Thursday, June 28, 2018

Jun2018: Election Engineering for July 2018 polls!

مہمان کالم:شبیرحسین امام
الیکشن انجنیئرنگ
عام انتخابات کی بہار میں نجی و سرکاری ٹیلی ویژن چینلوں پر جاری بحث کا زاویہ اور زور (focus) جن موضوعات پر ہے اُن میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے تو کیا یہ حسن اِتفاق ہے؟ اِس مرتبہ الیکشن کمشن کی جانب سے انتخابی حلقہ بندیاں ازسرنو مرتب کرنے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کی حدود اور ماضی کی حلقہ بندیوں میں بنیادی ردوبدل کے بارے میں معلومات جاری نہیں کی جا رہیں تو کیا یہ بھی حسن اتفاق ہے؟ 

الیکشن کمشن آف پاکستان کے پاس ’جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس)‘ کے تحت مرتب شدہ جغرافیائی اعدادوشمار سے متعلق ڈیٹا‘‘ نہیں‘ کیا یہ حسن اتفاق ہی کا اعجاز ہے؟ طویل تاخیر کے بعد غیرضروری جلدبازی میں بناء ’GiS‘ مردم و خانہ شماری کرنا بھی حسن اتفاق ہے؟ بہت بڑے پیمانے پر ’اِنتخابی نتائج‘ پہلے ہی سے تیار کر لئے گئے ہیں‘ جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے ’پچیس جولائی‘ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ اُس بااختیار ’درپردہ قوت‘ کے بارے میں نہ پوچھیں جو اِس پوری کہانی کی تخلیق کار ہے اور اگر کوئی اپنے ذہن سے‘ اپنے رسک پر‘ نتیجہ اخذ کرنا چاہے تو دیکھ لے کہ پاکستان میں وہ طاقت کونسی ہے جس کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے!؟

الیکشن انجنیئرنگ کا سارا کمال ’انتخابی حلقہ بندیوں‘ میں چھپا ہوا ہے!

نئی اِنتخابی حلقہ بندیوں کے ’اَثرات بصورت نتائج‘ ظاہر ہونے کے بعد دو طرح کے ممکنہ ردعمل دیکھنے میں آئیں گے۔ عوام کی حیرانی و پریشانی ظاہر ہو سکتی ہے‘ کیونکہ بڑی تعداد میں غیرمقبول افراد منتخب ہو جائیں گے اور دوسرا ممکنہ ردعمل سیاسی جماعتوں اور نامور سیاسی کرداروں کی طرف سے ’احتجاجی تحریک‘ کی صورت دیکھنے میں آ سکتا ہے‘ جس کے بعد امن و امان کی صورتحال اِس حد تک خراب ہو جائے گی کہ (بہ امر مجبوری) چند برس یا برس ہا برس کے لئے جمہوریت معطل کر دی جائے۔ مئی 2013ء کے (دسویں) عام انتخابات اِس لحاظ سے منفرد تھے کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کے بعد چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں اکثریتی جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف‘ پنجاب میں مسلم لیگ نواز‘ سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز جبکہ بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان میں براہِ راست انتخاب والے حلقوں کی کل تعداد 849 ہے۔ قومی اسمبلی کے 272حلقوں کی تعداد کو منہا کردیا جائے تو ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے‘ براہِ راست انتخابی حلقوں کی تعداد 577ہے‘ جن میں پنجاب کے 297‘ سندھ کے 130‘ خیبر پختونخوا کے 99اور بلوچستان کے 51 انتخابی حلقے شامل ہیں۔

سائنسی تجزیہ یہ ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ نے پنجاب اسمبلی کی 297نشستوں میں سے 212 حاصل کیں جو 71فیصد تھیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی 130نشستوں میں سے 70حاصل کیں جو 54فیصد تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 99 میں سے 35 نشستیں حاصل کیں‘ جو 34فیصد تھا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 51میں سے 10نشستیں حاصل کیں جو 20فیصد بنتی تھیں۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب میں نواز لیگ کے مدمقابل سیاسی حریفوں کو صرف 29فیصد‘ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مدِمقابل سیاسی حریفوں کو 46فیصد جبکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مدِمقابل سیاسی حریفوں کو 66فیصد ووٹ ملے تھے۔ یوں پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (نواز لیگ‘ پییپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف) کو صوبائی اسمبلیوں میں ملنے والی نشستوں کی تعداد سے تھا کہ نواز لیگ اپنے انتخابی ’’بیس کیمپ پنجاب‘‘ میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط جبکہ تحریکِ انصاف اپنے انتخابی ’’بیس کیمپ خیبر پختونخوا‘‘ میں تینوں سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے کمزور تھی۔ لائق توجہ ہے کہ نواز لیگ نے پنجاب میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں سادہ اکثریت کے ساتھ جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کو سادہ اکثریت کے ساتھ‘ جماعت اسلامی‘ قومی وطن پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ ’غیرفطری اتحاد‘ کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ ’’عام انتخابات جولائی 2018ء‘‘ میں کیا ہونے جارہا ہے؟ 

مئی 2013ء کے مقابلے (متوقع) عام انتخابات میں سوائے تحریک انصاف ہر سیاسی جماعت خود کو مشکل میں تصور کر رہی ہے اور اِس سے زیادہ موافق (آسان) سیاسی و انتخابی حالات ’غنیمت‘ سے کم نہیں تو کیا اِسے ’حسن اتفاق‘ قرار دیا جائے!؟ نئے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کے انتخابی کامیابی ناممکن حد تک دشوار بنا دی گئی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آزاد اُمیدوار محدود مالی وسائل اور انتخابی تجربے کی بنیاد پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے یہ تک معلوم نہیں کر سکیں گے کہ اُن کے حلقے کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہو رہے ہیں! 

الیکشن کمشن اگر 28 جون کو حسب اعلان انتخابی حلقہ بندیوں کے اعدادوشمار اور پولنگ مراکز کے نام جاری کر دیتا ہے تو بھی تین ہفتوں میں پولنگ اسٹیشنوں کو ڈھونڈنا اور اِس بات کا موازنہ کرنا کہ متعلقہ ووٹرز کے لئے یہ پولنگ اسٹیشن کتنے قابل رسائی (نزدیک) ہیں اور کیا پولنگ مراکز پر درج کی گئی ووٹروں کی تعداد (شمار) منطقی ہے کہ وہ مقررہ پولنگ اوقات میں اپنا ووٹ سہولت سے ڈال سکیں گے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمشن پولنگ کے وقت پر نظرثانی کرنے کی درخواست پہلے ہی مسترد کر چکا ہے تو کہیں موسم گرما کی شدت کو نظرانداز کرتے ہوئے ووٹروں کو انتخاب نہیں بلکہ امتحان میں مبتلا کر دیا گیا ہے؟ پولنگ مراکز پر سایہ دار جگہیں‘ پینے کے صاف اور ٹھنڈے پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ایک الگ ضرورت ہے۔ 

خیبر پختونخوا کے تناظر میں ’’تبدیلی‘‘ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عوام کی اکثریت ہر پانچ برس بعد ’سیاسی جماعت بدل‘ لیتی ہے اور پانچ برس بمشکل اتحادی حکومت چلانے والی ’تحریک انصاف‘ کو اگلے پانچ برس کے لئے مضبوط مینڈیٹ ملنے کی اُمید تو ہے لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی‘ قومی وطن پارٹی‘ جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور جماعت اسلامی کی قیادت میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ جیسے چیلنجز کو خاطر میں نہیں لا رہی! تو اِس کی وجہ وہ ’’الیکشن انجنیئرنگ‘‘ ہے‘ جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہی لیکن اِس کی موجودگی نہ تو ’خارج اَز امکان‘ ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت‘ جس میں تہہ در تہہ سچائیاں چھپی ہوئی ہیں! ’’مخالف ہو گئے مرکز کے لیکن ۔۔۔ اگر ٹوٹا نہ ہم سے دائرہ تو؟ (وکاس شرما رازؔ )۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, June 23, 2018

Jun2018: Jaag Peshori Jaag

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سماج بمقابلہ اِنتخاب!
سیاست کا اعجاز یہ ہے کہ اِس میں ظاہری بیان‘ مدعا اور مافی الضمیر بالکل مختلف اور الگ الگ (متضاد) بھی ہو سکتے ہیں۔ متوقع عام اِنتخابات (پچیس جولائی) کے لئے جہاں ’تجربہ کار‘ اُور ’مجرب‘ سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں‘ وہیں ناراض سیاسی کارکن ’آزاد حیثیت‘ سے شکار کرنے نکل پڑے ہیں‘ تاہم آئندہ انتخابات کے لئے نہایت ہی کم تعداد میں ایسے نئے چہرے (تصورات) بھی متعارف ہوئے ہیں‘ جنہیں پذیرائی کی صورت ملنے والی ’سماجی کامیابیاں‘ انتخابی کامیابیوں‘ سے کئی گنا زیادہ بڑھ کر ہیں اور اِس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ ایک تو ’نئی سیاسی جماعتوں‘ اور بناء سہارے و انتخابی تجربے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنا معمولی بات نہیں اور دوسرا‘ روائتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے ’’مقامی مسائل کا مقامی حل تجویز‘‘ کرنے والوں کی دعوت و تبلیغ پر ’سوچ بچار اُور گفت و شنید‘ کا جاری عمل کیا رائیگاں جائے گا؟ ’حرکت میں برکت‘ کے سیدھے سادے اصول کی عملی تشریح کرنے والی جماعت ’ہندکووان پاکستان تحریک‘ نے ’جاگ پشاور جاگ‘ کی بجائے ’جاگ پشاوری جاگ‘ کے عنوان (نعرے) سے انتخابی جدوجہد کا آغاز کیا ہے‘ جو سنجیدہ غوروخوض کا متقاضی ہے لیکن بدقسمتی سے اِس تحریک کے اِردگرد اُور فیصلہ سازوں میں وہی ’نامی گرامی‘ کردار نظر آتے ہیں جو ماضی میں پشاور کو لوٹنے والوں کی تعریفوں کے عوض اپنی نوکریاں پکی کرنے اُور مراعات حاصل کرتے رہے اور آج بھی علمی ادبی اور نشری و نشریاتی اداروں (حلقوں) اور سرکاری محافل کی رونقوں میں اضافے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں‘ ملکی و غیرملکی سرکاری دوروں میں شامل ہو اہمیت پاتے ہیں اور اعزازات سے نوازے جاتے ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’جاگ پشاوری جاگ‘ انجمن ستائش باہمی جیسی تنظیم سازی سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائے گی کیونکہ تحریک میں ’زندگی کی رمق‘ تو موجود ہے لیکن وہ ’سپارک (spark)‘ نہیں جس سے انجن چل پڑے اور گاڑی رواں دواں ہو۔ کچھ عرصہ بعد سننے کو ملے گا کہ تحریک کے خالق اور روح رواں کا سرمایہ چند خوشامدیوں کی جیبوں میں منتقل ہو چکا ہے اور اُن سے حاصل ہونے والا ’بیش قیمت تجربہ‘ ایک ایسا حافظہ ہے‘ جس کے چھن جانے کے لئے خدا سے دعا کی جاتی ہے!

’جاگ پشوری جاگ‘ کو متعصبانہ قرار دینے والے اگر آنکھوں پر لگی ہوئی تعصب کی عینک اُتار کر زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو اُن پر (روز روشن کی طرح) عیاں ہو جائے گا کہ ۔۔۔ کس طرح پشاور پر کیا گزر رہی ہے۔ پشاور اُور بالخصوص پشاور کی ایک قدیمی زبان ’ہندکو‘ بولنے والے مقامی باشندے (ہندکووان) خود کو کس قدر ’راندۂ درگاہ‘ محسوس کر رہے ہیں۔ کس طرح پشاور میں تعمیروترقی کا عمل اِس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی ضروریات کے لئے کافی نہیں رہا۔ کس طرح سرکاری ملازمتوں میں ہندکووانوں کے حقوق غصب ہوئے ہیں اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ سیاسی ترجیحات کی وجہ سے ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والوں پر دیگر اضلاع کو فوقیت کیوں حاصل ہے؟ 

کیا وجہ ہے کہ سب سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہونے کے باوجود بھی پشاور کو قانون ساز صوبائی اسمبلی کی قیادت (وزارت اعلیٰ) نہیں ملتی؟ 

عام انتخابات تو ایک بہانہ ہے درپردہ ’ہندکووان تحریک‘ کا (خالص و بنیادی) مقصد یہ ہے کہ پشاور اور بالخصوص سہل پسند‘ اپنے حال میں مست لیکن گردوپیش میں ہونے والی ’سیاسی سازشوں‘ سے بے خبر پشاوریوں (جنہیں عرف عام میں پشتو زبان کے لفظ (اصطلاح) ’خاریان‘ معنی ’شہری لوگ‘ کہا جاتا ہے) اُنہیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر بیدار کیا جائے اور اُس تعصب کی موجودگی کا اِحساس دلایا جائے جس سے وہ مسلسل انکار کرتے کرتے اِس انتہاء کو پہنچ چکے ہیں کہ آج اُن کی نمائندگی‘ شناخت‘ ورثہ‘ ثقافت‘ تاریخ‘ ماضی و اثاثے حتی کہ سنجیدہ ’ہندکو زبان‘ تک کا وجود خطرے میں ہے بالخصوص جب ہندکو زبان کو ہنسی مذاق اور طنز و مزاح کے لئے مختص کیا جا رہا ہو۔ آج ہندکو زبان کا کوئی نجی ٹیلی ویژن چینل‘ ریڈیو اسٹیشن اور روزنامہ نہیں تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ 

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ’ہندکووان‘ کہیں ثقافتی‘ تو کہیں سماجی اُور سیاسی (انتخابی) طور پر متحد ہو رہے ہیں کیونکہ یہ اپنے تہذیبی ورثے اُور زبان و تاریخی اثاثے کی خاطرخواہ حفاظت نہیں کر پائے ہیں۔ ہندکووانوں نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور اِسی ایک خوبی کو اُن کی سب سے بڑی کمزوری سمجھا گیا۔

حالات کی نزاکت کا تقاضا (احساس) اُور اِس بات کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ۔۔۔ اگر اپنے حقوق اُور شناخت کے لئے ’ہندکووان‘ جلد متحد نہ ہوئے تو اِن کی بقاء کو لاحق خطرات (کی تعداد اُور شدت) میں اِضافہ ہوتا چلے گا لیکن کسی علاج کی کامیابی (تاثیر) کا پہلا اَصول یہ ہوتا ہے کہ ’بیماری کی وجہ بننے والے سبب سے پرہیز کیا جائے یعنی خود کو دھوکہ دینے کی بجائے اُن تمام داخلی و خارجی اثرات کی شناخت کر لی جائے جن کی موجودگی میں علاج کی کوئی بھی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ عارضہ بڑھتا چلا جائے گا۔ جملہ معلوم (سیاسی) کردار جنہوں نے پشاور کی تعمیروترقی کے نام پر اپنے اَثاثوں میں اِضافہ کیا‘ جنہوں نے پشاور کے نام پر پشاوریوں کو دھوکہ دیا‘ اُن سے اِظہار و اعلان بیزاری کے لئے ایک ’نعرۂ مستانہ‘ وقت کی ضرورت ہے۔ 
’’ملتے جلتے‘ ہرے بھرے چہرے: تازہ تازہ دُھلے ہوئے چہرے
دھوکہ کھانے سے یاد آیا ہے: پھر الیکشن‘ نکل پڑے چہرے!؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔


Friday, June 22, 2018

Jun2018: Electioneering NA21 Mardan - PTI vs ANP with much to show as performance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِنتخابی منظرنامہ: NA-21
خیبرپختونخوا کی سیاست میں ’عام انتخابات‘ کو ہمیشہ ہی سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے جس کا انتظار کرنے والے دیگر صوبوں کے مقابلے مثالی (روائتی) صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا ملک کا ایسا واحد صوبہ ہے جس کے ہاں ’نئے سیاسی نظریات‘ کو نہ صرف غور سے سنا جاتا ہے بلکہ کارکردگی دکھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے‘ جیسا کہ ’مئی 2013ء‘ کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملا جب سیاسی تجربہ کاروں کے مقابلے ’تحریک اِنصاف‘ کے مقامی اُور اکثر غیرمقامی اُمیدواروں کو اس قدر بھاری اکثریت سے انتخابی کامیابی کہ وہ خود بھی حیران و پریشان تھے کہ آخر اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے! لیکن پھر حیرانی و پریشانی میں ’تبدیلی تبدیلی کرتے‘ پانچ سال کا عرصہ (آئینی مدت) گزر گئی۔ وہی عام انتخابات اُور وہی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے راگ کہ جن میں اُن کی اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی کارکردگی کو بطور نمونہ پیش کر کے ’ووٹروں کی توجہ (ہمدردیاں)‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ماضی کی طرح خیبرپختونخوا کی سیاست کا یہ ڈھنگ برقرار رہے گا کہ یہاں ذات برادری‘ قوم پرستی اور تھانہ کچہری جیسی ترجیحات کی بجائے ’عملی کارکردگی‘ نہ دکھانے والے حکمرانوں کو ووٹ نہیں دیئے جاتے؟

آئندہ (متوقع) عام انتخابات (پچیس جولائی) میں متوقع کانٹے دار مقابلوں میں ’مردان‘ کا حلقہ ’این اے 21‘ بطور خاص دلچسپ نتائج کا حامل ہوگا جہاں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ رہے امیر حیدر خان ہوتی (عوامی نیشنل پارٹی) اور سابق وزیرتعلیم محمد عاطف خان (پاکستان تحریک انصاف) ایک دوسرے مدمقابل ہیں۔ ماضی میں یہ انتخابی حلقہ ’این اے نائن‘ سے پہچانا جاتا تھا۔ دونوں اُمیدواروں کی انتخابی حکمت عملی میں ’قدر مشترک‘ یہ ہے کہ اِن دونوں ہی نے ایک ایک قومی اور ایک ایک صوبائی اسمبلی حلقوں کا انتخاب کیا ہے لیکن جہاں اِن کا مقابلہ قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست پر ہے وہیں صوبائی اسمبلی کے لئے الگ الگ حلقوں سے مدمقابل ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی سیاسی طاقت (حمایت) کے مراکز ایک دوسرے سے جڑے اور الگ الگ ہیں اور دونوں ہی کی کامیابی کا دارومدار (انحصار) صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اُن کی حمایت پر ہے۔ 

امیر حیدر خان ہوتی نے متبادل کے طور پر صوبائی اسمبلی کا حلقہ ’پی کے 50 (مردان ٹو)‘ جبکہ عاطف خان نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 53 (مردان فائیو)‘ سے ’ساکھ آزمائی‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ اِن دونوں حلقوں پر نواز لیگ کی جانب سے اُمیدواروں کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے ’نواز لیگ‘ انتخابات سے قبل ہی بنیادی مقابلہ سے آؤٹ دکھائی دے رہی ہے۔ عجب ہے کہ جب سبھی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے اپنے اُمیدواروں کو اعلان کر بیٹھی ہیں تو ’نواز لیگ‘ کا کئی ایک حلقوں پر تاحال مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ خیبرپختونخوا کی 39 میں سے 25 اُور صوبائی اسمبلی کی 99 میں سے 53 نشستوں پر نواز لیگ کے نامزد اُمیدوار سامنے آ چکے ہیں لیکن صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اِس مرتبہ دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے چمپئین ’تحریک انصاف‘ کا سخت مقابلہ صرف اور صرف ’عوامی نیشنل پارٹی‘ سے ہوگا جس کی قیادت حزب اختلاف کی جماعتوں سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ اپوزیشن کا ووٹ تقسیم نہ ہو اور ساتھ ہی تحریک انصاف کے ایسے ناراض کارکنوں کی پشت پناہی (حوصلہ افزائی) بھی جاری ہے جو تحریک کے ووٹ بینک کو تقسیم کر سکتے ہیں! 

خیبرپختونخوا کا انتخابی منظرنامہ یہ ہے کہ (متوقع) عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کم و بیش ہر حلقے میں کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ خود اپنی ہی جماعت کے انتخابی اُمیدواروں سے زیادہ نقصان پہنچے گا‘ جس کے واضح امکان کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

دیگر انتخابی حلقوں کی طرح ’این اے 21‘ پر انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ تحریک اِنصاف اُور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک دوسرے پر ’تابڑ توڑ‘ حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ جس میں نہ صرف سیاسی و نظریاتی اختلاف رائے بیان کیا جاتا ہے بلکہ اُمیدوار ایک دوسرے کی ذات‘ خاندان‘ سیاسی ماضی‘ کردار اُور کمزوریوں کو کہیں مزاحیہ تو کہیں سنجیدہ پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ دوہزارتیرہ کے مقابلے ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کے رہنما اِس مرتبہ انتخابی حلقوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اُور اِس کے لئے اِنہیں ’تحریک انصاف‘ کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے‘ جنہوں نے پانچ سال کے اقتدار میں کم سے کم ’امن و امان‘ کی صورتحال کو اِس درجے تو بہتر کر دیا ہے کہ اب رابطہ عوام مہمات کرنے والوں کو خوف نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک اِنصاف کے دور حکومت میں خیبرپختونخوا پولیس میں سب سے کم سیاسی مداخلت ہوئی تو غلط نہیں ہوگا لیکن اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اُٹھے کہ وہ کونسا دور تھا‘ جب خیبرپختونخوا پولیس میں سب سے زیادہ مداخلت ہوتی تھی تو جواب ’عوامی نیشنل پارٹی‘ ہو گا‘ جس کے ساتھ شریک ’پیپلزپارٹی‘ نے اپنے سمیت اِس جاندار قوم پرست جماعت کا بھی خانہ خراب کیا لیکن چونکہ سرمایہ دار‘ جاگیردار اور بڑے زمیندار عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں‘ اِس لئے اُن کا ’’حسب حال جواب‘‘ قدرے مختلف اَنداز سے دینے والی تحریک انصاف نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی سب سے مہنگی انتخابی مہم جاری ہے‘ جس میں قیمتی گاڑیوں اور سرمائے کا استعمال ’الیکشن کے قواعد و ضوابط‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے لیکن تعجب کیوں‘ قانون تو اندھا ہوتا ہے!؟ 

عوامی نیشنل پارٹی کے لئے تحریک انصاف سے زیادہ اپنی حمایت والے علاقوں بشمول ضلع مردان میں انتخابی پوزیشن ناقابل تسخیر بنانا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں ’کالا باغ ڈیم کی تعمیر‘ جیسا معاملہ اُٹھے گا‘ جس پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ’اے این پی‘ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی اپنے مؤقف پر لچک دکھاتے ہوئے دستبردار ہونا چاہتی ہے۔ اگر تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے تو ’’کالا باغ ڈیم منصوبے کو بنانے کی حمایت کرنے والی طاقتیں بھی آئندہ عام انتخابات پر اثرانداز ہونے کی ’’پوری تیاری‘‘ کئے بیٹھی ہیں‘ جن کی نظریں اور دلچسپی ’این اے 21‘ میں بالخصوص دیکھی جا سکتی ہیں۔ 

عوام کا حافظہ چونکہ کمزور ہوتا ہے‘ اِس لئے اُنہیں دوہزارتیرہ سے قبل ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کی کارکردگی یاد نہیں۔ ضلع مردان میں ہوئے ترقیاتی کام کہیں ضرورت سے بہت زیادہ اور کہیں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ ترقیاتی و سیاسی ترجیحات کا واضح نہ ہونا ہے۔ یہی غلطی تحریک انصاف سے بھی سرزد ہوئی‘ جب اُنہوں نے اِنتخابی حلقوں کی سیاست کو کمزور بنیادوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ’این اے 21‘ پر دو انتخابی اُمیدوار نہیں بلکہ دو سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں اور دونوں ہی خالی ہاتھ ’میلہ لوٹنا چاہتی ہیں۔‘ 

Tuesday, June 12, 2018

Jun2018: Change through Vote!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ایک ووٹ کا سوال!
طرزِ حکمرانی کے ثمرات شمار کیجئے۔ دہشت گردی‘ انتہاء پسندی‘ لوڈشیڈنگ‘ توانائی بحران‘ امتیازی قوانین‘ لاقانونیت‘ منظم جرائم‘ خوف‘ استحصال‘ سفارش‘ تھانہ کچہری کلچر‘ رشوت‘ مالی و انتظامی بدعنوانیاں‘ منتخب نمائندوں کے لئے مراعات‘ حکمرانوں کے شاہانہ طور طریقے‘ وی وی آئی پی کلچر اور اِس پر ’عوام کی خدمت‘ کا وعدہ‘ جو ہمیشہ ہی سے جھوٹ ثابت ہوتا آ رہا ہے‘ لیکن جھوٹ بک بھی رہا ہے اور یہی جھوٹ کسی ’نایاب جنس‘ کی طرح ہاتھوں ہاتھ خریدا بھی جا رہا ہے ! پاکستان کی سیاست کا سب سے زیادہ قابل یقین پہلو یہی ہے کہ یہاں ناقابل اعتبار کردار قابل اعتبار ہونے کے باوجود راندۂ درگاہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں چہرے بدل بدل کر حکمراں خاندانوں کے سپوت‘ گھسے پٹے اور بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ انتخابی نعرے لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جنہیں ہر چند برس بعد عوام کو بے وقوف بنانے میں (سیاسی و انتخابی) مہارت حاصل ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ۔۔۔ پاکستان کے طرزحکمرانی‘ عام انتخابات اُور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا پول کھل چکا ہے لیکن ظلم کی انتہاء نہیں تو کیا ہے کہ قومی وسائل لوٹنے والوں کو اپنے احتساب کا خوف تک نہیں!

مفاد پرستوں کو ایک مرتبہ عوام کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے! ’گدھے کے سر سے سینگ‘ کی طرح غائب رہنے والے اور معاشرے میں نفرتوں‘ طبقات اور محرومیوں کے بیچ بونے والے پھر سے نمودار ہوئے ہیں۔ جب حکومت میں تھے تو اپنے اور عوام کے درمیان سیکورٹی کے حصار رکھتے تھے۔ آگے پیچھے کتوں کی طرح بھونکنے والی گاڑیوں کی قطاریں رکھنے والے عوام سے گھل مل رہے ہیں۔ اب تو کسی کی جان کو خطرہ نہیں۔ یہ مرحلہ ووٹ دینے سے قبل خود سے چند سوالات پوچھنے کا ہے ’سیاسی مفاد پرستوں‘ کو آئینہ دکھانے سے پہلے عام آدمی (ہم عوام) کو اپنے قول و فعل کا جائزہ لینا چاہئے۔ 

وجۂ ناکامئ وفا کیا ہے
آپ سے آخری سوال ہے یہ (حباب ترمذی)۔

پہلا سوال: ماضی میں کسے ووٹ دیا اور جن وعدوں پر یقین کرکے ووٹ دیا گیا تھا‘ کیا وہ پورے ہوئے؟ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ یکسو ہو کر سوچا جائے کہ جو نمائندے گزشتہ عام انتخابات میں قانون ساز ایوانوں تک پہنچے لیکن اُنہوں نے انتخابی وعدوں کو ایفاء کرنے کی ضرورت محسوس کی یا نہیں۔ عوام کے کمزور حافظے کا فائدہ کون کون اٹھا رہا ہے اور عوام کو ذات برادری‘ نسلی لسانی‘ گروہی‘ مذہبی اور اصول و فروع دین کی بنیاد پر ووٹ دینے سے کیا ملا ہے؟ انتخابی اُمیدواروں کے ماضی کو فراموش کرنے والوں کے لئے ’25 جولائی (متوقع عام انتخابات)‘ایک نادر موقع ہے کہ غلطیوں کا ازالہ (تلافی) کی جائے۔ ووٹ کا حقدار وہی ہونا چاہئے جس کا دُکھ سکھ‘ خوشی‘ غم اُور رہن سہن‘ عوام کے ساتھ (عام آدمی سے مطابقت نہ سہی کم سے کم مشابہت تو ضرور) رکھتا ہو۔ جن منتخب نمائندوں نے اقتدار و اختیارات نہ ہونے کے باوجود اپنی ہمت اُور اِستطاعت کے مطابق مسائل کے حل کے لئے کوششیں کیں‘ اُنہیں داد (بصورت ووٹ) ملنا چاہئے لیکن اگر ’وعدہ خلافی‘ کرنے والوں کو ہی ووٹ دیا گیا تو پھر عوام کو مظلومیت اور حق تلفی کی صدائیں لگانے کا حق نہیں رہے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں رہنماؤں‘ وزیروں اُور مشیروں نے عوام کو ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے کے لئے ’’پال‘‘ رکھا ہے اور عوام بھی ایسے سادہ ہیں کہ ’’پرانے لالی پاپ‘‘ کو نئی پیکنگ میں لے کر ووٹ ڈال دیتے ہیں جبکہ نئی سنہری پیکنگ میں لپٹا ’’لالی پاپ‘‘ کڑوے اور بدمزے پن کا احساس بھی دلا رہا ہوتا ہے لیکن احساس کرتے کرتے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو جاتا ہے‘ کیا پھر سے ہاتھ ہونے پر عوام ہاتھ ملتے رہ جائیں گے؟

دوسرا سوال: ووٹ کا حقدار کون اُور بطور حزب اقتدار یا حزب اختلاف ماضی میں عوامی نمائندوں کا کردار کیا رہا؟ مئی دوہزارتیرہ میں مسلم لیگ (نواز) نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تحریک انصاف بھی وعدے کرنے میں ثانی نہیں رکھتی جو ’خیبر پختونخوا کو بدل کر رکھنے کے وعدے سے منکر تو نہیں لیکن اِس کی کارکردگی قابل بیان بھی نہیں ہے۔ شہید بھٹو کے نام پر دہائیوں سے سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی نے ’’روٹی کپڑے اُور مکان‘‘ کے ساتھ ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 70سال بعد بھی ملک اور عوام ’وہیں کے وہیں‘ (خالی ہاتھ) کھڑے ہیں‘ جہاں سے بذریعہ سیاست قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے سفر کا آغاز کیا تھا!

تیسرا سوال: کیا ایک ووٹ عام آدمی (ہم عوام) اپنے آپ کو نہیں دے سکتے؟ ووٹ کسی بھی شخص کی ’بیعت‘ کرنا ہوتا ہے۔ کیا عام آدمی (ہم عوام) کسی ظالم اُور غاصب کے ہاتھ پر ایک مرتبہ پھر بیعت کرنا پسند کریں گے؟ کیا بذریعہ ووٹ اپنے نفس کا اختیار کسی ایسے شخص کو سونپا جائے گا‘ جو اجتماعی مفاد کے لئے فیصلہ سازی کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کو اِس بات پر ’یقین بلکہ کامل یقین‘ ہے کہ تبدیلی بذریعہ ووٹ ہی آسکتی ہے تو پھر ووٹ ہر کس و ناکس (ایرے غیرے نتھو خیرے) کی بجائے سوچ سمجھ کر دینے ہی میں دانشمندی ہے۔ بار بار عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی بجائے اِس مرتبہ (پچیس جولائی دوہزار اٹھارہ) اپنا ووٹ کسی ایسے اُمیدوار کو دیجئے‘ جو ووٹ کی عزت و حرمت آشنا ہو۔ جو ووٹ کا وقار ثابت ہو۔ جو ووٹ کے تقدس کا پاسبان ثابت ہو۔ فیصلہ کرنے کے لئے آسان کسوٹی یہی ہے کہ ’دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات میں‘ جس سیاسی جماعت یا اُمیدوار کو ووٹ دیا گیا‘ اُس کی پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھیں۔

نواز لیگ ’’بھاشا ڈیم اُور کراچی کے لئے میٹرو بس پر مبنی ایک ایسا انتخابی منشور رکھتی ہے‘ جس کی عملاً تکمیل گذشتہ تین دہائیوں میں اُس سے نہیں ہو سکی! تحریک انصاف کے لئے وفاقی حکومت بنانے کا اِس سے زیادہ نادر اُور آسان موقع کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا جبکہ اُس کے مدمقابل بڑی جماعتیں (نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) تاریخ کی کم ترین مقبولیت پر ہیں اور احتساب کے جاری عمل کی گرفت میں اپنے مستقبل کو لیکر خوفزدہ (بے یقینی کا شکار) ہیں! 

تحریک انصاف وفاق میں حکومت ملنے کے بعد پہلے ’’100 دن‘‘ میں ملک کی قسمت بدلنے کے لئے پرعزم ہے لیکن یہی کام اُس سے پختونخوا میں 5 سال تک برسراقتدار رہتے ہوئے نہیں ہو سکا۔کیا ایک ووٹ‘ صرف ایک ووٹ‘ ذات برادری‘ تھانہ کچہری اور ذاتی پسند و مفادات کو سامنے رکھنے کی بجائے پاکستان کے لئے نہیں دیا جاسکتا۔ زیادہ نہیں بلکہ ایک ووٹ یعنی صرف ایک ووٹ کا سوال ہے!

زندگی تشنۂ مجال جواب
لمحہ لمحہ سوال آمادہ! (حنیف کیفی)
۔۔۔




Sunday, June 10, 2018

Rs 6 Trillion by Dr. Farrukh Saleem

Rs 6 Trillion
چھ کھرب روپے!
پاکستان کے حکمرانوں کی ’شاہ خرچیاں‘ جہاں قومی خزانے پر بوجھ ہیں وہیں ملک کی خراب اقتصادی صورتحال کے تناظر میں ’مہنگے ترین شاہی طرزحکمرانی‘ میں قومی وسائل کا ضیاع روکنے پر بھی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ سالہا سال سے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ کیا یہ امر تشویشناک نہیں کہ گذشتہ پانچ سال (2013ء سے 2018ء) کے دور حکومت میں 6 کھرب روپے (6,000,000,000,000) ہوا میں اُڑا دیئے گئے! اُور اگر اس قدر خطیر رقم بچا لی جاتی تو ہر پاکستانی خاندان کو پانچ سال کے عرصے میں ’2 لاکھ روپے (200,000) روپے‘ کی بچت ہو سکتی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی نے گذشتہ پانچ سال کے دوران 30 ہزار (30,000) روپے‘ کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ یہ عوام کا سرمایہ ہے‘ جسے کون اور کیوں ضائع کر رہا ہے؟

پاکستان کے قومی اداروں کی کل تعداد 190 ہے۔ اِن ’پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز (PSEs)‘ نے مجموعی طور پر 3.7 کھرب روپے خسارہ کیا۔ یہ بات پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے علم میں ہے کہ ’’قومی جہاز راں ادارے ’پی آئی اے (PIA)‘ نے گذشتہ پانچ برس کے دوران 197 کھرب روپے کا نقصان کیا۔ پاکستان ریلویز (Pakistan Railways) بھی کسی سے پیچھے نہیں اور اِس کا سالانہ خسارہ 35 ارب روپے ہے جبکہ پاکستان سٹیل ملز (Pakistan Steel Mills) کا مجموعی خسارہ اِسی عرصے میں 177 ارب روپے کو عبور کر چکا ہے!

سال 2013ء کے دوران سرکاری اداروں نے مجموعی طور پر 495 ارب روپے کا نقصان کیا۔ سال 2014ء‘ 2015ء‘ 2016ء‘ 2017ء میں یہ خسارہ بڑھ کر بالترتیب 570 ارب روپے‘ 712 ارب روپے‘ 862 ارب روپے اُور 1.1 کھرب روپے شمار کیا گیا۔ تصور کیجئے کہ سرکاری ادارے ایک سال میں 1.1 کھرب روپے کا نقصان کر بیٹھے! یہ بات محض اتفاق ہی ہوگی کہ جس سال سرکاری اداروں نے 1.1کھرب روپے نقصان کیا اُسی سال پیش کردہ مالی سال (2018-19ء) کے بجٹ میں ملکی دفاع کے لئے 1.1 کھرب روپے مختص کئے گئے۔ یہ بات تو ہم سے ہر کوئی جانتا ہے کہ قومی اِدارے خسارہ کر رہے ہیں لیکن شاید اِس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا کہ پانچ سال میں یہ خسارہ 3.7 کھرب روپے ہو چکا ہے!

خسارہ کرنے والے قومی اداروں میں ’پاکستان ایگری کلچرل سٹوریج اینڈ سروسیز کارپوریشن‘ بھی پیش پیش ہے جس نے صوبائی محکمۂ خوراک کے ہمراہ کئی لاکھ ٹن گندم اور چینی خریدی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2018ء تک اِن اداروں نے خریداری کے لئے قومی بینک سے 628 ارب روپے لئے ہیں جن کی ادائیگی نہیں کی گئی لیکن ہر سال مزید رقم لی جاتی ہے۔ بجلی کی طرح یہ ایک الگ قسم کا ’گردشی قرضہ‘ ہے جس کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔

گردشی قرض کی بات کریں تو اِس مد میں بڑا قرض بجلی کا ہے۔ سابق وفاقی سیکرٹری برائے واپڈا یوسف نسیم کھوکھر کے مطابق پرانا گردشی قرضہ 425 ارب روپے تھا جبکہ نیا قرض 570 ارب روپے ہے جو ملا کر ایک کھرب روپے ہے۔ جب واپڈا بجلی کے نجی اداروں کو ادائیگیاں نہیں کرتی تو وہ اپنی خدمات جاری رکھنے کے لئے نجی (کمرشل) بینکوں سے قرض لے لیتے ہیں لیکن کمرشل بینک کب تک اُور آخر کتنا قرض دے سکتے ہیں۔ گردشی قرضے کے بھنور میں پھنسے ہوئے پاکستان کا اقتصادی نظام سخت خطرے میں ہے۔
’سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمٹیڈ (SNGPL)‘ نے ’پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO)‘ کے 28 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو مائع گیس (LNG) کی خریدنے کی قیمت ہے جبکہ ’ایس این جی پی ایل‘ کا مؤقف ہے کہ بجلی کے سرکاری اور نجی پیداواری ادارے‘ کھاد بنانے والے کارخانے اور سی این جی اسٹیشنوں کے ذمے اُس کے 16 ارب روپے واجب الادأ ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا گردشی قرضہ ہے‘ جس کے بارے میں خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی اور اِس قرض میں بھی ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے گذشتہ پانچ سال میں بجلی کے پیداواری شعبے کے لئے 965 ارب روپے مختص کئے۔ یہ سچ ہے کہ سال 2013ء میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار531میگاواٹ تھی‘ جسے 29 ہزار 573 میگاواٹ تک پہنچا دیا گیا ہے لیکن پانچ سال میں بجلی کی اصل پیداوار میں قریب 11فیصد ہی اضافہ ہو سکا۔

ذہن نشین رہے کہ سال 2013ء سے سرکاری اداروں کا خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دوہزارتیرہ میں 495 ارب روپے خسارہ بڑھتے بڑھتے 1.1 کھرب روپے ہو چکا ہے‘ یوں پاکستان کے ٹیکس دہندگان کے 6 کھرب روپے ہوا میں اُڑا دیئے گئے ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ عوام مزید (پہلے سے زیادہ) ٹیکس ادا کریں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, June 3, 2018

TRANSLATION Rs 3.7 trillion by Dr. Farrukh Saleem!

Rs 3.7 trillion
3.7 کھرب کا سوال!

پاکستان کے سرکاری ادارے قومی خزانے پر مستقل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال میں اِن سرکاری اَداروں کا مجموعی خسارہ 3,742,000,000,000 روپے رہا۔ اِس کا مطلب ہے کہ پانچ سال میں ہر پاکستان خاندان نے قریب 125,000 (ایک لاکھ پچیس ہزار روپے) کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر پاکستانی نے گذشتہ پانچ برس میں ’18 ہزار روپے‘ گنوائے ہیں۔ سرکاری اداروں کے خسارے کی ادائیگی قومی خزانے سے ہوتی ہے‘ جس میں عوام کا پیسہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ خسارہ کیوں ہے اور اِس کی وجہ ست متاثر ہونے والے کیوں اور کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (پبلک سروس انٹرپرائزیز) کی اگر کوئی فہرست مرتب کی جائے تو اِن نمایاں نام یہ ہوں گے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن۔ پاکستان اسٹیٹ آئل‘ پاکستان ریلویز‘ پاکستان سٹیل مل‘ سوئی سدرن‘ سوئی ناردرن‘ اُو جی ڈی سی ایل‘ پی پی ایل‘ فیصل آباد الیکٹرک‘ حیدر آباد الیکٹرک‘ ٹرائبل الیکٹرک‘ ایچ بی ایف سی‘ نیشنل انشورنس‘ جام شورو پاور کمپنی‘ نندی پور پاور پراجیکٹ‘ ناردرن پاور‘ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپیچ کمپنی‘ ٹریڈنگ کارپوریشن‘ یوٹیلٹی سٹورز‘ پاکستان ایگری کلچر سٹوریج‘ نیشنل فرٹیلائزر‘ پاکستان ٹیلی ویژن‘ زرعی ترقیاتی بینک‘ نیشنل بینک آف پاکستان‘ پاکستان براڈکاسٹنگ‘ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی اُور فرسٹ ویمن بینک۔

پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) سال کے ہر دن 12 کروڑ 50 لاکھ روپے جبکہ سالانہ 45 ارب روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔ پاکستان ریلویز یومیہ 90 کروڑ 50 لاکھ روپے جبکہ سالانہ 34 ارب روپے کا قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ اِسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ 177 ارب روپے ہے اور اسٹیل مل کا ہر پاکستانی پر 6 ہزار روپے بوجھ پڑ رہا ہے۔

سال 2013ء میں ’سرکاری اداروں‘ نے مجموعی طور پر 495 ارب روپے کا خسارہ کیا۔ اگر ہم سال 2014ء‘ 2015ء‘ 2016ء‘ اُور 2017ء کی بات کریں تو اِس خسارے میں بالترتیب 570 ارب روپے‘ 712 ارب روپے‘ 682 ارب روپے اُور 1100 ارب روپے اضافہ‘ دیکھنے میں آیا۔ تصور کیجئے کہ پاکستان کے سرکاری اداروں کی بحثیت مجموعی کارکردگی کیا ہے کہ یہ اِدارے ہر سال ’1 کھرب روپے‘ کا قومی خزانے کو نقصان دے رہے ہیں!

کیا آپ ’’پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی‘‘ کے نام سے واقف ہیں؟ اِن کے علاؤہ پاکستان ہارٹی کلچر ڈویلپمنٹ اُور ایکسپورٹ کمپنی بھی ہے۔ فرنیچر پاکستان نامی ایک سرکاری کمپنی کا وجود ہے لیکن آخر یہ سب ادارے کرتے کیا ہیں؟

نیشنل انڈسٹریل پارکس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی‘ پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی اور پاکستان ہنٹنگ اینڈ سپورٹس آرمز ڈویلپمنٹ کمپنی نامی سرکاری ادارے بھی اپنا وجود رکھتے ہیں‘ جن کے نام اور کام سے عام پاکستانیوں کی اکثریت واقف بھی نہیں!

سرکاری ادارے مالی خسارہ کرتے ہیں جن کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ مالی سال 2018-19ء میں ’براہ راست‘ نافذ ٹیکسوں کی مالیت 1.7 کھرب روپے تھی جبکہ حکومت نے سرکاری اداروں نے ’5برس‘ میں 3.7 کھرب روپے نقصان کیا۔ آخر حکومت ٹیکسوں (محصولات) میں اضافے کو کیوں آسان فعل سمجھتی ہے اور سرکاری اداروں کے خسارے پر قابو نہیں پایا جاتا؟ 3.7 کھرب روپے کا خسارہ کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ اِس خسارے کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2018-19ء میں کے لئے پاکستان کا دفاعی بجٹ (ڈیفنس ایفیئرز اینڈ سروسیز) کا مجموعی بجٹ 1.1 کھرب روپے رہا جبکہ دوسری طرف پانچ برس میں سرکاری اداروں نے خزانے کو 3.7 کھرب کا نقصان پہنچایا!

قابل ذکر ہے کہ شعبۂ تعلیم پر پاکستان میں سالانہ 550 ارب روپے خرچ کئے جائے ہیں جبکہ سرکاری ادارے سالانہ 1.1 کھرب روپے نقصان کر رہے ہیں۔

پاکستان کے مالیاتی نقصانات (خسارہ جات) پر قابو پانا وقت کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے سیاسی حکومتوں کو ہمت‘ کارکردگی اُور حب الوطنی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیا یہ امر لائق تشویش نہیں کہ سرکاری (قومی) اِدارے پورا سال‘ ہر ماہ 62 ارب روپے گنوا رہے ہیں۔ کیا اِس بات پر حکمرانوں کی نیندیں حرام نہیں ہونی چاہیءں کہ سرکاری (قومی) ادارے ہر دن‘ پورا سال 2 ارب روپے کا خسارہ کر رہے ہیں۔ آخر یہ کس کا سرمایہ ضائع ہو رہا ہے؟ آخر یہ نقصان کس کا ہے اور کیوں؟

سرکاری (قومی) خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا حل یہ نہیں کہ ’پی آئی اے‘ کے لئے نئے ہوائی جہاز خریدے جائیں۔ جہازوں کو کرائے پر حاصل کیا جائے۔ اِسی طرح پاکستان ریلویز کے لئے ’نئے اِنجنوں‘ کی بھی ضرورت نہیں بلکہ پہلے سے موجود وسائل سے بہتر اِستفادہ کرکے بیش قیمت سرکاری مالی وسائل کی بچت ممکن ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے بیش بہا ’’سیاسی قوت ارادی‘‘ کی ضرورت ہے جس کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)