ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیاست: مشکلات کی دنیا!
سیاست: مشکلات کی دنیا!
مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات نے خیبرپختونخوا سے ایک ’تازہ دم اُور
پرعزم‘ سیاسی قیادت کو قانون ساز قومی و صوبائی اسمبلیوں تک پہنچایا لیکن
گیارہ مئی سے شمار ہونے والے دو سال آٹھ مہینے کے اِس ’سیاسی سفر‘ پر پہلی
مرتبہ گامزن ہونے والوں کی ’سانسیں پھول چکی ہیں‘ حوصلے جواب دے رہے ہیں
اُور وہ سیاست سے علیحدہ ہونے کے لئے کسی باعزت طریقے کو ذہن و دل میں
بسائے بیٹھے ہیں!
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ماضی سے حال کے سفر میں اُن غلطیوں کو مسلسل دہراتے ہوئے آزمانے کی غلطی کرتے ہیں‘ جن کے نتائج بصورت مالی و انتظامی بدعنوانی اور قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت ہمارے سامنے ہیں۔ بذریعہ ’ووٹ‘ تبدیلی کے لئے حوصلے‘ جنون‘ انقلاب اور سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی سطح پر اصلاحات متعارف کرانے کے خواہشمند کئی ایسی ذاتی ترجیحات یا روائتی مسائل میں اُلجھ گئے ہیں کہ اُنہیں سرکھجانے کی فرصت بھی نہیں رہی اور آہستہ آہستہ عام آدمی سے خود کو دور کرتے گئے یا ایسے عوامل پیدا ہوئے کہ اُنہیں غیرمحسوس انداز میں ’عوام‘ سے دور (الگ) کر دیا گیا! یہی وہ ’فریب پر مبنی طرزعمل‘ تھا جس کا شکار ماضی کے حکمران بھی رہے جو اپنے ہاتھوں میں وقت کو گرفت کرنے کے لئے جس قدر جتن کرتے‘ مہلت اُتنی ہی تیزی سے ریت کی صورت اُن کی مٹھیوں سے نکلتی چلی گئی! اُور یہی حال موجودہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا دکھائی دیتا ہے جن کی بہت ہی کم تعداد ’باقی ماندہ‘ دو برس کے بارے میں شعوری طور پر فکرمند دکھائی دیتی ہے!
سیاست دان کسی انتخابی معرکے کو اپنے نام کریں یا انتخابی شکست خوردہ ہوں اُن کے اردگرد ’خوشامدی ٹولہ‘ بہ تعارف خیرخواہ ایک جیسے دلچسپ طریقۂ واردات کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ کہیں ڈرانے‘ کہیں دھمکانے‘ کہیں جرائم‘ کہیں آئینی‘ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں اُلجھانے اور کہیں بیجا تعریف و توصیف کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت برقرار رکھتے ہیں بلکہ یہ ’صاحب‘ کو منکسرالمزاج رہنے بھی نہیں دیتے اور اُسے اُٹھتے بیٹھتے یہ باور کراتے ہیں کہ وہ ایک نہایت ہی اہم شخص ہے جسے عام آدمی سے تعلق رکھنے جیسے فرض کی ادائیگی پر نہیں بلکہ اپنے آرام اور ذاتی مفاد (ترقی) پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ مزاج آشنا اِس طبقے کی مہارت یہ ہوتی ہے کہ ان کے منہ سے صرف وہی بات نکلے گی جو ’صاحب‘ کسی خاص وقت میں سننا پسند کریں گے! یہ ہر وقت آس پاس اور خیالات پر منڈلاتے دکھائی دیں گے تاکہ کہیں سے ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ صاحب کو بیدار کرنے کا سبب نہ بن جائے! قابل ذکر مہارت ہے کہ ’صاحب کے خیالات اُور دل کا حال چہرے کے تاثرات سے پڑھ لینے کی اضافی قابلیت رکھنے والے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کو کچھ اِس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اُنہیں احساس بھی نہیں ہو پاتا پھر جب صاحب کو اُن کی فہم و فراست کا ادراک ہوتا ہے تو اُس وقت تک ’صاحب‘ کے مالی اثاثہ جات کا بڑا حصہ وہ اپنے نام منتقل کرچکے ہوتے ہیں! بناء کسی عہدے ’’افسر‘‘ بنے ایسے کئی کردار چہرے پر انتہاء درجے کی سنجیدگی سجائے منتخب نمائندوں کے گرد ’گھیرا تنگ‘ کئے رہتے ہیں اور اگر کسی ’سیاسی صاحب‘ کو اپنی خیرخواہی واقعتاً عزیز ہے تو سب سے پہلے اپنی جیب میں پڑے اُن کھوٹے سکوں کا شمار کرنا‘ جو سوائے ’’بوجھ‘‘ وقعت نہیں رکھتے۔
یادش بخیر ’دوہزار گیارہ‘ کے عام انتخابات کے سلسلے میں منعقدہ ایک اجتماع کا احوال ملاحظہ کیجئے کہ جب خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار نے باوثوق لہجے میں کہا کہ ’’آپ حضرات میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے پائیں گے۔ میرا دسترخوان آپ لوگوں کے لئے وسیع رہے گا۔ میرے ملازمین آپ کے اور میرے براہ راست رابطوں کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔‘‘ لیکن آسمان گواہ ہے کہ دروازے تو کیا‘ مشیروں نے صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی پر توجہ دینے کے لئے موبائل فون کے ذریعے رابطہ کاری محدود کر دیں۔ تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے سیاسی دفتر کی وساطت سے لوگوں کے مسائل فہرست کرنے کے بعد اُن کے حل کے لئے بذات خود ’زحمت‘ فرمانے کے ہمیں کارکردگی دکھانے کا موقع دیں اور سرکاری دفاتر میں ہمیں بطور اپنا نمائندہ متعارف کرایں! یقیناًکسی منتخب نمائندے کے لئے وہ دن ’’سیاسی موت‘‘ کی پہلی گھڑی ہوگی جب اُس کا اپنے انتخابی حلقے کے عوام (خراب حالوں) سے ’براہ راست (ڈائریکٹ) رابطہ‘ کٹ جائے گا‘ جن کے ایک ایک ووٹ کی سیڑھی سے اُسے عروج و نمائندگی جیسی عظمت سے نوازہ۔ یقیناًایسے خودپسند مشیروں کی موجودگی میں ’صاحب‘ کو کسی ’شاطر دشمن‘ کی ضرورت نہیں! کاش کہ ’سیاسی ناتجربہ کاری‘ سے زیادہ مردم شناس نہ ہونے کا ادراک کیا جائے کہ کس طرح ایک سیاست دان کی معنوی زندگی اور موت کا دارومدار عوام سے فعال رابطوں میں پنہاں ہوتا ہے‘ چاہے اِس کے لئے اُنہیں اپنے جملہ مالی وسائل تو کیا اگر نجی زندگی کی قربانی بھی دینا پڑے تو یہ قیادت کا تاج سر پر رکھنے والے کے لئے یہ ’’خسارے کا سودا‘‘ نہیں ہوگا۔ ’’طبیعت آدمی کی اُس کی اصلی ذات ہوتی ہے۔۔۔ اِسی سے جیت ہوتی ہے‘ اِسی سے مات ہوتی ہے!‘‘
بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’ووٹ دینے کے بعد ایک عام آدمی کہاں جائے؟‘‘ تھانہ کچہری پٹوار خانے یا دیگر سرکاری اِداروں میں معمول کے کام کاج کے لئے بھی اگر ہنوز سفارش کی ضرورت پڑتی ہو تو ’ہم عوام‘ بطور مستند حوالہ کس کو پیش کریں؟ قابل ذکر ہے کہ ماضی میں سفارش کہلانے والا ’طرزعمل‘ موجودہ دور میں ’تعارفی حوالہ (ریفرنس)‘ کہلاتا ہے اُور ’’بناء ریفرنس‘‘ بروقت عمومی کام کاج بھی نہیں ہو پاتے کیونکہ ایک تو سرکاری ملازمین پر کام کا بوجھ (لوڈ) زیادہ ہے تو دوسری طرف شاہانہ مزاج رکھنے والے خود کو عوام کا ملازم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں! آج تک کوئی ایک بھی ایسا ادنی و اعلیٰ سرکاری ملازم بسیار تلاش بھی نہیں ملا جو اپنے اہل خانہ بالخصوص بچوں کے سامنے حقائق کا بیان کرتے ہوئے حق گوئی سے کام لیتا ہو۔ جس کی تنخواہیں اُور مراعات اُجلے نکھرے حکمران کی مرہون منت نہیں بلکہ دھنسی ہوئی آنکھوں والے میلے کچیلے‘ اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار غربت زدہ عوام کے ادا کردہ بصورت بھاری محصولات (ٹیکس) کا حاصل ہیں لیکن عام آدمی کے مقام کا نہ تو تعین و اعتراف کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اُسے جان و مال کا انصاف و تحفظ‘ پینے کا صاف پانی‘ صحت و معیاری تعلیم جیسی بنیادی ضروریات میسر ہیں! عجب ہے کہ جب عوام کے منتخب نمائندے جو مراعات (وی وی آئی پی) پر مبنی طرزعمل کو تو ’استحقاق‘ سمجھتے ہیں لیکن عام آدمی (بلاامتیاز) ہر کس و ناکس کو ’’کم سے کم‘‘ عزت و تکریم دینے کے بھی روادار نہیں تو پھر سرکاری ملازمین کے لاتعلقی پر مبنی تعلق منطقی عکس (ریفلیکشن) کو کوسا نہیں جاسکتا۔
ایک ایسا نظام جس میں ’منتخب نمائندے‘ اُور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے خلیج بڑھائی جائے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جمہوری نہیں بلکہ ہر ’’صاحب بہادر‘‘ سن لے کہ تعصب و استحصال زدہ‘ محروم و محکوم طبقات کو اگر ’راندۂ درگاہ‘ سمجھا گیا تو آئندہ عام انتخابات کے موقع پر نہ صرف شرح پولنگ میں کمی کا رجحان غالب رہے گا‘ بلکہ آزمودہ کرداروں کی بجائے ایک مرتبہ پھر ناتجربہ کاروں کو قیادت سونپنے کا تجربہ کرنے والے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھیں گے! ’’طلب کو تو نہ ملے گا‘ تو ’’اُور لوگ بہت‘‘ ۔۔۔ کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا!‘‘
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ماضی سے حال کے سفر میں اُن غلطیوں کو مسلسل دہراتے ہوئے آزمانے کی غلطی کرتے ہیں‘ جن کے نتائج بصورت مالی و انتظامی بدعنوانی اور قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت ہمارے سامنے ہیں۔ بذریعہ ’ووٹ‘ تبدیلی کے لئے حوصلے‘ جنون‘ انقلاب اور سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی سطح پر اصلاحات متعارف کرانے کے خواہشمند کئی ایسی ذاتی ترجیحات یا روائتی مسائل میں اُلجھ گئے ہیں کہ اُنہیں سرکھجانے کی فرصت بھی نہیں رہی اور آہستہ آہستہ عام آدمی سے خود کو دور کرتے گئے یا ایسے عوامل پیدا ہوئے کہ اُنہیں غیرمحسوس انداز میں ’عوام‘ سے دور (الگ) کر دیا گیا! یہی وہ ’فریب پر مبنی طرزعمل‘ تھا جس کا شکار ماضی کے حکمران بھی رہے جو اپنے ہاتھوں میں وقت کو گرفت کرنے کے لئے جس قدر جتن کرتے‘ مہلت اُتنی ہی تیزی سے ریت کی صورت اُن کی مٹھیوں سے نکلتی چلی گئی! اُور یہی حال موجودہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا دکھائی دیتا ہے جن کی بہت ہی کم تعداد ’باقی ماندہ‘ دو برس کے بارے میں شعوری طور پر فکرمند دکھائی دیتی ہے!
سیاست دان کسی انتخابی معرکے کو اپنے نام کریں یا انتخابی شکست خوردہ ہوں اُن کے اردگرد ’خوشامدی ٹولہ‘ بہ تعارف خیرخواہ ایک جیسے دلچسپ طریقۂ واردات کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ کہیں ڈرانے‘ کہیں دھمکانے‘ کہیں جرائم‘ کہیں آئینی‘ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں اُلجھانے اور کہیں بیجا تعریف و توصیف کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت برقرار رکھتے ہیں بلکہ یہ ’صاحب‘ کو منکسرالمزاج رہنے بھی نہیں دیتے اور اُسے اُٹھتے بیٹھتے یہ باور کراتے ہیں کہ وہ ایک نہایت ہی اہم شخص ہے جسے عام آدمی سے تعلق رکھنے جیسے فرض کی ادائیگی پر نہیں بلکہ اپنے آرام اور ذاتی مفاد (ترقی) پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ مزاج آشنا اِس طبقے کی مہارت یہ ہوتی ہے کہ ان کے منہ سے صرف وہی بات نکلے گی جو ’صاحب‘ کسی خاص وقت میں سننا پسند کریں گے! یہ ہر وقت آس پاس اور خیالات پر منڈلاتے دکھائی دیں گے تاکہ کہیں سے ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ صاحب کو بیدار کرنے کا سبب نہ بن جائے! قابل ذکر مہارت ہے کہ ’صاحب کے خیالات اُور دل کا حال چہرے کے تاثرات سے پڑھ لینے کی اضافی قابلیت رکھنے والے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کو کچھ اِس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اُنہیں احساس بھی نہیں ہو پاتا پھر جب صاحب کو اُن کی فہم و فراست کا ادراک ہوتا ہے تو اُس وقت تک ’صاحب‘ کے مالی اثاثہ جات کا بڑا حصہ وہ اپنے نام منتقل کرچکے ہوتے ہیں! بناء کسی عہدے ’’افسر‘‘ بنے ایسے کئی کردار چہرے پر انتہاء درجے کی سنجیدگی سجائے منتخب نمائندوں کے گرد ’گھیرا تنگ‘ کئے رہتے ہیں اور اگر کسی ’سیاسی صاحب‘ کو اپنی خیرخواہی واقعتاً عزیز ہے تو سب سے پہلے اپنی جیب میں پڑے اُن کھوٹے سکوں کا شمار کرنا‘ جو سوائے ’’بوجھ‘‘ وقعت نہیں رکھتے۔
یادش بخیر ’دوہزار گیارہ‘ کے عام انتخابات کے سلسلے میں منعقدہ ایک اجتماع کا احوال ملاحظہ کیجئے کہ جب خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار نے باوثوق لہجے میں کہا کہ ’’آپ حضرات میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے پائیں گے۔ میرا دسترخوان آپ لوگوں کے لئے وسیع رہے گا۔ میرے ملازمین آپ کے اور میرے براہ راست رابطوں کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔‘‘ لیکن آسمان گواہ ہے کہ دروازے تو کیا‘ مشیروں نے صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی پر توجہ دینے کے لئے موبائل فون کے ذریعے رابطہ کاری محدود کر دیں۔ تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے سیاسی دفتر کی وساطت سے لوگوں کے مسائل فہرست کرنے کے بعد اُن کے حل کے لئے بذات خود ’زحمت‘ فرمانے کے ہمیں کارکردگی دکھانے کا موقع دیں اور سرکاری دفاتر میں ہمیں بطور اپنا نمائندہ متعارف کرایں! یقیناًکسی منتخب نمائندے کے لئے وہ دن ’’سیاسی موت‘‘ کی پہلی گھڑی ہوگی جب اُس کا اپنے انتخابی حلقے کے عوام (خراب حالوں) سے ’براہ راست (ڈائریکٹ) رابطہ‘ کٹ جائے گا‘ جن کے ایک ایک ووٹ کی سیڑھی سے اُسے عروج و نمائندگی جیسی عظمت سے نوازہ۔ یقیناًایسے خودپسند مشیروں کی موجودگی میں ’صاحب‘ کو کسی ’شاطر دشمن‘ کی ضرورت نہیں! کاش کہ ’سیاسی ناتجربہ کاری‘ سے زیادہ مردم شناس نہ ہونے کا ادراک کیا جائے کہ کس طرح ایک سیاست دان کی معنوی زندگی اور موت کا دارومدار عوام سے فعال رابطوں میں پنہاں ہوتا ہے‘ چاہے اِس کے لئے اُنہیں اپنے جملہ مالی وسائل تو کیا اگر نجی زندگی کی قربانی بھی دینا پڑے تو یہ قیادت کا تاج سر پر رکھنے والے کے لئے یہ ’’خسارے کا سودا‘‘ نہیں ہوگا۔ ’’طبیعت آدمی کی اُس کی اصلی ذات ہوتی ہے۔۔۔ اِسی سے جیت ہوتی ہے‘ اِسی سے مات ہوتی ہے!‘‘
بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’ووٹ دینے کے بعد ایک عام آدمی کہاں جائے؟‘‘ تھانہ کچہری پٹوار خانے یا دیگر سرکاری اِداروں میں معمول کے کام کاج کے لئے بھی اگر ہنوز سفارش کی ضرورت پڑتی ہو تو ’ہم عوام‘ بطور مستند حوالہ کس کو پیش کریں؟ قابل ذکر ہے کہ ماضی میں سفارش کہلانے والا ’طرزعمل‘ موجودہ دور میں ’تعارفی حوالہ (ریفرنس)‘ کہلاتا ہے اُور ’’بناء ریفرنس‘‘ بروقت عمومی کام کاج بھی نہیں ہو پاتے کیونکہ ایک تو سرکاری ملازمین پر کام کا بوجھ (لوڈ) زیادہ ہے تو دوسری طرف شاہانہ مزاج رکھنے والے خود کو عوام کا ملازم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں! آج تک کوئی ایک بھی ایسا ادنی و اعلیٰ سرکاری ملازم بسیار تلاش بھی نہیں ملا جو اپنے اہل خانہ بالخصوص بچوں کے سامنے حقائق کا بیان کرتے ہوئے حق گوئی سے کام لیتا ہو۔ جس کی تنخواہیں اُور مراعات اُجلے نکھرے حکمران کی مرہون منت نہیں بلکہ دھنسی ہوئی آنکھوں والے میلے کچیلے‘ اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار غربت زدہ عوام کے ادا کردہ بصورت بھاری محصولات (ٹیکس) کا حاصل ہیں لیکن عام آدمی کے مقام کا نہ تو تعین و اعتراف کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اُسے جان و مال کا انصاف و تحفظ‘ پینے کا صاف پانی‘ صحت و معیاری تعلیم جیسی بنیادی ضروریات میسر ہیں! عجب ہے کہ جب عوام کے منتخب نمائندے جو مراعات (وی وی آئی پی) پر مبنی طرزعمل کو تو ’استحقاق‘ سمجھتے ہیں لیکن عام آدمی (بلاامتیاز) ہر کس و ناکس کو ’’کم سے کم‘‘ عزت و تکریم دینے کے بھی روادار نہیں تو پھر سرکاری ملازمین کے لاتعلقی پر مبنی تعلق منطقی عکس (ریفلیکشن) کو کوسا نہیں جاسکتا۔
ایک ایسا نظام جس میں ’منتخب نمائندے‘ اُور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے خلیج بڑھائی جائے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جمہوری نہیں بلکہ ہر ’’صاحب بہادر‘‘ سن لے کہ تعصب و استحصال زدہ‘ محروم و محکوم طبقات کو اگر ’راندۂ درگاہ‘ سمجھا گیا تو آئندہ عام انتخابات کے موقع پر نہ صرف شرح پولنگ میں کمی کا رجحان غالب رہے گا‘ بلکہ آزمودہ کرداروں کی بجائے ایک مرتبہ پھر ناتجربہ کاروں کو قیادت سونپنے کا تجربہ کرنے والے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھیں گے! ’’طلب کو تو نہ ملے گا‘ تو ’’اُور لوگ بہت‘‘ ۔۔۔ کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا!‘‘