ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سچ کی قیمت!
سچ کی قیمت!
وفاقی حکومت کے لئے آئندہ مالی سال (2016-17ء) کا بجٹ کسی بھی صورت آسان
نہیں۔ ایک تو بجٹ کی کابینہ سے منظوری پہلی مرتبہ وزیراعظم کی ’عدم موجودگی
لیکن ورچوئل حاضری‘ سے ہونا ’ٹیکنالوجی پر اعتماد و بھروسہ‘ کا آئینہ دار
ہے جس سے اُمید ہو چلی ہے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر وزرأ آئندہ اضلاع کے
انتظامی دوروں کی بجائے بہت سی باتیں بذریعہ بصری و صوتی الیکٹرانک وسائل
کا استعمال کرتے ہوئے سرانجام دیں گے جو کہ ’کم خرچ بالا نشین‘ بھی ہے اور
زیادہ قابل بھروسہ بھی کیونکہ ایسی ’ورچوئل بات چیت‘ کا ہر لفظ بذریعہ
ریکارڈنگ محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ بہرکیف یہ تو ایک ضمنی موضوع ہے جس میں
طرزحکمرانی کو فعال اور فیصلہ سازوں کو اداروں کی کارکردگی پرنظر رکھنے کے
عمل کو آسان بنایا جاسکتا ہے اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت پہلے ہی
ابتدأ کر چکی ہے۔
وفاقی بجٹ کو زیادہ پرکشش (ٹیکس فری) بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم ترقیاتی امور کے لئے مختص کی جاتی ہے چاہے وفاقی حکومت کے پاس مالی وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ چاہے ملک کا نظام چلانے کے لئے قرض لینے پڑ رہے ہوں لیکن ترقی اور برائے نام ٹیکس فری بجٹ جیسی اصطلاحات فراخدلی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا میں ایسے 100 ترقیاتی منصوبوں کو ملنے والی مالی امداد پہلے ہی روک لی گئی ہے جن میں وفاقی حکومت کی حصّہ داری شامل تھی لیکن تحریک انصاف اِس پورے منظرنامے کو الگ زاویئے سے دیکھ رہی ہے اور صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’پانامہ لیکس پر کڑی تنقید کی وجہ سے وفاقی حکومت نے (انتقاماً) خیبرپختونخوا کے لئے مالی وسائل روک لئے ہیں۔‘‘ صوبائی حکومت کو محسوس ہونے والے ’امتیازی سلوک‘ کی تائید اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا کی جانب سے وفاق کو ’پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت جن 45 ترقیاتی منصوبوں کی فہرست ارسال کی گئی تھی‘ اِن میں سے کسی ایک کو بھی ’شرف قبولیت‘ نہیں بخشا گیا جس سے عیاں ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا سے خوش بھی نہیں اُور کوشش ہے کہ ترقی کے عمل میں توسیع نہ ہونے پائے جس سے تحریک انصاف کی نیک نامی میں اضافہ ہوسکتا ہے!
پانامہ لیکس ہوں یا انتخابی اصلاحات‘ شفاف طرز حکمرانی ہو یا قیادت کرنے والوں کو امانت و دیانت کے تصورات کا عملاً پابند بنانا‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی ہو یا جماعتی سطح پر جمہوری اقدار کا فروغ‘ کیا تحریک انصاف کے نظریات‘ سیاسی طرزعمل اُور ساکھ کی سزا پورے ’خیبرپختونخوا‘ کو دی جائے گی؟ اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی صوبے میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت کی حکومت ہو تو اُسے پسماندہ رکھا جائے؟ کیا وفاقی حکومت کا رویہ صوبہ سندھ سے بھی وہی ہے جو خیبرپختونخوا سے ہے؟ کیا یہ امر باعث حیرت نہیں کہ وفاقی حکومت نے پن بجلی منافع کی مد میں خیبرپختونخوا کے 225 ارب روپے ادا کرنا ہیں جن میں سے 30 ارب روپے کی قسط فروری دوہزار سولہ (رواں برس کے دوسرے ماہ) ادا کرنا تھی لیکن بالواسطہ و بلاواسطہ یقین دہانیوں اور یاد دہانیوں کے باوجود بھی یہ وفاقی حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے ہنگامہ تین اپریل سے شروع ہوا اُور اِس کے بعد تو گویا وفاقی حکومت کے تیور ہی بدل گئے۔ اگر آئندہ چار ہفتوں میں (تیس جون سے قبل) خیبرپختونخوا کے بقایا جات ادا نہیں کئے جاتے تو یکم جون سے نیا مالی سال شروع ہو جائے گا جس کی وجہ سے مختلف اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار مزید سست ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے پچیس اضلاع میں ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے کیونکہ ہر ضلع میں اوسطاً چار سے پانچ ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن میں شاہراؤں کی تعمیرو توسیع‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صحت و تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔
بات خیبرپختونخوا میں ترقی کے عمل اور خیبرپختونخوا کے حقوق کی ہے جس کے دفاع و حصول کی کوششیں صرف برسراقتدار جماعت یا اتحادی پارلیمانی جماعتوں ہی کی نہیں بلکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے رویئے میں تبدیلی کے لئے اپنا اثرورسوخ اُور سیاسی حیثیت کا استعمال کریں۔ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کو 10 پن بجلی کے منصوبوں کی سرمایہ کاری کے لئے ’التجا‘ کر رکھی ہے جس سے مجموعی طور پر 1585میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اور اِن ترقیاتی منصوبوں پر لاگت کا تخمینہ 410.4 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی طرف سے دیئے گئے منصوبوں میں 6 نئی صنعتی بستیوں کا قیام‘ 7 آبپاشی کے منصوبے‘ 2 پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ 5 زراعت‘ لائیوسٹاک اور کوآپریٹو سیکٹر سے متعلقہ منصوبے اور 14منصوبے پشاور ہائی کورٹ سے متعلق ہیں‘ جنہیں ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے!
وفاقی بجٹ کو زیادہ پرکشش (ٹیکس فری) بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم ترقیاتی امور کے لئے مختص کی جاتی ہے چاہے وفاقی حکومت کے پاس مالی وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ چاہے ملک کا نظام چلانے کے لئے قرض لینے پڑ رہے ہوں لیکن ترقی اور برائے نام ٹیکس فری بجٹ جیسی اصطلاحات فراخدلی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا میں ایسے 100 ترقیاتی منصوبوں کو ملنے والی مالی امداد پہلے ہی روک لی گئی ہے جن میں وفاقی حکومت کی حصّہ داری شامل تھی لیکن تحریک انصاف اِس پورے منظرنامے کو الگ زاویئے سے دیکھ رہی ہے اور صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’پانامہ لیکس پر کڑی تنقید کی وجہ سے وفاقی حکومت نے (انتقاماً) خیبرپختونخوا کے لئے مالی وسائل روک لئے ہیں۔‘‘ صوبائی حکومت کو محسوس ہونے والے ’امتیازی سلوک‘ کی تائید اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا کی جانب سے وفاق کو ’پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت جن 45 ترقیاتی منصوبوں کی فہرست ارسال کی گئی تھی‘ اِن میں سے کسی ایک کو بھی ’شرف قبولیت‘ نہیں بخشا گیا جس سے عیاں ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا سے خوش بھی نہیں اُور کوشش ہے کہ ترقی کے عمل میں توسیع نہ ہونے پائے جس سے تحریک انصاف کی نیک نامی میں اضافہ ہوسکتا ہے!
پانامہ لیکس ہوں یا انتخابی اصلاحات‘ شفاف طرز حکمرانی ہو یا قیادت کرنے والوں کو امانت و دیانت کے تصورات کا عملاً پابند بنانا‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی ہو یا جماعتی سطح پر جمہوری اقدار کا فروغ‘ کیا تحریک انصاف کے نظریات‘ سیاسی طرزعمل اُور ساکھ کی سزا پورے ’خیبرپختونخوا‘ کو دی جائے گی؟ اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی صوبے میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت کی حکومت ہو تو اُسے پسماندہ رکھا جائے؟ کیا وفاقی حکومت کا رویہ صوبہ سندھ سے بھی وہی ہے جو خیبرپختونخوا سے ہے؟ کیا یہ امر باعث حیرت نہیں کہ وفاقی حکومت نے پن بجلی منافع کی مد میں خیبرپختونخوا کے 225 ارب روپے ادا کرنا ہیں جن میں سے 30 ارب روپے کی قسط فروری دوہزار سولہ (رواں برس کے دوسرے ماہ) ادا کرنا تھی لیکن بالواسطہ و بلاواسطہ یقین دہانیوں اور یاد دہانیوں کے باوجود بھی یہ وفاقی حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے ہنگامہ تین اپریل سے شروع ہوا اُور اِس کے بعد تو گویا وفاقی حکومت کے تیور ہی بدل گئے۔ اگر آئندہ چار ہفتوں میں (تیس جون سے قبل) خیبرپختونخوا کے بقایا جات ادا نہیں کئے جاتے تو یکم جون سے نیا مالی سال شروع ہو جائے گا جس کی وجہ سے مختلف اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار مزید سست ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے پچیس اضلاع میں ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے کیونکہ ہر ضلع میں اوسطاً چار سے پانچ ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن میں شاہراؤں کی تعمیرو توسیع‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صحت و تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔
بات خیبرپختونخوا میں ترقی کے عمل اور خیبرپختونخوا کے حقوق کی ہے جس کے دفاع و حصول کی کوششیں صرف برسراقتدار جماعت یا اتحادی پارلیمانی جماعتوں ہی کی نہیں بلکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے رویئے میں تبدیلی کے لئے اپنا اثرورسوخ اُور سیاسی حیثیت کا استعمال کریں۔ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کو 10 پن بجلی کے منصوبوں کی سرمایہ کاری کے لئے ’التجا‘ کر رکھی ہے جس سے مجموعی طور پر 1585میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اور اِن ترقیاتی منصوبوں پر لاگت کا تخمینہ 410.4 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی طرف سے دیئے گئے منصوبوں میں 6 نئی صنعتی بستیوں کا قیام‘ 7 آبپاشی کے منصوبے‘ 2 پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ 5 زراعت‘ لائیوسٹاک اور کوآپریٹو سیکٹر سے متعلقہ منصوبے اور 14منصوبے پشاور ہائی کورٹ سے متعلق ہیں‘ جنہیں ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے!
KP is paying a huge fee for voting PTI |