاس شرما رازؔ )۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔