Maulana, please reconsider
تخریب نہیں تعمیر!
بیرونی طاقتیں پاکستان میں انتشار چاہتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کی معاشی ترقی اور اصلاحات کا جاری عمل رک جائے گا جبکہ اِس سے قومی ادارے بشمول پاک فوج کا ادارہ بھی کمزور ہوگا اُور اگر پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو اِس کی وجہ سے متاثر ہونے والوں میں سرفہرست پاک فوج ہی ہوگی‘ جس کی دہشت گردی و انتہاءپسندی کے خلاف جاری کوششیں ڈھکی چھپی نہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں‘ اِن دنوں‘ ہر کوئی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ روزمرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے جس کسی سے بھی بات چیت کا موقع ملتا ہے اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اُور ستائیس اکتوبر سے شروع ہونے والے ’آزادی مارچ‘ کے بارے میں اپنے محتاط یا غیرمحتاط خدشات کا اظہار کرے۔ متوقع ہے کہ ’آزادی مارچ‘ اکتیس اکتوبر کے روز ’اسلام آباد‘ سے ٹکرائے گا۔ ہر جگہ اُور ہر سطح پر ’آزادی مارچ‘ کی دھوم ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستان کے 98فیصد بالغ لوگ اپنے اپنے پیشوں سے وابستہ مزدوری کرنے والے محنت کش ہیں جبکہ باقی 2 فیصد لوگ وہ ہیں جنہیں تشہیر چاہئے یعنی وہ ہر حال اُور بہرصورت خبروں‘ اخبارات اُور ذرائع ابلاغ کی زینت رہنے (خودنمائی) کے شوق (لت) میں مبتلا ہیں!
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’آزادی مارچ‘ کے عنوان سے جو کچھ بھی ہونے جا رہا ہے اُس سے حکومتی امور اُور عوام کے معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ خلل کس قدر پاکستان کے حق میں ہے‘ اِس بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی‘ معاشی و اقتصادی‘ دفاعی اور داخلی صورتحال اُس مقام پر کھڑی ہے‘ جہاں ایسا کوئی بھی خلل‘ ایسا کوئی بھی اقدام ’تعمیر‘ کی بجائے ’تخریب‘ کا باعث بنے گا اُور یقینا سیاسی و مذہبی جماعتوں کا قطعی مقصود نہیں ہوگا کہ وہ حب الوطنوں کی طرح کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کے کسی اقدام‘ فعل یا کلام سے ’پاکستان کا نقصان ہو۔‘
پاکستان میں اِن دنوں کیا ہو رہا ہے‘ آیئے اُن پر ایک نظر کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ وہ ملک میں بجلی و گیس کی فروخت کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر ایسا ہوگیا تو تصور محال ہے کہ اِس کے بعد کیا ہوگا۔ ’2 نومبر‘ کے روز ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس تحریک کی جانب سے نامزد اُمیدواروں نے 2018ءکے عام انتخابات میں مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ ’3 نومبر‘ کے روز ’تبلیغی جماعت‘ سے وابستہ لوگ رائیونڈ اجتماع میں ہونے دعا میں شریک ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ اِس موقع پر 20 لاکھ جمع ہوتے ہیں۔ نومبر ہی کے مہینے میں پاکستان کو لئے ہوئے قرض کی ایک ارب ڈالر قسط ادا کرنی ہے۔ قومی خزانے پر ایسے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے جن کا استعمال غیرترقیاتی کاموں پر ہو رہا ہے یعنی قرض لیکر قومی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اِسی طرح پاکستان میں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اُور ’ایف اے ٹی ایف (FATF)‘ کی تلوار الگ سے لٹک رہی ہے‘ جس سے بچنے کے لئے پاکستان کو صرف چار مہینوں کا وقت دیا گیا ہے۔ اِن سبھی واقعات اُور پہلوو ¿ں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ایسا کوئی بھی عمل ہوتا ہے جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو یہ قطعی طور پر پاکستان کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دور اندیش‘ سیاسی بصیرت سے مالا مال اُور ایک منظم انسان ہیں‘ جنہوں نے جمعیت کو ملک کے تین صوبوں (خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اُور سندھ) میں تنظیم سازی اُور اثرورسوخ کا لوہا منوایا ہے۔ عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کل ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 2 فیصد حاصل کرتی ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) خود کو 2 فیصد نہیں بلکہ ملک کے زیادہ بڑے طبقے کی رائے کی ترجمان قرار دیتی ہے جو یقینا اِس کے قد کاٹھ سے زیادہ بڑا دعویٰ ہے۔
اگر ہم جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کی سیاست کا جائزہ لیں تو 1985ءسے برسراقتدار آنے والے گذشتہ 5 حکومت کے ادوار میں یہ کسی نہ کسی صورت حکومت کا حصہ رہی ہے۔ اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے غیرمعمولی طور پر مالی عطیات دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے اُور یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن اُس کے مخالفین میں پیش پیش تھے۔
مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ’جمعیت علمائے اسلام‘ کا تعلق ’دیوبندی‘ مسلک سے ہے‘ جو اسلامی عقائد میں ’سنی حنفی (اہلسنت والجماعت)‘ نظریہ فکر کے احیاءکی علمی تحریک ہے۔ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مختلف حصوں کی نسبت پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ برطانیہ اُور جنوبی افریقہ میں زیادہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ دیوبندی ہیں۔ ملک کے کل 35 ہزار مدارس میں سے 23 ہزار مدارس کا تعلق دیوبند سے ملنے والی اسلامی فکر و اعمال سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان کے وقت (1947ءمیں) ملک میں مدارس کی کل تعداد 189 تھی۔ فی الوقت پاکستان میں 20لاکھ بچے مدارس میں زیرتعلیم ہیں جن میں سے 13 لاکھ کا تعلق دیوبند سے ہے۔
پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
بیرونی ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں اُور اِس مرحلے پر ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات اُور ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئں۔ مولانا فضل الرحمن سے درخواست کے ساتھ اُمید ہے کہ وہ ’آزادی مارچ‘ کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے اُور ایسی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے‘ جس سے پاکستان کمزور ہو اُور جس میں ملک دشمن داخلی و خارجی طاقتیں اُن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............
تخریب نہیں تعمیر!
بیرونی طاقتیں پاکستان میں انتشار چاہتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کی معاشی ترقی اور اصلاحات کا جاری عمل رک جائے گا جبکہ اِس سے قومی ادارے بشمول پاک فوج کا ادارہ بھی کمزور ہوگا اُور اگر پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو اِس کی وجہ سے متاثر ہونے والوں میں سرفہرست پاک فوج ہی ہوگی‘ جس کی دہشت گردی و انتہاءپسندی کے خلاف جاری کوششیں ڈھکی چھپی نہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں‘ اِن دنوں‘ ہر کوئی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ روزمرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے جس کسی سے بھی بات چیت کا موقع ملتا ہے اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اُور ستائیس اکتوبر سے شروع ہونے والے ’آزادی مارچ‘ کے بارے میں اپنے محتاط یا غیرمحتاط خدشات کا اظہار کرے۔ متوقع ہے کہ ’آزادی مارچ‘ اکتیس اکتوبر کے روز ’اسلام آباد‘ سے ٹکرائے گا۔ ہر جگہ اُور ہر سطح پر ’آزادی مارچ‘ کی دھوم ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستان کے 98فیصد بالغ لوگ اپنے اپنے پیشوں سے وابستہ مزدوری کرنے والے محنت کش ہیں جبکہ باقی 2 فیصد لوگ وہ ہیں جنہیں تشہیر چاہئے یعنی وہ ہر حال اُور بہرصورت خبروں‘ اخبارات اُور ذرائع ابلاغ کی زینت رہنے (خودنمائی) کے شوق (لت) میں مبتلا ہیں!
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’آزادی مارچ‘ کے عنوان سے جو کچھ بھی ہونے جا رہا ہے اُس سے حکومتی امور اُور عوام کے معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ خلل کس قدر پاکستان کے حق میں ہے‘ اِس بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی‘ معاشی و اقتصادی‘ دفاعی اور داخلی صورتحال اُس مقام پر کھڑی ہے‘ جہاں ایسا کوئی بھی خلل‘ ایسا کوئی بھی اقدام ’تعمیر‘ کی بجائے ’تخریب‘ کا باعث بنے گا اُور یقینا سیاسی و مذہبی جماعتوں کا قطعی مقصود نہیں ہوگا کہ وہ حب الوطنوں کی طرح کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کے کسی اقدام‘ فعل یا کلام سے ’پاکستان کا نقصان ہو۔‘
پاکستان میں اِن دنوں کیا ہو رہا ہے‘ آیئے اُن پر ایک نظر کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ وہ ملک میں بجلی و گیس کی فروخت کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر ایسا ہوگیا تو تصور محال ہے کہ اِس کے بعد کیا ہوگا۔ ’2 نومبر‘ کے روز ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس تحریک کی جانب سے نامزد اُمیدواروں نے 2018ءکے عام انتخابات میں مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ ’3 نومبر‘ کے روز ’تبلیغی جماعت‘ سے وابستہ لوگ رائیونڈ اجتماع میں ہونے دعا میں شریک ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ اِس موقع پر 20 لاکھ جمع ہوتے ہیں۔ نومبر ہی کے مہینے میں پاکستان کو لئے ہوئے قرض کی ایک ارب ڈالر قسط ادا کرنی ہے۔ قومی خزانے پر ایسے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے جن کا استعمال غیرترقیاتی کاموں پر ہو رہا ہے یعنی قرض لیکر قومی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اِسی طرح پاکستان میں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اُور ’ایف اے ٹی ایف (FATF)‘ کی تلوار الگ سے لٹک رہی ہے‘ جس سے بچنے کے لئے پاکستان کو صرف چار مہینوں کا وقت دیا گیا ہے۔ اِن سبھی واقعات اُور پہلوو ¿ں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ایسا کوئی بھی عمل ہوتا ہے جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو یہ قطعی طور پر پاکستان کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دور اندیش‘ سیاسی بصیرت سے مالا مال اُور ایک منظم انسان ہیں‘ جنہوں نے جمعیت کو ملک کے تین صوبوں (خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اُور سندھ) میں تنظیم سازی اُور اثرورسوخ کا لوہا منوایا ہے۔ عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کل ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 2 فیصد حاصل کرتی ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) خود کو 2 فیصد نہیں بلکہ ملک کے زیادہ بڑے طبقے کی رائے کی ترجمان قرار دیتی ہے جو یقینا اِس کے قد کاٹھ سے زیادہ بڑا دعویٰ ہے۔
اگر ہم جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کی سیاست کا جائزہ لیں تو 1985ءسے برسراقتدار آنے والے گذشتہ 5 حکومت کے ادوار میں یہ کسی نہ کسی صورت حکومت کا حصہ رہی ہے۔ اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے غیرمعمولی طور پر مالی عطیات دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے اُور یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن اُس کے مخالفین میں پیش پیش تھے۔
مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ’جمعیت علمائے اسلام‘ کا تعلق ’دیوبندی‘ مسلک سے ہے‘ جو اسلامی عقائد میں ’سنی حنفی (اہلسنت والجماعت)‘ نظریہ فکر کے احیاءکی علمی تحریک ہے۔ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مختلف حصوں کی نسبت پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ برطانیہ اُور جنوبی افریقہ میں زیادہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ دیوبندی ہیں۔ ملک کے کل 35 ہزار مدارس میں سے 23 ہزار مدارس کا تعلق دیوبند سے ملنے والی اسلامی فکر و اعمال سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان کے وقت (1947ءمیں) ملک میں مدارس کی کل تعداد 189 تھی۔ فی الوقت پاکستان میں 20لاکھ بچے مدارس میں زیرتعلیم ہیں جن میں سے 13 لاکھ کا تعلق دیوبند سے ہے۔
پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
بیرونی ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں اُور اِس مرحلے پر ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات اُور ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئں۔ مولانا فضل الرحمن سے درخواست کے ساتھ اُمید ہے کہ وہ ’آزادی مارچ‘ کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے اُور ایسی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے‘ جس سے پاکستان کمزور ہو اُور جس میں ملک دشمن داخلی و خارجی طاقتیں اُن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............