Wednesday, January 13, 2016

Jan13: Democracy without sacrifice!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیاست: مشکلات کی دنیا!
مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات نے خیبرپختونخوا سے ایک ’تازہ دم اُور پرعزم‘ سیاسی قیادت کو قانون ساز قومی و صوبائی اسمبلیوں تک پہنچایا لیکن گیارہ مئی سے شمار ہونے والے دو سال آٹھ مہینے کے اِس ’سیاسی سفر‘ پر پہلی مرتبہ گامزن ہونے والوں کی ’سانسیں پھول چکی ہیں‘ حوصلے جواب دے رہے ہیں اُور وہ سیاست سے علیحدہ ہونے کے لئے کسی باعزت طریقے کو ذہن و دل میں بسائے بیٹھے ہیں!

ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ماضی سے حال کے سفر میں اُن غلطیوں کو مسلسل دہراتے ہوئے آزمانے کی غلطی کرتے ہیں‘ جن کے نتائج بصورت مالی و انتظامی بدعنوانی اور قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت ہمارے سامنے ہیں۔ بذریعہ ’ووٹ‘ تبدیلی کے لئے حوصلے‘ جنون‘ انقلاب اور سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی سطح پر اصلاحات متعارف کرانے کے خواہشمند کئی ایسی ذاتی ترجیحات یا روائتی مسائل میں اُلجھ گئے ہیں کہ اُنہیں سرکھجانے کی فرصت بھی نہیں رہی اور آہستہ آہستہ عام آدمی سے خود کو دور کرتے گئے یا ایسے عوامل پیدا ہوئے کہ اُنہیں غیرمحسوس انداز میں ’عوام‘ سے دور (الگ) کر دیا گیا! یہی وہ ’فریب پر مبنی طرزعمل‘ تھا جس کا شکار ماضی کے حکمران بھی رہے جو اپنے ہاتھوں میں وقت کو گرفت کرنے کے لئے جس قدر جتن کرتے‘ مہلت اُتنی ہی تیزی سے ریت کی صورت اُن کی مٹھیوں سے نکلتی چلی گئی! اُور یہی حال موجودہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا دکھائی دیتا ہے جن کی بہت ہی کم تعداد ’باقی ماندہ‘ دو برس کے بارے میں شعوری طور پر فکرمند دکھائی دیتی ہے!

سیاست دان کسی انتخابی معرکے کو اپنے نام کریں یا انتخابی شکست خوردہ ہوں اُن کے اردگرد ’خوشامدی ٹولہ‘ بہ تعارف خیرخواہ ایک جیسے دلچسپ طریقۂ واردات کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ کہیں ڈرانے‘ کہیں دھمکانے‘ کہیں جرائم‘ کہیں آئینی‘ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں اُلجھانے اور کہیں بیجا تعریف و توصیف کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت برقرار رکھتے ہیں بلکہ یہ ’صاحب‘ کو منکسرالمزاج رہنے بھی نہیں دیتے اور اُسے اُٹھتے بیٹھتے یہ باور کراتے ہیں کہ وہ ایک نہایت ہی اہم شخص ہے جسے عام آدمی سے تعلق رکھنے جیسے فرض کی ادائیگی پر نہیں بلکہ اپنے آرام اور ذاتی مفاد (ترقی) پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ مزاج آشنا اِس طبقے کی مہارت یہ ہوتی ہے کہ ان کے منہ سے صرف وہی بات نکلے گی جو ’صاحب‘ کسی خاص وقت میں سننا پسند کریں گے! یہ ہر وقت آس پاس اور خیالات پر منڈلاتے دکھائی دیں گے تاکہ کہیں سے ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ صاحب کو بیدار کرنے کا سبب نہ بن جائے! قابل ذکر مہارت ہے کہ ’صاحب کے خیالات اُور دل کا حال چہرے کے تاثرات سے پڑھ لینے کی اضافی قابلیت رکھنے والے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کو کچھ اِس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اُنہیں احساس بھی نہیں ہو پاتا پھر جب صاحب کو اُن کی فہم و فراست کا ادراک ہوتا ہے تو اُس وقت تک ’صاحب‘ کے مالی اثاثہ جات کا بڑا حصہ وہ اپنے نام منتقل کرچکے ہوتے ہیں! بناء کسی عہدے ’’افسر‘‘ بنے ایسے کئی کردار چہرے پر انتہاء درجے کی سنجیدگی سجائے منتخب نمائندوں کے گرد ’گھیرا تنگ‘ کئے رہتے ہیں اور اگر کسی ’سیاسی صاحب‘ کو اپنی خیرخواہی واقعتاً عزیز ہے تو سب سے پہلے اپنی جیب میں پڑے اُن کھوٹے سکوں کا شمار کرنا‘ جو سوائے ’’بوجھ‘‘ وقعت نہیں رکھتے۔

یادش بخیر ’دوہزار گیارہ‘ کے عام انتخابات کے سلسلے میں منعقدہ ایک اجتماع کا احوال ملاحظہ کیجئے کہ جب خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار نے باوثوق لہجے میں کہا کہ ’’آپ حضرات میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے پائیں گے۔ میرا دسترخوان آپ لوگوں کے لئے وسیع رہے گا۔ میرے ملازمین آپ کے اور میرے براہ راست رابطوں کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔‘‘ لیکن آسمان گواہ ہے کہ دروازے تو کیا‘ مشیروں نے صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی پر توجہ دینے کے لئے موبائل فون کے ذریعے رابطہ کاری محدود کر دیں۔ تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے سیاسی دفتر کی وساطت سے لوگوں کے مسائل فہرست کرنے کے بعد اُن کے حل کے لئے بذات خود ’زحمت‘ فرمانے کے ہمیں کارکردگی دکھانے کا موقع دیں اور سرکاری دفاتر میں ہمیں بطور اپنا نمائندہ متعارف کرایں! یقیناًکسی منتخب نمائندے کے لئے وہ دن ’’سیاسی موت‘‘ کی پہلی گھڑی ہوگی جب اُس کا اپنے انتخابی حلقے کے عوام (خراب حالوں) سے ’براہ راست (ڈائریکٹ) رابطہ‘ کٹ جائے گا‘ جن کے ایک ایک ووٹ کی سیڑھی سے اُسے عروج و نمائندگی جیسی عظمت سے نوازہ۔ یقیناًایسے خودپسند مشیروں کی موجودگی میں ’صاحب‘ کو کسی ’شاطر دشمن‘ کی ضرورت نہیں! کاش کہ ’سیاسی ناتجربہ کاری‘ سے زیادہ مردم شناس نہ ہونے کا ادراک کیا جائے کہ کس طرح ایک سیاست دان کی معنوی زندگی اور موت کا دارومدار عوام سے فعال رابطوں میں پنہاں ہوتا ہے‘ چاہے اِس کے لئے اُنہیں اپنے جملہ مالی وسائل تو کیا اگر نجی زندگی کی قربانی بھی دینا پڑے تو یہ قیادت کا تاج سر پر رکھنے والے کے لئے یہ ’’خسارے کا سودا‘‘ نہیں ہوگا۔ ’’طبیعت آدمی کی اُس کی اصلی ذات ہوتی ہے۔۔۔ اِسی سے جیت ہوتی ہے‘ اِسی سے مات ہوتی ہے!‘‘

بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’ووٹ دینے کے بعد ایک عام آدمی کہاں جائے؟‘‘ تھانہ کچہری پٹوار خانے یا دیگر سرکاری اِداروں میں معمول کے کام کاج کے لئے بھی اگر ہنوز سفارش کی ضرورت پڑتی ہو تو ’ہم عوام‘ بطور مستند حوالہ کس کو پیش کریں؟ قابل ذکر ہے کہ ماضی میں سفارش کہلانے والا ’طرزعمل‘ موجودہ دور میں ’تعارفی حوالہ (ریفرنس)‘ کہلاتا ہے اُور ’’بناء ریفرنس‘‘ بروقت عمومی کام کاج بھی نہیں ہو پاتے کیونکہ ایک تو سرکاری ملازمین پر کام کا بوجھ (لوڈ) زیادہ ہے تو دوسری طرف شاہانہ مزاج رکھنے والے خود کو عوام کا ملازم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں! آج تک کوئی ایک بھی ایسا ادنی و اعلیٰ سرکاری ملازم بسیار تلاش بھی نہیں ملا جو اپنے اہل خانہ بالخصوص بچوں کے سامنے حقائق کا بیان کرتے ہوئے حق گوئی سے کام لیتا ہو۔ جس کی تنخواہیں اُور مراعات اُجلے نکھرے حکمران کی مرہون منت نہیں بلکہ دھنسی ہوئی آنکھوں والے میلے کچیلے‘ اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار غربت زدہ عوام کے ادا کردہ بصورت بھاری محصولات (ٹیکس) کا حاصل ہیں لیکن عام آدمی کے مقام کا نہ تو تعین و اعتراف کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اُسے جان و مال کا انصاف و تحفظ‘ پینے کا صاف پانی‘ صحت و معیاری تعلیم جیسی بنیادی ضروریات میسر ہیں! عجب ہے کہ جب عوام کے منتخب نمائندے جو مراعات (وی وی آئی پی) پر مبنی طرزعمل کو تو ’استحقاق‘ سمجھتے ہیں لیکن عام آدمی (بلاامتیاز) ہر کس و ناکس کو ’’کم سے کم‘‘ عزت و تکریم دینے کے بھی روادار نہیں تو پھر سرکاری ملازمین کے لاتعلقی پر مبنی تعلق منطقی عکس (ریفلیکشن) کو کوسا نہیں جاسکتا۔

 ایک ایسا نظام جس میں ’منتخب نمائندے‘ اُور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے خلیج بڑھائی جائے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جمہوری نہیں بلکہ ہر ’’صاحب بہادر‘‘ سن لے کہ تعصب و استحصال زدہ‘ محروم و محکوم طبقات کو اگر ’راندۂ درگاہ‘ سمجھا گیا تو آئندہ عام انتخابات کے موقع پر نہ صرف شرح پولنگ میں کمی کا رجحان غالب رہے گا‘ بلکہ آزمودہ کرداروں کی بجائے ایک مرتبہ پھر ناتجربہ کاروں کو قیادت سونپنے کا تجربہ کرنے والے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھیں گے! ’’طلب کو تو نہ ملے گا‘ تو ’’اُور لوگ بہت‘‘ ۔۔۔ کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا!‘‘

Tuesday, January 12, 2016

Jan2016: Leadership response & responsibilities

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قیادت: فکری و عملی تقاضے!
پاکستان تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اِس کے کلیدی فیصلے اُور ترجیحات کا تعین کسی ایک مقام پر نہیں ہوتا اُور جس قدر زمینی فاصلہ پشاور (خیبرپختونخوا) اُور بنی گالہ (اِسلام آباد) کے درمیان ہے اُتنی ہی تاخیر حکمت عملیوں کے نفاذ یا اُن کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ فعالیت و نگرانی میں بصورت رکاوٹ پیش آتی ہیں اُور یہ قطعی طور پر کسی ایسی جماعت کے لئے تو کم از کم خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا جو انقلابی تبدیلیوں (اِصلاحات) کا عزم رکھتی ہو اُور چاہتی ہو کہ بذریعہ ووٹ پارلیمانی طرز حکمرانی کو زیادہ بامقصد‘ عوام کے سامنے بہرصورت جوابدہ بنایا جائے لیکن محض خواہشات اُور بیانات ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ عملی طورپر ایسے اقدامات آئندہ چند سطور میں روایت کئے جارہے ہیں جو کارکنوں کے ’فیڈبیک‘ سے اخذ کئے گئے ہیں اور اگر تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت کارکنوں کے دلی جذبات کو سمجھ لیتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں بلاشراکت غیرے ’خیبرپختونخوا‘ اُنہی کے نام رہے!

قومی مسائل کے حوالے سے ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کے سیاسی نظریات اُور پارلیمانی سطح پر جدوجہد اپنی جگہ لیکن برسرزمین حقائق زیادہ بڑے اَہداف کے ساتھ اُن چھوٹی چھوٹی باتوں پر برابر دھیان مرکوز رکھنے کے متقاضی ہیں‘ جس کا تعلق عام کارکن کی ’’اِقتصادی حالت (زار)‘‘ سے ہے۔ گذشتہ دو برس میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے صوبائی سطح پر اِقدامات کا جائزہ لینے سے مایوسی ہوتی ہے تو دوسری طرف ترقیاتی عمل کے تعطل یا سست روی کے باعث روزگار کے مواقع نہیں بڑھ پائے۔ تعلیمی اِداروں میں ماضی کی طرح گنجائش کم رہی۔ سکول کے بعد کالج اُور کالج کے بعد کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمند کس ذہنی و جسمانی کرب اور مہنگے ترین تجربے سے گزرتے ہیں‘ کسی کو اِحساس تک نہیں۔ نجی تعلیمی اِداروں کی من مانیاں‘ فیسوں میں اِضافہ اور صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سرکاری سرپرستی (حوصلہ اَفزائی) تاحال (ہنوز) جاری ہے۔ بنیادی سہولیات و خدمات کی توسیع کے ساتھ سرکاری ملازمین کا قبلہ درست کرنے اُور انہیں عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی تشنگی بھی الگ سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ماضی میں اگر تعمیروترقی کا عمل سیاسی و انتخابی ترجیحات کے تابع ہوتا تھا تو اِس عمل میں تعطل کے محرکات بھی یہی بنے‘ جن کے لئے جواز کتنا ہی منطقی ہو‘ کارکنوں کی نظر میں قیادت کو محرومیوں کے اَزالے کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہیءں۔ تحریک انصاف کے ایک کارکن کے دکھ بھرے لہجے کی ترجمانی الفاظ میں ممکن نہیں جو کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔’’کیا میں اپنی نوکری کی درخواست لیکر اُن سیاسی جماعتوں کے پاس جاؤں جن سے خاندان‘ محلے اور پولنگ اسٹیشن کی سطح پر مخالفت مول لی؟‘‘ یقیناً’معلومات تک رسائی‘ اور اہلیت کے لئے ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے ملازمتیں دینے کا شفاف طریقۂ کار اختیار کرنا معمولی بات نہیں لیکن کیا ’این ٹی ایس‘ امتحان کی فیس‘ طریقۂ کار اور وہ نفسیاتی دباؤ سہنے کی ملازمتوں کے متلاشیوں میں قوت و مہارت موجود بھی ہے۔ کسی امتحان میں منفی نمبروں کا طریقۂ کار اگر پرائمری مڈل یا ہائر کلاسیز میں متعارف کرایا جاتا تو منطق سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن بیک وقت امتحانی بورڈز کے ذریعے اِمتحانات اُور بعدازاں ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے اہلیت کی جانچ دو متضاد باتیں ہیں۔ فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی اِس مشکل کا ادراک کرنا چاہئے کہ باقاعدہ و باضابطہ اور مرحلہ وار اِمتحانی نظام کی موجودگی میں کسی اضافی اور انوکھے قسم کے امتحان کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟اگر ’این ٹی ایس‘ ضروری ہے تو پھر امتحانی بورڈز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے بھی سرکاری نوکری کے لئے تعلیمی قابلیت ہی اہم ہوتی ہے جس کے لئے اسناد کے جعل سازی کا رجحان مدنظر رکھتے ہوئے اگر تعلیمی قابلیت کو ’نادرا‘ ریکارڈ (شناختی کوائف) کا حصہ بنا دیا جائے تو نہ صرف اِس منفی رجحان کی روک تھام ممکن ہو جائے گی بلکہ فیصلہ سازوں کے سامنے برسر روزگار اور بے روزگار افراد کی تعداد اور جن شعبوں میں وہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کی معلومات بناء کسی ’اِضافی محنت‘ دستیاب ہوں گی جس سے اقتصادی و معاشی بہتری کے لئے حکمت عملیاں بنانے میں سہولت رہے گی۔

ملک کی داخلی سلامتی اُور خارجہ اَمور سے متعلق قومی حکمت عملی کے خدوخال‘ عالمی سیاسی منظرنامے میں پاکستان کے مفادات کا دفاع اور اِس بارے قوم کی رہنمائی بھی یقیناًسیاسی جماعتوں ہی کے منجملہ فرائض کا حصہ ہوتی ہے لیکن کارکنوں کی تسلی و تشفی اُور اُن کے اطمینان قلبی کی ذمہ داری بھی اُن ناخداؤں کے رحم و کرم پر ہی ہوتی ہے‘ جنہیں کوئی بھی فیصلہ یا سیاسی و انتخابی اتحاد کرنے سے قبل کارکنوں کے بارے میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور سوچنا چاہئے جو ’بھیڑ بکریاں‘ نہیں کہ اُن کی تعداد (ووٹ بینک) کی بنیاد پر سودا بازی کے لئے استعمال کی جائے۔ سیاسی قیادت اُور بالخصوص تحریک انصاف کے قائدین کو فکری و عملی تقاضوں کا بھی اِدراک کرنا ہے‘ جس میں کارکنوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے اگر ’تنظیم سازی‘ اُور ’تنظیم نو‘ نہیں کی جائے گی اُور ترقیاتی حکمت عملیوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کی بصیرت‘ تجربے اُور وابستہ پارٹی کارکنوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جائے گا‘ تو تحریک انصاف کے لئے اِس سے پیدا ہونے والے ’’احساس محرومی‘‘ کی تلافی عام انتخابات میں ناکامی جیسے نقصان کی صورت ظاہر ہو سکتی ہے یقیناًاُس وقت سے ڈرنا چاہئے جب انتخابی ناکامی‘ خسارہ اُور نقصانات ناقابل تلافی بن جائیں۔

Sunday, January 10, 2016

Jan2016: Intra Party Election & lessons from Past

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جمہوری کسوٹی!
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر ’’بضد‘‘ ہیں کہ جماعتی سطح پر انتخابات کا انعقاد کیا جائے جبکہ وہ ماضی میں اِسی قسم کے ایک ’’تلخ تجربے‘‘ سے پیدا ہونے والی ’انتشاری وجوہات‘‘ بصورت معمہ حل نہیں کر پائے اُور نہ ہی ایسی اصلاحات متعارف کرا سکے ہیں کہ جن کی بنیاد پر تنظیم سازی کی سطح پر ماضی میں جو (دانستہ) غلطیاں سرزد ہوئیں وہ آئندہ جماعتی انتخابات کے موقع پر دہرائی نہ جا سکیں۔ جمہوریت پر یقین کرنے والے روائتی سیاسی گروہوں کا طریقۂ واردات دیکھیں کہ جنہوں نے جماعتی انتخابات کو کونسلروں تک محدود کر رکھا ہے جبکہ جماعت اسلامی پاکستان میں یہ یہی عمل قدرے گہرائی و سنجیدگی سے لیا جاتا ہے لیکن اُس میں بھی جماعت کے ہر رکن کی رائے کو شامل نہیں کیا جاتا اور ایک سطحی چناؤ کر کے نچلی سطح پر کارکنوں کی نمائندگی کرنے والوں کی رائے کی روشنی میں فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے اور چند ایسی بدعات (اقدامات) متعارف کرائی ہیں‘ جن کی صداقت و عملی فعالیت اُور فوائد و ثمرات کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کہا جائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف ہی پاکستان کی وہ ’’واحد سیاسی جماعت‘‘ ہے جس میں ’’ہر ایک کارکن‘‘ کی رائے کو اہمیت ہی نہیں بلکہ مقام حاصل ہے۔

جماعتی انتخابات کے مرحلے پر اگر جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کی جائے تو اِس سے ماضی کی طرح ’موقع پرستوں‘ کو آگے آنے کا موقع نہیں ملے گا اور ایسا نہیں ہوگا کہ پورا ’’سسٹم ہائی جیک‘‘ ہو جائے۔ یادش بخیر ’تحریک انصاف‘ کے گذشتہ جماعتی انتخابات سے پیدا ہونے والے تنازعات کا اثر حالیہ بلدیاتی انتخابات پر بھی صاف دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع‘ تحصیل اور دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کی سطح پر تحریک سے وابستہ کارکنوں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی لیکن ضلعی حکومتیں صرف 9 اضلاع ہی میں قائم ہو سکیں اور ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں تحریک سے تعلق رکھنے والے منتخب کارکنوں کی اکثریت ہے لیکن وہ حکومت نہیں بنا سکے اور ہنوز پارٹی عہدوں سمیت اختیارات و اقتدار کے لئے رسہ کشی جاری ہے‘ جس سے اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ خود تحریک ہی ہے اور عام کارکنوں کی تحریک سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کارکنوں کی توقعات پر پورا اُترے۔ یہ توقعات سیاسی بنیادوں پر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے سے لیکر ترقیاتی کاموں تک مختلف ہوتی ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف نے ’’اہلیت‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سفارش کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی۔ بلدیاتی نظام حکومت کو زیادہ توسیع دے کر ہر گاؤں اور ہمسائیگی کونسل کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا لیکن بات توجہ سے محروم رہ گئی اور وہ یہ تھی کہ ماضی کے متعصبانہ سیاسی روئیوں کی وجہ سے محروم رہنے والوں کی اکثریت نے جس اُمید کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی کہ اُنہیں ملازمتیں ملیں گی یا تعمیروترقی کے حوالے سے زیرالتوأ امور ترجیحی بنیادوں پر حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اسی طرح تھانہ اور پٹوار خانے کا کلچر تبدیل کرنے کے لئے جملہ سرکاری محکموں میں ’مداخلت‘ بند کرنے کا مثبت اثر نہ تو اِن محکموں کی حقیقی اصلاح کی صورت سامنے آ سکی اور نہ ہی عوام کو خاطرخواہ ریلیف مل سکا جو یہ چاہتے تھے کہ اُنہیں محکموں پر حکمراں افسرشاہی کے مزاج اور ’فائل ورک‘ سے نجات ملے لیکن یہ ہدف بھی خواب ہی رہا۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کرنے میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ لگا تو یہ بھی تعجب خیز تھا۔ یہی صورتحال ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ترجیحات کے تعین اور مالی وسائل کا ضیاع روکنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں پیش آئی جب نگرانی کے سخت گیر عمل کی وجہ سے ترقیاتی عمل رُک گیا اور یکے بعد دیگرے مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ احتیاط کی نذر ہوگیا۔

تحریک انصاف کے کارکنوں میں پائی جانے والی مایوسی کا ایک سبب قانون ساز ایوانوں کے منتخب نمائندوں بشمول وزراء اور مشیروں کا سرد رویہ رہا جنہوں نے کارکنوں کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی ناتجربہ کاری تھی جس میں وہ کارکنوں کی اہمیت کا خاطرخواہ اندازہ نہ لگا سکے اُور سمجھ بیٹھے کہ ’’جنون کا ووٹ بینک‘‘ یا ’’عمران خان کا جادو‘‘ ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا رہے رہے گا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات سے بھی تعلق رکھتی ہے جنہیں ملازمتوں‘ اقتدار سے جڑے مفادات یا ترقیاتی کاموں کی افتتاحی تختیوں پر اپنا نام کنندہ کرانے کا کوئی شوق نہیں بلکہ وہ ہنوز چاہتے ہیں کہ ’بہتر طرز حکمرانی (گڈ گورننس)‘ کا آغاز ہو اُور خیبرپختونخوا ایک مثالی صوبہ بن جائے لیکن سارے خواب ایک ایک کر کے ریزہ ریزہ ہونے میں دیر نہیں لگی!

ماضی کے جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے پارٹی کے فیصلوں پر اختیار کے ساتھ صوبائی حکومت میں عہدوں پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنے عزیزواقارب اور قریبی دوستوں کو نوازنا شروع کر دیا کیونکہ تحریک انصاف میں تبدیلی کی سوچ صرف اُور صرف سربراہ عمران خان کی ذات تک محدود رہی اور اُن جیسا تبدیلی کے مقصد سے لگن رکھنے والا پوری تحریک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ عجب نہیں تھا کہ تحریک انصاف کے لئے چندہ دینے والوں کی اکثریت بیرون ملک آباد تھی اور انہوں نے ’سیاسی انقلاب بذریعہ ووٹ‘ کے لئے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا وہ بھی ایک درخشاں باب ہے۔ کسی بھی دوسری جماعت کو بیرون ملک تحریک انصاف جیسی مقبولیت (پذیرائی) نصیب نہیں تو اِس کا بنیادی محرک یہی ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور طرز حکمرانی میں اصلاح کے خواہشمند جمہوریت اور جمہوری اداروں کو استحکام چاہتے ہیں۔ مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث کرداروں کا کڑا اُور بے رحم احتساب ہونا چاہئے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ہنوز یہ مطالبہ توانا بھی ہے اور زندہ بھی کہ سرکاری ملازمین سمیت ماضی میں جو افراد مالی و انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث رہے اُنہیں نہ صرف فیصلہ سازی کے منصب سے علیحدہ کیا جائے بلکہ اس قسم کی قانون سازی بھی ضروری ہے جس کے تحت ’بدعنوانی ناقابل معافی و رعائت جرم‘ تصور ہو۔

معلومات تک رسائی کا قانون متعارف کرانے اُور ’صوبائی اِحتساب کمیشن کے قیام‘ سے لیکر سرکاری اَخراجات میں شفافیت جیسے اہداف حاصل کرنے میں پیشرفت بھی تیزرفتاری کی متقاضی ہے کیونکہ ملک کی کسی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں سے وقت تیزی سے نکل رہا ہے‘ اُور جس ایک جماعت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے تو وہ کوئی اُور نہیں بلکہ تبدیلی کی داعی ’تحریک انصاف‘ ہی ہے‘ جسے سماجی و معاشرتی سطح اُور ’جمہوری کسوٹی (کارکردگی و توقعات کے بلندوبالا معیار)‘ پر (بہرصورت) پورا اُترنا ہے۔ جماعتی انتخابات کے نازک مرحلے پر زیادہ غور و تفکر کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو تحریک مضبوطی کی بجائے زیادہ کمزور ہو جائے جو پارلیمانی نظام کے لئے بطور حزب اختلاف اور بالخصوص خیبرپختونخوا کی سطح پر ایک باکردار حکومت کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔

Saturday, January 9, 2016

Jan2016: Patrind Hydropower Project, the hurdles

ژرف نگاہ  ۔۔۔شبیر حسین اِمام
پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ: خونی موڑ!
جنت نظیر وادیوں اُور سیاحتی اِمکانات کے علاؤہ قدرتی وسائل سے مالامال ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں کی ’’تین یونین کونسلیں (بوئی‘ دلولہ اُور ککمنگ)‘‘ آزاد کشمیر سے متصل ہیں‘ جہاں ’’147 میگاواٹ‘‘ پیداواری صلاحیت کا ’پن بجلی منصوبہ‘ زیرتعمیر ہے‘ جس کے لئے تکنیکی و فنی نگرانی اُور امداد ’کوریا (Korea)‘ حکومت کا ذیلی اِدارہ ’سٹار ہیڈرو‘ فراہم کر رہا ہے اُور اَگر جاری تعمیراتی کام میں کسی وجہ سے خلل نہیں آتا تو اُمید یہی ہے کہ اپنی نوعیت کا یہ منفرد اُور تعمیراتی کام کے لحاظ سے ملک کا جدید ترین و پائیدار پن بجلی کا منصوبہ رواں برس (دسمبر دوہزار سولہ) یا زیادہ سے زیادہ ’جنوری دو ہزار سترہ‘ کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا لیکن خیبرپختونخوا کی تین یونین کونسلوں (بوئی‘ دلولہ اُور ککمنگ) کے رہنے والوں کو شدید نوعیت کے تحفظ ہیں کہ مذکورہ پن بجلی کے منصوبے کی تعمیرات کے لئے مقامی افراد سے کئے گئے تحریری وعدے (بصورت معاہدہ) پورا نہیں کئے گئے۔ یاد رہے کہ ’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ کا تعمیراتی کام ’دو ہزار بارہ‘ میں شروع ہوا جبکہ منصوبے سے متاثرین یونین کونسلوں کے رہنے والوں نے دوہزار تیرہ میں ’ایکشن کمیٹی‘ کے نام سے اپنے مفادات کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا اور اِس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت 8 جنوری کے روز ’کمشنر ہزارہ محمد اَکبر خان‘ اُور اَسسٹنٹ کمشنر میر رضا اوزگن‘ سے ملاقات کی صورت سامنے آئی‘ جس میں مذکورہ منصوبے کا تعمیراتی کام مکمل کرنے والی کمپنی ’سٹار ہائیڈرو کے کورین نمائندے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر ’چئی لی (Kh Lee)‘ چیف فنانشیل آفیسر یاک کیم (Yk Kim) اُور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی اِی اُو) وقار اَحمد خان شریک ہوئے۔ ایبٹ آباد میں ہوئے اِس غیرمعمولی اِجلاس میں متاثرین کی ایکشن کمیٹی کے تین نمائندے مبارک عباسی‘ اشتیاق عباسی اُور سجاد کھوکھر بھی موجود تھے اور اِس ملاقات کو ممکن بنانے کے لئے کوششوں کا سہرا‘ متعلقہ حلقے (این اے سترہ) سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے سر ہے جنہوں نے متاثرین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بذریعہ مذاکرات بھی تحفظات دور ہو سکتے ہیں اور احتجاج کرنے یا مذکورہ منصوبے پر تعمیراتی کام کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے نگران کمپنی کو پابند کیا جائے گا تاکہ وہ حسب وعدہ تعمیراتی و ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ کسی سیاست دان کا اصل کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے یا طبقات میں اختلافات ختم کرے۔ ایک دوسرے کے تحفظات دور کرے۔ محروم طبقات کو احساس دلائے کہ اُنہیں سماجی و آئینی اور معاشرتی انصاف کے ساتھ مساوی مقام دیا حاصل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی اکثریت لفظ ’سیاست‘ کے لغوی معنی تک نہیں جانتی اور اُن کا کردار مثبت و تعمیری ہونے کی بجائے اختلافات کو ہوا دینا ہے!


’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ سے متاثرین کے تین بنیادی تحفظات ہیں‘ جنہیں ایک ہی نشست میں حل کرنے کی سبیل و امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ 1: اہلیت کی بنیاد پر سرکل بکوٹ کی ’آٹھ یونین کونسلوں‘ سے تعلق رکھنے والے کسی ایک طالب علم یا طالبہ کو ہر سال انجنیئرنگ کی تعلیم کے لئے وظیفہ دیا جائے کیونکہ یہ بات تحریری طور پر عمائدین علاقہ سے کئے گئے معاہدے کا حصہ ہے۔ آٹھ جنوری کو ہوئی سہ فریقی میٹنگ میں ضلعی انتظامیہ‘ سٹار ہائیڈرو اور رکن قومی اسمبلی کی قیادت میں اہل علاقہ کے نمائندہ وفد کو یقین دہانی کرائی گئی کہ آئندہ برس سکالرشپ دینے کے لئے اشتہارات دیئے جائیں گے جبکہ فی الوقت جو طالب علم کسی سرکاری ادارے میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُور وہ اپنی اہلیت پر داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اُنہیں باقی ماندہ تعلیم مکمل کرنے کے لئے سکالرشپ (وظیفہ) دیا جائے گا۔ 2: پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ سے ملحقہ کسی یونین کونسل میں ایک فنی تعلیم کا اِدارہ (وکیشنل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ) بنایا جائے گا جس کے لئے اراضی زمین فراہم کرنا‘ خیبرپختونخوا حکومت جبکہ تعمیراتی اَخراجات کوریا کی کمپنی ’سٹار ہائیڈرو‘ فراہم کرے گی۔

 اہل علاقہ نے مثالی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین مفت دینے کا وعدہ کر لیا ہے تاہم اِس سلسلے میں کچھ تکنیکی مراحل عبور کرنے ہیں جیسا کہ اِس قسم کے تکنیکی ادارے کے قیام کے لئے مجموعی طورپر کتنی اَراضی درکار ہوگی؟ اِس سلسلے میں اَسسٹنٹ کمشنر میر رضا اوزگن‘ سٹار ہائیڈرو کے چیف اَیگزیکٹو آفیسر وقار اَحمد خان اُور متاثرین کی اَیکشن کمیٹی کے چیئرمین مبارک عباسی پر مشتمل (سہ فریقی) تین رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو خیبرپختونخوا کے متعلقہ ادارے سے مشاورت کے بعد زمین کا انتخاب اور اُسے حکومت کے نام منتقل کرنے جیسے امور کی خوش اسلوبی و تیزرفتاری سے انجام دہی کو ممکن بنائے گی۔ 3: پیترینڈ پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے گڑھی حبیب اللہ (بوئی) سے منصوبے کے مقام (ورکنگ اَیریا) تک جو سڑک آمدورفت اُور تعمیراتی ضروریات کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوئی اُس کی کل لمبائی دس سے سولہ کلومیٹر بنتی ہے اور یہ شاہراہ انتہائی خستہ حال ہے۔ منصوبے کے ماحولیاتی منفی اثرات کا جائزہ لینا ایک الگ مرحلۂ فکر ہے‘ جس کے بارے فی الوقت غور نہیں ہورہا۔

 تعمیراتی کمپنی نے تحریری معاہدے میں ’ورکنگ ایریا‘ کے اندر تک سڑکوں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا لیکن اہل علاقہ کے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کمشنر ہزارہ نے کورین حکومت کے نمائندوں کو ’واضح الفاظ‘ میں خبردار کیا ہے کہ اَگر مذکورہ سڑک کی ضروری تعمیرومرمت کرکے اِسے قابل استعمال و قابل قبول حالت میں ’’بحال‘‘ نہ کیا گیا تو اِس سے ’امن و امان‘ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اُور منصوبے پر جاری کام کی رفتار بھی متاثر ہوسکتی ہے تاہم رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر اظہر جدون ایک ایسے طوفانی ردعمل کو روکے ہوئے ہیں‘ جو کسی بھی صورت نہ تو خیبرپختونخوا اور نہ ہی آزاد کشمیر کے مفاد میں ہے۔ اِس سلسلے میں کمشنر ہزارہ نے ’سہ فریقی کمیٹی‘ کو ذمہ داری سونپی ہے کہ مذکورہ سڑک کے خستہ حال حصوں کا معائنہ (سروے) کرکے رپورٹ بنائی جائے اور کورین کمپنی کے نمائندوں نے اِس اصولی مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے کہ وہ مذکورہ سڑک کی بحالی کے لئے درکار مالی و تکنیکی وسائل فراہم کریں گے۔ قوئ اُمید ہے کہ مشاورت سے ’نالہ سہالی‘ پر 50میٹر رابطہ پل‘ نالہ سہالی کے پاس گھمن (دلولہ نمبر ایک) کے ’خونی موڑ‘ اُور پٹوار خانے کا شیلٹر تعمیر کرنے جیسے دیرینہ مطالبات پورے جبکہ غلط فہمیوں کو جنم دینے والے معاملات بھی یکے بعد دیگرے طے ہوتے چلے جائیں گے۔

’پیترینڈ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ کئی لحاظ سے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے جس کا مطالعہ مستقبل میں اِس قسم کے دیگر منصوبوں کی تیاری میں مددگار و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ایگریمنٹ کرتے ہوئے مقامی افراد کے مفادات کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا لیکن جو کچھ بھی معاہدے میں تحریر ہو چکا ہے کم سے کم اُس پر عمل درآمد کرانے میں اگر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹراظہر ذاتی طورپر دلچسپی نہ لیتے تو ضلعی انتظامیہ کو تین یونین کونسلوں کے تین لاکھ سے زیادہ متاثرین کے مسائل و مشکلات سے کوئی دلچسپی یا سروکار نہیں تھا۔ آرام دہ کمروں میں گرمی و سردی کی شدت سے بے نیاز‘ چمکتی دمکتی میزوں پر بیٹھے حکمرانوں کی کمی نہیں لیکن فیصلہ سازی کے تقاضے اُور عام آدمی (ہم عوام) کے حقوق کا کون کتنا خیال رکھتا ہے‘ اِس بارے میں زیادہ تفصیلات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی کے منتخب نمائندے کی پوری کوشش ہے کہ سیاسی و انتخابی مفادات سے بالاتر ہو کر سرکل بکوٹ کے رہنے والوں کے ’’اجتماعی مفادات‘‘ کا بہرصورت و بہرکیف تحفظ ہو اُور تحریک انصاف کے اِس انصاف پر مبنی ’سیاسی رویئے‘ کی صرف سرکل بکوٹ ہی کیا‘ پورے ہزارہ کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی!

Thursday, January 7, 2016

Jan2016: Health Reforms: The real need!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
علاج معالجہ: افراتفری کا عالم!
خدانخواستہ ایسا بھی نہیں کہ دنیا کی تمام خطرناک بیماریوں نے ہمارے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہر نئی بیماری کا نزول بھی یہیں ہو رہا ہے بلکہ بیماریوں کے عام اُور پیچیدہ ہونے کی وجہ غیرمحتاط‘ غیر حساس‘ سہل پسندی پر مبنی تشخیصی نظام اور عوام کی اکثریت کا (بہ اَمر مجبوری) سرکاری علاج گاہوں سے رجوع کرنا ہے جہاں علاج معالجے کی اِصلاح اُور ناکافی سہولیات میں اضافہ کرنے کی بجائے کچھ ایسے اقدامات کرنے پر اکتفا کرلیا گیا ہے‘ جن سے وقت‘ بڑے پیمانے پر مالی وسائل اور (ناقابل تلافی نقصان یعنی) قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں! بطور مثال خیبرپختونخوا کے کئی بڑے ہسپتالوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے جن میں ایبٹ آباد کا ایوب میڈیکل کمپلیکس ہسپتال بھی شامل ہے جہاں ایک ہزار بستروں کی گنجائش ہونے کے باوجود رجوع کرنے والوں کو آخرکار قرب و جوار میں کسی نہ کسی نجی ہسپتال سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے اِس سب سے بڑے ہسپتال میں 200بیڈز پر مشتمل زچہ و بچہ (گائنی) وارڈ ایک ایسا اضافہ تھا جس کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی لیکن سال دوہزار بارہ کے اختتام تک گائنی وارڈ کا جملہ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے باوجود یہ وارڈ تاحال فعال نہیں ہوسکا ہے! عمارت بن چکی ہے۔ رنگ روغن ہو چکے ہیں۔ ٹھیکیدار پیسے وصول کرچکا ہے۔ آلات خرید لئے گئے ہیں لیکن ایبٹ آباد کے موسمی حالات کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے پورا منصوبہ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ افسوس صد افسوس کہ خود پر تعلیم و تجربے اور ہنر کی بدولت فخر کرنے والوں نے اِس ’گائنی و پیڈز شعبے‘ کے لئے کی جانے والی خریداریوں میں حسب توفیق و استطاعت بدعنوانیاں کیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کرائی گئیں اور خردبرد میں ملوث ڈاکٹروں کا تعین ہونے کے باوجود سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے! ہسپتال میں موجود ادویات فروشی کا ایک نجی مرکز (فارمیسی شاپ) قدرے چھوٹے پیمانے کی بدعنوانی ہے‘ جس کی معیاد ختم ہونے کے باوجود اِس بہتی گنگا میں صرف چند انتظامی نگران ہی نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے تک فیصلہ ساز ہاتھ دھو رہے ہیں! اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک علاج معالجے کی سہولیات میں تاخیر‘ بدعنوانی اور غلط منصوبہ بندی کرنے والے اپنے صرف منطقی انجام تک ہی نہیں بلکہ نشان عبرت بنا دیئے گئے ہوتے! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ گائنی وارڈ کے لئے خریدے گئے آلات نجی کلینک میں استعمال ہوتے رہے! اُور آلات کی خریداری میں قیمتوں کو بڑھا چڑھا پر پیش کیا گیا لیکن پھر بھی ’’سب اچھا ہے!‘‘

افراتفری کے اِس ماحول میں وزیراعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایات پر وفاقی وزارتِ صحت کی جانب سے اُن ہم وطنوں کے لئے ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ جاری کئے گئے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو سو روپے یا اِس سے کم ہے۔ ایک کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے طبی معانے کے لئے مختص ہوں گے‘ جن میں بخار‘ زکام‘ کھانسی‘ نزلہ اور یرقان (ہیپاٹائیٹس) شامل ہیں۔اس کے علاؤہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسا کہ دل کے امراض (بائی پاس‘ اینجیوپلاسٹی) یا گردوں کی بیماریوں (ڈائیلائسز وغیرہ) کے لئے بھی فراہم کئے جائیں گے۔ اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے مگر کیا اِس سے صحت کے عمومی نظام میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات کی بہتری (یا عدم دستیابی) جیسی صورتحال کی اصلاح ممکن ہوگی؟ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں علاج معالجے کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی ہے جبکہ وہاں موجود سٹاف مریض کی نگہداشت‘ صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا۔ پاکستان کے تناظر میں ہمیں زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا کہ ۔۔۔ ’’اگر ڈاکٹر ہی نہیں تو پھر علاج بھی نہیں!‘‘

ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کی اکثریت علاج سے محروم رہتی ہے۔ طرح طرح کی ادویات استعمال کرنے کی وجہ سے مریض کا مدافعاتی توازن اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ ایک بیماری سے کئی دیگر امراض پھوٹ پڑتے ہیں! بیکٹیریل انفیکشن والے کو انٹی بائیوٹکس نہیں ملتی اور معمولی نزلہ زکام والے کے ’’انٹی بائیوٹکس‘‘ استعمال کرنے کی وجہ سے اندرونی اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں‘ زخمیوں کی بروقت جراحت (آپریشن) نہیں ہوتے! یہ صورتحال شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ مایوس کن ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں بنیادی و علاقائی سطح پر صحت کے مراکز اور مرکزی ضلعی ہسپتال موجود ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ آپریشن تھیٹر تو دور کی بات ادویات تک دستیاب نہیں۔ طبی عملہ نہیں۔ گاڑیاں ناکارہ کھڑی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے یرقان و دیگر بیماریاں عام ہیں لیکن مرض کے سبب کی نشاندہی کے باوجود اُس سے چھٹکارہ اور علاج دونوں ذمہ داریوں کی ادائیگی تسلی و تشفی کے انداز میں نہیں ہو رہی۔ التجا ہے کہ اِس صورتحال میں ’’ہیلتھ کارڈ‘‘ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی‘ سہولیات سے عاری ہسپتال یا علاج معالجے کی غیر معیاری صورتحال اور ڈاکٹروں کی اکثریت جس حرص و طمع کی وباء سے متاثر ہے اُن کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔

 مسائل کا حل طب کے شعبے میں مہارت (سپیشلائزیشن) اور صحت کی تعلیم عام کرنے کے ساتھ بروقت علاج کی سہولیات میں اضافہ ہے! ایسے کئی ڈاکٹرز دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ جو اپنے پیشے سے مخلص تھے اور انتھک انداز میں مریضوں کی کثیر تعداد کا علاج کرتے رہے لیکن بالآخر تھک گئے کیونکہ اُنہیں شاباش دینے والا کوئی نہیں تھا! جہاں سزاوجزأ کے تصورات مبہم ہوں‘ وہاں ذمہ داری اور احساس ذمہ داری تقویت نہیں پاتا۔ افسوس کہ ہمارے ہاں طبیبوں میں صلاحیتوں اور قابلیت کی بجائے تجربے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے! اس غیر منصفانہ ماحول اور طبی عملے کی کمی کے باعث مریضوں کو بہتر طبی سہولیات میسر نہیں ہو رہیں اور اگر بات طب کی مروجہ تعلیم اُور اِس کے معیار کی ہو تو بھی ترقی یافتہ ممالک نہ سہی ہمارا حال خطے کے ممالک جیسا بھی نہیں! صحت کی تعلیم نجی شعبے کے حوالے کرنے سے سرمایہ کاروں اور طب کے نگران ادارے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کے قواعد و ضوابط کا اطلاق کرنے والوں کے ذاتی اثاثوں میں یقیناًاضافہ ہوا ہے۔ ایک ڈاکٹر عاصم گرفتار تو کئی دوسرے کھلے عام سرکاری وسائل کی لوٹ مار‘ اختیارات کے عوض سودا بازی اُور تعلیم کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں جن کے مقابلے بیچارہ عام آدمی (ہم عوام) ہاتھ پھیلائے کہیں ایک وقت کے اناج تو کہیں علاج کے نام پر صرف درد سے نجات کے طالب ہیں! ’’اَیسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا ۔۔۔ (اُور پھر) اَیسا نہ ہو کہ تم بھی مداواہ نہ کرسکو!‘‘

Wednesday, January 6, 2016

Jan2015: Road to success!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کامیابی کا خلاصہ !
محاورہ ہے کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ لیکن ہمارے گردوپیش ایسی باہمت خواتین کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے حالات کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے نہایت ہی محدود پیمانے اور اپنے وسائل سے ’جذبے جنون اُور ہمت‘ کی ایسی کئی عملی مثالیں قائم کیں‘ جن کا ذکر کئے بناء وہ تذکرہ اُدھورا رہے گا جس کے بارے میں جاننے کے خواہشمند قارئین نے پوچھا ہے کہ ’’کاروبار شروع کرنے کے لئے تو سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہنرمندوں کی اکثریت کے پاس نہیں ہوتا اور مختلف اَدوار میں حکومتوں کی طرف سے ’بناء سود‘ قرض حسنہ کے لئے شرائط اِس قدر کڑی ہوتی ہیں جو ہر کس و ناکس کے لئے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتیں‘ ایسی صورت میں ’خودروزگار‘ کیسے ہوا جاسکتا ہے؟‘‘

حقیقت حال یہ ہے کہ روزگار ہمارے معاشرے کا تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان جس طرح نوکریوں کے لئے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں یقین نہیں آتا اُور جس طرح امتحانی بورڈز کو مذاق بنا کر ’این ٹی ایس‘ کو قابلیت جاننے کا معیار بنا دیا گیا ہے تو اس سے روزگار کے مواقع تلاش کرنے والوں میں زیادہ مایوسی پھیل گئی ہے۔ ماضی میں جو کام سیاستدانوں کی سفارش‘ رشوت یا ذاتی و خاندانی سیاسی تعلق سے ہوجایا کرتا تھا‘ اُسے بھی مشکل ترین بنا دیا گیا ہے تو آخر ’بے روزگار‘ کہاں جائیں؟ ایسی صورت میں ’خود روزگار‘ ہی ایسی سبیل ہے‘ جو پائیدار اور قابل انحصار ہونے کے ساتھ توسیع کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔

صنف نازک کہلانے والی ایک ایسی مضبوط اعصاب کی مالکہ محترمہ (ع) کی مثال ملاحظہ کیجئے جن کا تعلق ایبٹ آباد کے ایک معروف و خوشحال گھرانے سے ہے اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ کئی زبانوں پر عبور بھی رکھتی ہیں۔ سلیقہ شعار خاتون خانہ اُن کی زندگی میں دو بچوں کی تعلیم و تربیت میں ’محنت کی عظمت اور اپنی ذات کو بطور نمونہ پیش کرنے سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں اُور اِس ’’قابل رشک مقصد‘‘ کے لئے انہوں نے ہاتھ سے بُنے ہوئے اُونی ملبوسات (سوئٹر‘ دستانے‘ ٹائی وغیرہ) کا کاروبار شروع کیا لیکن چونکہ زیادہ سرمایہ ہاتھ میں نہیں تھا اِس لئے ’سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ فیس بک (facebook)‘ کے ذریعے انہوں نے اپنے ہنر کی مارکیٹنگ شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے آرڈر ملنا شروع ہوگئے ۔

آن لائن مارکیٹنگ کے آغاز پر کچھ خطرہ مول لینا پڑتا ہے جیسا کہ محترمہ (ع) نے بھی کیا کہ وہ پہلے آرڈر کے مطابق مال ارسال کر دیتی ہیں اور گاہگ کو اُس کی مطلوبہ اور معیاری چیز سے متعلق جب تسلی ہوتی ہے تو وہ قیمت ادا کردیتا ہے۔ یہ خوداعتمادی اور اپنے فن پر عبور کا مرحلہ ہے جس میں اُنہیں کسی بھی قسم کی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ محترمہ (ع) کی بدولت ہاتھوں سے بُنے ہوئے اونی سوئیٹرز کی ختم ہوتی روایت کو نئی زندگی بھی ملی جس کے لئے اُن کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہوگا۔

 انٹرنیٹ کے ذریے مارکیٹنگ کا انتخاب کرنے والوں کو ابتدا میں یہ خطرہ لازمی طور پر مول لینا پڑے گا کہ وہ گاہگوں سے پیشگی قیمت ادا کرنے کا تقاضا نہیں کر سکیں گے لیکن اگر اعتماد کا رشتہ قائم ہوگیا تو زندگی حسب خواہش آسان ہوتی چلی جائے گیٗ جیسا کہ محترمہ (ع) کو سکون قلبی ہے کہ اُن کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور ایسے گاہگ نہیں ملیں گے جو کشمیر کی آزادی تک قرض ادا نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہوں۔

عزم اُور حوصلے کے اِس مجسم پیکر سے اگر کوئی سبق سیکھا جاسکتا ہے تو ’عہد نبھانا (کمٹمنٹ)‘ ہے اور عملی زندگی میں ’’کامیابی کا بس یہی خلاصہ ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی کاروبار اور کسی بھی پیمانے پر لین دین کا عروج اُس ’عہد‘ سے مشروط ہوتا ہے جو پہلے مرحلے میں کوئی بھی شخص آپ اپنے سے اور دوسرے مرحلے میں اُن صارفین سے کرتا ہے‘ جن سے اعتماد کا رشتہ و تعلق کی حسب ضرورت مضبوطی اس قدر ہونی چاہئے کہ وہ پیشگی ادائیگی کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان میں کئی طرح کے کاروباری مواقع ہیں‘ جن میں پیداوار‘ ڈسٹری بیوشن‘ خدمات‘ زراعت‘ درآمد و برآمد وغیرہ شامل ہیں۔ اگر آپ کسی بھی درجے کا خودروزگار (انٹرپرینیورشپ) اختیار کرنے کا جذبہ رکھتے یا رکھتی ہیں تو اپنی پسند کے کسی بھی شعبے کا انتخاب کرنے سے قبل خوداحتسابی کی نظر سے اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں۔ حکومت پاکستان نے ’انٹرپرینیورشپ کے فروغ‘ کے لئے کئی سرکاری ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ جن میں ’’سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا)‘‘ بھی شامل ہے جبکہ قومی و صوبائی بینک بھی کئی قسم کے چھوٹے کاروبار کی مالی و بنیادی تکنیکی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کم ازکم ایک مرتبہ ہی ’سمیڈا‘ کے قریبی دفتر یا اُن کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جائے۔ جہاں کچھ منصوبہ جات کے لئے درکار ضروریات (پری فزیبلٹی رپورٹس) مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جاسکتی ہیں۔

اگر سوال یہ ہے کہ ’’کم سرمائے سے کون سا کاروبار شروع کیا جائے؟‘‘ تو اِس کے لئے محترمہ (ع) کی مثال موجود ہے‘ جنہیں نہ کسی دفتر‘ نہ شوروم اور نہ ہی نمودونمائش پر مبنی تشہیری مہم کی ضرورت ہے۔ طویل مسافت پر کسی منزل کے لئے قدم قدم چلنے والوں کا ’توازن‘ بھی برقرار رہتا ہے وہ ہر قدم اطمینان کے ساتھ اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں۔ کسی کاروبار کی کامیابی کے لئے خوداعتمادی کے ساتھ خوداحتسابی کا عنصر بھی شامل حال رکھیں۔ خدمات فراہم کرنے کے شعبے میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ قابل بھروسہ روزگار ہی نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ آئی ٹی ماہرین کی طلب ڈاکٹروں‘ وکلأ‘ عمارتی نقشہ سازوں‘ تعمیراتی کام کرنے والے اداروں (آرکیٹکٹ‘ بلڈرز‘ مشاورت کاروں‘ اساتذہ‘ ماہرِین نفسیات‘ فنکاروں‘ اداکاروں حتیٰ کہ سیاستدانوں کو بھی ہوتی ہے جو خود معاشرے کو کسی نہ کسی صورت اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کاروبار کے لئے سرمائے سے زیادہ جنون کی حدوں کو چھونے والے جذبے اور محنت پر آمادگی والی لگن چاہئے ہوتی ہے۔ ’’تیسری بات جھوٹ ہوتی ہے۔۔۔ عشق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔‘‘ بس اِسی طرح جسے محنت سے ’’عشق‘‘ ہوجائے‘ تو یقین جانئے کہ یہ سرمایہ (اثاثہ) ہر شعبے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ خود پر یقین کے ساتھ دوسروں کے اِعتماد پر پورا اُترنے کی دانستہ کوشش کرنے والوں کے لئے کامیابی منتظر رہتی ہے!

Tuesday, January 5, 2016

Jan2016: Minrate of Wisdom and Truth

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مقاصد و فراموش لمحات!
صلیبی جنگ کے بعد ’بیت المقدس‘ کی ملکہ کو شکست کا پیغام دینے والا قاصد کہتا ہے کہ ’’ہماری جنت زمین کا ٹکڑا نہیں تھی‘ جو آج ہمارے ہاتھ سے نکل گئی بلکہ یہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں موجود ایک تصور ہے‘ جسے ہم اپنی زندگی کا مقصد اور اسے آنے والی نسلوں کومنتقل کریں گے۔‘‘ تاریخ کی کتابوں میں درج یہ چند جملے آج اسرائیل نامی حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے کیونکہ ایک قوم نے شکست جیسی حقیقت کو اپنے اوپر طاری‘ حاوی اور مسلط ہونے نہیں دیا اور چاہے اُن کے وجود اور طریقۂ کار سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے لیکن بالآخر محکوم و منتشر اُور محدود مالی و افرادی وسائل رکھنے کے باوجود اپنے عظیم مقصد کو حاصل کرکے دم لیا۔ تو معلوم ہوا کہ مقصد و طلب بلند ہونی چاہئے‘ عمل کا معیار اپنی ذات کو اعلیٰ و برتر ثابت کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہئے اور ایسی ہی خوبیوں کے مالک ’تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان‘ کے بانی اور قائد سردار (بابا) حیدر زمان ہیں جنہوں نے اپنے نفس اور ذات کو نہ تو اَرزاں سمجھا اور نہ ہی اِسے روائتی سیاست دانوں کی طرح قابل فروخت بنا کر پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے سیاسی منظرنامے میں اُن کا توانا وجود ہمیشہ مستند حوالہ رہے گا۔کون جانتا تھا کہ تین دسمبر 1934ء کو ضلع ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے گاؤں دیول میں پیدا ہونے والا ’حیدر زمان‘ صرف اپنے حسب نسب ہی کے لئے نیک ثابت نہیں ہوگا بلکہ وہ پورے ہزارہ کی دھڑکن بن کر ایک ایسی سمت کا تعین کر دے گا‘ جس سے اُس کے ذاتی مفادات وابستہ نہیں۔ اُسے نہ تو عہدوں اور مراعات کی لالچ ہے اور نہ ہی شہرت چاہئے۔ صرف ہزارہ تو کیا پورے ملک میں بابا حیدر زمان کا نام ایک مکمل تعارف اپنی ذات میں ایک ایسی انقلابی تحریک کا نام ہے‘ جس کی شدت و حدت وقتی طور پر کم تو ہو سکتی لیکن ’ایک ہی نعرہ۔۔۔صوبہ ہزارہ‘ جیسی سوچ کو زوال نہیں ہوسکتا۔ بابا حیدر زمان اِن دنوں علیل لیکن تیزرفتاری سے صحت یابی ہو رہے ہیں۔ منڈیاں ایبٹ آباد کے نجی ہپستال کا ایک چھوٹا سا کمرہ اُن کا مسکن ہے‘ جہاں اُن کی اصولی سیاست‘ دلیرانہ مؤقف (حق گوئی) اور کھٹی میٹھی باتیں سننے یا سراہنے والوں کا جھمگھٹا رہتا ہے۔

تین جنوری کی شب ہلکی بوندا باندی کے دوران ’ایبٹ آباد الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن‘ کے نومنتخب صدر طاہر حسین شاہ کی جانب سے دیئے جانے والے پرتکلف عشایئے کے بعد تمام اراکین بابا حیدر زمان کی عیادت کرنے کے لئے چار گاڑیوں میں الرحمن ہسپتال پہنچے تو نصف شب کے قریب اوقات میں ہسپتال کی خاموش راہداریاں جاگ اُٹھیں۔ بابا حیدر زمان کے چہرے پر بے وقت کے مہمانوں کو دیکھ کر ناگواری کے نہیں بلکہ اطمینان و خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ خندہ پیشانی پرنور چہرے پر سرخی پھیلتی چلی گئی۔ یکایک انہوں نے کمر سیدھی کرکے ’تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان‘ کے حصول کے لئے ہر محاذ پر جدوجہد تیز کرنے سے متعلق لائحہ عمل بیان کرنا شروع کردیا‘ جن کا تناظر حالیہ چند اقدامات تھے۔ ایک موقع پر تو انہوں نے دبی ہوئی آواز میں یہ بھی کہا کہ ’’مجھے اپنی جسمانی کیفیات کا اندازہ ہے۔ میں تم لوگوں کے درمیان شاید قلیل عرصے کا مہمان ہوں۔ میری یہ نصیحت یاد رکھنا کہ اگر ’ہزارہ‘ کے رہنے والوں نے اپنے الگ صوبے کے لئے جدوجہد نہ کی تو آنے والے دور میں اُن کا نام و نشان مٹ جائے گا۔‘‘ بابا حیدر زمان ’’چین پاکستان اِقتصادی راہداری منصوبے‘‘ کا نام لئے بناء بات کر رہے تھے جو ہزارہ ڈویژن کے کئی بڑے شہروں بشمول ایبٹ آباد سے ہو کر گزرے گی۔ اُنہیں اِس راہداری منصوبے پر تحفظات نہیں کیونکہ وہ ایک محب وطن اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ تعمیروترقی کے جو اہداف جوڑ دیئے گئے ہیں اُنہیں حقیقی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ’صوبہ ہزارہ‘ بنانے کے لئے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم لائی جائے اور عوام کی آنکھوں میں صوبائی اسمبلی کی ایک ایسی قرارداد کی منظوری سے دھول نہ جھونکی جائے‘ جس کا وجود تو ہے لیکن اُس کی آئینی حیثیت نہیں۔ بابا حیدر زمان تلخ و شریں لب و لہجے میں ’حق گوئی‘ کا حوصلہ اور جرأت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے وسیع دسترخوان اور مہمان نوازی میں بھی ہزارہ کے جملہ سیاستدانوں میں ممتاز ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی عزت‘ مرتبہ اور مقام بڑے بڑے عہدے و مراتب رکھنے والوں سے زیادہ ہے۔

بابا حیدر زمان محض جذبات کا نام نہیں اور نہ ہی اُن کی سوچ کا مرکز و محور ہزارہ ڈویژن کی حد تک محدود ہے۔ علالت کے دوران انہوں نے 8 نکاتی ایک ایسا انقلابی منشور تحریر کیا ہے‘ جسے اگر اُن کی پوری سیاسی و غیرسیاسی زندگی اور ذہانت کا نچوڑ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان قوم کا المیہ ’شخصیت پرستی‘ ہے۔ قوم بشمول سیاست دان قومی مسائل پر جامع اُور دیرپا عملی اقدامات کی بجائے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ عام آدمی کے پاس کوئی چارہ اور کوئی ایسا متبادل بھی نہیں رہا کہ وہ سیاست دانوں کی باتوں پر یقین نہ کرے لیکن اُسے ہر سیاسی جماعت سانپ کی طرح ڈس رہی ہے اور زہر اُس کے پورے جسم میں سرایت کر چکا ہے۔ ہمیں عام قانون سازایوانوں اور بلدیاتی اِداروں کے لئے ہونے والے عام انتخابات کے نظام کی اِصلاح کرنی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے شعوری وجود کا ثبوت دیتے ہوئے ’’مالی و انتظامی بدعنوانیوں‘ اقرباء پروری‘ سیاسی مذہبی‘ گروہی‘ نسلی و لسانی تعصبات‘‘ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ہمیں ’صرف پاکستانی (ایک قوم)‘ بن کر سوچنا اور اِس مقصد کے حصول کے لئے عملی عملاً کوششیں کرنی ہیں۔

ہزارہ پر مشتمل الگ صوبے کا قیام ’بابا حیدر زمان‘ کی زندگی کا لب لباب‘ اُن کا مؤقف اور اُن کی ہر سوچ و عمل کا نتیجہ ہے۔ اِس (عظیم) مقصد (حاصل) کو اپنے سینے سے لگائے اگرچہ وہ جسمانی طورپر اپنی (81سالہ) عمر سے زیادہ لاغر دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ’صوبہ ہزارہ‘ کی بات آتی ہے تو نجانے کہاں سے اُن میں توانائی بھر جاتی ہے۔ اُن کا لہجہ گرجدار ہے کیونکہ سچائی (مصلحت آشنا) اُور کبھی زیر نہیں ہوتی۔ سچائی مرتی بھی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ بابا حیدر زمان کی جلد صحت یابی اور درازئ عمر کی دعائیں کرتے ہوئے جب اُن سے ’اِلتماس دعا‘ کہا گیا تو انہوں ہاتھ تھامے کہا ’’بہت دعا‘ مجھے بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے تاکہ سچائی کے محاذ پر ڈٹ کر اُن قوتوں کا مقابلہ کرسکوں جو (مشتری ہوشیار باش) قیادت کے لبادے میں ’ہزارہ‘ کو پسماندہ‘ محکوم اُور اپنے مفادات کا اَسیر بنائے رکھنا چاہتے ہیں!

Monday, January 4, 2016

TRANSLATION: Checks and balances

Checks & balances
نگرانی کا عمل
دنیا میں قریب 12 درجن اقسام کی جمہوریتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے 8 صدراتی نظام حکومت جبکہ چار درجن پارلیمانی نظام حکومت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں جن میں کسی فرد واحد کی بجائے حکمراں قانون ساز اسمبلی کے سامنے جواب دے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح طرز حکمرانی کا ایک طریقہ ’آمریت (ڈکٹیٹرشپ)‘ کہلاتا ہے جس میں ملک پر فرد واحد کی حکومت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک طرز حکمرانی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں اختیار کم تعداد میں افراد کے پاس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو جمہوریت کو آمریت بننے سے روکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جس میں جمہوریت جیسا وسیع فیصلہ سازی کا اختیار چند افراد کی حد تک محدود ہو جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جمہوریت کو اُس کی اصل اور روح کے مطابق چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ادارے مضبوط کئے جائیں‘ اُن پر نگرانی رکھی جائے اور انتظامی و مالی بدعنوانیوں کو روکنے کے لئے کارکردگی کا احتساب مسلسل عمل کی صورت جاری و ساری رہے۔

سال1985ء میں پاکستان کے آئین کی 58ویں شق میں ترمیم کرتے ہوئے اضافہ کیا گیا کہ ’’ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس میں وفاق پر مشتمل حکومت کو آئین کے مطابق چلانا ممکن نہیں رہا اُور اس صورتحال میں ووٹ دینے والوں سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔‘‘ سال 1988ء میں ہوئے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے قریباً 75لاکھ ووٹ حاصل کئے اور 114 قومی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔ 9 جماعتوں کے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی 60 نشستیں حاصل کیں۔ جب بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم عہدے کا حلف لیا تو اُس وقت اُن کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے دو اسباب موجود تھے۔ ایک تو آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق اور دوسرا پارلیمنٹ کے اندر ایک مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1990ء میں ہوئے عام انتخابات میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے قومی اسمبلی کی 111 نشستیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 44نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اُس وقت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے دو قسم کے مؤثر ’چیکس اینڈ بیلنسیز‘ موجود تھے یعنی آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق موجود تھی جس کے تحت حکومت کو اُس کی مدت سے قبل ختم کیا جاسکتا تھا اور دوسرا پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1993ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے قریباً 76لاکھ ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی کی 89نشستوں پر پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار کامیاب ٹھہرے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو قریباً 80لاکھ ووٹ اور قومی اسمبلی کی 73نشستیں ملیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے دو قسم کے مؤثر ’چیکس اینڈ بیلنسیز‘ موجود تھے یعنی آئین میں ’اٹھاون ٹو بی‘ کی شق موجود تھی جس کے تحت حکومت کو اُس کی مدت سے قبل ختم کیا جاسکتا تھا اور دوسرا پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا وجود تھا۔

سال 1997ء میں ہوئے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 137 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلزپارٹی نے 18۔ چار اپریل 1997ء کے روز آئین میں 13ویں ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت ’اٹھاون ٹو بی‘ کا خاتمہ کر دیا گیا اور اسی طرح صدر کی جانب سے وزیراعظم کی کارکردگی پر نگرانی کے آئینی طریقۂ کار کو بھی ختم کر دیا گیا۔

14مئی 2006ء کے روز بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے ’قراردار جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی)‘ پر دستخط کئے جس کے تحت پارلیمینٹ میں حزب اختلاف کے مؤثر کردار کو ختم کردیا گیا۔ سال2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 119 جبکہ نواز لیگ نے 89 نشستیں حاسل کی۔ جب سیّد یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھایا تو اُن کی کارکردگی پر نگرانی کا کوئی بھی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔

سال 2013ء کے عام انتخابات میں جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 166 اور پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور نواز شریف نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو بھی منتخب جمہوری حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے والا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔ سوچئے کہ وہ کیا انتظامات و اقدامات ہو سکتے ہیں جو کسی منتخب جمہوری حکومت کو آمریت یا شخصی اقتدار کا مجموعہ بنا سکتے ہیں؟

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

The game of counting!

 ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گنتی کا کھیل!
سترہ برس کا اعصاب شکن انتظار کسی بھی صورت معمولی نہیں لیکن بالآخر فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے کہ پاکستان میں مردم اور گھروں کا شمار رواں برس تیسرے ماہ میں کروایا جائے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے حسب حکم محکمۂ شماریات نے ایک معاہدے کو حتمی شکل بھی دے دی ہے جسے ’دیر آئد درست آئد‘ قرار دیتے ہوئے زیرلب دعا ہے کہ ایسا کچھ بڑا نہ ہو جائے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیکورٹی خدشات کے سبب ایک مرتبہ پھر مردم و خانہ شماری جیسا دیرینہ کام بادلنخواستہ ملتوی کرنا پڑ جائے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (ادارہ شماریات) کی گورننگ کونسل کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے مردم شماری کے منعقد کرانے کے لئے جس نئے لائحہ عمل کی منظوری دی ہے‘ وہ ایک درست سمت اور درست وقت پر کیا جانے والا درست اقدام ہے۔ اگر حالات معمول پر رہتے ہیں تو مردم و خانہ شماری کے ابتدائی نتائج کو یکجا کرنے کا کام رواں سال جون میں مکمل کرلیا جائے گا جبکہ اس کے دیگر پہلوؤں پر تفصیلی کام مکمل کرنے میں مزید اٹھارہ ماہ کا وقت درکار ہو گا یعنی دسمبر دو ہزار سترہ تک مردم و خانہ شماری کے عمل کی تکمیل اور ایک ایسا تفصیلی جائزہ (سروے) ہاتھ آ جائے گا‘ جس میں اضلاع کی سطح پر جامع اعدادوشمار شامل ہوں گے۔ منصوبہ سازی کے مرحلے پر غوروخوض سے طے ہوا ہے کہ آبادی کی مردم شماری و خانہ شماری کی تفصیلات ترتیب دینے کے لئے تین سال کا عرصہ درکار ہوگا تاہم دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل قبل مکمل کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں جن میں زیادہ افرادی قوت و ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے‘ جس سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ تو ہوگا لیکن عام انتخابات سے قبل اسے مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ آخر عام انتخابات سے قبل ہی کیوں؟

پاکستان کا طرز حکمرانی ترجیحات کے درجات میں منقسم ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی طرح انتخابی سیاست کرنے والوں کے اپنے مفادات بھی ہیں جن کا بہرصورت تحفظ کرنے کے لئے نہایت ہی سنجیدگی و باریک بینی سے قومی و صوبائی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں۔ اجتماعی اور قومی مفاد جیسی اصطلاحات تو نمائشی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو اتنا وقت دینا مقصود ہے جس میں نئی حلقہ بندیاں اور حالیہ آبادی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں (نشستوں کی تعداد) میں اضافہ کیا جا سکے لیکن یہ اضافہ کچھ اِس طرح ہو کہ حکمراں و حزب اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت کے (انتخابی) مفادات پر ضرب نہ لگے۔ اِس سلسلے میں جملہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کوششوں کا آغاز بھی آئندہ چند ہفتوں میں درپردہ رابطہ کاری سے شروع ہو جائے گا تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری کے موقع پر عوام اپنی بیداری اور احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اِس عمل کی معاونت اُور ’’گنتی کے کھیل‘‘ کو اِدھر اُدھر کرنے والوں کے عزائم پورے نہ ہونے دیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قانون ساز ایوانوں میں اقلیتوں‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے متعدد بل (مسودۂ قانون) تعطل کا شکار ہیں۔جن پر غوروخوض کے کئی مراحل کے بعد دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیاں پہلے ہی اس امر پر اتفاق کر چکی ہیں کہ ’’مردم شماری کے نتائج آنے تک ایسی قانون سازی نہ کی جائے کیونکہ وہ متنازعہ رہے گی۔‘‘ خوش آئند ہے کہ مردم شماری کے ذریعے سے ملک بھر میں نقل مکانی اور دیہی و شہری آبادی کے حجم و تناسب کے بارے میں کسی حد تک مکمل و قابل بھروسہ اعداد و شمار حاصل ہوجائیں گے۔ اِس پورے عمل پر ماحولیاتی خطرات اور تحفظ خوراک کی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کی توجہ مرکوز ہے کیونکہ جہاں ایک طرف کرۂ ارض کے موسم تبدیل ہونے کے منفی اثرات ہمارے ہاں دیکھے جا سکتے ہیں وہیں بڑے پیمانے پر زیرکاشت و قابل کاشت زرعی اراضی بھی رہائشی مقاصد کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے خوراک کا تحفظ ممکن نہیں ہو پارہا۔ اگر قارئین تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ لیں تو ایک زرعی ملک کی صنعتی ترجیحات رکھنے والوں کو اپنے قول و فعل پر غور کرنا چاہئے۔ الغرض زراعت (بشمول لائیوسٹاک) گریز منفی عوامل کی حوصلہ شکنی مردم شماری وخانہ شماری کے بناء ممکن نہیں۔

انتخابی حلقہ بندیاں اُور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نئے حلقے آئین کے تحت ایک ایسی ضرورت ہیں‘ جنہیں پورا کرنے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ اگرچہ مردم شماری کی درست تاریخوں کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی تاہم اِس بات کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ مردم شماری مارچ کے آخری دنوں میں کی جائے۔ جس کے لئے چودہ ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ منظور کرنے کے بعد اِسے صوبوں پر تقسیم کر دیا جائے گا یعنی ہر صوبہ اپنے ہاں ہونے والی مردم و خانہ شماری کے اخراجات خود برداشت کرے گا۔ یہ فیصلہ کہ مردم شماری ایک ہی مرحلے میں مکمل کی جائے‘ بہتر ہے۔ پہلے تین روز میں مکانات کا شمار دیگر پندرہ روز میں ہر گھر کی مردم شماری کے کوائف اکٹھا کرنے جبکہ ایک روز بے گھر افراد کے لئے مختص کیا جائے گا۔ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ملک کی ’’چھٹی مردم شماری‘‘ کا عمل فوج کی زیرنگرانی اور حفاظتی حصار میں مکمل کیا جائے گا تاہم اِس کے انعقاد کے ساتھ یکساں اہمیت شفافیت کو بھی دینی چاہئے کیونکہ اگر اجتماعی مفاد عزیز ہے اور منصوبہ سازوں کے پیش نظر صرف نئی انتخابی حلقہ بندیاں متعین کرنے ہی کا ہدف نہیں تو چودہ ارب روپے سے زائد جیسی خطیر رقم خرچ کرنے میں صوبوں کو شریک سفر ہی نہیں بلکہ مشاورتی و منصوبہ بندی کے عمل میں بھی ساتھ رکھنا چاہئے۔

 اُمید ہو چلی ہے کہ اگر عمومی صورتحال میں (وفاقی و صوبائی) حکومتیں عام آدمی تک بنیادی یا تعلیم و صحت جیسی سہولیات نہیں پہنچا پا رہیں تو یقیناًمردم شماری کے بعد اجتماعی مفادات بطور ترجیح فیصلہ سازی کے عمل پر حاوی و بھاری دکھائی دیں گے۔ ’’زخموں کے باوجود میرا حوصلہ تو دیکھ۔۔۔ تو ہنس دیا‘ تو میں بھی تیرے ساتھ ہنس دیا!‘‘

TRANSLATION: Incentives for peace

Incentives for peace
(افغانستان: قیام) اَمن کے ثمرات
افغانستان میں قیام امن کے لئے معطل عمل کو پھر سے فعال کرنے کے لئے معلوم کوشش جاری ہے اور اس سلسلے میں پیشرفت پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دورۂ افغانستان کے دوران دیکھنے میں آئی۔ یہ دورۂ ستائیس دسمبر کے روز کیا گیا۔ درحقیقت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی افغانستان سے متعلق ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ جو کہ آٹھ اور نو دسمبر کے روز ہوئی کے بعد سے افغانستان متعلق بہت سے امور طے پا رہے ہیں۔ اسی کانفرنس کا نتیجہ تھا کہ افغان صدر اشرف غنی جو کہ پاکستان کا دورۂ کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے اور یہ مؤقف رکھتے تھے کہ پاکستان افغانستان میں عدم استحکام کے لئے درحقیقت ذمہ دار ہے لیکن وہ پاکستان آئے اور پھر اُنہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ افغان طالبان سے مذاکراتی عمل کے لئے پاکستان کی مدد اور کردار سے استفادہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دوسری پیشرفت پاک فوج کے سربراہ اور خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہوں کا افغانستان کا دورہ تھا جس میں وسیع بنیادوں پر قیام امن کے لئے اپنے ہم منصبوں بشمول افغان حکمرانوں سے بات چیت کی گئی۔ اگر اشرف غنی معاملات کو سمجھنے میں جذبات کی بجائے بصیرت سے کام لیتے تو ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ کے انعقاد سے قبل پاکستان کی عسکری قیادت افغانستان کے دورے کر چکی ہوتی اور کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی دونوں ممالک کے درمیان کئی امور پر اتفاق رائے بلکہ لائحہ عمل بھی تشکیل پاچکا ہوتا۔ پاکستان میں فوجی قیادت کے دورۂ افغانستان پر تنقید سننے میں آئی۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ فوجی قیادت کی بجائے منتخب سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزارت خارجہ کے امور کی نگرانی کرنے والوں کو پہلے مرحلے میں افغانستان کا دورہ کرنا چاہئے تھا یا اِن افراد کو بھی فوجی قیادت کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کرنا چاہئے تھا جس سے یہ پیغام منتقل ہوتا کہ افغان امور سے متعلق پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت ایک جیسی سوچ‘ فیصلے‘ عمل اور مشترکہ حکمت عملی رکھتی ہے۔ پاک فوج کی قیادت کے دورۂ افغانستان سے یہ تاثر اُبھرا ’افغان امور‘ پاک فوج سے متعلقہ ہیں اور ان کے طے کرنے میں ملک کے منتخب وزیراعظم کا عمل دخل غیرمعمولی نہیں۔ یہ بات شک وشبے سے بالاتر ہے کہ پاکستان کی ’افغان پالیسی‘ اور داخلی سطح پر متعلقہ امور جیسا کہ اندرون ملک سیکورٹی کی صورتحال یا دہشت گردی سے نمٹنے جیسے امور کا بڑا حصہ پاک فوج ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن افغانستان جانے والے وفد کے ہمراہ سیاسی رہنماؤں یا متعلقہ وزارت کے اہلکاروں کے نہ ہونے سے افغان حکومت کے اس تاثر کو ایک مرتبہ پھر تقویت ملی ہے کہ اگر انہیں افغان مسئلے کو حل کرنا ہے تو اِس کے لئے پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے معاملہ کرنا ہوگا۔

جنرل راحیل شریف کے دورۂ افغانستان سے چند مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے۔ سب سے پہلی غیرمعمولی بات تو یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلز کے درمیان براہ راست ٹیلی فونک رابطہ کاری (ہاٹ لائن) کے قیام پر اتفاق ہوا جس سے دونوں عسکری امور کے نگران ڈھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد پر پیش آنے والی کسی ہنگامی صورتحال یا عمومی سطح پر مشاورت کے لئے ایک دوسرے سے فوری رابطہ کرکے تبادلۂ خیال کرسکیں گے۔ اسی ’ہاٹ لائن‘ کے ذریعے دونوں ممالک میں سرحدوں کی خلاف ورزی یا سرحد پار سے کسی اشتعال انگیز کاروائی سے متعلق ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جا سکے گا‘ جس سے اُن کے درمیان غلط فہمیوں کا فوری (بروقت) ازالہ ممکن ہوگا۔ یہ ’ہاٹ لائن‘ رابطہ کاری کا قیام 30دسمبر سے ہو چکا ہے اور اُمید ہے کہ دونوں ممالک اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی اختلافات و عدم اعتمادی کا سبب بننے والے محرکات سے نجات حاصل سے کریں گے۔ پاکستان حکام کے تحفظات رہے کہ ماضی میں بھی افغان صدر کے ساتھ ہوئی بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے سے جن اقدامات پر اتفاق ہوا‘ وہ سرحدوں کی نگرانی کرنے والے افغان حکام کو منتقل نہیں ہوسکے اور اسی قسم کے گلے شکوے افغان قیادت کی جانب سے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’ہاٹ لائن رابطہ کاری‘ سے غلط فہمیوں کا مؤجب بننے والے امور طے ہوتے چلے جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان شکایات کے ازالے کے لئے ایک طریقہ کار سال2014ء کے اختتام تک موجود تھا تاہم افغانستان سے نیٹو تنظیم کے رکن ممالک کی افواج کے مرحلہ وار انخلأ کے مکمل ہونے کے ساتھ رابطہ کاری پر سکوت طاری ہوگیا۔ ماضی میں سہ فریقی عسکری کمیشن افغانستان پاکستان اور امریکہ کی قیادت والی نیٹو افواج کی کمانڈ میں مستقل بنیادوں پر ملاقاتیں کرتی رہتی تھی جن میں سرحد پر پیدا ہونیو الے مسائل و حالات کے بارے بروقت اقدامات (حل) طے کر لئے جاتے تھے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں تعینات خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے درمیان بھی رابطے کی سبیل موجود تھی اور دونوں ممالک معلومات کا تبادلہ کرتے تھے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء کو خوشگوار بنائے رکھنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔

پاکستان کی فوجی قیادت کے دورۂ افغانستان کا ایک حاصل یہ بھی رہا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان مزاحمت کاروں کے درمیان ’امن مذاکرات‘ کے لئے شروعاتی اقدامات طے کئے گئے جس سے تعطل کا شکار مذاکراتی عمل پھر سے بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں ’ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس‘ میں چار فریق پاکستان‘ افغانستان‘ امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہرممکن و بھرپور تعاون کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں جس میں امن مذاکرات کی نگرانی بھی شامل ہے۔ اس چار فریقی ٹیمکو ’اسٹیرینگ کمیٹی‘ کا نام دیا گیا جس پر چین کے سفارتکار نے اعتراض کرتے ہوئے یہ مؤقف پیش کیا کہ افغانستان میں قیام امن کی باگ دوڑ اور کوششوں کا انحصار افغان حکومت کے ہاتھ ہونا چاہئے اور افغان حکومت ہی کو اس کی ملکیت بھی رکھنی چاہئے تو یہ عمل زیادہ تیزرفتار اور پائیدار خاطرخواہ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں اس چار فریقی ٹیم کو ’کوآرڈینیشن کمیٹی‘ کا نام دے کر مخاطب کیا جائے جو نہ صرف امن مذاکرات کی سہولت کار و نگران ہو بلکہ اگر قیام امن کے لئے جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو وہ اس عمل کی پائیداری کے لئے بطور ضامن بھی کردار ادا کرے۔

افغان قیام امن سے متعلق چار فریقی کمیٹی کا پہلا اجلاس 16 جنوری کے روز ہونا طے ہے جس میں اُمید ہے کہ فیصلہ کیا جائے گا کہ امن کی راہ میں حائل مشکلات اور قیام امن کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینے جیسی تفصیلات (روڈ میپ) پہلے ہی اجلاس میں طے کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کا کردار کلیدی ہے جنہیں ظاہری سی بات ہے کہ طالبان کے لئے ایسی پیشکشیں کرنا ہوں گی جس سے وہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور بعدازاں قیام امن کے لئے جنگ بندی پر بھی رضامند ہو جائیں۔ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ جو متحارب فریق افغان امن کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے اُن کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا جبکہ ایسے فریق جو قیام امن میں معاونت کریں گے اُنہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں کہ کس طرح کے سخت اقدامات کئے جائیں گے لیکن ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ انتہائی درجے کا ہوگا اگر پرامن مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے (حل) تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ دوسری طرف افغان طالبان کی صفوں میں اتفاق نہیں۔ ایک گروہ امن مذاکرات کا مخالف ہے اور مذاکرات سے انکار کئے بیٹھا ہے تاہم طالبان کے بڑے دھڑے جس کی قیادت ملا اختر محمد منصور اور سب سے چھوٹے دھڑے جس کی قیادت ملا محمد رسول کر رہے ہیں‘ اِن دونوں کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کے بارے میں کوئی بیان (مؤقف) تاحال سامنے نہیں آیا لیکن دونوں کے بارے میں قوی تاثر ہے کہ وہ امن مذاکرات کے شروع ہوتے ی اس میں شریک ہو جائیں گے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کے لئے اضافی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

افغان طالبان کے قدرے چھوٹے اور کمزور دھڑے پاکستان کے دباؤ میں آسانی سے آ جائیں گے لیکن اُن کے رضامند ہونے سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ سابق مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی دعوت اسلامی بھی عسکری طور پر کمزور ہے افغان حکومت سے مذاکرات کرلے گی کیونکہ وہ ماضی میں بھی افغان حکومت اور امریکی حکام سے اِس قسم کے مذاکرات کرچکے ہیں۔ سب سے مشکل (چیلنج) یہ ہوگا کہ ملا منصور جس طالبان گروہ کی قیادت کررہے ہیں انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے کیونکہ یہی گروہ افغانستان کے سبھی صوبوں میں اپنی فعالیت رکھتا ہے اور قطر میں افغان طالبان کا دفتر بھی انہی کے پاس ہے۔

پاکستانی حکام ان خدشات کا شکار ہیں کہ اگر افغان طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے امن کے مذاکراتی عمل پر منفی اَثر پڑسکتا ہے اُور افغان حکومت اور عوام میں پاکستان مخالف جذبات بڑھ سکتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں چین اور امریکہ کو شامل کئے جانے سے کم از کم اس بات کی تو ضمانت مل چکی ہے کہ اگر یہ مذاکراتی عمل کسی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتا ہے یا کسی اتفاق رائے پر عملی پیشرفت اگر نہیں ہوتی تو اِس کے لئے ماضی کی طرح صرف پاکستان کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ افغانستان میں قیام امن ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک مشترکہ ضرورت ہے بالخصوص 10 ارب ڈالر مالیت کا ترکمنستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ صرف ایک ہی صورت مکمل ہوسکتا ہے اگر افغانستان میں وسیع البناد امن کے قیام کا حصول ممکن بنا دیا جائے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Sunday, January 3, 2016

Jan2016: Just a good faith is not enough

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ناکافی نیک نیتی!
قبائلی علاقہ جات کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ’’اصلاحات کا تعین کرنے والی خصوصی اختیاراتی کمیٹی‘‘ میں متعلقہ اراکین اسمبلیوں کوشامل نہ کرنے کی وجہ سے اِس گروہ کی صحت پر اگرچہ کوئی فرق نہیں پڑتا اُور نہ ہی اُن کی آئینی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے کیونکہ آئین کی کسی بھی شق میں یہ نہیں لکھا ملتا کہ جب کبھی قبائلی علاقوں کی اصلاحات کی جائیں گی تو اِس کے لئے مشاورتی عمل میں قبائلیوں نمائندگی وہاں سے منتخب ہونے والے لازماً کریں گے یا سبھی قبائلی علاقوں کی نمائندگی کوئی ایک منتخب نمائندہ کرے گا لیکن چونکہ ’کامن سینس‘ زیادہ ’کامن‘ نہیں ہوتا اِس لئے فیصلہ سازی کی حد تک وفاقی حکومت نے جو کچھ بھی کیا وہ آئینی طور پر جائز لیکن اخلاقی طور پر ناقابل یقین ہے کیونکہ کسی ایسی اصلاحاتی کمیٹی کا اخلاقی جواز‘ حیثیت کیا ہو سکتی ہے جو قبائلی حالات‘ روایات‘ وہاں کے رہنے والوں کی ضروریات اور سوچ سے متعلق سمجھ بوجھ کا سطحی معیار رکھتی ہو؟ یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وکلأ نے بادلنخواستہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ’اصلاحاتی کمیٹی‘ کے قیام سمیت اِس پورے اصلاحاتی عمل سے قبائلیوں کو الگ رکھنے کے معاملے کو ’پشاور ہائی کورٹ‘ میں چیلنج کریں گے۔ قبائلی وکلأ کا منطقی جواز یہ ہے کہ ’’آئینی اختیار یا کسی معاملے کے حل کی خواہش یا محض نیک نیتی ہی کافی نہیں ہوتی‘ بلکہ جن کے بارے میں فیصلہ ہونے جا رہا ہے وہ جمادات و نباتات نہیں بلکہ انسان ہیں اُور اُن کے نکتۂ نظر کو پیش کرنے‘ اُن کے مفادات‘ ضروریات اور خواہشات بھی سوچ بچار کے عمل کا لازمی جز ہونی چاہیءں۔‘‘

کیا یہی جمہوریت ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں پر فیصلے مسلط کئے جائیں؟ کیا قبائلی علاقوں کے رہنے والے بھیڑ بکریوں یا جانوروں جیسے ہیں کہ جن میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کرنے کی صلاحیت و ذہانت (شعور) نہیں پایا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لئے قائم ’اصلاحاتی کمیٹی‘ میں پارلیمانی نمائندوں کو شامل نہ کرنا ’’ستم بالائے ستم‘‘ کے مترادف ہے‘ جس کا مقصد و حاصل کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اِس سے درکار خیروعافیت یعنی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ہمارے فیصلہ ساز اِس باریک نکتے پر کیوں نہیں سوچتے کہ حال و مستقبل کے قبائلی اُن کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے؟ دہشت گردی کے خلاف اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی بنام ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں اگر قبائلی علاقوں کی اصلاحات کی شق موجود نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ اِن علاقوں پر مسلط و حاوی سوچ کو اب بھی قبائلیوں کا خیال نہ آتا لیکن غیرضروری جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کی گتھی سلجھانے کی بجائے مزید الجھائی جا رہی ہے‘ اُور اَگر ایسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے بارے میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے نکتۂ نظر سے کمی یا خامی یا مزید اصلاح کی گنجائش باقی رہ گئی تو موجودہ کوشش ماضی ہی کی طرح محض وقت و سرمائے کا ضیاع ثابت ہوگی!

یادش بخیر قبائلی علاقوں (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے ’’19 پارلیمانی نمائندے‘‘ پہلے ہی ایک مسودۂ قانون (آئینی ترمیم) پر دستخط کرکے اُسے قومی اسمبلی میں جمع کرا چکے ہیں اور ’’فاٹا اصلاحاتی کمیٹی‘‘ کے بارے میں شدید تحفظات دل میں نہیں بلکہ زبانوں پر سجائے ہوئے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ قبائلی پارلیمانی نمائندے اِس قدر اپنے متعلق ہونے والے فیصلے پر اس قدر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہوں! آئینی ترمیم کا پارلیمانی فریقین کی جانب سے مشترکہ مطالبہ قبائلی وکلأ کے مقدمے کا بنیادی نکتہ ہے اور وہ بھی اِسی بات پر زور دے رہے ہیں کہ قبائلی پارلیمانی نمائندوں کی جانب نے جس اتفاق رائے سے آئینی ترمیم تیار کی گئی پھر وہ قرارداد ایوان بالا (سینیٹ) کی قانون و پارلیمانی کمیٹی نے منظور کی اور بعدازاں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے مذکورہ ’بل‘ کی حمایت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تو پھر کیا امر مانع ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں میں احساس محرومی کو باقی رکھا جارہا ہے اور پارلیمانی نمائندوں کو ایک ایسے سفر میں ہمسفر نہیں کیا جا رہا‘ جس کی منزل اُنہی کی مقصود ہے؟!

قبائلی علاقوں اور وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں ہر نکتۂ اعتراض‘ ہر سوال اُور ہر آئینی ترمیم کا مطالبہ جائز ہے کیونکہ یہ علاقے بنیادی ضروریات ہی نہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور پسماندگی و غربت کی زندہ تصویریں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں اور انتہاء پسندوں کو یہاں کے نوجوانوں کو شکارکرنے کا موقع ملا اُور اُنہوں نے محب وطن قبائلیوں کی سرزمین پر پاؤں جمائے۔ قبائلی علاقوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ مالی مفادات جیسی ترجیحات کی بناء پر پولیٹیکل انتظامیہ کی گرفت اِن علاقوں پر کمزور ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کو اِن علاقوں کے استعمال کا موقع ہاتھ آیا اُور اُنہوں نے پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی سے نہ صرف باقی ماندہ پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا میں اپنے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنا شروع کردیں۔ حکومت نے ماضی میں قبائلی علاقوں سمیت پاکستان کی سرزمین کے استعمال اور افغانستان میں دو طاقتوں کے درمیان جنگ میں فریق بن کر جو غلطی کی‘ اُس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں اور یقیناًآئندہ کسی ایسی غلطی سے اجتناب کیا جائے گا‘ جو قبائلی علاقوں کی قسمت کے فیصلے سے متعلق ہو اور بعدازاں مستقل گلے پڑ جائے!

قبائلی عوام کیا چاہتے ہیں؟ اِس سیدھے سوال کو جب قبائلی عمائدین اور عام آدمی کے سامنے رکھا جائے تو ترجیحات کی فہرست میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح انصاف کی فراہمی‘ یکساں قانون کی حکمرانی‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی و فعالیت اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں سرکاری محکموں کا نظام قائم کرنے پر صرف زور ہی نہیں دیا جاتا بلکہ بات کا اختتام کرتے ہوئے اکثریت اِس ایک جملے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں کہ اگر قبائلیوں کی حسب منشاء اصلاحات نہیں کی جاتیں تو یہ عمل تشنہ ہی نہیں بلکہ سعی لاحاصل رہے گی۔ قبائلی وکلأ سے بات کی گئی تو انہوں نے عجیب منطق بیان کی کہ اصلاحاتی کمیٹی کے کسی بھی رکن کو ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)‘ کے تلخ حقائق کے بارے علم نہیں اُور نہ ہی وہ کبھی اِس قانون کے تحت کبھی گرفتار ہوئے ہیں جو انہیں علم ہو سکے کہ ’ایف سی آر‘ کے سزا یافتہ ہونا کیا الگ و اضافی معنی رکھتا ہے۔ ایبٹ آباد میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک قبائلی نوجوان نے یہاں تک کہا کہ ’’وہ نفوس ہمارے (قبائلیوں کے) دُکھ کو بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں جن کی سکھ بھری‘ مراعات یافتہ اور حاکمانہ زندگی کا ایک دن تو کیا ایک لمحہ بھی محروم و محکوم قبائلیوں جیسا نہ گزرا ہو۔ ہم اپنے ہی ملک میں جلاوطنی و مہاجرت جیسی صعوبتوں بھری زندگی بسر کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے لئے اگر کوئی قوم قربانی دے رہی ہے تو وہ قبائلی ہیں۔ کھلے آسمان تلے گرمی کی شدت برداشت کرنے والے‘ بھوک پیاس اور بے سرسامانی پر صبر کرنے والے‘ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر اپنے بچوں کو سینے سے لگانے والوں کا قصور کیا ہے؟ ایک طرف ہم پر اسلحہ تان کر نقاب پوش کھڑے ہیں تو دوسری طرف غلامی جیسی زندگی دینے والوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ موسمی شدت‘ بھوک و پیاس لئے بھکاریوں جیسی زندگی اگر قبائلیوں کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘ تو وقت ہے کہ اِسے تبدیل کیا جائے!‘‘

قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کا دکھ خود اُن کے علاؤہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا اور نہ ہی اِس دکھ کا مدواہ اُن کی رائے شامل کئے بناء ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے مشاورت سے کئے گئے تو قبائلی نہ صرف اُنہیں اپنائیں گے بلکہ اُن کے تحفظ و کامیابی کے لئے انتھک و پرخلوص کوششیں بھی کریں گے بصورت دیگر وقت اُور مہلت دونوں تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

Saturday, January 2, 2016

Jan2016: Politics of cleverness!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دیر اَندھیر: شاطرانہ و ماہرانہ سیاست!
وزیراعظم نواز شریف کی قسمت پر جس قدر رشک کیا جائے کم ہوگا کیونکہ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے علاؤہ سیاسی محاذ پر پیش آنے والی مشکلات کے مقابلے میں اُن کی حکمت عملیاں بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت ہی کم جمہوری حکومتوں کو 2015ء جیسا سال نصیب ہوا ہوگا۔ یہ سال نواز شریف کی حکومت کے لئے مقبولیت کے مواقع پلیٹ میں رکھ کر لایا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اِن 146نادر مواقعوں145 سے خاطرخواہ فائدہ اٹھا پائی؟

سال کا آغاز ہوا تو دھرنے ختم ہو رہے تھے اور ملک عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم لئے ایک پرچم تلے جمع ہو رہا تھا۔ سال کے آغاز پر کئی اعلانات کیے گئے145 کچھ نے سرخیوں میں جگہ پائی تو کچھ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ سرخیوں میں جگہ پانے والے اعلانات میں نیشنل ایکشن پلان اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ تھے۔ دو مسائل جو زیادہ عرصہ سرخیوں میں نہیں رہے145 وہ 146نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجرأ145 اُور 146مارچ 2016ء تک مردم شماری145کروانا تھا۔ سال ختم ہو گیا لیکن 146این ایف سی ایوارڈ145 پر صوبوں کے تحفظات دور نہ ہو سکے اور نہ ہی ملک میں مردم شماری ہو سکی۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک کی اصل آبادی کتنی ہے تو اس آبادی کے لئے ضروریات کا تعین کس بنیاد پر ممکن ہوگا؟ منصوبہ بندی کرنے والے نجانے کس خواب و خیال اور تصورات کی بنیاد پر آبادی کا اندازہ لگاتے ہیں جو ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعمیروترقی اور توسیع کا ہر منصوبہ ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ سال 2016ء میں اِس کمی (خامی) کو دور کیا جائے گا۔

گذشتہ برس سے اختیار کئے جانے والے 146نیشنل ایکشن پلان145 نامی حکمت عملی کے ملے جلے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ دسمبر کا آخری مہینہ تو خوب گرم رہا جب سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی تحلیل ہو گئی اور تعلقات شدید دباؤ کا شکار رہے۔ سندھ کی حکمراں پیپلزپارٹی علی الاعلان 146نیشنل ایکشن پلان145 کو صرف اور صرف نواز لیگ کا 146146ایکشن پلان145145 قرار دے رہی ہے اور الزام عائد کرتی ہے کہ ایکشن پلان کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دہشت گردوں کی مالی امداد و اسباب کا راستہ نہ روکا جائے اور سچ تو یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اِس شعبے میں بمشکل کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کچھ گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے علاؤہ دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد کی نگرانی اور اِسے روکنے کے لئے کوئی باقاعدہ نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔ دوہزار پندرہ کے وسط میں قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) زیرعتاب آیا جب اُس کی جانب سے وزیرِ اعظم کو دہشت گردوں کی مالی امداد کے الزام میں منجمد کئے گئے اثاثوں کے بارے میں غلط اعداد و شمار فراہم کئے گئے۔

سال دوہزار پندرہ کی سب سے اہم بات 146146چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ145145 رہا جس کے حوالے سے سال کے اختتام تک غلط فہمیاں دور نہ ہو سکیں! خیبرپختونخوا کو اِس منصوبے کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ 146146خیبرپختونخوا کو محض سڑک نہیں بلکہ راہداری منصوبے سے فوائد و ثمرات میں حصہ چاہئیں۔145145 راہداری کے علاؤہ تین دیگر بڑے منصوبوں کے حوالے سے بھی پیشرفت قابل ذکر ہے جن میں تھر کول145 اورنج لائن اور پورٹ قاسم پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پاور پلانٹ شامل ہیں145 جن کے لئے وفاقی حکومت نے مالی وسائل جاری کئے۔ تینوں منصوبے خوش آئند ہیں لیکن 146146اورنج لائن منصوبے145145 سے ماحول کو لاحق خطرات اور مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ گذشتہ برس قائدِ اعظم سولر پارک کو کامیابی سے لانچ کیا گیا اور اس نے پیداوار بھی شروع کی مگر بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے اگلے راؤنڈ کے لئے اعلان کردہ 146146سولر ٹیرف (فی یونٹ نرخ)145145 کم کر دیا گیا ہے145 جس کی وجہ سے سرمایہ کار منصوبے جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر غور کر سکتے ہیں۔

دوہزار پندرہ کے دوران 146این ایف سی ایوارڈ145 پر خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس حوالے سے صرف ایک اہم میٹنگ ماہ اپریل میں ہوئی۔ شروع میں سب نے ممبر نامزد کرنے کے لئے سندھ کا انتظار کیا اور اب پنجاب پر آنکھیں لگی ہوئی ہیں کیونکہ پنجاب کا نامزد کردہ ممبر صوبائی وزیرِ خزانہ بن چکا ہے۔ گذشتہ مالی سال بغیر کسی نئے اتفاق کے ختم ہوا اور اب ملک ایک عارضی بندوبست کے تحت گذشتہ ایوارڈ پر چل رہا ہے۔ صدر پاکستان نے گذشتہ 146این ایف سی ایوارڈ145 کی مدت میں ایک سال کا مزید اضافہ کیا تاکہ اتفاقِ رائے قائم ہو سکے جو اب تک نہیں ہوسکا کیونکہ یکم جولائی کو مدت میں اضافے کے بعد سے چھ ماہ گزر چکے ہیں مگر صوبوں اور وفاق کے درمیان کوئی نشست نہیں ہوئی۔ یہ ممکن ہے کہ اگلے چھ ماہ میں اتفاقِ رائے ہو جائے مگر وفاق کے سندھ اور خیبر پختونخوا کے ساتھ تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ ایسے کسی بھی اتفاقِ رائے کے لئے 146146شاطرانہ سے زیادہ ماہرانہ سیاست145145 کی ضرورت ہوگی۔ وفاقی حکومت دو ہزار سولہ کو مردم شماری کا سال قرار دے چکی ہے۔ یہ اعلان مارچ دوہزار پندرہ میں کرتے ہوئے مارچ دوہزار سولہ تک مردم شماری کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مردم شماری کے منصوبے میں ستمبر تک تمام مردم شماری بلاکس کو اپ ڈیٹ کرنا اور تمام بڑے موضع جات کا گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹ (جی پی ایس) کے ذریعے 146جی آئی ایس145 سروے کرنا شامل تھا۔ اب تک شہری علاقوں کے ڈیجیٹل نقشے بن جانے چاہئے تھے145 ڈیٹابیس میں بلاکس اپ ڈیٹ ہوجانے چاہئے تھے145 موضع جات کا پچاس سے زیادہ ٹیموں کی مدد سے سروے مکمل ہوجانا چاہئے تھا اور اس پوری مشق کے لئے ایک اعشاریہ دو ارب روپے جاری اور خرچ بھی ہوجانے چاہئے تھے لیکن یہاں دیر اور اندھیر میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دے رہا!

وفاقی ادارۂ شماریات کے بقول 146مردم شماری145 کے لئے اب تک صرف ساٹھ کروڑ روپے جاری کئے گئے اور اگر دوہزار سولہ میں باقی ماندہ رقم اور حسب ضرورت فوج کی جانب سے سیکورٹی بھی فراہم کر دی جاتی ہے تو مردم شماری کا عمل چند ماہ کی تاخیر کے ساتھ دوہزار سولہ ہی میں مکمل ہو سکتا ہے۔ اگر مردم شماری ہو جائے تو بلاشک و شبہ یہ وفاقی حکومت کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔ سال دوہزار پندرہ کا حاصل بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے145 سست شرحِ نمو145 بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی جیسے عوامل رہے لیکن سب سے اہم ملک میں امن و امان145 سیاسی استحکام145 صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کی بہتری145 مستحکم حکومتی خزانہ145 مردم شماری اور غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لاتے ہوئے بجٹ کا خسارہ اپنے وسائل سے پورا کرنا ہے۔ بس اُمید اور دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ 146دوہزار سولہ145 کسی حکمراں جماعت یا وزیراعظم کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے اچھا سال ثابت ہو گا۔

Friday, January 1, 2016

Jan2016: Pledges for New Year!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نیا سال: عہد نامہ!
منزل و سمت کا تعین کئے بغیر سفر اُور بناء کسی مقصد و عزم زندہ رہنے سے تو بہتر ہے کہ زندگی کے شعوری معنی تلاش کئے جائیں۔ اپنے وجود اور گردوپیش پر غور کیا جائے۔ اُن محرکات پر نظر رکھی جائے جو صرف بنی نوع انسان ہی نہیں بلکہ کرۂ ارض کے وجود کو اس حد تک متاثر کر رہے ہیں کہ یہ ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں یقیناًعیسوی سال 2016ء کے آغاز پر امن وامان کے قیام اور سلامتی جیسی درکار نیک خواہشات کے ساتھ ہمیں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی ذات یعنی اپنے آپ سے ایک عہد کرنے کا یہی نادر موقع ہے کہ نئے سال میں قول و فعل سے ’’ماحول دوست‘‘ بن کر عملاً اُس حدیث مبارکہ کی تفسیر بنا جائے کہ ’’تم میں بہترین انسان (خیرالناس) وہ ہیں جن کا وجود (دم کرم) دوسروں کے حق میں (ینفع الناس) بہتر ہے!‘‘

صنعتی و مادی ترقی اور بیجا نمودونمائش پر مبنی ہمارا طرزعمل ’ماحول دوست‘ نہیں۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے اگلتا ہوا دھواں‘ کیمیائی مادے نہروں و دریاؤں میں بہانے کی عادت‘ سست لیکن ماحول کے لئے غیرموافق ایندھن کا بڑھتا ہوا استعمال جیسا کہ اینٹوں کے بھٹوں میں پلاسٹک اور گاڑیوں کے ٹائر جلانے کا رجحان وغیرہ۔ کسی صنعتی علاقے یا اینٹوں کے بھٹے کے قریب سے گزرتے ہوئے عموماً گاڑی کے شیشے اُوپر چڑھا لئے جاتے ہیں کیونکہ ناگوار بو چند لمحوں میں اعصاب پر بوجھ ڈالتی ہے تو تصور کیجئے کہ آس پاس کی آبادیوں میں رہنے والے بالخصوص بچوں کی صحت پر ایسے آلودہ ماحول کا کتنا منفی اثر مرتب ہوتا ہوگا؟

ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں ہر لمحے اضافہ اور ہر گھڑی ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ ایک ایسی تلخ سچائی ہے جس سے کسی کو انکار بھی نہیں لیکن اِس بارے میں فکرمند ہونے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا! ماحول کو مسلسل و مستقل نظرانداز کرنے والوں کو عہد کرنا چاہئے کہ وہ نئے سال میں اپنا طرزفکر و عمل ہی نہیں بلکہ طرز معاشرت بھی تبدیل کریں گے اور کم سے کم اُن کی صف میں شمار ہونا پسند نہیں کریں گے جو ماحول دوست نہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں‘ واعظین اور خطبات جمعۃ المبارک کی سعادت حاصل کرنے والوں کی خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی جیسی اہم ذمہ داری بھی اَدا کریں۔

سال 2015ء کرۂ ارض کی تاریخ کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا گیا۔ دھند اور دھوئیں کا امتزاج (اسموگ)‘ آلودہ پانی اور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) وہ چیزیں ہیں جن سے شہروں میں رہنے والوں کاہرروز بلکہ ہرگھڑی واسطہ رہنے لگا ہے اور اب تو بات اِس حد تک بگڑ گئی ہے کہ صاف آسمان دکھائی دینے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں! جو باشعور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر ذرا بھر بھی تشویش رکھتے ہیں اور حالات کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اُنہیں نئے سال میں درپیش ماحولیاتی چیلنجز سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ یقیناًسب مل کر بہت کچھ تبدیل کر سکتے ہیں اور ایسی کئی ماحول دشمن عادات باآسانی ترک بھی کی جا سکتی ہیں‘ جن کے منفی اَثرات ہمارے آج ہی نہیں بلکہ مستقبل (آنے والی نسلوں) کے لئے بھی خطرہ ہیں۔

نئے سال کے عہد نامے میں پہلی بات شامل کر لیجئے کہ ۔۔۔ جو برقی آلات آپ کے زیراستعمال نہیں اُن کے سوئچ بند یا تار کو پلگ سے الگ کریں گے۔ ٹیلی ویژن‘ کمپیوٹر‘ استری‘ حتیٰ کہ موبائل فون کا چارجر بھی اگر استعمال نہیں ہو رہا تو اُسے ساکٹ میں لگا رہنے نہ دیں کیونکہ اِس سے بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ نئے سال میں کم سے کم بجلی خرچ کرنے کاعہد کریں۔

عہدنامے کا دوسرا نکتہ ’پانی کی بچت‘ ہے۔ ٹوتھ برش یا نہاتے ہوئے پانی کا استعمال کم سے کم کریں۔ زیادہ دیر تک خود پر پانی بہا کر تسکین تو ملتی ہے لیکن یہ غیرضروری اسراف ہے۔ اگر آپ کے آس پاس کسی نل سے پانی ٹپک رہا ہے تو اس کی مرمت کروانے کا بھی عہد کریں کیونکہ اس قطرہ قطرہ بہنے سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ جو لوگ پینے کے لئے بوتلوں میں بند پانی استعمال بطور فیشن کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ ایک بوتل پانی کی تیاری پر اوسطاً تین بوتل پانی ضائع ہوتا ہے علاؤہ ازیں پلاسٹک کی بوتل کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے ماحول دوست نہیں ہوتے! بوتل والے پانی کی جگہ اُبلا ہوا پانی استعمال کرنے کی عادت اپنائیں جو صحت کے موزون و یکساں محفوظ ہے۔

نئے سال کا تیسرا عہد ’پلاسٹک‘ سے بنی ہوئی اشیاء کے کم سے کم استعمال سے متعلق ہے۔ شاپنگ بیگز‘ چھوٹے بڑے تھیلے یا تھیلیاں‘ بوتلیں‘ ڈبے‘ ریپرز وغیرہ نے آسانیاں تو پیدا کی ہیں لیکن یہ ماحول کے لئے مضر ہے۔ ہر روز ہزار ہا کلوگرام کے حساب سے پلاسٹک کی چیزیں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں مناسب طور پر تلف نہیں کیا جاسکتا اور یوں کچرے کے ڈھیر پہاڑوں کی صورت بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ دریا‘ سمندر‘ جنگل اور شہر کوڑا دانوں جیسا منظر پیش کر رہے ہیں لہٰذا نئے سال میں پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاء کے کم سے کم استعمال اور اس بارے دوسروں کو ترغیب دینے کی کوشش کی جائے۔

نئے سال کا چوتھا عہد ’غیرضروری اشیاء کی خریداری سے اجتناب‘ سے متعلق ہے۔ صرف وہی چیز خریدیں جس کی آپ کی ضرورت ہے اور حسب ضرورت مقدار سے زیادہ خریدنے سے گریز کریں۔ ڈبوں میں بند کھانے یا مشروبات کی بجائے تازہ کھانے جن میں سبزی یا دال شامل ہو کا زیادہ سے زیادہ استعمال صحت و ماحول دونوں کے لئے مفید ہے۔

نئے سال کا پانچواں عہد ’دن کی روشنی کا استعمال‘ ہے جس کے لئے ’آؤٹ ڈور سرگرمیوں (چہل قدمی وغیرہ)‘ کو اپنے معمولات میں شامل کرنے سے جسمانی بیماریوں کے علاؤہ ایندھن کی بچت بھی ہوگی۔ مثال کے طورپر سردی کے بچنے کے لئے کمرے میں ہیٹر ہر وقت لگائے رکھنے کی بجائے گرم کپڑے استعمال کریں۔ سر کو ڈھانپ کر رکھیں تو گیس کے استعمال پر انحصار کم ہوگا۔

ماحول دوستی کے لئے خود سے عہد کرتے ہوئے نئے سال میں کم از کم ایک درخت لگانے کا ارادہ رکھنے والے یہ پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں کہ ماحول دوستی کے بناء چارہ نہیں اور اگر ہم قدرت کے بنائے ہوئے ماحولیاتی تنوع (توازن) سے بے نیاز رہنے کی عادت ترک نہیں کریں گے تو اس میں سراسر نقصان و خسارہ ’اہل زمین‘ کا ہے لہٰذا کرۂ ارض پر رہنے والے ایک ذمہ دار و باشعور انسان کا کردار اَدا کرنے کے لئے خود بھی عملی کوشش کریں اور اپنی اپنی سماجی حیثیت (بطور معلم و مبلغ‘ بطور عالم دین‘ بطور سیاسی کارکن اور سب سے بڑھ کر بحیثیت اشرف المخلوقات) دوسروں کو بھی ماحول دوستی کی طرف راغب کریں۔ ’’شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے! (اَحمد فراز)‘‘