Friday, September 16, 2022

Water Distribution issues in Peshawar City.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: خوابوں کی دُنیا

صوبائی دارالحکومت پشاور میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اُور نکاسی آب سمیت کوڑا کرکٹ کی تلفی و صفائی کے لئے ذمہ دار ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز پشاور (WSSP)“ نامی ادارہ ”جنوری دوہزارچودہ“ میں قائم ہوا۔ اِس سے قبل پشاور شہر اُور ضلع پشاور میں ’میونسپل سروسیز‘ میونسپلٹی فراہم کرتی تھی‘ جسے تحلیل کر کے چار ٹاؤنز اُور ایک ضلعی نگران و منتظم ادارہ بنایا گیا تاہم بعدازاں چاروں ٹاؤنز اُور ضلعی ادارے سے صفائی ستھرائی‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اُور کوڑا کرکٹ کی تلفی جیسے بنیادی کام (متعلقہ امور بھی) ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کو اِس اعلان کے ساتھ سونپ دیئے گئے کہ یہ ادارہ پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں میں فعال کیا جائے گا اُور اُمید یہ بھی تھی کہ میونسپلٹی اُور بعدازاں چار ٹاؤنز سے جن میونسپل خدمات کو ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے سپرد کیا گیا ہے مذکورہ خدمات کا معیار بہتر ہوگا لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا اُور یہ نتیجہ¿ خیال صرف عوامی رائے نہیں بلکہ یہی مؤقف پشاور سے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی کا بھی ہے۔ رواں ہفتے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی‘ فوکل پرسن برائے میگا پراجیکٹس اور احیائے پشاور نامی حکمت ِعملی کے شریک نگران (ایم پی اے) آصف خان نے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور‘ کو پشاور شہر میں صفائی کی ناقص صورتحال‘ مسدود نکاسی آب اُور جا بجا کچرے (کوڑا کرکٹ) کے ڈھیروں کا حوالہ دیتے ہوئے ’کڑی تنقید‘ کا نشانہ بنایا تاہم یہ واضح نہیں کہ صوبائی حکومت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے قیام کو ”سنگین غلطی“ تسلیم کرتے ہوئے اِسے تحلیل کرتی ہے یا نہیں اُور کیا میونسپل خدمات دوبارہ چاروں ٹاؤنز اُور ضلعی بلدیاتی ادارے کو سونپ دی جائیں گی؟ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے قیام سے پہلے پشاور میں مذکورہ تین میونسپل خدمات (پینے کے پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب کو فعال رکھنے اُور کوڑا کرکٹ کی تلفی) پر اُٹھنے والے اخراجات میں کئی سو نہیں بلکہ کئی ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پشاور کو مختلف علاقوں (زونز) میں تقسیم کر کے ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے انتظامی دفاتر کرائے کی عمارتوں میں قائم کئے گئے ہیں جبکہ ملازمین کو مراعات کی مد میں ایسی سہولیات بھی فراہم ہیں‘ جو اُن کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر واپس لے لینی چاہیئں!

جون دوہزار بائیس میں پیش کئے گئے رواں مالی سال 2022-23ءکے صوبائی ترقیاتی بجٹ میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ اُور ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی) کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے۔ اِن چھ ارب روپے سے اگر ملازمین کی تنخواہیں اُور مراعات ادا نہ کی جائیں تو پشاور کے کئی ایک مسائل حل ہو سکتے ہیں جبکہ تمام یونین کونسلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا نظام بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ پشاور میں پینے کے پانی کی فراہمی کا انحصار زیرزمین آبی ذخیرے پر ہے‘ جس سے شہریوں کو 7 گھنٹے یومیہ پانی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن پشاور شہر کے کئی ایسے حصے بھی ہیں جہاں یومیہ ایک سے دو گھنٹے بمشکل پانی فراہم ہو رہا ہے اُور ایسا ہی ایک بدقسمت علاقہ ’یونین کونسل گنج‘ ہے۔ پشاور شہر کی اِس بالائی یونین کونسل گنج کے مختلف مقامات پر ایک درجن سے زائد ٹیوب ویل نصب ہیں لیکن پانی کی ترسیل کا غیرمنظم نظام ہونے کی وجہ سے گنج‘ یکہ توت‘ لاہوری اُور کریم پورہ کے کئی حصوں میں پینے کا پانی حسب ِاعلان یومیہ 7 گھنٹے فراہم نہیں ہو رہا۔ پانی کی قلت بالخصوص اُن علاقوں میں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو ڈھلوان پر ہیں جیسا کہ کوچہ بی بی ذکری‘ محلہ تیلیان‘ محلہ شیخ الاسلام‘ محلہ دفتر بندان اُور اِن سے ملحقہ دیگر محلہ جات کے صارفین کو بمشکل ایک سے دو گھنٹہ پانی فراہم کیا جاتا ہے جو اہل علاقہ کی ضرورت کے مطابق کفالت نہیں کرتا کیونکہ پانی کے ترسیلی نظام کی خرابی کے باعث زیرڈھلوان علاقے اپنے حصے سے زائد پانی لیجاتے ہیں! اندرون پشاور مذکورہ علاقوں میں پانی کی قلت کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ’ٹیوب ویلوں‘ کے لئے جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے غلط فیصلے ہیں جبکہ دوسری وجہ پانی کے ترسیلی نظام کی خرابیاں ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی علاقے میں ایک درجن ٹیوب ویل نصب ہونے کے باوجود بھی وہاں پانی کی قلت سے متعلق شکایات سننے کو نہ ملتیں۔ 

پہلی ضرورت: صوبائی حکومت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ اُور ’ڈبلیو ایس ایس سی‘ سے پشاور کے ٹیوب ویلوں کے منجملہ کوائف طلب کرے‘ جس سے معلوم ہو جائے گا کہ پشاور میں کس طرح پانی کی فراہمی پر سیاسی کاروبار کیا جا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں وزیراعلیٰ پبلک ہیلتھ سے رپورٹ طلب کر چکے ہیں‘ جسے فراہم کرنے میں غیرضروری طور پر تاخیر کی جا رہی ہے۔ دوسری ضرورت: پشاور شہر کی حدود میں پانی کے ترسیلی نظام کے نقشہ جات مرتب کئے جائیں اُور پانی کے ترسیلی پائپ لائن زیر زمین بچھانے کی بجائے اُنہیں ظاہر رکھا جائے تاکہ چوری کے پانی کنکشنوں کا خاتمہ ہو اُور کسی ایک ٹیوب ویل سے پانی کا ترسیلی درست خطوط پر استوار ہو۔ ذہن نشین رہے کہ ایک ٹیوب ویل کم سے کم ایک ہزار خاندانوں کی یومیہ کفالت ممکن ہوتی ہے اُور اِس تناسب سے دیکھا جائے تو پشاور کی 92 میں سے 43 یونین کونسلوں میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے کل 524 ٹیوب ویل فعال اُور کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے زیراستعمال 40 ٹیوب ویل‘ گیارہ پانی ذخیرہ کرنے کی بڑی ٹینکیاں اُور 39 فلٹریشن پلانٹس نصب ہیں۔ مجموعی طور پر پشاور میں سرکاری و نجی ٹیوب ویلوں کی تعداد 1400 سے زیادہ ہے جن سے ”یومیہ 800 ملین گیلن پانی“ حاصل کیا جا رہا ہے اُور یہ مقدار پشاور کی کل آبادی کی ضرورت سے کئی زیادہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ زیادہ تعداد میں ٹیوب ویلوں کی وجہ سے نہ صرف بجلی اُور پانی ضائع ہو رہا ہے بلکہ زیرزمین پانی کی سطح بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن اِس بارے میں بہت کم خوروخوض کیا جاتا ہے۔

’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیصلہ ساز ”خوابوں کی دنیا“ میں رہتے ہیں‘ جہاں ہمیشہ سب کچھ مثالی (سب اچھا) دکھائی دیتا ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اُور پائیدار ترقی کے نت نئے تصورات‘ نت نئے پرکشش ناموں سے متعارف کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ رواں ہفتے نئے جوش و جذبے سے ’ماڈل نیبرہڈ کونسلز‘ نامی حکمت ِعملی کا اعلان کرتے ہوئے ”ڈبلیو ایس ایس پی“ کے فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ وہ مقامی افراد کی شمولیت سے چنیدہ یونین کونسلوں میں صفائی کی صورتحال بہتر بنائی جائے گی اُور اِس سلسلے عوام کے تعاون سے پینے کے پانی کی بچت اُور حفظان صحت کے اصولوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ اِس حکمت ِعملی کے لئے اقوام متحدہ کے ذیلی عالمی امدادی ادارے ”یونیسیف (یونائٹیڈ نینشنز انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ)“ اُور ”اسلامک ریلیف پاکستان“ نامی دنیا کے پانچویں بڑے امدادی ادارے کے اشتراک سے عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ’اِسلامک ریلیف‘ نامی ادارہ 1992ءسے پاکستان میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اُور یہ پاکستان سمیت 29 ممالک میں کام کرنے والا شاید واحد مسلمان امدادی ادارہ ہے۔ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ نے پانچ یونین کونسلوں (قائد آباد کاکشال ٹو‘ زون اے میں یوسف آباد‘ زون بی میں رشید ٹاؤن‘ زون سی میں نوتھیہ قدیم اُور زون ڈی میں راحت آباد) کو مثالی (ماڈل) بنانے کے لئے ’یونیسیف‘ اُور ’اسلامک ریلیف‘ کے مالی تعاون سے تجرباتی جن اقدامات کا فیصلہ کیا ہے‘ اُن میں شجرکاری اُور صفائی ستھرائی شامل ہیں لیکن ماضی میں بھی اِسی قسم کی (ملتی جلتی) کوششوں کے اگر خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تو فیصلہ سازی کی سطح پر غوروخوض ہونا چاہئے تاکہ وقت و مالی وسائل ضائع نہ ہوں اُور ماضی کی وہ غلطیاں بھی نہ دُہرائی جائیں جن کی وجہ سے کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی حاصل وصول صفر رہا ہے‘ البتہ ذرائع ابلاغ اُور سوشل میڈیا کے صفحات ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر کام کرنے والے اہلکاروں کی تصاویر اُور بیانات سے ہرے بھرے دکھائی دے رہے ہیں!

 منیر اِس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اُور سفر‘ آہستہ آہستہ (منیر نیازی)۔

....


Wednesday, September 14, 2022

Sham e Hamdard

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

خلاصہ حالات

’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے زیراہتمام ہر ماہ ’شوریٰ ہمدرد (Thinker's Forum)‘ کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا ہے جس میں اظہار ِخیال کے لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مقررین کو مدعو کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ و ثقافت اُور معیشت و معاشرت کو سمجھنے کی اِس ”سنجیدہ کوشش“ کو علمی ادبی حلقے ”اہم“ قرار دیتے ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس جیسی کوئی دوسری ہم عصر کوشش پشاور میں دکھائی نہیں دیتی۔ شہید حکیم سعید کی زندگی میں ”ہمدرد شوریٰ“ اب ”شوریٰ ہمدرد“ کہلاتی ہے جبکہ اِس نشست کے دعوت ناموں سے لیکر محافل کی عمومی بول چال اُور خطبات پر انگریزی زبان کے الفاظ اُور ایسے موضوعات حاوی ہوتے محسوس ہو رہے ہیں جن کا پاکستان کو درپیش حالات (عصری مسائل) سے بہت کم تعلق ہوتا ہے یا اُن کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مفکرین و ماہرین کی رہنمائی میں جاری زبانوں کی اِس کشمکش میں ہمدرد شوریٰ یا شوریٰ ہمدرد کا ”اصل مقصد“ فوت نہیں ہونا چاہئے۔ رواں ماہ (ستمبر دوہزاربائیس) کے لئے ’شوریٰ ہمدرد پشاور‘ کا موضوع ”ذمہ دارانہ صحافت اُور اخلاقی اقدار“ رکھا گیا جس کے لئے مقرر کا انتخاب بھی شعبۂ صحافت ہی سے کیا گیا لیکن اِس کے لئے ”ایوان ِصحافت“ کا انتخاب نہیں کیا گیا جو صرف اِس ایک موضوع ہی نہیں بلکہ دیگر سبھی موضوعات کے لئے علمی و فکری نشستوں کا زیادہ موزوں مقام ہے۔ نشان امتیاز و ستارۂ امتیاز‘ شہید حکیم سعید (1920ء- 1998ء) کی حیات میں ’ہمدرد شوریٰ‘ میں سیاسی اُور غیرسیاسی موضوعات کے سیاسی پہلوؤں پر بھی اظہار خیال کیا جاتا تھا جسے سننے والوں میں سیاسی فیصلہ ساز بھی شریک ہوتے تھے اُور سب سے بڑھ کر ’ہمدرد شوریٰ‘ کے لئے حالات ِحاضرہ کی مناسبت سے موضوع کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ ’ہمدرد شوریٰ‘ کی روایت کو جاری و ساری رکھنے والوں سے اُمید تھی کہ آئندہ چند ماہ تک ہر نشست میں ”سیلاب متاثرین کی بحالی و امداد‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات (انوائرمنٹل چیلنجز) اُور پاکستان میں آبی نظم و نسق“ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا اُور مسلسل رہنمائی کرتے ہوئے صرف موضوعات ہی نہیں بلکہ اِن کے ذیلی موضوعات کا بھی احاطہ کیا جائے گا یعنی ”بال کی کھال“ اُتاری جائے گی کیونکہ پاکستان موسمیاتی اُور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اُور دنیا میں سب سے پہلے یہ تبدیلیاں پاکستان میں رونما ہو رہی ہیں۔ 

سماجی سطح پر یہ بحث بھی زیربحث آنی چاہئے کہ کیا سائنسی تحقیق اُس درجے تک کمال حاصل کر چکی ہے کہ اِس کے ذریعے انسان اپنی مرضی کے موسم تخلیق کر سکتا ہے؟ پاکستان میں حالیہ سیلاب اُور مون سون بارشوں کے بارے میں ایک رائے (تاثر) یہ بھی عام ہے کہ یہ پاکستان میں بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اُور سائنسی علم نے یہ کمال حاصل کر لیا ہے کہ اب مصنوعی طریقے سے کسی بھی ملک کے سرد‘ گرم یا بارشوں کے موسم کی شدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کرہ¿ ارض (زمین) کی فضا کا ایک حصہ جسے ’روان دار علاقہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’روانی کرۂ (ionsphere)‘ جو کہ زمین کی سطح کے تیس سے پچاس میل اوپر سے شروع ہو کر 200 میل تک پھیلا ہوا ہے اُور اِس میں سورج سے آنے والی ایکس (x) اُور بالا بنفشی (uv) اشعاع کی ’آئیونائزیشن‘ ہوتی ہے جس سے آزاد گردش کرنے والے ذرات (الیکٹران) وقوع پذیر ہوتے ہیں اگر کسی بھی طریقے سے الیکٹران پیدا کئے جائیں تو یہ عمل موسموں کی تخلیق میں قدرت کے بنائے ہوئے توازن کو بگاڑنے یعنی مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سال 1990ءمیں امریکہ کے محکمۂ دفاع اُور عسکری علوم و تحقیق کے مراکز نے مشترکہ حکمت ِعملی کی منظوری دی جس کے تحت 1993ءمیں ’ہائی فریکونسی ایکٹو ایرورال ریسرچ پروگرام (HAARP)‘ کے لئے باقاعدہ مرکز تعمیر کیا گیا اُور اِس پچیس کروڑ ڈالر (250ملین ڈالر) مالیت کے منصوبے (تنصیبات اُور تحقیقی سہولیات) کو امریکی ریاست ’الاسکا (Alaska)‘ کی جامعہ کے حوالے کر دیا گیا یوں فوجی (دفاعی) مقاصد کے لئے شروع ہونے والا یہ پروگرام بعدازاں غیرفوجی (غیردفاعی) مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا اُور خاص بات یہ ہے کہ ’ہارپ‘ نامی اِس پروگرام کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اِسے جاری رکھا گیا جس کے بارے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے موسموں کو تسخیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اِس تاثر کو ’سازشی نظریہ (کانسپریسی تھیوری)‘ قرار دیتا ہے اُور اُس کا کہنا ہے کہ ’ہاراپ‘ کرۂ ارض کو سمجھنے کے لئے جاری علمی تحقیق کا نام ہے‘ جس کی تفصیلات خفیہ نہیں بلکہ کوئی بھی امریکی یا غیرامریکی شخص اِس تحقیق کے نتائج اُور طریقۂ کار کو قریب سے مطالعہ و مشاہدہ کر سکتا ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں ملک کی داخلی سلامتی و بقا کے لئے ”حقیقی خطرہ“ ہیں جس کا خاطرخواہ سنجیدگی سے تصور اُور ادارک نہیں کیا جا رہا۔ اِس سلسلے میں غیرسرکاری ماہرین اُور تحقیق کاروں کو سامنے آنا چاہئے کہ کس طرح ملک کو درپیش موسمیاتی خطرات سے بچنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اگر آئندہ مون اُور موسم سرما میں برفباری کے معمولات زیادہ ہوئے تو ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قومی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بھی ماہرین کی رائے (input) ملنا بھی ضروری ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل (چیلنجز) کے بارے میں بروقت دفاعی حکمت ِعملی وضع کی جا سکے۔ اقوام عالم کی ترقی ’فلسفیانہ نظریات‘ سے شروع ہوتی ہے اُور اِنہی نظریات کی روشنی میں ’قومی ترجیحات‘ کا تعین کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ”ذمہ دارانہ صحافت اُور اخلاقی اقدار“ کا تعلق ہے تو اِس کے لئے کاروباری اُور ادارہ جاتی پہلوؤں کی اصلاح بھی یکساں ضروری ہے۔ صحافت میں پیشہ ورانہ اخلاقیات پر خاطرخواہ عمل درآمد نہ ہونے کے بارے میں سطحی (بنا سیاق و سباق) غوروخوض اِس شعبے میں اصلاحات اُور اِس کی ترجیحات کے عمل کو سست کرنے کا باعث بن رہی ہے اُور اِس سے مسائل کی گھتیاں مزید الجھ رہی ہیں۔ موضوع متنوع ہے کہ صحافت میں علمی و عملی سرمایہ کاری کرنے والے اُور اِس کے مالی سرمایہ کار اپنی اپنی ذمہ داریوں کی بجاآوری الگ الگ نکتہ ہائے نظر سے کر رہے ہیں۔ سچ کا بھی وقار ہوتا ہے اُور اِسی وقار سے مزین باوقار اقوام ابھرتی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صحافت سے جڑے سبھی طبقات کے نظریئے (فکر و عمل) میں حائل خلیج (فاصلہ) کم کیا جائے اُور سچ کے سفر کا آغاز پسندوناپسند یا حمایت و مخالفت میں نہیں بلکہ غیرجانبداری اُور ذمہ داری کی رہنمائی میں آگے بڑھے۔ ”خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے .... کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے (سیّد ضمیر جعفری)۔“

Clipping from Daily Aaj - Sept 14, 2022 Wednesday




Tuesday, September 6, 2022

Peshawar Kahani - Epidemics.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: بڑے شہر کا خواب

خیبرپختونخوا کے سب سے زیادہ آبادی والا ضلع ’پشاور‘ بدستور ”وبائی امراض“ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ پشاور میں صوبے کے دیگر اضلاع سے عارضی و مستقل نقل مکانی کرنے والوں کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے جبکہ حالیہ سیلاب نے اِس نقل مکانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اِس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور میں علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کا نظام مزید علاج گاہوں اُور تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کے قیام کے ذریعے توسیع چاہتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ صوبائی دارالحکومت دیگر اضلاع کی نسبت کورونا وبا کے بھی سب سے زیادہ کیسز اُور اموات ہوئی ہیں جبکہ ڈینگی ہیمرجک بخار کے علاؤہ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے بھی پشاور سرفہرست ہے۔ 

پشاور میں صوبے کے دیگر حصوں سے لوگ سرکاری و نجی کام کاج‘ کاروبار یا ہسپتالوں میں علاج کے سلسلے میں آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں وبائی امراض (انفیکشنز) نسبتاً زیادہ ہے۔ پشاور میں وبائی وبائی امراض کی زیادہ تعداد کا تعلق تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) سے بھی ہے جہاں پشاور کے علاؤہ دیگر اضلاع سے نمونے ارسال کئے جاتے ہیں اُور اُن کے نتائج پشاور میں وبائی امراض کے طور پر درج ہوتے ہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے مجموعی طور پر 6 ہزار 354 ہلاکتیں ہوئی جبکہ اِن میں 3ہزار 140اموات کا تعلق پشاور سے ہے۔ اِسی طرح صوبے بھر میں 2 لاکھ 23ہزار 630 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جن میں سے 84 ہزار 569 مریضوں کا تعلق ضلع پشاور سے رہا۔ پشاور میں کورونا وبا سے ہونے والی زیادہ اموات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر اضلاع کی نسبت پشاور میں صحت کی سہولیات نسبتاً بہتر شکل و صورت میں دستیاب ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ تیمارداروں کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو جلدازجلد پشاور کے مرکزی ہسپتالوں تک پہنچائیں۔ دوسرا محرک ضلعی سطح پر ہسپتالوں سے مریضوں کو پشاور بھیجنا (ریفر کرنا) بھی ایک معمول ہے اُور اِس کی وجہ سے پشاور کے تینوں بڑے سرکاری ہسپتالوں (لیڈی ریڈنگ‘ خیبر ٹیچنگ اُور حیات آباد کمپلیکس) پر غیرمقامی مریضوں کا دباؤ   رہتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں صحت کا نظام جب تک اضلاع کی سطح پر مضبوط‘ وسیع اُور فعال نہیں کیا جائے گا اُس وقت پشاور کے وسائل پر دباؤ رہے گا۔ اِس سلسلے میں ایک ضمنی پہلو بھی فیصلہ سازوں کے زیرغور رہے اُور وہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی نسبت پشاور میں مختلف امراض کے ماہر معالجین زیادہ تعداد میں موجود ہیں اُور چونکہ اِن معالجین کی اکثریت نجی علاج گاہوں کے علاؤہ سرکاری ہسپتالوں سے بھی ملازمتی وابستگی رکھتے ہیں جو مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں ریفر کرتے ہیں اُور وہیں اُن کا علاج اُور جراحت (سرجریز) کی جاتی ہیں لہٰذا علاج معالجے کے نظام کو جس قدر بھی وسعت دی جائے‘ اگر معالجین کا تعاون شامل حال نہیں ہوگا تو اُس وقت تک بہتری (اصلاح) ممکن نہیں ہے۔ پشاور میں کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ماضی کی طرح حال میں بھی زیادہ ہے۔ فی الوقت پشاور میں کورونا سے 689 مریض متاثر ہیں اِن میں 309 فعال کورونا کیسز ہیں جن کا باقاعدگی سے علاج معالجہ ہو رہا ہے۔ اِسی طرح پشاور میں 19 ایسی تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) ہیں جہاں کورونا وبا کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے اُور اِن لیبارٹریز میں صرف پشاور نہیں بلکہ دیگر اضلاع سے نمونے ٹیسٹنگ کے لئے ارسال کئے جاتے ہیں۔ صرف خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری نے صوبے میں ہوئے کل 50لاکھ 35 ہزار 49 ٹیسٹوں میں سے ’نوے فیصد‘ سرانجام دیئے۔ 

کورونا وبا کے علاؤہ پشاور میں پائی جانے والی دوسری خطرناک بیماری پولیو ہے اُور یہ بیماری (پولیو میلائٹس) صحت عامہ کے فیصلہ سازوں کے لئے کسی درد سر سے کم نہیں۔ پولیو کے انسداد کے حوالے سے گزشتہ بیس برس (دو دہائیوں) کے دوران کی جانے والی کوششوں (مہمات) اُور اِن کی کامیابی سے متعلق محکمہ¿ صحت کے حکام کے دعوو¿ں کو دیکھا جائے تو آج برسرزمین نتائج قطعی مختلف ہونے چاہیئں تھے لیکن ضلع پشاور سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا جس کی ایک وجہ یہاں نقل مکانی اُور جا بجا نئی رہائشی بستیوں کا بنا منصوبہ بندی و سہولیات قیام ہے۔ پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری والدین کی تعداد بھی صوبے کے کسی بھی دوسرے ضلع کی نسبت زیادہ رہی ہے! حال ہی میں ختم ہونے والی پولیو مہم کے حوالے سے ایک رپورٹ میں جو اعدادوشمار دیئے گئے اُن کے مطابق پشاور میں 20 ہزار 274 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے جن میں 7 ہزار 204 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے والدین نے اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے روک دیا جبکہ مذکورہ رپورٹ میں پشاور کے 13ہزار 70 ایسے بچوں کا ذکر بھی کیا گیا جو انسداد پولیو مہم کے دوران اپنے گھروں پر موجود نہیں تھے اُور ایسے ’غائب‘ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی پشاور دیگر اضلاع کے مقابلے سرفہرست ہے! پولیو کے غیر ویکسین شدہ بچے یوں تو ہر ضلع میں موجود ہیں لیکن اِن کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پشاور سے ہونا اِس لحاظ سے بھی تشویشناک ہے کہ ایک تو پولیو کا وائرس پھلتا رہتا ہے اُور دوسرا چونکہ دیگر اضلاع سے پشاور آمدورفت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اِس لئے پولیو وائرس کی پشاور آمد اُور یہاں سے دیگر اضلاع منتقلی کا عمل جاری ہے! 

پشاور کے وبائی امراض میں کورونا اُور پولیو کے بعد ’ڈینگی بخار‘ کا نمبر آتا ہے۔ اِس وبا نے بھی محکمہ¿ صحت کے صوبائی اُور ضلعی فیصلہ سازوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور ’ڈینگی‘ کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے زیادہ متاثر ہے۔ سال 2017ءمیں ڈینگی وبا پھیلنے سے پشاور میں بیس ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے اُور اِن کے ’ڈینگی ٹیسٹ‘ مثبت آئے تھے جن میں سے کم از کم 70 افراد کی موت بھی ڈینگی ہی سے ہوئی تھی جبکہ رواں سال (دوہزار بائیس کے دوران) خیبرپختونخوا میں اگرچہ مچھروں سے پھیلنے والی کسی بھی بیماری سے اموات ریکارڈ نہیں ہوئی تاہم کل 1972کیسز میں سے پشاور کا حصہ 111 ہے جبکہ دیگر زیادہ متاثرہ اضلاع میں مردان (783)‘ (قبائلی ضلع) خیبر (420)‘ نوشہرہ (193) اُور ہری پور (182) شامل ہیں۔ وبائی امراض کا مقابلہ کرتے ہوئے پشاور میں فضائی آلودگی کی بلند (خطرناک) سطح پر بھی غور ہونا چاہئے جس کی وجہ سے مختلف وبائی امراض پیچیدہ شکل اختیار کرتی ہیں جبکہ گلے‘ سانس‘ آنکھوں اُور جلد (اسکن) کے امراض بھی پشاور میں دیگر اضلاع کی نسبت زیادہ ہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ایک وقت پشاور پھولوں کا شہر کہلاتا تھا جو ’وبائی امراض کا مرکز‘ بن چکا ہے اُور یہ صورتحال جامع منصوبہ بندی اُور عملی اقدامات پر مبنی حکمت عملی کی متقاضی ہے۔ شاعر پرویز شہریار نے ”بڑے شہر کا خواب“ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی جس کا اقتباس ’پشاور کی موجودہ حالت ِزار‘ کا عکاس ہے۔

لمحہ لمحہ الجھتے رہے 

سچے جھوٹے سپنوں سے 

بڑے شہر کا خواب لئے

ہر پل نیا عذاب لئے

بھاگتے رہے تمام عمر 

پیش نظر سراب لئے

لا حاصلی کا خواب لئے 

گھوڑے کے آگے گھاس ہو جیسے 

ہر سانس نئی آس ہو جیسے 

جینے کی امنگ میں 

مرتے رہے‘ مرتے رہے!

.... 

Editorial Page = Daily Aaj Peshawar = September 06, 2022