Sunday, October 27, 2019

Maulana, please reconsider by Dr. Farrukh Saleem

Maulana, please reconsider
تخریب نہیں تعمیر!

بیرونی طاقتیں پاکستان میں انتشار چاہتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کی معاشی ترقی اور اصلاحات کا جاری عمل رک جائے گا جبکہ اِس سے قومی ادارے بشمول پاک فوج کا ادارہ بھی کمزور ہوگا اُور اگر پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو اِس کی وجہ سے متاثر ہونے والوں میں سرفہرست پاک فوج ہی ہوگی‘ جس کی دہشت گردی و انتہاءپسندی کے خلاف جاری کوششیں ڈھکی چھپی نہیں۔

پاکستان کے طول و عرض میں‘ اِن دنوں‘ ہر کوئی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ روزمرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے جس کسی سے بھی بات چیت کا موقع ملتا ہے اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اُور ستائیس اکتوبر سے شروع ہونے والے ’آزادی مارچ‘ کے بارے میں اپنے محتاط یا غیرمحتاط خدشات کا اظہار کرے۔ متوقع ہے کہ ’آزادی مارچ‘ اکتیس اکتوبر کے روز ’اسلام آباد‘ سے ٹکرائے گا۔ ہر جگہ اُور ہر سطح پر ’آزادی مارچ‘ کی دھوم ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستان کے 98فیصد بالغ لوگ اپنے اپنے پیشوں سے وابستہ مزدوری کرنے والے محنت کش ہیں جبکہ باقی 2 فیصد لوگ وہ ہیں جنہیں تشہیر چاہئے یعنی وہ ہر حال اُور بہرصورت خبروں‘ اخبارات اُور ذرائع ابلاغ کی زینت رہنے (خودنمائی) کے شوق (لت) میں مبتلا ہیں!

صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’آزادی مارچ‘ کے عنوان سے جو کچھ بھی ہونے جا رہا ہے اُس سے حکومتی امور اُور عوام کے معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ خلل کس قدر پاکستان کے حق میں ہے‘ اِس بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے اُور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی‘ معاشی و اقتصادی‘ دفاعی اور داخلی صورتحال اُس مقام پر کھڑی ہے‘ جہاں ایسا کوئی بھی خلل‘ ایسا کوئی بھی اقدام ’تعمیر‘ کی بجائے ’تخریب‘ کا باعث بنے گا اُور یقینا سیاسی و مذہبی جماعتوں کا قطعی مقصود نہیں ہوگا کہ وہ حب الوطنوں کی طرح کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کے کسی اقدام‘ فعل یا کلام سے ’پاکستان کا نقصان ہو۔‘

پاکستان میں اِن دنوں کیا ہو رہا ہے‘ آیئے اُن پر ایک نظر کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ وہ ملک میں بجلی و گیس کی فروخت کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر ایسا ہوگیا تو تصور محال ہے کہ اِس کے بعد کیا ہوگا۔ ’2 نومبر‘ کے روز ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس تحریک کی جانب سے نامزد اُمیدواروں نے 2018ءکے عام انتخابات میں مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ ’3 نومبر‘ کے روز ’تبلیغی جماعت‘ سے وابستہ لوگ رائیونڈ اجتماع میں ہونے دعا میں شریک ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ اِس موقع پر 20 لاکھ جمع ہوتے ہیں۔ نومبر ہی کے مہینے میں پاکستان کو لئے ہوئے قرض کی ایک ارب ڈالر قسط ادا کرنی ہے۔ قومی خزانے پر ایسے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے جن کا استعمال غیرترقیاتی کاموں پر ہو رہا ہے یعنی قرض لیکر قومی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اِسی طرح پاکستان میں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اُور ’ایف اے ٹی ایف (FATF)‘ کی تلوار الگ سے لٹک رہی ہے‘ جس سے بچنے کے لئے پاکستان کو صرف چار مہینوں کا وقت دیا گیا ہے۔ اِن سبھی واقعات اُور پہلوو ¿ں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ایسا کوئی بھی عمل ہوتا ہے جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو یہ قطعی طور پر پاکستان کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دور اندیش‘ سیاسی بصیرت سے مالا مال اُور ایک منظم انسان ہیں‘ جنہوں نے جمعیت کو ملک کے تین صوبوں (خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اُور سندھ) میں تنظیم سازی اُور اثرورسوخ کا لوہا منوایا ہے۔ عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کل ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 2 فیصد حاصل کرتی ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) خود کو 2 فیصد نہیں بلکہ ملک کے زیادہ بڑے طبقے کی رائے کی ترجمان قرار دیتی ہے جو یقینا اِس کے قد کاٹھ سے زیادہ بڑا دعویٰ ہے۔

اگر ہم جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کی سیاست کا جائزہ لیں تو 1985ءسے برسراقتدار آنے والے گذشتہ 5 حکومت کے ادوار میں یہ کسی نہ کسی صورت حکومت کا حصہ رہی ہے۔ اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے غیرمعمولی طور پر مالی عطیات دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے اُور یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن اُس کے مخالفین میں پیش پیش تھے۔

مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ’جمعیت علمائے اسلام‘ کا تعلق ’دیوبندی‘ مسلک سے ہے‘ جو اسلامی عقائد میں ’سنی حنفی (اہلسنت والجماعت)‘ نظریہ فکر کے احیاءکی علمی تحریک ہے۔ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مختلف حصوں کی نسبت پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ برطانیہ اُور جنوبی افریقہ میں زیادہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ دیوبندی ہیں۔ ملک کے کل 35 ہزار مدارس میں سے 23 ہزار مدارس کا تعلق دیوبند سے ملنے والی اسلامی فکر و اعمال سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان کے وقت (1947ءمیں) ملک میں مدارس کی کل تعداد 189 تھی۔ فی الوقت پاکستان میں 20لاکھ بچے مدارس میں زیرتعلیم ہیں جن میں سے 13 لاکھ کا تعلق دیوبند سے ہے۔

پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
بیرونی ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں اُور اِس مرحلے پر ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات اُور ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئں۔ مولانا فضل الرحمن سے درخواست کے ساتھ اُمید ہے کہ وہ ’آزادی مارچ‘ کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے اُور ایسی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے‘ جس سے پاکستان کمزور ہو اُور جس میں ملک دشمن داخلی و خارجی طاقتیں اُن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............

Sunday, October 6, 2019

TRANSLATION: The happy mind by Dr Farrukh Saleem

The happy mind
مسرت و اطمینان !
انسانی ذہن میں سمجھ بوجھ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھنے اُور سمجھانے والے معروف مصنف ’کیوین ہارسلے (Kevin Horsley)‘ کی ایک اُور مصنف سے مشترک تحریر کردہ کتاب ’دی ہیپی مائنڈ (The happy mind)‘ لائق مطالعہ ہے‘ جس کے مطالعے سے کم سے کم چار باتیں سیکھی جا سکتی ہیں۔ پہلی بات: خوشی اُور لذت دو الگ الگ جذباتی رجحانات ہیں۔ دوسری بات: ضروری نہیں کہ خوشی کا تعلق ہمیشہ بیرونی محرکات پر ہی ہو بلکہ یہ داخلی طور پر بھی اطمینان سے حاصل ہو سکتی ہے۔ تیسری بات: خوشی کا تعلق ہمارے حال سے مستقبل سے نہیں۔ پرآسائش مصنوعات بنانے والے اِس مغالطے کی تشہیر کرتے ہیں کہ اگر صارف اُن کی تیارکردہ اشیاءاستعمال کریں تو اُن کی آنے والی زندگی میں خوشیاں بھر جائیں گی۔ چوتھی بات: خوشی دوسروں سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے اندر موجود نہ ہو۔

زندگی میں اطمینان نہ تو مال و زر سے حاصل ہو سکتا ہے اُور نہ ہی اشیاءکی بھرمار سے۔ عمومی غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ خوشی کو متفرق اَشیاءجیسا کہ گاڑی یا کسی پسندیدہ مقام کے سفر یا کسی ذاتی کارکردگی سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ اِن کے ذریعے اطمینان و مسرت حاصل ہوگی۔ مصنف لکھتے ہیں اشیاءمثلاً گاڑیوں‘ آلات اُور دیگر ایسی تمام چیزیں کہ جنہیں خریدا جا سکے وہ ہمیں وقتی طور پر مسرت (خوشی کا جزوی احساس) دلاتی ہیں اُور یہیں سے غلطی کی ابتدا ¿ ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اطمینان پانے کے لئے بیرونی ذرائع کی جانب زیادہ توجہ مبذول کرتے ہیں جبکہ اُن داخلی محرکات کو فراموش کر دیتے ہیں‘ جن سے حاصل ہونے والا اطمینان اُور خوشی ہی حقیقی اُور دائمی ہوتی ہیں۔

سوال: اطمینان و مسرت کی تلاش کہاں کی جائے؟
جواب: انسانی زندگی کو نت نئے تجربات کے ذریعے جس اطمینان و مسرت کی تلاش رہتی ہے اُس کا تعلق صرف اُور صرف ہمارے ’حال (Present)‘ سے ہے لیکن غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم اِسے ماضی (Past) یا مستقبل (Future) میں تلاش کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں‘ وسائل اُور وقت سے سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے حال (Present) پر توجہ نہیں دیتے جو زیادہ اہم (ضروری) ہے۔ ایک خوشحال زندگی کی ضامن سوچ گزشتہ کل یا آنے والے کل سے نہیں بلکہ آج سے متعلق ہوتی ہے اُور آج ہی پر مبنی ہونی چاہئے۔

خوشی (Happiness) و مسرت (pleasure) الگ الگ محسوسات ہیں اُور یہ ایک ہی چیز کے دو نام نہیں۔ مسرت کا تعلق ہمارے احساسات سے ہے جبکہ خوشی ایک حالت ہے۔ مسرت وقتی اور مختصر ہوتی ہے۔ خوشی طویل العمیادی ہوتی ہے۔ مسرت کا تعلق جذبات سے ہے۔ خوشی کا تعلق داخلی اطمینان (inner-peace) سے ہے۔ اطمینان حواص خمسہ کی سرگرمی سے حاصل ہوتی ہے۔ خوشی داخلی اطمینان کا نتیجہ ہے۔ مسرت کسی بیرونی ذریعے سے حاصل کی جا سکتی ہے لیکن خوشی کے لئے ایسا ممکن نہیں جب تک کہ یہ ہمارے اندر سے ظہور نہ کرے۔

مصنف کیوین ہارسلے نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں خوشی (اطمینان) اور مسرت میں تمیز کرنی چاہئے اُور اِن دونوں کے درمیان میں فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں (سرگرمیوں) کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ حقیقی خوشی اور حقیقی مسرت سے لطف اندوز اور مستفید ہوسکیں۔

انسانی زندگی خیالات اُور اعمال کا مجموعہ ہوتی ہے جو ہنوز سربستہ راز ہے۔ گذشتہ پچاس برس سے معروف ماہر نفسیات و ذہنی صحت سے متعلق طبی علوم کے ماہر (neuro-scientist) رچرڈ ڈیوڈسن (Richard Davidson) کا ماننا ہے کہ ”خوشی کا تعلق اردگرد پھیلی‘ متعلقہ و غیرمتعلقہ اشیاءکے انباروں سے نہیں بلکہ داخلی طور پر اِس اطمینان سے ہے جس پر قناعت کا عنصر غالب ہو۔“

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنی حالت میں محدود اُور کم مالی و مادی وسائل رکھنے کے باوجود بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ قدرت کی خوبصورتیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیوں میں کھلتے ہوئے پھول اور طلوع و غروب ہوتا سورج خوشیاں بھر دیتا ہے۔ وہ اپنی صحت اور تندرستی کو لیکر شکرگزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زندگی کی مشکلات کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیتے بلکہ حالات کا مثبت سوچ سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو معاف کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ وہ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اُنہیں دوسروں کی خوشیوں میں اپنی خوشیاں پنہاں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ مل جل کر رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کو سادگی سے بھر دیتے ہیں۔ اپنی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں اُور جو کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے اُسے ہی کافی سمجھتے ہیں۔

انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کتنا خوش (مکمل) اُور کتنا مشکل (نامکمل) سمجھے کیونکہ خوشی و مسرت یعنی زندگی کے اطمینان کا تعلق بیرونی ذرائع سے نہیں بلکہ داخلی حالت سے ہے۔ کسی عاقل کا قول ہے کہ میں کبھی بھی اِس بات میں دو رائے کا شکار نہیں ہوا کہ بہتر کارکردگی اُور بہتر نتائج جیسے دونوں امور میری ذمہ داری ہیں۔ سوچ سمجھ کر امور زندگی کی انجام دہی (excellence) اختیار کرنا میرا کام ہے جبکہ اِس کی تکمیل و نتائج (perfection) کا انحصار خالق کائنات کے ہاتھ میں ہے (جو عمل کی سزا و جزا کو نیت سے بدل دیتا ہے۔) 

.... (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Friday, October 4, 2019

CENSORED: PHC verdict in School Case!

۔۔۔ ناقابل اشاعت قرار دے دیا گیا ۔۔
ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
خواب بیچ دے!

خیبرپختونخوا میں نجی تعلیمی اِداروں کی ’ٹیوشن فیسوں‘ میں اِضافہ زیربحث تھا کہ اِس موضوع میں ’سہ ماہی تعطیلات‘ کی فیس وصولی کا تنازعہ بھی شامل ہو گیا۔ تشویش کا شکار چند والدین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا‘ جہاں مقدمہ قائم کرتے ہوئے اِسے ایک بنیادی سوال کی حد تک محدود کر دیا گیا کہ ”کیا نجی سکول تعطیلات کی فیس اُور اِن تعطیلات کے عرصے میں طلباءو طالبات سے آمدورفت کے اخراجات وصول کرنے کے مجاز ہیں یا نہیں؟“ حالانکہ معاملہ کثیرالجہتی تھا اُور اِس کا مختلف پہلوو ¿ں سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ بہرحال (دو اکتوبر دوہزار اُنیس کے روز) عدالت کی جانب سے بائیس صفحات کا مشتمل فیصلہ سامنے آیا‘ جسے تفصیلی کہا گیا اُور اگر اِس کا لب لباب پیش کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ
1
والدین متعلقہ حکومتی محکمے سے رجوع کریں
2
 متعلقہ حکومتی محکمہ ’خیبرپختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی (KPPSRA)‘ پابند ہو گا کہ وہ آئندہ (2 نومبر 2019ء) سے قبل یعنی 2 ماہ کے عرصے میں والدین کے ساتھ مشاورت کر کے اِس مسئلے کا حل تلاش کرے۔

3
 نجی تعلیمی ادارے والدین سے وہ تمام بقایا جات یکمشت وصول نہیں کریں گے بلکہ پچیس پچیس فیصد کے تناسب سے چار اقساط میں وصول کئے جائیں گے‘ جو عدالت سے ’حکم امتناعی (اِسٹے آرڈر) کی وجہ سے والدین اَدا نہیں کر رہے تھے۔

4
ریگولیٹری اتھارٹی والدین کے نمائندوں پر مشتمل ’فیس کمیٹی‘ بنائے گی جو نہ صرف تعلیم بلکہ نجی سکولوں کے اُن ضمنی اخراجات کا بھی تعین کرے گی‘ جو (بڑھا چڑھا کر) والدین کو منتقل کر دیئے جاتے ہیں اُور

5
مذکورہ فیس کمیٹی اُور نجی سکولوں کا نگران صوبائی محکمہ اَساتذہ کے لئے مراعات و سہولیات کا تعین بھی کرے گا۔

’پشاور ہائی کورٹ‘ کے جاری ہونے والا فیصلے پر تینوں فریقین (نجی سکول‘ حکومتی محکمہ اُور والدین) اپنی اپنی جگہ

 خوشیاں منا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس سے نہ تو مسئلہ حل ہوا ہے اُور نہ ہی اِس کا پائیدار حل ہونے کی اُمید ہی پیدا ہوئی ہے۔ اگر صوبائی حکومت کا متعلقہ محکمہ خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا اُور وہ نجی سکولوں کی بجائے صارفین یعنی والدین کے مفادات کا محافظ ہوتا (جو کہ اُسے ہونا چاہئے) تو والدین کو اپنا کام کاج چھوڑ کر اُور اپنے مالی وسائل خرچ کر کے عدالت عالیہ سے رجوع کرنے (یعنی کورٹ کچہری کے دھکے کھانے) کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ اِس پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ بے بس‘ متاثرہ اُور مظلوم فریق ’والدین‘ ہیں‘ جنہوں نے انصاف کے لئے صرف عدالت ہی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ سازوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے ہیں اُور ہر طرف سے سوائے دھتکار کچھ حاصل نہیں ہوا۔ البتہ فرق یہ تھا کہ کسی نے دھتکار مہذب انداز میں دی اُور کسی کا لب و لہجہ غیرشائستہ تھا!

والدین کے پاس اب لے دے کر .... یہی آپشن بچا ہے کہ وہ نجی سکولوں کی خواہش و مطالبہ (جائز و ناجائز) کے مطابق فیسیں و دیگر اخراجات اَدا کریں اُور اُس روز قیامت کا انتظار کریں جب عدالت قائم ہو گئی اُور پوچھا جائے گا کہ تعلیم کی فراہمی جیسی آئینی ذمہ داری سے حکمرانوں کو خود کو کیسے بری الذمہ قرار دیا تھا اُور تعلیم جیسی جنس کو کاروباری طبقات کے حوالے کرنے والے فیصلہ سازوں نے اپنے کاروباری و ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے والدین کا اِستحصال کیا۔ بااثر نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے اگر والدین خود کو بے بس سمجھ رہے ہیں تو اِس کے لئے بھی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں‘ جو عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت اُن مسائل و مشکلات کو موضوع نہیں بناتے‘ جس پر بعدازاں عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں!



عدالتیں آئین ساز اُور قواعد ساز نہیں ہوتیں۔ وہ تو فیصلوں کو آئینی دستاویزات اور فیصلوں کی روشنی میں لکھنے کی پابند ہے اُور زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتی ہے‘ جو اِس نے کیا ہے!



والدین عجیب مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اب وہ یہ بھی نہیں کرسکتے کہ اپنے بچوں کو بطور احتجاج نجی سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروا دیں کیونکہ ایک تو سرکاری سکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو داخل کرنے کی صلاحیت (گنجائش) موجود نہیں۔ دوسرا سرکاری سکولوں کی تعداد اُور وہاں حسب طلبہ تعینات اساتذہ کی تعداد پہلے ہی ضرورت سے کم ہے۔ تیسرا سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم اُور ماحول ایسا نہیں کہ اچھے مستقبل کی اُمید میں سرمایہ کاری کرنے والے اپنی آنکھوں کے خواب بیچ ڈالیں۔ وہ اپنے آپ کو تو بیچ دیں گے لیکن شاید تعلیم چاہے وہ کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہو جائے‘ لیکن اِس میں سرمایہ کاری ضرور کریں گے کیونکہ یہ آج نہیں مستقبل کا معاملہ ہے!



نجی تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری دفاتر۔ کاروبار ہوں یا سہولیات و خدمات کی فراہمی کے مراکز‘ ہر سطح پر ذمہ داروں (ملازمین اُور معاونین) ’مافیا‘ کی صورت اپنے مفادات کے لئے اُس ایک صارف کے خلاف متحد ہیں‘ جسے عرف عام میں ’عوام‘ کہہ کر دیکھا اُور سمجھا جاتا ہے۔ یہ عوام نہ تو خواص (حکمرانوں‘ اسٹیبلشمنٹ اُور افسرشاہی) کا مقابلہ کرنے کی مالی و سیاسی سکت رکھتے ہیں اُور نہ ہی اِن کے آپسی روابط اُور اتحاد ہی ممکن ہو پایا ہے کہ یہ اپنے جائز (درست) موقف کو کسی بھی فورم پر بذریعہ احتجاج و طاقت منوا سکیں۔ جب بات تعلیم (درس و تدریس) کی آتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ایک عام آدمی (ہم عوام) ماضی کے مقابلے آج خود کو زیادہ بے بس محسوس کر رہا ہے۔



اُمید تھی کہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ اِن جیسے جملہ ضمنی پہلوو ¿ں کا اَزخود نوٹس لے گی‘ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے معروف اُور مہنگے ترین وکلاء(قانونی ماہرین)‘ کی خدمات حاصل کرکے مقدمہ تو جیت لیا ہے‘ جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ عدالت نے جن 9 مقدمات کو بیک وقت لپیٹ کر جس فریق سے اپنے تیئں انصاف کیا ہے اُس کی زبان نہیں بلکہ چہروں کے تاثرات بول رہے ہیں! والدین مجبور ہیں‘ جن کی مجبوری زیرغور نہیں۔ اِسی مجبوری کے بارے میں 57 کتابوں کے مصنف‘ رومانین نژاد اَمریکی مفکر‘ پروفیسر ایلی وایسل (Elie Wiesel) نے کہا تھا کہ ”غیرجانبداری فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اُور اِس کے ذریعے بسا اُوقات کسی متاثرہ شخص کی مدد بھی ممکن ہوتی ہے لیکن غیرجانبداری سے اُس ایک فریق کی مدد ممکن نہیں‘ جس پر ’ظلم‘ ہوا ہو۔ جانبدار (خاموش) رہنے سے ظالم کو حوصلہ ملتا ہے جبکہ اِس عمل سے مظلوم کی ہمت جواب دے جاتی ہے!“

............