Tuesday, May 31, 2016

May2016: KP development refused by the Federal Govt!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سچ کی قیمت!
وفاقی حکومت کے لئے آئندہ مالی سال (2016-17ء) کا بجٹ کسی بھی صورت آسان نہیں۔ ایک تو بجٹ کی کابینہ سے منظوری پہلی مرتبہ وزیراعظم کی ’عدم موجودگی لیکن ورچوئل حاضری‘ سے ہونا ’ٹیکنالوجی پر اعتماد و بھروسہ‘ کا آئینہ دار ہے جس سے اُمید ہو چلی ہے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر وزرأ آئندہ اضلاع کے انتظامی دوروں کی بجائے بہت سی باتیں بذریعہ بصری و صوتی الیکٹرانک وسائل کا استعمال کرتے ہوئے سرانجام دیں گے جو کہ ’کم خرچ بالا نشین‘ بھی ہے اور زیادہ قابل بھروسہ بھی کیونکہ ایسی ’ورچوئل بات چیت‘ کا ہر لفظ بذریعہ ریکارڈنگ محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ بہرکیف یہ تو ایک ضمنی موضوع ہے جس میں طرزحکمرانی کو فعال اور فیصلہ سازوں کو اداروں کی کارکردگی پرنظر رکھنے کے عمل کو آسان بنایا جاسکتا ہے اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت پہلے ہی ابتدأ کر چکی ہے۔

وفاقی بجٹ کو زیادہ پرکشش (ٹیکس فری) بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم ترقیاتی امور کے لئے مختص کی جاتی ہے چاہے وفاقی حکومت کے پاس مالی وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ چاہے ملک کا نظام چلانے کے لئے قرض لینے پڑ رہے ہوں لیکن ترقی اور برائے نام ٹیکس فری بجٹ جیسی اصطلاحات فراخدلی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا میں ایسے 100 ترقیاتی منصوبوں کو ملنے والی مالی امداد پہلے ہی روک لی گئی ہے جن میں وفاقی حکومت کی حصّہ داری شامل تھی لیکن تحریک انصاف اِس پورے منظرنامے کو الگ زاویئے سے دیکھ رہی ہے اور صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’پانامہ لیکس پر کڑی تنقید کی وجہ سے وفاقی حکومت نے (انتقاماً) خیبرپختونخوا کے لئے مالی وسائل روک لئے ہیں۔‘‘ صوبائی حکومت کو محسوس ہونے والے ’امتیازی سلوک‘ کی تائید اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے خیبرپختونخوا کی جانب سے وفاق کو ’پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت جن 45 ترقیاتی منصوبوں کی فہرست ارسال کی گئی تھی‘ اِن میں سے کسی ایک کو بھی ’شرف قبولیت‘ نہیں بخشا گیا جس سے عیاں ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا سے خوش بھی نہیں اُور کوشش ہے کہ ترقی کے عمل میں توسیع نہ ہونے پائے جس سے تحریک انصاف کی نیک نامی میں اضافہ ہوسکتا ہے!

پانامہ لیکس ہوں یا انتخابی اصلاحات‘ شفاف طرز حکمرانی ہو یا قیادت کرنے والوں کو امانت و دیانت کے تصورات کا عملاً پابند بنانا‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی ہو یا جماعتی سطح پر جمہوری اقدار کا فروغ‘ کیا تحریک انصاف کے نظریات‘ سیاسی طرزعمل اُور ساکھ کی سزا پورے ’خیبرپختونخوا‘ کو دی جائے گی؟ اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی صوبے میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت کی حکومت ہو تو اُسے پسماندہ رکھا جائے؟ کیا وفاقی حکومت کا رویہ صوبہ سندھ سے بھی وہی ہے جو خیبرپختونخوا سے ہے؟ کیا یہ امر باعث حیرت نہیں کہ وفاقی حکومت نے پن بجلی منافع کی مد میں خیبرپختونخوا کے 225 ارب روپے ادا کرنا ہیں جن میں سے 30 ارب روپے کی قسط فروری دوہزار سولہ (رواں برس کے دوسرے ماہ) ادا کرنا تھی لیکن بالواسطہ و بلاواسطہ یقین دہانیوں اور یاد دہانیوں کے باوجود بھی یہ وفاقی حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے ہنگامہ تین اپریل سے شروع ہوا اُور اِس کے بعد تو گویا وفاقی حکومت کے تیور ہی بدل گئے۔ اگر آئندہ چار ہفتوں میں (تیس جون سے قبل) خیبرپختونخوا کے بقایا جات ادا نہیں کئے جاتے تو یکم جون سے نیا مالی سال شروع ہو جائے گا جس کی وجہ سے مختلف اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار مزید سست ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے پچیس اضلاع میں ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے کیونکہ ہر ضلع میں اوسطاً چار سے پانچ ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن میں شاہراؤں کی تعمیرو توسیع‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صحت و تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔

بات خیبرپختونخوا میں ترقی کے عمل اور خیبرپختونخوا کے حقوق کی ہے جس کے دفاع و حصول کی کوششیں صرف برسراقتدار جماعت یا اتحادی پارلیمانی جماعتوں ہی کی نہیں بلکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے رویئے میں تبدیلی کے لئے اپنا اثرورسوخ اُور سیاسی حیثیت کا استعمال کریں۔ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کو 10 پن بجلی کے منصوبوں کی سرمایہ کاری کے لئے ’التجا‘ کر رکھی ہے جس سے مجموعی طور پر 1585میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اور اِن ترقیاتی منصوبوں پر لاگت کا تخمینہ 410.4 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی طرف سے دیئے گئے منصوبوں میں 6 نئی صنعتی بستیوں کا قیام‘ 7 آبپاشی کے منصوبے‘ 2 پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ 5 زراعت‘ لائیوسٹاک اور کوآپریٹو سیکٹر سے متعلقہ منصوبے اور 14منصوبے پشاور ہائی کورٹ سے متعلق ہیں‘ جنہیں ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے!

KP is paying a huge fee for voting PTI

Monday, May 30, 2016

May2016: Air & Noise Pollution in Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زہریلا شہر!
کیا اِس بات پر بھی تشویش اُور دُکھ کا اِظہار نہ کیا جائے کہ ’پھولوں کا شہر‘ ہونے کا لطیف و رنگین تعارف (اِستعارہ) رکھنے والے خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر ’پشاور‘ کا شمار پاکستان کے اُن ’پرخطر‘ شہروں میں ہونے لگا ہے جہاں ٹریفک کے دباؤ (دھواں اُگلتی گاڑیوں) کی وجہ سے ’فضائی آلودگی‘ اور ’شور شرابا‘ انسانی صحت کے لئے ’قابل قبول حد‘ سے تجاوز کر گئے ہیں! عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی جانب سے انسانی سماعتوں کے لئے ’شور‘ کی محفوظ حد کا ایک معیار طے کیا گیا ہے جسے کسوٹی قرار دیتے ہوئے ماہرین پشاور میں نجی گاڑیوں کی تعداد میں ہوئے اضافے‘ گاڑیوں کے خراب انجنوں سے اگلتے ہوئے دھویں اور آٹو رکشاؤں سے ہونے والے شور جیسے تین بنیادی محرکات کو پشاور میں پھیلتی ہوئی ’فضائی و صوتی آلودگیوں‘ کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن کیا فیصلہ سازوں کے ہاں گرد و غبار اور دھویں (کاربن کے ذرات) سے بھرپور (آلودہ) ’پشاور کی زہریلی ہوا‘ کی تطہیر سے متعلق تفکرات پائے جاتے ہیں؟ کیا پشاور کو زہریلا بنتے دیکھنے والے تماش بینوں کو ماحولیاتی آلودگی سے خوف یا وحشت آ رہی ہے؟ کیا فیصلہ سازوں کو اپنی دانستہ غلطی (تجاہل عارفانہ) کا احساس بھی ہے‘ کہ جس کی اصلاح کے لئے وہ خود پر آئینی و ضمیر پر اخلاقی بوجھ محسوس کررہے ہوں؟ ’’ایسی ویرانی میں کرتے بھی تو کیا۔۔۔ یہ بھی کچھ کم ہے کہ وحشت کی ہے!‘‘

موٹرگاڑیوں سے متعلق ’تحفظ ماحول‘ کے ایک سے زیادہ قواعد ضوابط موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد یا اُن سے متعلق عوام میں شعور و آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’پاکستان انوئرمینٹل پروٹیکشن موٹر وہیکل ریگولیشنز 2016ء‘ کی تیسری شق (کلاس تھری) کے مطابق کوئی بھی شخص ایسی گاڑی استعمال نہیں کرسکتا جو (ظاہری طور پر) دھواں اگلتی ہو یا اُس سے شور پیدا ہو رہا ہو۔‘‘ اِس سلسلے میں ’نیشنل انوئرمینٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز‘ کو معیار بنایا گیا ہے جس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ آواز 85 (ڈیسیبلز) ہونی چاہئے لیکن پشاور کے مختلف حصوں میں شور کی حد 95 ڈیسیبلز ریکارڈ کی گئی ہے اور اگر نجی گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں لائی جاتی تو صوتی آلودگی میں وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوگا۔ تصور کیجئے کہ پشاور میں گاڑیوں کی تعداد 126.4 فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ جبکہ سڑکوں کی وسعت سالانہ 0.85 فیصد کے تناسب سے ہو رہی ہے! کم گنجائش والی سڑکوں پر گاڑیوں کی سست روی سے چلنے کی وجہ سے نہ صرف زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے بلکہ اِس سے پیدا ہونے والا دھواں اور شور بھی ’رواں دواں‘ ٹریفک کے مقابلے زیادہ پھیلتا ہے! ماہرین صحت کے مطابق مسلسل فضائی آلودگی میں سانس لینے اور شور کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے ’بلندفشار خون (ہائی بلڈپریشر)‘ اور ’نفسیاتی عارضے‘ لاحق ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے جملہ محرکات بشمول سڑکوں پر دھواں و شور اگلتی ٹریفک کی بذریعہ حکمت و تدبر اصلاح ممکن ہے۔

رواں برس آغاز (جنوری دو ہزار سولہ) میں بھارت کے بڑے شہر دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی و صوتی آلودگی کا علاج تجویز کرتے ہوئے متعلقہ انتظامیہ نے 2 ہفتوں کے لئے صرف نجی گاڑیوں کو ’جفت و طاق‘ نمبروں کے مطابق (ایک ایک دن کے لئے) سڑک پر آنے (استعمال) کی اجازت دی گئی۔ اِس تجربے کا مقصد بڑھتی ہوئی نجی گاڑیوں کی تعداد کو کسی صورت ضبط میں لانا تھا یعنی ایک دن طاق نمبروں والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے دیا جاتا اور دوسرے دن جفت نمبروں والی گاڑیاں سڑک پر آتیں۔ دہلی کے ٹریفک پولیس اہلکاروں نے بلاامتیاز ہر خاص و عام پر اِس انتظامی فیصلے کا اطلاق کیا جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔ دہلی کی فضاء میں نہ صرف دھواں (کاربن کے ذرات کی تعداد) کم ہوئی بلکہ گاڑیوں کی وجہ سے شور بھی محفوظ حد کو چھونے لگا لیکن ذاتی گاڑی رکھنے والوں کو معمولات زندگی جاری رکھنے میں اِس لئے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ حکومت کی جانب سے جفت و طاق نمبروں والی گاڑیوں کے تجربے سے پہلے ہی آمدورفت کے متبادل وسائل یعنی تیز رفتار (میٹرو) و حسب ضرورت تعداد میں بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ)‘ اندرون شہر کے مختلف حصوں کو ملانے والی ریل گاڑی جیسے انتظامات کئے گئے تھے۔ عوام نے بھی مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا اور ایک ہی دفتر یا تعلیمی اداروں میں آمدورفت کرنے والوں نے نجی طور پر اکیلے سفر کرنے کی بجائے دوستوں کو ہمراہ کرنا شروع کر دیا اور یوں نہ صرف ایندھن کی مد میں بچت ہونے لگی بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوا لیکن دہلی کی ٹریفک پولیس صرف ’جفت و طاق‘ کی حد تک تجرباتی حکمت عملی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اُس نے صورتحال کا فائدہ اُٹھانے والے اُن ناجائز منافع خوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جنہوں نے ٹیکسی (کمرشل) گاڑیاں اور ٹَک ٹَک (آٹو رکشہ) کے کرائیوں میں اضافہ کر لیا تھا۔

پشاور کی ٹریفک پولیس ’آلودگی سے پاک دہلی‘ نامی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے اور علم تو (درحقیقت) مومن کی گمشدہ میراث ہے جس کے بارے میں حکم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم ہے کہ ’علم جہاں کہیں اُور جس کسی سے بھی ملے (بصد شکریہ و کمال حتی الوسع و ظرف) حاصل کر لینا چاہئے۔‘

Noise and air pollution in Peshawar touching the dangerous limit

Friday, May 27, 2016

May2016: Special Olympics Pakistan 2 Days Camp in WMC, Abbottabad.

ایبٹ آباد ۔۔۔ پریس ریلیز ۔۔۔ 27مئی 2016ء

خصوصی بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا سماجی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض عین بھی ہے: ڈاکٹر اظہر جدون
جسمانی کمزوری سے متاثرہ بچے بوجھ نہیں‘ جنہیں قدرت کی جانب سے اضافی خصوصیات اُور مضبوط اعصابی طاقت ملتی ہے
’اسپیشل اولمپکس پاکستان‘ کی جانب سے ’ویمن میڈیکل کالج‘ میں 2 روزہ کیمپ کا انعقاد‘ ایبٹ آباد سے خصوصی بچوں کی شرکت
کم بینائی رکھنے والے بچوں کو عینکوں کی فراہمی اور مفت سرجری کی جائے گی‘ ڈاکٹر اظہر‘ رونق لاکھانی اُور عاصمہ حسن کی بات چیت

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما‘ رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اَظہر خان جدون نے خصوصی بچوں کی سرپرستی کو اجتماعی معاشرتی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بصارت سے محروم یا کم بینائی رکھنے والے بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔‘‘ انہوں نے نجی اداروں اور مخیر حضرات پر زور دیاکہ وہ اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ لازماً سماجی خدمات کے لئے وقف کریں کیونکہ خصوصی افراد معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض عین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عملی و فعال سیاست کی مصروفیت کے ساتھ میری ترجیح آج بھی سماجی خدمت ہی ہے۔ جمعۃ المبارک کے روز ’ویمن میڈیکل کالج‘ میں اسپیشل اُولمپکس پاکستان (ایس اُو پی) کے وفد سے بات چیت کرتے ڈاکٹر اظہر نے ’اَفراد باہم معذوران‘ کے لئے منعقدہ ’2 روزہ کیمپ‘ کے اِنعقاد کو سراہا۔ اِس موقع پر ’اسپیشل اولمپکس پاکستان (ایس اُو پی) کی چیئرپرسن محترمہ رونق لاکھانی اُور نیشنل کوآرڈینیٹر برائے ’ہیلتھی اتھلیٹکس پروگرام‘ محترمہ عاصمہ حسّن کی جانب سے تنظیم کی سرگرمیوں کے حوالے سے ڈاکٹر اظہر جدون کو بریفنگ دی گئی۔ کیمونٹی میڈیسن کے نگران ڈاکٹر جاوید اختر چاولہ نے ’اسپیشل اولمپکس پاکستان‘ کو ویمن میڈیکل کالج کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

کیمپ کے پہلے روز ڈاکٹر عمر اُور مس ڈینیس (Ms Denise) نے ہنگامی طبی امداد اُور ڈینگی بخار سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر سے متعلق خصوصی بچوں کے والدین کو لیکچرز دیئے۔ تقریب میں ایبٹ آباد میں خصوصی بچوں کے تعلیمی اداروں رائز‘ سیم‘ کنگسٹن اور سیّد احمد شہید میں زیرتعلیم طلباء و طالبات اور اُن کے والدین نے شرکت کی۔ کیمپ کے پہلے دن میں 37 بچوں کی بینائی کی جانچ بھی کی گئی جنہیں مفت عینکیں فراہم کی جائیں گی جبکہ دو بچوں کے آپریشن بھی بلاقیمت کئے جائیں گے۔ کیمپ کے دوسرے دن 37 بچوں کی بینائی کا معائنہ کیا گیا جن میں سے 28 بچوں کو عینکیں فراہم کی جائیں گی۔ لیٹن رحمت اللہ بنولینٹ ٹرسٹ ہسپتال (ایل آر بی ٹی) کی ڈاکٹر مہوش خان نے بچوں کا معائنہ کیا۔ یاد رہے کہ ’ایل آر بی ٹی‘ کے ملک بھر میں 19 ہسپتال ہیں جہاں بینائی سے محروم یا متاثرہ بچوں کے مفت آپریشن اور اَدویات فراہم کی جاتی ہیں۔

Sunday, May 22, 2016

May2016: Forest, development, tourism & Galliyat

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلیات: ناپائیدار ترقی!
لگتا ہے جیسے وقت ہی ٹھہر گیا ہو۔ زیربحث موضوع ’’سطحی منصوبہ بندی اُور رازدارانہ عملی اقدامات کے سبب پیدا ہونے والی ’لاتعداد مستقل مشکلات‘ ہیں‘ جن سے متعلق چند پہلو ’اکیس مئی‘ کے روز شائع ہونے والے کالم میں بطور ’ابتدائیہ‘ پیش کرنے کا بنیادی مقصد اِس بات پر زور دینا ہے کہ پشاور میں حکومت کی ’ناک کے نیچے‘ بیٹھ کر کاغذوں پر کارکردگی دکھانے والوں سے بازپرس کی جائے کہ وہ حکمرانوں کے ’کان پیچھے‘ کیا گل کھلا رہے ہیں کیونکہ جہاں کہیں سیاحوں یا مقامی آبادی کو مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ متعلقہ حکومتی اداروں (سیکرٹری یا دیگر انتظامی نگرانوں) کو نہیں بلکہ براہ راست ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں‘ یوں گلیات کی خوبصورتی‘ جنگلات کے تحفظ‘ سیاحوں کے لئے سہولیات‘ شاہراؤں کی توسیع و مرمت اور بہتری و اصلاح پر اب تک اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی اگر صوبائی حکومت کے حصے میں لعن طعن آ رہی ہے تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت صوبائی کابینہ کے لئے یہ مرحلہ سنجیدہ سوچ بچار کے ساتھ آستینوں میں جھانکنے کا ہے!

سیاحتی سیزن شروع ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ گلیات کے رہنے والے مقامی افراد نے احتجاج کی دھمکی دی ہے جن کا مطالبہ ہے کہ ’’1904ء میں برطانوی راج کے دوران مقرر کی گئی جنگلات کی حدود پر نظرثانی کی جائے اور جن مقامی افراد کے پاس محکمۂ مال سے تصدیق شدہ جائیداد کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اُنہیں حسب رقبہ اراضی فراہم کی جائے کیونکہ اگر ایسا ذاتی ملکیت پر مشتمل اراضی کا رقبہ ’اندھا دھند اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے‘ جنگلات کی حدود سے دھکیل کر باہر کردیا جاتا ہے تو جس شخص کے پاس ملکیت کے کاغذات ہے وہ اپنا رقبہ جنگلات کی حدود کے باہر سے پورا کرنے کی کوشش کرے گا اور اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اراضی کی ملکیت کے تنازعات زیادہ شدت سے سراُٹھانے لگیں۔ گلیات کا علاقہ جو نسبتاً پرامن اور محفوظ ترین تصور ہوتا ہے‘ اگر مقامی افراد کے آپسی جھگڑوں سے یہاں کا سکون غارت ہوتا ہے تو اِس کا لامحالہ منفی اثر ’سیاحت‘ پر بھی پڑے گا۔‘‘

ضلع ایبٹ آباد کی یونین کونسل نتھیاگلی کے تحصیل کونسلر سردار راحیل جنگلات کی حدود بندی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مقامی افراد کے تحفظات و غیض و غضب کی قیادت کر رہے ہیں۔ اِس پینتالیس سالہ بلدیاتی نمائندے کا تعلق سیاسی و نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے ہے لیکن انہوں نے آزاد حیثیت میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر تحریک انصاف جیسی مضبوط قوت کے مقابلے اپنی سماجی حیثیت و مقبولیت کا لوہا منوایا۔ منطق اُور دلائل کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک سردار راحیل کا مؤقف ہے کہ ’’ 1904ء میں کئے گئے سروے پر اکتفا کرنے کی بجائے حکومت ایک نیا سروے کرے جس میں محکمہ مال (ریونیو) کے حکام بھی شریک ہوں تاکہ جہاں کہیں جنگلات کی حدود متنازعہ ہے اُسے مقامی افراد کے پاس ملکیتی دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں حل کیا جاسکے کیونکہ اگر گلیات کے کسی بھی گاؤں سے اہل علاقہ کو بیدخل کیا جاتا ہے تو اِس سے بڑی ناانصافی کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ضلع اَیبٹ آباد کے بالائی علاقوں (گلیات یا گیلیز) میں تجاوزات کے خلاف کاروائی اُور جنگلات کی حدود کے تعین سے پیدا ہونے والی صورتحال سے جنت نظیر وادیوں کے رہائشی (مقامی آبادی) اگر مشکلات سے دوچار ہے تو اِس مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے ممکن ہے۔‘‘ یاد رہے کہ برطانوی راج کے دوران سال 1904ء میں جنگلات کے مذکورہ سروے کے دوران صرف حدود کا تعین ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کیا گیا تھا جس میں جنگلات سے ایندھن کے حصول اور بطور چارہ گاہ استعمال کی اجازت دی گئی تھی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے کم و بیش چالیس ہزار ایکڑ پر پھیلے وسیع و عریض جنگلات کی حدود کا تعین کرتے ہوئے مقامی افراد سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے کہ وہ موسم گرما کے دوران جنگلات میں اپنی رہائش قائم کر لیا کریں جیسا کہ مقامی روایات کے مطابق ایک عرصے سے یہ رسم جاری رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے جی پی ایس (خلأ سے حاصل کردہ تصاویر اور جی پی ایس کے کورآڈینیٹس) کے ذریعے حدود کا تعین کیا جارہا ہے اور یہ طریقۂ کار مقامی افراد کی سمجھ بوجھ سے بالاتر طریقہ ہے جو متقاضی ہیں کہ اراضی کے رقبے کو مروجہ قواعد یعنی جریب‘ کنال و مرلے کے حساب سے پیمائش ہونا چاہئے۔‘‘ بلاشک و شبہ مقامی افراد جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اِن کی حفاظت بارے اُن کے نظریات کہیں زیادہ ’ماہرانہ‘ اُور معنی و مفہوم کے لحاظ سے ’گہرے بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ جنہوں نے غیرقانونی جنگلات کاٹے وہ ماضی و حال میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور ایسے افراد کا حسب حال احتساب نہیں ہوسکا یقیناًجنگل کسی ایک قوم یا ادارے کا نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کا ہوتا ہے بالخصوص ایسے قبائل جن کا گزر بسر ہی نہیں بلکہ پوری معیشت و معاشرت کا انحصار جنگلات پر رہا ہو‘ اگر اُن کے سروں سے درختوں کا سایہ چھن جائے تو بے سروسامانی کی حالت میں وہ کہاں جائیں گے!؟ نتھیاگلی کے مرکزی بازار اُور ملحقہ علاقوں میں کم وبیش تین سال قبل تجاوزات کے خلاف آپریشن (کاروائی) سے یہاں تعمیروترقی اور توسیع کے نام پر آج بھی دھول اُڑتی دکھائی دیتی ہے۔ مقامی افراد نے (اپنی مدد آپ کے تحت) بڑی حد تک حالات کو سنبھال لیا ہے اور اُمید ہے کہ اِس سال موسم گرما میں سیاحوں کی آمدورفت سے ’روائتی گہماگہمی‘ دیکھنے میں آئے گی۔

سردار راحیل چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی رو کے مطابق فیصلے اور حکمت عملیاں تشکیل دیتے وقت منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کی منصوبہ بندی (پلاننگ) کیا یہ نہیں تھی کہ پورے گلیات کو ترقی دی جائے گی لیکن باڑیاں سے نتھیاگلی تک شاہراہ کی توسیع تک ترقی کا عمل محدود دکھائی دیتا ہے کیا گلیات صرف ایک سڑک کا نام ہے؟ حسب اعلانات گلیات میں جدید سہولیات سے آراستہ 6 رہائشی علاقے (ٹاؤنز) بنائیں جائیں گے؟ گلیات کی ترقی کے لئے 4 ارب مختص کئے گئے‘ جس میں سے کتنے خرچ ہوئے اور کیا کچھ باقی ہے اِس بارے عام آدمی کی طرح عوام کے منتخب نمائندوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں! آخر کیا وجہ ہے کہ فیصلہ سازی‘ پالیسی سازی اُور اِقدامات کے عملی اطلاق سے قبل یا بعدازاں عام آدمی (ہم عوام) یا متعلقہ علاقوں کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا؟
The local communities have reservations about efforts to protect forest  & development in Galliyat

TRANSLATION: The Human Cost

The human cost
بدعنوانی کی بھاری قیمت!
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل  نے ایک کہانی شائع کی ہے جو ڈھاکہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش دنیاکے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سال 2015ء سے متعلق جاری کردہ ایک جائزے کے مطابق سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کی شرح اُس کسوٹی یا پیمانے پر پچاس فیصد سے کم ہے جس میں سب سے بدعنوان ملک کو 100فیصد نمبر دیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ لڑکی کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ بجائے سکول جانے کے ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرتی ہے جہاں اُس کا کام بوتلوں کو ترتیب دینا ہے۔ بنگلہ دیش بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں سے اِس قسم کی مشقت نہیں لی جا سکتی جبکہ وہ قانون کی رو سے پابند ہیں کہ اپنا وقت تعلیمی اداروں کے اندر صرف کریں لیکن جہاں کہیں بدعنوانی پائی جائے وہاں قانون توڑنے کے راستے نکل ہی آتے ہیں۔ جب ایک غلط طریقے سے درست سرکاری افسر کو رشوت دی جاتی تو اس سے نتیجے میں گنجائش نکل آتی ہے۔ عالمی طور پر مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے جن جن ممالک کے سرکاری اداروں میں بدعنوانی پائی جاتی ہے وہاں اِس کی قیمت غربت زدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں اور بالخصوص بچوں کو چکانا پڑتی جو سخت ترین قواعد کے باوجود نہایت ہی مشکل و ناموافق حالات میں محنت مشقت کرتے ہیں۔

سرکاری اداروں میں پائی جانے والی رشوت ستانی و بدعنوانی کے پیمانے پر بنگلہ دیش پچیسویں نمبر پر ہے جبکہ اِسی پیمانے پر پاکستان کو تیس نمبر دیئے گئے ہیں۔ دنیا کے غریب (ترقی پذیر ممالک) سالانہ ایک کھرب ڈالر کے مساوی بدعنوانی کی نذر کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے سرکاری ادارے سالانہ 8 ارب ڈالر خرد برد کرتے ہیں یہ رقم ملک کے سالانہ دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ انگولا‘ جنوبی سوڈان‘ سوڈان‘ افغانستان‘ شمالی کوریا اُور صومالیہ دنیا کے نہایت ہی بدعنوان ملک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہی ممالک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں بھی ہوتا ہے جو امن و امان کے حساب سے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

 ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کروڑوں ڈالر بجائے تعمیر و ترقی پر خرچ ہونے کے چوری یا خورد برد ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ۔ انگولہ کی 70فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی کرتی ہے یعنی اُن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر یا اِس سے کم ہے۔ وہاں ہر چھ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے جو دنیا میں بچوں کی اموات کی بلند ترین شرح ہے! براعظم افریقہ کے اِس ملک میں بدعنوانی اور اختیارات کے عوض ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرنے کی ایک مثال یہ ملاحظہ کیجئے کہ صدر کی بیٹی اسابیل ڈس سینٹوس (Isabel dos Santos) جو کہ ہیروں کی تجارت اور ٹیلی کیمونیکشن کمپنی کی مالکہ ہے براعظم افریقہ کی سب سے کم عمر ارب پتی خاتون ہے!

اگر ہم بدعنوانی کے منفی اثرات دیکھیں تو اِس سے فائدہ اٹھانے والے چند افراد کے مقابلے ملک کی ایک بڑی آبادی نہایت ہی بُرے انداز میں متاثر ہوتی ہے۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہر 10 میں سے 6پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یعنی اُن کی یومیہ آمدنی یا ایک دن کے اخراجات 2 ڈالر سے کم ہیں۔ سیو دی چلڈرن نامی ایک عالمی امدادی ادارے (این جی اُو) کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ پاکستان کے بعد بچوں کی شرح اموات کے لحاظ سے نائجیریا دوسرے نمبر پر ہے جہاں 32.7‘ سری لیون میں 30.8‘ صومالیہ میں 29.7 اور افغانستان میں ہر ایک ہزار میں سے 29 بچے ہلاک ہو جاتے ہیں! یعنی افغانستان میں بچوں کے اموات کی شرح پاکستان سے بہتر ہے!

بدعنوانی‘ غربت اور عدم مساوات میں گہرا تعلق ہے اور اسی سبب سے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوپاتے۔ بدعنوانی کی وجہ سے ملک کی پیداوار اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ تعلیم پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ غربت کا خاتمہ کس وجہ سے نہیں ہو پا رہا تو اِس کا بنیادی سبب سرکاری اداروں کی بدعنوانی سامنے آئے گی جو قوانین و قواعد پر عمل درآمد کو جب چاہیں معطل کردیتے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سالانہ بجٹ میں مختص کئے جانے والے مالی وسائل میں سے 20 ارب سے 40 ارب ڈالر خردبرد ہو جاتے ہیں اور یہ خردبرد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کرتے ہیں جو سرمائے کو بیرون ملک چھپا کر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صدہزاری ترقیاتی اہداف (میلینئم ڈویلپمنٹ گولز) کے حصول میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہو رہی۔ بدعنوانی کے سبب دنیا ایک روشن مستقبل سے محروم ہے۔ الف اعلان نامی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے بچیاں ایسی ہیں جو سکول نہیں جاتے اور ایسے سکول سے باہر بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے چند ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ایک ارب ڈالر اضافی طور پر مزید خرچ کردیا جائے تو بچوں کی پیدائش سے قبل یا پیدائش کے بعد ہونے والی شرح اموات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

جاتے جاتے یہ بات بھی سن لیں کہ پاکستان میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں پانچ سو فیصد اضافہ مہنگائی‘ توانائی بحران‘ رشوت ستانی‘ بدعنوانی‘ قوانین پر عمل درآمد میں امتیازات‘ ناقص تعلیمی نظام‘ پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 80 ہزار روپے ماہانہ تھی جسے یکایک بڑھا کر 4 لاکھ 70 ہزار روپے کر دی گئی ہے!

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, May 21, 2016

May2016: Tourism Potential of Harnoi

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاحت: حائل مستقل مشکلات!
خیبرپختونخوا کے سیاحتی صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ سے گلیات کی جنت نظیر وادیوں کی سیر و تفریح کے لئے آنے والوں کو ’ٹریفک‘ کے جس بے ہنگم نظام سے واسطہ پڑتا ہے‘ وہ ایک ایسا ’’مستقل مسئلہ‘ ہے جو نہ صرف ملکی و غیرملکی سیاحوں بلکہ مقامی اَفراد کے لئے بھی درد سر ہے اُور یہ دیرینہ مسئلہ سنجیدہ عملی حل کا متقاضی ہے۔ بات صرف ہزارہ ڈویژن ہی کی حد تک محدود نہیں کہ جہاں اَن گنت سیاحتی امکانات کی موجودگی سے انکار نہ کرنے والے متعلقہ حکومتی ادارے سیاحوں کی رہنمائی کے لئے خاطرخواہ اقدامات و انتظام کرنے میں کیوں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

عجب ہے کہ کسی بھی جگہ سیاحوں کے قیام و طعام کی سہولیات اُور اُن کا معیار تسلی بخش نہیں۔ سیاحوں کی حفاظت یا کسی خطرے کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کاری کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں اور نہ ہی موسم گرما (سیاحتی سیزن) کے دوران پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ چونکہ خیبرپختونخوا میں تین سطحی بلدیاتی نظام رائج ہے اِس لئے تجویز ہے کہ ہر ضلعی حکومت اپنی اپنی حدود میں تحصیل و یونین کونسل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی حدود میں سیاحتی مقامات کی ترقی کے لئے خصوصی فنڈز مختص کرے۔ سردست سیاحوں کی آمدورفت سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ نجی اداروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس سے یقیناًطور پر سرکاری عہدوں پر فائز مفاد پرست عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں لیکن اگر حکومت سیاحتی شعبوں کو منظم و مربوط خطوط پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں خیبرپختونخوا کو سب سے زیادہ آمدنی اِسی مد سے ہونے لگے۔

ایبٹ آباد کے قریب ترین ’ہرنو‘ کا مقام جسے عرف عام میں ’ہرنوئی‘ بھی کہا جاتا ہے یونین کونسل دھمتوڑ کی اختتامی حد اور یونین کونسل سربنہ و کٹھوال کے ایک حصے پر واقع ہے اور ’نتھیاگلی‘ سمیت گلیات کے عازمین ایبٹ آباد کے راستے اِسی مقام سے گزرتے ہیں جہاں چند گھنٹے قیام کرنے یا نتھیاگلی کی شام سے اُکتاہٹ محسوس کرنے والے بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہرنوئی ضرور آتے ہیں تاکہ ایک معتدل موسم کا مزا لے سکیں۔ ہرنوئی کی مقبولیت اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہاں کے بلند و بالا سرسبز و شاداب اور گھنے جنگلات سے لبالب پہاڑ اُور کے درمیان نہایت خاموشی سے بہنے والے مختلف برساتی نالوں کا ٹھنڈا پانی ہے‘ جس کی سطح چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور گرمی کے ستائے یہاں بے فکری سے اپنے بچوں کے ساتھ چند لمحوں کے سکون کی یادیں سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہرنوئی کے مقام پر گاڑیاں دھونے سے پھیلنے والی آلودگی یا سیاحوں کے زیراستعمال رہی پلاسٹک کی خالی بوتلیں‘ خالی پیکٹ اور دیگر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ گندگی اکٹھا اُور اسے تلف کرنے کے لئے متعلقہ یونین کونسلوں کی ذمہ داری ہے تاہم اگر سیاحوں کو ایبٹ آباد میں داخل ہوتے وقت کسی ٹول پلازہ یا پیٹرول پمپ ایسی ہدایات تھما دی جائیں کہ وہ سیاحتی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں یا اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں یا سیاحتی مقامات کا ایک دوسرے سے فاصلہ اور وہاں سہولیات سے استفادہ کرنے کے لئے کن ٹیلی فون نمبروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ گلیات کی سیر کے لئے آنے والی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو ادویات حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے اگر ضلعی حکومت ’آن کال فارمیسی‘ کا بندوبست کرے یا سیاحوں کی رجسٹریشن کے مقامات یا آن لائن رجسٹریشن متعارف کرانے سے ایسی خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ چلچلاتی گرمی سے بھاگ کر گلیات کی سیر کے لئے آنے والوں کو قیام و طعام کی مد میں لوٹنے والوں کی بھی کمی نہیں۔سیاح سے ایسی ایسی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ یقین نہیں آتا جیسا کہ ہوٹل والے گاڑی کی پارکنگ کے لئے علیحدہ سے کرایہ وصول کرتے ہیں۔

ضلعی حکومت کی جانب سے ’پارکنگ پلازہ‘ اور رہنمائی کا انتظام کیوں نہیں ہوسکتا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے لئے سیاحت کے ترقیاتی ادارے سے لیکر ضلعی انتظامیہ تک ہر ایک جوابدہ اور ذمہ دار ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے درخواست ہے کہ وہ ماضی میں ’ہرنو‘ کے مقام پر ’’واٹر سپورٹس‘‘ کے تفریحی منصوبے کی فائل سرد خانے سے نکالیں اُور ’ہرنو‘ کی ترقی کے لئے پہلی فرصت میں اِس مقام کا خود دورہ کریں کیونکہ ’’شنیدہ کی بود مانند دیدہ!‘‘

اَلمیہ ہے کہ سیاحوں کی رہنمائی کے لئے سائن بورڈوں پر چسپاں پوسٹرز اور اسٹکرز فی الفور ہٹائے جائیں جو بدصورتی کی بھی علامت ہیں اور آئندہ سائن بورڈز پر یوں انتخابی امیدواروں کی تصاویر چسپاں کرنے والوں پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ فاصلوں کی واضح نشاندہی کے ساتھ متعلقہ حکام کے ایسے فون نمبرز بھی مشتہر کئے جائیں جنہیں ڈائل کرنے پر یہ ’دلخراش اناونسمینٹ‘ سنائی نہ دے کہ ’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الوقت رابطہ ممکن نہیں!‘‘ سیاح مہمان ہیں اور مہمان نوازی کے تقاضے اپنی جگہ لیکن جو سرکاری ملازمین حکومت سے سارا سال ’تنخواہ و مراعات‘ ہی مہمان داری کے لئے وصول کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ کم سے کم چند ماہ کے ’سیاحتی سیزن‘ میں اپنی موجودگی عملاً ثابت بھی کیا کریں۔ ایبٹ آباد سے رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے معاون خصوصی ’الحاج عبد الحمید‘ کی جانب سے محدود پیمانے پر ایک کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے چند ایک مقامات پر ایسے اعلانات (بل بورڈز) نصب کئے ہیں جس کی مثال سرکاری اداروں بشمول ضلع ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے دیگر اراکین اسمبلی کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔

پینافلیکس بورڈوں پر جلی حروف (اردو زبان) میں لکھا گیا ہے کہ ’’اگر کسی سیاح کو مشکل ہو تو رکن قومی اسمبلی کے نمائندے سے دیئے گئے نمبروں پر رابطہ کرسکتا ہے۔‘‘ اِس قسم کے اشتہار انگریزی زبان میں بھی ہونے چاہئیں اور زیادہ بڑے پیمانے پر یہاں وہاں آویزاں ہوں تاکہ سیاحوں کو ناجائز منافع خوری اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ تحریک انصاف کے ایک نمائندے کی جانب سے اصلاح و رہنمائی کی یہ ’’بظاہر معمولی سی کوشش‘‘ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے چھوٹے کام کرے تو یقیناًایک بہت بڑی تبدیلی عملاً ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
TOURISM need more attractions including a water park in Harnoi, Abbottabad

Friday, May 20, 2016

May2016 Leading role of leaders!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کنارہ کشی‘ آخر کیوں ؟
خودکشی ’حرام‘ فعل ہے بالکل اِسی طرح سیاست کے تطہیری عمل سے ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر اظہار لاتعلقی کرنا بھی ’اجتماعی مفاد‘ کے نکتۂ نظر سے ’حرام‘ ہی تصور ہوگا جبکہ معاشرے کو تعمیری و مثبت سوچ رکھنے والے ’اصلاح کاروں (سیاست دانوں) کی اَشد ضرورت ہے۔ پشاور کے معروف سادات و سرتاج ’گیلانی‘ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ’سلسلۂ قادریہ حسنیہ‘ کے چشم و چراغ ’سیّد محمد سبطین گیلانی‘ اَلمعروف ’تاج آغا‘ نے سیاست سے ’کنارۂ کشی‘ کا اعلان کیا ہے۔ آپ کا سیاسی تعلق طویل عرصے تک ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کے اُس دھڑے سے رہا‘ جو اگرچہ پارلیمانی سیاست میں عددی اعتبار سے ’انتخابی کامیابیاں‘ حاصل نہیں کرتا (کیونکہ وہ انتخابی دھاندلی اور جوڑ توڑ کی سیاست پر یقین نہ رکھنے والوں میں شامل ہے) لیکن یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اندرون شہر کے اِس گیلانی خاندان کے حمایت یافتہ کسی بھی اُمیدوار کی بالخصوص پشاور کے سیاسی منظرنامے میں کامیابی لازمی تصور کی جاتی ہے۔ بلاتھکان ہر خاص و عام کو گرجدار آواز میں دعائیں دیتے‘ غمزدہ افراد کو گلے لگانے اور داد و عنایات بانٹنے والے سخاوت کا حوالہ رکھنے والے دُرویش بہ لقب ’تاج آغا‘ پشاور کی علمی ادبی‘ سیاسی و ثقافتی اور ہندکو زبان کے سرپرست گھرانے کے چشم و چراغ ہیں جن کی قیام پاکستان کی جدوجہد میں خدمات کا مستند حوالہ مملکت خداداد کی تاریخ کا باب ہے اور ایک دنیا اُن کے فیوض و برکات سے آشنا و بہرہ مند ہے۔

پیر طریقت سیّد محمد امیر شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ المعروف مولوی جی نے ورثے میں جو نیک نامی‘ ساکھ اُور روحانی اُولاد چھوڑی ہے اُس کی سرپرستی و تربیت کا فریضہ آپؒ کے جانشین خنداں پیشاں‘ سیّد محمد نور الحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا بخوبی سرانجام دے رہے ہیں جنہوں نے روحانی محاذ پر ڈٹ کر تصوف و روحانیت کے چراغوں کی لو میں اضافہ کیا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس گھرانے کو تاقیامت سلامت وآباد رکھے جو پشاور کا ایک مستند حوالہ اور ایک ایسی عظیم خانقاہ کا تسلسل ہے جس کے دروازے علم و دین اور خیر کے طلبگار کے لئے ہمیشہ اور ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ امن و امان کے بدترین حالات میں بھی اندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر جان میں واقع ’آستانہ عالیہ حسنیہ‘ کے در دولت پر دستک دینے والوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں تھا‘ جو جب چاہے حاضر ہو کر اپنا مدعا خانوادۂ اہل بیت کے حضور بیان کرسکتا ہے اور آج بھی ہر ماہ کی گیارہ تاریخ‘ بعد نماز فجر ’ختم غوثیہ‘ کا اہتمام جبکہ ہر شام ہی کسی نہ کسی مناسبت سے نعتیہ اور محافل مقاصدیہ کا انعقاد باقاعدگی سے ہونا ایک معمول ہے جبکہ اس کے علاؤہ پشاور سے کراچی تک محافل غوثیہ کے انعقاد میں بھی اِسی گھرانے کی سرپرستی سے ہوتا ہے‘ جس کی برکات ہیں کہ پاکستان باوجود اپنوں کی لوٹ مار اُور غیروں کی سازشوں کے باوجود قائم ودائم اور مشہور و مشہود ہے۔

گرامی قدر ’تاج آغا‘ کی جانب سے صرف ’جمعیت علمائے پاکستان‘ ہی سے نہیں بلکہ عملی سیاست سے علیحدگی کے ایک اعلان کا سبب یقیناًاُن کے روحانی درجات و کمالات اور مرتبے میں اضافے کی وجہ سے بھی ہے جس نے اُنہیں کم گو اور گوشہ نشین کر دیا ہے اور اب اُن کا زیادہ تر وقت مکۃ المکرمہ و مدینہ منورہ کی پرنور و باشعور فضاؤں میں گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کسی کا تعلق متواتر اور مسلسل ’سلسلۂ نور‘ سے ہو جائے اُس کے لئے دیگر دنیاوی چیزیں‘ رتبے مراتب اور اسباب دنیا بے معنی و بے وقعت ہو جاتے ہیں لیکن شاید ’تاج آغا‘ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اُن کے کندھوں پر ’اُمت کی اصلاح کی ذمہ داری‘ بھی عائد ہے۔ وہ منبر کے وارث ہیں۔ سیّد گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے اُنہیں روحانی و علمی اور عملی رہنمائی کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا پڑے گا۔

 مکر و فریب‘ جھوٹ‘ ریاکاری اور دغابازی پر مبنی کھیل تماشوں کے شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے سیاست کے میدان کی تمثیل عصر حاضر کے ’کربلا‘ سے دی جاسکتی ہے جس میں حق و صداقت کو ایک مرتبہ پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ وقت غاصبوں کی بیعت سے انکار کرنے کا ہے۔ انتخابی دھاندلی‘ مالی و انتظامی بدعنوانی اور تعصب پر مبنی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت کا مقابلہ کرتے ہوئے بھوک و پیاس جیسی چند ایک نہیں بلکہ کئی مخالف و شیطانی قوتوں کا ’’مردانہ وار مقابلہ‘‘ کرنے کی اِس ’امتحانی گھڑی‘ اگر کوئی سادات گھرانے کا ’صاحب وقار معالج‘ اپنی ذات اُور اپنے آپ میں ڈوب کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اُور گردوپیش پھیلی غربت و افلاس‘ مسائل و مشکلات اور گمراہی کا علاج کرنے کے لئے خود کو وقف نہیں کرتا‘ اُور اپنے عزیز ترین مقاصد و آسائشوں کی قربانی نہیں دیتا تو یہ ’مجرمانہ غفلت (حرام)‘ اُور سادات کرام کے رتبے و مقام کے شایان شان نہیں‘ جو دنیا میں عدل و احترام اِنسانیت عام کرنے کے لئے نازل ہوا۔

قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ’مسلم لیگ‘ سے وابستہ رہے پشاور کا یہ سرتاج سادات گھرانہ بعدازاں ’جمعیت علمائے پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے ’مجاہد ملت علامہ شاہ اَحمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ‘ کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا‘ جنہوں نے ’ختم نبوت‘ کی تحریک کو کمال شان سے آگے بڑھایا اُور پاکستان کے موجودہ آئین کے تشکیلی مراحل سے لے کر ’توہین رسالت‘ سے متعلق قوانین کے تحفظ‘ رویت ہلال‘ روحانی و تصوف کے موضوعات پر وعظ و تلقین‘ دروس قرآن اور علمی و ادبی محافل کے انعقاد میں بھی یہی گھرانہ پیش پیش رہا تو کیا موجودہ اَبتر سیاسی و غیریقینی و گھٹن کے سیاسی ماحول میں خود کو ’مسجد و منبر تک‘ محدود کرلینا کسی ’صاحب شان‘ کے ’حسب شان‘ ہو سکتا ہے؟ (گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے) موجودہ حالات میں جبکہ ’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیریؓ‘ اَدا کرنے کی ضرورت ہے تو ’تاج آغا‘ سمیت جملہ اہل مراتب و مقام اور نظریاتی سیاست پر یقین و عہد رکھنے والے حب الوطن سیاست (اصلاح کاروں) سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ ’انصاف و عدل‘ کی منزل تک رسائی سے قبل ہی عملی سیاسی جدوجہد سے خود کو الگ نہ کریں بلکہ اگر کسی ایک سیاسی جماعت سے اُنہیں حسب حال تیزرفتار بہتری کی اُمید نہیں رہی تو ایسی تحریک (صورت) موجود ہے جو انقلاب و جنون کے ذریعے تبدیلی اور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کا عزم رکھتی ہے۔

 موروثی سیاست کی دلدل میں دھنسنے سے اچھا ہے کہ ’تبدیلی کے سرسبز و شاداب‘ چمن زار میں قدم رکھا جائے۔ اُس پرچم (علم) کو تھام لیا جائے‘ جس پر سرخ رنگ ’شہادت و جدوجہد کی دائمی تحریک کے قائد اِمام عالی مقام حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ‘ سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو دوسرے رنگ کو دیکھ کر نواسۂ رسول سبزقبا حضرت اِمام حسن رضی اللہ عنہ کی یاد آتی ہے‘ جن کی سیاست‘ فہم و فراست اُمت مسلمہ کے مفاد کے لئے اپنے مفادات کی قربانی دینے پر مبنی اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔

May2016 How to Curb 'the corruption'

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’بدعنوانی‘ کی گھٹی!
روایت رہی ہے کہ کسی بھی مالی سال کے اختتامی ہفتوں میں سرکاری محکموں میں کام کاج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کسی کو سرکھجانے کی فرصت نہیں رہتی۔ وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ مفاد عامہ کے کسی منصوبے کے تکمیلی مراحل پر کام کی رفتار بڑھا رہے ہوتے ہیں بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ حکومت سے ملنے والے سالانہ مالی وسائل کے باقی ماندہ بیلنس کو کسی غیرترقیاتی مد میں کس طرح اور کس جواز کے تحت خرچ کیا جائے۔ کہ ایسا کرنے سے نہ صرف خریداری اور ذاتی مفاد جیسے اہداف بھی حاصل ہو جائیں اور کارکردگی بھی ظاہر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دفاتر و سرکاری رہائشگاہوں کی تعمیرومرمت‘ تزئین و آرائش اُور دیگر کئی مدوں میں بھی سانس روکے بغیر اَخراجات ایک معمول ہے جن کے بل بذریعہ ’اکاونٹنٹ جنرل آفس‘ مالی سال کے اختتام سے قبل ادا ہونا ہوتے ہیں۔ نجی اِداروں کی جانب سے سرکاری محکموں سے لین دین کے ’مروجہ اَصولوں (ضوابط)‘ کے تحت ’سپلائی اُور وصولی‘ کے درمیان کل بل (وصولی کی رقم) کا ایک فیصد حصہ (نقد) بینک چیک کی وصولی کے وقت ادا کرنا پڑتا تھا اور یہ روایت (وائٹ کالر کرائم) ایک دو برس قدیم نہیں بلکہ مبینہ طور پر گذشتہ تین دہائیوں سے بل کے عوض چیک وصول کرنے کا ’مقررہ نرخ‘ ایک فیصد پر ٹھہرا رہا‘ جس میں اچانک ایک فیصد اضافے پر بلبلا اُٹھنے والوں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے اپیل کی ہے کہ وہ خفیہ ذرائع سے تحقیقات کروائیں کہ کس طرح ’اکاونٹنٹ جنرل آفس‘ میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے اور اِس میں ملوث کردار کون کون ہیں؟ ’’ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی ۔۔۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے! (اَاذہر درانی)‘‘

خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے لئے ’تحریک انصاف‘ کو دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی لیکن جس ایک نکتے پر کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا وہ مالی بدعنوانی تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج بھی عوامی اجتماعات میں یہ بات فخر اور سینہ ٹھوک کر بیان کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری دفاتر میں ماضی کے مقابلے بدعنوانی کم ہوئی ہے اور یقیناًایسا ہی تھا لیکن جیسے جیسے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے ماہ و سال کے سفر میں دوری ہو رہی ہے ویسے ویسے وہ سبھی عناصر سرگرم ہوتے جا رہے ہیں جن کی گھٹی میں بدعنوانی پڑی ہوئی تھی! تحریک انصاف کو کسی ایسی واردات کے لئے ذمہ دار قرار دینا مبنی برانصاف نہیں کیونکہ جب ’اے جی آفس‘ میں رشوت ستانی کے بارے شکایت کرنے والے سے کہا گیا کہ کیا وہ شواہد کے ساتھ وزیراعلیٰ کے روبرو پیش ہونے کے لئے تیار ہے تو یکایک غبارے سے ہوا نکل گئی! اور موصوف نے ایک لمبی ٹیلی فون کال کا اختتام متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف جاری کراچی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب کوئی وکیل ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف پیش ہوتا تو اگلے روز یا تو وہ پراسرار طور پر ہلاک پایا جاتا یا پھر وہ خود ہی مقدمے سے دستبرداری کی درخواست دائر کردیتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی انصاف چاہتا ہے صرف اپنے لئے اور اِس کے لئے قربانی دینے کو تیار (آمادہ) بھی نہیں۔ ’ایک‘ یا ’دو‘ فیصد کمیشن (رشوت) اَدا کرنے والوں نے سرکاری ملازمین کے منہ کو خون لگا دیا ہے (پورے کے پورے نظام کو کرپٹ کردیا ہے اور اب اِس کی خرابی کے لئے خود کو نہیں بلکہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں!) عجب ہے کہ خود کی بجائے وہ دوسروں سے اپنے کئے کی شکایت کرتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں جو کوئی جو کچھ بوئے گا‘ اُسے وہی کچھ کاٹنا بھی پڑے گا۔ مالی بدعنوانی ہو یا رشوت ستانی‘ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ کس طرح ٹیکس چوری‘ کم قیمت اشیاء کو بیش قیمت ظاہر کرنے اور پھر سرکاری افسروں کے ساتھ مل کرداروں کے وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار رہا ہے یا رہی ہے۔

تحریک انصاف کی صورت ایک ایسی متبادل سیاسی قوت ہاتھ آئی ہے جسے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں دیکھنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ہم میں سے ہر ایک ’اصلاح کار‘ کا کردار اَدا نہیں کرتا اور اپنے مفادات کی قربانی نہیں دیتا اُس وقت تک ’’تبدیلی‘‘ نہیں آسکتی۔ کیا عمران خان کو اِس لئے ووٹ دیا گیا کہ وہ ایک جادوگر ہے اور جب چاہے چھڑی گھما کر سب کچھ تبدیل کر دے گا؟ کیا عمران خان کو محض ووٹ دینا ہی کافی تھا اور اب ووٹ دے کر حمایت کرنے والوں کی ذمہ داری ختم (یا کم) ہوگئی ہے؟ تعصب کی سیاست کرنے والوں سے قوم اظہار بیزاری نہیں کر رہی جس کے ثبوت ضمنی انتخابات میں ’این اے ون‘ سے لیکر ’پی کے آٹھ‘ کے درمیان اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔

 پانامہ لیکس کے ظاہر ہونے والی ’آف شور سرمایہ کاری‘ یا دو فیصد رشوت طلب کرنے والے ’آن شور بدعنوان‘ یکساں ’ایکسپوز‘ ہوئے ہیں تو کون ہے جو اِس استحصالی منظرنامے کو تبدیل کرے اور اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے اپنی مصلحتوں یا اپنے مفادات کی قربانی دے؟
Voting for revolutionary PTI is enough or to curb the corruption one has to react with actions

Saturday, May 14, 2016

May2016: Development Journalism IPR WebSite initiative!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعمیری صحافت: حوصلے اپنی جگہ ہیں‘ بے بسی اپنی جگہ!
جرمنی‘ امریکہ اُور سوئزر لینڈ حکومتوں کی جانب سے ’جامعہ پشاور‘ کے شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ (ڈیپارٹمنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کیمونیکیشن) کو نہ صرف تدریسی سہولیات بہتر و معیاری بنانے کے لئے مالی و تکنیکی معاونت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ صحافت کے عملی اطلاق کو عام فہم بنانے کے لئے بھی صوتی و بصری جیسے تکنیکی شعبوں میں رہنمائی کا متواتر و مسلسل اہتمام ایک ایسا ’بارانِ رحمت‘ ہے جس سے بنجر زمینیں سرسبزوشاداب دکھائی دیتی ہیں۔ بارہ مئی کو ایک اُور سنگ میل عبور کرتے ہوئے خصوصی ’ویب سائٹ (iprjmc.org.pk)‘کا اِجرأ کیا گیا‘ جس کا بنیادی مقصد شعبۂ صحافت میں زیرتعلیم وتربیت طلباء و طالبات کے کام (آؤٹ پٹ) کو نہ صرف مربوط اَنداز میں محفوظ رکھنا ہے بلکہ اِسے بطور نمونہ اُور مثال پیش بھی کرنا ہے تاکہ ہم عصر پیشہ وروں یا زیرتربیت طلباء و طالبات کے علاؤہ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے کارکردگی کے اِن عملی نمونوں اور غیرملکی امداد کے ثمرات سے آگاہ ہوسکیں۔ واضح رہے کہ ’جرنلزم ڈیپارٹمنٹ‘ کی نئی ویب سائٹ پورے شعبے کی کارکردگی کا احاطہ نہیں بلکہ یہ صرف اُس تین ماہ کے ’(مختصر) تربیتی کورس‘ میں حصہ لینے والوں کی مہارت و علمیت کی چنیدہ مثالوں کا مجموعہ ہے جنہیں مختلف شعبوں سے بنیادی تعلیم کے معیار پر چنا جاتا ہے اور پھر اُنہیں خبر کے بیان سے متعلق باریکیوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اب تک ایسے 7کورسیز (عملی مشقوں) کا کامیابی سے انعقاد ہو چکا ہے جس سے 115 طلباء و طالبات مستفید ہو چکے ہیں۔ یقیناًمحض تین ماہ کے عرصے میں صحافت کے سبھی شعبوں کو گہرائی سے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن کم سے کم اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ ’سو سے زائد‘ طلباء و طالبات کا صحافت کے بارے میں تصور (ویژن) ماضی کی طرح سطحی نہیں رہا۔

شعبۂ صحافت کے چیئرمین ڈاکٹر اَلطاف اللہ خان پُرعزم ہیں کہ نئی ویب سائٹ کا اجرأ اگرچہ مختصر کورس کے شرکاء کی کارکردگی پیش کرنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن اِس کا دائرۂ کار (مستقبل قریب میں) محدود نہیں رہے گا کیونکہ اِس پوری کوشش کا خلاصہ یعنی بنیادی تصور یہ ہے کہ ’’ڈویلپمنٹ جرنلزم کو معروف (و متعارف) کیا جائے۔‘‘ اُنہوں نے سال 2014 ء اور 2015ء کے دوران ایڈیٹرز سے ہوئی ملاقاتوں کا احوال بھی بیان کیا‘ جن سے حاصل ہوئے ’فیڈبیک‘ کی روشنی میں ویب سائٹ کا اجرأ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر الطاف کا مطمعۂ نظر صحافت کا بامقصد اُور تعمیری نتیجہ خیزی ہے‘ جس کے لئے اُن کی عملی کوششوں کا نچوڑ اُور نکتۂ نظر‘ یہ ہے کہ ’’ہم چاہتے تھے اُور اَبھی بھی خواہش رکھتے ہیں کہ ڈویلپمنٹ (سماج میں ہونے والی وہ تبدیلیاں جو تخریب کی بجائے اِرتقاء و تعمیر کی عکاس ہیں کو) کسی نہ کسی طرح میڈیا (جملہ پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ) کے ایجنڈے پر لائیں جو کہ (کمرشل ازم اور بھیڑچال جیسے محرکات کی بناء) نہیں ہے۔ نئی ویب سائٹ کے پلیٹ فارم سے صرف شعبۂ صحافت کی حد تک منفرد موضوعات کا انتخاب اور سماجی تعمیروترقی کا بیان ہی نہیں ہوگا بلکہ جہاں کہیں سے ’ڈویلپمنٹ جرنلزم‘ کی کوئی عملی مثال ہاتھ آئے گی تو اُسے بھی ویب سائٹ کے ذریعے ’عام‘ کیا جائے گا۔‘‘ ایسے تمام صحافی یا لکھنے لکھانے سے شغف رکھنے والے ویب سائٹ کے لئے اپنی نگارشات بذریعہ اِی میل (iprjmc08@gmail.com) براہ راست ڈاکٹر الطاف تک پہنچا سکتے ہیں۔ تجویز ہے کہ اِی میل (برقی مکتوبات) کے ذریعے زیادہ بڑے سائز (2گیگا بائٹ تک) کی ویڈیوز یا متعدد تصاویر اور ٹیکسٹ (تحریری متن) اِرسال کرنے کے لئے ’وی ٹرانسفر (wetransfer.com)‘ نامی ویب سائٹ سے استفادہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ اِن دونوں ترسیلی مراحل (اِی میل اُور وی ٹرانسفر) کے لئے موبائل فون یا ڈی ایس ایل کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہونا ضروری ہے۔

پاکستان کے طول عرض میں بالعموم اُور خیبرپختونخوا میں ’بامقصد‘ اُور ’تعمیری صحافت‘ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے۔ جس کے لئے صرف ’شعبۂ صحافت‘ ہی کے کندھوں پر سارا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ قومی و علاقائی صحافتی اِشاعتی اداروں اور بالخصوص ٹیلی ویژن و ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گردوپیش میں ہونے والی مثبت پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہوئے ہماری اَقدار‘ روایات اور تاریخ و ثقافت سے جڑے موضوعات کو اُجاگر کریں اور نئی نسل تک خوبیوں بھرے وہ تصورات بھی منتقل کریں‘ جن کے خمیر میں مذہبی رواداری‘ برداشت‘ احترام‘ شفقت‘ کمزور طبقات سے پیار اُور غیرمشروط حب الوطنی جیسی خصوصیات پنہاں ہیں۔
http://www.dailyaaj.com.pk ... http://www.dailyaaj.com.pk/epaper/epaper/1463153860_201605134518.jpg

Sunday, May 8, 2016

May2016: TRANSLATION: Deadlock

Deadlock
مہلت کا اِختتام!
عالمی بینک کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں تخمینہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف سرکاری ادارے ہی سالانہ کم و بیش 8 ارب ڈالر کی بدعنوانی (کرپشن) کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم عالمی بینک کے اِن اعدادوشمار کو درست تسلیم کرلیں کہ جنہیں رد کرنے کی کوئی منطقی وجہ یا جواز بھی ہمارے ہاتھ نہیں تو پاکستان میں ہر دن سرکاری محکمے 2.2 ارب روپے خردبرد کرتے ہیں اور یہ عمل پورا سال‘ ہر دن باقاعدگی سے جاری رہتا ہے۔ 14 اگست 1947ء سے 2 اپریل 2016ء تک سرکاری اداروں کا یہ منفی کرداار کبھی بھی اس قدر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ پاناما پیپرز کے ذریعے ملک کی سیاسی قیادت و دیگر فیصلہ سازوں بیرون ملک اثاثہ جات کے راز افشاء ہونے کے بعد پورے پاکستان اور دنیا میں جہاں کہیں بھی پاکستانی بستے ہیں اُن کی توجہ قومی سطح پر رائج بدعنوانی کی جانب مبذول ہوئی ہے۔
آٹھ ارب روپے سالانہ کی بدعنوانی کو دو درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک بدعنوانی حسب ضرورت جبکہ دوسری بوجہ حرص و طمع ہے۔ سرکاری محکموں میں حسب ضرورت بدعنوانی اِس لئے ہوتی ہے کیونکہ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی ضروریات تنخواہ سے پوری نہیں ہوتی اور وہ کسی جائز کام کے لئے بھی فائل آگے بڑھانے کے لئے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ مہنگائی کی شرح اور تناسب کے حساب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ ہونا ایسی حسب ضرورت بدعنوانی کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ جب کی سرکاری ملازم کے پاس اپنے بچے کی ماہوار سکول فیس جمع کرانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تو وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتا ہے لیکن اعلیٰ انتظامی عہدوں اور کلیدی فیصلہ سازی جیسے منصب پر فائز کردار جب بدعنوانی کرتے ہیں تو وہ اپنی ضروریات سے زیادہ جمع کرنے کی لالچ اور حرص جیسے محرکات کی سبب ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بدعنوانی کسی بھی شکل اور کسی بھی وجہ سے قابل مذمت ہے لیکن جو لوگ زیادہ سے زیادہ مالی وسائل جمع کرنے کے لئے بدعنوانی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ درحقیقت پورے انتظامی نظام کو تہس نہس کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف ملک کی اہم سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں ہیں۔ ان میں پاکستان پیپلزپارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ جماعت اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم)‘ قومی وطن پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی مسلم لیگ شامل ہیں۔ یہ سبھی سیاسی جماعتیں ایک ’پلیٹ فارم‘ پر متحد ہوکر بدعنوانی سے پاک پاکستان کے لئے تحریک کا حصہ ہیں جو بدعنوانوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ اور اِس مطالبے پر زور دینے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل ’بدعنوانوں کے احتساب‘ کا مطالبہ کرنے والے اتحاد سے 114 اراکین قومی اسمبلی وابستہ ہیں اور اِن کی کوشش ہے کہ عوامی سطح پر اُن کی جدوجہد بارے زیادہ سے زیادہ شعور اجاگر کرکے مطالبے کا وزن بڑھایا جائے۔

ایک طرف بدعنوانی سے اظہار بیزاری کرنے والے ہیں اور دوسری طرف احتساب کے شکل حکومت مخالف تحریک کا رخ موڑنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جس میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ 9 جماعتوں کے مقابلے اِن 4 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 206 ہے جن کی کوشش ہے کہ احتساب کے مطالبے کی آندھی کا رخ موڑ دیا جائے۔ احتساب کا عمل تاخیری حربوں کے ذریعے مؤخر رہے۔ اِس پورے سیاسی منظرنامے کی وجہ سے انسداد بدعنوانی کے خلاف تحریک اور احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کی جدوجہد بندگلی میں جا کھڑی ہوئی ہے‘ جس سے نکلنے کی راہ آگے بڑھنے کی صورت دکھائی (سجھائی) نہیں دے رہی!
9
سیاسی جماعتوں کا اتحاد چاہتا ہے کہ ہر کسی کی آمدن و اثاثوں کے درمیان تفریق معلوم ہونی چاہئے اور حساب و کتاب پر مبنی اِس سیدھے سادے احتساب کی ابتدأ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور حکمراں خاندان کے دیگر افراد کے اثاثوں و آمدنی بارے تحقیقات سے ہونا چاہئے جس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ذرائع ابلاغ میں اربوں روپے کے اشتہارات جاری کئے ہیں اور وزیر اعظم خود عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے یہاں وہاں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کو بانٹ رہے ہیں۔ اگر پاکستان سے بدعنوانی ختم کرنے کی موجودہ مہم اور قومی وسائل لوٹنے والوں کا احتساب اِس مرحلے پر بھی نہیں ہوتا تو اِس سے دہشت گردی کے خلاف جاری عزم و جدوجہد کو دھچکا لگے گا۔

اگر حکومت تمام سرکاری وسائل اور اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف احتساب کی تحریک کو ناکام بناتی ہے تو اِس صورتحال میں 9 سیاسی جماعتوں کے پاس کون کون سے راستے باقی رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لا کر وزیراعظم کو رخصت کرسکتے ہیں لیکن عددی اعتبار سے ایسا کرنے کی صورت کامیابی حاصل کرنا اُن کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ حکمراں جماعت ’پاکستان مسلم لیگ(نواز)‘ سے سخت و نیم سخت شرائط پر مصلحت کرلیں اور تیسرا یہ کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور عوام کو لیکر ایک احتجاجی مہم کا آغاز کردیں۔ اگر ہم 9 سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا ذکر کریں تو عوام کے دباؤ کی وجہ سے کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ احتساب کے خلاف مہم و اتحاد سے الگ ہو۔

حزب اختلاف کی جماعتیں آمدن و اثاثہ جات کے درمیان فرق کی وضاحت چاہتے ہیں تو اِس کا جواب حکمراں مسلم لیگ کے پاس نہیں جس کی وجہ سے وہ حیلے بہانوں کا آسرا لے رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کرنا چاہتے ہیں تاکہ احتساب کے مطالبے کا جوش کم ہو جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالات کی لہریں 9 سیاسی جماعتوں کے حق میں ہیں۔ وزیراعظم کے پاس یہی راستہ باقی ہے کہ وہ تحقیقات بذریعہ جوڈیشل کمیشن کرائیں چاہے یہ کام جلد ہو یا بدیر لیکن تحقیقات کرانے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ راقم اِس بات پر شرط لگانے کے لئے تیار ہے کہ اگر وزیراعظم برسراقتدار بھی رہتے ہیں اور اُن ہی کے بارے تحقیقات کرنے کے لئے کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ وزیراعظم بے قصور قرار پائیں گے!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

May2016: Non Political Police

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غیرسیاسی پولیس۔۔۔؟!
خیبرپختونخوا کے محکمۂ پولیس میں اعلیٰ سطح پر ’سیاسی مداخلت‘ ختم کرنے کے مثبت اثرات تین سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ کے قتل کا معمہ محض چند گھنٹوں اُور ضلع ایبٹ آباد کے ایک دُور افتادہ گاؤں مکول میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ جیسی گھناؤنی واردات کا سراغ بھی چند ہی روز میں لگا کر ’اِنسداد دہشت گردی‘ کی دفعات عائد کردی گئیں ہیں تو کیا یہ تبدیلی نہیں کہ پولیس اس قدر چوکنا اُور مستعد ہو گئی ہے؟ سردار سورن سنگھ رکن صوبائی اسمبلی تھے‘ جن کے قتل کی مذمت تحریک انصاف کے سربراہ سے لیکر حکمراں سیاسی جماعت کے ہر کارکن نے کی۔ وہ ایک ’ہائی پروفائل کیس‘ تھا اُور ہمارے ہاں پولیس کا ماضی ایسی متعدد مثالوں سے مزین ہے‘ جہاں خواص کے خلاف ہونے والی وارداتیں تو چٹکی بجاتے تھانے ہی کی سطح پر حل کر لی گئیں لیکن جہاں کہیں عام آدمی جرم کا شکار ہوا‘ تو وہاں پولیس سے رجوع کرنا گویا ستم بالائے ستم ٹھہرا۔ شہری و دیہی علاقوں میں پولیس کی گشت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی یقیناً’اَعدادوشمار‘ کی بنیاد پر اپنے محکمے کی کارکردگی پر مطمئن ہوں گے لیکن ہر جرم رپورٹ نہیں ہوتا اُور یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے غوروخوض ضروری ہے۔ ناصر درانی اُنہیں اُس ’عمومی تاثر‘ کو بھی زائل کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہیءں‘ تاکہ پولیس اور تھانے کی ساکھ بہتر ہو۔

خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری کا نوٹس عالمی سطح پر بھی لیا گیا ہے اور بالخصوص اٹھائیس اپریل کو منظرعام پر آنے والے گلیات کے تھانہ ڈونگا گلی کے گاؤں مکول پائیں میں لڑکی کے قتل کی تحقیقات جس پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھائی جا رہی ہے‘ اُس پر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی معروف غیرسرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے بھی قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کی سطح پر پنچائیت اور جرگے کی مذمت و عملی اقدامات کی ضرورت کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِس قسم کے واقعات رونما ہونے کے بعد پولیس پر کڑی تنقید کی جاتی تھی۔ احتجاجی مظاہرین اِس بات کا بھی مطالبہ کرتے تھے کہ پولیس جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن پولیس کلچر میں تبدیلی اپنوں اور غیروں کی نظر میں آنے سے توقعات کم نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے لئے عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز پولیس کی کارکردگی سے سوفیصد مطمئن نہیں لیکن بہتری محسوس کرتے ہوئے انہوں نے خواتین کے خلاف ایسے درجنوں جرائم کا ذکر کیا ہے جو ہنوز تفتیشی مراحل سے گزر رہے ہیں یا سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہورہے کیونکہ پولیس عوام دوست نہیں!‘‘ جائز سوال ہے کہ پولیس کا رعب و دبدبہ کہاں ہے؟ عمومی تاثر یہی ہے کہ جرائم کا ارتکاب اس لئے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ تھانہ کچہری کی نزاکتیں‘ باریکیاں اور مراحل کی آسانی مالی وسائل سے مشروط ہے۔

معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے پولیس کے محکمے کا ’’مکمل غیرسیاسی‘‘ ہونا اگرچہ فوری ممکن نہیں لیکن ضروری ہے۔ قانون کی نظر ہر خاص وعام کو ایک نظر سے دیکھے‘ اگرچہ ایسا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا لیکن بہرکیف و بہرحال ضروری ہے۔ اگر ہم ضلع پشاور کے تھانہ جات ہی کی بات کریں تو آبادی کے تناسب سے افرادی قوت اور تکنیکی و فنی وسائل کی کمی کارکردگی کو متاثر کرنے جیسے دیگر کئی اسباب کا حصہ ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو ذہنی و جسمانی سکون اور آرام تو بہت دور کی بات اُنہیں پیشہ وارانہ استعداد بڑھانے کے لئے تربیت کے مواقع بھی خاطرخواہ نہیں ملتے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے بیرون ملک تربیتی دورے اور اُن کے علم ودانش میں اضافے کے کچھ نہ کچھ ثمرات تو روزمرہ معمولات کی گرداب میں پھنسے ہوئے اہلکاروں کو بھی منتقل ہونا چاہئے۔ اِنسپکٹر جنرل سے توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت میں تھانہ جات کی سطح پر پائے جانے والے تحفظات‘ شکایات اُور ضروریات بارے باقی ماندہ کام مکمل کرنے کی رفتار میں اضافہ کریں گے۔ تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے اُنہیں دیکھنا ہوگا کہ خود اُنہی کے ’آس پاس‘ ایسے ’فرمان تابع‘ اہلکار بھی ہیں جو اُن کے اصلاحات و تبدیلی کے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پولیس فورس میں احتساب کا عمل جس زور و شور سے شروع کیا گیا‘ اُس بارے سست روی کا تاثر بھی ’سزا وجزأ‘ کے دائمی و اختیاری طرز عمل کا متقاضی ہے۔ پولیس سربراہ اگر معلوم کرنا چاہیں تو ایسے کئی اہلکار ملیں گے جو ایک ہی تھانے میں سالہا سال سے تعینات ہیں۔

دہشت گردی و بھتہ خوری جیسے منظم جرائم کے سہولت کاروں کی تلاش قطعی مشکل نہیں اگر ہر تھانے کو ایسے افراد کی فہرستیں مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے جو ایک سے زیادہ مقدمات میں ملوث ہیں اور تھانے سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں جن کی آمدن کے ذرائع مشکوک و معلوم ہیں۔ ماضی میں سیاسی و انتظامی اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے بارے میں پولیس کے اپنے خفیہ تفتیشی شعبے کی مرتب کردہ رپورٹیں سردخانے کی نذر میں پڑی ہوئی ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کہیں ’ادھر اُدھر‘ ہی نہ ہوجائیں۔ ناصر درانی سے زیادہ سنہرا (منفرد) موقع شاید ہی کسی پولیس سربراہ کو ملا ہو‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اصلاح و تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی رفتار مزید کتنی بڑھا پاتے ہیں!؟
http://dailyaaj.com.pk/epaper/epaper/1462634497_201605072524.jpg

Friday, May 6, 2016

May2016: Violence against women in Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
درندگی کی انتہاء!
تصور کیجئے کہ ’عمائدین علاقہ پر مشتمل جرگہ بناء صفائی فرد جرم عائد کرتا ہے اُور مجرم قرار دی گئی لڑکی کو ’’سزائے موت‘‘ سناتا ہے۔ پھر اُسے گھسیٹ کر سب کے سامنے اِتنا پیٹا جاتا ہے کہ وہ مر جائے۔ ایک اطلاع کے مطابق ڈوپٹے سے پھندا بنا کر اُس کو سانسیں منقطع ہونے تک مارپیٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نجانے کتنی ہی ہچکیاں اور چیخیں اُٹھی ہوں گی‘ لیکن ان کی گونج مقامی پولیس کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی! ایک ہجوم جس میں شامل ہر ایک کی آنکھوں میں اس قدر خون اُترا تھا کہ اُنہیں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اپنی بیٹیاں یاد نہیں آئیں۔ پھر اُس لڑکی کی لاش کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے اور اُس بدقسمت لڑکی کا جرم صرف یہ ہوتا ہے کہ اُس کی ایک سہیلی اپنی پسند کی شادی کرنے کے لئے ’’بغاوت‘‘ پر اُتر آئی تھی! کسی کے ’جرم کی سزا‘ کسی اُور کو دے دی جاتی ہے! پھر جب جلی ہوئی لاش گاؤں سے ایبٹ آباد شہر کے وسطی ہسپتال منتقل ہوتی ہے تو ذرائع ابلاغ کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پولیس پر دباؤ بڑھتا ہے جو ’’غیرت کے نام پر ہونے والے اِس قتل‘‘ میں ملوث 14 افراد کو گرفتار کرتی ہے‘ اُن پر انسداد دہشت گردی کی دفعات میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور عمومی تفتیش کی بجائے ’کاونٹر ٹریرازم ڈیپارٹمنٹ‘ عدالت سے مزید پوچھ گچھ کے لئے ریمانڈ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ کہانی اٹھائیس اپریل سے شروع ہوتی ہے اور پانچ مئی کے روز سامنے آنے والی تفصیلات ’ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) ایبٹ آباد خرم رشید صحافیوں کے سامنے کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ضلع ایبٹ آباد کے مکول گاؤں میں عنبرین نامی لڑکی کے قتل کا معمہ پولیس نے حل کر لیاہے۔ پولیس نے لڑکی کے قتل میں ملوث چودہ ملزمان کو بھی گرفتار کیا ہے جس میں لڑکی کی والدہ شمیم بی بی اور ویلج کونسل ناظم پرویز نامی کردار شامل ہیں۔ ناظم پرویز نے پندرہ افراد پر مشتمل جرگہ منعقد کیا جس نے لڑکی کو پہلے دوپٹہ گلے میں ڈال کر پھندا لگایا اور بعدازاں اُسے گاڑی کی نشست کے ساتھ باندھ کر گاڑی کو آگ لگا دی۔ سیٹ پر چونکہ ریکسین اور چمڑا کی گدی بنی ہوتی ہے جو جلد بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بدل گئی۔ ڈی پی او کے بقول اٹھائیس اپریل کو مکول میں پندرہ افراد پر مشتمل جرگہ صدیق نامی ڈرائیورکے گھر منعقد ہوا‘ جس میں صدیق نامی شخص کو چند روز قبل گاؤں سے ایک لڑکی کے فرار میں مدد کرنے کا الزام تھا‘ جرگہ کا سربراہ (ماسٹر مائنڈ) علاقہ کے ناظم پرویز نے (ملزمہ) لڑکی عنبرین کو قتل کرنے اور بعدازاں صدیق نامی شخص کی گاڑی میں زندہ جلانے کا فیصلہ سنایا اور قتل کے جملہ ثبوت مٹانے کے لئے ساتھ کھڑی دیگر دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا۔ اِس قتل کے سولہ میں سے چودہ ملزمان گرفتار جبکہ دو کی گرفتاری ابھی باقی ہے۔‘‘

جس ملک میں قانون کی حکمرانی کمزور اور انصاف تک بذریعہ عدالت رسائی صبرآزما‘ مہنگا اور ناقابل یقین حد تک دشوار و پیچیدہ عمل ہو‘ وہاں اِس قسم کے واقعات رونما (متبادل فیصلے) ہونے پر افسوس و حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ ضلع ایبٹ آباد کے ایک دور اُفتادہ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ عنبرین قتل ہوئی‘ زندہ جلائی گئی اور اُس کی راکھ کے سوا کچھ نہیں بچا‘ جسے ’فرانزک تجزیئے‘کے لئے بھیج دیا گیا ہے لیکن وارداتیں‘ تفتیش اور روائتی مذمت کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک خواتین کو معاشرے کا کمزور ترین اور کم ترین سمجھا جاتا رہے گا۔ پاکستان میں ہر سال خواتین پر تشدد کے ہزاروں جبکہ قتل کے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں! حکومت کی توجہ دلانے کے لئے ’عورت فاؤنڈیشن‘ سمیت کئی غیرسرکاری تنظیمیں باقاعدگی سے ایسے جرائم متعلق سالانہ رپورٹیں مرتب کرتی ہیں لیکن سب کا سب رائیگاں محسوس ہورہا ہے! عنبرین کا قتل بھی آئندہ کسی واردات تک خبروں (شہ سرخیوں) اور ذرائع ابلاغ پر ہونے والی بحث کا حصہ رہے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے بھی اِس خبر کو خوب اچھال رہے ہیں کیونکہ اِس سے پاکستان میں انسانی حقوق اور ایک عام عورت کی معاشرتی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے! جب تک خبر نشر ہوتی رہے گی اِس بارے معاشرے میں ہر سطح پر بحث بھی جاری رہے گی لیکن ’غیرت کے نام پر‘ کوئی ایک بھی ’قتل‘ اُس وقت تک ’آخری‘ ثابت نہیں ہوگا جب تک بااثر افراد کو نشان عبرت نہیں بنا دیا جاتا۔ تہذیب و تمدن‘ علم اُور فکروشعور کی منزلیں طے کرنے کا دعویٰ کرنے والے معاشرے کی ہرسطح پر‘ ہر معمول میں اگر عورت انصاف کی طلبگار ہے تو اسلامی و نظریاتی مملکت خداداد ہونے کے ’ عملی وقار کا تقاضا‘ یہ ہے کہ صنف نازک کے حقوق اُور اسلامی تعلیمات کے مطابق اُس کے جائز مقام کا ادراک و اَدائیگی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
http://dailyaaj.com.pk/epaper/epaper/1462463311_201605059045.jpg

Monday, May 2, 2016

May2016: Mystry of Osama contine!

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
ناقابل فراموش: 2 مئی کی یادیں!
خبررساں ادارے ’کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) سے بات چیت کرتے ہوئے امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ ’’مئی دو ہزار گیارہ میں اسامہ بن لادن کو انجام تک پہنچانے میں کامیابی کے ظاہری اِمکانات اگرچہ محدود تھے اور کسی دوسرے ملک میں اچانک فوجی کاروائی کی ناکامی سے شرمندگی بھی اپنی جگہ دباؤ رکھتی تھی لیکن اِس کے باوجود دنیا کے انتہائی مطلوب شخص تک رسائی کی اجازت دی گئی جو بطور صدر میرے لئے ایک مشکل فیصلہ تھا۔‘‘ گیارہ ستمبر 2001ء (نائن الیون) کے روز امریکہ پر ہوئے دہشت گرد حملے کا بدلہ چکانے کے لئے امریکہ کے صدر نے ہر خطرہ مول لیا۔ جسے یاد کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر سنجیدگی زیادہ گہری ہوتی دیکھی جا سکتی تھی۔ رواں ہفتے (30 اپریل)کو ’سی این این‘ پر نشر ہونے والی بات چیت میں اُنہوں نے ’اسامہ بن لادن‘ کے خلاف کاروائی کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’’بالآخر ہم نے وہ حاصل کرلیا‘ جو چاہتے تھے۔‘‘

اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کرچکا اُور ’نائن الیون‘ نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اقتصادیات‘ باہم تجارت اور سیاست کی بجائے اقوام نے عسکری اتحاد تشکیل دے کر ایک دوسرے کے ساتھ ’جینے اور مرنے‘ کی قسمیں کھائیں۔ نائن الیون کا جرم ثابت کرنے کی بجائے امریکہ نے دنیا کے ہر اُس مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جہاں اُس کے بقول منصوبہ بندی یا عملی جامہ پہنانے کے لئے غوروخوض یا وسائل مہیا کئے گئے تھے لیکن جس طرح سال دو ہزار ایک میں امریکہ کی سرزمین پر ہوئے ’نائن الیون دہشت گرد حملے‘ پراسرار تھے بالکل اسی طرح ’2مئی 2011ء‘ کی اَلصبح چاند کی روشنی میں اَیبٹ آباد کے علاقے ’ٹھنڈا چوا‘ میں ہوئی اُس فوجی (جوابی) کاروائی کے بارے بھی مقامی افراد کی یا پاکستان میں عمومی طورپر پائی جانے والی معلومات نہایت ہی کم ہیں۔ ہر کوئی زیادہ کچھ جاننے کا خواہشمند آج بھی ہے۔ پانچ سال یعنی ایک ہزار آٹھ سو ستائیس دن‘ چھبیس لاکھ تیس ہزار‘ آٹھ سو سے زیادہ منٹ گزرنے کے باوجود بھی ہم امریکہ کے صدر ہی کے بیان سے حقائق کھوج نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا پانچ سال بعد کہنا ہے کہ ’’آپریشن میں حصہ لینے والے 23 فوجی بخیریت واپس لوٹیں گے یا نہیں‘ اِس بارے وثوق سے کچھ نہ جاننے کے باوجود کاروائی (آپریشن) کی اجازت دی گئی!‘‘

گذشتہ پانچ برس میں امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق دو مئی دو ہزار گیارہ رات ایک بجے ’نیپچون سپیئر(Neptune Spear)‘ نامی آپریشن میں ’اُسامہ بن لادن‘ کو قتل کیا گیا۔ اُس رات سے متعلق ایبٹ آباد کے ’ٹھنڈا چوا‘ نامی علاقے کے رہائشیوں کی یادیں بس اتنی ہی ہیں کہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ اچانک درویوار لرز اُٹھے۔ متعدد دھماکے اور گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ ایک ہیلی کاپٹر میں لگی آگ سے پھیلی روشنی میں کتے کے بھونکنے کی آواز سے وادی گونج رہی تھی پھر آن کی آن ایک ہیلی کاپٹر اُڑا اُور فضاؤں میں کھو گیا جس کے بعد پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیر لیا۔ سخت پوچھ گچھ ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔ یہ علاقہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں آنے والے ہر شخص کو آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ’اُسامہ بن لادن یا اُس کے اہل خانہ کے زیراستعمال رہی رہائشگاہ‘ کے آس پاس سفید کپڑوں میں یہاں وہاں خفیہ اداروں کے اہلکار منڈلاتے رہتے ہیں‘ جو کسی ’سیاح‘ چاہے وہ صحافی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے بناء پوچھ گچھ جانے نہیں دیتے۔ حالیہ دنوں میں ایک غیرملکی ٹیلی ویژن چینل کی ٹیم کو اُس مقام سے باقاعدہ حراست میں لیکر کر ’ایبٹ آباد سے نکال باہر‘ کیا گیا‘ جو ملبے کی صورت بکھری اُن باقی ماندہ بھاری بھرکم نشانیوں (شہ تیروں) تلے دبی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے!

اسامہ بن لادن سے منسوب عمارت کا اب نام و نشان نہیں۔ وہاں فرش کا ایک ٹکڑا ہے۔ ٹیوب ویل سے جڑا پانی کا ایک نلکا جس کی ٹوٹی نہیں اور وہ ہر وقت بہتا رہتا ہے۔ خود رو گھاس اور فرش کے باقی ماندہ حصے پر بچے شام کو کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں۔ شمعریز نامی ایک بوڑھا شخص جو ہمسائے ہی کے ایک دو کمرے کے مکان میں رہتا ہے نے بناء کسی مالک اِس قطعہ اراضی کے ایک کونے میں لہسن و دیگر سبزیاں کاشت کر رکھی ہیں‘ جن کی دیکھ بھال میں اُس کی عمر کے باقی ماندہ دن کٹ رہے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گردکے گھر کا دروازہ اور ملبے کی ایک ایک اینٹ تک یوں لوٹ لی جائے گی یا اُس سے یوں تصرف ہوگا! پاکستان کے سیکورٹی اداروں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کسی جادو کے زور سے اِس انتہائی پراسرار قطعہ اراضی کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیں‘ جس کی حفاظت ایک دردسر بنی ہوئی ہے۔ ایک تجویز تھی کہ اِس مقام پر سبزہ زار بنا دیا جائے لیکن کنٹونمنٹ بورڈ (ایبٹ آباد چھاؤنی) کی حدود میں ’تفریحی پارک کی سیر کے بہانے‘ بھلا عوام و خواص کو آنے سے کیسے روکا جائے گا اور شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ مذکورہ چھ سے سات کینال پر پھیلے رقبے کی قسمت کا فیصلہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں ہوسکا ہے۔ سوالات بہت ہیں کہ بن لادن کے اہل خانہ اِس مقام (ایبٹ آباد چھاؤنی کے دل) تک کیسے پہنچے اور کس طرح پاک فوج کی ایک حساس ترین تربیت گاہ کے قرب میں دنیا کا انتہائی مطلوب شخص یا اُس کے اہل خانہ سالہا سال تک روپوش و گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے؟! مذہبی رجحانات یا خیالات رکھنے والے حلقے بن لادن کی دامے درہمے سخنے اسلام کی خدمت اور جہادی زندگی میں عملی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے شرعی طریقے سے تجہیزوتدفین کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مغموم‘ دکھی اور جذبات پر مبنی خیالات کا اظہار کرنے والے حد درجہ احتیاط کے باوجود بھی اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ ’ٹھنڈا چوا‘ کے ایسے ہی ایک باسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’’دہشت گردی کے لئے اکسانا بھی تو اِس کے محرکات اور وجوہات کا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔ مسلمان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے اگر عیسائی و یہودی ممالک چند اتحادی مسلم ممالک کے ساتھ اکھٹے ہو بھی جاتے ہیں‘ تو بھی ’اخلاقی طور پر‘ ایبٹ آباد میں جو کچھ بھی کیا گیا‘ وہ ایک مجرمانہ فعل ہی شمار ہوگا۔ اسامہ بن لادن سے روحانی و نظریاتی نسبت رکھنے والوں کی کمی نہیں‘ کچھ لوگ اُسے ظالم تو بہت سے مظلوم بھی سمجھتے ہیں جن کے دل آج بھی مغموم لیکن انصاف کی منتظر آنکھوں میں چھپے آنسو دنیا کو دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
5th anniversary of Osama Bin Laden and feeling of his neighborhood in Abbottabad